وہ قوم وملت کا مسیحا چل بسا

باسمہ تعالیٰ

جامعہ اکل کوا کے رکن شوریٰ حاجی ابراہیم دادا کا انتقال پرملال

مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحیؔ استاذ تفسیر و حدیث جامعہ اکل کوا

                قانونِ خداوندی ودستورِ الٰہی کے بموجب {این ما تکونوا یدرکم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ }موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے ،جو عالم وغیرعالم ، حکیم وغیر حکیم ، تاجر و غیر تاجر ، سوداگر وغیر سودا گر ، شاہ سوداگر ، جھونپڑوں میںبسر کرنے والے اوربلند وبالا عمارتوں کے باشندوں ؛ہر ایک کو موت آنا ایک ایسا سچ ہے جس سے انکار کی کسی کو مجال نہیں ہے ۔ اِن سب حقائق کے باوجود کچھ اموات روئے زمین پر ایسی وقوع پذیر ہوتی ہیں،جس کی کسک اور احساس صرف افرادِ خانہ تک محدود نہیں رہتا ، بل کہ اعز ا ،اقربا اور ماتحتوں سے تجاوز کرکے ملت کا ایک خاصہ طبقہ ان کی موت کا احساس کرتا ہے جیسا کہ کسی نے کہا ہے     ؎

موت اس کی ہے جس کا کرے زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

                ایسے ہی خوش قسمت ،باصفا ،بااخلاق اور انسانیت نواز؛ بل کہ ہمدردِقوم وملت، تمام مدارس اسلامیہ کے عموماً اور جامعہ اکل کوا کے خصوصاً ،تمام علما ئے دین ، مشائخِ عظام کے عموماً اورئیس جامعہ سے خصوصاً محبت و خلوص کا سلوک کرنے والے ہمارے حاجی ابراہیم دادا اِس دنیاسے چل بسے۔اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔ آمین!

مرحوم حاجی صاحب کی رئیس جامعہ سے محبت کی بنیاد :

                جامعہ کے رئیس وبانی حضرت وستانوی سے بے پناہ محبت صرف اس لیے تھی کہ اللہ کی مخلوق کو تکالیف ومصائب، جہالت وناخواندگی ، غربت وافلاس سے نکال کر سرخ روئی کیسے ملے؟ اور’’ احب الخلق الی اللّٰہ من احسن الی عیالہ ‘‘کے مصداق کسے بنایا جائے اس فکر اور سوچ میں دونوں میں نسبتِ اتحادی تھی ۔

                جب جب بھی کسی خدا شناس بزرگ یا علما کی مجلس ومحفل میں یا اہل ِخیر احباب کے درمیان جامعہ یا رئیسِ جامعہ کے خدماتِ جلیلہ کا تذکرہ چل پڑتا تو خدماتِ وستانوی کو خدماتِ عالمگیر سے تشبیہ دے کر اکل کوا کے انقلاب حسین،تو کبھی تڑوی برادری کے تعلیمی بیداری، تو کبھی مراٹھوارہ کی بڑھتی ہوئی تعلیمی ترقی، تو کبھی راجستھان کی سنگلاخ زمین میں قرآنی پکار کا ایسے محبت اور پرکشش انداز میں منظر کشی فرماتے ،جس کو سن کر مخاطب جامعہ کا قائل ہوجاتا اور خود کو گویا ذکرِ جامعہ سے قلبی سکون محسوس ہوتا ۔

مرحوم پکے موحد تھے :

