بقلم:مولانا افتخار احمد قاسمیؔ بستویؔ /استاذ جامعہ اکل کوا
اللہ علیم ہے ، حکیم ہے ، اس کا ہر حکم علم کی روشنی میں وقوع پذیر اور حکمت و دانائی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔اس نے اپنی حکمت ودانائی اور علم کی روشنی میں، کائنات کے چلانے کے لیے انسانوں میں توالد و تناسل کا نظام رکھا ہے ۔ اِس نظام کے آئین وضع فرمائے ہیں ، ان کو اپنے بر گزیدہ بندوں کے ذریعے پوری کائنات میں عام کیا ہے ۔ انسان کو مردو زن میں تقسیم فرماکر اُن میں ملاپ کا ضابطہ رکھا ہے ۔ اس سے نسل انسانی باقی رہے گی اوردنیا روز بروز ترقی کی راہ پر گام زن رہے گی ۔ اس سے زن و شو کے رشتے وجود میں آئیںگے ۔ ماں باپ ، بیٹے بیٹی ، پوتے پوتیاں ، بھائی بہن ، چچا چچی ، بھتیجا بھتیجی ، بھانجابھانجی ، پاس پڑوس اور اجنبی وغیر اجنبی کے درمیان رشتوں کی نوعیت کا پتہ چلے گا۔
اِس کو تشریعی نظام بنا کر اس پر ثواب وعذاب کا قانون رکھا ہے۔ جانوروں میں بھی اِس کا نظام تکوینی طور پر رکھ کر، بندگانِ خدا کو یہ تعلیم و تلقین دی ہے کہ نر و مادہ آپس کے تعلقات رکھا کریں ۔ نر ، نرسے اور مادہ ، مادہ سے تعلق و ملاپ رکھے گا ،تو یہ عمل فضول اوربے فائدہ ہوگا ۔ اِس سے کائناتی نشو و نما کی رفتار میں سرعت و ترقی کا عمل نہ صرف ڈھیلا پڑے گا، بل کہ نظامِ کائنات کی شاہراہِ ترقی بھی مخدوش ہوجائے گی ۔ نر و مادہ کا آپس میں ملنا اسی طرح آزادی کہلائے گا ،جیسا کہ دنیا کی ہر چیز اپنے عمل میں نفع دینے کے لیے آزاد رکھی گئی ہے ۔ آنکھ سے روشنی وابصار کا عمل ، کان سے سماعت کا عمل ، ہاتھ سے گرفت کا عمل اورمنھ ، ناک اور دانت سے کھانے سونگھنے اور چبانے کا عمل آزادی سے صادر ہوتا رہے گا ۔کان زمانۂ دراز سے سنتا آیا ہے ، کھاتا نہیں ۔ منھ لمبے زمانے سے کھاتا آیا ہے ، اسے دیکھنے کی آزادی نہیں۔ ناک ایک طویل ترین عرصے سے سونگھنے کے عمل میں مقید ہے ، اسے گرفت وپکڑکے عمل کی آزادی نہیں۔ جس طرح ہمارے اعضا ئے مذکورہ اپنے اپنے عمل میں آزادی سے کام کررہے ہیں تو انسان ترقی کررہا ہے۔ اِسی طرح زن و شو آئینِ الٰہی کی پابندی میں رہ کر نسلِ انسانی میں توالد وتناسل کے ذریعے اضافے کا سبب آزادی سے بنتے رہیںگے تو کائنات قائم وباقی رہے گی ۔ جس طرح یہ کہنا خلافِ عقل وقیاس ہے کہ عرصے سے آنکھ کو دیکھنے کے عمل میں قید کرکے رکھ دیا گیا ہے ، اُس کو آزاد چھوڑدینا چاہیے کہ اپنی مرضی سے وہ اب کھایا یا سونگھا کریں۔اِسی طرح یہ بات بھی خلافِ عقل وخرد ہے کہ زمانے سے مرد و زن آپس میں مل کر ،قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرکے؛ نسلِ انسانی میں افزائش وترقی کا باعث تھے ، انہیں اب آزاد رہ کر کسی سے بھی مل کر اپنی آزادی کا دم بھر نا چاہیے ۔ مرد آزادی سے مرد سے اور عورت آزادی سے عورت سے مل لیا کرے یامرد کسی بھی عورت سے یا عورت اپنے خاوند کو چھوڑکر کسی بھی مرد سے آزادی سے مل لیا کرے۔ تو اب اصل آزادی کے معنی وجود پذیر ہوںگے ۔
