مولانا محمد مرشد صاحب قاسمی ؔ /استاذ جامعہ اکل کوا
قرآنِ کریم ایک نہایت معجزکتابِ الٰہی ہے ؛جہاںاس کے الفاظ وعبارات،مفردات ومرکبات نے بڑے بڑے ادبا،بلغااورفصحاکواِس کامثل لانے سے عاجزرکھا،وہیںاس کے مضامین وارشادات کی جامعیت نے اہلِ عالم کوحیرت واستعجاب کے سمندرمیںڈال دیا۔
حضرت امام شافعیؒ کاارشاد:
اس کی ایک چھوٹی سی سورت’’والعصر‘‘کے بارے میںحضرت امام شافعیؒ نے فرمایا:جواِس سورت کے مضامین پرغوروفکرکرلے،اس کی دنیاوآخرت کی بھلائی کے لیے کافی ہے ۔جب ایک چھوٹی سی سورت کایہ حال ہے،تواگرپورے قرآن کریم میںغوروخوض کیاجائے تواس سے نہ جانے کتنے قیمتی گوہرِآب داراوردرِنایاب دست یاب ہوںگے؛چناںچہ حضرات ِمفسرینؒ نے اس میںاپنی پوری زندگی کھپاکراس کے اعلیٰ مضامین کوجمع کیا اور اس کے اونچے اونچے مقاصدکوکھول کرامت کے سامنے رکھ دیا۔یہاںپراختصاراً اس کے چندمقاصدکی طرف اشارہ کیا جا رہاہے ۔
۱-تدبروتفکرکی دعوت:قرآنِ کریم انسانی ذہنوںکوکھولتااوراس کے جمودکوختم کرنا چاہتا ہے ۔ کہ اللہ کی دی ہوئی دماغی صلاحیت کوہم قرآنِ کریم اورقدرت کی نشانیوںمیںغوروفکرکے لیے استعمال کریں۔ قرآن کریم کہتاہے:{کتٰب انزلنٰہ الیک لیدبرواآیاتہ ولیتذکراولواالالباب}(ص:۲۹)
ترجمہ: یہ ایک بابرکت کتاب ہے،جس کوہم نے آپ کی طرف نازل کیاتاکہ اِس کی آیتوں میں تدبر کریںاورتاکہ عقل والے نصیحت حاصل کریں۔کہیںکہتاہے:{ان فی ذالک لآیات لقوم یتفکرون } (الروم) ’’اس میںنشانی ہے غوروفکرکرنے والوںکے لیے‘‘۔
قرآنی آیات اورقدرتِ الٰہیہ میںغوروفکرکرنے سے ہدایت کی راہیںکھلتی ہیں،اس لیے اس قرآن کو کتابِ ہدایت بھی کہاگیاہے ۔ہدایت کی راہیںکھلنے کے بعدسب سے پہـلے انسان کوخداکی معرفت حاصل ہوتی ہے ،عقیدۂ توحیدسمجھ میںآتاہے ۔فارسی کاایک شاعرکہتاہے ؎
ہرگیاہے کہ اززمیں روید
وحدہ لاشریک لہ گوید
کہ جوگھاس زمین سے اگتی ہے،یہ کہتی ہے کہ مجھے اگانے والی ذات تنہاہے ،اس کاکوئی شریک نہیں۔
خداکی معرفت ،عقیدۂ توحید‘قرآنِ کریم کے بنیادی مقاصدمیںسے ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے: {قل انما انابشرمثلکم یوحیٰ الیَّ انماالٰہکم الٰہ واحدفاستقیمواالیہ}(حم سجدہ)
ترجمہ:آپ فرمادیںکہ میںتمھاری طرح ایک بشرہوں؛بس یہ کہ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمھارامعبودایک ہی ہے ،پس اس کی طرف سیدھ باندھ لو۔
۲-تزکیہ نفوس: قرآن ِکریم کاایک بڑامقصدانسان کے نفوس وقلوب کوسنوارنابھی ہے ۔ انسان اعلیٰ ہے ،اس لیے اس کاقلب بھی اعلیٰ وبالااورصفتِ بہمیت وحیوانیت سے پاک ہوناچاہیے،دل سنور جائے توانسان سنورجائے گااورجب انسان سنورجائے توپھرکائنات اورعالم سنورجائے گا؛اِسی لیے حضرات انبیائے کرام نے سب سے زیادہ محنت قلب ہی پرکی ہے ۔جسم پرکتنی بھی محنت کی جائے،لیکن دنیاسے شرکاخاتمہ نہیںہوسکتا؛لیکن قلب اورنفس سنورجائے توبغیرکسی فوجی اورپولیس کی طاقت کے؛ ہی شروفسادکاخاتمہ ہوجائے گا۔قرآن کریم ایک جگہ بڑی تاکیدی اندازمیںسات قسمیںکھاکرکہتاہے:{والشمس وضحٰہا، والقمر اذاتلٰہا،والنہاراذاجلٰہا،والیل اذایغشٰہا،والسمآء ومابنٰہا،والارض وماطحٰہا ،ونفس وما سوٰہا، فالہمہافجورہاوتقوٰہا}سات قسموںکے بعداللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:{قدافلح من زکٰہا} وہ شخص کام یاب اوربامرادہوگیا،جس نے اپنے نفس کوپاکیزہ بنالیا۔
