پرفتن دور میں علمائے کرام کی ذمہ داریاں!

اداریــہ:                                                              دوسری قسط:

مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانوی

امت میں علمائے کرام کی حیثیت ذی روح جسم میں دھڑکتے ہوئے دل کی سی ہے :

            اس حقیقت کا انکار ناممکن ہے کہ اس امت میں علمائے کرام کی وہی حیثیت ہے جو کسی ذی روح جسم میں دھڑکتے ہوئے دل کی۔ انہی کی جدوجہد ہے کہ آج مسلمان اسلامی شناخت کے ساتھ باقی ہیں اور ان میں دینی شعوروآگہی پائی جاتی ہے۔ان کی تمام دینی ضرورتیں علمائے کرام کے ذریعے ہی پوری ہوتی ہیں۔وہ شب و روز محنت کرکے اور کم تنخواہوں میں گزربسر کرکے ہر اعتبار سے امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔اگر وہ اپنے جذبات وخواہشات کو قربان کرکے دین کی خدمت میں مصروف نہ ہوتے تو آج مسلمانوں کا دین کے ساتھ باقی رہنا مشکل ہوجاتا؛لیکن اس تلخ حقیقت کا بھی ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ جس تیزی اور فکر مندی کے ساتھ اصلاح کا کام ہونا چاہیے اور جس طرح معاشرہ سے منکرات کو دورکرنا چاہیے،وہ نہیں ہورہا۔ اس کے نتیجے میں آج مسلم سماج برائیوں سے لت پت ہے۔کوئی علاقہ اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں برائیوں کا سیلاب امنڈتا ہوا نظر نہ آتا ہو۔کیا نوجوان اور کیا بچے، کیا مرد اور کیا عورت، ہر ایک اس میں ملوث ہے۔ اس کے باوجود کہ ہر معاشرے میں اہل علم کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے اور ہر جگہ دینی اداروں کی کثرت ہے،بے دینی اور بے راہ روی بڑھتی ہی جارہی ہے۔علماکے تناسب سے عوام میں خیر و صلاح کا رجحان پیدا نہیں ہورہا، اس کی اہم وجہ علما اور عوام کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ ہے۔

علما کو پوری امت کی اصلاح کے لیے فکرمند ہونے کی سخت ضرورت ہے:

            اہل علم اور مذہبی قائدین کے مختلف طبقات نے اپنا اپنا دائرۂ کار متعین کرلیا ہے، جس سے باہر ان کی کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی۔ذہنی طور پر کھینچے ہوئے حدود میں ہی ان کی زندگی گزرتی ہے اور اسی کو کمال سمجھا جاتا ہے ؛حالاںکہ اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ حدود و قیود کی پابندی کے بغیر جہاں تک زبان و قلم میں طاقت ہے، اس کو پوری امت کی اصلاح کے لیے استعمال کیا جائے اور اپنی قوت وصلاحیت کو مدارس ومساجد اور خانقاہوں تک محدود رکھنے کے بجائے سارے مسلمانوں تک اس کا فیض عام کرنے کی کوشش کی جائے۔

علما  امت کے ساتھ اپنارابطہ مضبوط کریں:   

            اہل علم کی زندگی کا بڑا مقصد مسلمانوں کی رہنمائی اور ان کی اصلاح و تزکیہ ہے اور اس کے لیے ان سے رابطہ ضروری ہے۔رابطہ جتنا مضبوط ہوگا اتناہی ان کو نفع حاصل ہوگا اور اسی قدر عوام ان سے فیض یاب ہوں گے۔

             تعلق کے بغیر علم کا نفع عوام کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ان کی اصلاح کی امید رکھی جا سکتی ہے؛یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ رسول ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے لیے خطِ امتیاز قائم نہیں کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام سے اس طرح گھلے ملے رہتے تھے کہ نئے آنے والوں کو پہچاننا مشکل ہو جاتا کہ ان میں کون امام اور کون مقتدی ہیں،کون تابع اور کون متبوع ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں کے ساتھ بیٹھتے تو بالکل تمام کے برابر،زانوئے مبارک کبھی ہم نشینوں سے نکلے ہوئے نہ ہوتے،مہمانوں کی خاطر تواضع خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے اور ان کی تمام ضروریات کی تکمیل کیا کرتے تھے۔صحابۂ کرام دل وجان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارے پر سیکڑوں افراد تعاون کے لیے کھڑے ہو جاتے ،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سونپ کر کبھی یکسوئی اختیار نہیں کی۔

علما اسوۂ ر سول کو اپنا کر خادم قوم بننے کی کوشش کریں:

            ایک مرتبہ نجاشی کے دربار سے چند سفرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو اپنے ہاں مہمان رکھا اور بہ نفسِ نفیس مہمان داری کے تمام امور انجام دیئے۔صحابۂ کرام ؓنے عرض کیا کہ یہ خدمت ہم لوگ انجام دیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ خدمت ہمارے حوالے کر دیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے اس سے انکار کردیا کہ ان لوگوں نے میرے دوستوں کی خدمت گزاری کی ہے؛ لہذا میں خود ان کی خدمت کرنا چاہتا ہوں (بیہقی)۔

            ایک مرتبہ حضرت خباب بن ارت ؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غز وہ میں بھیجا۔سیدنا خباب کے گھر میں دودھ دوہنے کی ضرورت پیش آئی۔ان کے یہاں کوئی مرد نہیں تھا اور نہ کسی عورت کو دودھ دوہنا آتا تھا،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لے جاتے اور دودھ دوہ دیتے۔مدینہ کی کوئی باندی اور بے حیثیت افراد بھی جب کسی کام کے لیے فریاد کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکار نہیں فرماتے تھے؛ چناں چہ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ ایک پاگل عورت تھی،اس نے ایک مرتبہ خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں آکر عرض کیا کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کام ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عورت!مدینہ کی جس گلی میں بھی تو چاہے میں تیری ضرورت کی تکمیل کے لیے حاضر ہوں؛چناں چہ اس کے ساتھ ایک گلی میں گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ضرورت پوری کی۔(مسلم )

علما جفاکشی اور فکرمندی اپنے اند ر پیدا کریں:

            غزوۂ احزاب کے موقع پر جب کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم خندق کھودنے میں مصروف تھے،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی برابر کے شریک تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی اٹھاتے جاتے تھے جس سے مبارک شکم غبار آلود ہوگیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ایک جگہ بیٹھ کر صرف کام کی نگرانی فرماتے یا کبھی کبھی کام کا جائزہ لے لیتے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا بل کہ عوام کے ساتھ مصروفِ عمل رہے۔اس سے جہاں مسلمانوں کو حوصلہ ملا اور ان کے کام کرنے میںجوش و خروش پیدا ہوا؛ وہیں ا مت کے قائدین اور دینی رہنماؤں کو سبق ملا کہ کسی کام کے وقت اپنے ماتحتوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔گوشہ نشینی افضل ہے یا لوگوں کے ساتھ مل جل کر کسی معاملہ کو حل کیا جانا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کوئی بزرگ پیدا نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح لوگوں سے گھلے ملے رہتے کہ کسی کو رسائی میں کوئی تکلف محسوس نہیں ہوتا،ہٹو بچو کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

علما عوام کے ساتھ گھل مل کر رہیں، صرف خانقاہوں تک محدود رہنا کافی نہیں :

            حضرت جابر بن سمرۃ ؓبیان فرماتے ہیں کہ نمازِ فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ ذکر میں مشغول رہتے تھے۔سورج نکلنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھتے پھر صحابۂ کرام کے ساتھ بیٹھ جاتے۔وہ لوگ زمانۂ جاہلیت کی باتیں کرتے اور اپنی مشرکانہ حرکتوں کو یاد کرکے آپس میں ہنسا کرتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے تذکروں میں شامل رہتے، لطف اندوز ہوتے اور بعض باتوں پر مسکرایا کرتے تھے۔ خانقاہوں سے سیکڑوں لوگ مستفید ہوتے ہیں، مگر کیا خانقاہ کی چہار دیواری میں رہ کر مسندِ ارشاد بچھا دینا کافی ہے یا اہل خانقاہ کی اور بھی ذمہ داریاں ہیں؟قادیانیت،عیسائیت اور مختلف باطل مشنریاں منصوبہ بند طریقے پر اسلام کے خلاف کام کررہی ہیں اور بھولے بھالے عوام کثیرتعداد میں گمراہیوں کے شکار ہورہے ہیں،ان کے تحفظ کے لیے کوششیں کرنا کیا رضائے الہٰی کا ذریعہ نہیں؟خانقاہ کی گلی میں مسلمان شراب نوشی اور جوا میں مصروف رہتے ہیں؛ لیکن اہل خانقاہ ان کو نگاہ اٹھاکر دیکھنے اور روکنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔کیا یہ خدمت دین میں شامل نہیں؟

علما صرف نصابی کتابیں پڑھانے اور امامت کرنے سے ذمہ داری سے دست بردار نہیں ہو سکتے!!

