وہ نہیں بھولتا،جدھر جاؤں

(سابق استاذ جامعہ اکل کوا مولانا ولی بستوی کی رحلت)

مولانا افتخار احمد قاسمی بستوی/استاذجامعہ اکل کوا

            اللہ رب العزت نے اس جہانِ رنگ و بو کو امتحان گاہ بنایا ہے ۔یہاں سے گزر کر اصل منزل پر پہنچنا ہے،دنیا کو آخرت کی تیاری کے لیے آماج گاہ سمجھنا چاہیے۔اس کو گزر گاہ ،قید خانہ اور مسافر آخرت کے لیے ایک پڑاؤ کی حیثیت ہی دینا چاہیے۔نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرکا کندھا تھام کر فرمایا تھا”کن فی الدنیا کانک غریب أو عابر سبیل“(ابن عمر)دیکھو! دنیا میں ایک مسافر کی مانند رہا کرویا ایسے رہو جیسے کوئی راستہ پار کرنے والا مسافر۔ اسی لیے حضرت ابن عمرلوگوں سے کہا کرتے تھے ”اذا امسیت فلاتنتظر الصباح و اذا اصبحت فلا تنتظر المساء ، وخذ من صحتک لمرضک و من حیاتک لموتک “ بخاری شریف(ص/۶۴۱۶)یہ حدیث و اثر موجود ہے جس میں حضرت ابن عمر نے فرمایا ہے کہ جب صبح کرو تو شام کا انتظار مت کرو اور جب شام آئے تو صبح کا انتظار نہ کرو،اور دیکھو ! بیماری آنے سے پیشتر صحت و تن درستی سے فائدہ اٹھا لواور موت کا کھیل شروع ہونے سے قبل زیست کے لمحات کی قدر کر لو۔

            آفرین ہے کہ ایسے بندگانِ خدا پر ؛جنھوں نے حقائق کو اپنی زیست کا مطمحِ نظر بنا لیا اور زندگی کی آخری سانس تک اپنے اوقات کی قدر کرتے رہے۔امام احمدسے آخری وقت میں بے ہوشی اور غنودگی کے عالم میں کسی نے کہا:احمد!تم کام یاب ہو گئے۔کہا ابھی نہیں،ابھی جب تک جان میں جان ہے ،اللہ و رسول کی اطاعت میں کام یابی ہے ،کسی اجنبی آواز پر یقین اہل دانش کا کام نہیں،یہ آواز شیطان کی تھی ،جو گمراہ کرنا چاہتا تھا۔

            اسی شیطانی ہتھکنڈے سے بچنے کے بجائے انسان کو اپنی موت تک ایسی صاف ستھری اورسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی زندگی گزارنا،جوجنت الفردوس میں داخلے کا سبب ظاہر ی بن جائے؛ جس سے مرضیٴ مولیٰ سرمدی طور پر حاصل ہو ۔

            انسان اپنی موت سے چاہے جتنا غافل ہو، اسے موت آدبوچے گی ۔جہاں بھی وہ بیٹھا ہو یا سو رہا ہو یا محفوظ محلوں اور آسائش کے بنگلوں میں دادِ عیش دے رہا ہو،اسے موت کا جام پینا ہی پڑے گا ﴿کل نفس ذائقة الموت ﴾اور ﴿کل من علیہا فان﴾کا نظارہ دور سے دیکھتے دیکھتے ’ان آیات کا خود ہی منظر و مظہر بننا پڑے گا۔

            اس دنیا میں کتنے لوگ آئے اور چلے گئے ،جن کے تقدس کی قسمیں کھائی جاتی تھیں اور جن کی مبارک جلووٴں سے رونقِ بزم سجائی جاتی تھی، انھیں بھی زمین نگل گئی۔بڑے بڑے آسمانِ علم و فضل کو زمین کھا گئی اور پتہ بھی نہ چلا ۔انھیںآ سمانِ علم و فضل اور شعر و ادب کے ایک تابندہ ستارے تھے ہمارے نہایت محتر م خیر خواہ و ہم وطن ، محب و مشفق جناب مولانا ولی اللہ ولی قاسمی بستوی ۔

            آپ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے سابق استاذتھے اور بے شمار شاگردوں کی انوکھی تربیت کرنے والے ایسے فردِ فرید تھے، جن کا ثانی ملنا محال نہیں تو متعسّر ضرور ہے ۔آج سے تقریبا ۳۰/سال پہلے ضلع بستی کے قدیم گاؤں” اونچہرہ “سنت کبیر نگر، میں عربی مدرسے میں عربی درجہ کے استاذ تھے اور رمضان شریف میں اسی مدرسے کے چندہ کے لیے نکلے تھے۔