ایسا کہنا الفاظ کی چمک دمک اور جملوں کی رونق کے ساتھ ، لوگوں کو دھوکہ دینا ہے ۔ یہ تو معامـلے کو الٹ کر بساطِ عالم میں انقلاب برپا کرنا ہے ۔
مرد آزادی کے ساتھ اپنی ملکۂ کائنات زوجہ پاک وصاف سے اکیلے ، تنہائی میں ملتا تھا ۔ پاکیزہ رشتے رونما ہوتے تھے ، میاں بیوی کا رشتہ ، بیٹے بیٹی اور ماں باپ کا رشتہ ، بہن بھائی کا رشتہ ، بھانجا بھانجی ، چچا چچی بھتیجا بھتیجی اور دیگر تمام رشتے تقدس وپاکیزگی سے وجو د پذیر ہوتے رہتے تھے ۔ اب جب مرد؛ مرد سے ملے گا اور عورت ؛عورت سے ، تو کھیت میں تخم پاشی نہ ہوگی ۔ بیج گویا کہ سخت زمین یا پتھریلی زمین میں ڈال دیا گیا جہاں پودا اگنے ، اناج پیدا ہونے اور غلہ جات کی تمنا ہی بے سود ہوگی۔ اب مرد اور مرد میں نہ کوئی زوج ہوگا نہ زوجہ ، ان سے اب کہاں ماں باپ کا رشتہ جنم لے گا ۔ اب بیٹا بیٹی کہاں دکھائی دیںگے ۔ بہن بھائی بھتیجا بھتیجی ، چچا چچی اورماموں ممانی کے سارے رشتے عنقا ہوجائیںگے ۔
اِسی طرح اگر خاوند اپنی بیوی کو چھوڑ کر کسی اور خاتون سے تعلقات کی پینگ بڑھائے گا تو تقدس تیشہ زنی کے علاوہ کیا ہوگا؟ بیوی اپنے خاوند سے ہٹ کر دوسرے مرد سے اظہارِ محبت کی شیدائی ہوگی تو پاکیزہ توالد و تناسل کہاں ہوگا ؟بہن بھائی بیٹابیٹی اور ماں باپ کا رشتہ پاکیزگی کے ساتھ علی الاعلان اب پکارا نہ جاسکے گا ، اب تو سارے کام خاموشی کے ساتھ چھپ چھپا کر ہواکریںگے ۔
اللہ تعالیٰ پوری کائنات کی فلاح وبہبود کے لیے بہت پہلے ہی آگاہ کرچگا ہے کہ بندگانِ خدا اپنی اصطلاح وضع کرکے آزادی کو غلامی اور غلامی کو آزادی قرار دینے کا گناہ نہ کریں۔ اِس سے اُن کا کائناتی پیمانے کا نقصان تو ہوگا ہی ، آخرت بھی برباد ہوگی ۔ مرنے کے بعد کی زندگی بھی سوخت اور عذاب کی نذر ہوجائے گی ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے چوتھے پارے ، سورہ نسا ء کے تیسرے رکوع کی سولہویں آیت میں فرمایا ہے :
{ وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِھَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْھُمَا فَاِنْ تَابَاوَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْھُمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا } (النساء :۱۶)
’’جو دو مرد کریں تم میں سے وہی بد کاری تو ان کو ایذا دو ، پھر اگر وہ دونوں توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں تو اُن کا خیال چھوڑ دو ، بے شک اللہ قبول کرنے والا مہر بان ہے ۔ ‘‘ (ترجمہ شیخ الہند)
