اداریہ:
مولانا حذیفہ صاحب وستانویؔ / مدیر’’شاہراہِ علم‘‘ و رئیس جامعہ اکل کوا
اللہ ربُّ العزت کا ہم (طلبہ و معلّمینِ مدارسِ اسلامیہ) جتنا شکر ادا کریں کم ہے کہ اس ربِّ ذوالجلال نے محض اپنے فضلِ خاص، اپنی رحمتِ بے پایاں اور توفیقِ ایزدی سے ہمیں اپنی نگاہ میں سب سے افضل مشغلہ، دین کو سیکھنے سکھانے کے لیے منتخب کیا۔ جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، یہ بڑا پُرآشوب اور نازک دور ہے۔ ہر شخص اور فردِ بشر پر دنیا کی محبت کا بھوت سوار ہے، فانی دنیا کے پیچھے دنیا اندھا دُھند دوڑ رہی ہے اور آخرت کی ذرّہ برابر فکر نہیں۔ ایسے میں اپنے ایمان و اسلام کی حفاظت کا مضبوط ترین قلعہ مدارس ہی ہیں، مگر افسوس کہ آہستہ آہستہ اہلِ مدارس، علما و طلبہ بھی فتنۂ دنیا کے جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ طلبہ محنت و ریاضت سے جی چرا رہے ہیں۔ اساتذہ و منتظمین، علما و ائمۂ مساجد اور معلّمینِ مکاتب بھی اپنی عظیم ذمہ داری، تعلیم و ایمانی تربیت سے بے فکر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
ایسے میں لازم ہے کہ علماء برادری میں احساسِ ذمہ داری بیدار کی جائے۔ تو آیئے! جانیں کہ ہم طلبہ و علما، ہمارے اوپر عائد نسلِ نو کی ایمانی و اسلامی تربیت کا فریضہ کیسے ادا کریں؟
مستقبل کی تیاری حال میں:
مستقبل کی تیاری حال میں ہوتی ہے، اور حال کا ماضی سے مضبوط رشتہ استوار رکھنا، اس کی ہر اونچ نیچ سے واقف ہونا ہر زندہ قوم کے ہاں ایک بدیہی اور ضروری امر تصور کیا جاتا ہے۔ امتِ مسلمہ کا تابناک، مثالی دور وہ ہے، جو گزر چکا ہے؛ بل کہ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ کا عظیم دورانیہ بھی وہی ہے، جس میں انسانیت کی عظیم شخصیات، حضراتِ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام، بالخصوص سیّدُ الاِنس والجان، حبیبِ خدا، رسولِ امین صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم المرتبت شخصیت موجود تھی۔
کام یابی و کام رانی، انسانیت شناسی، معرفتِ خداوندی، رفعِ درجات، ترقیِ حقیقی کے لحاظ سے وہی دور انسانیت کا سب سے تابناک اور حسین دَور تھا؛ اس لیے جو لوگ اس کے قریب ہیں، ان کی نسبتیں عالی سمجھی جاتی ہیں۔ وہ خیر و برکت کے سرچشمے، علوم و معرفت کے خزانے ہوا کرتے ہیں۔
مدارسِ اسلامیہ خاص طور پر بزرگانِ دیوبندکافہم وبصیرت:
ماضی قریب کے علما اور مدارس سے منسلک ذمہ داران ہمارے نجی، اجتماعی، تعلیمی، تربیتی، ملکی، بین الاقوامی مسائل، مشکلات اور نئے چیلنجز کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے ہیں، ان کی باتوں میں، ان کے طرز واندازمیں سادگی، بے تکلفی وبے ساختگی کا فرق نمایاں ہوگا، یہ اونچے لوگوں کی شان ہواکرتی ہے، اصحاب ِ بصیرت جانتے ہیں کہ ان کی سادہ گفتگو، تجاویز اورمشوروں میں کیاکیابرکتیں، حقائق پوشیدہ ہیں، جس کوظاہربین نگاہیں نہیں پا سکتیں۔
برکت کے ان سرچشموں سے فیض پانا، ان کی رائے کووقعت کی نگاہ سے دیکھنا، ان کی تجاویز کوتائیدغیبی کاحصہ سمجھنا، ان کے وجود کوبرکت ورحمت کاباعث گردانناامت مسلمہ کی تعلیم وتربیت کالازمی حصہ ہے، جس پر طبقہ در طبقہ عمل ہوتاچلاآیاہے، اور اسی کی وجہ سے ہمیشہ امت گرداب سے نکلی ہے، مصیبتوں اورآزمائشوں میں گرکربھی اپنی جداگانہ شناخت، شان وشوکت اورآن بان کو کھویا نہیں الحمدللہ! اور قیامت کی صبح تک حق کا یہ قافلہ باطل کی ہزار کوششوں اور سازشوں کے باوجود باقی رہے گا ان شاء اللہ، جو ’’لا تزال طائف من امتی منصورین علی الحق لا یضرھم من خذلھم‘‘ کا حقیقی مصداق ہے اور رہے گا ان شاء اللہ۔
مدارسِ اسلامیہ مغرب زدہ جدّت پسندوں کے آنکھ کا کانٹا کیوں؟!
مغرب زدہ یا خود پسندی کے شکار لوگ، مدارس کو قدامت پسندی اور شخصیت پرستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ ان زمانہ ساز لوگوں کو راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں، کیوں کہ ان کے ہوتے ہوئے خود ان کو ترقی نہیں ملتی، لوگ ان کی باتوں پر کان نہیں دھرتے، ان کی دانش وری سے استفادہ کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نہ ہوں تو ان کی ملمع سازیوں اور خود پسندیوں کے لیے انہیں خالی میدان مہیا ہو، پھر جس طرح چاہیں، مذہب کی ترویج، ضرورتِ زمانہ، تعمیر و ترقی، درپیش چیلنجز، اتحادِ امت، وقت کی پکار، مفاہمت، عالمی برادری، حالات کی نزاکت، انسان دوستی، خدمتِ خلق، مکالمہ، ڈائیلاگ، مراعات، مفادات، وسیع تر تناظر، مصلحت و پالیسی اور بیسیوں نام و عنوانوں سے لوگوں کا شکار کر سکیں۔ مسلک و مذہب کا تیا پانچہ کر سکیں، تصلب و پختگی کی مسلکی شناخت کا سودا کر کے مغرب سے داد و دہش پا سکیں، اور دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے تئیں ترجمانِ اسلام، سفیرِ اسلام، خادمِ دین، لیڈر، ممتاز مذہبی اسکالر، محقق، دانشور، خادمِ قوم و ملّت، رہبر و راہ نما اور امت کے پُشتی بان بن سکیں!
