نوائے اسلام : مقصوداحمدضیائی
جب بھی کوئی شخص مذہب ِاسلام کا منصفانہ مطالعہ کرے گا ،تو اس کا برملا اعتراف ہوگا کہ مذہب اسلام ایک ایسا معتدل مکمل اور اکمل ضابطہٴ حیات ہے، جس ضابطہ ٴحیات میں مرد و عورت کی حفاظت و تکریم کے لیے ایسے اصول مقرر کیے گئے ہیں کہ ان کو اپنانے میں نہ کوئی دقت پیش آتی ہے اور نہ ہی فطرتِ سلیم انہیں قبول کرنے میں بوجھ محسوس کرتی ہے۔ تعلیمات ِاسلام کا بغور مطالعہ کرنے والا قاری بخوبی جانتا ہے کہ اسلام باوقار زندگی گزارنے کا درس دیتا ہے۔ جس کے تحفظ کے لیے تعزیری قوانین نافذ کیے گئے ہیں؛ تا کہ عزت ِنفس مجروح کرنے والوں کا محاسبہ ہوتا رہے؛ عورت کے لیے حجاب کا شرعی حکم اسلامی شریعت کا طرہٴ امتیاز اور قابل فخر دینی روایت ہے۔
مذہب اسلام نے عورت کو حجاب کا حکم دے کر عزت و تکریم کے اعلٰی ترین مقام پر لا کر کھڑا کر دیا۔ محققین کی تحقیق اس پر شاہد ہے کہ حجاب کا شرعی حکم معاشرے کو متوازن کرنے میں اہم رول ادا کرتا ہے اور مرد کی شہوانی کمزوریوں کا کافی و شافی علاج ہے؛ چوں کہ عزتوں کے جو بھٹے لگتے ہیں وہ سب بے پردگی اور اختلاط سے پیدا ہوتے ہیں؛ لہذا! خواتین ِاسلام کو حجاب کے سلسلے میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کے بجائے پر اعتماد اور فخریہ انداز میں اس حکم کو عام کرنا چاہیے؛ تا کہ پوری دنیا کی خواتین بلا لحاظ ِمذہب و ملت و رنگ و نسل اس کی برکات سے مستفید ہوسکیں۔ یہ سوال یا تو اغیار کی جانب سے اٹھتا ہے یا پھر روشن خیال طبقہ کے یہاں موضوعِ بحث بنتا رہتا ہے کہ حجاب کیوں؟
جاننا چاہیے کہ یہ احکم الحاکمین کا حکم ہے، چنانچہ اہل علم فرماتے ہیں کہ عورت ایک موتی ہے اور موتی بغیر صدف کے نہیں ہوتی اور صدف (سیپ) چٹانی خول کو کہتے ہیں۔ اسلام میں عورتوں کے لیے حجاب بریں بنا فرض ہے کہ جو اس موتی کا حقیقی حق دار ہے اسے ہی یہ ملے۔ چور اچکے اور بد ذات قسم کے لوگ اس پر ہاتھ نہ ڈلیں!
