مفتی عبد المتین اشاعتی ؔکانڑگانویؔ (استاذ جامعہ اکل کوا)
(قارئین کرام کو زیر نظر تحریر غیر مربوط وغیر مرتب معلوم ہوگی، کیوں کہ میں باقاعدہ نہ ادیب ہوں، نہ انشا پرداز، بس حضرت رئیس رحمہ اللہ سے متعلق جو باتیں ذہن یا ڈائری میں محفوظ تھیں، وہ سپرد قرطاس کردی ہے، اس نیت کے ساتھ کہ اللہ پاک ہمیں بھی اپنے بڑوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے!۔نیز حسبِ ضرورت تبدیلی یسیریعنی الفاظ اور جملوں میں تقدیم وتاخیر، اور بین القوسین اضافہ بھی مرتبِ تحریر کی جانب سے ہے)
کسی نے سچ ہی کہا:جانے والے کبھی نہیں آتے، مگریاد آتی ہیں…اُن کی باتیں ،اُن کی کہاوتیں، اُن کی مشاورتیں، اُن کی مجلسیں، اُن کی فکریں،اُن کی نفاستیں،اُن کی ظرافتیں،اُن کی شرافتیں، اُن کی عظمتیں، اُن کی نصیحتیں،اُن کی طبیعتیں، اُن کی نوازشیں،اُن کی زندگیاں،اُن کی دل لگیاں، اُن کی خورد نوازیاں ، اُن کی ذرہ نوازیاں،وغیرہ۔
ہم لوگ مادرِ علمی جامعہ اکل کوا میں تحصیلِ علم کی خاطر داخل ہوئے، اس وقت شعور سے عاری تھے، شعبۂ عا لمیت میں درجۂ علیا میں پہنچے، تو دورانِ درس مشفق اساتذہ سے، اور عصر بعد کی مجلسوں میں رئیس جامعہ حضرت وستانوی دامت برکاتہم العالیۃکی زبانی ’’بڑوں کی قدر دانی‘‘ اور اس کی اہمیت معلوم ہوئی؛ ورنہ اس سے قبل بارہا ایسا ہوا کہ سالانہ تعطیلات کے موقع پر ’’سالانہ جلسے‘‘ تک رکے رہتے، اور جس روز جلسہ منعقد ہوتا اس میں شرکت کیے بغیر ، بزرگانِ دین کی زیارت اور اُن کی نصیحتیں سنے بغیر، گاڑی میں بیٹھ کر وطنِ اصلی کی طرف روانہ ہوجاتے۔ الغرض! حضرت رئیس جامعہ دامت برکاتہم کا معمول ہے کہ اپنے بزرگوں اور بڑوں کو، یا جن لوگوں نے بڑوں، بزرگوں کو دیکھا، اُن کی زیارت وملاقات کیں، انہیں جامعہ میں دعوت دیتے ہیں، یا کسی بزرگ شخصیت کی جامعہ میں تشریف آوری ہوتی ہے، تو طلبہ وعلما کے سامنے اُن کے بیانات کرواتے ہیں،تو اس طرح سے ہم لوگوں کو بھی جامعہ میں تشریف لانے والے واردین وصادرین بزرگانِ دین کے مواعظ وعلمی نصائح سے مستفیدہونے کا موقع ملتا۔آپ فرماتے ہیں: ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ بڑوں اور بزرگوں کو دیکھنے والے لوگ بھی ہم کو نہیں ملیں گے، اس لیے آج جو بڑے (بزرگانِ دین ) ہیں، اُن کی قدر کرلو۔
نیز حضرت رئیس جامعہ طلبہ کی مجلسوں میں اکثر وبیشتریہ مقولہ نقل فرماتے رہتے ہیں :’’العلم صید والکتابۃ قیدہ‘‘کہ علم شکار کی مانند ہے اور اس کو لکھ کر محفوظ کرلینا قید کی مانند ہے۔چنانچہ جب بھی کسی بزرگ شخصیت کی جامعہ میں آمد ہوتی ہے اور وہ وعظ ونصیحت کرتے ہیں، تو احقر اسے لکھنے، یا ذہن میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے ہی فخرِ گجرات بلکہ فخرِہندوستان، مفکرِ قوم وملت، خادمِ کتاب وسنت، جامعات کے سرپرست، مربی ومشفق ، مرشد ومسترشد، راہ نما وراہ بر، استاذ الاساتذہ حضرت علامہ عبد اللہ کاپودروی رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃ کی بھی کچھ یادیں، علمی باتیں اور نصیحتیںمحفوظ کی گئی تھیں، جو قارئین کی نظر ہے:
جامعہ میں آمد پر خوشی کا اظہار: ٭مجھے بڑی قلبی مسرت ہوتی ہے جب جامعہ میں حاضر ہوتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے اس کو ایسا عظیم مرتبہ عطا فرمایا، اور طلبہ کی عظیم تعداد کو بھیجا، شاید کہ کسی مدرسے میں (اتنی تعداد) نہیں ہے، اللہ کا ایک نظام ہے اس دنیا میں، جس کو چاہتا ہے اپنے دین کی خدمت کے لیے قبول کرتا ہے، جس کو اصطفیٰ کہتے ہیں، کسی انسان کے خواب وخیال میں بھی نہیں آتا۔