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ ِاس آیت کے فوائد کے تحت تحریر فرماتے ہیں : ’’ یعنی دو شخص خواہ ایک مرد اور ایک عورت ہو ، خواہ دونوں مردہوں ، اگر فعلِ بد کریں تو اُن کی سزا مجملًا ایذا دینا ارشاد فرمایا ۔ زبان سے ہاتھ ٍسے بہ قدرِ مناسب اُن کو تنبیہ وتادیب کرنے کا حکم ہوا ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اس وقت زنا اور لواطت دونوں کا یہی حکم تھا کہ حاکم اور قاضی کے نزدیک زجر و عبرت کے لیے جتنی سزا اور شتم وضرب مناسب ہو ، اتنی سزا دی جائے ۔ اس سے بعد حسبِ وعدہ حد زنا ، نازل ہوئی تو لواطت کے لیے کوئی جدا حدبیان نہ فرمائی ، اِس میں علما کا اختلاف رہا ہے کہ لواطت کی بھی وہی حد ہے جو زنا کے لیے بیان ہوئی یا لواطت کی وہی سزا باقی رہی ہے جو پہلے کی تھی یا اُس کی سزا تلوار سے قتل کرنا یا کسی دوسرے طریقے سے مار ڈالنا ہے ۔
فائدہ: اِس آیت کو بہت سے علما نے زنا پر حمل کیا ہے اور بعض نے لواطت پر اور بعض نے دونوں کو شامل رکھا ہے۔ (تفسیر سورہ نساء )
پوری دنیا اور کائنات کے ذرے ذرے کا حاکم مطلق وہی خالقِ کائنات اللہ رب العزت ہے، جس نے اپنی بنائی ہوئی کائنات کو جب تک اُسے منظور ہے چلاتے رہنے کا جو نظام بنایا ہے اُس کے مطابق ہرمخلوق کو تکوینی اور تشریعی طور پر رہنا ہے ۔ اگر مخلوقات نے اپنے اختیار سے خدا کی کائنات کے وضع کردہ نظام میں اپنی نام نہاد طاقت اوراپنے ملے ہوئے اقتدار کے بل بوتے خلل ڈالنا چاہا تو اُسے حاکم مطلق کی صاف بغاوت سے ہی تعبیر کریںگے ۔
پوری دنیا میں خدا کی بنائی ہوئی دنیا کو مختلف ٹکروں میں بانٹ کر ہر ٹکڑے کو اپنا اپنا ملک نام دے کر علامتی حکمرانوں کی حکمرانی میں اگر کوئی اُن کے حکومت کے وضع کردہ قانون کی قصداً یا سہواً مخالفت کرتا ہے تو اُسے بغاوت ہی کہا جاتا ہے ۔ جب عارضی حکومتوں کی حکمرانی میںآئین کی خلاف ورزی بغاوت تسلیم کی جاتی ہے تو ذاتی اوراصلی حکمراں احکم الحاکمین کی ذاتی واصلی حکومت کے آئین کی خلاف ورزی بغاوت کیوں کر تسلیم نہیں جائے گی ۔
اہلِ دنیا اپنی حکومت کے باغی افراد کو سخت سے سخت سزائیں دیتے ہیں ۔ اُن کی نظر میں سخت ترین اور انتہائی سزا قتل اور پھانسی ہے ، لیکن حاکمِ مطلق ، احکم الحاکمین ، رب العالمین اپنے باغیوں کو سخت ترین سزا قتل و موت سے نہیں دیتا ۔ وہ تو ’’ خلود فی النار ‘‘ اورہمیشہ کی زندگی میں ابدی جیل میں آتش دوزخ کے محلوں سے بات کرتے شعلوں کے حوالے ابدی طور پر کرکے بغاوت کی سزا دیتا ہے۔
خداکی کائنات کو ایک معینہ مدت تک چلتے رہنے میں زن و شو اورنر ومادہ کے آپس میں مقررہ قاعدے کے موافق ملاپ ہی خدائی نظام ہے ۔ اِس نظام میں دخل اندازی ، طاقت وقوت کے نشے میں آکر اس نظام کے متبادل نظام کی تشکیل ، مرد کا مردسے ، عورت کا عورت سے ملنا ، مردکا اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوسری خاتون سے اور بیویوں کا اپنے خاوند کو چھوڑ کر دوسرے کسی بھی مرد سے محبت وتعلق کا اظہار اور ملاپ خدائی نظام میں احکم الحاکمین کی بغاوت ہے ،جسے دیر سویر عذاب کی بھٹی میں سلگنا پڑے گا ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اٹھارہویں پارے کی سورۃ النور میں ارشاد فرمایا ہے :
{ اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃ’‘ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِر وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفَۃ’‘ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ } (النور : ۲)
’’ بدکاری کرنے والی عورت اور مرد کو مارو ہر ایک کو دونوں میں سے سوسو درے ، اور نہ آوے تم کو اُن پر ترس اللہ کے حکم چلانے میں اگر تم یقین رکھتے ہو اللہ پر اورپچھلے دن پر اور دیکھیں ان کا مارنا کچھ لوگ مسلمان ‘‘ (ترجمہ شیخ الہند)
یہ سزا اُس زانی اور زانیہ کی ہے جو آزاد ، عاقل ، بالغ اور نکاح کیے ہوئے نہ ہوں۔ یانکاح کرنے کے بعد ہم بستری نہ کرچکے ہیں اور جو آزاد نہ ہو اس کے پچاس درّے لگتے ہیں۔اِس کا حکم پانچویں پارے کے اول رکوع کے ختم پر مذکور ہے۔ اور جو عاقل یا بالغ نہ ہو وہ مکلف ہی نہیں ، اورجس مسلمان میں تمام صفتیں موجود ہوں (حریت ، بلوغ، نکاح اور ہم بستری سے فراغ ) ایسے شخص کو محصن کہتے ہیں ، اس کی سزا رجم (سنگ سار کرنا ) ہے جیسا کہ سورہ مائدہ میں تورات کے حوالے سے فرمایا : {وَکَیْفَ یُحَکِّمُوْنَکَ وَعِنْدَھُمُ التَّوْرٰئۃُ فِیْھَا حُکْمُ اللّٰہِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ وَمَآ اُولٰٓئِکَ بِالْمُؤْمِنِیْن}(المائدۃ: ۴۳)
اور وہ حکم اللہ کا رجم تھا جیساکہ وہاں کے فوائد میں گزر چکا ۔ چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی کے موافق فیصلہ کیا اور فرمایا : ’’ اللہم انی اول من احیا امرک اذا اماتوہ ‘‘
خدایا ! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جب کہ وہ اسے مٹا چکے تھے ۔
پھر نہ صرف ان یہود کو بل کہ جس قدر واقعات اِس قسم کے پیش آئے اُن سب میںزانی محصِن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی رجم کی سزا دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ ؓ کا عمل برابر اسی قانونِ رجم پر رہا ، بل کہ اہلِ سنت والجماعت میں کسی ایک شخص نے بھی اس سے اختلاف کی جرأت نہ کی ۔ گویا سنتِ متواترہ اور اجماعِ اہلِ حق نے بتلادیا کہ اس مسئـلے میںشریعتِ محمد یہ نے تورات کے حکم کو باقی رکھا ہے ،جیسا کہ قتلِ عمد کی سزا قتل ہونا قرآن کریم نے بحوالہ تورات بیان فرمایا :
{ وَ کَتَبْنَا عَلَیْھِمْ فِیْھَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنا وَالْجُرُوْحَ قِصَاص’‘ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَھُوَ کَفَّارَۃ’‘ لَّہٗ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ } (المائدۃ: ۴۵)
{ فَتُوْبُوْٓا اِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُم فَتَابَ عَلَیْکُمْ اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ} (البقرۃ: ۵۴)