۳-اقامۃ العدل:عدل وانصاف قائم کرنا۔قرآنِ کریم ہی نے ،بل کہ ہم سمجھتے ہیںکہ تمام دینِ الٰہیہ اورشریعتِ سماویہ کااہم مقصدانصاف قائم کرناہے۔قرآن کریم ایک جگہ نہایت واضح اندازمیںکہتاہے:{ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربیٰ}(النحل)
ترجمہ: یقینااللہ تعالیٰ انصاف،حسن ِسلوک اوررشتہ داروںکودینے کاحکم فرماتاہے ۔ایک دوسری جگہ ارشادہے:{لقدارسلنارسلنابالبینات وانزلنامعہم الکتٰب والمیزان لیقوم الناس بالقسط وانزلناالحدید فیہ باس شدید}(الحدید)
ترجمہ:ہم نے اپنے رسولوںکونشانیوںکے ساتھ بھیجااورہم نے ان کے ساتھ کتاب اورترازوکو اتارا؛تاکہ لوگ انصاف قائم کریں۔اورلوہے کواتارا،جس میںسخت ہیبت ہے ۔
معلوم ہواکہ کتابیںاوررسولوںکے بھیجے جانے کامقصدبھی اقامتِ عدل ہے ۔کہ لوگ ہمیشہ ہرایک کے ساتھ انصاف کریں،اہل حکومت اپنی رعایاکے ساتھ،ذمہ داراپنے ماتحتوںکے ساتھ انصاف کریںـاورظلم وعدوان سے بچیں۔اورظلم وعدوان کے خاتمے کے لیے لوہے سے ہتھیاربنائیں؛ تاکہ لوگ ڈریںاورظلم سے بازرہیں۔یہاںتک قرآن کریم کی تاکیدہے کہ کبھی انسان کسی سے دشمنی کی بنیادپربے انصافی شروع کردیتاہے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :{ـلایجرمنکم شنآن قوم علیٰ ان لاتعدلوا}کہ کسی قوم کی دشمنی تم کوبے انصافی پرآمادہ نہ کرے۔
۴-ایفائے عہدوپیمان: تمام عہدوپیمان کوپوراکیاجائے۔دشمنوںسے بھی جومعاہدہ ہو،اس کوتوڑنے کی اجازت نہیں۔سورۂ مائدہ کواللہ تعالیٰ نے اِسی مضمون سے شروع کیا۔{یٰایہاالذین آمنوا اوفوا بالعقود} (المائدۃ)
ترجمہ: اے ایمان والو!عہدوپیمان کوپوراکرو۔
اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہدکوبھی پوراکرنااوربندوںکے ساتھ کیے ہوئے عہدکوبھی پوراکرناہے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:{اوفوابعہداللہ اذاعاہدتم ولاتنقضوالایمان }(النحل)
ترجمہ: اللہ کے عہدکوپوراکرو،جب تم نے عہدکیااورقسموںکومت توڑو۔
ایک جگہ عہدوپیمان توڑنے والوںکواُس مجنونہ عورت سے تشبیہ دی گئی ہے،جودن بھرچرخہ چلاتی ، دھاگے بُنتی اورشام کوسارے دھاگے توڑڈالتی ہے۔ارشادہے:{ولاتکونواکالتی نقضت غزلہامن بعد قوۃ انکاثاً}(النحل)
’’ تم اپنے آپ کواس عورت کی طرح مت بناؤ،جواپنے بنے ہوئے سوت کابالکل ٹکڑے ٹکڑے کرڈالتی تھی‘‘۔
قرآنِ کریم ایسی چیزوںکی تعلیم دیتاہے،جس سے انسانوںکی شرافت اورقدرومنزلت بڑھے۔ہرایسے وصف سے دوررکھتاہے،جواس کے وقارکوخاک میںملادے؛کسی قوم یا برادری یاملک کے ساتھ کیے ہوئے عہدوپیمان کوتوڑناانسانی قدرومنزلت اوراس کی شرافت کویکسرمجروح کردیتاہے ،اس لیے قرآن ِکریم نے اِس بری خصلت سے روکا۔
۵-عالم میںامن وامان قائم ہو: اسلام امن وشانتی کامذہب ہے ۔اسلام شروع ہی سے سلامتی اورامن کادرس دیتاہے ۔وہ ظلم وفسادکوہرگزپسندنہیںکرتا؛قارون جودولت کے نشے میں چور اورغرورمیںمست ہوکرفسادوبگاڑچاہتاتھا،اللہ نے کتنے اچھے اندازمیںفرمایا:{لاتبغ الفسادفی الارض ان اللہ لایحب المفسدین }(القصص)
