پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

تأثرات دردوغم بروفات شریکِ حیات (اہلیہ محترمہ)حضرت الاستاذ

قاری سید عارف الدین صاحب انوا

مولانا صادق تونڈاپوری#

            جامعہ اکل کوا کے قدیم ومقبول ترین تفسیر وحدیث اور فقہ واصول فقہ کے مایہٴ ناز مدرس ومعلم ہزاروں طلبہ کے محبوب اور چہیتے استاذ محترم،استاذ الاساتذہ حضرت مولانا قاری سید عارف الدین صاحب کی نیک طینت، فرماں بردار، عابدہ، زاہدہ،بل کہ سیکڑوں اوصاف ومحاسن سے متصف زوجہٴ محترمہ اتوار کی شب ۱/اکتوبر ۲۰۲۳ء اللہ کو پیاری ہوگئیں اور اپنے پس ماندگان میں اپنے شوہرِ عزیز،دو بیٹیاں اور پانچ نوجوان علما وحفاظ بیٹوں کو اپنے لیے ذخیرہٴ آخرت بناکر اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔

بالآخر اپنے ہی گاؤں انواء میں مدفون ہوئیں:

گویاکہ؛   ’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘

            ”انوا“ گاؤں خود حضرت الاستاذ قاری صاحب کابھی آبائی وطن ہے،بل کہ آپ کی زوجہٴ محترمہ رشتہ میں آپ کی حقیقی چچازاد بہن ہوتی تھیں اور آپ سادات گھرانے سے ہیں۔

 بر سبیل تذکرہ ایک حقیقت:

            در حقیقت آپ کا خاندانِ سادات عہدِ عالمگیری (حضرت اور نگ زیب عالمگیر رحمة اللہ علیہ)کے زمانہٴ سلطنت میں علاقہٴ دکن میں وارد ہوا، جس میں بہت سارے اولیاء اللہ اور صوفیا کی بڑی جماعت تھی۔

             ان میں سر فہرست حضرت جانُ اللہ وحضرت بابُ اللہ نیز حضرت سیّد میر علی رحمہم اللہ شامل ہیں۔

 خاص بات یہ کہ حضرت اور نگ زیب رحمةاللہ علیہ نے اس خاندانِ سادات کو عہدہٴ قضائت بھی تفویض کیا تھا۔

 جامعہ اکل کوا سے انوا تک سفر اور اہلیہ محترمہ کے سفرِ آخرت کی روداد حضرت قاری صاحب کی زبانی:

             امسال جامعہ اکل کوا میں ششماہی امتحانات پورے ہوکر ۲۸/اکتوبر۲۰۲۳ء سے تعطیلات کا آغاز ہواتوحضرت الاستاذ قاری سید عارف الدین صاحب مع اہلِ خانہ شہر اور نگ آباد مہاراشٹر اپنی شریک ِحیات جن کی تقریباً ایک سال سے دل کی رَگ بند ہوکر حرکتِ قلب کم ہوگئی تھی، ڈاکٹروں نے آپریشن موقوف رکھ کردوائیوں سے علاج کے لیے کہا تھا، لہٰذا ان کے علاج ومعالجہ اور اپنی بیٹی کے گھر اس سے ملنے کی غرض سے اورنگ آباد تشریف لائے تھے۔چناں چہ حضرت قاری صاحب کے بقول ”بروز سنیچر جامعہ اکل کوا کے دار المدرسین میں ہم نے نماز فجر ادا کیا ،۹/بجے سفر کا آغاز ہوا، تو اوّلاً ویجاپور مدرسہ خالد بن ولید پہنچے اور نماز ظہر ادا کی، پھر کھانا تناول کیا ۔“ اسی دوران وہ اپنی نواسی اور داماد مولانا ذاکر صاحب کی بیٹی جو مدرسہ خالد بن ولید ویجاپور کے مدرسةالبنات میں زیر تعلیم ہے وہ ششماہی امتحان میں او ل نمبر لائی تو اِس خوشی میں اسے لے کر مدرسہ مفتاح العلوم والوج اور نگ آباد میں واقع اپنی بڑی بیٹی کے گھر ہنسی خوشی پہنچ گئے اورنواسی کی کامیابی پرمٹھائی تقسیم کیا۔