محاسبۂ نفس ضروری ہے: ٭ اخلاص کے سلسلے میں عجیب بات فرمائی کہ کوئی بھی کام کرو اللہ کی رضا مندی کے لیے کرو،شروع کام میں واقعی اخلاص ہوتا ہے، لیکن پھر کام پھیلتا ہے، لوگوں کا رجوع واقبال ہوتا ہے، تو پھر نیت میں فرق آتا ہے۔اس لیے اپنا محاسبہ کرنا ضروری ہے، بہت واہ واہ ہوتی ہے تو نفس موٹا ہوجاتا ہے۔اللہ سے دعا کریں کہ جو بھی کام ہم سے لے اخلاص سے لے۔
مدرسہ ایک عظیم نعمت: ٭ مدرسہ میں آپ آئے بڑی عظیم واعلیٰ قسم کی نعمت ہے۔ ہر ایک اپنے کو خوش نصیب سمجھے، اور اس پر اللہ کا شکر اداکرے۔ لئن شکرتم لازیدنکم۔
نعمتِ خداوندی کی ناقدری: ٭دل میں کسی وقت بھی یہ خیال نہ آئے کہ ہمارے ساتھی ڈاکٹر ، انجینئر ہیں، تن خواہ زیادہ ہے، بلکہ مشغلہ قرآن وحدیث اس دنیا میں سب سے بہتر ہے۔ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ جسے خدا کے رسول بہتر کہہ دے وہ خود اپنے کو گھٹیا سمجھے یہ نعمتِ خداوندی کی ناقدری ہے۔
۱۹۴۷ء کی افراتفری اور مسلمان: ٭ ملک میں ۱۹۴۷ء میںاتنی افرا تفری تھی کہ ایسا لگ رہا تھا گویا اسلام اس دنیا میں باقی نہیں رہے گا، ہمارے اکابرین نے کنیا کماری سے کشمیر تک کے دورے کیے، مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی کہ مسلمان اور مایوسی کبھی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے، مولانا آزاد یہی پیغام دیتے رہے کہ جو خدا پاکستان میں ہے وہی ہندوستان میں بھی ہے، کیوں تمہارے دلوں پر مایوسی چھائی ہے۔
۹۰؍ ہزار لوگوں کا قبولِ اسلام: ٭ خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ کے ہاتھ پر ۹۰؍ ہزار لوگ اسلام لائے، ان کی نسبت مع اللہ بہت قوی تھی، آج ہمارا ایمان اتنا کم زور ہے کہ ۹۰؍ ہزار مل کر بھی ایک کو مسلمان نہیں بناسکتے۔
دردِ دل: ٭ مدرسے بہت ہوگئے، مگر تعلیمی حالت ناگفتہ بہ ہے، بلکہ طالبِ علم اردو کتابیں بھی صحیح نہیں پڑھتے ہیں۔
علم تو محنت سے آتا ہے: ٭نقوشِ علم درست کریں، کتاب کو حل کریں، ہر حرف کو سمجھیں، ورنہ بے چینی وبے قراری میں رات گزاریں، یہ علم تو محنت سے آیا کرتا ہے۔ ’’صفحات من صبر العلماء‘‘نامی کتاب پڑھے، جو شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی تالیف کردہ ہے۔
سرسری پڑھ لینا کافی نہیں: ٭علم آتا ہے مسلسل پڑھنے سے ، اس لیے کتابوں سے وابستہ رہے، اس سے علم پختہ ہوتا ہے۔ علامہ علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: کسی کتاب کا سرسری پڑھ لینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ اتنا پڑھو اتنا پڑھو کہ گویا اس کتاب کو آپ نے چاٹ لیا ہے، فرمایا:’’ضحی الاسلام‘‘ کو میں نے اتنا پڑھا ہے کہ ذہن میں اس کے صفحات محفوظ ہوگئے ہیں۔حضرت رئیس رحمہ اللہ نے فرمایا: کتاب؛ سیرت النبی، خطباتِ مدراس پڑھو، اس کی عبارتیں بڑی اچھی ہیں۔
جدید ذرائع ابلاغ اور ٹی وی کی ضرورت: ٭’’الوستانوی ٹی وی ‘‘ کے آغاز پر، ٹی وی کی ضرورت سے متعلق کہ مدارس اور دینی کام کرنے والے علما کے لیے اب جدید ذرائع ابلاغ کا سہارا لینا کتنا ضروری ہوگیا، حضرت نور اللہ مرقدہٗ نے بڑے بہترین انداز میں اس ضرورت کا حل بیان کیا، فرمایا:
