مولانا الطاف حسین اشاعتی کشمیری /استاذ جامعہ اکل کوا
ہروہ خوش بخت ، سعادت مند صاحب ایمان شخص جسے حالتِ ایمان میں خاتم النّبیین، امام المرسلین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوااورحالتِ ایمان پر ہی وفات پائی۔اسے’’صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘کے معززومحترم اور لائق صد تکریم لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔اور یہ ایساخداداد اور مخصوص مقام ومرتبہ ہے، جسے دنیابھر کے اولیا ،اصفیا واتقیا مل کر زندگی بھر کی عبادات اور مجاہدات سے بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ قرآن کریم نے مختلف اندازِ بیان اور متعدد سیاق وسباق میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایسی مدح سرائی اور وصف بیانی کی ہے کہ اگر صرف قرآن کریم کو ہی پیشِ نظر رکھا جائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت وکردار،ان کے ظاہری وباطنی محاسن ومحامد،ان کی للّٰہیت ومقبولیت،ان کے زہد وتقوی،ان کی شجاعت وبہادری، ان کی جود وسخا،ان کی جہاں گیری وجہانبانی اور ان کی دعوت وجہاد، الغرض ان کے ہمہ جہتی کمالات کی وضاحت کے لیے کافی وشافی ہے۔مزید برآں احادیثِ مبارکہ ان کے فضائل ومناقب، ان کے ایثار وقربانی اور ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں ان کی جاں نثاری وجانفشانی اور محبت وتوقیر کی حسین ودلکش روداد سے لبریز ہیں۔اور کتاب وسنت ہی ان کی عظمتوں اور رفعتوں کو پہچاننے کا معیار اور کسوٹی ہیں۔ تاریخی روایات کا سہارا لے کر صحابہ کرام پر کی جانے والی کسی بھی قسم کی تنقیدوتنقیص ہرگز قابل قبول نہیںہوسکتی؛بل کہ ایسی ناپاک کوششوں کو کتاب وسنت کی حججِ قاطعہ اور براہینِ ساطعہ کے ذریعے سبوتاژ کردیا جانا لازم ہے۔ اہل سنت و الجماعت نے ہمیشہ صحابہ کرام کی عزت وناموس کی پاسداری کی اور ہرمحاذ پر ان کا دفاع کیا۔ علماو فقہا، محدثین و صوفیا، شعرا ومصنفین؛ ہر ایک طبقے نے ان کے حق کو پہچانا اور ہر رافضی وخارجی کے طعن وتشنیع اور سب وشتم کے مقابلے میں اُن کا مقدور بھر دفاع کیا۔اور ان کے مقام ومرتبہ کو ہر دور میں ہر مقام پر واشگاف کیا،ان نفوس قدسیہ کے فضائل ومناقب اور صفات وکمالات کے لیے قرآنی شہادتوں کے بعد کچھ مزید خامہ فرسائی کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ تاہم شیدایان صحابہ کرام نے اپنے شاہوں کی مدح سرائی میں عقیدت ومحبت کے جو پھول نچھاور کیے ہیں وہ بھی بہت خوب صورت وخوش نما ہیں۔ان سے اعتنا بھی دلوں میں حبِّ صحابہ کے ولولے کو انگیز کرتا ہے،اس موقع پر جب آپ کا مؤقر ماہنامہ ’’شاہراہ علم ‘‘ صحابہ کرام کے بارے میں قارئین کی خدمت عالیہ میںخصوصی نمبر پیش کرنے جارہا ہے ؛ میں چاہتا ہوں کہ قارئین ’’شاہراہ علم ‘‘کی خدمت میں اردو زبان کے عظیم شعرا کے کلام کا کچھ حصہ پیش کروں، جس میں انہوں نے بڑی عقیدت ومحبت کے ساتھ صحابۂ کرام کے بعض نمایاں اور بے مثال کارناموںاور اوصاف ومناقب کو بہت ہی شان دار خراج تحسین پیش کیا ہے۔
اسلام کے عظیم اور نامور سپوت شاعر مشرق علامہ اقبال رحمہ اللہ کے کلام میں سے کچھ سنہرے قطعات ملاحظہ فرمائیں۔
سب سے پہلے(’’بانگ درا ‘‘ حصہ سوم) کے ان ولولہ انگیز اشعارکا مطالعہ اور تصور کرتے ہیںکہ صحابہ کرام اور تابعین کے تئیں اقبال رحمہ اللہ کے قلبی جذبات کا۔
دل ہمارے یادِ عہدِ رفتہ سے خالی نہیں
اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں
اشکباری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در
گریہ پیہم سے بینا ہے ہماری چشمِ تر
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدہ گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
اپنے شاہوں اور’’ گزرے ہوئے طوفان‘‘(رحمت)صحابہ کرام اور ان کے متبعین کے سوا اور کون ہیں؟
بانگ درا ’’خطاب بہ جوانانِ اسلام‘‘ میں نوجوان مسلمانوں کودعوت فکر دیتے ہوئے صحابہ کرام ؓکی عظمت کو بہت اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے، ملاحظہ ہو۔
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا
تمدّن آفریں ، خلاّقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا
سماں ’’الفقْرَ فَخرْی‘‘ کا رہا شانِ امارت میں
’’بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت رُوے زیبا را‘‘
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ مُنعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاںگیر و جہاںدار و جہاںبان و جہاںآرا
علامہ اقبالؒ نے اس نظم میں بہت ہی خوب صورت پیرائے میں صحابہ کرام کی متعدد خصال حمیدہ کو بیان فرمایا اور اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ صحابہ کرام تہذیب وتمدن،ایثار واستغنا، عدل وانصاف اور غیرت وخودداری کے نیرِتاباںہی نہیں تھے، بل کہ دنیا کی سیادت وقیادت کو فخر وناز تھا، جب اس کی باگ ڈورصحابہ کے مقدس ہاتھوں میں تھی۔
علامہ اقبال ’’بال جبریل‘‘میں حق تعالیٰ کی بارگاہِ صمدیت میں صحابہ کرام کے اوصافِ حمیدہ سے متصف ہونے کی دعا مانگ رہے ہیں۔
عطا اسلاف کا جذب دروں کر
شریک زمرۂ لا یحزنوں کر
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
علامہ اقبال رحمہ اللہ لفظ ’’اسلاف ‘‘ سے بالعموم تمام اخیار وعباقرۂ امت اور بالخصوص صحابہ کرام کو مراد لیتے ہیں۔صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ نمایاں خصوصیت تھی کہ ان کاظاہرسادگی سے پر اور تصنع سے نہایت دور، باطن بے حد مصفی ومجلیٰ اور صاف وشفاف تھا۔انہیں اپنے مقصد میں انہماک اور لایعنی مباحث سے پرہیز حاصل تھا اور یہ ان کی سیرت وکردار کے بہت تابناک پہلو ہیں۔
’’شکوہ‘‘ کا مندرجہ ذیل بند ملاحظہ فرمائیں، جس میں مسلمانوں کی غیرت وحمیت کو جھنجھوڑتے ہوئے، پھر صحابہ کرام کے اوصاف کی مثال لے آئے ہیں۔
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو ؟ یہ انداز مسلمانی ہے ؟
حیدریؓ فقر ہے ، نہ دولت عثمانیؓ ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے ؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اقبال رحمہ اللہ اتباع صحابہؓ پر زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ صحابہ کرام امت کے لیے بہترین نمونہ اور آئیڈیل ہیں؛ کیوں کہ ان نفوس قدسیہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی زندگیاں ہر شک و شبہ سے بالا اور تقویٰ وطہارت سے عبارت تھیں۔ یہی وہ ہستیاں تھیں، جنہوں نے اپنے گفتار و کردار، معاملات و عبادات اور دعوت و جہاد کے ذریعے اسلام کا سکہ ساری دنیا میں بٹھا دیا۔
صحابہؓ ہی وہ مبارک ہستیاں تھیں، جو نجومِ ہدایت قرار پائیںاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان تعلق جوڑنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔
اقبال کے نزدیک ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بازیابی اور اتحاد و یگانگت کا حصول انہی پاکباز اسلاف کی اتباع پر موقوف ہے۔
علامہ اقبال کی ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘دونوں ہی نظمیں ذکر صحابہؓ سے پر ہیں؛بل کہ اگر یوں کہا جائے کہ ’’شکوہ‘‘ صحابہ کی قربانیوں کا خاکہ پیش کرتی ہے اور ’’جواب شکوہ‘‘ سے اسوۂ صحابہؓ پر عمل کی ترغیب ملتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔’’ شکوہ‘‘ کے کچھ بند پیش خدمت ہیں۔
دین اسلام کے فروغ اورکلمۂ حق کی سربلندی کے لیے صحابہ نے کیا کارنامے انجام دئیے؟ ملاحظہ فرمائیں:
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر ، کہیں معبود شجر
خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیوںکر؟
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام تیرا؟
قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام تیرا؟
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریاؤں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی؟
اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی؟
کس کی شمشیرِ جہانگیر ، جہاں دار ہوئی؟
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی؟
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے!
