از:مفتی عبدالقیوم صاحب مالیگانوی/استاذجامعہ اکل کوا
سکون ہی نہیں ملتا:
بلا شبہ قرآنی فیصلہ﴿اِنَّہُ کَانَ ظَلُوْماً جَہُوْلاً ﴾ کے مطابق انسان بڑا ہی ظالم اورجاہل ہے۔ جاہل تو اتنا کہ خود اپنی حقیقت اورذمہ دار یوں کو معلوم نہ کرسکا اورظالم ایسا کہ دوسروں کے عیوب ونقائص؛ حتیٰ کہ شہتیروں کی تلاش میں ایڑی چوٹی کا سارا زور صرف کرنے لگا۔جب تک دوسرے کی نقاب کشائی اور راز ہائے حیات سے پردہ نہیں اٹھالیتا ہے ،اس وقت تک بے چینی کا شکار رہتا ہے،اس کی سکون کی دنیاپُرسکون ہونے کے بجائے بے سکون اوردرہم برہم رہتی ہے ۔ جب کہ یہ دونوں کیفیتیں اس کی دنیا و آخرت ہر دو کے لیے تباہ کن اورقابل ِمواخذہ ہے، کیوں کہ انسان کو خود اس کی ذات و شخصیت کے متعلق اللہ کا صاف حکم ہے:
﴿یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ ﴾
کہ اے ایمان والو! اپنی فکر کرو۔دوسرے کی گمراہی تمہارے لیے مضر نہیں ہوسکتی ، جب کہ تم راہ پر قائم رہو ۔
ٍساری دنیاکی خبر،اپنے جہاں سے بے خبر:
معلوم ہوا کہ انسان کے ذمہ سب سے اولین کام اپنی حقیقت کوپہچاننااورپھراپنی ذمہ داریوں کو جاننا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ اصلاح کا آغاز اپنی ذات و شخصیت سے کیا جائے اور اپنے ہرطرح کے عیب و نقص کو درست کرنا اور اپنی ذات کو عبادات ومعاشرت اور اخلاقیات ومعاملات میں قابل ِرشک اور بہتر سے بہترین بنانے میں لگائے رکھنا ہے۔ اور انسان جب اس فریضہ کو انجام دے گا تو پھر دوسروں کے عیوب و نقائص کی پردہ فاشی جیسے عظیم جرم وظلم سے خود ہی محفوظ ہوجائے گا۔ اس لیے کہ اس کو پہلی ذمہ داری؛یعنی اپنی نوک وپلک سنوارنے اوراپنے بگاڑ کی اصلاح سے ہی اتنی فرصت نہیں ملے گی۔لیکن اس وقت کا عمومی مرض اور بڑا المیہ”اپنے سے بے خبر اورسارے جہاں کی فکر“ والا ہے۔ دوسرے کی نجی زندگی کو ٹٹولنے اور اس کے اندرونی حالات کو آشکارا کرنے اور انہیں اسکرین پرچلانا اس وقت کا اہم ترین مشغلہ ،بل کہ تجارت اورشان داربزنس بن چکا ہے۔جو لوگ اینکرس ہیں اور مختلف چینل چلاتے ہیں، وہ تو اس میں براہ راست ملوث اور پورے مجرم ہیں۔ البتہ جو لوگ اُن جھوٹے رپورٹروں کو سنتے ، دیکھتے اورہر رطب و یابس کو صحیح بل کہ کار ِثواب اوردینی وملی فریضہ سمجھ کر شیئر کرتے اور پھیلاتے ہیں ،وہ یقینا پہلے مجرموں سے کم نہیں ہیں، بل کہ یہ دوسرے صاحب دُگناجرم کے مرتکب ہیں۔ایک توبے بنیاداورغلط بات کو پھیلانے کے ۔دوسرے جھوٹے اور فحش باتوں کو پھیلانے والوں کاساتھ دینے کے؛ جب کہ قرآن کریم میں ایسے مجرموں کے لیے سخت عذاب کاانتباہ اور وعید موجود ہے :
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔﴾
”یقینا جو لوگ اہل ایمان کے اندر بے حیائی کو پھیلانے کے خواہشمند ہیں، ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔“
ایک باحوصلہ خاتون:
ابھی گذشتہ چندہی دنوں کی بات ہے کہ ہماری ایک بہن نے اپنے تاریک ماضی کو نفس پر پتھررکھ کر؛بل کہ تمام محبوبات کی قربانی دے کر،اپنی تمناوٴں کاخون کرکے اوراسے حسرتوں کے قبرستان میں دفنا کراسلامی اصول کے مطابق باحیااورباپردہ زندگی گذارنے کاعزم وارادہ کیا۔اس نیک وپاک ارادہ پر استقامت کے لیے اس نے ایک عالم دین اوردین دارشخصیت کواپناحاکم اورسرتاج بنایا،توپتانہیں کہ لوگوں کے پیٹ میں مروڑاورسرمیں دردکیوں ہونے لگا؟ٹی وی اینکروں کوتومعاف ہی کردیجیے۔ عام لوگوں نے بھی یوٹیوب پران کی ذاتی زندگی کوپھیلانے اوربالخصوص اس کے نامناسب؛ بل کہ ناقابل بیان ماضی کوکریدکرید کر دہرانے میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔ اوراسے ان کی پچھلی زندگی کے طعنے دے کرشرمندہ اورشرمسارکرنے کی نامعقول اورایسی گھناوٴنی حرکتیں کیں کہ جس سے خوداُسے اوراس کے متعلقین کوٹھیس پہنچی۔اوراکابرین امت کواس کی صفائی میں وضاحت دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
ہمارے اخلاق کی سطح:
افسوس!آج ہماری اخلاقی سطح اوربگاڑکاگراف اس قدرنیچاہوگیااوراتناگرچکاہے کہ صحیح اورغلط کی تمیز نہیں کرسکتے ،اچھے اور برے کی پہچان نہ رہی اورکھرے کھوٹے کی تمیز سے بھی ہم محروم ہوتے چلے جارہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کوئی ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اُن کی کم لباس اور عریاں تصویریں پیش کر رہا ہے، تو کوئی فلمی اسٹاروں سے ملاقات ولقاء کے مناظرچلارہاہے۔
ہوناتویہ چاہیے تھا:
کہ جس خاتون نے ایک چمک دار،آنکھوں کوچکاچونداورخیرہ کرنے والی دنیا،جہاں کے پیسوں کی ریل پیل،شہرت کی بہتات،آرام دہ سواریوں کی قطار،ملک وبیرون کے حسین ترین مناظرکی سیروتفریح ،دنیا کے مختلف خطوں کے مہنگے ترین ہوٹلوں کے لذیذکھانے اورہرطرح کے آرام وراحت کوٹھوکرماردیا اوربڑے ہی حوصلوں اورجگرکے ساتھ سادہ زندگی اوراسلامی پابندیوں کوگلے کازیوربناکرجیناطے کیا؛اُسے ہرطرف سے مبارک بادی کی سوغات پیش کی جاتیں،اس کی ہمت اورچٹانی حوصلوں کوسلام پیش کیاجاتا،اس کے قدموں میں دعاوٴں اور محبتوں کے پھول نچھاورکیے جاتے اوربارگاہِ رب العزت میں اس کے لیے استقامت کی دعائیں مانگی جاتیں۔اوران سب سے بڑھ کراُس کی اِس عظیم قربانی اورقابل ِتقلیدعمل سے اپنی زندگی کے لیے عبرت اورسبق حاصل کیاجاتا۔وہ اس طرح کہ جب ایک خاتون اپنے نفس وخواہشات کی غلامی کی زنجیرتوڑسکتی ہے اور دنیاکی تمام آسائش کوچھوڑسکتی ہے توپھرہم اپنے گناہوں اورخطاوٴں کی دنیاسے باہرنکل کریادِ الٰہی، معرفت ربانی اورذکروفکروالی زندگی کی طرف کیوں نہیںآ سکتے؟ہم بھی اپنی مرغوبات ومحبوبات کوچھوڑ کررب کی پسندیدہ زندگی گذارکرمولیٰ کوراضی کرسکتے ہیں ۔
ہماراکام منکرات پربندباندھناہے:
یادرہے کہ ہماراکام پردہ پوشی ہے پردہ فاشی نہیں۔سترپوشی ہماری شرعی اوراخلاقی ذمہ داری ہے نا کہ سترفاشی۔حدیث مبارکہ میں اس پربڑے انعام کاوعدہ ہے:”مَنْ سَتَرَمُسْلِماً سَتَرَہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ“کہ جوکسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے؛یعنی اس کے کسی عیب کوچھپائے گاتوبروزقیامت اللہ اس کے عیبوں پرپردہ ڈالیں گے۔یعنی اس کورسوائی سے محفوظ رکھیں گے۔بہ حیثیت امت ِدعوت ہماراکام فواحش ومنکرات کوروکنا اور ان پربندش لگاناہے ۔ان کوپھیلانااورپھیلانے والوں کاساتھ دینااوران کی حوصلہ افزائی کرنانہیں ہے ۔