            بعدہ نماز عصر ادا کیا پھر نماز مغرب ادا کیا۔اس کے بعد حضرت الاستاذ قاری صاحب خود اپنی آنکھوں کی جانچ وعلاج کے لیے شہر اور نگ آباد کے کسی دواخانہ تشریف لے گئے، واپسی میں تاخیر ہوئی، تو آپ نے اہلیہ محترمہ سے پوچھا کیا آپ نے عشا کی نماز ادا کرلی ہے؟تو مرحومہ محترمہ نے بتایا کہ ہاں! الحمدللہ میں نے نماز عشا ادا کرلی ہے۔ حضرت قاری صاحب کے بقول اہلیہ محترمہ فرض نمازوں کے ساتھ بالخصوص سنت ونفل نمازوں کی بڑی پاپند تھیں، نماز کی قضا کبھی نہیں کرتی، سنت اور نفل نمازوں کا بہت اہتمام کرتی تھیں۔

            اس کے بعد بقول حضرت قاری صاحب ”اہلیہ محترمہ نے کھانا تناول کیا، ساتھ میں اپنے شوہرعزیز، اپنے بیٹوں اور بڑی بیٹی کو بھی کھلایا“لیکن آہ! خدائے پاک کے سوا کسے معلوم تھا؟ کہ حضرت الاستاذ کی حریم خانہ کا یہ دنیوی سفر اخروی سفر میں تبدیل ہوجائے گا۔چناں چہ بقول حضرت قاری صاحب ”اپنی بڑی بیٹی کے ساتھ باتیں کرتے کرتے اور ہنستے ہوئے بیٹی کی گود میں سَر رکھ کر اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کردیا اور داعی اجل کو لبیک کہا۔انا للہ وانا الیہ راجعون!مگر اطمینان قلب کے لیے اور یہ سمجھ کر کہ غالباً بے ہوشی طاری ہوئی ہے یا شوگر کم ہوئی یا کوئی اور عارضہ لاحق ہوا ہوگا ،اس لیے مرحومہ کوہسپتال لے جایا گیا، لیکن ڈاکٹروں نے جانچ کے بعد مردہ قرار دے دیا، لہٰذا راتوں رات ہی بذریعہ ایمبولینس مرحومہ کواور نگ آباد سے تقریباً۱۰۰/کلو میٹر کی مسافت پر واقع ”انوا“ گاؤں اس وقت لایا گیا جب نماز فجر کی اذان ہونے ہی والی تھی۔چناں چہ نمازِ فجر کے بعد گاؤں میں مرحومہ کی وفات کا اعلان کردیا گیا۔“

            الغرض! سیدہ مرحومہ کو اور نگ آباد سے انوا لانے سے پہلے ہی ان کے اعزا و اقربا نیز مدارس ومکاتب اور مساجد سے وابستہ سیکڑوں علما حفاظ وائمہ اور حضرت قاری صاحب کے بہت سارے تلامذہ جمع ہوچکے تھے۔ بہت ساری مستورات وخواتین بھی مرحومہ کے حادثہٴ فاجعہ پر حزن وغم مگر ذکر واذکار میں مشغول تھیں۔

            مرحومہ کو غسل اور تکفین کے بعد سادے سیدھے جنازے میں کلمہٴ طیبہ لکھی ہوئی کالی چادر اوپر سے ڈھانک کر قبرستان لے جایا جانے لگاتو عجیب دل دہلا دینے والا اشکبار اور غمگین کرنے والا منظر تھا۔ گھر سے کافی دور قبرستان تک جنازہ لے جانے اور کندھا دینے کا سلسلہ جاری رہا۔راقم الحروف عاجز کو بھی یہ شرف اور فضیلت حاصل ہوئی۔

             قبرستان پہنچ کر باوضو ہو کر صفیں درست کی گئیں اور تمام کے آجانے کی اطلاع دیدی گئی تو مرحومہ کے ہی شوہر عزیز زندگی بھر ہم پیالہ وہم نوالہ اور دو جسم ایک دل رہے باوفا شوہرو سَرتاج حضرت قاری سید عارف الدین صاحب نے ہی اپنی رفیقہٴ حیات کو آخری بار الوداع کرتے ہوئے نماز جنازہ پڑھائی، سیکڑوں علما وحفاظ اور بہت سارے اہلِ ایمان نے حضرت قاری صاحب کی اقتدامیں نماز جنازہ ادا کیا۔