بدیہی بات ہے، جب بڑی شخصیات، ان کی علمیت و روحانیت نگاہ میں نہیں ہوتی، تو بے وقت مشیخت و فضیلت کے خواب دیکھے جاتے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہے کہ ہم جیسے کمزور لوگوں کو دیکھ کر اب معمولی مُنشی درجے کے لوگ بھی اسلامی جماعتیں بناتے ہیں، تحریکوں، انجمنوں کے سربراہ بنتے ہیں، درسِ قرآن، درسِ حدیث کی اپنے تئیں مجلسیں سجاتے ہیں، مختلف فیہ مسائل میں رائے دیتے ہیں، عربی بول چال سیکھنے سکھانے والے مفسرِ قرآن، اردو تراجم پر گزارہ کرنے والے محدث، ڈاکٹر، اور فقہ سے نابلد مذہبِ خامس کا نام و عنوان استعمال کرتے نظر آتے ہیں؛ بل کہ منجھے ہوئے اہلِ علم و فن، مسلمہ اربابِ تقویٰ و بصیرت کو بھی اپنی راہ چلنے کے مشورے دیتے ہیں، ان کے طرز و انداز کی شکایتیں کرتے ہیں۔
اہلِ سنت کا مصداق کون؟
حکیمُ الاسلام حضرتِ اقدس قاری طیب صاحبؒ نور اللہ مرقدہٗ نے ’’ما أنا علیہ و أصحابی‘‘سے اہلِ سنت کا مصداق ہونے کے لیے کن اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہے؟ — اسے بڑے عمدہ پیرائے میں بیان کیا ہے:
’’کتاب و سنت کی صورت میں قانونِ الٰہی و دستورِ بشری اور سلفِ صالحین کی صورت میں شخصیاتِ مقدّسہ سے عقیدت اور ان کی پیروی ‘‘— یہ دو عنصر ہیں اہلِ سنت کا مصداق ہونے کے لیے، اس شرط کے ساتھ کہ دونوں میں نہ افراط ہو نہ تفریط؛ بل کہ دونوں پر عدل و اعتدال کے ساتھ اعتماد ہو۔
نہ صرف کتاب پر کلی اعتماد اور شخصیاتِ مقدّسہ سے استغنا اور نہ شخصیاتِ مقدّسہ کی عقیدت میں غلو، یا ان پر تنقید و تبصرہ اور ان سے بے نیازی؛ گویا کتابُ اللہ، سنتِ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سلفِ صالحین کی صورت میں رجالُ اللہ — دونوں پر اعتماد، اہلِ سنت کا امتیاز ہے۔
مسلمانوں کے لیے تاریخ کا نازک ترین دور:
محدثِ کبیر، الادیب الاریب، حضرت علامہ یوسف بنوری نور اللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں:
اسلام کی تاریخ میں اب تک کوئی دَور ایسا خطرناک نہیں گزرا، جیسا آج کل کا دَور ہے، اور اسلام کی تاریخ میں دینِ اسلام کی حفاظت کی ضرورت کبھی بھی اتنی شدید نہیں ہوئی، جتنی آج کل ہے۔
اس میں شک نہیں کہ خلافتِ راشدہ کے بعد، بل کہ آخری دَورِ خلافتِ راشدہ میں دینِ اسلام کے خلاف فتنوں کا دَور شروع ہو چکا تھا، لیکن مسلمانوں کے عقائد قربِ عہدِ نبوت کی وجہ سے اتنے پختہ تھے کہ عمل میں جیسی بھی تقصیر ہو جاتی، عقائد میں تزلزل نہیں آ سکتا تھا۔
نسلًا بعد نسلٍ ہر طبقے میں عقائد کی پختگی جاری تھی، اور ان طبقات میں کوئی بھی ایسی تحریک نہیں اُٹھی جس کی زَد میں براہِ راست عوام آ جائیں۔ علمی و ذہنی طور پر خوارج، اور پھر شیعہ، معتزلہ، پھر مرجئہ وغیرہ فتنے پیدا ہوئے، لیکن عام اُمت میں اس کا اثر نہیں ہوا، اور ایک جماعت تک سلسلہ محدود رہا۔ اگر تھوڑے عرصے کے لیے اہلِ فتن کو کچھ عارضی عروج بھی نصیب ہوا، تو انجام میں اس کی تباہی مضمر تھی، اور بہت جلد صفحۂ ہستی سے فتنے ختم کر دیے جاتے تھے۔ اور اگر اثر و نفوذ حاصل بھی ہوا، تو علما و امرائِ حق کی مساعی و تدابیر سے پھیلنے نہیں پاتے، اور کم از کم اس کی مدافعت اور عقائدِ حقّہ کی حفاظت اس سے زیادہ قوت کے ساتھ ہوتی تھی۔
اب دنیا کے حالات بدل گئے، نہ عوام میں عقائدِ اسلام کی پختگی رہی، نہ اربابِ حکومت میں وہ حفاظت کا جذبہ رہا۔ برطانوی دَورِ حکومت میں جس تعلیم کی بنیاد رکھی گئی تھی، وہ اب تک بَجنسِہٖ ہماری قوم پر مسلط ہے۔ ان سب اُمور کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کا تعلق دین سے برائے نام رہا۔
اگر اس پُر فتن دَور میں دینی خدمت اور علومِ دین کی حفاظت کی طرف پوری توجہ نہ کی گئی، تو جو اُس کا نتیجہ ہے، وہ ظاہر ہے:
ہَوا مخالف و شب تار و بحرِ طوفاں خیز
گُسَستہ لنگَر کشتی و ناخُدا خُفت است
علمِ دین کیا چیز ہے؟
یہ انبیائے کرام علیہم السلام کی وراثت ہے، جس کی حفاظت اُمت کے ذمے فرض ہے۔ علمِ دین، دینِ اسلام کی حفاظت کا عظیمُ الشّان، مضبوط و مستحکم قلعہ ہے۔ اگر آج اس حصار کو آپ نے ہٹا دیا، تو پھر عالمِ اسباب میں کوئی حفاظت کا ذریعہ باقی نہیں رہے گا۔
اسلام بھی اللہ تعالیٰ کی آخری وہ عظیمُ الشّان نعمت تھی، جو اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الف الف تحیۃ و سلام کو بواسطہٖ رحمۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دی گئی، اور جو اب سے ٹھیک ۱۳۶۹؍ سال پہلے عرب کی سرزمین میں، وادیِ عرفات، ۹؍ ذوالحجہ، جمعہ کے دن، عصر کے وقت، اس یادگار بشارت کا اعلان کیا گیا:
{اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیْنًا}
(سورۃ المائدۃ:۳)
یعنی: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی، اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند فرما لیا۔‘‘
دنیا میں ہمیشہ یہ قاعدہ رہا ہے، اور یہی عقل کا تقاضا ہے کہ علاج کی اہمیت اُس وقت بڑھ جاتی ہے جب مرض شدید ہو۔ اس لیے جس قدر تدارک و علاج کی ضرورت اس وقت ہے، اتنی ضرورت کبھی نہیں ہوئی؛ خصوصاً جب مرض بھی شدید ہو، اور مریض بدپرہیز یا مرض کو صحت سمجھے اور علاج نہ کرے — اس وقت موت نہ آنے میں کیا دیر لگتی ہے؟
میرا خیال ہے کہ آج ہماری قوم کی مثال ایسی ہی ہے۔
لادینی فتنوں کا علاج اور اُمتِ مسلمہ کا فریضہ:
ملحدانہ، لادینی فتنوں کا علاج صرف تعلیمِ دین ہے اور دینِ اسلام کی حفاظت کے لیے سپاہی تیار کرنا ہے۔ یہ فرض پوری اُمتِ اسلامیہ کے ذمے ہے۔ تنہا علماء اس کے مسئول نہیں ہیں، لیکن اگر علمائے امت نے احسان کیا اور اس فرض کو اُمت کی طرف سے بھی ادا کیا، تو اُمت کو ان کا ممنونِ احسان ہونا چاہیے—نہ یہ کہ اُلٹا احسان فراموش ہو کر اُن کی ناقدری اور مخالفت پر اُتر آئیں۔
یہ زمانے کی ستم ظریفی ہے کہ علما تنہا اس بارِ گراں کو اُٹھائیں اور مسلمانوں کا فرضِ کفایہ ادا ہو اور ہاتھ بھی نہ بٹائیں۔ پھر اگر غور کیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ جو مخیّر و مخلص حضرات مدارسِ اسلامیہ کی اعانت کرتے ہیں، وہ عام طور پر زیادہ تر مالِ زکوٰۃ سے کرتے ہیں۔ اموالِ زکوٰۃ درحقیقت وہ اموال ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہو چکے ہیں۔ اُممِ سابقہ میں آسمان سے آگ اُتر کر اُن کو جلا دیا کرتی تھی یہ شریعتِ محمدیہ کی برکت سے فقرا کے کام میں استعمال کے قابل ہو گئے۔
علمائے امت کا کتنا بڑا احسان ہے کہ انہوں نے اس مال کو اپنی مخلصانہ تدبیروں سے حصولِ علم اور قیامِ مدارس کا ذریعہ بنا دیا۔ اربابِ ثروت کو ان علما کا بے حد ممنون ہونا چاہیے، جنہوں نے اُن کے اس میل کچیل کو لے کر ایمان کی روشنی اور دین کی بقا کے لیے وسیلہ بنا دیا۔
دین ِاسلام کی حفاظت صرف علمِ دین کی بقا میں ہے:
اگر آپ مسلمان ہیں، اور الحمد للہ کہ مسلمان ہیں، اور چاہتے ہیں کہ آپ کی ذریت و اولاد بھی اس نعمت سے بہرہ ور ہو، تو آخر اس نعمت پر باقی رہنے کے لیے آپ نے کیا سوچا ہے؟ کیا تدبیریں اختیار کی ہیں؟
جب آپ کا عقیدہ ہے کہ دنیا فانی ہے، اور عمرِ انسانی کے فانی ہونے میں تو کوئی عاقل شبہ بھی نہیں کر سکتا۔ موت کا نام بھی قرآنِ کریم نے ’’یقین‘‘ رکھا ہے: {وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ}میں مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں ’’یَقِیْن‘‘ سے مراد موت ہے۔
اتنی یقینی چیز کے بارے میں آپ کے طرزِ عمل کا فیصلہ کیا ہے؟ اگر انسان عمرِ طبعی تک پہنچ بھی جائے، تب بھی یہ زندگی محدود ہے، زیادہ سے زیادہ ستر، پچھتّر برس؛ پھر اس عمرِ طبعی تک سب کا پہنچنا بالکل موہوم ہے۔ نہ معلوم موت کب آتی ہے!