بدگمانی مت کرو:
یاد رہے کہ ہم اپنی اوراپنے ماتحتوں کی زندگی کے ذمہ داراورمسئول ہیں۔”کُلُّکُمْ رَاعٍی وَکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہ“بہ ظاہراگرکوئی دوسراشخص براہے،گنہ گارہے اوربڑے چھوٹے گناہوں میں قیدہے تواگراپنے بس میں ہوتواُس کومحبت وحکمت سے سمجھایاجاسکتاہے ، لیکن اس سے بدگمانی اوربدسلوکی نہیں کی جاسکتی ہے ۔اس پرلعن طعن نہیں کیاجاسکتاہے،اس پرطنزکے تیرنہیں پھینکے جاسکتے ہیں۔کیوں کہ حدیث پاک میں فرمایا گیاہے: ”ظُنُّوْا بِالْمُوْمِنِیْنَ خَیْرًا“کہ اہل ایمان کے ساتھ حسن ِظن اوراچھاگمان قائم رکھو۔تمھیں بدگمانی کی اجازت نہیں ہے ۔ قرآن کریم میں بھی ایمان والوں کومخاطب کرکے فرمایاگیاہے:
﴿یٰاَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا﴾
کہ بہت سی بدگمانیاں گناہوں کی فہرست میں شامل ہوتی ہیں۔
یہ بھی صدقہ ہے:
اب اگرکسی کاعمل اوراس کاکرداربُراہے تواس کی نگہ بانی اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں،جوسزاوجزاکامالک ہے ۔وہ مالک ومختارہے۔چاہے تواس کومجرم کے کٹہرے میں کھڑاکرے یاچاہے توہاتھ میں معافی کاپروانہ تھما دے ۔﴿اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْلَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُالرَّحِیْمُ﴾لیکن ہم نے اگراس سے بدگمانی کی وجہ سے براسلوک کیا،اس کوحقیروغلط سمجھاتوہماری پکڑمیں کوئی شک نہیں۔اورہمارا سزاسے دوچارہونابھی یقینی ہے ،اس لیے کہ تنہائی میں ہربندے کواللہ تعالیٰ دیکھتاہے اوردل کے احوال وکوائف سے وہی باخبرہے۔ دل بیت اللہ ہے اور اللہ کے اختیار میں ہے ، ایک بہت ملتا جلتا واقعہ حضرت مولانا طارق جمیل کے حوالہ سے سپرد قرطاس کررہا ہوں:
فرماتے ہیں کہ: ”جب انڈیا پاکستان ایک تھے، ممبئی میں ایک اداکارہ تھی جس کا نام مہر النساء تھا، شوٹنگ کے دوران ہندو ڈاریکٹر نے اس سے کہا کہ تمہارا نام لمباہے ، کوئی فلمی نام رکھ لو، اس نے پوچھا کہ کیا نام رکھوں ؟ ڈاریکٹر نے کہا عائشہ ، تو مہرالنساء ادا کارہ نے اپنی جوتی نکال کر ڈاریکٹر کو مار مار کر توڑ دی اور پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا ، پہلے ہی اپنے کاموں کی وجہ سے آخرت برباد ہے اب ایک پاک نام عائشہ کو بدنام کیسے کروں! اس کے بعد فلم انڈسٹری سے ایسے جدا ہوئی کہ پھر کسی نے اس کی شکل نہ دیکھی، اللہ تعالیٰ نے پاک نام کے احترام میں تو بہٴ نصوح عطا فرمادی۔“ یہ ہے دل میں اللہ ورسول کی محبت اور نیک لوگوں کی عظمت ۔ ایک صحابی عادت سے مجبور ہر دو چار دن میں کوڑے کی سزا سے دو چار ہوئے تھے، ایک دن ایک صحابی نے کہہ دیا کتنا بد بخت ہے ، ہمیشہ کوڑے کھاتا رہتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا تو فرمایا اسے برا نہ کہو میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے۔