’’دنیا میں ہر بڑا انسان، پڑھا لکھا انسان، سمجھ رہا ہے کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ لوگوں کے ذہنوں کو بدلنے کا جو کام ہے یہ میڈیا ہی کررہا ہے، حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں میڈیا کے پروپیگنڈے سے، قوموں کی ذہنیت کو بدلا جارہا ہے میڈیا کے ذریعے سے، اس لیے اس کی بڑی ضرورت ہے کہ ہم اس کا استعمال کرکے صحیح حق کی بات لوگوں تک پہنچائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ چیزیں نہیں تھیں، لیکن اس وقت ذرائع ابلاغ دوسرے تھے، مثلاً اشعار پڑھے جاتے تھے، عرب کے شعرا کسی قبیلے کی تعریف کرتے تھے، تو پورے عرب میں وہ پھیل جاتی تھی، کسی کی برائی بیان کرتے تھے، تو پورے عرب میں اس کی برائی پھیل جاتی تھی، مشرکین مکہ نے اپنے بعض شعرا کو لگایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی بیان کریں، اسلام کے خلاف اشعار کہیں، جب یہ بات آپ تک پہنچی، تو آپ نے فرمایا: کوئی ہے جو اس کا دفاع اور ڈیفینس کرے، حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ نے جواب دیا، یا رسول اللہ !میں اس کا دفاع کروں گا، تو یہ میڈیا کا جواب تھا، ذرائع ابلاغ اس زمانے میں اشعار تھے، شعر گوئی تھی، اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان کے لیے مسجد میں ممبر لگوایا، حضرت حسان نے اتنی خوبصورتی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کی کہ آج بھی ان کے اشعار جب ہم پڑھتے ہیں، تو عش عش کرتے ہیں، اور ایسا جواب دیا ہے کہ دشمنانِ اسلام کا منہ بند کردیا؛ الغرض جو حالات آج کل چل رہے ہیں ہمیں ان کا مقابلہ اسی انداز سے کرنا پڑے گا۔حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مجلس میں یوں فرمایا کہ بھائی جس فوجی کو یہ معلوم نہ ہو کہ حملہ کس جہت سے ہوگا؟ اور کن ہتھیاروں سے ہورہا ہے؟ تو وہ کیسے ڈیفینس اور دفاع کرے گا؟
ہمیں اپنے زمانے میں ایک بات سوچنی چاہیے کہ ہمارے اوپر فکری حملے جو ہورہے ہیں، جسے عربی میں ’’الغزو الفکري‘‘ کہتے ہیں، فکری طور پر ہمارے ذہنوں کو، ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں کو بدلا جارہا ہے وہ میڈیا کے ذریعے سے ، ٹیلی ویژن کے ذریعے سے، وہ ریڈیو کے ذریعے سے، اخبارات اور صحافت کے ذریعے سے، تو یہ ایسے ہتھیار اس زمانے میں ہیں کہ ان سے مفر نہیں ہے۔اگر ہم ان ہتھیاروں اور ذرائع ابلاغ کے آلات کو استعمال نہیں کریں گے، تو ہم نے دیکھا کہ بعض ایسی تنظیمیں جن کے ساتھ ہم اتفاق نہیں کرسکتے، مثلاً قادیانی حضرات ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے خلاف بغاوت کررہے ہیں، انہوں نے پوری دنیا میں کئی چینلیں اپنی ـلگا رکھی ہیں، اور پوری دنیا میں وہ اسلام کو اپنے طور پر پیش کررہے ہیں، اور پوری دنیا سمجھ رہی ہے کہ اسلام یہ ہے جو یہ (قادیانی) لوگ پیش کررہے ہیں، تو کیا اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم ایسا سلسلہ شروع کریں، کہ جس میں صحیح وحق بات پیش کی جائے، ہمارے اکابرین نے، ہمارے صحابہ نے جو باتیں اسلام میں پیش کی ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی اسی ہتھیار (ذر ائع ابلاغ/میڈیا) کو استعمال کریں۔