ترجمہ: زمین میں فسادمت پھیلاؤ،یقینا اللہ تعالیٰ زمین میں فسادوبگاڑ کرنے والوںسے محبت نہیںکرتے۔ایک جگہ پرمنافقوںکوسمجھایاگیاکہ:{لاتفسدوافی الارض}(البقرۃ)
’’کہ زمین میں فسادمت پھیلاؤ‘‘۔
قرآن کریم تواپنے ماننے والوںکویہ حکم دیتاہے:{وتعاونواعلی البروالتقویٰ ولاتعاونواعلی الاثم والعدوان}(المائدۃ)
’’تم نیکی اورتقویٰ کے کام پرایک دوسرے کی مددکرو۔گناہ اورظلم کے کاموںمیںکسی کی مددنہ کرو‘‘۔
معلوم ہواکہ قرآن نے مومن مخلص کوفسادکی تعلیم ہی نہیںدی۔وہ تواس سے منافقوںاورغیروںکوبھی روکتاہے، قرآن کریم میںایک جگہ پرآیاہے کہ:{ان الابرارلفی نعیم}(الانفطار)’’نیک لوگ جنت کی نعمتوں میں ہوںگے‘‘۔
حضرت حسن بصریؒ سے پوچھاگیاکہ نیک لوگ کون ہوتے ہیں؟آپ نے دوباتیںارشاد فرمائیں: ’’الذین لایوذوالزرولایرضون الشر‘‘جوچیونٹیوںکوبھی تکلیف نہیںدیتے اوربرائی کوکسی حال میں پسندنہیں کرتے۔اسلامی اورقرآنی تعلیم تویہاںتک ہے کہ ہرترجگروالے کو کھلانے پلانے میںاجرہے ۔ایک کتے کوپانی پلانے پرجنت مل جاتی ہے اورایک بلی کوستانے پرجہنم کی سزاکا مستحق ہوجاتا ہے ۔
۶-سچی حکومت وسیاست قائم ہو: قرآن چاہتاہے کہ پورے عالم میںسچی حکومت اورسچی سیاست قائم ہو۔ایسی حکومت وسیاست ؛جس کی مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضراتِ خلفائے راشدین نے پیش کردی،جس کاتذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس اندازمیں کیا:{وعداللہ الذین آمنوامنکم و عملوا الصٰلحٰت لیستخلفنہم فی الارض کمااستخلف الذین من قبلہم ولیمکنن لہم دینہم الذی ارتضیٰ لہم ولیبدلنہم من بعد خوفہم امناً}(النور)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ایما ن والوںاورنیک اعمال کرنے والوںسے وعدہ کیاہے کہ ضروربالضرور ان کوزمین کی حکومت دیںگے،جیساکہ پہلے لوگوںکودی گئی ۔اوران کوایسے دین پرقابودیںگے،جس سے اللہ راضی ہوتے ہیں۔اوراللہ تعالیٰ ان کے خوف کوامن سے بدل دیںگے۔
اللہ تعالیٰ نے ایسی حکومت کانمونہ دکھادیا۔دنیا نے حضراتِ خلفائے راشدین کی حکومت کو دیکھ لیا۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کااشارہ بالکل سچاثابت ہوا:اسلام اورقرآن کی برکت سے ایسا معاشرہ اورایسی حکومت قائم ہوگی کہ ایک عورت صنعاسے حضرَموت کاسفرکرے گی اوراسے اپنی جان،مال اورعزت کاکوئی اندیشہ نہیں ہوگا۔
۷-عالم میںخیروبرکت ہو: قرآن چاہتاہے کہ ہرجگہ خیروبرکت ہو۔اِس کتاب کوسراپا برکت کہاگیاہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:{ہٰذاذکرمبارک انزلناہ الیک}(الانبیاء)
’’یہ مبارک کتاب ہے،جوہم نے آپ کی طرف اتاری‘‘۔جس قدراس کے احکام اورقوانین پرعمل ہوگا، دنیامیںخیروبرکت عام ہوگی۔آج ضرورت ہے کہ دنیاکی ساری حکومتیںقرآنی قوانین کی طرف آجائیں۔ سارے شروفسادکاخاتمہ ہوکراس کی جگہ خیروبرکت آجائے گی۔قرآن کہتاہے:{ولوانہم آمنوا واتقوا لفتحنا علیہم برکٰت من السمآء و الا رض}(الانعام) ’’اگرلوگ ایمان لے آئیںاورتقویٰ اختیارکرلیںتوہم ضروربالضروران پرآسمان اورزمین کی برکتوںکوکھول دیںگے‘‘۔