منہ کے بل گرکے قل ہواللہ أَحَد کہتے تھے؟
کلمہ حق کی سربلندی کے لیے صحابہ کرام طاغوتی طاقتوں سے جس طرح ٹکرائے، اقبال نے ان واقعات کا ذکر بھی کیا ہے۔اس سلسلے میں ایک واقعہ ’’خیبر‘‘ کے قلعہ کا بیان کیاہے ،جو یہود کا خاص علاقہ تھا۔ اس کے علاوہ دیار قیصر (قسطنطنیہ)کا ذکر کیا ہے، جس پر حملوں کا آغاز سیدنا امیرمعاویہؓ کے دور میں ہوا۔(وہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ )
سِکھایا ساری دنیا کو جہاں بانی کا ڈھنگ اس نے
بنایا پانیوں کو بارہا میدانِ جنگ اس نے)
اسی طرح ایران جس کی فتح سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں ہوئی، یہ سب صحابہؓ کی شجاعت واولوالعزمی کی روشن مثالیں ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:
تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے؟
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے؟
کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے؟
کس نے ٹھنڈا کیا آتش کدۂ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرہ یزداں کو؟
علامہ اقبال نے اپنے کلام میں کبھی تو نام بنام متعدد صحابہ کرام اور ان کی نمایا صفات وکمالات کا ذکر کیا ہے اور کبھی تمام صحابہ کی عمومی صفات حمیدہ اور خصالِ پسندیدہ کاِ۔چناںچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ایثار وفدائیت اور اپنے تمام مال وزر کو راہ خدا میں لٹانے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اتنے میں وہ رفیقِ نبوت بھی آگیا
جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار
لے آیا اپنے ساتھ وہ مردِ وفا سرشت
ہر چیز،جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار
بولے حضور چاہیے فکر عیال بھی
کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار
اے تجھ سے دیدہ مہ و انجم فروغ گیر
اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس!
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
جہاں اقبال سوزِ دروں کی دعا مانگتے ہیں تو خود ہی بطورِ مثال سوزِ صدیقیؓ کابھی ذکر کرتے ہیں:
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دل مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
دنیا سے ظلم واستبداد کا خاتمہ اور عدل وانصاف کا بول بالا کرنے کا سہرہ صحابہ کرامؓ کے سر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مٹایا قیصر وکسری کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زورحیدر، فقر بوذر، صدق سلمانی
شجاعت، استغنا اور صداقت کی یہ صفات گراں مایہ فرق مراتب کے ساتھ تمام صحابہ کرام کا قدر مشترک ہیں۔
دنیا کے منصب امامت پر فائز ہونے کے لیے بھی اقبال نے حضرات خلفائے راشدین کی صفات عالیہ سے متصف ہونے کو لابدی قرار دیا ہے۔
اقبال رحمہ اللہ کے اشارے کو سمجھیں!
