پہاڑوں کو ہلادینے والی کتاب

ایم ڈی۔ میمن

                چہار سو مسلمانوں کی تباہی کا غل مچا ہوا ہے، کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہے۔ جسے دیکھو وہ مسلمانوں کو اپنے جال کا اسیر بنانے کے درپے ہے ، جس طرف نگاہ ڈالومسلمانوں کے خلاف سازشوں کا پرچم لہرایا جارہا ہے۔  حالاں کہ یہ وہ مسلمان ہیں،جس نے کسی دور میں دنیا کے اکثر حصوں میں اپنی حکمرانی کا کھرا سکہ جمایا تھا، بڑے بڑے صاحب اقتدار ، صنادید اور سلطنتوں کو زیر و زبر کردیا تھا ، غرور و تمکنت کے مالک اور ارباب حکومت کے چھکے چھڑا دیے تھے، جس نے دریاؤںاورسمندروں پر حکومت کی تھی، جس کے اشاروں پر جنگل کے بے زبان جانور اپنا رخ موڑ لیتے تھے، آج وہی مسلمان عسیر الحالی اور بے کسی کی کوٹھری میں گھٹ گھٹ کر جاں بلب ہورہا ہے ، محکومی و مظلومی کی زندگی بسر کررہا ہے ، جہاں وہ صاحب ِاختیار اور عشوہ ٔ حیات سے پر لطف تھا ،اب غیر کے زیر سایہ ہوکر نصرت ِدیگری کا محتاج بنا بیٹھا ہے ۔

آخر ایسا کیوں ہوا ؟

                 مسلمانوںکے موجودہ حالات کے اسباب و عوامل کیا ہیں ،جن کی وجہ سے عروج و زوال کا سنگم ہو ا ؟ بڑی واضح بات ہے کہ دنیا کے نظم و نسق، اختلافِ لیل و نہا ر کا خالق و مالک صرف اور صرف اللہ ہے ۔ اسے ذرے ذرے کی ابتدا ور انتہا کا علم ہے ، و ہ علیم بذات الصدور یعنی دلوں کے بھید کا جاننے والا ہے، حتی کہ بدونِ اذنِ الٰہی ہوا اپنا رخ تک نہیں بدلتی ’’لا تتحرک ورقۃ‘‘ اس کی اجازت کے بغیر درخت کا ایک پتہ نہیں ہلتا ، لہٰذا آج ہماری پستی اور ہمار زوال یقینا فیصلۂ خداوندی ہے، لیکن اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اللہ کریم نے مسلمانوں کے لیے برے حالات کو بہتر فیصلہ قرار دے دیا ہے، بل کہ خالق کے فیصلے مخلوق کے اعمال کے حسب حال اترا کرتے ہیں ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : {فمنہم من ارسلنا علیہم حاصبا ومنہم من اخذتہ الصیحۃ ومنہم من خسفنا بہ الارض ومنہم من اغرقنا وماکان اللہ لیظلمہم ولکن کانوا انفسہم یظلمون }

                ترجمہ:چناں چہ ان میں سے کچھ وہ تھے جن پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی۔ اور کچھ وہ تھے جن کو ایک چنگھاڑ نے آ پکڑا اور کچھ وہ تھے جن کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور وہ کچھ وہ  تھے جنہیں ہم نے پانی میں غرق کردیا ۔ اور اللہ ایسا نہیں تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن یہ لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کیا کرتے تھے ۔

                اللہ نے اُن قوموں کو برے نتائج کے دلدل میں ان کے اپنے کرتوتوں کے سبب دھنسایا تھا۔ قصور ہماری طرف سے ہے ورنہ جس رب کریم کے طریقوں میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ،وہ رب اپنے بندوں سے پرایا سلوک کیوں کر کرے گا ؟ تحت و زوال کے اسباب خود ہمارے پیدا کردہ ہیں ،ہم نے ہی احکام خداوندی اور تعلیماتِ نبوی کے ساتھ سوکن جیسا سلوک کیا، ورنہ آقا کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے ہماری پستیوں کا علاج صدیوں بر س قبل بیان فرماگئے:’’ ترکت فیکم امرین ای شیئین ان تمسکتم بہما فلن تضلوا بعدی ابدا ‘‘میں تمہارے درمیان دو چیزوں کو چھوڑ کر جارہا ہوں اگر تم نے انہیں مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا تو ہرگز بھی کبھی گمراہ نہیں ہوگے ۔ پہلی چیز کتاب اللہ دوسری چیز سنت رسول اللہ ۔ اگر ہم نے اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنایا ہوتا اور اس پر عمل پیرا ہوئے ہوتے ،تو آج بھی دور صحابہ کی نظیر مل سکتی تھی ،ظفر علی کا رونا بجا ہے    ؎

خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

                اگر آپ تاریخ کے صفحات پر نظر کریںگے تو معلوم ہوگا کہ نزولِ قرآن سے قبل عرب کے باشندوں کی کیا حیثیت تھی ، ان کی سماجی ، سیاسی ، معاشی اور علمی حیثیت کا نام و نشان تک نہ تھا ۔ وہ جہلائے عرب سے مشہور تھے ، انہیں بدو ، اعرابی اور گنوار کہا جاتا تھا ۔ اقوام عالم انہیں خاطر میں نہیں لاتی تھی ، آپسی ستم شعاری کا غریبانہ ماحول تھا، طرح طرح کی برائیوں اور تخریب کاریوں میں مبتلا تھے ، ہر طرح کی ذلت و رسوائی ان کا خمیر و ضمیربن چکی تھی ،مگر جیسے ہی اللہ نے ان بدوؤں میں قرآن کریم کا نزول فرمایا تو ان جہلائے عرب نے اس پہاڑوں کو ہلادینے والے کلام کوایسے اپنایا جیسے کوئی متاعِ گمشدہ ہو اور اس پر سختی سے کار بند ہوئے ،پھر کیا تھا؟ ساری دنیا نے ان کے کمالات کا اعتراف کیا ،دنیا جہاں میں قیادت وسیادت میں ان کی نظیر نہیں ملتی ، انہو ں نے دوسری قوموں کی روایات کی پابندی نہیں کی، بل کہ اپنی تاریخ خود رقم کی ، حالی مرحوم نے ان کے حالات اپنے چار مصرعوں میں اس طرح سموئے   ؎

در فشانی نے تیری قطروں کو دریا کردیا

دل کو روشن کردیا ، آنکھوں کو بینا کردیا

خودنہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

                عرب کے باشندوں کی زندگی میں قرآن کریم کے نزول کی برکت کا ایسا انقلاب عظیم تھا جو کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے ۔ جن عربی باشندوں کو بدّو اور گنوار سے موسوم کیا جاتا تھا، انہو ں نے اپنی زندگی کا معیار اور سیاہ سپید کا تھرما میٹر قرآن کریم کو بنایا تھا ۔ ان کے عروج کا سببِ اصلی قرآن کریم تھا۔آج انسانیت جاں بلب ہے ، سسکتی اور دم توڑتی نظر آرہی ہے ، ہمارے اس بیمار معاشرے کو، اس بے ہنگم نظام اور خود غرضی کی فضاؤں کو ، تباہی وبربادی کے دہانے پر پہنچی ہوئی انسانیت کو اگر کوئی چیز شفایاب کرسکتی ہے تو وہ قرآن کریم کی تعلیمات ہے ۔اور قرآن کریم اپنی شان میں وہ زود اثر طاقت و قوت کا حامل ہے جو پہاڑوں کو بھی ہلاسکتا ہے،جیساکہ سورۃ الحشر میں{لوانزلناہٰذاالقرآن علیٰ جبل لرأیتہ خاشعامتصدعا} سے واضح ہے۔

سب سے بڑا المیہ:

                (۱) آج سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر جزدانوں میں ملبوس  کرکے طاقوں اور حرف ِمکاں کے نذر کردیا ہے۔ اس کی تعلیمات کے دائرۂ کار کو مدرسوں اور مسجدوں تک محدود کردیا ہے یا چند ایسے مواقع ہیں ،جہاں ہمیں قرآن پاک کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً دنیاوی امور میں قسم اٹھانی ہو تو قرآن اٹھتا ہے ۔ نماز میں قرآن کریم کی ضرورت پڑتی ہے وہ بھی مخصوص سورتوں کے ساتھ ، حفاظ ِکرام کو صرف تراویح میں قرآن کریم کی فکر ہوتی ہے ، کسی کے گھر میت ہوجائے تو ایصال ثواب کے لیے قرآن کھولا جاتا ہے ، دکان و مکان کی افتتاح اور خیرو برکت کے لیے قرآن کریم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور حضرات عاملین جھاڑ پھونک کے ذریعے اثرات کو زائل کرنے کے لیے قرآن کو اپنا سہارا بنائے ہوئے ہیں حالاں کہ قرآن کریم انسانوں کی رہبری اورقائدی کے لیے اتارا گیا ہے۔