            جامعہ اکل کو امیں پہلی ملاقات حضرت رئیس ِجامعہ مولانا غلام محمد وستانوی حفظہ اللہ سے اکل کوا ادارے میں اُسی مقام پر ہوئی ،جہاں ماضی میں کبھی ”آکل کادرخت “ہوا کرتا تھا۔حضرت رئیس جامعہ کی اسی مقام پر ”صفہ “ کی شکل میں ”نشست “تھی۔مولانا ولی اللہ ولی بستوی کی ملاقات اسی نشست گاہ پر ہوئی۔گفتگو کے بعد مولانا وستانوی حفظہ اللہ نے آمد کی غرض دریافت فرمائی تو مولانا ولی بستوینے بتایا کہ ”چندہ کی غرض سے آناہوا ہے“۔

            مولانا وستانوی صاحب حفظہ اللہ نے چند ے کے لیے رقم پیش فرمائی اور رسید لے کر ادارے کا نام بار بار پڑھتے رہے۔پھر مولانا ولی سے تنخواہ اور ماہانہ مشاہرہ دریافت کیا،آخر میں فرمانے لگے جامعہ اکل کوا میں ہی رک جائیے ،میں خود آپ کو پیش کش کرتا ہوں۔ قضا و قدر کہیے کہ مولانا ولی اللہ صاحب ولی بستوی نے ہامی بھر لی اور جامعہ اکل کوا کے مستقل مدرس بن گئے۔

            اس کے بعد حضرت وستانوی مدظلہ العالی کی جب کبھی کسی موقع پر کوئی بزم آرائی ہوتی یا کوئی نجی مجلس ہوتی یا مہمانوں کے ساتھ ہنسی کی محفل سجتی اور وہاں اتفاق سے مولانا ولی اللہ صاحببھی ہوتے تو حضرت وستانوی مدظلہ فرماتے ”مولانا ولی ،یہاں آئے تھے چندہ کرنے خود ہی چندہ کر لیے گئے“۔اِس پرمرحوم ہنستے اورآپ کی ہنسی بھی لاجواب ہوتی۔خدامغفرت کرے!

            مولانا مرحوم جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر کے اب با قاعدہ عربی درجات میں تدریس کے لیے مستقل استاذ کی حیثیت سے ہائی کمان کی جانب سے بلا کسی پیشگی انٹرویو،پلاننگ یارامش ورنگ کی محفل کے مدرس مقرر کیے جا چکے تھے۔

            حافظے پر زور دینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ زمانہ بیسویں صدی کی آخری دہائی کا ہے ،جب راقم سطور مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر دہلی میں انگریزی زبان و ادب کی تعلیمی تعمیر کے آب و گل کے مرحلے میں محو خرام تھا اور ۱۹۹۷ء میں ۱۷/مارچ کو جامعہ اکل کوا میں راقم کی تقرری کے بعد بندے کو خود مولانا مرحوم مولانا ولی بستوی کی زبانی یہ ساری تفصیلات معلوم ہوئی تھیں۔

سخاوت و دریادلی:

            مولانا ولی اللہ صاحب ولی بستوی جہاں بے شمار نمایاں خوبیوں اور قابل ِذکر خصوصیات کے مالک تھے وہیں ان کی دو خوبیاں تمام خصوصیات و صفات پر غالب تھیں۔ایک خوبی برجستہ شاعری کی اور دوسری خوبی سخاوت و دریا دلی کی۔

            مولانا موصوف سخاوت و دریا دلی میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ اللہ کی پناہ !اپنی رقم اور اپنی مملوکہ اشیا کو دوسروں پر نچھاور کرنا بھی انسان سے مشکل سے ہو پاتا ہے ،لیکن مولانا موصوف دریادلی کی اپنی خوبی کی وجہ سے اتنے مجبور تھے کہ رقم اپنے پاس نہ ہوتے ہوئے بھی صفت ِسخاوت کا مظاہر ہ ایسی فراخ دلی سے کرتے کہ کسی کو اندازہ لگانا مشکل تھا کہ حضرت مرحوم دوسروں کے مطالبوں کے بار سے دبے ہوئے ہیں اور کسی ملامت گر کی ملامت کا خیال کئے بغیر بس داد و دہش کی محفلیں سج رہی ہیں۔ اکابر و اصاغر کے لیے دعوتِ شیراز کا اہتمام ہے،کہیں کوئی بیمار ہے ،کسی کے چل چلاوٴکا وقت ہے کسی کو”جرس فریاد می دارد کی بر بندید محمل ہا“کی آواز یں مسلسل کانوں میں سنائی دے رہی ہیں اور حضرت ہیں کہ مالی استطاعت نہ ہوتے ہوئے بھی اس دکھیا کی مرہم پٹی کر رہے ہیں ،اپنے یہاں کھانا تیار کر کے اس کے دولت خانے پر بھیج رہے ہیں۔