نیزہماری شریعت میں توتسلی اورحوصلہ افزائی کے لیے دوبول بھی صدقہ ہے ۔اورپھراسلام توگرتوں کواٹھانے ہی کے لیے آیاہے ،دوسروں کوگرانے کے لیے نہیں۔ لہٰذا اگر ہمارے تنقیدی مضامین،واٹس ایپ اورفیس بک پرمختلف نازیبااورغیرمناسب تبصروں نے اس کے قدموں کولڑکھڑادیاتواس کاخمیازہ اوربھگتان کس قدرخطرناک اوربڑاہوگا؟ایسی دل آزارتحریریں شیئرکرتے ہوئے ذراہمارے لیے اس کااحساس کرنابھی ضروری ہے ۔جب کہ ایسے لوگ ؛جنھیں قربانیوں کے بعدکوئی نعمت ہاتھ لگی ہو،ان کاحال اوراس نعمت کی قدردانی ہم جیسے پرانے لکیرکے فقیراورمفت میں ملی نعمت کے ناقدروں سے بہت اچھااوربہترہوتاہے ۔مستقبل میں ایسے ہی لوگ دین واسلام کے لیے بہت مفیداورنافع ثابت ہوتے ہیں۔کیوں کہ وہ شروگندگی کی بے چین اورغیرمطمئن زندگی اوراس کے سارے نقشوں کودیکھ اورسمجھ کرآئے ہوتے ہیں۔وہ اس کی خرابیوں اورگندگیوں، بل کہ اس کے بھیانک نتائج سے دوسرے معصوموں اورنابلدلوگوں کوواقف کراسکتے ہیں۔ان کی باتوں میں وہ تاثیربھی ہوتی ہے،جوناآشنالوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہو۔توایسے قیمتی لوگ نہ جانے کتنے ایسے مردوں اورعورتوں کی زندگی کوبربادہونے سے بچاسکتے ہیں،جودنیاوی چمک دمک اورحسن وجمال سے ہمیشہ متاثر؛بل کہ اس کوپانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
سنبھلنے اورجمنے کا موقع دیجیے:
اس لیے ہمارافریضہ ایسے لوگوں کواپنی محنت کامیدان بناناہے،جواس طرح کی گندگی اورگناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ان کوحکمت ومحبت کے ساتھ اسلامی اقداراورتعلیماتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روشناس کراناہے ۔اوراسی کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جواللہ کی توفیق اوراس کی دست گیری کی وجہ سے اور بے حدقربانیوں کے بعدراہ حق کوسمجھا اورپھر اسلام کی پٹری پرآیا،انھیں سنبھلنے،سدھرنے اورجمنے کا بھرپور موقع دیناہے ۔اورنظام فطرت بھی اسی کی دعوت دیتاہے کہ چاہے اپنی اصلاح کامرحلہ ہویادوسروں کی ، اس میں دوام اورتدریج ؛یعنی پابندی اورآہستگی کوملحوظ رکھنابے حدضروری ہے۔حدیث پاک میں مربیٴ کائنات حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:”خَیْرُالْعَمَلِ مَادِیْمَ عَلَیْہِ وَاِنْ قَلَّ“کہ بہترین عمل وہ ہے جوہمیشگی اورپابندی کے ساتھ ہواگرچہ مقدارمیں کم ہو۔
ہماری رفعتوں کازینہ:
لہٰذاہمیں ذرہ نوازی،حوصلہ افزائی اورحسن ِظن جیسی اعلیٰ اقداراورعادات کواپناناہے ،جوہمارے لیے بھی عزتوں اورکام یابی کازینہ ہے ۔ساتھ ہی دوسروں کے لیے آگے بڑھنے اورپھلنے پھولنے کاعظیم سرمایہ ہے تاکہ ہمیں دنیامیں بھی نیک نامی ملے اورآخرت میں سرخ روئی ہمارامقدربنے ۔اللہ ہمیں خوب سے خوب ترعمل کی توفیق بخشے اور تائبہ خاتون کواسلامی روایات پراستقامت ودوام عطافرمائے۔آمین!