پیکرِ احسنِ عمل چل بسا!

از قلم:  مفتی محمد جعفر ملیؔ رحمانیؔ صدر مفتی دارالافتا جامعہ اکل کوا 

                قال اللہ تعالیٰ: {تبارک الذي بیدہ الملک وہو علی کل شيء قدیرo الذي خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا وہو العزیز الغفورo} ۔  (سورۃ الملک)

                بڑی برکت ہے اس کی جس کے ہاتھوں میں ہے راج، اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے، جس نے بنایا مرنا اور جینا، تاکہ تم کو جانچے کون تم میں اچھا کرتا ہے کام ، اور وہ زبردست ہے بخشنے والا۔

محترم قارئین!         موت وحیات اللہ رب العزت کے دستِ قدرت میں ہیں، وہ جسے چاہتا ہے حیات بخشتا ہے، اور جسے چاہتا ہے موت کا جام پلا دیتا ہے، اور یہ سلسلہ از آدم تا ایں دم، بلکہ تاقیامت چلتا رہے گا، جس کا ہم اور آپ ہر دن مشاہدہ کرتے چلے آرہے ہیں۔

                اللہ رب العزت نے انسانی حیات کا مقصد یہ بیان فرمایا کہ ہم نے تمہیں حیات اس لیے دی تاکہ ہم تم کو جانچے کہ کون تم میں احسن عمل لے کر ہمارے دربار میں حاضر ہوتا ہے، مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنی پوری زندگی احسنِ عمل کی سعی وکوشش میں گزار دیتے ہیں، اور حسنِ خاتمہ کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔

انہی مبارک ہستیوں میں ایک عظیم شخصیت، عالمِ ربانی، مفکرِ قوم وملت، بزرگوں کے منظورِ نظر، سرپرستِ جامعہ، حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔

                اگر میں یہ کہوں کہ حضرت کی پوری زندگی احسنِ عمل سے عبارت تھی تو مبالغہ نہ ہوگا، کیوں کہ آپ رحمہ اللہ کے متعلق جتنے لوگوں نے قلم فرسائی کی، ان تمام نے اپنی تحریروں میں آپ کے اس وصفِ جمیل کو نمایا کیا، چاہے آپ کا دورِ طالبِ علمی ہو، یا تدریسی وانتظامی زمانہ، یا پھر فلاحِ دارین ترکیشور کے اہتمام کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوکر مدارس ومکاتب کے اشراف وسرپرستی کا عہد، غرض ہر حال میں آپ اس وصفِ جمیل سے متصف دکھائی دیتے ہیں۔

                آپ رحمہ اللہ نے زمانۂ تدریس میں اپنی مفوضہ کتابیں بڑی عرق ریزی، محنت وتحقیق کے ساتھ پڑھائی، اور اپنی تدریس کو ہمہ جہت حسین سے حسین تر بنانے کی فکر فرمائی ہے۔

جب فلاحِ دارین ترکیشور کے منصبِ اہتمام پر فائز ہوئے تو اپنے دورِ نظامت میں اس ادارہ سے متعلق ہر چیز میں حسنِ ظاہری وباطنی کے لیے کوشاں رہے، یہاں تک کہ جب اس عہدہ ومنصب سے علیحدگی اختیار کی، تو وہ علیحدگی بھی احسنِ عمل کا عکس رہی۔

                جن اداروں کے آپ مشرف وسرپرست رہے، ان میں بھی احسنِ عمل کو ترجیح دیتے رہے، اور اداروں کے ذمہ داروں کو ہر کام میں احسنِ عمل کی ترغیب و تلقین فرماتے رہے۔

                آپ رحمہ اللہ چوں کہ جامعہ کے سرپرست تھے، اس لیے بارہا جامعہ میں آپ کی تشریف آوری ہوتی، اور جب بھی اساتذہ وطلبہ سے خطاب فرماتے، تو آپ اپنے خطاب میں جہاں علمِ دین کی قدر وعظمت اور اسے حاصل کرنے کے لیے شوق ولگن کی ترغیب دیتے، وہیں علمائے کرام اور صلحائے عظام سے تعلق ووابستگی پر بھی خوب زور دیتے ۔

                ساتھ ساتھ اپنے قیمتی وانمول تجربات ومشاہدات بھی بیان فرماتے، اور دین کے ہر عمل کو صفتِ احسان واِتقان سے متصف کرنے کی طرف متوجہ فرماتے۔

                جیسا کہ پیارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’من عمل عملا فلیتقنہ‘‘جو شخص کوئی عمل کرے تو اسے چاہیے کہ اس عمل کو احسن طریقہ پر انجام دے۔

                آپ کا دوسرا نمایاں وصف بڑوں کی توقیر اور چھوٹوں پر شفقت تھا، آپ اپنی نجی مجلسوں میں اکابر علمائے دیوبند، عالمِ اسلام کے علما وصلحا اور ادباء کا تذکرہ انتہائی ادب واحترام اور قدر بھرے انداز میں فرماتے تھے، اور اپنے چھوٹوں کے ساتھ انتہائی محبت وشفقت کے ساتھ پیش آتے، بالخصوص نوخیز علمائے کرام کہ ان سے بڑی محبت وشفقت کے ساتھ مخاطب ہوتے، اُن کے چھوٹے موٹے دینی ، تصنیفی وتالیفی، تدریسی وتبلیغی کاموں کی خوب تحسین فرماتے، اور انہیں مزید آگے بڑھنے کی نہ صرف تلقین فرماتے بلکہ مناسبِ حال رہبری بھی۔

                مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ۱۲؍ سال قبل جب دار الافتاء کا قیام عمل میں آیا، اور اس کے چند ماہ بعد جب حضرت رحمۃ اللہ علیہ جامعہ تشریف لائے، تو بندے نے آپ کے سامنے دار الافتاء کا پورا نظام ونصاب اور طریقۂ تدریس بیان کیا، جس پر آپ نے نہ صرف خوشی کا اظہار فرمایا، بلکہ ’’قواعد الفقہ‘‘ کے طریقۂ تدریس کے متعلق فرمانے لگے : ’’آپ کے یہاں قواعد پر جو تفریعی وتطبیقی کام طلبہ سے لیا جاتا ہے، وہ پورے ہندوستان میں کہیں بھی نہیں ہوتا، واقعی اس میں طالبِ علم کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، اس پر مواظبت ومداومت ہونی چاہیے۔‘‘

                آپ کا تیسرا نمایاں وصف؛ پاکی و صفائی، تہذیب وترتیب تھا، ایک دفعہ یہ ناچیز حضرت رئیس جامعہ(مولانا غلام وستانوی) دامت برکاتہم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ کوسرپرستِ جامعہ رحمہ اللہ کے ورودِ مسعود کی پیشگی اطلاع ملی، تو آپ نے اپنے متعلقین سے فرمایا: ’’دیکھنا! حضرت کا جہاں قیام طے ہے، وہاں تمام چیزیں سلیقے سے ہوں، متعلقہ مقامات صاف ستھرے ہوں، ‘‘ وغیرہ، ’’تاکہ حضرت کے مزاجِ عالی پر کوئی منفی اثر نہ پڑے‘‘۔آپ دامت برکاتہم کی ان ہدایات سے بندے نے آپ رحمہ اللہ کے اِس مزاجِ خاص کو پہچانا اور اس کا مشاہدہ بھی کیا۔

                آپ رحمۃ اللہ علیہ اس طرح کے بہت سے اوصافِ حمیدہ وخصالِ جمیلہ سے متصف تھے، جنہیں آپ کے شاگرد وتلامذہ؛ جو ملک وبیرونِ ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، اور آپ کے متعلقین جو سینکڑوں نہیں، ہزاروں کی تعداد میں ہیں، خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔

                اب آپ اِس دنیائے فانی میں نہیں رہے، جہاں انسان نیک اعمال کے ذریعے اپنے رب کا قرب، اور اپنے لیے ترقیٔ درجات حاصل کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود آپ کے لیے یہ دروازہ بند نہیں ہوا؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’إذا مات الإنسان انقطع عنہ عملہ إلا من ثلاثۃ: من صدقۃ جاریۃ ، أو علم ینتفع بہ ، أو ولد صالح یدعو لہ‘‘  (صحیح مسلم) کہ جب انسان مرجاتا ہے، تو اس سے اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے، لیکن تین چیزوں سے اس کے نامۂ اعمال میں ثواب کا اضافہ ہوتا رہتا ہے، ایک صدقۂ جاریہ، دوسرا ایسا علم جس سے لوگ انتفاع کریں، اور تیسرے نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔

                الحمد للہ! حضرت کو یہ تینوں چیزیں حاصل ہیں، آپ نے اپنی حیات میں جتنی کتابیں اپنے مطالعہ کے لیے خریدی تھیں، وہ سب ایک اکیڈمی کی شکل میں صدقۂ جاریہ کردیں۔ ہزاروں کی تعداد میں آپ کے شاگر د موجود ہیں، جنہوں نے آپ کے گہرے وپختہ علم[٭] سے نہ صرف انتفاع کیا، بلکہ خلقِ عظیم کو اس سے نفع پہنچا رہے ہیں۔اولاد بھی دین دار اور متشرع ہیں، جو ضرور آپ کے لیے دعائیں کررہی ہونگی۔

                ’’ اللّٰہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ ، وأکرم نزلہ ، ووسع مدخلہ ، واغسلہ بالماء والثلج والبرد ، ونقہ من الخطایا کما نقیت الثوب الأبیض من الدنس ، وأبدلہ دارًا خیرًا من دارہ وأہلا خیرًا من أہلہ ، وزوجًا خیرًا من زوجہ ، وأدخلہ الجنۃ ، وأعذہ من عذاب القبر ‘‘ ۔ آمین یا رب العالمین !

                [٭] گہرا وپختہ علم اس لیے لکھا کہ استاذی، قاضی القضاۃ، فقیہ بے بدل قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پر فرمایا تھا: ’’گجرات میں دو لوگوں کا علم بڑا پختہ ہے، اور اتفاق سے دونوں کا نام عبد اللہ ہے: ایک حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی (رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ)، اور دوسرے حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب ہانسوٹ (أطال اللہ بقاء ہ وعافاہ)‘‘۔