آمدم برسرمطلب! سوشل میڈیا کی اطلاعات کے مطابق کرناٹک کے کچھ کالج کیمپس میں حجاب پر لگی پابندی اٹھائے جانے کے آئینی حق کی مانگ کو لے کر مسلم طالبات کی جدوجہد جاری ہی تھی کہ مورخہ 8 / فروری 2022ء کو یہ مسئلہ اس وقت ایک اہم ترین مرحلہ میں داخل ہو جاتا ہے کہ ایک باحجاب طالبہ مسکان خان جب احاطہ کالج میں داخل ہوتی ہے طالبہ کے داخل ہوتے ہی لگ بھگ تیس پینتیس نوجوانوں کا ٹولا ہاتھوں اور گردن میں زعفرانی و بھگوا رنگ کی چادریں لیے ،جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے خوفناک انداز میں طالبہ کی طرف بڑھنا شروع ہو جاتا ہے، مگر جنونی انتہاء پسندوں کے درمیان تنے تنہاء یہ شیرنی بھگوا دھاریوں کے جے شری رام کے جواب میں جرائت و بے خوفی اور شر پسندوں کے ہجوم میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہ کر خدائے وحدہ لاشریک کی عظمت کا نعرہ تکبیر بلند کر کے پوری امت مسلمہ میں ایمانی حرارت کی ایک نئی لہر دوڑا دیتی ہے اور بفضل اللہ تعالی اس شیر دل؛ شاہین صفت با حجاب طالبہ اور قوم کی بہادر بیٹی کی یہ ایک آواز عورت مارچ کی لاکھوں کروڑوں کی تعداد پر بھاری ثابت ہوتی ہے، قوم کی اس بیٹی کی للکار سے ؛جہاں امت مسلمہ کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے، وہاں حقوق ِانسانی کے تحفظ کے عالمی اداروں اور تنظیموں کو بھی شرم و غیرت دلاتے ہوئے جنھجھوڑتی ہے اور خوابیدہ قوم مسلم سمیت؛ قائدین ملت کو بھی دعوت ِفکر دے جاتی ہے۔ کہ دنیا پھر کسی براہیم اور محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کی تلاش میں ہے کہ جو ظلم و جبر کے طوفان کی موجوں میں اتر کر طلاطم بپا کرتے ہوئے ملت ِاسلامیہ کی غیرت ِرفتہ؛ حمیت ِسائبہ اور عظمت ِکاملہ کا سامان پیدا کر دے۔ اسلام کی اس با ہمت بیٹی کی تاریخی للکار کے بعد شرق و غرب، شمال و جنوب سے امت ِمسلمہ کے خاص و عام کی طرف سے حوصلہ افزا ریمارکس کا طومار سلسلہ جاری ہو جاتا ہے، انہیں میں کا ایک شاعر اس واقعے کی عکاسی یوں کرتا ہے۔ کہ
جنگ میں لڑتا ہوا گلاب دیکھا ہے
لہو لہان آنکھوں میں خواب دیکھا ہے
کہیں گے لوگ یہ…. صدیوں تک
ہم نے نقاب میں انقلاب دیکھا ہے
ایک دوسرے شاعر نے قوم کی اس باحیاء اور بہادر بیٹی کی بہادری و شجاعت اور حوصلہ و ہمت اور دینی غیرت و حمیت کو ارمغان تبریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ
شباب اچھا نہیں لگتا کباب اچھا نہیں لگتا
گلی کوچوں میں یوں بکھرا گلاب اچھا نہیں لگتا
سبق جن میں پڑھایا جا رہا ہو بے حجابی کا
ہمیں ایسی کتابوں کا نصاب اچھا نہیں لگتا
جاننا چاہیے کہ ”حیا عورت کا بیش قیمتی زیور ہے، عورت سے علم چھین لیا جائے تو جہالت نسلوں میں سفر کرے گی اور اگر علم کے نام پر عورت سے پردہ چھین لیا جائے تو بے حیائی نسلوں میں سفر کرے گی۔ بلا شبہ قوم کی بہادر بیٹی مسکان خان نے عملاً وہ کر دکھایا ہے بنا بریں یہ کہنا بجا ہوگا کہ:
تاریخ جو مرتب………ہوئی کبھی
دیباچہ بہار کا عنوان رہیں گی
تاریخ اسلام کا مطالعہ کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ دین ِاسلام کی سربلندی و سرفرازی کے لیے مردوں کی قربانیاں اور شجاعت و استقامت کی داستانیں اپنی جگہ، مگر خواتین کی قربانیوں کا باب بھی بہت وسیع ہے۔ اولین مسلمان خواتین نے اسلام کی خاطِر کیسی کیسی مشقتیں برداشت کیں اور اس راہ میں کیا کچھ قربان کیا؟ تاریخ ان خواتین کی جرأَت و بے باکی پر آج بھی حیران ہے۔ یاد رہے! اس دین کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک خاتون نے ہی اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ یہی نہیں بلکہ جب بھی دین کی خاطِر اپنی یا اپنے گھر والوں کی جان دینے یا کسی کی جان لینے کی ضرورت پڑی تو مسلمان خواتین کے ماتھے پر شکن تک نہ ابھری، انہوں نے گھر بار لٹا دیے، خون کے رشتوں کو خوشی خوشی موت کے حوالے کر دیا، اپنی آبائی سرزمین کو چھوڑ کر دُور کہیں جا کر بسنا پڑا تو بھی ان کے حوصلے کبھی پست نہ ہوئے، انہیں تپتے صحراؤں میں لٹایا گیا، دہکتے کوئلوں پر بچھایا گیا، لوہے کے لِباس پہنا کر سورج کی شدید گرمی کا مزہ چکھایا گیا، ان کے بچوں اور اہل خانہ کو نظروں کے سامنے سُولی پر لٹکایاگیا، نیزوں، تلواروں، خنجروں اور کوڑوں کے ساتھ لہولہان کیا گیا، بھوکے پیاسے دھوپ میں باندھ کر رکھا گیا، گھربار، بہن، بھائی، ماں، باپ، آل، اولاد اور ہر دلعزیز رشتوں سے جدا کیا گیا اور وطن عزیز سے نکالا گیا۔ ظلم و جبر، اور سفاکی کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی، مگر تپتے صحراء اور اندھیری ٹھٹھرتی راتیں گواہ ہیں کہ اس صنف نازک کی استقامت میں ذرہ برابر جنبش نہ آئی اور ہمیشہ کے لیے اوراق ِتاریخ کو ان کی قُربانیاں محفوظ کرنا پڑیں۔ زمانے کے ظلم و ستم ان نفوس قدسیہ سے ان کی دولت اِیمان نہ چھین سکے۔
اس پر ام المومنین سیدہ عائشہ صدیْقہ کا فرمان شاہد ہے کہ ” ہم نہیں جانتیں کہ کسی مُہاجِرہ عورت نے ایمان لانے کے بعد اسلام سے منہ پھیرا ہو”۔ دیکھا جائے یوں تو پوری اسلامی تاریخ بحرانوں کی تاریخ ہے تاہم اسلام کا ابتدائی دور بڑی آزمائشوں کا دور تھا برصغیر کی تاریخ کو پڑھ جائیے، کیسی کیسی باکمال اور پُر جلال عورتیں گزری ہیں، خوشی قسمتی سے تاریخ نے ایسی بہادر دختران اسلام کی قربانیوں کو محفوظ رکھا ہے۔ بے انتہا سلام ہو کرناٹک کی ہماری بہن مسکان خان کی ایمانی جرأت و جذبے کو جو اغیار کی وادی میں فسادیوں کے جھنڈ میں احکم الحاکمین کے ایک حکم (حجاب) کو بجا لانے کے لیے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اللہ وحدہ لاشریک کی کبریائی اس وقت بیان کر رہی ہے جس وقت عین ممکن تھا کہ اس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکنے کے تمام امکانات موجود تھے، لیکن کسی بھی تکلیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فسادیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ شیرنی تکبیر کی صدا بلند کرتی گئی۔
