۳۰؍ ویں قسط: حذ یفہ مو لانا غلا م محمد صاحب وستا نویؔ
نظریہ برائے کائنات
معرفی ووجودی :
کائنات کیا ہے ؟ یہ کیسے وجود میں آئی ؟ کیوں وجود میں آئی ؟ اور کب تک موجود رہے گی ؟ یہ وہ چار سوالات ہیں جو بنیادی ہیں ۔ نسلِ انسانی ابتدائے آفرینش سے انہیںچارسوالات کے گرد گھوم رہی ہے ۔انسانی حیات میں عقل وفہم ،غور وفکر اور علم وفن کی ابتداانہیں سوالات سے ہوئی۔اوریہی وہ سوالات ہیںجواس کی حیات کے ہرحصے کوگھیرے ہوئے ہیں۔اوراِنہیںسوالات میں وہ ابدتک الجھارہے گا۔
کائنات پر غور وفکر کے دو انداز:
اِ ن چاروںسوالات پرغورکرنے کامقام’’دماغ‘‘ہے ۔انسانی دماغ عقل کامحمل اورحواس کاجامع ہے،عقل اورحواس سے یہیں شعورووجدان،ادراک اورپھرعلم کامقام حاصل کرتا ہے ؛چناںچہ یہی علم کاظرف ہے ۔ علم لدنی یاوحی کامہبط ،مدرک اورظرف قلب ہے ۔انسانی تاریخ میں غوروفکرکی تاریخ صرف دوقسم کے اشخاص پر مشتمل رہی ہے ۔پہلی قسم:ان اشخا ص کی ہے ،جوعقل اورحواس سے ماخوذعلم کوبروئے کارلاکراُن سوالات پر غوروخوض کرتے ہیںاورکسی نتیجہ تک پہنچتے ہیں۔دوسری قسم:ان اشخاص کی ہے ،جوعقل اورحواس سے ماخوذعلم کے ساتھ ساتھ اس علم سے بھی استفادہ کرتے ہوئے ،جووحی کہلاتاہے ان سوالات پرغوروخوض کرتے ہیں اورکسی نتیجہ تک پہنچتے ہیں۔پہلاطبقہ عقل اورحواس کے سواکسی مبلغِ علم کے وجودکاقائل نہیں؛لہٰذاوہ انہیںکوغوروفکراورنتیجہ برآمد کرنے کے لیے کافی سمجھتاہے ۔دوسری قسم کے اشخاص عقل اورحواس کے سوابھی ایک مبلغِ علم کے وجودکے قائل ہیں؛چناںچہ وہ ان دونوںپراکتفانہ کرتے ہوئے اِس تیسرے ذریعہ کابھی استعمال کرتے ہیں۔
دہر یہ اور غیر دہریہ طبقات:
اس باب میں پہلے طبقے کانام ’’دہری ‘‘اوردوسرے طبقے کانام غیر’’دہری‘‘ رکھاگیاہے ۔دہری طبقے کے قابل ذکرذیلی طبقات ہیں:
(۱)فلاسفہ(۲)مذاہب دہری(۳)مغربی نیچرل سائنس؛ جسے آسانی کے لیے مغربی سائنس یا صرف سائنس کہاجائے گا(۴)مذہبی فلاسفہ(۵)سائنسی فلاسفہ(۶)فلسفیانہ تاریخی ومعاشرتی فلاسفہ(۷)مذہبی تاریخی ومعاشرتی فلاسفہ اور(۸)سائنسی تاریخی ومعاشرتی فلاسفہ۔ظاہرہے کہ ۴؍تا۸؍کی اصل دراصل ۱؍تا۳؍ ہیں۔
غیردہری طبقے کے قابل ذکرذیلی طبقات یہ ہیں:
(۱)یہودیت(۲)عیسائیت اور(۳)اسلام
مذکورہ بالادونوںہی طبقات ان چاروں سوالات پرغوروفکرکرکے کسی نتیجہ تک پہنچتے رہے ہیں؛لیکن قابل ذکربات یہ ہے کہ ان دونوںکے زاد(Inputs)ظاہراً ایک جیسے ہی معلوم ہوتے ہوئے بھی بالکل مختلف ہیں ۔ دونوں ہی علم(Knowledge)کااستعمال کرتے ہیں؛لیکن دونوںطبقات کے علم المعرفۃ (Epistemology)اورعلم الوجود(Ontology)بالکل ایک دوسرے سے متغائرہیں۔
علم کیاہے؟اگرکہاجائے :معرفۃ الشئی بحقیقتۃ(مادۂ علم:المفردات فی غریب القرآن :ابوالقاسم راغب اصفہانی)توکئی سوالات پیداہوتے ہیں۔(۱) معرفت کیاہے؟(۲) شئی کیاہے ؟اور(۳) حقیقت کیاہے؟ اورمعرفت ،شئی اورحقیقت…وہ نہیں جومعلوم ہوتی ہے ،بل کہ وہ جو’’ہے ‘‘۔
