۱- نشوو نما اور ارتقاء کا نظریہ اگر ہمہ گیر اور عمومی حیثیت رکھتا ہے، جس کی رو سے سبھی جاندار اور حیوانات مختلف روپ دھارنے کے بعد اپنی موجودہ شکلوں تک پہنچ سکے ہیں ،تو اس نظریہ کے قائل افراد کو یہ بتانا ہو گا کہ اگر انسان شروع میں بندر تھا تو پالتو جانور جیسے اونٹ گائے، بیل، بھینس اور بکری شروع میں کیا تھے؟ چوپائے جیسے گھوڑے گدھے اور خچر اور درندے جیسے ہا تھی، شیر، چیتا اور کتے وغیرہ ابتداء میں کیا تھے؟
۲-” بقاء اصلح“ کا نظریہ اگر درست ہے! تو پھر کیا وجہ ہے کہ زمین پر بسنے والے جملہ حیوانات کی نشوو نما اور ترقی قطعی تھم چکی ہے؟ اس لئے کہ صدیوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ یہ جاندار اپنے پچھلے حال پر قائم ہیں۔ حالاں کہ کہا جاتا ہے کہ کمال کی کوئی حد نہیں ہوتی؛ لہذا ان کے اندر رد و بدل ہونا چاہئے اور بہتر سے بہتر شکل انہیں اختیار کرنا چاہئے، لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ گھوڑا گھوڑا ہے، شیر اور بھیڑیئے حسب سابق اپنی اسی شکل پر قائم ہیں۔ اور سب سے زیادہ حیرت اس پر ہے کہ خود حضرت انسان صدیوں سے اپنی اسی شکل پر قائم ہے، اس نے ذرہ برابر ترقی یا کسی قسم کی تبدیلی کو قبول نہیں کیا ہے۔
۳- جملہ حیوانات میں” بقاء اصلح“ کا نظریہ اگر درست ہے، جس کا مطلب یہ کہ کوئی دو چیزوں میں زیادہ لائق وفائق نوعیت کو بقاء ہوتی ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ بندر اور انسان کی درمیانی شکل (بوزنہ یا بندرِ بے دم) فنا ہو گئی! اور بندر بدستور موجود رہ کر اس نظریہ کا منہ چڑا رہا ہے؛ جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ بندر فنا ہوتا اور وہ درمیانی شکل باقی رہ جاتی اس لئے کہ بندر سے وہ بدرجہا بہتر تھی۔ اور بقول تمہارے اصلح (زیادہ بہتر) کو بقاء ہوتی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ جو بے ہنگم اور نا مناسب ہے وہ تو دندناتا پھر رہا ہے اور اس سے بہتر لاپتہ ہے؟ اور اگر اس سب کے پیچھے نیچر اور فطرت کا خود کار نظام ہے تو سارا قصور اس نیچر کا ہے کہ اس نے اس قسم کا غلط انتخاب کیوں کیا؟ کہ بھدے اور بے ہنگم کو باقی رکھا اور اس سے بہتر کو فنا کے گھاٹ اُتار دیا۔
۴- تمہارا مادہ پرستانہ ذہن، فکر و نظر اور استدلال و قیاس کو غیر اہم سمجھتا ہے۔ اسی لئے تم نے یہ طے کر لیا ہے کہ بغیر دیکھے کوئی چیز تسلیم نہیں کرو گے، لیکن کیا وجہ ہے کہ انسان کے نظریہ ارتقاء میں تم نے اپنے اصول کو بھی خیر باد کہہ دیا اور بغیر دیکھے متعدد چیزیں تم نے تسلیم کر لیں؟ مثلا ًتم کہتے ہو کہ انسان کی اولین شکل خلیہ کی صورت میں تھی، جو کسی سیارے سے اس زمین پر آگرا تھا، جب اولین انسان خود یہی ”خلیہ“ تھا تو اس سے متعلق تفصیل سے آگاہ آخر کس نے کیا؟ اس لئے کہ خلیہ کا مختلف روپ کسی نے بھی نہیں دیکھا اور خلیہ خود زیر پرورش تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ آج پورے وثوق سے اس نظریہ کو نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ دوسروں میں اس کا پر چار بھی کیا جاتا ہے! اس طرح گویا تم اپنے مادی طریق ِفکر کی خود بخود خلاف ورزی کرتے ہو، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ڈارونی عقیدہ بھی باطل اور لغو ہے؛ لہذا اس صاحب ِایمان عالم دین کی بات کا تمہیں اعتراف کرنا چاہئے، جس نے بالکل سچ کہا ہے کہ: ”خدا کا انکار کرنا اور گندگی کے کیڑے کی طرح زندگی گذارنا اس نظریہ کی جڑ بنیاد اور اس کااصل مقصد ہے“۔(قصتہ الایمان ص۹۳ ۱ بین دارون والجسر)
غرض ڈارون کی تھیوری کے قائل بہتیروں نے اپنی عاجزی اور درماندگی کا اقرار کیا ہے اور بیک زبان مل کر یہ اعتراف کیا ہے کہ ”نشو و نما اور ارتقاء“ کا نظریہ کوئی علمی نظریہ نہیں ہے۔ نہ ہی اس کے درست ہونے کی کوئی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ البتہ اس نظریہ کو محض اس لئے اختیار کیا جاتا ہے تاکہ خدا پر ایمان لانے سے بچا جا سکے۔ ورنہ اس کی ذات پر ایمان لانے سے بچنے کی کوئی صورت نہیں!! جہاں تک ہم سمجھتے ہیں یہ مشہور کہاوت ”بلی تھیلے سے باہر آگئی!“ اسی قسم کے مواقع پر بولی جاتی ہے جس میں اصل پول کھل جاتا ہے اور جرم سامنے آجاتا ہے۔ والحمد للہ
موازنہ اور تقابلی مطالعہ:
ایمان والوں اور بے ایمانوں کے عقائد میں امتیاز کرنے کے لئے ذیل میں ایک موازنہ درج کیا جاتا ہے، جس سے ایک نظر میں یہ معلوم ہو جائے گا کہ مسلمانوں کے نزدیک انسان کیا ہے؟ اور اس کی قدر و قیمت کیا ہے؟ اور ڈارون اور اس کی ذریت کے نزدیک اس اشرف المخلوقات کی کیا کیا دُرگت بنی ہے؟
انسان! ایمان والوں کی نظر میں
انسان کی پیدائش آسمانوں میں ہوئی، خلق و تکوین کے جملہ مرحلے اس نے بیک وقت طے کئے، اولین انسان کی شکل اور بعد والے انسانوں کی صورتیں یکساں رہیں،ان میں کسی قسم کا ردو بدل نہیں ہوا اور نہ ہوگا، خدا نے اپنے دست خاص سے اسے بنایا، اس کے اندر اپنی روح پھونکی، اشیاء کے نام اور ان کے حقائق کا اسے علم دیا۔ آسمان میں فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں۔ خدا نے اسے بہترین شکل وصورت کے ساتھ پیدا فرمایا۔ اور جملہ خلائق سے افضل اور بہتر ٹھہرایا، اس کی جان و مال آبرو سب کچھ محفوظ قرار دیا کہ ناحق اسے کوئی نہ ستائے۔ اس کی ہدایت کے لئے پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کا طویل و عظیم سلسلہ جاری کیا،دنیا و آخرت کی بھلائی کا سامان اسے بہم پہنچایا۔ خدا کے ان پیغمبروں نے خدا کی زبانی تفصیل سے یہ بتایا کہ اولین انسان اور پوری کائنات خلق و تکوین کے مرحلے سے کیسے گذری اس کا بنانے والا کون ہے؟ اس کی غرض کیا ہے؟ اس کی کامیابی اور ناکامی کس میں ہے ہمیشہ کی زندگی اور دائمی آرام کی صورت کیا ہے؟ وغیرہ۔
انسان! دہریوں کی نظر میں
نشوو نما اور نظریہ ارتقاء کی رو سے انسان کی پیدائش بدترین شکل و صورت میں عمل میں آئی۔ صدیاں گذرنے کے بعد اس نے بندر کی شکل پائی۔ مزید صدیاں گذرنے کے بعد بندر سے قدرے بہتر صورت اسے نصیب ہوئی اور اسی قدر اور زمانہ گذرا تب کہیں موجودہ انسانی شکل اس نے اختیار کی۔ اولین انسان! اور خلق و تکوین کے جملہ مراحل سے وہ کیسے گذرا؟ یہ سب کی اطلاع دینے والے وہ ہیں جو ایک سے بڑھ کر ایک بے ایمان بد باطن، فتنہ پرداز دہریہ اور بے دین ہیں! بے راہ روی ان کی خصلت اور بربادی ان کا مقدر ہے، اس لئے کہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو انہوں نے استعمال کرنے سے گریز کیا، جس سے ان کی روشنی طبع ان کے لئے بلا بن گئی اور وہ وقت بہت قریب ہے کہ ان کا نام و نشان بھی کہیں باقی نہ رہے گا۔ ع
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے!
اس تقابلی مطالعے کے بعد وہ لوگ جنہیں خدا نے عقل و بصیرت دی ہے، انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ ان دونوں انسانوں میں کس انسان کا وہ انتخاب کرتے ہیں، کونسا انسان ان کے نزدیک افضل اور لائق ِاحترام ہے؟ اور کس کی عظمت کا دنیائے انسانیت کو اعتراف کرنا چاہئے؟ آیا وہ انسان جسے اہل ِایمان تسلیم کرتے ہیں یا وہ انسان جسے ڈارون اور اس کی ذریت تسلیم کرتی ہے۔
انسان اور کل کائنات کے پیدا کرنے والے کی اس قدر تشریح اور وضاحت کے بعد آج بھی اگر کوئی ڈارون کے نظریے کو درست سمجھنے پر مصر ہے تو ہماری نظر میں اس سے زیادہ نادان اور جاہل بھلا کون ہو گا؟ اس لئے کہ یہ وہ نظریہ ہے، جس کی یہ ایک بنیادی غرض خدا کا انکار ہے، اور دوسری غرض یہ ہے کہ گندگی کے کیڑے کی طرح انسان بھی اس دنیا سے ناکام اور بے مراد چلا جائے اور اس کی زندگی کا کوئی حاصل نہ ہو! (جیسا کہ ابھی گذرا کہ: خدا کا انکار کرنا اور گندگی کے کیڑے کی طرح زندگی گزارنا۔( قصتہ الایمان ص۹۳ ۱)
عقیدہ کیا ہے اور اس سے انسان کا کیا رشتہ ہے؟
عقیدہ – ان فیصلوں کا نام ہے جنہیں۔ انسان اپنی عقل سے سوچ کر کانوں سے سن کر اور قوانین ِالٰہی کے ذریعے پرکھ کر صادر کرتا ہے۔ یہ فیصلے دو ٹوک اور بے لاگ ہوتے ہیں، عقل و نقل کی کسوٹی پر قطعی پورے اُترتے ہیں، اسی لئے ایک بار جب اس کا ذہن اس قسم کا کوئی فیصلہ صادر کرتا ہے، اور اپنے دل و دماغ میں وہ ٹھان لیتا ہے کہ جو اس نے سوچا وہی برحق اور درست ہے تو اب کوئی طاقت اسے نہ اپنے فیصلے سے ہٹا سکتی ہے، نہ ہی اس کے اندر کسی قسم کا نقص، فتور یا شک شبہ کا احتمال اس کے دل میں پیدا کر سکتی ہے۔