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا،شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
حبَش سے تجھ کو اُٹھا کر حجاز میں لایا
ہُوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
وہ آستاں نہ چھُٹا تجھ سے ایک دم کے لیے
کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
نظر تھی صورتِ سلماںؓ ادا شناس تری
شرابِ دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
خوشا وہ وقت کہ یثرِب مقام تھا اس کا
خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا
غور فرمائیں کس طرح عقیدت ومحبت کے پھول حضرت بلال پرنچھاور ہورہے ہیں۔ ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق ومحبت اور جاں نثاری کا کچھ ایسا ہی تعلق دوسرے پروانوں کو بھی تھا۔
اقبال امت مسلمہ کو اپنی زبوں حالی اور ذلت وخواری سے نکلنے کاایک ہی راستہ بتاتے ہیں۔ اور وہ ہے قول وفعل میں صحابہ کی اتباع اور پیروی:
تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
خواجہ الطاف حسین حالی رحمہ اللہ نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’مد وجزر اسلام ‘‘ المعروف بہ ’’مسدس حالی ‘‘ میں صحابہ کرام کے خصائص وکمالات اور ان کی گوناگوں خوبیوں کا بہت حسین پیرائے میں تذکرہ کرکے امت مسلمہ کو خواب گراں سے بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔’’ مسدس حالی ‘‘ کے یہ بند ملاحظہ فرمائیں،جن میں صحابہ کے پاکیزہ معاشرے کی بولتی ہوئی تصویر کھینچی گئی ہے۔یہ تصویر مبنی بر حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی دلکش اور دل آویز ہے کہ اسے پوری نسل انسانی کے وسیع اور ضخیم مرقع میں پیغمبروں کی سیرت و تاریخ کے بعد سب سے پہلی اور اونچی جگہ دینی چاہئے۔مولانا حالی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
اتمام نعمت اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے رحلت:
جب امت کو سب مل چکی حق کی نعمت
ادا کر چکی فرض اپنا رسالت
رہی حق پہ باقی نہ بندوں کی حجت
نبی نے کیا خلق سے قصدِ رحلت
تو اسلام کی وارث اک قوم چھوڑی
کہ دنیا میں جس کی مثالیں ہیں تھوڑی
اسلام کے سچے وارث صحابہ کی صفات:
سب اسلام کے حکم بردار بندے
سب اسلامیوں کے مددگار بندے
خدا اور نبی کے وفادار بندے
یتیموں کے رانڈوں کے غم خوار بندے
رہ کفر و باطل سے بے زار بندے
نشہ میں مئے حق کے سرشار بندے
صحابہ کے عظیم کارنامے:
جہالت کی رسمیں مٹا دینے والے
کہانت کی بنیاد ڈھا دینے والے
سر احکام دیں پر جھکا دینے والے
خدا کے لیے گھر لٹا دینے والے
ہر آفت میں سینہ سپر کرنے والے
فقط ایک اللہ سے ڈرنے والے
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی مشاجرات مبنی بر اخلاص تھے:
اگر اختلاف ان میں باہم دگر تھا
تو بالکل مدار اس کا اخلاص پر تھا
جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شر تھا
خلاف آشتی سے خوش آیند تر تھا
یہ تھی موج پہلی اس آزادگی کی
ہرا جس سے ہونے کو تھا باغ گیتی
دیکھیں حالی رحمہ اللہ نے کس اچھوتے انداز میں بڑے ادب کے ساتھ صحابہ کرام کے درمیان وقوع پذیر ہونے والے مشاجرات واختلافات کو بیان فرمایا اور اس کا مبنی بر اخلاص اور نفسانیت وتعصب سے پاک ہونا بھی واضح کردیا۔بہت سے لوگ صحابہ کرام کے باہمی اختلاف سے نالاں رہتے ہیں اور کہتے ہیں: کیا ایسے پاکباز اورخدارسیدہ لوگوں میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے؟ تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اختلاف کا ہونا کوئی بری بات نہیں بشرطیکہ وہ مبنی بر اخلاص اور ہر ایک کا مطمح نظر تلاش حق اور رضائے رب تعالیٰ ہو۔اختلاف دوہی صورتوں میں ختم ہوسکتا ہے۔ یاتو سب بے دین ہوجائیں یا سب بے عقل ہوجائیں۔اور یہ ممکن نہیں،تواختلاف کا ہونا بھی فطری ہے، بل کہ ہمیں تو صحابہ کرام سے ’’ادبِ خلاف ‘‘ بھی سیکھنا چاہیے۔