                جناب حاجی صاحب نسلی طور پر میمن تھے ۔ علاقۂ کاٹھیاواڑ کے’’ اُپلیٹا‘‘ مقام کے’’ کنڈا ‘‘خاندان سے آپ کا تعلق تھا ۔ اس برادری کی خاصیت یہ ہے کہ دنیاکے کسی بھی خطہ یا ملک میں رزقِ حلال کے اسباب مہیا ہوں وہاںہجرت کرجاتے ہیں اور تجارتِ دنیوی کے ساتھ ساتھ حسبِ توفیق تجارتِ اخروی بھی کرتے ہیں ۔ چناںچہ حاجی مرحوم کے خاندان نے بغرضِ تجارت سورت ہجرت کی ۔ علاقہ ٔسورت کے ہی نہیں بل کہ ہندوستان کے عظیم مفتی حضرت مفتی لاجپوری ؒ اور حضرت شیخ اجمیریؒ کی صحبتِ با صفا نے توحید کے بیج بوئے اوردعوت و تبلیغ اور اکابرینِ تبلیغ سے وابستگی نے مزید اس کو سیراب کیا ۔ حضرت شاہ صدیق باندویؒ کی عارفانہ زندگی نے مزید انقلاب پیدا کیا۔ اور حضرت وستانوی سے بے لوث محبت نے مخلوقِ خدا کا درد اور مدارسِ اسلامیہ کا فکر پیدا کروایا ۔

                چنا ں چہ خدمتِ خلق کے زاویے سے اگر حاجی صاحب کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو’’ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو‘‘ کے آپ پورے پورے مصدا ق تھے ۔

                صرف سورت میں ’’لوکہات ہسپتال‘‘ کی خدمات پر ایک نظر کی جائے تو ’’لوکہات ہسپتال‘‘ میں غریب ، مسافر ، یتیم اور بیواؤں اور ناداروں کی ایسی خدمات حاجی صاحب اور ان کے ٹرسٹیان کی معرفت ہوئی ہیں کہ’’ چھاپی‘‘ سے لے کر ’’واپی‘‘ تک بلا تفریق مذہب وملت بیماروں کی تیماردار ی کرنے والا خاموش با فیض ادارہ ’’لوکہات ہسپتال‘‘ سے حضرت حاجی صاحبؒ کی وابستگی اور توجۂ خاص کا یہ نتیجہ تھا کہ جامعہ اکل کوا کے طلبہ اور اطراف ِاکل کوا، نندوربار ، شہادہ ، شیر پور ، تلودہ ، کوکر منڈا ، راجموئی ، میٹھاپھلی ، مکرانی پھلی ،ساگبارہ ، سیلمبا ، کھاپر، اورکُرَی وغیرہ کے عوام نے مذکورہ شفاخانہ سے وہ فیض اٹھایا ہے، جس کو تاریخ کبھی فراموش نہیںکرسکتی ۔ اور مرحوم کے لیے یہ خدمت ذخیرۂ آخرت ثابت ہوںگی ۔ ان شاء اللہ !

                جامعہ’’ السلام ہسپتال‘‘ اور رئیسِ جامعہ کی تحریر پر بڑے بڑے مسئلہ کا حل آپریشن وغیرہ کی شکل میں ہوجاتا ۔اسی طرح مدارس ، مکاتب اور علماسے وابستگی کا یہ حال کہ ہندستان کے کون سے علاقے میں لڑکیوں کے مدرسہ کی ضرورت ہے؟ کہاں عصری تعلیم کی ضرورت ہے ؟ کہاں آئی ٹی آئی اور کس خطہ میں مساجد اور مدارس کی ؛ چناں چہ ان فکروں کو لے کر حضرت رئیس جامعہ کے ساتھ راجستھان کے علاقہ جودھپور ، باڑمیر،بدناپور ،رنجنی ، حمایت نگرتو کبھی بالاگھاٹ تک کا سفر فرمایا ۔حضرت وستانوی کو حوصلہ ہمت اور دینی فکروں کو بار آور اور ثمر آور کرانے میںان کا بہت مخلصانہ کردار رہا ہے ۔

                 مرحوم حاجی صاحب ؛صاحب رائے بھی تھے اور صائب الرائے بھی تھے ۔ کئی مدارس کے منتظم اور رکن شوریٰ ہونے کی حیثیت سے طلبا ، اساتذہ اور منتظمین کے سلسلہ میں بڑی اونچی سوچ اور جذبہ رکھتے تھے ۔ چناں چہ گجرات کی با فیض و قدیم دینی درس گاہ دارالعلوم اشرفیہ کے جب رکن شوریٰ منتخب ہوئے تو مولانا یعقوب اشرف ؒکے سامنے تجویز رکھی کہ بہت سے قدیم اساتذہ، زمانۂ دراز ۳۵؍۴۰؍ سال سے مدرس ہیں ۔ کیوں نہ ان کے رہائشی مکان کا ان کو مالک بنادیا جائے ۔ چناںچہ یہ تجویز منظور ہوکر اس پر عمل کیاگیا۔