اس قسم کا سب سے اولین فیصلہ بندہ اپنے بنانے والے کے بارے میں کرتا ہے۔ وہ دل سے مانتا اور زبان سے اس کا اقرار کرتا ہے کہ وہ ایک ذات ِواحد ہے جس نے اس کو وجود بخشا۔ وہی اس کا خالق و مالک اور روزی رساں ہے۔ وہ بڑا علیم و خبیر بڑی حکمت و قدرت والا ہے۔ وہ اس کی سنتا اسے دیکھتا اور اس کے بے حد قریب ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ اس ذاتِ باری نے کل کائنات کو اس کے لئے اور اسے اپنی پرستش اور بندگی کے لئے پیدا کیا ہے؛اسی غرض کے لئے اس نے بے شمار انبیاء اور رسول ہر قوم اور ہر زمانے میں مبعوث فرمائے، ان پر آسمانی کتابیں نازل فرمائیں۔ بندہ مومن یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خدا نے اپنے پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ جس قدر احکام اسے عطا کئے ان کا ماننا اور ان پر عمل کرنا اس پر فرض ہے اور جن چیزوں سے اس نے منع کیا ہے ان سے رک جانا اس کے لئے لازمی ہے، اس لئے کہ اس کے بغیر دل و دماغ اور روح و ضمیر کی نہ تو صفائی ہوگی نہ اس کے افکار و خیالات میں پاکیزگی آئے گی۔ نہ ہی اس کے اخلاق و عادات میں کمال اور بڑائی پیدا ہوگی اور نہ اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کوئی اصلاح اور درستی پیدا ہوگی۔
صاحب ایمان یہ بھی سمجھتا ہے کہ اس کا رب بے نیاز ہے، اسے بندوں سے کسی قسم کی حاجت نہیں۔ نہ وہ بندوں کا محتاج ہے، ہاں بندے البتہ اس کے محتاج ہیں، اور یہ احتیاج بھی لا محدود ہے اس لئے کہ بندے ہر ہر چیز میں حتی کہ سانس جو وہ لے رہے ہیں اس میں بھی وہ اپنے رب کے محتاج ہیں، اگر وہ چاہے تو ان کی سانس کو جاری رکھ کر انہیں زندہ رکھ سکتا ہے، ورنہ انہیں موت کی نیند سلا سکتا ہے۔ وہ صرف خدا پر توکل اور اعتماد کرتے ہیں اس سے امید رکھتے ہیں، اور خوف بھی سب سے زیادہ اسی سے رکھتے ہیں، اس لئے کہ وہ بڑا سخت گیر اور بعجلت حساب لینے والا ہے اور دوسری طرف وہ بڑا مہربان اور نہایت رحم والا بھی ہے۔
وہ یہ بھی تصور رکھتا ہے کہ اگر اس کے رب نے اسے پسند کیا اور اس سے محبت کی تو جملہ خلائق از خود اس سے محبت کرے گی، لیکن اس کا رب اگر اس سے ناراض ہے تو ہر کوئی اس سے ناراض ہو گا۔ (اس لئے کہ جملہ خلائق کا دل خالق ِکائنات کی دو انگلیوں کے بیچ معلق ہے، وہ جب چاہے انہیں الٹ پلٹ سکتا ہے)
وہ یہ طے کئے ہوتا ہے کہ باری تعالی اس کا مالک و مولیٰ ہے، اس کے سوا کسی کو یہ قدرت نہیں ہے وہی اس کا معبود ہے، اس کے سوا کوئی اور پرستش کے لائق نہیں، نہ اس کے سوا کوئی اور پروردگار ہو سکتا ہے۔ نہ ہی الوہیت کی شان اور ربوبیت کی صفت کسی اور کے اندر پیدا ہو سکتی ہے۔
عقیدہ سے انسان کا ازلی رشتہ ہے
بہت سے لوگ- عقیدہ اور مذہب کا نام سن کر- کبھی یہ کہہ دیتے ہیں کہ انسان کو عقائد کی چنداں حاجت نہیں! جب کہ طویل انسانی تاریخ اور ہر دور کے حقائق اور واقعات نے ہمیشہ اس خیال ِخام کی تردید کی ہے، اور اعتقاد و عقائد کی ضرورت کا احساس دلایا ہے؛چنانچہ واقعات شاہد ہیں کہ انسان آج سے نہیں، تاریخ کے نامعلوم زمانے سے خواہ کہیں اور کسی قسم کے حالات سے دو چار رہا ہو، اس نے کچھ افکار اور خیالات کو مرکزی حیثیت دے کر انہیں بطور ”عقیدہ “ تسلیم کیا ہے۔ یہاں اس سے بحث نہیں کہ یہ عقائد صحیح بھی رہے یا نہیں؛ بہر کیف یہ واقعہ ہے کہ عقیدے کے وجود سے انسان کا دل و دماغ کبھی خالی نہیں رہا ہے۔
بالخصوص آج کے ترقی یافتہ زمانے میں بھی یہ تصور اسی طرح انسانوں کے نہاں خانہ دل میں برقرار ہے؛ جب کہ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ اس صدی کی سائنس اور ٹیکنالوجی ترقیات اور علوم کی بہتات نے انسانوں کو ہمہ قسم کے عقائد بلکہ دین و مذہب سے بھی بے نیاز کر دیا ہے۔ یہی نہیں، وہ ایک قدم آگے بڑھا کر یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ: ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم کے اس زمانے میں جب کہ انسان نے چاند پر اپنے قدم جما لئے اور خلا میں دوسرے ستاروں اور سیاروں کی گزر گاہوں کی تلاش میں ہے۔ اتنا کچھ کر لینے کے بعد اس دور کے انسان کو کسی خدا پر ایمان لانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ کفر و سرکشی کا یہ مرض ان کے اندر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ یہ بد زبان کہتے ہیں کہ” انسانوں کو خدا نے نہیں بنایا بلکہ خدا خود انسانی ذہن کی پیداوار ہے!“ (خدا کی پناہ!)