علم کی حقیقت : علم کیاہے ؟یہ ایک بڑاسوال ہے ۔علم کی حقیقت کاسوال خودعلم سے ہوتاہے ۔یعنی علم سے علم کے لیے (At Knowledge about Knowledge)۔چناںچہ مجردمعنی میںاِس کاداخلی تضادہمیشہ برقرار رہتاہے،جسے ثابت کرنے کی ناکام کوشش ہوتی رہی ہے ۔
علم وحی اصل علم ہے : ان سوالات پرغوروفکرکرتے ہوئے طبقے کا’’زاد‘‘(Inputs) وہ علم ہوتاہے، جوحواس سے حاصل ہوتا ہے اورعقل جس پرمؤثرہوتی ہے ؛چناںچہ معرفی (Epistemological) اور وجودی (Ontology) محصول(Output)وہ علم بھی ہوتاہے ،جوحواس سے ماوراء وحی کی شکل میں دست یاب ہوتاہے اوریہی علم اصلاً مؤثر ہوتاہے ،جومحصول کی توجیہ ،تعیین اورتحدیدکاباعث ہوتاہے؛چناںچہ یہاں محصول(Output)حقیقت ہوتاہے ۔وہ حقیقت جو’’ہے ‘‘۔
عقل اور فطرت: بلاشبہ انسانی عقل کی ایک کیفیت ہے ،جواُس کی اصل ہے ۔اوراسی کانام’’ فطرۃ ‘‘ہے۔جسے تقریبِ فہم کے لیے(Intellectual Virtue) بھی کہاجاسکتاہے ۔اسی فطرۃ سے عقل میں سلیمیت رہتی ہے تاوقتیکہ اس فطرۃ کومسخ نہ کردیاجائے ،جس کے مسخ ہوتے ہی عقل کی سلیمیت مجروح ہوجاتی ہے ؛یہی فطرۃ ہے جواس درست ’’محصول‘‘(Output)تک لے جانے میںمعاون ہوتی ہے ؛اسی فطرۃ کاذکرکرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے{فطرۃ اللہ التی فطرالناس علیہا}(الروم:۳۰)
یہ فطرۃ علم لدنی کی وہ شکل ہے ،جوطبعِ انسانی میںمخزون(Stored) ہوتی ہے ۔درحقیقت اس کادائرہ صرف انسان تک محدودنہیںہے ،بل کہ کائنات کی ہرچیزمیںمخزون ہے ۔چناںچہ قرآن میںارشادہواہے: {انی وجہت وجہی للذی فطرالسمٰوات والارض}
ترجمہ:’’ میںنے اپنارخ پھیرلیاہے اس ذات کی طرف ،جس نے آسمانوںاورزمین کوپیداکیا‘‘۔ (اسے دوران تخلیق عطاکردہ وحی سے بھی تعبیرکیاجاسکتاہے،جومخلوق کودی جاتی ہے۔)چناںچہ جس انسان کی فطرۃ مسخ نہیںہوتی اس کی عقل سلیمیت پرقائم رہتی ہے اوروہ بہ آسانی حق کی تمیزکرسکتاہے ۔جس کی عقل سلیمیت سے متصف نہیں رہ پاتی، اس لیے کہ کسی سبب سے اس کی فطرت مسخ ہوچکی ہوتی ہے ،اسے حق کی تمیزکرنے میںیاتوتاخیر ہوتی ہے یااس میںوہ قطعاً ناکام ہوتاہے ۔
معرفی ووجودی مغائرت:
عرض کیاجارہاتھاکہ دونوںطبقات کے علم المعرفۃ (Epistemology)اورعلم الوجود (Ontology)ایک دوسرے سے بالکل ہی متغائر ہوتے ہیں،جودونوںکودوالگ رخ اورسطح پرلے جاتے ہیں؛چناںچہ دونوںبالکل ابتداسے ہی الگ ہوجاتے ہیں۔حتی کہ وہ قاعدے ہی الگ الگ ہوجاتے ہیں،جہاں سے دونوں آفاق وانفس کودیکھتے ہیں۔اس بات کی وضاحت کے لیے صرف تین امورکاذکرکافی ہوگا۔اوروہ تین امور یہ ہیں:
(۱)خیال(Idea)(۲)مفہوم(Concept)اور(۳)تجربہ(Exprience)یہ تینوںہی امورعلم (Knowledge)کے لیے ضروری ہیں۔
(۱) خیال (Idea):