مجھے معلوم ہے کہ ہمارے علما میں اس سلسلے میں اختلافِ رائے ہے، کہ ٹیلی ویژن کو ہم استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟ ٹیلی ویژن پر ہم آسکتے ہیں یا نہیں؟ لیکن میرے دوستو! اگر دنیا کے حالات کا جائزہ لیں، اگر ہم نے دنیا کا سفر کیا ہو، اگر ہم یورپ گئے ہوں، امریکا گئے ہوں، تو ہمیں دل سے یقین ہوجائے گا کہ اب اس کے علاوہ ہمارے پاس چارۂ کار نہیں ہے؛ اگر ہمیں حق پہنچانا ہے، ہمیں ہمارے نوجوانوں کو صحیح راہ پر ڈالنا ہے، تو ہمیں اس میڈیا کا بھی استعمال کرنا پڑے گا، ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد آج اس کو استعمال کرکے غلط راستے پر جارہی ہے۔اب یہ تو ایک ایسی چیز ہے کہ آپ اس کو صحیح طریقے سے بھی استعمال کرسکتے ہیں، غلط طریقہ سے بھی، مثال کے طور پر چھری ہمارے گھر میں ہوتی ہے، ہم اس چھری سے پھل بھی کاٹتے ہیں، سبزی بھی کاٹتے ہیں، ہم اپنے ضروری کام اس سے کرتے ہیں، لیکن اسی چھری کو لے کر کوئی کسی کے گلے پر بھی پھراتا ہے، کسی کو زخمی کرتا ہے، اب ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ چھری اپنے گھر میں نہ رکھیں، کیوں کہ اس سے تو کسی کو زخمی کردیا جاتا ہے، کسی نے غلط استعمال کیا تو چھری گھر میں رکھنا نہیں چھوڑدیں گے،بلکہ پھل وسبزی کاٹنے کے لیے ہمیں چھری گھر میں رکھنا پڑے گی، تو ایسے ہی اگر ہمارے پاس میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی طاقت ہے،تو دین حق کی بات پوری دینا تک پہنچاسکتے ہیں، پہلے زمانے میں دنوں اور مہینوں میں خبریں آتی تھیں، اب منٹوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک میڈیا کے ذریعہ بات پہنچ جاتی ہے، اگر میڈیانہ ہوتا یہ خبریں معلوم نہ ہوتیں۔ جس خبر کو ہم صبح پڑھتے ہیں، وہ کینڈا اور امریکہ وغیرہ میں رات میں ہی لوگ پڑھ لیتے ہیں۔
شعر کو پسند نہیں کیا گیا، اس کے بارے میں کہا گیا: حسنہ حسن ، وقبیحہ قبیح ؛ یعنی اس میں سے جو اچھے ہیں وہ اچھے ہیں، اور جو برے ہیں وہ برے ہیں، لیکن میں نے اوپر عرض کیا کہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام کی طرف سے دفاع کیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح بیان کرکے جواب دیا مشرکین کو ، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے، آپ نے ان کے لیے دعائیں کیں؛ اس لیے کہ انہوں نے شعر کو اچھے کام میں استعمال کیا، ہم اگر میڈیا وذرائع ابلاغ کو غلط کام میں، فحش پھیلانے میں استعمال کریں گے، اس میں غلط تصویریں ڈالیں گے، اس میں اپنی بڑائی بیان کرنے اور جتلانے کے لیے ہم ٹیلی ویژن پر جائیں گے، تو ہماری یہ چیز اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہوگی، لیکن اگر ہماری نیتوں میں فتور نہیں ہے ، ہم صحیح نیت کے ساتھ دین کو پہنچانا چاہتے ہیں، تو میری رائے یہ ہے کہ اس کا استعمال ہم لوگوں کو کرنا چاہیے۔‘‘وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین!
(بشکریہ: الوستانوی ٹی وی)
لفظ ’’کام یاب‘‘ پر ایک لطیفہ: ٭قابلِ احترام، مدیر اشاعت العلوم حضرت وستانوی، مؤقر اساتذۂ کرام اور میرے عزیز بھائیو! خوشی ہے کہ آپ کے انعامی جلسے میں شریک ہوئے ہیں، میری عمر ۸۰؍ سال کی ہورہی ہے اسلامی تاریخ کے اعتبار سے، بیماری کی وجہ سے حافظہ بھی خراب ہوگیا۔
ہدف ومقصد مقرر کرنا: ٭ آدمی کام کرنا چاہتا ہے، تو ہدف ومقصد مقرر کرلیتا ہے، پھر اس کی پوری توجہ اس کی تکمیل کی طرف ہوتی ہے، کسی بھی کام میں یک سوئی ضروری ہے، یک سوئی کے ساتھ محنت اور جد وجہد، شدید محنت ضروری ہے، کام یابی تو کام سے ہوگی نہ کہ صرف نام سے۔
(لفظ کام یاب میں ’’کام‘‘ پہلے ہے، ’’یاب‘‘ بعد میں ہے، یعنی پہلے کام کرو پھر اُس کا نتیجہ ظاہر ہوگا)