(انسان کی بہادری کے عنوان سے مارکسٹ کمیونسٹ ڈکشنری میں یہ فقرہ اسی طرح درج ہے۔)
عقل و ہوش کے یہ دشمن اصل میں یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ خدا کا تصور افسانہ ہے۔ اس کا کوئی وجود نہیں، اور قدیم زمانے میں جن لوگوں نے اس کے وجود کو تسلیم کیا، انہوں نے رضا و رغبت سے نہیں بلکہ خوف اور دہشت سے اسے مانا ہے۔
اس لئے کہ پرانی دنیا کا انسان جس کے لئے زندگی اجیرن تھی، اپنے ابتدائی دور میں ہر چیز سے خوف کھاتا تھا،آسمانی سلطانی ہر قسم کا خطرہ اسے لاحق تھا، وہ بیماری فاقہ کشی اور مفلسی سے ڈرتا تھا، آسمان پر بجلی کی گرج چمک اگر اس کی نیند حرام کر دیتی تھی تو زمین پر آندھی طوفان، زلزلے اور سیلاب سے اس کے اوسان خطا ہو جاتے تھے؛ یہاں تک کہ زمین پر رینگنے والے حقیر کیڑے مکوڑوں سے اس کا چین و سکون سب تباہ برباد ہو جاتا تھا۔
یہ اور اس قسم کے بے شمار آلام و مصائب نے اسے کسی ایسی غیبی طاقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا تھا، جو اس کی دانست میں بڑا زور آور بڑا بلند و بالا ہے،جو اس کی پشت پناہی کر سکتا ہے۔ اور ان خطرات سے اسے نجات دے سکتا ہے۔
صورت حال یہ تھی جس سے تنگ آکر مجبوراً انسان نے خداؤں کا اپنے ذہن میں تصور باندھا، اس کا ایک نام تجویز کیا۔ اور خود سے یہ طے کیا کہ اسے خوش رکھنے کے لئے اس کی پرستش کرے گا، دل سے اسے یاد کرے گا؛ تاکہ خطرات سے اسے نجات ملے۔اس پس منظر کو دکھا کر وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ خدا خود پروردگار نہیں؛ بلکہ بندوں کی ایجاد یا ان کے ذہنوں کی پیداوار ہے۔
یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان خود ساختہ اہل خرد کی بہت ساری لغویات کی طرح ان کا یہ فقرہ بھی پرلے درجہ کی حماقت، جہالت، کفر و سرکشی، حقائق سے چشم پوشی، دل لگی اور دیوانگی کی بدترین مثال ہے، جو حد سے متجاوز ہو چکی ہے۔
”کفر کو نقل کرنا کفر نہیں“
اس مقولے کی بنا پر ہم نے اس ناپاک فقرے کو یہ دکھانے کے لئے نقل کیا ہے کہ خدا سے ان کی مراد اگر بت پرستوں کا خدا ہے جسے انہوں نے تراش خراش کر خدا کا نام دے رکھا ہے تو ہم بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بے شک ان کا خدا ساختہ پرداختہ اور ان کے ذہن کی پیداوار ہے، اس نے انسانوں کو نہیں انسانوں نے خود انہیں وجود بخشا ہے۔
لیکن اگر وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ وہ خدا بھی انسانی ذہن کی پیداوار ہے، جو زمین و آسمان کا خالق و مالک ہے، جس نے انسانوں کو پیدا کیا اور ان کی ہدایت کے لئے نبی اور رسول بھیجے ان پر کتابیں نازل کیں، بہتر دین اور بہتر شریعت سے انہیں نوازا؛ تاکہ ان کے اندر انسانیت اور کمال کے جو ہر کھلیں۔ زمین پر اپنے رب کے سچے نائب بنیں اور دین دنیا اور آخرت کی سعادت اور مسرتیں انہیں نصیب ہوں، تو ہم برملا یہ کہیں گے کہ یہ ان کا دجل وفریب اور کھلی ہوئی مکاری اور جھوٹ ہے، اس لئے کہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا انسان اس قدر ناتواں اور کمزور ہے کہ خود اپنے آپ کو یا اپنے جیسے حقیر انسان یا کسی قسم کے کیڑے مکوڑے اور مکھی اور مچھر کو تو پیدا نہ کر سکا؛ چہ جائیکہ وہ اسے پیدا کرنے چلے، جس نے کل کائنات اور جملہ خلائق کو عدم سے وجود بخشا، جو ان کا آقا و مالک اور پروردگار ہے، خداوند قدوس کی ذات ہر عیب سے پاک اور برتر ہے۔
کائنات کے اسرار فاش کرنے کے باوجود بھی انسان پریشان کیوں؟
اور یہ جو آج کا انسان خدا پر ایمان سے بے نیازی کا دعوی کرتا ہے؛ کیونکہ اس نے طبیعیات اور کائنات کے اسرار فاش کر لئے؛جب کہ وہ آج بھی بیماری غریبی، سیلاب زلزلے قحط سالی اور فاقہ مستی سے پہلے کی طرح ڈرتا ہے۔ تو درحقیقت اس کا یہ دعوی لغو باطل اور بے قیمت ہے، اس لئے کہ آج کا انسان ان سب سے ڈرتا ہے۔ اور اپنے پاس موجود کل وسائل کو استعمال کرکے بھی خود کو محفوظ نہیں پاتا، نہ وہ کبھی محفوظ ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ انسانوں کو در پیش جسمانی اور روحانی بیماریاں روز بروز افزوں تر ہیں اور کل عالم انسانی اس سے لرزہ براندام ہے؛ چنانچہ کالرا‘ کینسر‘ مرگی اور اس جیسی صد ہا بیماریوں نے انسانوں کو گھیر رکھا ہے۔ دنیا کی بڑی آبادی بھکمری، سیلاب اور زلزلوں کی تباہ کاری سے دو چار ہے۔،بے شمار آدمی مرتے ہیں۔ اور خدا کا منکر اور بزعم خود اس کو پیدا کرنے کا دعوی کرنے والا ان ہلاکتوں سے بچنا تو درکنار ان پر روک لگانے یا ان کے توڑنے کی سکت بھی اپنے اندر نہیں رکھتا؛ بلکہ اس کی پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں، خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہ محض اس لئے کہ اس نے اپنے پرورگار کا انکار کیا اس کے پسندیدہ دین سے رخ پھیرا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ذاتی وقار شخصی کردار اور عادت و اطوار سب کچھ خاک میں مل چکا ہے۔ اس کی زندگی بدمزہ اور شب و روز گذارنا ان کے لئے موت سے بدتر ہوتا جا رہا ہے، ان کی آنکھ کا پانی مر چکا ہے،ان کی پوری زندگی بے حیائی، جرائم و تشدد فحاشی اور فحش پسندی کا دوسرا نام ہے۔ انسانیت اور آدمیت کا سرچشمہ ان کے اندر سے خشک ہو چکا ہے،غیرت مندی ذہانت اور شرافت و مروت کے جو ہر ان کے اندر سے مردہ ہوتے جارہے ہیں۔ جھوٹ، مکاری، خیانت، دغا بازی، کٹر قسم کی منافقت اور فریب کاری ان کی فطرت اور عادت بن چکی ہے۔ یہ وہ اسباب تھے جن کی بناء پر انسانی معاشرہ اور اس کی رہی سہی زندگی پستی کا شکار ہوئی اور گراوٹ حد سے بڑھ گئی، ان حالات سے تنگ آکر موجودہ دور کے فلاسفر اور نام نہاد دانشور بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اب دین اور ایمان کی طرف لوٹ کر چلا جانا ناگزیر ہے۔ بڑے بڑے مفکرین اور ملحدین آج سرنگوں ہیں اور مذہب اور روحانیت کی کمی کا شدت سے اقرار کرتے ہیں۔ ساتھ ہی نفسیات اور سماجی علوم کے ماہرین سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ان کے لئے کوئی بہتر دین تجویز کریں؛ لیکن اس کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ اس مذہب کے اندر خدا کا تصور نہ ہو۔ یہ اس لئے کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ”خدا کا تصور انصاف، بھلائی اور قرابت داری کا حکم دیتا ہے۔ اور بے حیائی ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ (اقتباس ازنحل:۲۹۱)
ان کی مشکل یہ ہے کہ عدل و انصاف، نیکو کاری اور بھلائی کو ایک آنکھ پسند نہیں کرتے اور نہ دوسری طرف ظلم و زیادتی بے حیائی اور بدکاری کو چھوڑنا چاہتے ہیں، اس لئے وہ ایسا خانہ ساز دین چاہتے ہیں، جس سے نفس اور اخلاق کی اصلاح ہو لیکن خدا کا تصور، اس کے احکام اور اس کی نواہی کا ذکر درمیان میں نہ آئے، لیکن کیا ان کا یہ خواب کبھی شرمندہ ٴ تعبیر ہوگا؟
اور کیا کسی خانہ ساز دین سے نفس، اخلاق اور روح و ضمیر کی اصلاح بھی ہو سکے گی؟ ہرگز نہیں! در حقیقت یہ لوگ فریب ِنفس ،جہالت اور گمراہی میں غرق ہو چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی، پھر ان کے کانوں کو بہرا، اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنا دیا۔
ابتدائے آفرنیش سے کسی باشعور انسان نے اعتقاد اور دین کی دولت سے محرومی کو کبھی پسند نہیں کیا:
اس قدر تفصیلات میں جانے کی غرض محض اس علمی حقیقت کی وضاحت تھی کہ عقل پر مبنی آئین اور شریعت دونوں ہی ایمان و یقین اور دین و مذہب کو انسان کے لئے حد درجہ لازمی قرار دیتے ہیں۔ انسان کی زندگی اور اس کی تمام حاجتوں اور مشکلات کا قرار واقعی حل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انسانی زندگی کے لئے خدا پر ایمان اور اس کی عبادت سے خالی رہنا کسی لمحہ گوارا نہیں کرتے؛یہی وجہ ہے کہ ابتداء آفرنیش سے روئے زمین پر کسی باشعور انسان نے کسی ملک اور کسی زمانہ میں اعتقاد اور دین کی دولت سے محرومی کو کبھی پسند نہیں کیا ہے۔ جس کا مصداق یہ آیت ہے۔
وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ اِلّاَخَلَا فِیہَا نَذِیر۔ (فاطر:۲۴)
”اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی ڈرانے والا نہ ہو۔“
قرآن پاک کی زبان میں ”نذیر“ کے لفظ سے نبی و رسول یا ان کے وہ فرستادے مراد ہوتے ہیں۔ جنہوں نے انبیاء ورسل کی کامل پیروی کی اور اس کے صلے میں حق تعالی نے علوم ِنبوت سے انہیں سرفراز فرمایا۔ اور نبیوں کی آمد کے درمیانی عرصہ میں جب عام آدمی آنے والے نبی کا انتظار کرتے ہیں، یہ با سعادت افراد کار نبوت کو آگے بڑھاتے ہیں، اور اپنی قوم کو سابق نبی کی طرح کفر و شرک اور عقائد کی گندگی اور خدا کی نافرمانی پر تنبیہ کرتے ہیں۔ خدا اور آسمانی کتابوں کو نبی اور رسول اور ان کے لائے ہوئے دستور کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرتے ہیں، اور ظلم و شرارت اور زمین میں فتنہ و فساد سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔(۱)
دین کی اہمیت و ضرورت:
ابتدائے آفرینش سے یعنی آدم و حوا علیہما السلام کے جنت سے اتر کر جنت ارضی کو آباد کرنے سے آج تک انسان کو ایسے دستور ِحیات اور ضابطے کی اشد ضرورت تھی، جس پر عمل کرنے سے اسے عقلِ سلیم اور فطرتِ مستقیم نصیب ہو، اس کے نفس اور باطن کی اصلاح ہو اس کی زندگی منظم اور اس کا رخ صحیح سمت کی طرف ہو اور اسے دنیا کی زندگی میں جو روئے زمین پر گذر رہی ہے کمال و کامرانی اور ان مقاصد کی تکمیل نصیب ہو، جس کے لیے اس کے رب نے دنیا میں اسے بھیجا ہے اور آخرت کی زندگی میں جو مرنے کے بعد شروع ہوگی اور جس کا یقینی علم انبیاء کی تعلیمات اور آسمانی کتابوں سے ہوتا ہے۔ سعادت ابدی اور رضائے الہی میسر ہو۔
اس میں شک نہیں کہ کسی نوعیت کے انسانی یا زمینی دستور پر عمل درآمد سے زندگی میں اس قسم کا انقلاب اس کی اپنی اصلاح و درستی اور عظیم مقاصد کا حصول ممکن نہیں، تا وقتیکہ کسی سچی اور خالص آسمانی شریعت کی پیروی نہ کی جائے، یہ اس لئے کہ حق تعالی سے بڑھ کر انسانی خواہشات اس کے احساسات اس کے دکھ درد اور اس کے افکار و خیالات سے واقف کوئی نہیں ہو سکتا، جس نے عدم سے اسے وجود بخشا اور مہد سے لحد تک
(۱)موٴرخ، شمارک نے قرآن پاک کی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے: تاریخ میں ایسی بے شمار بستیوں کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے، جہاں قلعے اور محلات نہ تھے بڑے بڑے پل اور اونچے اونچے ڈیم اور بند نہیں تھے۔ لیکن کسی ایسی بستی کا سراغ نہیں ملتا، جہاں کوئی عبادت گاہ اور معبد نہ رہا ہو۔
اس کی پرورش کی، لہذا اس ذات واحد سے بڑھ کر بھلا اور کون ہو گا، جو اس کے لئے دین و آئین وضع کرے اور وہ ضابطہٴ حیات مقرر فرمائے، جس سے اسے زندگی میں کمال اور مرنے کے بعد حیات ِابدی اور دائمی خوشی کی اہلیت نصیب ہو۔
یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے دین کی ضرورت زندگی کی بنیادی ضرورتوں؛ جیسے کھانے پینے اوڑھنے سردی گرمی سے بچنے، دوا علاج اور رہنے کے لئے مکان سے زیادہ مقدم ہے اور جہاں ایک شخص کی زندگی میں دین کا آنا ضروری ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ دیگر افراد ایک دوسرے کے لئے آئینہ بنیں؛ تاکہ ایک سے دوسرے کی اصلاح ہو، آپس میں تعاون اورہمدردی پیدا ہو اور یکساں رنگ رہتی زندگی سب پر قائم اور باقی رہے۔
انسان فطری طور پر اپنی ناتوانی سے آگاہ ہے اور بخوبی جانتا ہے کہ اسے زندگی کے میدان میں اپنے مالک و مولیٰ کی اعانت اس کی توفیق و عنایت اور اس کی حفاظت و نگہداشت مطلوب ہے، اس لئے وہ شدت سے اس کا محتاج ہے کہ اپنے ربِ حقیقی کی معرفت اسے نصیب ہو۔ اور اطاعت و بندگی اور مختلف عبادات سے اس کی رضا و خوشنودی زیادہ سے زیادہ حاصل ہو۔
انسان اپنی خداداد عقل و شعور، فہم و فراست اور لیاقت و صلاحیت سے رفعت و سر بلندی کے ان مدارج تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، جن سے آگے کا تصور مشکل ہے ،بنا بریں ان تین حالتوں میں جن کا ذکر پہلے گذرا اسے دین ِالہی اور ایسے آئین کی ضرورت ہے، جو اس کی فطرت اور افتادِ طبع کے مناسب ہو، جس کے ذریعے اس کے درمیان اور ان افراد کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی تعاون ہو، جن سے زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے تعلقات ناگزیر ہوں یہ اس لئے کہ زندگی کے تقاضے بکثرت ہیں، اور حسن رہائش کے لئے کھانا پانی لباس، رہائش اور مواصلاتی وسائل بہرکیف درکار ہیں، نیز خدا کی معرفت اور اس تک رسائی کے لئے اس کے سکھلائے ہوئے علوم و معارف بھی ناگزیر ہیں، جن سے اس کو معلوم ہو گا کہ اس کی عبادت اور بندگی کیوں کرنی چاہئے، اس کے تقرب کے کیا طریقے ہیں اسے کیا پسند اور کیا نا پسند ہے، کن سے وہ راضی یا ناراض ہوتا ہے، اسی علم الہی سے اسے حیات اور کائنات کے حقائق کا علم ہو گا اور یہ معلوم ہو گا کہ دنیا اور آخرت میں عروج اور کمال کی کیا کیا شکلیں ہیں، اور زوال اور پستی کی کیا کیا صورتیں ہیں؟
غرض دین کی ضرورت اور اہمیت مسلم ہے اور اگر انسان چشم ِبصیرت سے کام لے تو محسوس ہو کہ جسم کی نشو و نما کے لئے اگر ہوا، پانی، غذا اور دوا ضروری ہے تو روح کی پاکیزگی اور باطن کی اصلاح کے لئے عقائد کی درستی اور شرعی اصولوں کی پابندی اس سے زیادہ ضروری ہے، جس کا انکار کوئی جاہل یا گنوار ہی کر سکتا ہے، اور جن کی طرف التفات بھی نادانی ہے۔
انسانی صلاح وفلاح کے لیے عقل کو کافی ماننا جہالت ہے:
رہا یہ دعویٰ کہ انسان کی رہنمائی کے لئے” اس کی صلاح و فلاح اور کامرانی کے لئے اس کی عقل کافی ہے۔ اس کے لئے کسی وحی الہی کی ضرورت نہیں“ تو یہ جہالت اور نادانی ہے۔ اس لئے کہ اگر بد قسمتی سے انسانی عقل و شعور کی آبیاری وحی الہی کے آب حیات سے نہ ہوئی ہو بلکہ ان کی نشوو نما خود رو گھاس کی طرح ہوئی ہو، جن کے لئے کوئی اصول یا ضابطہ نہیں تو اس میں شک نہیں کہ یہ عقل نہیں، جنون اور دیوانگی کہلانے کی مستحق ہے، جس کا نہ خدا کے یہاں اعتبار ہے، نہ عام انسانوں کے نزدیک اس کا کوئی وزن ہے اور اگر اس قسم کی عقل چنداں مفید ہوتی تو وحی ِالہی سے محروم قومیں کسی صورت بد حالی، گمراہی اور فکری پریشانی کا یوں شکار نہ ہوتیں۔
چنانچہ سورہٴ احقاف میں ارشاد ہے:
وَلَقَدْ مَکَّنَّاہُمْ فِیمَا إِنْ مَّکَّنَّاکُمْ فِیْہِ وَجَعَلْنَالَہُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنی عَنْہُم سَمْعُہُمْ وَلَا أَبْصَارُہُمْ وَلَا أَفْئِدَتُہُمْ مِّنْ شَیْءٍ إِذْ کَانُوا یَجْحَدُونَ بِأَیْتِ اللَّہِ وَحَاقَ بِہمْ ما کَانُوا یَسْتَہْزِءُ وُنَ۔ (احقاف :۲۶)
”اور بے شک ہم نے (عاد) کو ان باتوں میں قدرت دی تھی جن میں تم کو قدرت نہیں دی۔ اور انہیں کان اور آنکھیں اور دل دیئے تھے، تو نہ ان کے کان ان کے کچھ کام آئے اور نہ ان کی آنکھیں اور نہ ان کے دل۔ اس لئے کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ اور جس عذاب کی وہ ہنسی اڑاتے تھے اس نے ان کو آگھیرا۔“
وحی الہی کے بغیر انسانی عقل نفع و ضرر کے فیصلے کرنے سے عاجز ہے:
وحی الہی کے بغیر انسانی عقل نفع و ضرر کے فیصلے کرنے سے اس لئے درماندہ اور عاجز ہے کہ انسانی عقل کی حیثیت بدن کے ایسے عضو کی سی ہے جو قوتِ ادراک اور طاقتِ احساس رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر آنکھ کے اندر دیکھنے کی صلاحیت ہے، اور یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ دیکھنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب روشنی ہو، اجالا نہ ہونے اور گھٹا ٹوپ تاریکی پھیل جانے کی صورت میں آنکھ کی حیثیت بغیر سیل (Cells) کے ٹارچ کی سی ہو جاتی ہے۔ جس طرح سیل کے بغیر ٹارچ روشنی نہیں دے سکتی، روشنی کے بغیر آنکھ کچھ دیکھ نہیں سکتی؛ اسی طرح نور الہی اور وحی خداوندی کے بغیر عقل کسی قسم کا صحیح فیصلہ نہیں کر سکتی۔ اور اگر اس کے باوجود کوئی اپنی عقل کو حق کا معیار سمجھے تو یہ اس کی بھول اور سب سے بڑی نا معقولیت ہوگی، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اسلام جیسا دین ِفطرت جو وحی کا وہ تصور پیش کرتا ہے، جو ہر قسم کی کمی زیادتی اور ردو بدل سے پاک ہے یہ دین مختلف علوم و فنون کی تحصیل پر کسی قسم کی پابندی عائد کرتا ہے یا اس پر مصر ہے کہ تحصیل ِعلم کی تمام کوششوں کو وحی ِالہی اور علوم ِشریعت تک محدود رکھا جائے، اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ:
۱- بیشتر علوم جیسے ادب، اخلاق، تاریخ سیرت (جغرافیہ، نجوم، فلکیات، ہیئت طبقات الارض، ریاضی، ہندسہ طب و جراحت، صنعتی پیداوار، تجارتی کاروبار) اور مختلف علوم و فنون کی نسبت جیسا کہ قرآن پاک کی صراحت اور اس کے بعض اشارات سے پتہ چلتا ہے، بالواسطہ یا بلا واسطہ قرآنِ پاک سے ہوتی ہے،یہ الگ بات ہے کہ جنہوں نے ان علوم کو سنوارا ان کا نام اس علم کے ساتھ مشہور ہوا۔
مادی علوم کا نفع عام طور پر مادّے یعنی جسم اور معدے تک محدود ہوتا ہے، جب کہ روح جس کی اہمیت محتاج بیان نہیں رہی، اس کو ان علوم سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچتااس لئے کہ روحانی سکون اور دل کی تسکین کا اس بازار میں کوئی پرسان ِحال نہیں! چنانچہ اس غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس علم کے ماہرین بظاہر بڑے آرام و راحت کے ساتھ نظر آتے ہیں، لیکن اندر سے ان کی روح کس طرح بے چین رہتی ہے، اس کا احساس کم لوگوں کو ہوتا ہے۔
مادی علوم جن پر وحی الہی کی چھاپ نہ ہو ان کے آزادانہ استعمال سے یہ تو ہوتا ہے کہ کائنات کے سربستہ راز کھل جاتے ہیں، مادوں میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ نئی نئی ایجاد سامنے آتی ہے، جس سے گھڑی بھر کے لئے نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہیں:
یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَہُمْ عَنِ الْآخِرَةِ ہُمْ غُفِلُونَ (روم:۷)
”یہ تو دنیا کی ظاہری زندگی کو جانتے ہیں اور آخرت کی طرف سے غافل ہیں۔“
لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ روحانیت اور اخلاقی قدروں کا دامن چھوڑ جانے کی صورت میں ان ایجادات کے تباہ کن اثرات کا یہ عالم ہے کہ خود ان کے بتانے والے خوف و دہشت سے لرز رہے ہیں، جب کہ یہ مادے اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے باوجود اتنے کو تاہ قامت بھی ہیں کہ اپنے مادی خول سے نہ باہر آسکتے ہیں نہ روحانیت کی تسکین یا ٹوٹے دلوں کو پھر سے جوڑنے کی سکت رکھتے ہیں۔
