چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراٹھاکے چلے

آخری قسط:

بقلم:مولانا افتخار احمد قاسمی بستوی استاذ جامعہ اکل کوا

            ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں تقریباًایک سو پچیس کروڑ کی آبادی میں مختلف مذاہب وادیان کے ماننے والے بود و ماند اختیار کیے ہوئے ہیں۔ تمام مذاہب میں شادی بیاہ کے الگ الگ طور و طریق ہیں اور کسی بھی تہذیب میں میاں بیوی کو آزاد شترِ بے مہار نہیں چھوڑا گیا ہے اور نہ ہی ہم جنس پرستی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

            ابھی حالیہ دنوں میں ہندستان کی سب سے موٴقر عدالت سپریم کورٹ مے دفعہ نمبر 497کو ختم کرکے تمام باشندگان ہندستان کو یہ آزادی دی ہے کہ وہ شادی بیاہ کے قدیم رسم و رواج کے پابند اب نہیں ہوں گے ، خاوند اپنی بیوی کے علاوہ کسی بھی صنف نازک سے اپنے جسمانی تعلقات اورمیل ملاپ کو آگے بڑھا سکتا ہے ۔اسی طرح ہربیوی کو سپریم کورٹ کی طرف سے یہ آزادی دی جارہی ہے کہ وہ ایک خاوند پر اکتفا کرنے کی قید سے آزاد ہے۔

            قانون تعزیرات ہندو دفعہ 497 کو کالعدم قرار دینا ہندستان جیسے ملک میں جہاں عرصہ دراز سے مذہبیت اور اخلاقی قدروں پر یقین رکھنے والوں کی تعداد اکثریت میں رہی ہے۔ اس طرح کا فیصلہ ملک کی قدیم تہذیب اور متفقہ اخلاقی اقدار پر یک لخت تیشہ زنی کے مترادف ہے ۔ یہ فیصلہ ہندستان کے چپے چپے میں بڑھتی ہوئی اخلاقی بے اعتدالی اور روز افزوں بے راہ روی کو اور آگے بڑھائے گا ۔ برطانوی دور کے تشکیل دیے گئے انڈین پینل کوڈ (IPC )کے سیکشن 377 کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے کر ہم جنس پرستی کو یہ کہہ کر جواز فراہم کیا ہے کہ ۶/ ستمبر ۲۰۱۸ء جمعرات کا ہمارا یہ فیصلہ قابل سزا جرم کو آزادی ٴ فرد میں بدل دے گا ۔ پرسنل آزادی کی اب ایک نئی صبح طلوع ہوگی ۔ کورٹ نے یہ بھی کہا ہے: ” بدلتے حالات میں قانون کی تشریح ضرور ہونی چاہیے ، ہم جنس پرستی ، خفیہ طور پر انجام پذیر ہونے پر گھر کے بچوں اور خواتین خانہ کے لیے کوئی نقصان دہ قدم نہیں ہے ۔ یہ تو انفرادی حق خود ارادی کا استعمال ہے ۔ دفعہ 377 کی رو سے معاشرے میں امتیاز برتنے کی صورت حال جنم لیتی تھی ،جس سے قانونی دفعات کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا تھا “ ۔ (سپریم کورٹ )

            آزادی کے نام پر سپریم کورٹ نے زنا سے جڑی ہوئی مختلف النوع فحاشی کو جواز فراہم کرکے، اُسے جرم کے زمرے سے نکال کر ناجائز رشتوں کو قائم کرنے کے لیے؛ ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کو کھلی چھوٹ دے دی ہے، جس سے ہمارا معاشرہ شرمناک حد تک بدنام اورہمارا سماج طوائف کا اڈہ بن کر رہ جائے گا ۔

            قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ قربِ قیامت زنا کا بازار گرم ہوگا ،فحاشی عام ہوجائے گی ۔ اس طرح گناہوں اور خداوندی معاصی وبغاوت کو جوازکا درجہ دینا حد درجے بے با کی اور خدا سے جنگ مول لینے کے مترادف ہے ۔خدائی قانون سے قانونی جواز کے ساتھ بغاوت کرنے میں پورے عالم کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ۲۷/ ستمبر ۲۰۱۸ء کی تاریخ وہ سیاہ تاریخ تصور کی جائے گی ،جس میں ہندستان کی اعلی ترین عدالت نے حدسے زیادہ حیرت انگیز اور عجیب وغریب فیصلہ سنایا جس فیصلہ کی نمائندگی جسٹس دیپک مشرا کررہے تھے ، جو اُس پانچ رکنی بنچ کے صدر تھے ،جس نے متفقہ طور پر ۱۸۶۰ء کے قانون تعزیرات ہند کی دفعہ ۴۹۷/ کو کالعدم قراردے دیا جس کی رو سے ایک شخص اپنی بیوی کے رہتے ہوئے دوسری عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرے تو یہ حرام مانا جاتا ہے ، اِسی طرح کوئی منکوحہ خاتون اپنے خاوند کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے جنسی تعلقات بنائے تو اُسے جرم تصور کیا جاتا ہے ، ۴۹۷ /سیکشن کی روشنی میں وہ عورت بھی مجرم سمجھی جاتی تھی اور دوسرا مرد بھی ؛جس نے اس حرکتِ شنیعہ کا ارتکاب کیا ہے ۔ اِس دفعہ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی کہ یہ شخصی آزادی میں مداخلت ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ معزز جج صاحبان نے درخواست گزار کی بات کو قبول کرتے ہوئے اس عمل کو جرم کے دائرے سے باہر نکال دیا ۔ غیر شادی شدہ بالغ لڑکوں اور لڑکیوں کا باہمی رضامندی سے جنسی فعل کا ارتکاب قانونی طور پر پہلے ہی سے جرم کی فہرست سے خارج ہے ، اسی طرح اگر کوئی بیوہ یاجسے طلاق دے دی گئی ہو وہ اپنی رضا مندی سے کسی سے کوئی جنسی تعلق رکھے تو اس میں بھی قانون سد راہ نہیں ہوگا ۔ اب ۴۹۷/ سیکشن کا خاتمہ واقعتا رہی سہی شرم و حیا اوراخلاق ومروت کے ملک بدر ہونے کا فیصلہ ہی کہلائے گا ۔ اب شادی شدہ عورت کسی غیر مرد سے جنسی تعلق استوار کرے تو قانون نے اس کو بھی سندِ جواز فراہم کردیا ۔ اب شوہر حق دار نہیں ہے کہ بیوی کی اِس بے راہ روی پر اُسے ٹوکے یا قانون کا سہارا لے وہ پولیس میں جانے کا بھی مجاز نہیں ۔ شوہر یا بیوی کا یہ عمل دوسرے فریق کے لیے صرف یہ کرسکتا ہے کہ طلاق دینا روا ہوجائے اور طلاق کی خاطر عدالت میں جاکر طلاق کے لیے جواز کی سند حاصل کرے ۔

            پوری صورتِ حال کا سنجید گی کے ساتھ جائزہ لینے سے اب یہی بات سامنے آتی ہے کہ اور #

شوخیٴ گفتار میں کہہ جاتے ہیں وہ کچھ سے کچھ

دوستی اُن کی نظر میں ہے دل آزاری کا نام

            عظیم الشان ملک بھارت کی معززترین عدالت کے معزز جج صاحبان کی نگرانی میں ایسا فیصلہ کہ ۱۵۷/ سال قدیم شرم و حیا اب ملک بدر ہونے جارہی ہے ۔ تمام لغت کی کتابوں میں موجود شرم و حیا کے الفاظ وجملوں اورتعبیرات وضرب الامثال کی اب ضرورت باقی نہیں رہی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشادہے : کہ جب تمہارے اندر سے حیا اٹھ گئی تو اب جو طبیعت میں آئے کرتے رہو ۔

            پورا ہندستانی سماج اِس فیصلہ کو سن کر دم بہ خود ہے ۔ ہندستان کا پورا معاشرہ خاموش دیکھ رہا ہے کہ فاضل جج صاحبان نے ہوش کے ناخن کیوں نہ لیے ۔ کیا آزادی اس کا نام ہے کہ سماج خواہش کا غلام بن جائے۔کیا آزادی اسے کہتے ہیں کہ افراد وخاندان حرص وآزکی غلامی میں صحت و قوت ، تقدس و طہارت ، نیکی و تقویٰ اورصلاح وفلاح کی آزادی کو خیر باد کہہ دیں ۔ پورا معاشرہ خاموش ہے اس کی خاموشی کا دور رس مطلب ہوتا ہے 

سمجھو تو خموشی سب کچھ ہے ، دیکھو تو خموشی کچھ بھی نہیں

آواز بھی ہے ، الفاظ بھی ہیں ، مفہوم بھی پیدا ہوتا ہے

            چوں کہ یہ فیصلہ انسانی قدروں کو پاش پاش کرنے والا اور عفت وناموس کی چادر کو یک لخت تارتار کرنے والا ہے ،اس سے ہر خرد و کلاں کی شرم و حیا کا جنازہ نکل جائے گا۔ باشندگانِ ہندتواِس امید میں زندگیا ں بسر کررہے ہیں کہ ایوانِ اقتدار ہماری ظاہری وباطنی اقدار کی حفاظت کریں گے ۔ ہماری معاشی زندگی کے گلستان میں طرح طرح کے گل بوٹے لگائیں گے ، جس کی مہک سے مشام جان معطر ہوں گے ، بجلیاں پاس بھی نہ آئیں گی لیکن سارے آرزوئیں خاک میں مل گئیں۔ ع

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

            پھر بھی ہم اپنی استطاعت کے بقدر مثبت ترقی کے پیغام کو عام کریں گے ۔ اگر ظاہری طاقت استعمال کرسکیں گے تو اسے ورنہ زبان کی طاقت سے ، ورنہ دل سے اُسے برا تو سمجھیں گے ہی ، کہ اس سے ادنی درجہ کوئی اور ایمان کا بچاہی نہیں ہے 

برہم ہوں بجلیاں کہ ہوائیں خلاف ہوں

کچھ بھی ہو اہتمامِ گلستاں کریں گے ہم

            اِن نا گفتہ بہ حالات میں رب ذوالجلال کی چوکھٹ پر سرِ نیاز رکھنا اور اپنے دکھ کی درد بھری داستان اُسی کو سنانا ، ہم سبھی کو اپنا شیوہ بنانا چاہیے ۔ ساری خدائی بھی مخالف ہو، باد ِمخالف کتنا بھی سر اٹھائے ، خوف و ہراس کو چھوڑ کر ایک خدا ہی کو اپنے لیے کافی سمجھنا ہے #

کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف

کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے

            اُس ایک خدا کی طرف سے پھولوں کی سیج پر چلنا ہو یا کانٹوں کے بستر پر بسیرا کرنا ہو ،ہمیں دونوں کے لیے تیار رہنا چاہیے 

وہ یاد سلامت ہے جب تک ، دنیا کے غموں کی کیا پروا

کانٹوں میں بھی رہ کر اے ہمدم ! پھولوں میں بسیرا ہوتا ہے