جب یہ سب باتیں یقینی ہیں کہ انسان کی زندگانی محدود ہے، اور وہ بھی موہوم ہے، اجل کا پتہ نہیں—تو آپ اس محدود و موہوم حیات کے لیے کیا کچھ کرتے ہیں؟
اب آیئے! آخرت کی زندگی پر غور کیجیے: ابد الآباد کی زندگی، یعنی نہ ختم ہونے والی زندگی۔{فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ}پر آپ کا ایمان ہے۔
اب بتلایئے: کیا آپ اپنی اولاد کے لیے اتنی کوشش بھی نہیں کریں گے، جتنی کوشش دنیوی راحت کے لیے کرتے ہیں؟ کیا آخرت کی دائمی زندگی اتنی کوشش کی بھی مستحق نہیں؟
پھر یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو مال و دولت اپنی اولاد کے لیے جمع کی ہے، وہ صحیح طور پر اس سے فائدہ بھی اُٹھا سکے گی یا نہیں۔ ہزاروں مثالیں اور بہتیرے حوادث ایسے موجود ہیں کہ باپ کی دولت بیٹے کے کام آئی۔
آخر آپ ایسی دولت کیوں جمع نہیں کرتے، جو کبھی اُن سے جدا نہ ہو اور ہمیشہ آپ کے کام آئے؟ یعنی وہ نعمتِ ایمان، نعمتِ اسلام، نعمتِ صلاح و تقویٰ سے بہرہ ور رہے۔
اسلام و مسلمانوں پر چو طرفہ حملے اور اس سے بچنے کی سبیل:
اگر یہ سب حقائق یقینی ہیں تو پھر غور کیجیے کہ اگر علمِ دین کے یہ مراکز نہ ہوں تو آخر اس دینِ اسلام کی حفاظت کیسے ہو؟ اسلام پر آج چار سمتوں سے حملے ہو رہے ہیں۔ ایک طرف یورپ کی تعلیمِ الحاد و دہریت اور اس سے زیادہ یورپ کی شہوانی زندگی کے عفریتِ تعیُّش کا طوفان مسلط ہے، دوسری طرف مکسڈ اکانومی(مخلوط معیشت) کی وباء ہے، جس کی تائید عام غربت و افلاس سے عملی طور پر ہو رہی ہے۔
تیسری طرف عیسائیت کا وہ خطرناک جال ہے، جس کو یورپ و امریکہ کی مشنریاں پھیلا رہی ہیں اور جس پر سالانہ لاکھوں نہیں، کروڑوں ڈالر خرچ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ عام مسلمانوں کی غربت و تنگدستی اور پھر دین سے جہالت اور آخرت کی زندگی سے فراموشی کی وجہ سے ان کو وہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے، جس کا تصور بھی ایک حساس مسلمان کے لیے پیغامِ موت ہے۔
چوتھی طرف ملک کے اندر مرزائیت اور شیعیت، شکیلیت کے فتنے، پھر پرویزیت، انکارِ حدیث کا فتنہ اور ثقافتِ اسلامی کے نام فواحش و عریانی، اور انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، سینما، ڈرامے، سیریز، گیمز، کارٹون، اسپورٹ کے فتنے، ملحدانہ لطف، مشرکانہ نظامِ تعلیم اور تعلیمی اداروں کے بدترین ماحول کی کثرت، وغیرہ وغیرہ۔
اس کثرت سے خطرناک فتنے موجود ہیں کہ اگر علمِ دین کے ان مراکز کو اس کسمپرسی کی حالت میں چھوڑا گیا اور اُن کی اعانت سے دردناک تغافل برتا گیا، تو پھر اسلام کا اللہ تعالیٰ ہی محافظ ہے۔
اگر اسلام کا دعویٰ آپ حضرات کا سچا ہے، اور دینِ اسلام سے محبت ہے، اور اللہ تعالیٰ کی آخری نعمت کی قدر ہے، اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقابلِ فراموش مجاہدانہ سرگرمیوں کا احساس ہے، اور یہ دین صرف علما کا نہیں، بل کہ عام مسلمانوں کا دین ہے، اور یہ فرض تنہا علما کا نہیں، بل کہ سب مسلمانوں کا ہے، تو پھر آیئے اور پورے اخلاص و محنت و جانفشانی سے اس کی حفاظت کی طرف توجہ کیجئے، اور علما کی رہنمائی میں اس کی معاونت کو اپنی سعادت سمجھیے۔
ورنہ یاد رکھیے کہ قیامت کے دن میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے علمائے دین آپ کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ قدس میں آپ کی شکایت کریں گے کہ ان اربابِ دولت نے آپ کی دی ہوئی دولت سے ہماری کوئی اعانت نہیں کی۔
علمائے کرام کی خدمت میں چند گزارشات:
جس طرح اللہ تعالیٰ نے بدنِ انسانی کے لیے کچھ اعضائے آلیہ مقرر کیے ہیں، جو بمنزلۂ خدام اور پاسبان کے ہیں، جیسے ہاتھ پاؤں وغیرہ، اور کچھ اعضائے رئیسہ ہیں جو مخدوم اور آقا کے درجے میں ہیں، جیسے دل، دماغ اور جگر، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اندر بھی عام افراد کو بمنزلہ ٔعام اعضا کے بنایا ہے اور علمائے کرام کو بمنزلہ قوائے رئیسہ کے بنایا ہے۔
اگر قوائے رئیسہ کا نظامِ صحت درست ہے تو اعضائے آلیہ کا نظام بھی درست ہوگا۔ اگر قوائے رئیسہ کے اندر خلل ہے تو نظامِ بدن میں بھی ضرور خلل ہوگا۔ پھر ان قوائے رئیسہ کے اندر جس طرح قلب کی حیثیت سلطان کی ہے، اسی طرح علما کے اندر بھی وہ علما جنہوں نے خدمتِ علم دین و اصلاحِ عوام کا بیڑہ اٹھایا ہے، ان کی حیثیت بمنزلہ ’’دل‘‘ کے ہے۔ بقیہ قوائے رئیسہ کی صحت کا دار و مدار بھی اس قلب کی صحت و حیات پر ہے۔
اب اگر یہ قلب جو بمنزلہ سلطان کے ہے، اس کے مزاج میں کوئی خرابی ہوگی تو پوری رعیت تباہی کی طرف جائے گی۔ صحاحِ ستہ میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں جو ایک مضغہ ہے: ’’اَلَا وَإِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہُ أَلَا وَہِیَ الْقَلْبُ‘‘ اس کا یہی مطلب ہے۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ علمائے دین و خادمانِ دین کی مثال قوائے رئیسہ اور دل کی ہے تو ظاہر ہے کہ عوام کی خرابی تو اعضاء کی خرابی کی مانند ہے، جس کا علاج بہ نسبت دل و دماغ کے بہت آسان ہے، ان کا علاج بھی آسان، آپریشن بھی آسان، لیکن اگر دل و دماغ کا علاج یا آپریشن ہو تو کتنا مشکل مرحلہ ہے، بڑے بڑے ماہرینِ طب کی تلاش رہتی ہے۔
نیز اعضا کی خرابی کا احساس بہت آسان، لیکن دل و دماغ کی خرابی کا احساس بہت مشکل ہے، اس لیے ان کا تعلق ظاہر سے ہے اور دل و دماغ کا تعلق باطن سے ہے۔ نیز عام طور سے عوام جن معاصی کے اندر مبتلا ہیں، ان کی معصیت بھی ظاہر و باطن ہے، لیکن علما جن معاصی کے اندر مبتلا ہیں وہ نہایت مخفی ہیں، کیوں کہ علما جب بمنزلہ دل کے ٹھہرے تو ان کے امراض بھی دل کے ہوں گے، اس لیے ان کا احساس بھی مشکل اور علاج بھی مشکل ہے۔