صحابہ کرام تکلفات سے بہت دور تھے:
نہ کھانوں میں تھی واں تکلف کی کلفت
نہ پوشش سے مقصود تھی زیب وزینت
امیر اور لشکر کی تھی ایک صورت
فقیر اور غنی سب کی تھی ایک حالت
لگایا تھا مالی نے اک باغ ا یسا
نہ تھا جس میں چھوٹا بڑا کوئی پودا
صحابہ کرام صفت تواضع کے بام عروج پر تھے اور یہ ان کی للہیت کی بین دلیل ہے:
خلیفہ تھے امت کے ایسے نگہباں
ہو گلے کا جیسے نگہبان چوپاں
سمجھتے تھے ذمی و مسلم کو یکساں
نہ تھا عبد و حر میں تفاوت نمایاں
کنیز اور بانو تھیں آپس میں ایسی
زمانہ میں ماجائی بہنیں ہوں جیسی
صحابہ از فرق تاقدم تابع شریعت تھے:
رہ حق میں تھی دوڑ اور بھاگ ان کی
فقط حق پہ تھی،جس تھی لاگ ان کی
بھڑکتی نہ تھی خود بخود آگ ان کی
شریعت کے قبضہ میں تھی باگ ان کی
جہاں کر دیا نرم نرما گئے وہ
جہاں کر دیا گرم گرما گئے وہ
صحابہ کرام انتہائی زیرک اور ذہین وفطین تھے:
کفایت جہاں چاہتے واں کفایت
سخاوت جہاں چاہتے واں سخاوت
جچی اور تلی دشمنی اور محبت
نہ بے وجہ الفت نہ بے وجہ نفرت
جھکاحق سے جوجھک گئے اس سے وہ بھی
رکا حق سے جورک گئے اس سے وہ بھی
حفیظ جالندھری رحمہ اللہ نے بھی ’’شاہنامہ اسلام ‘‘میں رک رک کے صحابہ کی عظمتوں اور ہادیٔ اکرم، پیغمبر اعظم علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ ان کی وفاداریوں اور قربانیوں کے قصیدے کہے ہیں، شاہنامہ کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں! (جن میں غزوہ بدر کو جاتے ہوئے، آپ علیہ السلام کا صحابہ سے مشورہ طلب کرنے اور ان کے قدم بقدم آپ علیہ السلام کا ساتھ دینے کے عہد وپیمان کا تذکرہ ہے۔)حضرات ِشیخین اورحضرت مقداد رضی اللہ عنہم نے مہاجرین کی ترجمانی کرتے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر تن من دھن کی بازی لگا دینے کی پیشکش فرمائی اور واضح لفظوں میں فرمایاکہ ہم اصحابِ موسیٰ علیہ السلام کی طرح نہیں، بل کہ ہم اصحاب محمد علیہ السلام اور اسلام کے وفادار سپاہی ہیں۔
حفیظ جالندھری منظر کشی فرماتے ہیں:
ابوبکر وعمر نے عرض کی اے ہادیٔ دوراں
ہمارے مال وجاں، اولاد،سب کچھ آپ پر قرباں
غلامانِ محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے، کچھ پرواہ نہیں کرتے
اٹھے مقداد اٹھ کر عرض کی اے سرورِ عالم
نہیں ہیں قوم موسیٰ کی طرح کہہ دینے والے ہم
کہا تھا اس نے اے موسیٰ ہمیں آرام کرنے دے
جہاں کی نعمتیں ملتی ہیں اُن سے پیٹ بھرنے دے
خدا کو ساتھ لے جا اور باطل سے لڑائی کر
ہمارے واسطے خود جا کے قسمت آزمائی کر
ہمیں کیوں ساتھ لے جاتا ہے دنیا سے اجڑنے کو
خدا اور اس کا موسیٰ ہی بہت کافی ہیں لڑنے کو
معاذ اللہ مثیلِ امت موسیٰ نہیں ہیں ہم
جہاں میں پیروانِ دینِ ختم المرسلیں ہیں ہم
ہمارافخر یہ ہے ہم غلامان محمد ہیں
ہمیں باطل کا ڈر کیا زیر دامان محمد ہیں
مسلماں کو ڈرا سکتے ہیں کب یہ نیزہ و خنجر
لڑیں گے سامنے ہوکر، عقب پر، دائیں بائیں پر
بزرگان مہاجر نے دکھائی جب توانائی
رسول اللہ نے سن کر، دعائے خیر فرمائی
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کے بعد سید انصار حضرت ابن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کچھ یوں تقریر فرمائی۔
صفِ انصار کی جانب اٹھیں آنکھیں نبوت کی
تو سعد ابن معاذ اٹھے، دکھائی شان جرات کی
ادب سے عرض کی ’’انصار ‘‘ہیں ہم یا رسول اللہ
غلام سیدابرار ہیں ہم، یارسول اللہ!