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ نے لکھا: ٭طلبہ علم کے راستے میں اپنے آپ کو منہمک کریں، شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے:’’من ترک إخوانہ وہجر دکانہ ، فإن مات أحد من أقربائہ فلم یشہد جنازتہ‘‘۔ کہ کچھ لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں علمِ دین کے حصول کی خاطر اپنے بھائیوں، دوست واحباب اور دکان وکاروبار کو چھوڑدیا، اگر ان کے رشتہ داروں میں سے کسی کاا نتقال بھی ہوگیا تو وہ اس کے جنازے میں شریک نہ ہوسکے۔
ذہین طالبِ علم کا عبرت ناک انجام: ٭ذہین لڑکے غفلت میں پڑجاتے ہیں، علم کا غرور پیدا ہوتا ہے، علم کا خاصہ ترفُّع ہے، آدمی کو اُٹھاتا ہے، علامہ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے، ایک طالبِ علم ذہنی اعتبار سے کم زور تھا،استاذ کی خدمت کرتا رہتا تھا، ذہین طالبِ علم نے کہا حقارت سے کہ یہ کیا کام کرے گا؟ حضرت نے سنا تو بہت برا معلوم ہوا، اللہ سے دعا کی کہ اللہ تو اس سے کام لے لے، ایسا ہی ہوا، اللہ نے اس سے کام لیا اور ذہین سے کچھ کام نہ لیا۔
بے ادب محروم گشت از فضل رب: ٭میرے ایک پونہ کے ساتھی نے جو بہت ذہین تھا، صرف ۱۵؍ دن میں گجراتی زبان سیکھ لی تھی،ہمیشہ اول نمبر آتا تھا، ہمارے درمیان مسابقہ چلتا رہتا تھا، ہم مولانا عبد الرؤف صاحب کے پاس جاتے، وہ کہتا: حضرت کیا دن میں لکڑیاں پھاڑتے ہیں کہ پیر دبواتے ہیں، میں نے سمجھایا، فراغت کے بعد ملا کہا:گھڑی دوکان پر کام کرتا ہوں بمبئی میں، پھر بعد میں لاری پر پاؤ بیچتا دیکھا، صابو صدیق مسافر خانہ کے سامنے، اگر اساتذہ کی بے ادبی کروگے تو ناکام ہوجاؤگے۔
(کسی نے سچ ہی کہا: ’’بے ادب محروم گشت از فضلِ رب‘‘)
کتاب کا ادب: ٭کتاب کا ادب، اساتذہ کی خدمت، اور یک سوئی کے ساتھ محنت کرو۔
اصل چیز حدیث وفقہ ہے: ٭علامہ تھانوی رحمہ اللہ کے حوالے سے فرمایا: طلبہ کو ادب، منطق اور فلسفہ میں انہماک نہیں کرنا چاہیے، اصل چیز حدیث وفقہ ہے۔
ابوجہل اور بلال میں فرق: ٭ابو جہل ابو الحکم سے مشہور تھا، لیڈر وصدر نشیں تھا دار الندوہ کا، بڑا ادیب تھا، لیکن اس کی عربیت ادبیت سے فائدہ نہ ہوا، لیکن حضرت بلال حبشی تھے، ’’ش‘‘ نکال نہیں پاتے تھے، مگر اذان دیتے، تو لوگ تڑپ جاتے تھے۔
فقہاء ؛ فقہاء ہیں: ٭فقہاء کے پاس بڑے بڑے لایر (قانون دان) آجائیں، تو بھی فقہاء اُوپر ہی رہیں گے۔ خود علامہ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ بڑے بڑے وُکلاء آئے، شرعی مسئلہ سمجھ میں نہ آیا، دار العلوم میں تشفی نہ ہوئی، لوگوں نے تھانہ بھون بھیجا، حضرت نے ظہر بعد مجلسِ خصوصی میں بلایا، حضرت نے اللہ کی طرف توجہ کی اور ان کو فرق بتلادیا، ایک نے منہ میں انگلی ڈال دی کہ آپ کو تو بیرسٹر بننا چاہیے تھا، فرمایا: الحمد للہ، الحمد للہ! ہم نے فقہ پڑھی ہے، حالانکہ وہ مسئلہ کبھی سامنے نہیں آیا تھا۔
ملک کا بٹوارا: محمد علی جناح اور موہن لال کرم چند گاندھی دونوں نے ملک کا بٹوارا کروایا، اور دونوں گجراتی ہیں۔
ہدایہ اخیرین: ٭ ہدایہ اخیرین کے دلائل خالص قانونی ہیں، سمجھنے سمجھانے کے لیے عمر چاہیے۔
اتنا انعام!؟: ٭ایک مرتبہ انعامی جلسے کے موقع پر فرمایا: گجرات میں ۵۲؍ دار العلوم ہیں، لیکن اتنا کثیر انعام کسی جگہ نہیں ملتا میرے علم کے مطابق۔
(اس موقع پر جامعہ میں ممتاز طلبہ کو ۴؍ لاکھ ۲۲؍ ہزار روپئے انعام دیا گیا تھا)
سوال نصفِ علم: فرمایا: طلبہ کو چاہیے کہ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے، یا کوئی اشکال ہو، تو استاد سے ضرور پوچھیں ، کیوں کہ السؤال نصف العلم، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فاسئلوا اہل الذکر؛أي أہل العلم۔