جب یہ بات واضح ہے تو اب اس سے یہ بات بھی بالکل واضح ہوگئی کہ علما کی اصلاح عوام کی اصلاح سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ علما کے اندر حُبِ جاہ، حُبِ مال، حسد، بغض، عجب، ریا، اور غیبت جیسے امراض عوام سے کہیں زیادہ ہیں، خصوصاً تحاسد و تباغض کا مرض اتنا شدید ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے علما اربابِ دنیا کے سامنے ذلیل و حقیر ہوگئے ہیں۔
علما کے امراض کا علاج
اصلاح حال کے لیے چند تجاویز:
۱- اخلاص: دراصل ان امراض کی جڑ اخلاص کا فقدان یا قلتِ اخلاص ہے؛لہٰذا علما کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر اخلاص و للہیت پیدا کرنے کے لیے انتھک محنت کریں۔
۲- اتحاد: اب وقت آ گیا ہے کہ ہم انفرادی زندگی میں اسلام اور علمِ دین کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی میں بھی اتحاد کی جانب قدم اُٹھائیں اور میرے ناقص خیال میں غلط تنافس اور تحاسد کے ختم کرنے کا یہ ایک مختصر راستہ ہے: {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا} اور {یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ} پیشِ نظر رکھ کر اس طرف قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
علمِ دین کے مفاد کے پیشِ نظر اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ اگر آج ہمارے تعلیمی ادارے ، نصابِ تعلیم و نظامِ تعلیم میں اتحاد اور ہم آہنگی پیدا ہوجائے اور ایک مرکز کے تحت ہمارے مدارس کا نظام عمل میں آجائے تو اس کے ثمرات ان شاء اللہ العزیز! بہت جلد دیکھے جائیں گے؛ ورنہ اللہ خیر فرمائے ہمارے انتشار سے حکومت فائدہ اٹھا رہی ہے۔ کاش کہ اتحادِ مدارس کا کوئی بورڈ وجود میں آئے ایسا ہونا از حد ضروری ہے؛ تاکہ ہم متحد ہو کر حالات کا مقابلہ کرسکیں۔
۳- علمِ دین: تو فرضِ کفایہ ہے، لیکن اسلام فرضِ عین ہے، اور فرضِ عین کی طرف توجہ زیادہ اہم و ضروری ہے۔ ہماری نسل اسلام پر قائم رہے، اس کے لیے ہمیں ابتدائی تعلیم کی بہت ضرورت ہے۔
عوام الناس کے لیے مختصر دینی نصاب کی ضرورت:
ان لوگوں کے لیے ایک مختصر نصاب کی ضرورت ہے، جو حضرات پورے عالم ہونے کے لیے فارغ نہیں ہیں اور اُن کی آرزو ہے کہ دینی معلومات سے بہرہ ور ہوں، ان کا مقصد صرف اپنی اصلاح کرنی ہے اور اپنی ضرورت کے لیے علمِ دین سیکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے ایک مختصر نصاب جس میں عقائد، احکام، اخلاق کا حصہ تو اردو یا مادری زبان میں ہو، البتہ عربی ادب اور قرآن وحدیث سے متعلق دو ایک مختصر کتابیں عربی میں رکھی جائیں اور عربی ادب پر عبور کرایا جائے، تاکہ بقدرِ ضرورت لکھ بول سکیں۔
اس طرح ہزاروں دیندار تاجروں کا طبقہ علمِ دین سیکھ لے گا اور اس کا جو نفع ہوگا وہ حیرت انگیز ہوگا۔ اس طرح عوام و علما میں ایک قوی رابطہ پیدا ہوگا اور غیر علما بھی علما کی علمی جد وجہد سے واقف ہو کر ان کے دل سے قدرداں ہوسکیں گے۔ اس سلسلے میں حکیم الامت مجدد ملت حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ نے دراساتِ دینیہ کے نام سے ایک نصاب تیار کیا ہے۔
علما عوام کے اندر تقریر و تحریر کے ذریعہ تبلیغ کا منظم سلسلہ جاری رکھنا ضروری ہے:
علما پر ضروری ہے کہ وہ عوام کی خدمت کرے، ان سے رابطہ رکھے، ان کی دینی رہنمائی شفقت و اخلاص سے کرے، یہ انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے، اس لیے علما خصوصاً اربابِ مدارس، منظم انداز میں طلبہ کو ہدایات دے کر اپنے قریبی دیہاتوں میں ہر جمعہ کی رات بھیجیں، تاکہ اگر ایک طرف عوام کی رہنمائی ہو اور دینی فریضہ ادا ہو تو دوسری طرف طلبہ کو بولنے کی عادت بھی ہو اور ان میں زورِ خطابت بھی پیدا ہو۔
اس خدمت کی انجام دہی سے اربابِ مدارس بے حد غافل ہیں۔ طلبہ کو تقریر کی مشق کرانے کے لیے ہفتہ وار باقاعدہ نظام ہر مدرسہ میں مقرر ہو۔ اساتذہ کی نگرانی میں مختلف جماعتیں قائم ہوں، ہفتہ وار مضمون دیا جائے اور امدادی کتابیں دی جائیں۔
الغرض نہایت باقاعدگی اور التزام کے ساتھ یہ سلسلہ جاری کرنا چاہیے۔’’ انجمن اصلاح الکلام‘‘ کے نام سے ہمارے یہاں یہ سلسلہ جاری ہے۔
تاریخ کی جانب توجہ ضروری ہے:
علومِ اسلامیہ دینیہ جو مقاصد میں داخل ہیں، وہ قرآن وحدیث، فقہ واصولِ فقہ اور میراث وغیرہ یہ تو بہرحال ضروری ہیں اور اُن کے صحیح فہم کے لیے علومِ آلیہ یا علومِ عربیہ بھی ضروری ہیں اور اُن سے چھٹکارا نہیں، لیکن ہر زمانہ میں بعض خاص علوم کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ عصرِ حاضر میں ادب و تاریخ کی اہمیت زیادہ ہے، اس لیے اپنے نصابِ تعلیم میں ابتدا سے انتہا تک ہر درجہ میں سیرتِ نبویہ اور تاریخِ اسلام، پھر تاریخِ عام اور تاریخِ علوم کی طرف توجہ دینے کی بے حد ضرورت ہے، جس طرح الحاد ودہریت نے اسلامی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے، اسی طرح تاریخِ اسلام کو بھی ملحدانہ کوشش نے بہت کچھ مسخ کردیا ہے، اس لیے تاریخِ اسلام میں محققانہ بصیرت پیدا کرنے کی بہت ضرورت ہے۔