            مولانا رفیق صاحب اعظمی سابق استاذ جامعہ اکل کوا اور راقمِ سطور ہم دونوں جب جامعہ اکل کوا تدریس کے لیے آئے تو یہی مولانا ولی اللہ ولی بستوی (جو اب آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہیں اور اب کبھی اِس زندگی میں دیدار نہیں ہوگا)سب سے پہلے محترم مفتی محمداسلم پرتابگڈھی سابق استاذجامعہ اکل کواکے ساتھ استقبال کے لیے ملے اور صاف کہہ دیا مولانا آپ دونوں حضرات میرے مہمان رہیں گے اور ایک دو دن کے لیے نہیں، ایک ماہ تک کے لیے آپ لوگ ہمارے مہمان رہیں گے ۔اب دیکھیے کیا کیا داد و دہش کے مناظر سامنے آ رہے ہیں ،کیا کیا جتن کیے جا رہے ہیں،کیسی کیسی ضیافتیں ہو رہی ہیں کہ ایک پیسہ ہم کو خرچ نہیں کرنے دے رہے ہیں۔لیکن مہمانی تو مشکل سے تین روز ہوا کرتی ہے، اس لیے طبیعت پر یہ انداز گراں بار معلوم ہو رہا تھا تو مفتی اسلم پرتاپگڈھی سابق استاذ جامعہ اکل کوا کے کام یاب مشورے سے نہایت خوش اسلوبی سے مولانا مرحوم سے ضیافت موقوف کرنے کی درخواست کی۔ تب کہیں جا کر باز آئے وہ بھی ناراضگی سے ، جس کا سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا۔

            مولانا رضی الرحمن قاسمی بستوی استاذ جامعہ اکل کوا کے ہمراہ زیارتِ حرمین شریفین کے لئے حجاز مقدس کے سفر پر بھی مولانا مرحوم گئے اور بہ عافیت واپس آئے،مکہ مدینہ کے سفر میں سخاوت و دریادلی کا گویا دریا بہ رہا تھا ،کتابوں میں ہے بھی کہ ساکنانِ حجاز مقدس پر اپنی کمائی کا معتد بہ حصہ اگر زیادہ مقدار میں خرچ ہو جائے تو اہل نصیب کا مقدر ہے،مکہ مدینہ کے بازاروں میں ضرورت کی اشیاکی خرید اری میں دل کھول کر خرچ کرنے والے مولانا ولی اللہ بستوی کا دریائے سخاوت گویا پورے جوش سے بہنے لگا اور اتنا جوش سے کہ بعض مرتبہ مولانا رضی الرحمن صاحب کو ٹوکنا پڑا ،لیکن واہ رے حاجی ولی اللہ مرحوم ۔آپ کہاں ماننے والے تھے ؟آپ کا بحر سخاوت تو آج اپنے محل میں موجزن تھا جسے دنیا کا کوئی فرد بشر نہیں روک سکتا تھا۔

طلبہ کے ساتھ شفقت و دریادلی:

            مولانا ولی بستوی کتابوں کی ذخیرہ اندوزی ،صفائی ستھرائی ،ذاتی جلد سازی اور فنون و آداب اور مختلف علوم و عناوین کی کتابوں کو مرتب انداز میں رکھنے کا خاصاذوق رکھتے تھے۔