مسکان خان کا ولولہ انگیز کردار امت مسلمہ کو دعوت فکر دیتا ہے کہ اپنے اندر کردار کی بلندیاں پیدا کیجیے تاکہ تلوار اٹھانے کی ضرورت ہی نہ پڑے اگر کردار پیدا کر لیا تو ان شاء اللہ اسلحہ وہ کام نہیں کرے گا جو آپ کا کردار کام کرے گا۔ امت ِمسلمہ ایک روشن تاریخ رکھتی ہے ،اسلامی تاریخ کے دامن میں وہ پرکشش لمحہ آج بھی اپنی مثال آپ ہے ۔رحمت ِدو عالم اجب فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوتے ہیں تو مخالفین کانپ رہے ہوتے ہیں، لیکن آپ عام اعلان فرماتے ہیں کہ آج مار دھاڑ کا دن نہیں ہے، بدلے کا دن نہیں ہے؛ جاننا چاہیے کہ وہ قومیں جو کمزوروں کو پیسیں اور وڈیروں اور طاقتوروں سے پستی رہیں دیر تک زندہ نہیں رہا کرتیں۔ پیغمبراسلام ا کا انقلاب اس لحاظ سے بھی قابل غور ہے کہ انقلاب کا تصور آتے ہی ہلاکتوں اور بربادیوں کا تصور ذہنوں میں رقص کرنے لگتا ہے، قدیم و جدید انقلابات کے اندھیروں میں جب فکرِ انسانی ماضی کی طرف پلٹتی ہے، تو ہولناک تاریکیاں نظر آتی ہیں؛ لیکن ان اندھیروں میں ایک ایسا جگنو بھی دکھائی دیتا ہے کہ جس کی روشنی سے انسانیت کو ایک راستہ ملتا ہے اور وہ ہے رحمت ِدوعالم ا کا کردار۔
پیغمبراسلام ا انقلابی اتنے کہ آپ نے مشرق و مغرب کے رخ کو بدل دیا، لیکن شفیق اتنے کہ آپ کے انقلاب میں وحشت کا ایک بھی اسلوب نظر نہیں آتا، آپ نے اور آپ کے رضاکاروں نے تلوار ضرور اٹھائی مگر حکم یہ ہوتا تھا کہ کسی بچے عورت یا بوڑھے پر ہرگز نہ چلنے پائے اور جو بھاگ جائے اس کو بھی جانے دو مقابلہ صرف اس کا کیا جائے جو تم پر حملہ آور ہوگا حد ہوگئی شفقت و رحمت کی بھی کہ پوری تئیس سالہ عسکری زندگی میں ایک انسان بھی رسول اللہ ا کی تلوار سے نہیں مارا گیا۔ غرض کہ یہ انقلابی فاتح بن کر بھی اپنے ستانے والوں سے انتقام کا کوئی تصور نہیں رکھتا۔
بہ ہرحال قوم مسلم بیدار لگنے لگی ہے اللہ کرے عملاً بھی زندہ ہو جائے ” اپنے آئینی و دینی حق کے لیے باد ِمخالف کی تند و تیز ہوا کے سامنے ڈٹ کر پورے حوصلے سے مقابلہ کرنے والی مہاتما گاندھی کالج اوڈوپی کی بہادر طالبہ مسکان خاں بنت جناب محمد حسین خاں کرناٹک کو صدر جمعیتہ علماء ہند حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب کی پر خلوص مبارک باد اور اس کے روشن مستقبل کے لیے نیک خواہشات اور پانچ لاکھ روپے نقد دینے کا اولاً اعلان جاری ہوا الحمدللہ اعلان کردہ رقم طالبہ کے حوالے بھی کر دی گئی ہے؛ تاکہ وہ اس نازک صورت حال میں اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکے مسکان خان کے اس انقلاب آفریں کردار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے نامور شاعر آر۔ اے ضیا#ئی نے نہایت ولولہ انگیز اشعار کہے ہیں کہ#
اگر اعداء کے خرمن کو جلا کر راکھ کرنا ہے
تو اپنی خفتہ ہستی میں کرو آتش فشاں پیدا