آج دنیا کی ساری قومیں اپنے ماضی کے معمولی اور غیر اہم نقوش و رسوم، نیز غلط اور غیر تاریخی، فرعی اور جزئی امور کے احیا و ابقا کے کام میں سرگرم ہیں، لیکن مسلمان اپنے ایامِ رفتہ کے بے نظیر اور حیرت انگیز تاریخی حقائق اور ناقابلِ فراموش اصول اور شاندار کارناموں سے اپنی نسل کو غافل بنا رہا ہے، علمائے کرام کا طبقہ اس میں سب سے پیچھے ہے، اس لیے مدارسِ عربیہ اسلامیہ کا یہ فریضہ ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پوری کوشش کریں۔ اسی تقصیر کی وجہ سے علمائے کرام کے بہت سے علمی کمالات اور انقلابی کارنامے اپنا صحیح مقام حاصل نہ کرسکے:
لَمَثَلْ ہٰذَا یَذُوبُ الْقَلْبُ مِنْ کَمَدٍ
أَنْ کَانَ فِی الْقَلْبِ سَلاَمٌ وَإِیمَانٌ
علومِ عصریہ اور جنرل نالج:
مدارسِ عربیہ اسلامیہ میں ایک اور بات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ دورِ حاضر کا تقاضا ہے دنیا میں صحیح خدمت اور دینی و علمی خدمت گزاری کے لیے، جس طرح علومِ دینیہ کی مہارت کی حاجت ہے، اسی طرح معلوماتِ عامہ (جنرل نالج) اور علومِ عصریہ، سائنس، جغرافیہ، ریاضی، شہریت وغیرہ کی بھی ضرورت ہے۔ اگرچہ دونوں میں فرقِ مراتب ضرور ہے، لیکن اس کے مستحسن ہونے میں کلام نہیں ہوسکتا، درحقیقت یہ عصرِ حاضر کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس سلسلہ میں علومِ جدیدہ کے اہم رائج الوقت مصطلحات اور اُن کے موضوعات بھی آجاتے ہیں اور اس کے تحت بہت سے فرقے اور فتنے جو نئے نئے پیدا ہوئے ہیں، ان سے بھی واقفیت ہوجاتی ہے، جو درحقیقت علمِ کلام جدید کے مبادی و مقدمات ہیں۔ جدید تعلیم یافتہ حضرات انہی معلوماتِ عامہ میں تقدم کی وجہ سے دنیا کو مرعوب کرلیتے ہیں، حالاں کہ ٹھوس علوم اور گہرے علمی مباحث میں ان کا پایہ بہت کمزور رہتا ہے؛ بہرحال علما کو چاہیے کہ وہ اِس کمی کو پورا کرنے کی طرف بھی متوجہ ہوں اور ضرورت ہے کہ مدارس میں اس کا بھی خاص اہتمام کیا جائے۔ علومِ عصریہ کے سلسلے میں ضروری ہے کہ ہر مدرسہ اس کا مختصر نصاب رکھے، الحمد للہ حضرت بنوری رحمہ اللہ کی اس تمنا کے مطابق جامعہ اکل کوا نے نصاب تیار کیا ہے جسے علما ہی نے تیار کیا اور علما ہی ان مضامین کو پڑھاتے ہیں۔ اس طرح وہ دنیا کے احوال سے باخبر رہیں گے،اس کے بعد ان سے توقعات قائم کی جاسکتی ہیں کہ وہ دنیا کے مزاج کے مطابق دینی خدمت کرسکیں گے۔ صرف خانقاہی زندگی سے عوام کی اصلاح نہ ہو سکے گی، البتہ اپنی اصلاح کے لیے اس کی ضرورت میں کوئی کلام نہیں۔
دینی درس گاہوں کی ضرورت اور اُمت کے ذمہ فرائض:
یہ جو کچھ عرض کیا گیا ہے کہ مدارسِ دینیہ کو کس انداز سے خدمتِ دین کی ضرورت ہے اور کتنے کتنے شعبے کھولنے کی ضرورت ہے، ان مہمات کے انتظام و انصرام کے لیے جب تک مالی حیثیت کو مضبوط و مستحکم نہ بنایا جائے، اس وقت تک یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا،اگر اربابِ ثروت اپنے ذمے مالی امداد لے کر ان اربابِ مدارس کو اس فکر سے سبکدوش کردیں تو یہ خدمات انجام پذیر ہوسکیں گی۔ علما پر بڑا ظلم ہے اور ناقابلِ برداشت بوجھ ہے کہ وہ مالیات کی فراہمی کا بھی انتظام کریں اور علمی خدمات کی تدبیروں میں بھی لگے رہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں کام نامکمل رہ جاتے ہیں۔
ہردینی درس گاہ میں دو شعبے ہوں:
اس علمی نظام کی حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ ہر درس گاہ میں علمی شعبہ اور مالی شعبہ دونوں الگ الگ قائم رہیں۔ علمی شعبہ کا نگرانِ اعلیٰ مہتمم ہوگا، اس کا فرض صرف اتنا ہونا چاہیے کہ وہ مالی شعبہ سے مصارف کا اندازہ لگا کر مصارف کا مطالبہ کرے اور ان کے مطالبہ پر ان کے لیے اس کا انتظام ہو۔ فراہمیِ مال، اس کی حفاظت، خزانے میں ادخال و اخراج، یہ سب کام مالی شعبہ کے ذمہ ہو اور اس تقسیمِ عمل کی بے حد ضرورت ہے، ورنہ سارا نظام مختل ہوگا۔ مالی شعبہ کو علمی شعبے میں دخل دینے کی حاجت نہیں اور علمی شعبہ کو مالی شعبے میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔
جن حضرات کو اللہ تعالیٰ نے مالی طاقت دی ہے، اب ان کا فرض ہے کہ اپنے اموال سے دین کی حفاظت کا سامان کریں اور آخرت کی جواب دہی سے سبکدوشی کا خیال کریں۔
اس کاروانِ دین کی حفاظت کوئی وقت دے کر کرے گا، کوئی دماغ خرچ کرے گا اور کوئی مال دے کر، جس کو جو نعمت حاصل ہے اس کے مطابق اس کی ذمہ داری ہوگی۔ یاد رہے کہ مال کا طبعی تقاضاہے کہ وہ خرچ ہوگا، اگر دین کے لیے نہیں کریں گے تو مجبوراً وہاں خرچ ہوگا جہاں فائدہ نہیں، سراسر خسارہ ہے۔
کمیونزم کا فتنہ:
آخر یہ کمیونزم کا فتنہ کیا ہے؟ اربابِ ثروت کے غلط طرزِ زندگی کا وبال ہے۔ اگر اربابِ ثروت اپنے اموال اِن دینی شعبوں کے لیے خرچ نہیں کریں گے اور فقرائے امت کی ضروریات سے غفلت برتیںگے تو انہیں ابھی سے اس کے نتائج برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ دنیا میں اس قسم کی ایک دو مثال نہیں، سینکڑوں مثالیں ہیں کہ ہر ملت کے افراد تقسیمِ کار کے اصول پر چل کر ہی اپنی اپنی ملت کو بامِ عروج پر پہنچاتے ہیں، کیا یورپ اور امریکہ، روس اور چین، جاپان اور فرانس اور دیگر اقوام کی ترقیوں اور کامیابیوں کا راز اسی اصولِ تقسیمِ کار میں مضمر نہیں ہے؟ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثالیں نہیں ہیں؟ کیا اس ایک تہائی صدی میں ایشیا سے لے کر یورپ تک، بخار اسے لے کر فرانس، انگلینڈ تک اس کے نظائر نہیں؟
اگر برادرانِ ملت کو آخرت کا احساس ہے تو اس دنیا میں صحیح خدمت کرنے کے لیے مؤثر قدم اُٹھانا پڑے گا، ورنہ نہ دین رہے گا نہ دنیا، ’’خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ‘‘، اللہ تعالیٰ صحیح فہم عطا فرمائیں۔
صاف صاف اور دوٹوک بات:
میں یہ بات صاف صاف عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ دین ِاسلام صرف مولویوں اور عالموں کا دین نہیں، ساری امت کا دین ہے، اس کی حفاظت کی ذمہ داری اسی نوعیت کی ہے۔ اور اربابِ ثروت کان کھول کر سن لیں! اگر ان کی غفلت ایسی ہی رہی، اپنے فرائض سے تغافل کرتے رہے اور عیش پرستی کی زندگی کو اپنا معراجِ کمال سمجھا، تو دین تو رخصت ہے، دنیا کی بھی خیر نہیں۔
اس وقت ساری دنیا کی نجات دین ِاسلام کی بقا میں ہے۔ آج یورپ، امریکہ اور روس کے ممالک بھی، جن میں جمہوریت اور کمیونزم کے سکے جاری ہیں، استبداد اور ناانصافی سے نجات پانے کے راستے کی تلاش میں سرگرم ہیں اور ان کے مفکرین اور عقلا مذہب اور ربوبیتِ عامہ کا نام لے کر بچنے کی تدبیر کر رہے ہیں۔
غرض یہ کہ دنیا کی حفاظت اور تدبیر بھی ان کو دین ہی میں نظر آ رہی ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ نام کی عیسائیت، جو دہریت و الحاد اور عیش پرستی و خدا فراموشی کی لعنت سے ملوث ہو چکی ہے، وہ ان کو نہیں بچا سکے گی اور نہ کمیونزم کا چمکتا ہوا نظامِ اقتصاد اُن کے لیے نسخۂ شفا بن سکے گا۔
کمیونزم کی لعنت اور کیپٹلزم کی گندگی سے نجات کی راہ صرف شریعت مقدسہﷺ ہے:
آج کمیونزم کی لعنت اور کیپٹلزم کی گندگی سے اگر نجات مل سکتی ہے، تو صرف خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعتِ مقدسہ سے۔ آج امریکہ و یورپ کی جمہوریت کی اگر اصلاح ہو سکتی ہے تو صرف قرآنِ حکیم کی تعلیماتِ ربانیہ سے ؛ لیکن افسوس اس کا ہے کہ مسلمان خود اپنے دین کا جامع ترین نظامِ زندگی چھوڑ کر یورپ اور اعدائے اسلام کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں، اس لیے دنیا اس غلط فہمی میں مبتلا ہو چکی ہے کہ مسلمان ہمارے خوشہ چیں ہیں۔
آج اگر مسلمان قوم کی زندگی کا نقشہ وہ ہوتا جس کو قرآنِ حکیم نے پیش کیا ہے اور جس کی نشاندہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے کی، تو پھر یورپ کی قوموں کو کسی تبلیغ کی ضرورت نہ تھی۔ صرف مسلمانوں کا نقشِ زندگی اور دستورِ عمل سراپا تبلیغ بنتا؛ لیکن افسوس اور صد افسوس کہ صورتِ حال بالکل برعکس ہے:
’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘
آج مسلمانوں سے اسلام کی روح نکل چکی ہے۔ ان کی صورت، ان کی سیرت، ان کی زندگی، ان کی معاشرت، ان کے معاملات اور ان کے اوضاع و اطوار خدا فراموش قوم کے آثار ہیں۔
حضرت حسن بصریؒ (متوفی ۱۱۰ھ) سے جب پوچھا گیا تھا کہ صحابہؓ کیسے تھے؟ تو فرمایا تھا کہ: اگر وہ زندہ ہوں اور تمہیں دیکھیں، تو ان کا فیصلہ تمہارے حق میں یہ ہوگا کہ تم زندیق ہو، اور تمہارا فیصلہ ان کے متعلق یہ ہوگا کہ وہ مجنون ہیں۔
اگر تقریباً ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کا فیصلہ یہ ہو سکتا ہے تو آج کا فیصلہ کیا ہوگا؟! اندازہ لگا لیجیے۔ ظاہر ہے کہ ایک خدا فراموش قوم اور دنیا کے اندر سراسر مستغرق قوم، اس قوم (صحابۂ کرامؓ) کے متعلق اس فیصلے سے بڑھ کر دوسرا فیصلہ کیا کر سکتی ہے؟ جس کو نہ اپنی راحت و آسائش کی فکر تھی، نہ عزت و سطوت کا خیال تھا، نہ اس کے دماغ میں اہل و عیال کے لیے دولت فراہم کرنے کا خبط تھا، نہ گفتار کا غازی بنانے والا اور انسانیت کو تباہ کرنے والا فلسفۂ ثقافت اور علمِ سائنس اس کا نظریۂ حیات تھا۔
اللہ تعالیٰ سے ہماری یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو صحیح علم و عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اور آپ کے ظاہر و باطن کی اصلاح فرمائے۔
{رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ}
۱۹۶۰ء میں حضرت بنوری نور اللہ مرقدہٗ کے بنگلہ دیش کے ایک خطاب کا خلاصہ قدرے ترمیم، حذف و اضافہ کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اب جناب میر زاہد مکھیاکوی صاحب کی پیش کردہ چند تجاویز پیشِ خدمت ہیں:
دینی خُدّام اپنی اصلاح کی فکر کریں:
اربابِ مدارس کی ایک بڑی کمزوری باہمی اختلاف و انتشار کا ہونا ہے، جس کے باعث بعض اوقات مدرسوں میں بڑے فتنے رونما ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے مدرسہ کا وقار مجروح ہونے کے ساتھ ساتھ مدرسہ کے طلبہ اور عوام پر نہایت غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس نوعیت کے واقعات کی وجہ سے ادارہ اپنے تعلیمی سفر کی منزل سے بہت دور چلا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں محقق العصر حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی چند تجاویز ذیل میں مذکور ہیں، جو مدارس و اہلِ مدارس کے لیے اکسیر ہیں:
-1 تمام مدارس میں تصوف و احسان کو باقاعدہ نصاب کا جزو بنایا جائے۔
-2 اساتذہ و طلبہ پر لازم کیا جائے کہ وہ ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ جمع ہو کر بزرگانِ دین اور بالخصوص اکابر علمائے دیوبند کے حالات و ملفوظات کا اجتماعی طور پر مطالعہ کریں۔ اس میں حضرت تھانویؒ کی ارواحِ ثلاثہ، تذکرۃ الرشید، حیاتِ قاسمی، تذکرۃ الخلیل، حیاتِ شیخ الہند، اشرف السوانح، اور حضرت شیخ الحدیث صاحب قدس سرہٗ کی ’’آپ بیتی‘‘ کا اجتماعی مطالعہ خاص طور پر مفید ہوگا۔
-3 ہر مدرسے کے مہتممین کے لیے کسی شیخِ طریقت سے باقاعدہ اصلاح و تربیت کا تعلق قائم کرنا ضروری سمجھا جائے، اور اساتذہ کے تقرر اور ترقی وغیرہ میں ان کے اسی پہلو کو بطورِ خاص نظر میں رکھا جائے۔
