۳۲؍ ویں قسط :
مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانویؔ
تعددی مکتب فکر کا نظریہ:
ماقبل سقراطی دور کے چوتھے گروہ تعددی مکتب ِخیال (The Pluralists ) میں ایمپی ڈوکلس (Empedocles ) نے پرمینائڈس (Permanides ) کی طرح وجود (Being ) کو دوامی اور پیداواری مانا ،لیکن اس نے اشیا کے تعامل کو بھی جگہ دی ؛چناںچہ اس نے کہا کہ آگ ، ہوا، زمین اور پانی دو طبعی قوتوں کے ساتھ عمل کرتے ہیں ۔ یہ دو طبعی قوتیں ہیں محبت اورنفرت؛چنا ں چہ اس کے نزدیک کائنات ایک دائروی عمل ہے ۔ اسی طبقے میں انیکساغور ث(Anaxagoras ) کا شمار ہوتا ہے ۔ اس نے ایمپی ڈوکلس کے ابتدائی عناصر کی پیداواری پر تو اتفاق کیا، لیکن اس کے نزدیک یہ عناصر چار سے زیادہ ہونے چاہیے؛ چناںچہ اس نے مانا کہ یہ بے شمار بیج ہیں ۔ اس نے اس میں ایک اہم شئی کا اضافہ کیا اوروہ ہے عقل ، دماغ، لیکن اس کے نزدیک (Nous ) مادہ ہے روح نہیں ۔
جوہری مکتبِ فکر کا نظریہ :
اسی عہد کے دوسرے گروہ جو ؛جوہری مکتب خیال (The Atomists )کہلاتا ہے نے اس پر کے اعتبار سے غور کیا ۔ اس کا خیال تھا کہ کائنات ہے ۔یعنی ناقابل تجزیٰ۔
سقراطی دور کے مکتب فکر سو فسطیوں کا نظریہ:
سقراطی دورمیںپہلامکتب خیال سوفسطیوں(The Sophists) کاہے۔ انھوںنے وجودکے بجائے علمِ اصل پربحث کی؛چناںچہ ان کے نزدیک اشیاء متضادوجود ہی اصل ہے ۔یہی علم اصل کی دنیاہے ۔
گورگیاس مکتبِ فکر کا نظریہ:
ان سے الگ لیون ٹینی کے گورگیاس(Gorgias Of Leontini)نے تین نتائج برآمدکیے ۔ اول:کچھ موجودنہیں۔دوم:اگرکچھ موجودبھی ہے تووہ معلوم نہیں۔سوم:اگرمعلوم ہوناممکن بھی ہوتواس کاابلاغ ممکن نہیں۔خودسقراط نے کائنات کے بجائے اس کی کنہ کی کنہ کوجاننے کی کوشش کی،اس کے نزدیک یہی کنہ کی کنہ ہی اصل ہے؛اسی سے حقیقت کی حقیقت واضح ہوتی ہے ؛چناںچہ سقراط نے مفہوم کانظریہ قائم کیا۔اس کے مطابق علم جوخیال سے جداگانہ ہوتاہے اصل حقیقت کا علم ہے ،چناںچہ کسی شئی کامفہوم ہوجاناہی اس کاجان لیناہے ۔
افلاطون کا نظریہ :
افلاطون نے سقراط سے استفادہ کرتے ہوئے کائنات کے بجائے پہلے شکل پھرروح کی تعیین کرنے کی کوشش کی،اس کے بہ قول اشکال معروضی حقیقتیںہیں؛چناںچہ کسی واحد،حقیقی اورناقابلِ تبدیل وجودکاعلم خیال کے معروضی وجودکاطالب ہے ۔متعددالوجوداورقابلِ تبدیل اشیاکے برخلاف افلاطون نے اس کے لیے کئی اظہارِبیان اختیارکیے۔
افلاطون روح ماقبل وجودکاقائل ہے ۔ارسطواس کے دائمی ہونے کابھی قائل ہے ؛چناںچہ اس نے فیثاغورث کااتباع کرتے ہوئے روح کے تین حصے کیے ہیں۔(۱)عقلی حصہ(۲)روحانی حصہ اور(۳)خواہشی حصہ۔ یہی اشیاکے خواص (Faculties)ہیں،لیکن محض حصے(Mere) ہوتے ہیں۔عقلی حصہ دائمی ہے؛جب کہ بقیہ دوفناہونے والے ہوتے ہیں۔ارسطونے بھی بنیادی طورپرکائنات کوطبعیات ہی تسلیم کیاہے ؛چناںچہ اس نے مابعدالطبعیات کوپہلا فلسفہ قراردے کراسے ایک مستقل باب کی حیثیت دی اور اس نے اسے وہ علم قراردیاجووجودکی وجودکے اعتبارسے تحقیق کرتاہے ۔