             اخیر کار: مرحومہ کے پانچ نوجوان اور صالح وباکردار بیٹوں نے بڑے صبر وتحمل، مگر دردوغم اور پرنم آنکھوں سے اپنی پیاری مرحومہ ماں کو قبر میں اتارا اور تمام حاضرین ِغمگسار علما وصلحا نے مرحومہ کی قبر کو دعاء پڑھتے ہوئے مٹی دیا۔پھر حضرت الاستاذ قاری صاحب کی ایما وارشاد پر آپ ہی کے پسر عزیز قاری رفیع الدین صاحب نے ایک طرف سے اور حضرت کے داماد مولانا سعید صاحب نے دوسری طرف سے سورہٴ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات تلاوت کی، پھرحضرت ہی کی درخواست پر مدرسہ منہاج العلوم رنجنی کے ناظم محترم مولانا نعیم صاحب قاسمی نقشبندی (خلیفہ حضرت پیر ذوالفقار) نے دعائے خیر واستغفار فرمائی۔حضرت ناظم صاحب کی دعا ایسی پُر اثر اور جامع تھی کہ وہاں موجود ہر شخص کو رونے اور آنسوں بہانے پر آمادہ کردیا۔اللہ پاک حضرت ناظم صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین !

            بالآخر حضرت الاستاذ قاری سید عارف الدین صاحب کی نیک طینت رفیقہٴ حیات زندگی کے تمام حالات میں اپنے عظیم شوہر کی وفاشعار بیوی اور پانچ عالم وحافظ بیٹوں کی مشفقہ ومربیہ ماں اپنے ہی مولِدومسکن مَردُم خیز گاؤں شہیدوں کی سرزمین انوا کے سادات قبرستان میں مدفون ہوئیں اور بزبان حال یہ کہتی ہوئی رخصت ہوئی کہ!

قبر تک آنے والوں شکریہ شکریہ

اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم

بہت سی خوبیاں تھیں سیّدہ مرحومہ میں:

            حضرت قاری صاحب کی نیک طینت بیوی بڑے بلند اوصاف ومحاسن کی مالک تھی۔ چناں چہ مُشتِ نمونہ ازخروارے کے طور چند اوصاف ومحاسن پیش خدمت ہیں۔

            حضرت قاری صاحب خود فرمانے لگے:اہلیہ رحمة اللہ علیہا صوم وصلاة کی بہت پاپند تھیں نمازوں کا اہتمام حددرجہ تھا نماز سے پہلے اور بعد کی سنتیں کبھی نھیں چھوڑتی۔

            حضرت نے بتلایا کہ ایک مرتبہ میں نے سفر کے موقع پر ان سے کہا کہ ہم سفر میں ہیں نمازیں ذرامختصر پڑھ لیا کرو۔تو کہنے لگیں کہ میں نے فرض نماز تو چار کے بجائے دو ہی رکعت پڑھی۔چوں کہ گھر میں سنت اور نفل نماز پڑھنے کا اہتمام ہے اس لیے یہاں بھی پڑھ لی۔سبحان اللہ!

             حضرت قاری صاحب فرمانے لگے:اہلیہ محترمہ یتیموں اور غریبوں کی بہت فکر، ہمدردی اور مدد کرتی تھیں تعطیلات کے موقع پر رمضان شریف میں جب بھی اکل کواسے اپنے گاؤں انواء آنا ہوتا تو بیوہ اور غریبوں کی صدقات وغیرہ سے مدد کرتی۔

             خصوصاً اپنے اعزا، اقربا اور سہیلیوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔

             حضرت نے ایک واقعہ بتلایا: کہ گاؤں میں ان کی ایک سہیلی (دوست) تھی جو فقیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔اہلیہ محترمہ اس کے لیے کپڑے پیسے وغیرہ حفاظت سے رکھتی اورجب بھی اکل کواسے اپنے گاؤں انوا آتی تواپنی سہیلی کو بلاکر اسے دیتی۔آج جس وقت جنازہ لایا گیا تو وہ سہیلی بھی آئی لھذا میرے کہنے پر ہمارے بیٹے نے اس کے ہاتھ میں کچھ پیسے رکھ دیے۔

             حضرت فرمانے لگے: اہلیہ محترمہ مدرسہ میں پڑھنے والے غریب یتیم طلبہ سے بڑی محبت اور شفقت کرتی تھیں، کبھی انھیں پیسے دیتی تو کبھی ہمارے بیٹے قاری رفیع الدین کے ہاتھ سے ان کی کلاس میں پڑھنے والے طلبہ کوعشاء بعد کھانا بھیج دیتیں۔ فللہ الحمد والشکر۔

مرحومہ اور تربیتِ اولاد:     