پھر اُن ہی احکام کو امتِ محمد یہ کے حق میں بھی قائم رکھا گیا ۔ شاید رجم محصِن اور مسئلہ قصاص کو نقل کرنے کے بعد جوبڑی شدت و تاکید سے ترک حکم بماانزل اللہ کی برائی بیان فرمائی اور آخر میں ارشاد ہوا :
{ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَھُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِّ ط } (المائدہ: ۴۸)
اِس سے یہ ہی غرض ہوکہ تورات کے یہ احکام اب قرآن کے زیر حفاظت ہیں ،جن کے قائم رکھنے میں پیغمبر کو کسی اہواء اورآراء کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔چناں چہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرواہ کی نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفا نے ، حتی کہ حضرت عمرؓ کو جب رجمِ محصِن کے متعلق یہ اندیشہ ہوا بل کہ مکشوف ہوگیا کہ آگے چل کر بعض زائغین اِس کا انکار کرنے لگیںگے (چناں چہ خوارج نے اور ہمارے زمانے کے ایک ممسوخ فرقے نے کیا )تو آپ نے منبر پر چڑھ کر صحابہ وتابعین کے مجمع میںاِس حکم ِخداوندی کا بہت شدو مد سے اعلان فرمایا اور اس میں قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیا ،جس میں رجمِ محصِن کا صریح حکم تھا اور جس کی تلاوت گو بعد میں منسوخ ہوگئی مگر حکم برابر باقی رہا ۔
تنیبہ: کسی آیت کا محض منسوخ التلاوۃ ہونا اور حکم باقی رہنا یہ ایک مستقل مسئلہ ہے ،جس کی تحقیق اِس مختصر فوائد میں درج نہیں ہوسکتی۔
…آگے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ لکھتے ہیں کہ ’’ اگر اللہ پر یقین رکھتے ہو تو اس کے احکام وحدود جاری کرنے میں کچھ پس و پیش نہ کرو ۔ ایسا نہ ہو کہ مجرم پرترس کھا کر سزا بالکل روک لو یا اُس میں کمی کرنے لگو، یا سزا دینے کی ایسی ہلکی اور غیر موثر طرز اختیار کرو کہ سزا ؛سزا نہ رہے ۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ حاکمِ مطلق اور تم سے زیادہ اپنے بندوں پرمہربان ہے ، اس کا کوئی حکم سخت ہو یا نرم ، مجموعۂ عالم کے حق میں حکمت ورحمت سے خالی نہیں ہوسکتا اگر تم اُس کے احکام وحدود کے اِجر ا میں کوتاہی کروگے تو آخرت کے دن تمہاری پکڑ ہوگی ۔ اور سزا تنہائی میںنہیں ؛مسلمانوں کے مجمع میں دینی چاہیے ۔کیوں کہ اس رسوائی میں سزا کی تکمیل وتشہیر اور دیکھنے سننے والوں کے لیے سامانِ عبرت ہے اورشاید یہ بھی غرض ہوکہ دیکھنے والے مسلمان اُس کی حالت پر رحم کھا کر عفو ومغفرت کی دعا کریں گے ۔ ‘‘ (تفسیر عثمانی سورۂ نور )
مذکور الصدر قرآن کی دو آیات اور اُن کی تشر یحات یہ بتارہی ہیں کہ اس دنیا کے حقیقی مالک کی نظر میں ہم جنس پرستی اور میاں بیوی کے مقررہ حدود سے پار ہونا بغاوت اور جرم عظیم ہے ، جس کی اس دنیا میں سخت سے سخت سزا ہے ۔ قوم لوط کو اللہ نے اِسی ہم جنس پرستی کی پاداش میں زیرو زبر کردیا اورزنا جیسے گندے عمل کے لیے اللہ نے رجم وضرب کا قانون رکھا ۔