خدا نے ہم غریبوں پر عجب احسان فرمایا
کہ ختم المرسلین اس شہر میں تشریف لے آیا
جہاں میں اِس سے بڑھ کر کوئی عزت مل نہیں سکتی
کسی کو بھی ابدتک،اب یہ دولت مل نہیں سکتی
خدائے پاک کے فرمان پر ایمان لائے ہم
رسول اللہ پر، قرآن پر ایمان لائے ہم
تو کیا اب موت کے ڈر سے یہ دولت ہم گنوا دیں گے!
بُھلا دیں گے یہ احساں، بار ِلعنت سر پہ لادیں گے!
تعالی اللہ یہ شیوہ نہیں ہے باوفاؤں کا
پیا ہے دودھ ہم لوگوں نے غیرت دارماؤں کا
صداقت دیکھ کررکھا تھا اِن قدموں پہ سر ہم نے
کہ ماناآپ کو روشن دلائل دیکھ کرہم نے
قسم اللہ کی! جس نے نبی مبعوث فرمایا
سبھی کچھ پالیا، جس وقت ہم نے آپ کو پایا
گدائی آپ کے در کی ہماری پادشاہی ہے
ہمیں تو آپ کا ارشاد ہی، وحی الٰہی ہے
ہمیں میدان میں لے جائیے، یا شہر میں رکھیے
کسی سے صلح فرمائیے، یا جنگ کو کہیے
ہمارا فرض ہے، تعمیل کرنا رائے عالی کی
ہماری زندگی، تکمیل ہے ایمائے عالی کی
ہمارا مرنا جینا، آپ کے احکام پر ہوگا
کسی میدان میں ہو، خاتمہ اسلام پر ہوگا
اگر ارشاد ہو، بحر فنا میں کود جائیں ہم
ہلاکت خیز گرداب بلا میں کود جائیں ہم
نبی کا حکم ہو، تو پھاند جائیں ہم سمندر میں
جہاں کومحو کردیں نعرۂ اللہ اکبر میں
قریش مکہ تو کیا چیز ہیں، دیوؤں سے لڑ جائیں
سنانِ نیزہ بن کر سینۂ باطل میں گڑجائیں
بزرگان مہاجرین وانصار کی مذکورہ بالا تقریروں سے جو جذبۂ ایمان وایقان اور وفاداری ووفاشعاری ہویدا ہے، یہی حال فرق مراتب کے ساتھ ہی تمام مہاجرین وانصاراورسابقین ولاحقین صحابہ کرام کا تھا۔
اب حضرت اقدس مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ کے ’’اثر خامہ ‘‘سے چند شہ پارے شان صحابہ کرام میں پیش کیے جاتے ہیں، سنیے اور عظمت صحابہ پرسر دھنیے۔
ہے نبوت ہر نبی کی حق مگر اس دور میں
سکۂ حضرت محمد مصطفیٰ کا ہے چلن
روشنی ہے ہر صحابی میں ہدایت کے لیے
جس قدر ابر نبوت جس پہ ہے سایہ فگن
ہردعا مقبول ہے ابن ابی وقاص کی
ہے معیت غار میں صدیق کو دفع الحزن
ابن یاسر فتنۂ شیطان سے محفوظ تھے
ہے عمر کے سامنے ملعون کا آنا کٹھن
ہے ملائک کو حیا عثمان ذی النورین سے
ہیں ختن ثانی علی مرتضیٰ خیبر شکن
اہل جنت بیبیوں کی سیدہ ہیں فاطمہ
نوجوانوں کے ہیں سید، شہ حسین اور شہ حسن
امہات المومنین ہیں لائق صد احترام
عائلی احکام جن سے حل ہوئے سر وعلن
صاحب نعلین وسجادہ، سواک ومطہرہ
ابن ام عبد پر ہے اعتماد مؤتمن
زید کاتب اور حذیفہ صاحبِ سرِّ رسول
دحیہ قاصداورمعاذ ابن جبل عدلِ یمن
ماہر قرآں ابیّ ہیں، بوعبیدہ ہیں امین
سیف خالد ہیں، اسد ہیں حمزہ مجروحِ تن
ہے عزیز آب بقا سے مصحف انور کی دید
کاش کہ اس کے لیے سب زیست بن جائے ثمن
روضہ اقدس پہ حاضر اور لب پر السّلام
یہ تصور قلب کو ہے مانع رنج ومِحَن
مفتی صاحب رحمہ اللہ کے اس قصیدے میں اجمالاً چند صحابہ کا تذکرہ ہے، جنہیں بارگاہ رسالت مآب علیہ السلام سے کچھ خاص تمغے اور اعزازات ملے۔ اور اس بات کی طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ ہر صحابی ہدایت کی روشنی کا حامل ہے، جس کسی کے نقش قدم پر بھی چلا جائے، ضرور منزل مقصود کوپایا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ کیا انصار کیا مہاجرین ؛سبھی نے سیدالاولین و الاخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑھ چڑھ کر خدمت واتباع کی اور اپنے اموال کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ کی راہ میں قربانیاں دیں اور غزوات میں شامل ہوئے.
کیا ہی اعلیٰ ہستیاں تھیں ،جن کو صحبت سیدالاولین و الاخرین صلی اللہ علیہ وسلم ملی اور پھر انہوں نے ساتھ بھی ایسا نبھایا کہ نہ ان جیسا کوئی پہلے آیا نہ ہی قیامت تک کوئی آئے گا۔
سیدالاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کے سبھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آسمان پر چمکتے ستاروں کی مانند ہیں۔ جس طرح آسمان پر کچھ ستارے دور دکھائی دیتے اور کچھ نزدیک، لیکن سبھی روشن اور نور لیے ہوئے ہیں، اسی طرح تمام کے تمام صحابہ نور وہدایت اور حق وصداقت کے چمکتے ستارے ہیں۔
آئیے اخیر میں جناب افضال صدیقی صاحب کے یہ اشعار گنگناتے اورپختہ عزم کرتے ہیں کہ ہمیشہ صحابہ کرام کی محبت وعظمت سے اپنے دلوں کو معمور رکھیں گے۔ تاریخ کے بے سند ،رطب ویابس اور من گھڑت حوالوں کی آڑ میں صحابہ کرام پر زبان درازی کرنے والے بدباطنوں کی زبان بند کریں گے۔ ان کے رکیک حملوں اور بیجا الزامات سے صحابہ کرام کی برأت ببانگ دہل بیان کریں گے۔ انہیں کی محبت والفت کے ساتھ حیات مستعار کے محدود لمحات بسر کریں گے اور اسی حالت میں اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کریں گے۔
گائیں گے شان صحابہ کے ترانے صبح وشام
ہم صحابہ کے سپاہی،ہم محمّد کے غلام
کوئی ہوسکتا نہیں آقا کے یاروں کی طرح
ان کے قدموں کے نشاں ہیں چاند تاروں کی طرح
ان کا ذکر پاک ہے تازہ بہاروں کی طرح
پاسداران شریعت وہ زمانے کے امام
گلشنِ اسلام کی زینت ہیں یہ رنگین پھول
ان سے راضی حق تعالیٰ ان سے راضی ہے رسول
مشعل راہِ ہدایت ان کے پاکیزہ اصول
ناز کرافضال تیرے دل میں ہے ان کا قیام
عشقِ توحید ورسالت ان کی پیاری زندگی
سرفروشی ، جاں نثاری ان کی ساری زندگی
کاش ان کی مثل ہوجائے ہماری زندگی
پھر سے اپنے ہاتھ آسکتی ہے دنیا کی زمام
رضي اللہ عنہم وأرضاہم،ووفقنا اتباعہم في القول والعمل،وجمعنا وإیاہم في دار کرامتہ و مستقر رحمۃ۔