            مرحومہ اپنی اولاد کی تربیت کے سلسلہ میں نہایت مستعد رہا کرتی تھیں،انہوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کو صغرِ سنی میں دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی پوری فکر کی۔ گھر کے تمام کاموں کو انجام دیتے ہوئے بچوں کی تربیت کی طرف پوری پوری توجہ مبذول کی ۔ نظافت صاف صفائی کو ان کے مزاج میں داخل کیا ، دینی و عصری ہر دو تعلیم سے مزین کیا ، تنہے تنہا گھر کے تمام کاموں کی تکمیل کارے دارد ، اپنی بچیوں کو امور خانہ داری سے پوری طرح واقف کرایا۔ اس کے علاوہ اپنے پانچ فرزندوں کی دینی و عصری تعلیم کا پورا خیال رکھا۔ انہیں مدرسے کے وقت میں تیار کرنا انہیں وقت پر کھانا دینا ،ہفتہ میں تین مرتبہ ان کے کپڑے تبدیل کروانا ۔ میلے کپڑوں کو روزانہ صبح سویرے ہاتھوں سے دھونا ،گھر کو پوری طرح صاف ستھرا رکھنا ،تمام اشیا کو ان کی جگہ پر قرینہ سے رکھنا ان کے مزاج میں تھا، ایک مرتبہ حضرت الاستاذ کے ایک ساتھی حیدرآباد سے آئے اس وقت مرحومہ اپنے وطن میں تھیں،تمام برتنوں اور دیگر اشیا کو قرینے سے دیکھ کر حضرت کے ساتھی کہنے لگے ، عارف تمہاری اہلیہ بڑی سلیقہ مند معلوم ہوتی ہیں ؛ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت قاری صاحب نے اپنے استاذ محترم قاری احمد اللہ صاحب کو مسابقہ کے موقع پر اپنے گھر ناشتہ کی دعوت دی اور ان کے مزاج کے مطابق اشیا تیار فرمائیں ۔ حضرت قاری احمد اللہ صاحب بر جستہ فرمانے لگے: عارف تمہاری بیوی میرے مزاج کو جانتی ہے، ہر چیز میرے مزاج کے موافق تیار کی ہے۔

            کئی مرتبہ جامعہ کے طلبانے حضرت الاستاذ سے یہ کہا کہ حضرت آپ کے بچے بہت صاف ستھرے اور شریف الطبع ہیں، حضرت نے جوابا ًفرمایا کہ یہ ان کی والدہ محترمہ کی تربیت اور فکر کا ثمرہ ہے؛ بہر حال مرحومہ نے حضرت قاری صاحب کی رفاقت میں جامعہ اسلامیہ اکل کوا کے کاٹر میں زندگی کے ۳۹/ سال گزاریں ۔ قاری صاحب روتے ہوئے فرما رہے تھے کہ اللہ کی بندی نے کبھی کسی وقت ناراض نہیں کیا، ہمیشہ اپنی خوشی کو میری خوشی کے تابع رکھااور میری ہر ضرورت کا خیال رکھا اور خاص بات یہ کہ انہوں نے قاری صاحب کو تعلیم و تعلم کے لیے فارغ کردیا تھا ،یہ کہہ کر کہ آپ گھر کے امورِ انتظام وغیرہ کی بالکل فکر نہ کیا کریں۔آپ اپنے پڑھنے پڑھانے اور مطالعہ میں ہی مصروف رہا کریں۔ انہوں نے ہر طرح سے تعلیم کے لیے اپنے شوہر کو فارغ کردیا تھا۔ ایک روز قاری صاحب یہ کہہ کر خوب روئے کہ اللہ پاک مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔”ایما امرأة ماتت و زوجھا عنھا راض دخلت الجنة“ کی پوری پوری مصداق تھیں۔

            حضر ت مولانا فاروق صاحب مدنی دامت برکاتہم کے بقول مرحومہ پورے دار المدرسین کی خواتین میں شرافت ونجابت کے اعتبار سے منفرد حیثیت رکھتی تھیں ،نیز حضرت مدنی صاحب نے قاری صاحب سے فرمایا کہ میں پانچ سال سے آپ کے اوپر کی منزل میں رہتا ہوں ،میں نے ان پانچ سالوں میں کبھی بھی مرحومہ کی آواز نہیں سنی۔ نیز ان کی تربیت کا اثر ان کے شریف اور موٴثر بچوں سے ہی واضح ہوتا ہے ۔خداوندِ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

 گذارش و درخواست:              حضرت الاستاذ قاری سید عارف الدین صاحب (استاذ جامعہ اکل کوا)کی اپنے تمام متعلقین محبین اور تلامذہ سے درخواست ہے کہ اپنے اپنے مقامات یعنی مدارس مساجد ومکاتب وغیرہ میں قرآن پاک کی تلاوت کرواکر میری اہلیہ محترمہ مرحومہ کے لئے دعاء خیر و ایصالِ ثواب کرواکر ممنون ومشکور فرمائیں جزاکم اللہ واحسن الجزاء