            دینی مدارس سے وابستہ اکثر افراد بھی محض اپنے متعین نصاب کے پڑھانے تک محدود رہتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فریضہ انجام دے دیا ہے؛ حالاں کہ انہی کا معاشرہ نت نئی برائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کبھی مسجد کی راہ نہیں دیکھی۔جھوٹ،غیبت،قمار بازی،سود خوری،بدکاری اور شراب نوشی جیسے گناہوں میں مبتلا ہیں،ان تک اللہ کا پیغام پہنچانا بسااوقات درس وتدریس سے بھی افضل ہوگا،پھر اپنی صلاحیتوں کو مدارس کی چہار دیواری تک محدود رکھنا کیا امت کی حق تلفی نہیں اور کیا قیامت کے دن ہم سے مواخذہ نہیں ہوگا؟جو لوگ مساجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں ان سے پوری قوم وابستہ ہوتی ہے۔

منبرو محراب  اصلاح کے لیے بہترین ذریعہ ہیں، اسے کارآمد بنانے کی سعی کریں:

            منبرو محراب کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی قوت دی ہے، جو چاہنے کے باوجود بھی اچھے اچھوں کو حاصل نہیں،سارے مقتدی ان کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہیں؛ لیکن عام طور پر اس اہم منصب کے ذمہ داران بھی لوگوں سے کٹے کٹے رہتے ہیں۔امام اور مقتدیوں میں مستحکم رابطہ نہیں ہوپاتا۔ان کی ساری سرگرمیاں امامت کی حد تک محدود ہوتی ہیں۔نماز سے کچھ پہلے مسجد میں حاضر ہوتے ہیں اور پھر نماز کے فوری بعد اپنے دیگر مقاصد میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

منصب ِامامت کو انقلابِ خیر کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں:

            اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اتنی بڑی قوت یونہی ضائع ہوجاتی ہے اور پھر وہ کوئی انقلابی کام نہیں کرسکتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امام بھی تھے اور مبلغ اور قائد بھی،معلم اور مدرس تھے اور مصلح اور مجاہد بھی؛ قرآن کی تلاوت بھی کرکے سناتے اور تزکیۂ نفس کا بھی کام کرتے تھے۔بشری تمام ضرورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ تھیں ،لیکن بیک وقت سارا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم انجام دیتے تھے۔اس میں ہمارے لیے بڑا پیغام ہے۔ ان حالات میں مذہبی قائدین کو چاہیے کہ حکمت اور بہتر تدابیر کے ذریعے عوام کو قریب کریں اور ان میں دین سیکھنے کی تڑپ پیدا کریں،انہیں اتباعِ شریعت کا احساس دلائیں۔مسلسل اس طرح کی محنت سے ان کی زندگی میںان شا ء اللہ صالحیت پیدا ہوگی اور علما کی طلب میں بھی اضافہ ہوگا۔

 (علما اور عوام کے مابین بڑھتی دوریاں مفتی تنظیم عالم قاسمی)

علما اور عوام کے مابین دوری کے عوامل اور اسباب :

            سردست ان بنیادی اسباب کی جانب توجہ مبذول کرانیکی سعی کی جارہی ہے، جن کے تدارک اور اصلاح سے علما اور عوام کے مابین دینی و دنیوی امور میں قائم فاصلوں کو ختم کیا جاسکے یا کم ازکم کم کیا جائے۔ قبل اس کے کہ اسلامی تشخص ہماری تہذیب وثقافت سے کلی طور پر مٹ نہ جائے۔ اسباب چوں کہ دونوں طبقات میں موجود ہیں ؛لہذا اول علما کرام کے طبقہ سے متعلقہ اسباب ذکر کریں گے بعد ازاں عوام سے متعلق۔ باللّٰہ نستعین وعلیہ نتوکل۔

            اہل علم طبقہ کی جانب سے چند ایک اسباب جو ہمیں دکھائی دیتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

اخلاص کی کمی:

            اخلاص اعمال میں وزن پیدا کرتا ہے، اخلاص کے فقدان سے عمل کی رنگ آمیزی یا تو پھیکی پڑجائے گی یا بدنما ہوجاتی ہے۔ دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ علم کے شعبے کو بھی گویا کہ نظر لگ گئی ہے، اہل علم کا لبادہ اوڑھ کر ایسے لوگ اس شعبے میں در آئے ہیں کہ جن کے مقاصد کچھ اور ہیں آج کے علما اور ماضی کے علما میں موازنہ کریں تو یہ بات شدت سے کھٹکتی ہے کہ آج کے علما میں اخلاص کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔اخلاص عمل کی روح ہے، جسے ہم نے ثانوی درجے کی جھگڑوں میں الجھ کر کنارے کردیاہے، جو باتنخواہ ہیں وہ تنخواہ کا رونا روتے ہیں اورجو اہل ِتجارت ہیں وہ وقت کی کمی کی شکایت کرتے ہیں۔کام دونوں نہیں کرنا چاہتے اور اگر کرتے ہیں تو بوجھ سمجھ کر۔ تنخواہ دار عالم سمجھتا ہے کہ یہ ذمہ داریاں نظما کی ہیں اور تجارت پیشہ علما کا خیا ل ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داریاں ان ائمہ، دعاۃ اور مدرسین کی ہیں جو اس پیشے سے منسلک ہیں۔ ایسی زبردستی کی نصیحتیں بیزاری کے علاوہ اور کیا اثر چھوڑیں گی!!۔

