معار ف کا پو د روی
پردے کا حکم:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں جو برقعہ پہنتی تھیں، وہ آج کل کے برقعہ کی طرح نہیں تھا، یہ تو بعد کی ایجاد ہے، وہ تو بہت موٹی موٹی چادریں ہوا کرتی تھیں، جن کو عورتیں اپنے سروں پر ڈالتی تھیں۔
یونیورسٹی میں پڑھنے والے بہت سے نوجوان کہتے ہیں کہ عورتوں کو برقعہ پہننے کا حکم قرآن مجید میں کسی جگہ نہیں آیا۔
میں گذشتہ سال امریکہ گیا تو نماز کے بعد میں نے دیکھا کہ چار پانچ عرب نوجوان آپس میں حجاب کے مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں، تو ایک نے کہا کہ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ عورت کے لیے سارے بدن کا پردہ ہے ”إلا الوجہ والیدین“سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔ اس سے وہ لوگ سمجھے کہ عورت کے لیے حجاب نہیں ہے؛ حالاں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عورت اگر نماز کی حالت میں اپنے چہرے اور ہتھیلی کو کھلا رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے، یہ اس کے ستر میں داخل نہیں ہے؛چوں کہ وہ بے چارے انگریزی پڑھے لوگ قرآن مجید کے مفہوم کو صحیح طور پر نہیں سمجھے تھے، اس لیے اس طرح کی باتیں کر رہے تھے۔
میں جوتا پہنتے ہوئے ان کی باتوں کو سن رہا تھا۔ میں ان کے قریب گیا اور ان کو سلام کیا، پھر میں نے کہا: ”أ ما قرأتم فی کتاب اللہ“ کہ تم نے قرآن مجید کی یہ آیت نہیں پڑھی ؟﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلاَبِیْبِھِنَََّ﴾ اور کیا یہ آیت نہیں پڑھی ؟ ﴿وَلْیَِضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ﴾ تو انہوں نے کہا کہ ہاں! یہ آیت تو ہے۔ تو میں نے کہا کہ اس آیت میں یہی تو بات کہی جارہی ہے کہ عورتیں جب باہر نکلیں تو چہرے کو چھپالیں۔
عورت کے لیے تقویٰ یہ ہے کہ جب وہ باہر نکلے تو ادنائے جلباب کرے، ادنائے جلباب کے معنی یہ ہیں کہ اپنی چادر کو اتنالٹکا لیں کہ دوسروں کو اس کا چہرہ نہ دکھنے پائے تا کہ پہچانی نہ جائے کہ کون عورت ہے اور تا کہ کوئی شریر آدمی اس کے چہرے کی طرف نہ تا کے، یہ ہے اصل حکم۔
تقویٰ کیا ہے؟
تو تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اپنے دل اور اپنے اعضا کو اللہ کے تابع کردے۔ ہم دکان پر بیٹھے ہیں ایک چھوٹا سا بچہ ہمارے پاس آیا اور ہم یہ سمجھیں کہ یہ بچہ صحیح بھاؤ نہیں جانتا ہم نے اس سے دو پیسہ زیادہ لے لیے تو یہ زیادہ پیسہ لینا تقویٰ کے خلاف ہے۔ کوئی دیہاتی آدمی ہے، اس کو قیمتوں کا حال معلوم نہیں اس کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا تقویٰ کے خلاف ہے۔ ہم نے کسی چیز میں ملاوٹ کر دی یا کسی گاہک سے کہہ دیا کہ صاحب ہم یہ چیز دس پاؤنڈ میں بیچ رہے ہیں، گاہک نے کہاکہ یہ تو بہت مہنگی ہے، تو وہ جھوٹ کہتا ہے کہ ہاں آٹھ پاؤنڈ میں تو ہم نے خریدی ہے، حالاں کہ وہ لایا ہے چھ پاؤنڈ میں، لیکن دس پاؤنڈ میں بیچنے کے لیے وہ اس طرح کہہ رہا ہے کہ میں آٹھ پاؤنڈ میں لایا ہوں، جھوٹ بول کر بیچ رہا ہے؟ تو یہ تقویٰ کے خلاف ہے ؛حالاں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے تقویٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں:
﴿ یٰااَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہ الخ) ﴾
”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔“
امام اعظم کا تقویٰ:
امام صاحب کے متعلق کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ بہت بڑے تاجر تھے۔ کپڑے کی ز بر دست تجارت تھی، ایک کپڑے میں تھوڑا سا عیب تھا، امام صاحب کو کسی ضرورت کے لیے باہر جانے کا اتفاق ہوا، اپنے ملازم سے فرمایا کہ جب بھی کوئی گاہک آئے تو اسے یہ عیب دکھلا کر اس کی قیمت بتلا دینا ،جس کو مناسب معلوم ہوگا وہ خریدے گا۔آپ تشریف لے گئے رات کو جب واپس ہوئے تو پوچھا کہ کتنے کی تجارت ہوئی؟ اُس کپڑے کا کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ وہ تو بک گیا۔ آپ نے پوچھا کہ وہ عیب بیان کیا تھا؟ اس نے کہا کہ میں تو بھول گیا؟ فرمایا کہ اچھا تم بھول گئے؟ آج ایک مسلمان کو عیب والا کپڑا دے دیا۔ امام صاحب نے اس دن کا تمام سرمایہ صدقہ کر دیا، یہ ہے تقویٰ۔
بہر حال آدمی اپنی زندگی کی لائن کو درست کرے ۔چاہے وہ دکان پر بیٹھا ہویا ملازمت کی کرسی پر۔ چاہے وہ گھر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ معاملہ کر رہا ہو، چاہے وہ اپنی اولاد کی تربیت کر رہا ہو ۔ہر مسئلہ میں اللہ پاک سے ڈرے۔