            اپنے رہائشی مکان پر طلبہ کو جمعہ کے دن بلاتے ،جو وقت دیتے اس سے ذرا بھی انحراف کسی طالب علم کے لئے ممکن نہ تھا ۔نمازاوروعدے کے نہایت پابند ،اس پابندی پر نہایت خوش ہوتے اور پابندی کے خلاف کرنے پر وہ ”معکوسی شفقت“کا مظاہرہ قابلِ دید ہوتا ،جو طلبہ ان کی ”معکوسی شفقت“دیکھ چکے ہیں، وہ اپنی بزم آرائیوں میں جہاں بھی کہیں ہیں بڑے شوق سے بیان کرتے ہیں اور اب جب مولانا مرحوم نہیں ہیں تو مجھے گمان ہی نہیں یقین ہے کہ جب یہ سطریں وہ پڑھیں گے تو مولانا ولی بستوی کی ”معکوسی شفقت“ان کو ضرور یاد آجائے گی اور ان کی آنکھیں پر نم ضرور ہو جائیں گی کہ واہ رے مولانا ؟جس پر ”شفقت“کا مظاہرہ ہوتا اس سے زیادہ قابل رحم آپ ہوتے ،مکمل تھک جاتے پھر بھی ”اظہار شفقت“سے باز نہ آتے ۔اس کے بعد پوری زندگی اس کو اتنا چاہتے کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔جس شفقت کا اوپر ذکر ہوا وہ مجازی شفقت تھی کہ مولانا اس کو خلاف ِوعدہ اور خلاف ِادب حرکتوں پر تنبیہ فرماتے،پٹائی کرتے،لیکن پٹائی میں مضروب کو چوٹ بالکل نہ لگتی؛البتہ مولانا مرحوم تھک جاتے،پانی منگواتے ،پانی پیتے پھر دوبارہ اس کی خبر لیتے اور طلبہ زیرِ لب مسکراتے رہتے۔ واہ رے مولانا ولی اللہ صاحب !اللہ آپ کو بخش دے ،آپ پر رحمت کی چادر ڈال دے اور آپ کو بہشتِ بریں میں اونچا مقام نصیب کرے آمین۔

            اور حقیقی شفقت یہ تھی کہ طلبہ کو اپنی جائے قیام پر بلاتے ،کتابیں صاف کرواتے ،خود بھی ساتھ دیتے، صبح فجر بعد سے کبھی دو پہر ہو جاتی طلبہ کے کھانے کا وقت جو ادارے نے مقرر کیا ہے وہ گزر جاتا تو اپنے گھر پر چائے، ناشتہ اور دوپہر کے کھانے کا نظم رکھتے اور ساری چیزیں نہایت فراوانی کے ساتھ ہوتیں۔جامعہ اکل کوا کے استاذ مولانا اخلاق احمد عادل آبادی کہتے ہیں کہ میں حضرت کا بلا واسطہ شاگرد رہا ہوں ،میرے ساتھ خود اس طرح کی ذرہ نوازی کا معاملہ رہا ہے کہنا چاہتے کہ ”ان سے بڑا سخی نہ بڑوں میں دیکھا نہ چھوٹوں میں“اللہ غریق رحمت فرمائے۔

            دوسرا وصف جو آپ میں نمایاں طور پر پایا جاتا تھا وہ شاعری، وہ بھی فی البدیہہ شاعری؛جس دن کو گزار کر مولانا مرحوم نے رات میں بارہ بجے کے آس پاس اس دنیا رنگ و بو سے آنکھیں موند لی تھیں، اس دن کا واقعہ ان کے ایک شاگرد ِرشید عزیزم مولوی عظمت اللہ بہرائچی استاذ ِخیر العلوم بور گاؤں کھنڈوہ نے سنایا۔

بر جستہ شاعری:

            راقم سطور کو مولوی عظمت اللہ نے فون پر بتلایا کہ میں نے استاذِ محترم مولانا ولی للہ صاحب کو دن میں فون کیا ،بات کی،بہت اچھی بات ہوئی ،اور اسی دن رات میں حضرت اللہ کو پیارے ہو گئے،بات یہ ہوئی تھی کہ تجوید کی انجمن کے لیے قرآن کے موضوع پر نظم لکھوانی تھی مولانا مرحوم نے کہا:میرے بہت سارے کتابچے ہیں، ان میں قرآن کے موضوع پر نظمیں ہیں،انھیں میں سے کوئی لے لو؛لیکن مولوی عظمت اللہ کہتے ہیں کہ میں اصرار کرنے لگا کہ حضرت ؟نئی نظم ،خاص خیر العلوم کے اس شعبے کے لیے چاہیے تھی،آپ بنا دیجئے ،تو فرمانے لگے آج نہیں دو شنبہ کو عشاء کے بعد فون کرنا ،بھولنا نہیں،میں ان شاء اللہ فون پرتمھیں لکھوا دوں گا“گفتگو کا یہی جز قابلِ توجہ ہے کہ کیا پتا تھا کہ مولانا مرحوم کی زیست کا یہ آخری دن ہے اور آج آنے والی رات اپنی اندھیریوں میں آپ کی زندگی کے آخری لمحات چھپائے ہوئے ہے ،اور اب زندگی میں کوئی دو شنبہ نہیں آئے گا۔