(۱)خیال(Idea)کامفہوم ہے:کوئی چیزجیسی نظرآتی ہے وجہ(Appearnce)شکل(Form) صفت(Character)۔افلاطون نے اسے جوہر(Essence)کے تین الگ الگ معنوںمیںاستعمال کیا ہے۔یہ جواہرناقابل تبدیل اورناقابل گرفت ہیںاورصرف روحانی نظر(Spiritual Insight)سے پائے جاسکتے ہیں۔جب کہ مغربی مابعدالطبعیات (Western Metaphysics)کی پوری بنیادہی اس کے خلاف ہے؛ چناںچہ قاعدے کافرق پورے خیال کافرق بن جاتاہے ۔افلاطون کے نزدیک خیال نظری طور پر (Intuition)سے جاناجاسکتاہے توآگسٹائن کے نزدیک اضاء ت (IIIumination)سے توارسطوکے نزدیک تجرید(Abstraction)سے اورکانٹ کے نزدیک تشکیل(Construction)سے بلاشبہ یہ جانناآزادانہ قبولیت اوراختیارکے مکمل عمل کے ساتھ ہوتاہے ۔
(۲)مفہوم(Concept): ’’مفہوم‘‘کسی شئے (کوئی چیزیاچیزوںکی حالت) کی عام طریقے سے نمائندگی ہے۔یہ عام حالت کی ابہام یااخفاکے سبب نہیںہوتی جیسی کسی شعوری نمائندگی میں’’عام‘‘کی ہوتی ہے ۔ یہ عقل کی تجریدکے سبب ہوتی ہے ۔اس طرح مفہوم شعوری ادراک(Sensible Intuition) سمجھ اور خالص عقلی ادراک کے درمیان ایستادہ ہوتاہے ۔کلام میں اس کی علامت ’’لفظ‘‘ہے ۔ہرچندکہ مفہوم کسی حقیقت کی تصدیق نہیںکرتامفروضہ یافیصلہ کی طرح ،لیکن اس کامعروض محض نمائندگی نہیںہوتا بل کہ اس میںموجودہوتا ہے ۔
لیکن اس مفہوم کے ادراک اوراظہارمیںکتنافرق واقع ہوسکتاہے اس کے لیے(Nominal Philosophy)اور(Transcendental Philosophy)میںواقع ہوجانے والے مفاہیم کی مثال دی جاسکتی ہے ۔
(۳)تجربہ(Exprience): وہ تجربہ علم کاایک ذریعہ یاخصوصی شکل تسلیم کیاجاتاہے جوکسی شئی کے راست اتخاذ(Reception)یاتاثرسے حاصل ہوتاہے ۔جونہ منطقی خیال ہوتاہے نہ محض مفہوم،نہ ہی با اختیارانہ طورپرقبول کردہ فتویٰ نہ تاریخی روایت۔جب تجربہ اپنے کوپیش کرتاہے تویہ سمجھاجاتاہے کہ یہ ایک خاص قسم کی اعلیٰ قابلیت ہے، جس کے ثبوت ناقابل ردہیں۔چناںچہ انسانی علم اورتجربہ تقریباً یکساں ہوتے ہیں۔
لیکن دیکھاجائے تویہی تجربہ ارسطواورقیاسی فلسفے(Transcendental Philosophy) میںکتنے مختلف نتائج برآمدکرتاہے ۔ارسطوکے یہاں تجربہ کسی انفرادی شئی کی موجودگی سے براہ راست متعلق ہے اوریہ تجربہ علم یافن کے برابرہے ۔اس کے برخلاف کانٹ تجربے کے قوامی عناصر(Constitutive Elements)کوملحوظ رکھتاہے جوعام تجربے پرمستزادہے ۔عناصر ہمارے تجرباتی علم (Empirical Knowledge) میںداخل ہوجاتے ہیں۔چناںچہ تجربہ صرف ایک متعین ماقبل معلوم اصول(a priori principle)سے ہی ممکن ہے ۔
تعریفات کائنات:
چناںچہ ہرچندکہ یہ دونوںبڑے طبقات انہیںچارسوالوںپرغوروفکرکرتے رہتے ہیں،لیکن علم کافرق معلوم کے فرق میں بدل جاتاہے ۔اس مقام پریہ بحث کیے بغیرکہ ان دونوںطبقات میںصحیح کون ہے یہ دیکھاجائے کہ اس فرق سے کیافرق واقع ہوتاہے ۔
کائنات پر غورو فکر کے قاعدے دہریوں اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان جدا جدا ہیں :
کائنات اوراس کے متعلق چاروں سوالات پربحث سے قبل ضروری ہے کہ کائنات کی تعریف کی جائے۔اب جب ہم اس تعریف کے تعلق سے ان دونوںطبقات کاجائزہ لیتے ہیںتوبالکل آغازہی میںغوروفکرکے قاعدے جداہوجاتے ہیں۔