4 – جس مدرسے کے قریب کوئی صاحبِ ارشاد بزرگ موجود ہوں، وہاں کے اساتذہ اور طلبہ ان کی صحبت و خدمت کو غنیمتِ کبریٰ سمجھ کر اختیار کریں، اور کبھی کبھی مدرسے میں ان کے اجتماعی وعظ و نصیحت کا اہتمام کیا جائے۔
امید ہے کہ ان شاء اللہ اس قسم کے اقدامات سے مدارس کی فضا بہتر ہوگی، اور ہم اپنے اُس مرکز کی طرف لوٹنے میں کامیاب ہوں گے جس سے رفتہ رفتہ ہٹتے جا رہے ہیں۔(درسِ نظامی کی کتابیں کیسے پڑھائیں، ص:۶ ۴)
حضرت مولانا مدظلہم کی تجاویز کی روشنی میں یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ مدارس کی اصل روح کا احیاء اور ان میں عمل و عرفانی فضا قائم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دینی خُدّام اپنی اصلاح کی فکر کریں اور اپنے محاسبے کا معمول بنائیں،اس کے لیے باقاعدہ اپنا کوئی مشیر اور مرشد مقرر کریں، اس چیز سے جہاں مدرسے کے نظامِ تعلیم و تربیت میں بہتری اور نکھار پیدا ہوگا، ساتھ ہی روحانی سفر بھی جاری رہے گا اور رفتہ رفتہ معرفتِ خداوندی حاصل ہوگی، جو نعمتِ کبریٰ اور مقصودِ مومن ہے۔
’’اللّٰہُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی مِنَ الْفِعْلِ والقولِ والعملِ وَالنِّیَّۃِ‘‘
مدارسِ اسلامیہ نے اُمت کو کیا دیا؟
دینی تعلیم اور دینی مدارس کی اہمیت یوں تو ہر مسلم سماج میں ہے؛ لیکن خاص کر جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں، جہاں ان کا دین، ان کی تہذیب، ان کی سماجی روایات، ان کی شناخت نشانہ پر ہو، اور جہاں گمراہی اور منکرات کے دروازے اس طرح کھلے ہوئے ہوں کہ کسی بھی شخص کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو؛ بل کہ اس کا استقبال کیا جاتا ہو، وہاں دینی مدارس کی اہمیت اور زیادہ ہے۔
اسی لیے ہمارے بزرگوں نے اس ملک میں انگریزوں کے غلبہ کے بعد اور مسلمانوں کے ہاتھ سے اقتدار نکل جانے کے پس منظر میں مدارسِ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ اس ڈیڑھ دو سو سال کے عرصے میں ان مدارس نے جو نمایاں خدمات انجام دی ہیں، وہ ایسی ہیں کہ اگر چشمِ بصیرت موجود ہو تو نابینا بھی دیکھ لے۔
انہی مدارس نے مسلمانوں کا رشتۂ اسلام سے جوڑے رکھا ہے۔
انہی مدارس نے ان کو عیسائیت، قادیانیت اور مادیت پرستی کے ارتدادی فتنوں سے بچائے رکھا ہے۔
انہی مدارس نے شریعت کی اہمیت ان کے ذہن میں قائم رکھی ہے۔
انہی مدارس کی وجہ سے مسجدیں آباد ہیں، تمام دینی تحریکوں، جماعتوں اور مسلم تنظیموں کو انہی سے غذا مل رہی ہے۔
انہوں نے عوام میں دینی جذبات، ایمانی حمیت اور اسلامی شعور کی چنگاری کو سرد ہونے سے بچایا ہے، یہاں تک کہ مدارس ہی سے نکلنے والے افراد ہیں، جو آج ملک میں خدمتِ خلق، مظلوموں کی مدد، فساد سے متاثر ہونے والے افراد کا تعاون اور ان کی عدالتی پیروی جیسے کام انجام دینے میں بھی شریک یا پیش پیش ہیں۔ ان مدارس کے فارغین نے مسلمانوں کو اعمالِ صالحہ کی دعوت دی ہے۔
مدارسِ اسلامیہ ملتِ اسلامیہ کے لیے شہ رَگ ہیں:
اس لیے اگر کہا جائے کہ یہ ملتِ اسلامیہ کی شہ رَگ ہیں تو مبالغہ نہیں ہوگا۔
ان مدارس کی تشکیل چار عناصر سے ہوتی ہے:
مسلم عوام۔
اداروں کی انتظامیہ۔
اساتذہ اور طلبہ۔
اور ان سب کا کردار اپنی اپنی جگہ اہم ہے۔ اگر عوام کی طرف سے ان اداروں کی اعانت، تقویت اور حمایت نہ ہو، تو ظاہری اسباب کے اعتبار سے مدارس کا چلنا دشوار ہو جائے گا۔
عامۃُ المسلمین کا مدارس کے بارے میں کردار:
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان، اپنی بہت ساری کمزوریوں کے باوجود، جتنا زیادہ اللہ کے دین کے لیے، اپنی قوم کے لیے، اسلام کی سربلندی و سرفرازی اور دینی شعائر کی حفاظت کے لئے خرچ کرتا ہے، کوئی اور قوم اس معاملہ میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی؛ اس لیے ان کا جس قدر شکر ادا کیا جائے، کم ہے۔ غیر مسلم بھائی بھی اس کو محسوس کرتے ہیں۔
منتظمین کی ذمہ داریاں:
مدارس کی تشکیل و تعمیر میں ایک بنیادی رول انتظامیہ کا ہے۔ وہ اپنی صلاحیت، قابلیت، اخلاقی اثرات، اثر و رسوخ، محنت اور جدوجہد کے ذریعہ مسلمانوں کو مدرسہ قائم کرنے پر، یا جو قائم ہیں، ان کے تعاون پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس کے لیے بعضے دفعہ ان کو اپنی سطح سے نیچے بھی اترنا پڑتا ہے، جن لوگوں کے یہاں وہ عام حالات میں نہیں جاتے، مدارس کی تقویت کے لیے وہ وہاں بھی پہنچتے ہیں اور اس کے لیے بعض دفعہ اپنی بے عزتی اور تحقیر کو بھی گوارا کرتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ وہ قوم کے نونہالوں کے لیے گداگری بھی کرتے ہیں، تو غلط نہ ہوگا۔
دوسری طرف اساتذہ صرف اپنے متعلقہ امور کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں، اورطلبہ اپنے ، لیکن ادارہ کے ذمہ دار کو ہر ایک کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے۔ اور جب بھی مدرسہ میں کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو ذمہ دار کو آگے بڑھ کر اسے حل کرنا پڑتا ہے، اگر خدانخواستہ کوئی موقع بدنامی کا آیا، تو اسے بھی وہی سہتا ہے۔ نیز انتظام ایک ایسی چیز ہے، جس میں اختلاف کی نوبت آتی رہتی ہے۔ بڑے سے بڑے آدمی سے بھی لوگوں کو شکایت ہوتی ہے۔ قرآن مجید ہمارے سامنے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک خاص واقعہ کے پس منظر میں: {ما کانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ} (آل عمران: ۱۶۱) آیت نازل ہوئی۔