سائنسدانوں کے پاس’ ’کیسے“کا جواب تو ہے لیکن کیوں کا نہیں:
علاوہ ازیں ظاہری علوم پر جس قدر محنت بڑھ رہی ہے، اور نت نئے تجربات اور ان کے نتائج سامنے آرہے ہیں بارہا یہ ہوتا ہے کہ توقع کے خلاف نتیجہ نکلنے کی صورت میں ان علوم کے ماہرین عاجز اور حیران رہ جاتے ہیں اور دریافت کرنے پر کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ”کیسے“کا جواب ان کے پاس ہے، لیکن کیوں ہوا؟ یہ وہ خود بھی نہیں جانتے۔
ان کی یہ معذوری دراصل وحی الہی سے محرومی کا نتیجہ ہے
تیرے الفاظ نے کر رکھے ہیں دفتر پیدا
ور نہ کچھ بھی نہیں اللہ کی قدرت کے سوا
نیز یہ واقعہ ہے کہ مادی علوم نے طویل محنت اور توسیع تجربے کی بنیاد پر خاصا امتیاز اور کمال اپنے اندر پیدا کر لیا ہے، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج انسانیت اس سے کہیں زیادہ حیران اور دم بخود ہے جتنی کہ ان ترقیات سے پہلے اسے پریشانی لاحق تھی، اس لئے کہ آج ہر ترقی ہلاکت اور تباہی کا ذریعہ بنتی جارہی ہے اور امن و سکون کو دن بدن خطرہ لاحق ہے، جس کا زندہ ثبوت ہمارے سامنے پیش آنے والے روز مرہ کے حالات و واقعات ہیں۔ اور یہ سب سے بین اور کافی ثبوت ہیں۔ ان حالات کے پیش ِنظر یہ اعتراف ضروری ہو جاتا ہے کہ دین حق کا زندگی کے اندر آنا ایسا ہی ضروری ہے، جیسے زندگی کے لئے سانس کی نالی میں ہوا کی آمد و رفت ضروری ہے یا جیسے دھویں کے لئے آگ کا ہونا ضروری ہے۔
آخر میں ہم پھر عرض کریں گے کہ دنیائے انسانیت کی اس جہان اور آخرت میں کامرانی اور سعادت ابدی کا باعث صرف وہ دین ہے، جسے حق تعالی نے بندوں کے لئے بنا کر مکمل کیا اسے اپنی طرف منسوب کیا اور اس پر اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ رہے وہ باطل مذاہب جنہیں خود ان کے ماننے والوں ہی نے توڑ مروڑ کر مسخ کیا، جیسے بدلا ہوا عیسائی اور یہودی مذہب ان کے علاوہ مجوسی، بدھ اور ہندو دھرم وغیرہ اگر انہیں کسی معنیٰ میں دین کہا بھی جائے تو اس میں شک نہیں کہ آج ان میں سے کسی کے اندر اور تمام دوسرے زمینی اور خود ساختہ مذاہب میں روحانیت کا وہ پیغام نہیں ،جو دین ِالہی اور شریعت ِخداوندی کا خاصہ ہے، اس لئے کہ علمائے یہود اور مسیحی پادریوں نے جس چیز کو مذہب کا نام دیا وہ مذہب نہیں مذہب کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔ اور اس بگاڑ کے پیدا کرنے والے وہ خود تھے؛ چنانچہ اس کے نتیجے میں دنیا ان سے فریب کھا گئی اور یہ فیصلہ کر بیٹھی کہ اگر یہی مذہب ہے تو اسے دور سے سلام۔ ایسے مذہب سے باز آنا بہتر ہے۔
خدائی مذہب کا عقل ِسلیم اور فطرت ِمستقیم سے کبھی ٹکراوٴ نہیں ہو سکتا:
ان مذاہب سے عام بیزاری کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ یورپ جس نے ایک زمانے تک مسیحیت کو بطور مذہب قبول کیا وہاں کے متعدد ملکوں نے مختلف سیاسی، سماجی، ثقافتی سائنسی، صنعتی اور تجارتی میدانوں میں اسی صورت ترقی کی جب کہ ان مذاہب کو انہوں نے خیر باد کہا! اس کے بالمقابل یہ حقیقت ہے کہ خدائی مذہب جو اپنی اصل شکل و صورت میں ہو عقل ِسلیم اور فطرت ِمستقیم سے اس کا ٹکراؤ کبھی نہیں ہو سکتا۔
دنیائے انسانیت اور باشعور طبقہ آج اگر رہی سہی انسانیت کی حفاظت چاہتے ہیں۔ مادے اور معدے کے چکر سے نکل کر جہاں ان کی حالت مشین کے پرزوں یا جانوروں کی طرح بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتے ہیں ،بندوں کی غلامی سے نکل کر خدا کی بندگی اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں تو بلا تکلف عرض ہے کہ ان کا گمشدہ سرمایہ یہی دین ِاسلام اور شریعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جو اُن کی ہمہ قسم کی ضرورتوں کی بخوبی تکمیل کر سکتا ہے، ان کی تمام بیماریوں کا علاج اور زندگی کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھا سکتا ہے۔
آج اسلام تمام دانشوروں کو اور ان کے ذریعے سارے عالم کے انسانوں کو رنگ و نسل کی سطح سے بلند ہو کر یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ اس کی طرف لوٹ آئیں۔ اس کے عقائد اس کے احکام اور اس کے مکمل نظام کو اختیار کریں، جس کے اندر ان کے لئے دنیا میں راحت اور آخرت میں نجات کا سامان مہیا ہے، اور جو چودہ سو سال سے ہر قسم کے ردو بدل اور تحریف سے پاک و صاف ہے۔
جہاں انہوں نے دیگر مذاہب اور مختلف ازموں کو جانچا اور پر کھا ،حق کی جستجو اور روشنی کی تلاش کے لئے ایک آزمائش اور سہی! ع
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے؟
(مومن کے عقائد ،ص:۲۶-۱۱۸)