            یہ مرحوم کی برجستہ شاعری کومرحوم ہی کی زبانی بتانے کے لیے ایک تازہ واقعہ تھا؛ ایسے بے شمار واقعات ہیں، جن میں آپ کی فی البدیہہ شاعری جھلک جھلک کر منظر عام پر آئی ہے۔جامعہ اکل کوا میں دینیات کی عمارت کے وسیع و عریض میدان میں بزمِ نعت خوانی سجی ہوئی تھی،حسن ِاتفاق کہیے کہ مالیگاوٴں کے مشہور شاعر ”اثر مالیگانوی“ تشریف لائے تھے اور انھوں نے خدا کی ایک حمد سنائی تھی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ تمام لوگ خدا کی حمد مثبت اسلوب میں سنتاتے ہیں اور خدا کی کیا کیا خوبیاں ہیں ان کو بتاتے اور سناتے ہیں؛ لیکن میں نے خدا کو تمام تر عیوب سے پاک بتاتے ہوئے ”منفی اسلوب“میں خدا کی حمد کہی ہے ،جس میں”میں اکیلا شخص اور اکیلا شاعر ہوں “جس نے خدا کو عیوب سے پاک بتاکر ”منفی اسلوب“میں حمد کہی ہے؛ چوں کہ شاعروں کا لب و لہجہ اور انداز اسلوب کچھ بڑائی لیے ہوئے رہتا ہے تو مولانا ولی اللہ مرحوم نے اس کا جواب اس طور پر دیا کہ ”وہیں بیٹھے بیٹھے “انھیں کی چنیدہ بحر میں انھیں کے منفی اسلوب میں بر جستہ ”حمد“لکھ کر اسی بزم ِنعت خوانی میں جوانی کی کلیلیں مارتے ہوئے سناکرپورے مجمع کو دم بہ خود کر دیا اور ساری توجہ اپنی طرف مبذول کر لی، جس سے ایک بڑے مجمع کے سامنے مولانا مرحوم کی بر جستہ شاعری کا ثبوت مشاہداتی انداز میں مل کررہا ۔

            آپ نے اپنی برجستہ شاعری کا موضوع کبھی بھی محبوب کی زلفِ گرہ گیر کو نہیں بنایا کہ اس کی تہہ در تہہ پیچیدگی اور گھور اندھیروں میں ٹٹول کرسفرکریں،اس کے اندھیاروں میں اس قدر الجھیں کہ پتابھی نہ چلے کہ کون سا واقعہ پہلے ہے اور کو ن سا بعد میں ،پھر نسیان کا غول بیابانی شاعر کا پیچھا کرے ۔نہ آپ نے خود کو جوانوں کے شبستانوں میں لا کر کھڑاکیا،جہاں زلفوں کی شمیم بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ کر بھی مچلتی رہتی ہے اور ٹوٹے پیمانوں اور بجھی ہوئی شمعوں کے انبار کے انبار لگے رہتے ہیں ،جہاں معشوقان ہزار دوست کو مسند ِحرص و آز پر بیٹھا کر قوس قزح اور کہکشاؤں کے رنگوں سے طواف کر ایا جاتا ہے۔نہیں ہر گز نہیں!ولی بستوی مرحوم نے ایسا ہر گز نہیں کیا؛ بل کہ آپ نے اپنی بر جستہ شاعری کا موضوع نعتِ نبی اور عشقِ رسول کو بنایا ،جن کی بے تابیوں اور جگر کاریوں کے خون میں قلم کو ڈبو ڈبو کرسب کچھ قلم بند کر دیا، جو ایک سچا عاشقِ رسول قلم بند کر سکتا ہے۔

اکابر سے رابطہ:

            عشقِ رسول کی بے پناہ چنگاری نے ولی مرحوم کو مجبور کیا کہ اپنی شعلہ نوائی کا رخ تحریری میدان کی طرف اس طرح موڑ دیں کہ عشقِ رسول سے وابستہ رہنے والے ہر بڑے سے مربوط رہیں ۔ان کی ثناخوانی اِس طرح کریں کہ اس کا تعلق عشقِ رسول سے معلوم ہونے لگے ،اسی لیے آپ نے وقت کے مایہ نازبزرگ و عالم دین حضرت قاری صدیق احمد باندوی کی حیات کو منظوم کلام میں ایسا پیش کیا کہ حیاتِ صدیق سامنے گردش کرتی نظر آتی ہے۔ جامعہ اکل کے بانی و مہتمم حضرت مولانا غلام محمدصاحب وستانوی حفظہ اللہ کی حیات کے گونا گوں گوشوں کو”حیات وستانوی “کے نام سے منظوم کیا ،جامعہ اکل کوا کے استاذِ حدیث محترم مولانامحمدطاہرمالیگانویکی زندگی کو” حیات ِطاہر“کے نام سے طبع کرایا اور نہ جانے کتنے اکابرِ امت کی عاشقانہ زندگی کو مولانا ولی اللہ ولی بستوی نے منظوم عشق کی وادی میں رہ نوردی کرنے والی بناکرپیش کیا ہے ،جس سے مولانا ولی اللہ مرحوم کے عشقِ رسول کی چنگاری شعلہٴ جوالہ کی شکل میں نظر آتی ہے۔

            اگر آپ کی شاعری کا رخ غزل سنجی ،غزل گوئی یا دوسری اصنافِ سخن کی طرف ہوتا تو آپ کہاں کہاں گم ہوتے نہیں کہا جا سکتا۔صرف﴿والشعراء یتبعہم الغاوون الم ترانہم فی کل وادیہیمون وانہم یقولون مالایفعلون الاالذین آمنوا وعملواالصٰلحٰت وذکروااللہ کثیراً وانتصروا من بعدماظلموا﴾کی آیت ان تمام حقائق کو واشگاف کرنے کے لیے کافی ہے۔اسی لیے ولی اللہ مرحوم نے اپنی شاعری کا رخ عشاقانِ رسول کی طرف پھیر دیا۔حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی حیات بھی منظوم کلام میں پیش فرمائی ۔جامعہ اکل کوا میں دورانِ تدریس ”اشاعتی بیت بازی “کے نام سے نہایت عمدہ شاعری پر مشتمل تصنیف منظر عام پر لا کر شاعرانہ مزاج احباب کی دیرینہ مشقیہ آرزو پوری کر دی ،یہیں اکل کوا میں قیام کے دوران علامہ جزری کی پوری ”جزری“کو اردو منظوم بنا کر پیش کر دیا، جو ایک بڑا معر کة الآرا کام ہے،بے نقط کلام میں تو ضلع بستی کی مشہور شخصیت مولانا صادق علی صادق بستوی ہے ،جس کا ”داعی اسلام“نامی سیرت پر لکھا ہوا غیر منقوط مجموعہ کلام چہار دانگ عالم میں اپنا سکہ جما چکا ہے۔البتہ مولانا ولی اللہ مرحوم نے بھی کئی نعتیں غیر منقوط تحریر فرمائی ہیں، جن پر آپ کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔

            اکابر ِامت سے رابطے کی بنیاد پر علمائے امت نے آپ کو بے شمار القاب و خطابات سے بھی نوازا تھا،کسی نے شاعر اسلام ،کسی نے شاعر حجاز،کسی نے ولی اتری اور نہ جانے کتنے القاب سے نوازا ،جن کے آپ بجا طور پر مستحق تھے۔دارالعلوم الاسلامیہ بستی کے صدرالمدرسین استاذِ گرامی قدرحضرت مولانانثاراحمدصاحب قاسمی# مدظلہ بھی مولاناولی اللہ صاحب بستوی کی خوبیوں کے بڑے قدردان تھے۔ان تمام خوبیوں کا پیکر

 ”پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا“

            کے مصرعے کا مصداق ہمیشہ کے لیے دیوبند کی سرزمین مزار قاسمی میں ہمیشہ کے لیے آسودئہ خاک ہو گیا۔مولاناارشد مدنی صاحب مدظلہ نے احاطہ مولسری دار العلوم دیوبند میں جنازے کی نماز پڑھائی اور ۲۱/ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۱ھ مطابق ۲۶/ فروری ۲۰۲۰ء بروزسہ شنبہ ظہر کی نماز کے بعد آپ کی تدفین عمل میں آئی ۔

آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کر ے سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے