چٹھی( Chit Fund ) کی ایک اسکیم کا شرعی حکم
سائل : جو ّاد زبیر(بنگلور)مجیب: مفتی محمد سلمان مظاہری
السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ!
مفتی صاحب ہمارے یہاں ایک ادارہ ہے جو چٹھی(Chit Fund) چلاتا ہے، اس کا طریقہٴ کار یہ ہے کہ مثلاً اگر ایک لاکھ کی چٹھی ہے اور اس میں حصہ لینے والے دس افراد ہیں تو یہ دس افراد ماہانہ دس ہزار روپے جمع کراتے ہیں، جو کہ مجموعی طور پر ایک لاکھ کی رقم بنتی ہے، اس ایک لاکھ روپے کو ان دس افراد میں سے ،جس کا نام قرعہ اندازی کے ذریعہ پہلے نکل آئے ،اس کو یکمشت دیدیا جاتا ہے، دو پرسنٹ (2%)سرویس چارج کاٹ کے، یعنی جس شخص کا قرعہ اندازی کے ذریعہ پہلے نام آئے تو اسے یکمشت ایک لاکھ روپئے دینے کے بجائے دو ہزار روپئے کاٹ کے اٹھانوے ہزار روپئے (RS:98,000)دیا جاتا ہے۔
پوچھنا یہ تھا کہ کیا ہمارے لئے اس طرح کی اسکیم میں حصہ لینا درست ہے ؟ اورکیا کسی ادارہ یا فردکا اس طرح کی اسکیم کو چلانے کے لئے دو پرسنٹ (2%)سرویس چارج کے نام سے وصول کرنا جائز ہے؟
فقط والسلام
ڈاکٹر محمداختر(وانمباڑی)
الجواب حامداً ومصلّیا
سوال میں جو کیفیت ”چٹھی “ کی ذکر کی گئی ہے، اس کے اعتبار سے یہ حقیقت میں ایک قرض کا معاملہ ہے، جس میں حصہ لینے والے تمام افراد گویا کہ آپس میں یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ ان میں سے ہر ممبر ماہانہ ایک معین رقم جمع کرائے گا، اور پھر وہ جمع شدہ رقم انہیں ممبران میں سے کسی ایک ممبر کو قرعہ اندازی کے ذریعہ منتخب کرکے بطورِ قرض دیدی جائے گی، اور وہ شخص اس قرض کو ماہانہ قسطوں کی شکل میں واپس لوٹائے گا۔
حقیقت میں یہ ایک باہمی تعاون کی بہترین شکل ہے کہ اس کے ذریعہ ایک شخص کو یکمشت بڑی رقم بطور ِ قرض کے حاصل ہوجاتی ہے، اور ماہانہ قسطوں کی شکل میں ادائیگی کی وجہ سے اس قرض کی واپسی میں سہولت بھی ہوتی ہے، لہذا اگرتمام ممبران وقت پر رقم جمع کرائیں اور بقیہ ممبران کو بھی برابر برابر رقم ملے تو اس صورت میں ”چٹھی“کی اس اسکیم میں کوئی شرعی قباحت نہیں اور اس میں حصہ لیناجائز ہے۔
البتہ اگر اس بات کا خطرہ ہو کہ جس شخص کا نام قرعہ اندازی میں پہلے آگیا ،وہ پیسہ لیکر وقت پر اقساط کی ادائیگی نہیں کرے گا، یا آئندہ قسطوں کی ادائیگی سے ہی مُکر جائے گا،تو ایسی صورت ِ حال میں اس طرح کی اسکیم کو شروع کرنا اور اس میں حصہ لینا ہی درست نہیں؛ تاکہ ایک دوسرے کا حق ضائع نہ ہو، اس لئے جس ادارہ کے ذریعہ بھی آپ اس طرح کی اسکیم میں حصہ لینا چاہتے ہیں ،اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیں کہ آیا وہ ادارہ یا فرد اس اسکیم کوبحسن ِخوبی پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا بھی ہے کہ نہیں، اگر آپ اس ادارہ یا فردکی اچھی طرح تحقیق و تفتیش کے بعد اور اس ادارہ یافرد کے ماضی کے تجربات سے مکمل طور پر مطمئن ہوکراس اسکیم میں حصہ لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں، ورنہ اس سے احتراز بہتر ہے۔
تجری القرعة فی مواضع منھا الأول فی تمییز المستحق اذاثبت الاستحقاق ابتداء لمبھم غیر معین عند تساوی المستحقین۔
(الموسوعہ الفقہیہ:۳۳/۱۳۸)
ھو عقد مخصوص یرد علی دفع مال مثلی لا ضرر لیرد مثلہ وصح فی مثلی لا فی غیرہ۔
(تنویر الابصار : ۵/۱۶۱)
اب رہا مسئلہ سوال میں مذکور ادارہ یا فردکا اس طرح کی اسکیم کو بحسنِ خوبی پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ہر شخص سے سروس چارج کے نام پر دو پرسنٹ (2%) رقم وصول کرنا جائز ہے کہ نہیں؟
اس سلسلہ میں اصل حکم یہ ہے کہ ہر ایک نئی ”چٹھی“ کے شروع کرتے وقت ہی تمام ممبران کی باہمی رضا مندی سے یہ بات طے کرلی جائے کہ یہ ادارہ یا فرد چوں کہ اس اسکیم کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کی ساری ضروریات خود مہیا کرتا ہے ،اس لئے جو بھی ضروری اخراجات ہیں ان کی ذمہ داری سارے ممبران خودپوری کریں گے، یعنی اس اسکیم کو چلانے کے لئے اگر حقیقت میں دو فیصد رقم خرچ ہوتی ہو تو اس دوفیصد رقم کو ہم تمام ممبران مل کر ادا کریں گے، اور ساتھ ہی اس بات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ جو ادارہ یا فرد اس اسکیم کو چلانے والا ہے وہ خود اس اسکیم میں حصہ نہ لے۔
اس دو پرسنٹ(2%)رقم کا بنامِ سروس چارج کاٹنے کے جواز کی دلیل یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر ”چٹھی“ کے بارے میں یہ وضاحت کی گئی کہ یہ ایک قرض کا معاملہ ہے، اور معاملہٴ قرض میں ہر اعتبار سے کمی زیادتی سے بچنا حتی المقدور ضروری ہے؛ تا کہ اس میں کسی طرح کا شبہِ ربابھی نہ پایا جائے،لیکن چوں کہ اگر کوئی فردیاادارہ اس طرح کی اسکیم کو لے کر کھڑا ہوتا ہے، تو اس کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لئے وقت اور پیسہ دونوں درکار ہوتے ہیں،اور یہ بظاہر مشکل ہے کہ اس طرح کی اسکیم کو عام لوگوں کی عطیات و صدقات سے ایک لمبی مدت تک چلایا جاسکے ، تو بوجہ مجبوری ان اخراجات کے بقدر رقم انہی لوگوں سے وصول کرنا جائز ہے، جو اس اسکیم میں حصہ لینے کے خواہش مند ہیں ۔
وَلیُملِلِ الَّذِی عَلَیہِ الحق۔ الآیة (البقرہ: ۲۸۲)
لہذا اگر کوئی فرد یا ادارہ تمام لوگوں کی باہمی رضامندی سے، اس اسکیم کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جو بھی حقیقی اخراجات (Actual Cost) ہیں، اس کی حد تک رقم بطور سروس چارج کے وصول کرنا چاہے تو کرسکتاہے ، لیکن کسی ادارہ یا فرد کے لئے اس سروس چارج کے بہانے حساب و کتاب میں گول مول کرکے حقیقی اخراجات (Actual Cost) کو زیادہ دکھا کرکسی بھی طرح کا فائدہ اٹھانا جائز نہیں، ورنہ سود خوری کی بنا پر خود بھی گنہ گار ہوگا اور جو لوگ اس اسکیم میں حصہ لیتے ہیں ان کے بھی گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب بنے گا ۔
عن جابر رضی اللہ عنہ قال :لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم آکل الربوا، وموٴکلہ، وکاتبہ، وشاھدیہ، وقال ھم سواء۔(مسلم شریف: ۲/۲۷)
لا خلاف بین الفقھاء فی أن اشتراط الزیادة فی بدل القرض للمقرض مفسد لعقد القرض سواء أکانت الزیادة فی القدر، بأن یرد المقترض أکثر مما أخذ من جنسہ أوبأن یزیدہ، وان ھذہ الزیادة تعد من قبیل الرباء۔
(الموسوعة الفقہیہ: ۳۳/۱۳۰)
چنانچہ دارالافتاء( دارالعلوم دیوبند)سے اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں یہ بات مذکور ہے :
”بیت المال میں موجود افرا د اگر رقم جمع کرنے میں محنت کرتے ہیں ،تو محنت کے بقدر بیت المال والوں کے لئے زائد رقم لینا درست ہوگا، اس کو حصولِ زر کا ذریعہ بنانا درست نہیں، یہ سود میں داخل ہوگا، بیت المال کے افراد کتنی محنت کرتے ہیں یہ ہمارے سامنے نہیں، اس لئے اس پر کوئی حکم لگانا مشکل ہے کہ بیت المال والوں کا اتنی رقم لینا درست ہے یا نہیں۔ آپ خود اس کی تحقیق کرلیں “ ۔
(Published on :Feb 23, 2014. #50612)
الغرض سوال میں مذکور ادارہ یا فرد اگر دو فیصد رقم ضروری اخراجات کے نام سے کاٹتا ہے تو خود اس ادارہ یا فردکی ذمہ داری ہے کہ اس بات کی تحقیق کرے کہ آیا وہ دو فیصد رقم ضروری اخراجات کی مَد میں صرف ہوتے بھی ہیں کہ نہیں، اگر دو فیصد یا دو فیصد سے کچھ زیادہ ہی خرچ ہوتا ہو اور اس زیادتی کو خود ادارہ یا فردبرداشت کرتا ہو تو یہ ادارہ یا فردکی جانب سے تبرع سمجھا جائے گا،اس کے بالمقابل اگروہ دوفیصد رقم مکمل طور پرخرچ نہ ہو؛ بلکہ حقیقی اخراجات پورا ہونے کے بعد بھی کچھ رقم باقی ہو تو ایسی صورتِ حال میں اس ادارہ یا فرد کی اخلاقی وشرعی ذمہ داری ہے کہ جتنی بھی رقم بچے اس کو وہ ادارہ یا فرد خود استعمال نہ کرے، بلکہ اس بچی ہوئی رقم کو اس اسکیم میں حصہ لینے والوں کے درمیان ہی تقسیم کردے چاہے چار آنہ ہی کیوں نہ ہو، ورنہ سود خوری کے وبال کا مستحق ہوگا۔
قال اللّٰہ تعالیٰ : وأحلّ اللّٰہ البیع و حرّم الرّبا۔ الآ یة (البقرہ :۲۷۵)
عن علی رضی اللہ عنہ قال: قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کل قرض جر منفعة فھو ربا۔ (کنزالعمّال: ۶/۹۹)
وا للّہ سبحانہ وتعالی أعلم با لصواب