داعیانہ اوصاف کا فقدان:

            علما چوں کہ انبیا کے وارث ہیں اور انبیا کی سب سے بنیادی ذمہ داری دعوت وتبلیغ تھی۔ آج کے دور میں اہلِ علم طبقہ میں دعوت کا تصور عملاً اتنا محدود ہوگیا ہے کہ وہ اگر مدرسے کی چار دیواری سے اگر نکلتا ہے تومسجد کے منبر تک محدود ہوجاتاہے؛جب کہ مسجدوں اور مدرسوں میں آنے والے افراد کے مقابلے میں ان سے باہر کے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے، اس معاشرہ میں بسنے والے افراد کی رہنمائی کون کرے گا ؟اور انہیں مسجدوں تک کون لے کر آئے گا؟ قصور ان کا نہیں بل کہ قصور ہم جماعتِ علما کا ہے ،ہم دیکھتے ہیں کہ ایک غیر ضروری چیز جس کی ایجاد ایک کمپنی کرتی ہے، اس کا اتنا پرچار کرواتی ہے کہ لوگ اسے ضروری خیال کرنے لگتے ہیں اور پھر وہ ان کی زندگی کا ایک لازمہ بن جاتی ہے۔ مگر شریعت جیسی ضروری چیز پرچار نہ کرنے کی وجہ سے غیر ضروری شیٔ بن کر رہ گئی ہے ،پھر جب شریعت غیر ضروری ٹھہرے گی تو بھلا علما کی ضرورت کیوں کرمحسوس ہوگی اور علما بیزاری پاؤں کیوں نہ پسارے گی۔

 علوم شرعیہ میں عدم تعمق:

            ہم جس دور میں بس رہے ہیں یہ ایسا دور ہے جس میں فتنوں کی یلغار ہے۔ جس میں محض شہوانی فتنے نہیں ؛بل کہ شبہات کا فتنہ سر چڑھ کر بول رہاہے۔ آئے روز نت نئے عقائد ونظریات کا وجود میں آنا علما کی ذمہ داری اس حوالے سے بڑھا دیتا ہے کہ وہ اس سب کے لیے تیار ہوں،مکاروں کی چالوں کو سمجھیں،ان فتنوں کی بیخ کنی کریں۔ اس سب کے لیے شرعی علوم میں تعمق اور ملکہ حاصل ہونا ضروری ہے۔ کتنے ایسے تھے جو غیروں کی اصلاح کے لیے نکلے اور خود شکار ہوگئے۔ رب تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: {قُلْ ہَذِہِ سَبِیلِی اَدْعُو إِلَی اللَّہِ عَلٰی بَصِیرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی وَسُبْحَانَ اللَّہِ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ }(یوسف: 108)

            لہٰذا دعوت کے لیے بصیرت کی ضرورت ہے اور بصیرت علم میں تعمق سے حاصل ہوتی ہے؛لہٰذا عموماً دیکھا گیا ہے بہت سے طالب علم بے بضاعتی کے سبب مناظرات ومباحثات میں کود پڑتے ہیں۔ اور مخالف کی چرب زبانی کے باعث شکست کھاکر بہت سے لوگوں کی گمراہی کا باعث بنتے ہیں؛ لہذا اس وقت جہاں علمااور عوام کے مابین رشتے کو مضبوط کرنے اور دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے؛ وہیں بہت سے علوم میں تمکن حاصل کرنے اور انہیں دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔

معاشرہ اور ثقافت سے لاعلمی:

            ایک عالمِ دین کے لیے فقہ الواقع کا علم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اپنے ماحول سے واقفیت کے بعد ہی ایک عالم دین کی دعوت مؤثر ہوسکتی ہے۔ ماحول سے واقفیت کو بعض لوگ کچھ غلط مفاہیم کے پیرائے میں لے جاتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک داعی اور عالم دین کو اپنے معاشرہ میں موجود لوگوں کی عادات، ان کی نفسیات، اور معاشرہ میں در آنے والے انحراف سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے ۔عربی میں قاعدہ متعین ہے: ((الحکمُ علی الشیئِ فَرعٌ عَن تَصَوُّرہِ)) ولا یَتَحقَّق ذلک إلا بمَعرفَۃِ (الواقِع) المُحیطِ بالمسالَۃِ المُرادِ بَحثُہا؛ وہذا مِن قَواعدِ الفُتیا بِخاصَّۃٍ، واصول ِ العلم ِ بعامَّۃٍ.

            آج کل عام طور پر دیکھا جارہا ہے کہ پروفیسر قسم کے افراد جدید تعلیم یافتہ طبقے میں مقبول ہوتے جارہے ہیں سوال پیدا ہوتا ہے ابسا کیوں تو ایسا اس لیے کہ وہ ان کی فہم کی سطح پر اتر کر ان کو بات سمجھاتے ہیں بار بار انگریزی جملے پیش کرتے ہیں اور ہم وہی گہاڑہی اردو اور گیسے پیٹے واقعات دوہراتے رہتے ہیں اس لیے علما کو سامعین کی سطح پر اتر کر بات کرناہوگی جن ایشوز پر بولنے کی ضرورت ان پر موثر انداز میں بولنا ہوگا تب جاکر تبدیلی کی امید جاگے گی ۔

اصلاح کو ناممکن سمجھنا:

            فتنوں کی کثرت اورشدت کو دیکھ کر علما میں ایک قسم کی مایوسی سی چھاگئی ہے اور سمجھتے ہیں کہ اب اصلاح ممکن نہیں ، جب کہ طبقۂ علما سے اس طرح کی ناامیدی ہرگز مناسب نہیں ۔ در اصل ہماری بے فکری اور محنت میں کمی اورجذبۂ قربانی کے فقدان اور عوامی ضرورتوں سے لا تعلقی یہ وہ اسباب ہیں جس نے امت کو بگاڑ کی طرف ڈھکیل دیا ہے اگر اب بھی علما بیدا ہوجائیں اور تن من دھن کی بازی لگادیں ، مادیت کے دلدل سے نکل کر روحانیت ، فکر آخرت اور جہد مسلسل پر اتر آئیں تو اصلاح ممکن ہی نہیں لازمی ہے ۔طبقۂ علما کو تو امت میں چھائی ہوئی ناامیدی کو ختم کرنا چاہیے نہ کہ خود ناامید ہوکر بیٹھ جانا چاہیے ۔ ارشاد خداوندی ہے :

 {لَا تَیْأَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ ، اِنَّہُ لَا یَیْأَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ}(یوسف:۸۷)

ترجمہ: اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ یقین جانو، اللہ کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافرہیں۔

            یہ آیت ہم میں سے کسی پر مخفی نہیں ، مگر پھر بھی ہم جماعت علما امت کی اصلاح کو ناممکن سمجھ کر بیٹھ گئے ہیں ۔ اللہ ہمیں ناامیدی سے نکل کر امت کی اصلاح کی فکر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔

اسکولوں میں پڑھنے والے امت کے نونہالوں کے ایمان کی فکر سے غفلت:

رہتے ہیں دنیا میں اور دنیا سے بالکل بے تعلق ہیں

پھرتے ہیں دریا میں اور کہتے ہیں کہ کپڑوں کو لگے ہر گز نہ پانی

            علما مدارس میں کتنے بچوں کو سالانہ زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں۔ ایک لاکھ، دو لاکھ۔ مگر ایک رپورٹ کے مطابق ہندستان کے پرائمری ا سکولوں میں داخل ہونے والے بچوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ کیا ان کروڑں بچوں کی تعلیم و تربیت علما کی زمہ داری نہیں ہے؟ کیا اس سے غفلت برت کر علما فتنوں اور چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں!

            کیا ہم نے بیٹھ کر کبھی کوشش کی کہ ایسا مؤثر دینی تعلیم کا کورس یا نصاب تیار کریں جو جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہن کو اپیل کرے ۔ان میں پائی جانے والی فکری اور اعتقادی خرابیوں کا ازالہ کرے ۔ انہیں گمراہیوں سے آگاہ کرے ۔ ان کے دل میں اللہ اس کے رسول کی محبت اور آخرت کی فکر کو اجاگر کرے !!؟؟ہرگز نہیں ۔

             ان شاء اللہ جامعہ اس جانب قدم بڑھا رہا ہے اور ایک مؤثر دینی تعلیمی کور س تیار کرنے جارہا ہے ، جو کالجوں میں پڑھنے والے طلبہ کو فکری گمراہیوں سے نکال کر صراط مستقیم پر لانے کا کام انجام دے ۔ اسی طرح مکاتب کے نصاب کو بھی موجودہ ضرورتوں کو سامنے رکھ کر تیار کیا جارہا ہے اور مدارس کے تعلیمی نصاب میں بھی حالات حاضرہ کو سامنے رکھ کر متعدد مضامین شامل کررہا ہے ۔ اللہ مدد فرمائے اور امت کے حق میں کار آمد بنائے ایسی دعاؤں کی درخواست ۔

دورِحاضرکے جدید فکری و فقہی مسائل سے بے توجہی :

            علما کی ذمہ داری ہے کہ اپنی مقدور بھر کوششیں دور ِحاضر کے جدید مسائل کے احکام اخذ کرنے میں صرف کریں۔ ہر عالم دین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو بتلائے نئے نظریئے کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کیا ہے؟ جدید تجارت کے متعلق اسلامی تعلیمات کیا کہتی ہیں؟ سرمایہ کاری کاجو طریقہ ایجاد ہوا ہے اس کے بارے میں اسلام کا فلسفہ کیا ہے؟ ان تمام تبدیلیوں اور مسائل میں لوگوں کی مکمل رہنمائی کرنا علما کی ذمہ داری ہے؛ جہاں تبدیلیاں کم ہوں گی وہاں علما کی ذمہ داری بھی کم ہوگی؛ جہاں تبدیلیاں زیادہ ہوں گی وہاں علما کی ذمہ داری بھی زیادہ ہوں گی۔ علما کو حالاتِ حاضرہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وابستگی رکھنی چاہیے؛ تاکہ عوام کے مسائل کو سمجھا جا سکے اور انہیں اسلامی نقطہ نظر سے بہترین حل بتایا جاسکے۔ علما کی زمہ داری بھی ہے اور دور حاضر کی ضرورت بھی کہ علما سیاست، صحافت، قیادت، عدالت، حکمت کے میدانوں میں کود پڑیں۔ ان تمام علوم کو علومِ اسلامی کے تابع رکھتے ہوئے تحقیق و تجسس کے لیے افق دریافت کریں ؛تاکہ اہل مغرب کو ہم ڈنکے کی چوٹ پر رکھ سکیں۔

آفتاب دوراں سے کہہ دو اپنی کرنوں کو سنبھال رکھے

ہم اپنے صحراء کے ذرے ذرے کو خود ہی چمکنا سکھا رہے ہیں

علما اور مدارس کے طلبہ انسانیت کی مستقبل کی قیادت کے لیے تیار ہوں :

            اب ضرورت اس بات کی ہے کہ علما زندگی کے ہرمیدان میں اپنا لوہا منوانے کی کوشش کریں ۔ صرف دینی تعلیم پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم میں بھی مہارت حاصل کریں۔اس لیے کہ بے دین طبقہ مختلف میدانوں میں امت اور انسانیت کے سامنے اپنی خدمات پیش کرکر ہر اعتبار سے ان پر غلبہ حاصل کرتا جارہا ہے اس کا صحیح حل یہی ہے کہ ہم بھی درس نظامی کے ساتھ دسویں ، بارہویں بل کہ اس سے دوقدم آگے بڑھ کر کچھ حضرات ڈی ایڈ ، بی ایڈ کریں ، کچھ وکیل بنیں ، بل کہ میں تو کہوںگا کہ کریجویشن کے بعد آئی پی ایس سی اور یو پی ایس سی کے لیے بھی تیارہوں تاکہ علما کا ایک طبقہ سرکاری عہدوں تک پہنچے اور رشوت خوری کے سامنے ہچکولے کھاتی انسانیت کو اپنی دیانت داری اورامانت داری کا ثبوت دے کر نجات دے ۔ الحمد للہ جامعہ اس جانب بھی اپنا قدم بڑھا رہا ہے ۔

علما بیدار مغزی اور زمانہ شناسی کا ثبوت فراہم کریں:

            علمائے کرام و ائمہ کو اللہ تعالی نے اپنی توفیق سے دین کی خدمت اور اس کی حفاظت و دفاع کے لیے قبول کیا ہے اور یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جو کام جتنا ضروری اور اہم ہوتا ہے اس کے تقاضے بھی اسی درجہ حساس اور نازک ہوتے ہیں۔  موجودہ زمانہ نت نئے فتنوں سے چیلنج اور ان کے تعاقب اور امت کو ارتداد سے بچا کر صحیح سمت پر چلانے اور صراطِ مستقیم پر باقی رکھنے کے لیے بیدار مغزی و زمانہ شناسی اور جفا کشی و جہد مسلسل چاہتا ہے اور اس کے لیے مستقل رجال کار کی ضرورت ہوتی ہے۔

امت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے علما سر جوڑ کر اور متحد ہوکر آگے بڑھیں:

            علمائے کرام جو اپنے دائرۂ کار و دائرہ اختیار میں کام کر رہے ہیں، اس کو مزید مستحکم کرنے اور نئے عزم و حوصلہ اور نئی شکلوں کو سامنے لانے کے لیے کسی موقع سے جمع ہو ں اور سر جوڑ کر بیٹھیں ، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں ، مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو پس پشت ڈال دیں ، انانیت ، تقابل ، حسد ، کینہ جیسی مہلک بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کریںاور اس بات کا ادراک کریں کہ وہ امت کے روحانی پیشوا ہیں ، امت ان کے اشاروں پر مر مٹنے کے لیے تیارہیں ، لہٰذا اپنے کسی طرح کے مفاد کو ترک کر کر امت کے اجتماعی مفاد کے لیے اجتماعی طورپر یا انفرادی طور پر ہی سہی فکر مند ہوں ، جو علما کام کررہے ہیں ان کا تعاون کریں ، مناعا للخیر نہ بنیں ، تعاون علی البر کی فضا ہموار کریں تب جاکر امت مصائب کے گرداب سے نجات پا سکے گی ۔

مدار س میں پڑھانے والے علما کی ذمہ داریاں:

            مدار س میں جو پڑھانے والے ہوتے ہیں، وہ اساتذہ یا معلمین اورمدرسین کہلاتے ہیں، ان میں بعض تو بہت ذمہ داری کے ساتھ اپنے کام کو سرانجام دیتے ہیں، مدرسے میں پوری حاضری دیتے ہیں، طلبہ کی تعلیم وتربیت کی طرف پوری توجہ دیتے ہیں، وقت پر وہ بچوں کو اٹھاتے ہیں، نماز پڑھاتے ہیں، او رپھر کلاس لیتے ہیں، مدرسہ کی ضروریات کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں، فصل کے موقع پر اور رمضان کے سیزن میں چندہ بھی کرتے ہیں، جان توڑ محنت اور جدوجہد کرتے ہیں، مدرسے کے کام کو اپنا کام سمجھتے ہیں، غرض یکہ اپنے مفوضہ امور کو اچھے انداز میں انجام دیتے ہیں۔ انتظامیہ سے بھی تصادم نہیں کرتے، مہتمم اور ناظم صاحب کی بات کو مان کر چلتے ہیں، اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتے ،جس سے مدرسے کو یامدرسے کے مفاد یا نام کو نقصان پہنچے۔

مخلص اساتذہ فکر مند اور چو کنا ہوتے ہیں :

            جن مدرسین میں للہیت ہوتی ہے،اخلاص ہوتاہے،وہ اپنے کام میں چوکس رہتے ہیں، مزاج میں خود داری بھی ہوتی ہے، مگر ملازمت اور مدرسی کے اصول کو بھی نبھاتے ہیںاور جو مثل مشہور ہے کہ’’نوکری کے نوکام اور دسواں کام ہاں جی‘‘ اس پر صد فیصد کامیاب، اور’’ڈیوٹی پہ رہے حاضر توکیا کرے ناظر‘‘ پر کاربند رہتے ہیں، ایسے اساتذہ ومدرسین کامیاب مدرسین کہلاتے ہیں۔

بے فکرے اساتذہ کی علامتیں:

            مگر بعض مدرسین جن پر خود داری کا بھوت سوار ہوتاہے، وہ خود داری کے لفظ کو توجانتے ہیں، مگر اس کے محل سے صحیح طور پر واقف نہیں ہوتے بل کہ’’وضع الشئ فی غیر محلہ‘‘کی بنا پر وہ خود داری پر ظلم کرتے ہیںاور اس کی آڑ میں انتظامیہ سے بھی ٹکراتے ہیں، طلبہ کے ساتھ بھی زیادتی کرتے ہیں،ان کی نفسیات کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں، نہ صحیح تعلیم وتربیت کرتے ہیں، بات بات پر ان کو لعنت وملاومت او رطعن وتشنیع کرتے ہیں۔ سزائے جسمانی یانازیبا الفاظ کے ذریعے سے سزائے روحانی دیتے ہیں، ایسے اساتذہ ومدرسین کی آواز اور چال چلن میں بھی اکڑ اور کبر وغرورہوتا ہے، بس وہ خود ہی خود ہوتے ہیں۔ نہ مدرسہ ان کے نزدیک قابلِ احترام، نہ انتظامیہ قابلِ ادب، نہ طلبہ قابلِ شفقت، ایسے مدرسین ان ٹرینڈ (UnTrained) اور ناکام گردانے جاتے ہیں اور وہ چار دن یہاں اور چار دن وہاں وقت گزارتے ہیں، نہ ان سے پڑھائی صحیح ہوتی ہے، نہ چندہ ہی ڈھنگ سے ہوتاہے، نہ وہ کوئی زیادہ اچھا تعمیری کام کرسکتے ہیں، ان کی سوچ اکثر مدرسہ کی اینٹ سے اینٹ بجانا، انتظامیہ سے ٹکرانا، طلبہ پر زیادتی کرنا اور ڈنڈا بجانا ہوتاہے،ایسے مدرسین صحیح نہیں ہیں۔

اساتذہ اورمدرسین سے مخلصانہ گزارش :

            اس لیے تمام اساتذہ ومدرسین سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اخلاص وللہیت کے ساتھ اپنے تمام مفوضہ امور کو صحیح طور پر انجام دیں، خود صحیح طورپر رہیں اور بچوں کی بھی صحیح طورسے تعلیم وتربیت کریں، اس سے اساتذہ کا بھی نام روشن ہوگا، اچھے شاگرد تیار ہوں گے، مدرسہ کا بھی معیار بنے گا، اس کے برخلاف اگر اساتذہ اپنی طرف سے تعلیم وتربیت کے سلسلے میں کوتاہی کریں گے، تونہ تو طلبہ اور شاگرد ہونہار ہوں گے، اورنہ ہی کوئی معیار بن پائے گا، نہ مدرسہ کا نام روشن ہوگا، نہ ایسے اساتذہ کا کوئی وقار اور عزت ہوگی، اخروی اعتبارسے بھی اللہ کے سامنے جو ابدہ ہونا پڑے گا، پھر پچھتانا کام نہ آئے گا۔

مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کی ذمہ داریاں:

             مدارس میں پڑھنے والوں کو طلبہ کہتے ہیں، جن کے لیے سمندر کی مچھلیاں دعائیں کرتی ہیں، فرشتے ان کے لیے پربچھاتے ہیں، ان میں سے بعض تو واقعی حقیقی طالب علم ہوتے ہیں، جن کا کام پڑھنا، اساتذہ کی خدمت کرنا اوراپنے کام سے کام رکھنا ہوتاہے، وہ اپنا سبق یاد کرتے ہیں، مطالعہ و مذاکرہ کرتے ہیں، مدرسے کے قانون کی پاسداری اور لحاظ کرتے ہیں، ذمہ داروں اور اساتذہ کی عزت کرتے ہیں، اور مدرسے کے علاوہ خارجی سرگرمیوں میں کوئی حصہ نہیں لیتے، اپنے بڑوں، اساتذہ اورذمہ داروں پر کوئی اعتراض وتنقید نہیں کرتے، جس کی وجہ سے ان کے لیے خود بخود اساتذہ وذمہ داروں کی دعائیں نکلتی ہیں اور وہ کامیاب ہوتے ہیں، مستقبل کے امام، مقتدا اور پیشوا بنتے ہیں، امت کی قیادت کرتے ہیں، اپنا اور اپنے اساتذہ اورمدرسہ کا نام روشن کرتے ہیں،لیکن بعض مرتبہ طلبہ نام کے ہوتے ہیں، شیطان کا ان پر غلبہ ہوتاہے، وہ ذہین بھی ہوتے ہیں، سبق بھی خوب یاد کرکے سناتے ہیں، استاد کی تقریر بھی جوں کی توں ازبر یاد کرلیتے ہیں۔

شریر طلبہ کی علامتیں:

             مگر شیطانی وساوس اور شیطانی اثرات کے غلبہ کی بنا پر وہ معقول اور مطیع وفرمانبرار طالب علم نہیں رہ پاتے؛بل کہ شیطان ان کے رگ وپے میں گھس جاتاہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ اکثر طلبہ کے ساتھ بھی جھگڑا کرتے رہتے ہیں، اساتذہ کو بھی کم صلاحیت بل کہ بعض مرتبہ بوگس سمجھتے ہیں،اور انتظامیہ سے بات بات کی شکایت اور اعتراض کرتے رہتے ہیں۔ ایسے طلبہ اکثر ناکام رہتے ہیں، ان کے مدرسے سے جانے کے خود بخود اسباب بن جاتے ہیں، بعض مرتبہ وہ خود چلے جاتے ہیں، بعض مرتبہ کوئی ان کی طرف سے ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتاہے، ان کا اخراج ہوجاتاہے، بعض مرتبہ مدرسے کی دیواریں خودان کو قبول نہیں کرتیں اور وہ چلے جاتے ہیں، علم ان کی قسمت میں نہیں ہوتا، اگر کچھ تھوڑا بہت حاصل ہوبھی گیاہو، تو وہ مثمر، مفیداور کارآمد نہیں ہوتا، بل کہ وہ ضائع ہوجاتاہے، اور بہت سوں کو ضائع کرنے کا سبب بن جاتاہے۔

طلبہ سے درد مندانہ اپیل :

             طلبہ بھی ہرسوچ کے ہوتے ہیں، اچھی سوچ کے بھی اور بری سوچ کے بھی۔اس لیے طلبۂ عزیز اپنے وقت کی قدر کریں، اپنے اساتذہ اور ذمہ داروں کا احترام کریں،اس لیے کہ یہ علم تواضع، عاجزی، انکساری، اپنے کو مٹانے اور اپنے بڑوں کا ادب کرنے سے آتاہے، مدرسے کے اوقات کو غنیمت جانیں، زندگی کے یہ لمحات بہت قیمتی ہیں، جب یہ بے کار ضائع ہوجائیں گے، پھر واپس نہیں ملیں گے، اس لیے طلبہ وقت کی بھی قدر کریں اور مدرسہ کے متعلق جملہ چیزوں کی بھی عزت کریں، حرام سے بچیں، حلال کواختیار کریں، گناہوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں، اگر ہوجائے تو توبہ کریں، اس لیے کہ علم اللہ کا نور ہے، اور اللہ تعالی اپنا نور گنہ گار بندوں کو نہیں دیا کرتا، ا س لیے طلبہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