کتاب اور نصاب سے متعلق مشورہ: ٭مدیر تنفیذی ومعتمد جامعہ حضرت مولانا حذیفہ ابن حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی حفظہما اللہ کتابوں اور نصاب سے متعلق حضرت مرحوم سے مشورہ لیا کرتے تھے۔
کتابی ذوق : ٭حضرت مرحوم جب کبھی اکل کوا تشریف لاتے، اور طلبہ واساتذہ میں خصوصی میٹنگ ہوتی، تو ہر مرتبہ کوئی نئی علمی بات یا نئی طبع ہونے والی کتاب کا تذکرہ فرماتے تھے، اور فرماتے کہ کتب خانہ میں ایک خانہ صرف نئی آنے والی کتابوں کے لیے خاص ہونا چاہیے، ساتھ ہی اساتذہ کو ترغیب دیتے کہ کتب خانہ میں جب بھی کوئی نئی کتاب آئے، تو اسے جاکر دیکھنا چاہیے۔
کتابیں اپنے آباء کی: ٭یورپی کتب خانوں خاص کر لندن میں ایک کتب خانہ ہے جس میں برٹش گورنمنٹ کے زمانے میں برصغیر سے بہت قدیم واہم کتابیں لے جائی گئیں، آپ اس پر بہت کڑھتے، فکر کرتے اور علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعر پڑھتے تھے:
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
یعنی یورپ کی نشأتِ ثانیہ اسلامی علوم ہی کی مرہونِ منت ہے، اسی جانب علامہ اقبال مرحوم کا اشارہ ہے کہ اپنے آباء واجداد کی وہ کتابیں، وہ تصانیف، وہ اِیجادات وتحقیقات جو علم وحکمت کے بیش بہا موتی تھے، انہیں یورپ میں دیکھ کر ، ان سے استفادہ کرکے آج مغربی ممالک نے ترقی کے تمام منازل طے کرلیے ہیں، دوسری طرف عالمِ اسلام پر نظر ڈالیں، تو ہمیں سخت مایوسی ہوتی ہے، ہم نے کتنا بڑا اثاثہ کھودیا، اور آج کشکول گدائی لیے پھر رہے ہیں۔
طالبِ علم رازی وغزالی سے کم نہیں: ٭ایک مرتبہ علماء کی خصوصی مجلس میں وعظ کرتے ہوئے فرمایا کہ استاذ اپنے پاس پڑھنے والے ہر طالبِ علم کو ’’رازی وغزالی‘‘ سمجھ کر پڑھائے۔
علمی لطیفہ: ٭آپ کو عربی زبان سے بڑی محبت تھی، ایک مرتبہ حج کے موقع پر پیش آیا اپنا ذاتی واقعہ بیان فرمایا کہ مقامِ عرفہ میں کچھ دیہاتی عرب حضرات سے ملاقات ہوئی، میں اُن کے پاس جاکر بیٹھ گیا، تاکہ اُن سے کچھ سیکھوں، انہوں نے مجھ سے مزاحاً پوچھا: کم حرمۃ عندک ؟ لفظ ’’ حرمۃ ‘‘ چوں کہ میں پہلی بار سن رہا تھا، اس لیے اس کا معنی مجھے معلوم نہیں تھا، میں نے لا علمی کا اظہار کیا کہ : ما معنی حرمۃ ؟ تو انہوں نے جواب دیا : أي کم زوجات عندک؟ تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اہلِ عرب زوجہ یعنی بیوی کے لیے لفظ ’’حرمۃ ‘‘ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔
’’تبرک کا صحیح مطلب‘‘ ایک لطیفہ: ٭حضرت وستانوی دامت برکاتہم فرماتے ہیں: میں حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی رحمہ اللہ کے گھر استری کرتاتھا،ایک دن استری کرنے گیا، کپڑوں کے ساتھ حضرت کا ایک رومال تھا، جو پھٹ گیا تھا، میں نے خالہ سے کہا: یہ رومال پھٹ چکا ہے، کیا میں تبرک کے طور پر اسے رکھ لوں؟ انہوں نے کہا: کوئی بات نہیں، رکھ لے، حضرت نے دیکھا کہ میرا رومال نظر نہیں آتا، خالہ سے پوچھامیرا رومال کہاں ہے؟ کہا: غلام تبرک یا ایسا کچھ بول کر لے گیا ہے، تو حضرت مجھے بولے: تبرک کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی چیز پرانی ہوجائے، یا پھٹ جائے تو لے لو، بلکہ تبرک کا مطلب یہ ہے کہ پہلے نئی چیز خرید کر لادو، وہ اسے استعمال کرے، اس کے بعد اس سے وہ چیز لو، یہ تبرک کا اصل مفہوم ہے۔
(یہ واقعہ سناکر حضرت وستانوی ہنس پڑے۔ أضحک اللہ سنہ!)