رباب و چنگ میں مدہوش ہوں مائیں اگر ضیا#ئی
تو پھر کس کوکھ سے ہو ابن قاسم سا جواں پیدا
مولانا ابوطارق جمیل صاحب نے امت مسلمہ کی دینی حمیت اور قومی غیرت میں لہر پیدا کرنے کی قابل تعریف کوشش کی ہے۔ خدا کرے یہ صدا، صدا بصحراء نہ جائے آں محترم رقم طراز ہیں کہ
” کل بروز حشر باحیاء و باغیرت اور باہمت بیٹیوں کا حشر امہات المؤمنین اور بنات طیبات کے ساتھ ہوگا ،تب مسلم قوم کے ان بدنصیبوں کے پاس سوائے پچھتانے کے اور کچھ بھی نہ ہوگا، جو پردے کو پسماندہ دور کی رسم اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اس لیے خود بھی حیاء دار بنیں اور اپنی خواتین کو بھی باحیاء بنانے کی کوشش کریں۔ “
مسکان خان کے اس ولولہ انگیز اور ایمان افروز کردار کی وجہ سے قوم کے بچوں کی خاموشیاں بھی چپ نہ رہ سکیں ایک طالب علم کے یہ اشعار بار بار پڑھنے لائق ہیں۔#
تیری بہادری کا قصہ گنگناتے رہیں گے
اہل کفر تیرے نام سے کپکپاتے رہیں گے
تھے مشکل جو چند قدم وہ تم نے چل لیے
صدا اب تیرے چہرے مسکراتے رہیں گے
مسکان کے چہرے سے مسکان نہ گم ہوگی
مسلمان تجھے بنت فاطمہ بتاتے رہیں گے
کیا سوچ کر بولو گے غیرت مسلم مردہ ہے
ہم نعرہٴ تکبیر سے لشکر ِکفار کو ڈھاتے رہیں گے
ہمارے شعائر سے چھیڑ خوانی کی نہ سوچنا
ورنہ ہم تو اپنی تاریخ دہراتے رہیں گے
تمہارا حشر بروز محشر ہوگا باہم عائشہ
ہم اپنی بہنوں بیٹیوں کو یہ سناتے رہیں گے
یقیناً! بہن مسکان خان نے امت ِمسلمہ کو بیدار کیا ہے، بطور خاص مسلم معاشرہ کی ان بہنوں کو جو حجاب کو ضروری نہیں سمجھتی تھیں، خدا کرے ہر گھر میں مسکان جیسی بیٹیاں پیدا ہوں، اس بہن کی غیرت و حمیت اور جذبہ کو تہ دل سے سلام!!!
بہن مسکان خان کا یہ بہادرانہ اقدام ملت اسلامیہ کی بقاء کے تئیں اپنے اندر بہت سے پیغامات لیے ہوئے ہے ۔غفلت سے نکلنا ہوگا ہمت و حوصلہ پیدا کرنا ہوگا دینی علمی سیاسی فکری اور ذہنی شعور کی بیداری کے تئیں فکر مند ہونا ہوگا، بطور خاص نوجوان نسل کے شعور کی تربیت مطلوب پیمانے پر کرنی ہوگی نیز حالات چاہے کیسے بھی کیوں نہ ہوں، حقوق کی پاسداری کے لیے ہماری جدوجہد دوطرفہ ہونی چاہیے اول خود ہمارے اپنے لیے ہو اور دوم عام انسانوں کے لیے اس سلسلہ میں مختلف طبقات اور گروہوں کی کوششوں کو تعاونوا علی البر والتقوی کے تناظر میں سمجھتے ہوئے تعاون و اشتراک کی درست پالیسی اختیار کرنی چاہیے ” الحاصل! اسلام سلامتی کا مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو امن و سلامتی کی تعلیم دیتا ہے نفرت اور انتشار سے منع کرتا ہے عورتوں کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے مغربی سوسائٹی جس کی تقلید پر دنیا مر رہی ہے نے عورت کو کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے لیکن رسول اللہ ا کے انقلاب نے عورت کو یہ مقام بخشا کہ عورت جب بیٹی ہے تو اس کے سر پر اسلام نے عفت کی چادر رکھی، جب بہن ہے تو اس کے سر پر اسلام نے عصمت کا دوپٹہ رکھا، جب بیوی ہے تو اس کے جذبات میں وفا کی عظمتیں رکھیں اور جب ماں ہے تو اس کے پاؤں تلے جنت رکھی غرض کہ رسول اللہا نے دختران انسانی کے سر سے اترتے دوپٹوں کو سنبھالا ہے۔ دشمن کی بیٹی جنگی قیدی بن کر آتی ہے رحمت ِدو عالم نے دیکھا کہ بیٹی کے سر سے چادر اتر چکی ہے فوراً اپنی چادر اوڑھا دیتے ہیں بتایا جاتا ہے کہ دشمن کی بیٹی ہے آپ ا فرماتے ہیں کہ بیٹی بیٹی ہوتی ہے دوست کی ہو یا دشمن کی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کے حصول کے لیے عورتوں کو جنہوں نے استعمال کیا ان کا انجام اچھا نہیں ہوا؛ خواتین کو اسلامی تعلیم دینا شرعاً ممنوع نہیں ہے؛ حجاب اور پردے کا لحاظ ضروری ہے؛ دین کی سرحدیں محفوظ رکھنی پڑیں گی یہ مطلب یاد رہے کہ خاتون کی عفت پردہ اور پاکدامنی اور علم کے درمیان تعارض ہوا، تو پردے کو ترجیح دی جائے گی، علم کو ترجیح نہیں ہوگی، چھوڑ دیں؛ رہنے دیں، مری ہوئی عورت سے کیا خطرہ ہے؟ لیکن اسلام اپنے قواعد و ضوابط پر فولاد کی طرح قائم و دائم ہے جو لوگ یہ سمھجتے ہیں کہ پردہ مولویوں کا ایجاد کردہ ہے، ان کو شرم آنی چاہیے چوں کہ قرآن پاک محمد رسول اللہا پر نازل ہوا ہے ،جاننا چاہیے کہ دین ِاسلام قیامت تک کے لیے آیا ہے اس کے مسائل کو مسلمانوں نے ہی آگے بڑھانا ہے ڈرنا نہیں ہے، گھبرانا نہیں ہے اگر ایک طرف دین کا تقاضہ ہو اور دوسری طرف ہمارا کوئی ذاتی نقصان ہو رہا ہو تو اپنے نقصان پر راضی ہو جائیں دین کا نقصان نہ ہونے دیں۔ الحاصل! کرناٹک حجاب معاملہ پر کالج و سرکار کا رویہ غیرقانونی و غیر انسانی ہے؛ انسانی حقوق اور مذہبی و شخصی آزادی کے بھی سراسر خلاف ہے ،اس پر آواز اٹھانی چاہیے جو حق بھی ہے اور آئینی بھی ہے موٹی سی بات یہ ہے کہ یونیفارم کا تعلق کالج سے ہوتا ہی نہیں ہے، اگر مان لیا جائے کہ کالج میں یونیفارم ہوتا ہے تو پھر کیا عیسائیوں کے مذہبی نشان کراس اور سکھوں کی پگڑی وغیرہ پر بھی پابندی ہے، اگر نہیں تو پھر صرف مسلم قوم اور مسلم بچیوں کو ہی ٹارگٹ کرنے کا کیا مطلب؟ ایسا کرنا اپنے آپ میں ایک خطرناک اور تشویشناک بات سمجھ میں آرہی ہے ۔طالبات کی یونیفارم پر جب ہم پابندی دیکھتے ہیں تو پھر پارلیمنٹ میں بھی ارکان پارلیمان زعفرانی اور بھگوا رنگ کے کرتے پہنے ہوئے ہوتے ہیں ان پر بھی پابندی لگنی چاہیے ؛بہرحال وطن عزیز کی صورت حال بہت نازک ہوچکی ہے، اس قسم کے مسائل سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ مٹھی بھر لوگ اس عظیم ملک کو جس کی آزادی میں ہر کسی کا لہو شامل ہے؛ فرقہ واریت میں گھول دینا چاہتے ہیں ،اگرچہ ملک میں برادران وطن کی بڑی تعداد امن و سکون اور خوش حالی دیکھنا چاہتی ہے اور گنگا جمنی تہذیب ہی ہے جو اس ملک کی خوب صورتی ہے۔ لہٰذا بلا لحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل پیار و محبت سے مل جل کر رہنا ملک کی سالمیت کے لیے ضروری ہے۔