بہ قول ابن رشد:
’’الاشیاء الموجودۃ للموجودبما ہوموجود‘‘ اشیا ء موجود ، موجود کے لیے موجود ہے ۔
ارسطونے منفی طورپرکہاکہ خیال محض معروضی ہوتے ہیں۔اثباتی طورپراس نے کہاکہ وجودمتشابہ ہوتے ہیں؛ چناںچہ اس نے کہاکہ (۱) وجود شئ ہے جس کے معنی ہیں ’’ وہ جو ہے ‘‘ ۔(۲) وجود حقیقت ہے ،جس کے معنی ہیں ’’ جوہے تھا ‘‘ ۔ (۳) وجود کی دوصورتیں ہیں ۔ (الف ) شئ اپنی اول ، خالص اور متعین شکل میں کسی ذات میں محمول ہوتی ہے نہ موجود، جب کہ ثانوی معنی میں ہوتی ہے ۔ گویا اول معنی میں : یہ آدمی ، یہ گھوڑا ، یہ گائے ۔ اور ثانوی معنی میں آدمی ، گھوڑا، گائے ؛ چناںچہ پہلی چیز ارسطو کے نزدیک مادہ اور دوسری شکل ہے ۔ (۴) شئ کے ارتقا میں صلاحیت اور حقیقت مدارج ہیں ۔ (۵) وجود کے لیے چار اسباب ضروری ہوتے ہیں ، جسے ارسطو نے کہا ہے ۔ چناں چہ بالآخر ارسطو نے ایک ایسی معروضی قوت کا ضرورتاً اقرار کیا ہے ،جسے محرکِ اول (Prime Mover ) یا خدا کہا جاسکتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں (Met 1026 a 18-20 )چناں چہ وہ کائنات میںنظم کا قائل ہے ۔
اس طرح وہ مکان ،زمان اور حرکت تک پہنچتا ہے ،لیکن یہ کہنا کہ ارسطو فی الواقع خدا کا قائل تھا تویہ بات درست نہیں ہوگی ؛ چناں چہ وہ ایک ایسی کائنات کا تصور کرتا ہے جو ’’ ہے‘ ‘ اور بس ۔
دہری طبقات میں فلاسفہ کائنات کی تعریف اس سے زیادہ نہیں کرتے کہ وہ ’’ ہے‘ ‘ ۔
خلاصہ :
خلاصہ یہ کہ فلاسفۂ قدیم کی اکثریت کائنات کی تخلیق اور اس کے ہر امر کے بارے میں مخفی دہریت کے قائل ہیں اور وہ اس کی مختلف توجیہات کرتے ہیں ۔
سائنس : دوسرا طبقہ سائنس دانوں کا ہے ۔ سائنس (اپنے موجودہ معروف ومشہور معنی و مراد میں ،جس سے در اصل سائنس کی وہ توجیہ مراد ہے، جو مغرب کے نزدیک معتبر ہے ) کائنات کو خالص مادۂ توانائی اور مکان کا مجموعہ تسلیم کرتا ہے، جو ایک مسدود نظام (Colsed System )میں وجود رکھتی ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی اور یہ کہ ابتدائی ذرات (Elementary Particles) عظیم متوحد نظریات (Grand Unified Theories ) عظیم دھماکہ نظریہ (Big Bang Theory ) ہمہ حالت نظریہ (Staedy State Theory) کیا ہے ۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سائنس کا ئنات کو از خود وجود میں آجانے والی چیز سمجھتا ہے اور یہ کہ کائنات ایک مسدود نظام (Colsed System )ہے ،جس میں entropy (کسی نظام میںعمل کے لیے توانائی کی نافراہمی کی شرح ) میں اضافہ اسے بالآخر ایسے مقام پر لے جائے گی، جسے سائنس کائنات کی حرارتی موت (Heat Death of the Universe ) کہتا ہے ۔ چناںچہ سائنس ایک ایسی کائنات کا تصور کرتا ہے،جہاں کائنات کی نہ Cosmology ہے اور نہ Eschatology ۔ سائنس کی کائنات پیدائش اور موت کے درمیان کی کائنات ہے