علمائے دیوبند فکر ولی اللّٰہی: ٭جامعہ اکل کوا میں اساتذہ کی خصوصی مجلس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: یہ علمائے دیوبند فکرِ ولی اللّٰہی ہے،یعنی اپنی زندگی کو دنیا کے انسانوں پر وقف کرنا۔(گویا آپ خواجہ میر درد کے حوالہ سے یہ کہنا چاہتے ہیں): ؎
درد ِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو! ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
تذکرۂ حضرت باندوی رحمہ اللہ: ٭فرمایا: قاری صدیق صاحب باندوی رحمہ اللہ کی استعداد بہت اعلیٰ تھی، چاہتے تو کسی جگہ شیخ الحدیث بن سکتے تھے، مگر خود کے علاقے میں جو ڈاکوؤں کا علاقہ تھا، محنت کیں، دیہات کے آنے والے بچوں کی گندگی اپنے ہاتھ سے صاف کرتے تھے، جب وہ پیشاب کردیتے تھے۔ خود ہم سے فرمایا کہ اب یہ حال ہے کہ ۳۰۰؍ مسجدوں میں ہمارے حفاظ نے قرآنِ کریم سنایا۔ آپ کی خوراک سادہ تھی ۔
ہدایہ کی عبارت: ٭ قاری صدیق صاحب باندوی رحمہ اللہ کا واقعہ ہے کہ عصر بعد میں ایک صفحہ ہدایہ کا اپنے ساتھی کو پڑھ کر سناتا، پھر وہ ایک صفحہ پڑھتا میں سنتا، پھر اس کا مذاکرہ ذہن میں محفوظ کرتے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ اب تک ہدایہ کی عبارتیں یاد ہیں۔
حضرت باندوی رحمہ اللہ کی سادگی: ٭جب حضرت قاری صاحب مانچسٹر (یوکے) کے ایئر پورٹ پر اُترے اس وقت لال رومال اور سبز کلر کی لنگی بندھی تھی، جم غفیر استقبال میں تھا، ہر شہر میں بے تحاشہ لوگ امڈ پڑے تھے، کہا: شیخ کے مریدین موجود ہیں اُن سے بیعت کرو، ہم تو مہمان ہیں، چلے جائیں گے، کیا فائدہ ہوگا۔
٭ نیز فرمایا: میرے مدرسے کے چندے کے سلسلے میں کسی مسجد میں اعلان نہ کیا جائے، میں تو دین کی بات کرنے آتا ہوں۔(حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کی اس سادگی پرعلامہ اقبال کے یہ اشعار یاد آتے ہیں):
جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نَفَس اُن کی
الٰہی! کیاچھپا ہوتا ہے اہلِ دل کے سینوں میں
تمنا دردِ دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
اور خواجہ میر درد کا یہ شعر بھی :
تر دامنی پہ شیخ! ہماری نہ جا، ابھی دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
اخلاص کا تاج محل: ٭فرمایا: میرے اکل کوا کے دوستو! ٹھان لو کہ قاری صاحب کی طرح زندگی گزاریں گے، اور قریہ قریہ جاکر محنت کریں گے، نیت کیجیے کہ پیسہ کمانے یہاں نہیں آئے، بلکہ اس لیے آئے ہیں کہ اللہ کا دین دیہاتوں میں پہنچائیں ۔دُور دَراز علاقوں کا رُخ اختیار کریں۔
یہ اخلاص اور بزرگوں کی توجہ کی وجہ سے علمی محل بن گیا ہے۔ (جسے ہم ’’اخلاص کا تاج محل ‘‘ نام دے سکتے ہیں)۔
علم کا تاج محل: ٭فرمایا: شاہ جہاں نے آگرہ میں تاج محل کروڑوں کا بنایا، لیکن مولانا (غلام محمد وستانوی دامت برکاتہم) نے علم کا تاج محل بنایا اکل کوا میں۔شاہ جہاں کے تاج محل سے قیمتی یہ اکل کوا کا علمی تاج محل ہے، جہاں پس ماندہ علاقے کے لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ (اللہ اکبر!)
آپ بھی دل میں یہ داعیہ رکھیں کہ ہم بھی پورے علاقے میں پھیل جائیں گے، علماء ہی یہ کام کرسکتے ہیں، کرتے تھے ، اور کررہے ہیں، یہ علماء کی خصوصیات میں سے ہے۔
(۳؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۴ھ بمقام جامعہ اکل کوا)
شجر سے پیوستگی کی برکت کا ثمرہ: ٭رئیس جامعہ حضرت وستانوی دامت برکاتہم پر اپنے مشفق ومربی سرپرست جامعہ رحمہ اللہ کا بڑا احسان ہے، حضرت وستانوی بارہا اس کا تذکرہ اپنی عصر بعد کی مجلسوں میں طلبۂ جامعہ کے سامنے اور اساتذہ کی خصوصی میٹنگوں میں بیان فرماتے رہتے ہیں۔ایک مرتبہ فرمایا:
’’ہم جو کچھ ہیں حضرت ( مولانا عبد اللہ صاحب نور اللہ مرقدہٗ وبرد مضجعہٗ) کی توجہ اور برکت کا ثمرہ ہے۔والد صاحب نے فیصلہ کیا کہ علی گڑھ حکیم بنانے کے لیے بھیج دیا جائے، حضرت نے موافقہ دے دیا، ایک دن عصر کے بعد گیا چائے لے کر، حضرت نے ملفوظ پڑھا حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا کہ – ’’جو آدمی چاہے کہ اس کی اولاد دین ودنیا سے ہاتھ دھو بیٹھے تو وہ اپنی اولاد کو شعراء کے حوالہ کردے، جو چاہے کہ اپنی اولاد دین سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہ اپنی اولاد کو حکیموں کے حوالہ کردے‘‘،- تو تیرے بارے میں میرا فیصلہ بدل گیا ہے، حضرت نے والد صاحب کو بتلایا، والد صاحب نے کہا: آپ کو اختیار ہے ، جو چاہے کیجئے، (چنانچہ میں حضرت کی تربیت میں رہ گیا)۔‘‘
٭… حضرت وستانوی دامت برکاتہم کا یہ جملہ کہ ’’ہم جو کچھ ہیں حضرت ( مولانا عبد اللہ صاحب نور اللہ مرقدہٗ وبرد مضجعہٗ) کی توجہ اور برکت کا ثمرہ ہے‘‘ ، ہمیں علامہ اقبال کی زبان میں یہ سبق دیتا ہے کہ:
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ! پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ!
آپ کی بعض صفات جو علما وطلبہ کے لیے قابلِ تقلید ہیں:
کتاب سے حد درجہ عشق، کتاب دوست، کثیر المطالعہ، تاخیرِ وقت پر افسوس ، وقت پر کام کا داعیہ(پابند وقت) ،وقت پر کام کی خوشی، علمی سرگرمی کی پوچھ تاچھ، ادبی ذوق، تقریر وتحریر میں تجرباتی باتیں، ہر چیز اور واقعہ سے عبرت وسبق لینے کی عادت، غیر جانب دار،بہترین منتظم، ادیب واریب عربی واُردو، مفکر ملت، عمیق النظر، کشادہ جبین، روشن ضمیر، ہشاش بشاش ونورانی چہرہ،خیر خواہِ اہلِ مساجد ومدارس، مکارمِ اخلاق وتربیتی مزاج کی حامل شخصیت، عالم ربانی، مربی علماء وطلبہ،مقتدائے علما وطلبہ، نوافل کا اہتمام، سرپرست جامعہ (بلکہ جامعات)، ہم درد غم خوار۔
کلماتِ رئیس بروفاتِ رئیس: ٭ آپ کے خادمِ خاص حضرت رئیس جامعہ اکل کوا، حضرت مولانا غلام محمد وستانوی دامت برکاتہم فرماتے ہیں: آپ رحمہ اللہ کتابی کیڑے تھے، مولانا حذیفہ صاحب کے ساتھ کویت وغیرہ کا خلیجی ملکوں کا سفر کیا اور کتب خانوں میں جاکر کتابوں کو ہی دیکھتے رہے، ایسا کتاب دوست میں نے نہیں دیکھا۔
آپ کا حال یہ تھا کہ اِدھر موت کی تیاری ہے اور اُدھر کتابوں کی خریداری۔ (گویا آپ اس مصرعہ کا عملی نمونہ تھے): ؎
مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا
٭فرمایا: عیادت کے لیے گئے، تو کہا: ’’غلام ‘‘کو چائے پلاؤ۔ پھر فرمایا: ’’غلام‘‘ تونے میری خدمت کی ہے۔ اس پر حضرت وستانوی آب دیدہ ہوگئے اور فرمایا: میں ایک دیہاتی کسان کا بیٹا آپ نے کہاں پہنچایا۔
٭حضرت مولانا عبد اللہ صاحب اور حضرت شیخ یونس جون پوری رحمہم اللہ یہ میرے وہ اساتذہ ہیں جنہوں نے مجھے کام کا بنایا۔ مولانا عبد اللہ صاحب بھی کسان کے بیٹے تھے، اُن کے والد اکابر سے وابستہ رہے، ان کو بھی وابستہ کیا، اس لیے اکابر سے وابستہ رہنا طالبِ علم کے لیے بہت ضروری ہے۔ حضرت مرحوم کی ثنا خوانی مقصود نہیں ہے، بلکہ اصل ہے اُن کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی بنانا۔
٭ اور فرمایا: ’’اللہ رب العزت نے میری چاہت کے سارے کام ’’مولانا غلام‘‘ سے لیے۔
یا حذیفۃ ! إني أحبک: ٭دینی وعلمی کام کرنے والے نوجوانوں سے محبت،جیسا کہ مولانا حذیفہ وستانوی دامت برکاتہم سے فرماتے: ’’یا حذیفۃ ! إني أحبک‘‘، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، آپ کا ارشاد ہے: ’’یا معاذ ! إني أحبک‘‘۔(یہ کہہ کر گویا آپ رحمہ اللہ نوجوانوں کو یوں حوصلہ دیتے ہیں):
مجھے محبت اُن جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
دنیا موضعِ اقامت نہیں: ٭آخر کار حضرت ہم سے رخصت ہوگئے زبانِ حال سے میر تقی میرکے یہ اشعار کہتے ہوئے:
فقیرانہ آئے، صدا کرچلے کہ میاں! خوش رہو ہم دعا کرچلے
اور ہمیں یہ سبق دے گئے کہ:
دنیا موضعِ انتقال ہے!موضعِ اقامت نہیں!
نزلناہا ھنا ثم ارتحلنا
کذا الدنیا نزول وارتحال
یظنّ المرء في الدنیا خلودًا
خلود المرء في الدنیا محال
ہم دنیا میں آئے، پھر کوچ کر جائیں گے! ایسے ہی آنے اور جانے کا نام دنیا ہے!
آدمی کی خام خیالی ہے کہ وہ دنیا میں ہمیشہ رہے گا! حالانکہ انسان کا دنیا میں ہمیشہ رہنا محال ہے!
ایں خیال است ومحال است وجنوں!