                 (۲)  نہ جانے ہم میں سے کتنے مسلمان ایسے ہیں ،جن کو ناظرہ پڑھنے نہیں آتا، تو وہ اس کے معانی و مطالب پر کیا غور کریںگے ؟ اپنے لیے ہدایت و رہ نمائی کا ذریعہ کیسے بنائیںگے ؟ ان کے دل میں قرآن کا کوئی حصہ نہیں ہے ! آقا کریم علیہ الصلاۃو السلام نے ارشاد فرمایا : ’’ جس کے سینے میں قرآ ن کا کوئی حصہ نہ ہووہ ویران گھر کی طرح ہے ‘‘ ۔چاہے ایسے افراد دنیاوی اعتبارسے بڑے جاہ وجلال، خدم وحشم کے مالک ہوں اور جنہیں قرآن کا کچھ علم ہے ،آج وہ بھی اپنی دنیا الگ بسائے ہوئے ہیں ۔ ان کے پاس موبائل اور دیگرآلاتِ جدیدہ کے لیے وقتِ کثیر ہے ،لیکن تلاوت ِقرآنِ پاک اور تفہیمِ قرآن پاک کے لیے کوئی وقت نہیں ! ایک زمانہ وہ تھا کہ جب کوئی شخص آخر اللیل مدینہ کی گلیوں سے گزرتا توقرآن کریم کی آواز فضاؤں میں ایسی گونجتی جیسے شہد کی مکھیاں بھنبھنارہی ہو اور آج ایک ایسا موڑ آچکا ہے کہ بچہ اپنی جوانی کو پار کرکے بڑھاپے کی دہلیز کو پہنچ جاتا ہے، لیکن اس کا سینہ ویران گھر کی طرح ہوتا ہے جس میں قرآن کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قرآن پاک آج بھی اپنی مکمل تاثیرات کے ساتھ موجود ہے ، آج بھی اس میں صالح انقلاب کی صلاحیت موجود ہے ،شرط یہ ہے کہ ہمارے سینوںمیں قرآن کریم سے سچاعشق ہو۔

اپنا محاسبہ :

                 قرآن کریم کا نزول اپنے تمام مقاصد کے ساتھ ہم سب کے لیے باعث نجات ہے۔ خواہ ہم طبقہ ٔعلما و حفاظ ہوں یا دنیاوی ڈگری کے حصول کا مرکز، ہمیں قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر عمل پیرا ہونے کے تعلق سے اپنا محاسبۂ نفس کرنے کی ضرورت ہے ۔ محاسبہ اس طور پر ہو کہ آپ صدق دل سے اپنے گریبان میں جھانکیں ، اپنے آپ کو مخاطب کرکے سوال کریں کہ ِہم نے قرآن کریم کو اپنی ضروریات سے پرے کتنی مرتبہ رضائے خداوندی کے لیے تلاوت کی اور اس کو سمجھ کر عمل کیا ۔ ظاہر ہے قصورکاپتا تو محاسبۂ نفس کے وقت ہی چلے گا ورنہ یوں تو آپ عالم بھی ہو ، فاضل بھی ہو ، حافظ بھی ہو، بڑی بڑی ڈگری کے مالک بھی ہو ، دنیا میں آپ کی شہرت کے ہاتھی ناچتے ہیں پر اگر آپ کے پاس قلب سلیم ہے تو محاسبۂ نفس آپ کو جھنجھوڑتا ہوا نظر آئے گا کہ آپ قرآن کریم سے کتنے دور اور کتنے قریب ہو!! قرآن کریم سے ہماری دوری ہماری ذلت و خواری کا سب سے بڑا سبب ہے ۔اس کے باوجود نہ تلاوت کا معمول ہے نہ تعلیم و تعلم کا ۔حضرت امام غزالی ؒ نے ایک عارفی کی بات نقل کی ہے انہوں نے فرمایا کہ:

                 ’’  میں ہر ہفتے میں ایک قرآن ختم کرتاہوں اور ایک ختم قرآن میرا ایسا ہے جو مہینے میں پورا کرتا ہوں اور ایک تلاوت ایسی بھی ہے جس کو تین سال سے شروع کررکھاہے اور اب تک پوری نہیں ہوئی ۔‘‘

                اس قول کی تشریح امام غزالی ؒ نے کچھ یوں بیان فرمائی کہ یہ فرق قرآن کریم میں فکر وفہم ، غورو خوض کرنے کے اعتبار سے ہے ۔ کیوں کہ انسان کا دل ہمیشہ یکساں نہیں رہتا اور نہ ہمیشہ مساوی درجے کے غور وفکر کا عادی ہوتا ہے اس لیے اگر خصوصیت کے ساتھ ایک ختم قرآن بھی علاحدہ طور پر شروع کرلیا جائے کہ جس میں پاروں کا کچھ حصہ متعین کرکے ایسے مخصوص وقت میں تلاوت کی جائے جب کہ دل بالکل فارغ ہوتو معانی کا فہم بھی نصیب ہوگا اور تلاوت کے معمول میں بھی فرق نہیں آئے گا ۔

                اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اتنا واضح اور مبین بنا کر اتارا ہے جو سسکتی انسانیت کے لیے ہر موڑ پر مشعل راہ ہے اور یہ پہاڑو ں کو ہلادینے والا قرآن آج بھی وہ تاثیر رکھتا جو دور صحابہ میں تھی ، قرآن کریم سے ہماری دوریاں اللہ سے دوریاں پیدا کرنے کے مترادف ہے ۔

                اگر ہماری زندگی میں قرآن ہے تو ہم مرنے کے بعد بھی زندہ ہیں اور اگر ہم نے قرآن کریم کے ساتھ ستم شعاری اپنائی ہوئی ہے تو ہم زندہ ہوکر بھی قالب بے جان ہیں ۔ 

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی اٰلہ و صحبہ اجمعین