منتظم سب کی ضرورتوں کا بوجھ بھی اٹھاتا ہے اور سب کی ناہموار باتوں کو بھی سہتا ہے، اس کی ذمہ داریاں بھی بہت ہیں۔ اس کا فرض ہے کہ اساتذہ اور عملہ کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرے، طلبہ کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرے؛ بہرحال سب سے بڑی ذمہ داری اسی کی ہوتی ہے۔ بعض دفعہ اساتذہ اپنے ساتھیوں اور طلبہ کے درمیان اکسانے والی بات کہہ دیتے ہیں؛ کیوں کہ ان کے تو صرف الفاظ خرچ ہوتے ہیں، اور تو کچھ کرنا نہیں پڑتا اور اس سے مدرسہ میں انتشار کی شکل پیدا ہو جاتی ہے؛ لیکن ذمہ دار صرف لفظی ہمدردی کے ذریعہ اپنی ذمہ داریوں سے فارغ نہیں ہو سکتا۔ جو مسائل درپیش ہیں، دوڑ دھوپ کر کے بہر صورت اسے حل کرنا ہوتاہے؛ اس لیے انتظامیہ کی حیثیت ادارہ میں دل و دماغ کی ہے۔
مدرسہ کے ماحول میں منتظم کی حیثیت ’’امیر‘‘ کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی اطاعت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’چاہے وہ ناک کٹا حبشی غلام ہو، پھر بھی اس کی اطاعت کی جائے‘‘۔
(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: ۴۶۰۷)
یعنی جس معیار کا ہونا چاہیے، اس معیار کا نہ ہو تب بھی اس کی اطاعت کی جائے۔ اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ:
’’اگر تم پر ایسے لوگ ذمہ دار بن کر آجائیں کہ تم دیکھو کہ وہ اپنا حق تم سے لیتے ہیں اور تمہارا حق نہیں دیتے ہیں، تو تم صبر سے کام لو اور اس دن کا انتظار کرو، جس دن اللہ کے سامنے وہ بھی حاضر ہوں گے اور تم بھی حاضر ہوگے۔‘‘ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: ۴۷۵۹)
یہ بڑی حکمت کی بات ہے۔ برائی تو برائی ہے؛ مگر ذمہ دار کسی برائی کا ارتکاب کرے تو وہ اور بڑھی ہوئی برائی ہے؛ لیکن امت کو انتشار سے بچانا اور دین کے تحفظ کا جو نظام قائم ہو، اس کو بکھرنے سے محفوظ رکھنا، نہی عن المنکر سے زیادہ اہم ہے۔
اساتذہ کی ذمہ داریاں:
اساتذہ مدارس کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں؛ کیوں کہ مدارس کا بنیادی مقصد تعلیم و تربیت ہے اور تعلیم و تربیت کا فریضہ اساتذہ ہی انجام دیتے ہیں۔ نیز اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دینی مدارس کے اساتذہ کی اپنی ایک شان ہے۔ طلبہ کے ساتھ شفقت، فرض شناسی کا جذبۂ بے کراں، اللہ کی رضا کے لیے اپنے فریضہ کی ادائیگی اور ادارہ کی خیر خواہی یہ ساری باتیں عام طور سے دینی مدارس کے اساتذہ میں پائی جاتی ہیں۔
آج بھی مدارس کے اساتذہ، خاص کر قدیم اساتذہ، اخلاقی اقدار کے اعلیٰ معیار پر ہیں اور دینی جذبہ سے سرشار ہیں۔ ان کا تواضع، ان کی محبت اور ان کی کسر نفسی طلبہ اور عوام کے دلوں کو فتح کر لیتی ہے اور یہی ہونا چاہیے؛ لیکن افسوس کہ آج کل جو نوجوان فضلا آ رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے اساتذہ اور ذمہ دار تیس، پینتیس سال کے بعد جس مقام پر پہنچے ہیں، ہم پہلے ہی دن اس مقام پر پہنچ جائیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارتقا کی فطرت میں تدریج رکھا ہے۔ کوئی بھی چیز درجہ بدرجہ اور رفتہ رفتہ ترقی کرتی ہے۔
طلبہ کی ذمہ داریاں:
چوتھا طبقہ طلبہ کا ہے، یہ مدرسوں کی امیدوں کا مرکز ہیں، ساری محنت، عوام کا اپنی گاڑھی کمائی سے تعاون، ادارہ کے ناظم یا مجلسِ انتظامی کی دوڑ دھوپ اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا، اساتذہ کا شب وروز اپنی آنکھوں کا چراغ جلا کر پڑھنا اور پڑھانا، یہ سب طلبہ کی شخصیت کی تعمیر کے لئے ہوتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیںکہ بہت سی کوتاہیوں کے باوجود آج بھی دینی مدارس کے طلبہ کا اخلاقی معیار عصری درسگاہوں کے طلبہ سے بہت بڑھا ہوا ہے،مگر موبائل کے عام ہونے کے بعد طلبہ میں علمی، عملی، اخلاقی ہر اعتبار سے جو انحطاط درپیش ہے، اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی ،نہ صالحیت ،نہ صلاحیت، نہ تقویٰ، نہ طہارت، نہ تزکیہ، نہ ادب و احترام، بس خواہش پرستی ،آرام طلبی ہی میں مست ہے۔
پانچ چیزیں حصولِ علم میں رکاوٹ:
(۱)…معصیت ،گناہوں بھری زندگی۔
( ۲)…لایعنی اور لغو چیزوں میں انہماک۔
( ۳)… سستی اور کاہلی۔
( ۴)…بے ادبی۔
(۵)…علمی سوال کرنے میں جھجک یا تغافل۔
مقصد میں کامیابی کے لیے طلبہ کیا کریں؟
۱-مسلسل اللہ سے توفیق مانگیں۔
۲-راتوں کو نیند کی قربانی دے کر خوب محنت کریں۔
۳-تہجد کا اہتمام کریں۔
۴-موبائل سے کلی اجتناب کریں۔
۵- تلاوت ِقرآن کا خوب اہتمام کریں۔
۶ – اساتذہ کا حد درجہ ادب و احترام کریں۔
۷-بری صحبت سے مکمل پرہیز کریں۔
۸-استغفار، دعاء، درود پاک اور اذکارِ مسنونہ کا خود کو پابند بنائیں۔
۹- اکابرین کے ملفوظات، خطبات اور احوال کا بہ کثرت مطالعہ کریں۔
۱۰- والدین، بزرگانِ دین اور اساتذہ کی خدمت کرکے دعائیں لیتے رہیں۔
طلبہ اگر اپنی ذمہ داری کو نبھانا چاہتے ہوں، تو مذکورہ بالا نصائح پر عمل کرنے کا عزم کرلیں، ان شاء اللہ! دارین کی کامیابی میسر ہوگی۔
ان چار عناصر سے مدرسہ بنتا ہے اور چلتا ہے، ان چاروں کا آپس میں جتنا زیادہ تعاون ہوگا، ایک دوسرے کا احترام اور ایک دوسرے کی رعایت ہوگی،مدرسہ اسی قدر بہتر طور پر ترقی کا سفر طے کر سکے گا؛ اس لئے عوام کا رویہ مدارس کے ذمہ داران، اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ بہتر ہونا چاہئے، انتظامیہ کا رویہ عوام ،اساتذہ ،طلبہ سب کے ساتھ امانتدارانہ و دیانتدارانہ ہوناچاہیے، اساتذہ کا رویہ طلبہ کے ساتھ مشفقانہ ،انتظامیہ کیساتھ مؤدبانہ اور طلبہ کا خوب محنت لگن شوق سے حصولِ علم کا ذمہ دارانہ کردار ہونا ضروری ہے۔