قرآن کاوعدہ بالکل سچاہے ۔ہم اپنی نیتوں،حرکتوںاوراعمال کوبدلیں۔اللہ تعالیٰ خیروبرکت والاماحول پیداکردیںگے۔سارے لوگوںکی زبان پرجوآج ملک وزمانے کے حالات کی شکایت ہے کہ بدل جائے ،توبدل جائیںگے،لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے ہم خود اپنے کوبدلیں۔اورقرآنی نقشے پرساری انسانیت کی زندگی ڈھل جائے ۔ {ان اللہ لایغیرمابقوم حتیٰ یغیروا مابانفسہم}میںیہی بات توبتلائی گئی ہے ۔
۸-اس کے پیغام کوعالم تک پہنچانا: قرآن اس بات پرخوب زوردیتاہے کہ اس کے پیغام کودوسروںتک پہنچایاجائے ؛یہی وجہ ہے کہ ایک جگہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا: {یٰایہاالرسول بلغ ماانزل الیک من ربک}(المائدۃ)
’’اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ پہنچا دیں جو باتیںآپ کی طرف اتاری گئی ہیں‘‘۔دوسری جگہ ارشادہے:{اتل مااوحی الیک}’’آپ تلاوت کریںاس وحی کی،جوآپ کی طرف کی گئی‘‘۔
ایک جگہ پرصراحتاً نزولِ قرآن کے مقصدکی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: {تبارک الذی نزل الفرقان علیٰ عبدہ لیکون للعٰلمین نذیراً}(الفرقان) ’’عالی شان ہے وہ ذات جس نے قرآن کواپنے بندے پراتارا؛تاکہ آپ دنیاوالوںکے لیے ڈرانے والے ہوں‘‘۔ہمارے اوپربھی حق واجب اورلازم ہے کہ اس کے پیغام کوعالم میںبسنے والے سارے انسانوںتک پہنچائیں۔
۹-حفاظت: قرآن سے وابستگی میںکائنات اورانسانیت کی حفاظت ہے ۔جواس پرعمل کرے، اس کے حکموںپرچلے،جواس کی تلاوت اورعمل کااہتمام کرے اورجواس کواحترام اورعظمت کی نگاہ سے دیکھے، ضروراس کی حفاظت ہوگی۔اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:{انانحن نزلناالذکروانالہ لحافظون}(الحجر)
’’کہ ہم نے اس کواتارااورہم ہی اس کی حفاظت کریںگے‘‘۔ظاہرہے کہ جب قرآنِ کریم کی حفاظت ہوگی،توپھراس کے ماننے اورچاہنے والوںکی بھی حفاظت ہوگی۔
۱۰-اتحاداورجوڑپیداکرنا: قرآن نے دلوںکوجوڑا،قوموںکوجوڑااورعالم کوایساجوڑاکہ عرب وعجم اورکالے گورے ایک ہوگئے ۔سب کوایک دسترخوان اورپلیٹ فارم پرایساجمع کیاکہ شایدپوری دنیاکی دولت خرچ کرکے بھی وہ اتحاداورجوڑ پیدانہیںکرسکتے تھے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:{والف بین قلوبہم لو انفقت مافی الارض جمیعاً ماالفت بین قلوبہم}(الانفال)’’ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوںکوجوڑا۔اگرتم زمین بھرکی ساری دولت خرچ کرلیتے ،توبھی جوڑ نہیں سکتے تھے‘‘۔ایک اورجگہ ارشادہے:{واذکروانعمت اللہ علیکم اذکنتم اعدآء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخواناً}(آل عمران)’’ یادکرواللہ تعالیٰ کی نعمتوں کوجب تم دشمن تھے،سواللہ تعالیٰ نے تمھارے دلوںکوجوڑدیا۔تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے‘‘ ۔
اسلام نہیںچاہتاکہ دلوںمیںکینے اورنفاق رہیں۔اسلام توکینے دورکرنے اورختم کرنے کی دعاسکھاتا ہے {ربنالاتجعل فی قلوبناغلاللذین آمنوا}(الحشر)
’’کہ اے ہمارے پروردگار!ہمارے دلوںمیںایمان والے بھائیوںکے تعلق سے دل میںکینہ نہ بنائیے۔
ہم قرآن کریم کے اِن مقاصدکی طرف آئیں،تاکہ ہماری ذاتی زندگی سنورجائے۔تمام عالم میںامن وامان قائم ہواورتمام حکومتوںکے نظام میںاستحکام اورمضبوطی پیداہو۔تلک عشرۃ کاملۃ۔