                مرحوم حاجی صاحب عاشقِ قرآن بھی تھے ۔ مختلف مسابقاتِ قرآنیہ میں بہ نفسِ نفیس شریک ہوکر تمام مجالس میں شرکت کی اور مسابقاتِ قرآنیہ کو ایک’’ تجدیدی کارنامہ‘‘ قراردیا ۔ اسی طرح منی پور، بہار ، اڑیسہ اور۳۶؍ گڑھ کے دور ودراز کے علاقہ کے مدارس اورمساجد آپ کے حسنِ تعاون سے مستفیض ہوئے ہیں ۔جیسا کہ ممبر آف پارلیمنٹ حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی دامت برکاتہم کے تعزیتی پیغام میں بھی اس کا اعتراف کیا گیا ہے۔

                شبِ جمعہ ۲۸؍ جولائی ۲۰۱۸ء رات ۱۲؍ بجکر۱۰؍ منٹ پرحضرت رئیس جامعہ کو آپ کے وصال کی خبر ملتے ہی مولانا حذیفہ صاحب کو مع اساتذہ جنازہ میںپہنچنے کا حکم صادر فرمایا ۔ چناں چہ رات بھرحضرت رئیسِ جامعہ؛ متعلقین اور ابنائے حاجی صاحب سے وابستہ رہے ۔چوں کہ حضرت رئیس جامعہ دینی و علمی سفر پر تھے ، خصوصاً دارالعلوم دیوبند ، مظاہر علوم سہارن پور کی شوریٰ کی مصروفیت اور اطلاع کی تاخیر کی وجہ سے جنازہ میںحاضری مشکل نظر آئی توبیان مصطفی کے روحِ رواں مولانا حسن عبد اللہ صاحب بھرکودڑوی کو مع اپنے احباب کے تو کبھی راقم الحروف کو مکلف کیا ۔ چناں چہ جامعہ کا ایک وفد مولانا حذیفہ صاحب کی قیادت میں مفتی جعفر صاحب ملی ، مولانا عبد الرحمن صاحب مدنی ، راقم الحروف اور عزیز م مولوی ریحان کی شکل میں صلاۃ جنازہ اور تدفین میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔

                حضرت مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم شیخ الحدیث جامعہ ڈابھیل نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ مولانا حذیفہ صاحب نے ایصالِ ثواب کراکے دعائے مغفرت کروائی اور جامعہ کے نائب رئیس حافظ اسحاق صاحب دامت برکاتہم نے تمام مساجدِجامعہ اورشاخہائے جامعہ میں ایصال ثواب کا اہتمام کروایا ۔

                اخیرمیں بہ طور حسنِ اختتام ایک بات عرض کرتا چلوں ،جو تفاول نیک کے قبیل سے ہے ۔ کسی بزرگ کا قول ہے کہ اگر طواف وداع سے فراغت کے بعد کسی نیک و صالح ، خدا شناس عارف باللہ سے ملاقات ہوجائے تو حج کے قبولیت کی علامت ہے ۔

                اسی طرح کسی جنازہ پر جم غفیر کی حاضری بھی مرحوم کی شہادت علی الایمان کی ضمانت ہے ۔ اسی طرح کسی جنازے پرحاضری کے دوران کوئی آیت یا روایت کا باربار گردش کرنا؛ یہ بھی ایک اچھی علامت ہے ۔جیسے استاذ محترم حضرت مولانا سید ابرار احمد دھولیویؒ کے مزار پر جنازہ سے لے کر اب تک حاضری ہوتی ہے تو یہ آیت ورد زبان اورنوک زبان بے اختیار ہوجاتی ہے کہ {ان الابرار لفی نعیم} ٹھیک اسی طرح مرحوم حاجی صاحب کا جنازہ تیار تھا ۔ عزیزم’’ احمد دادا‘‘ صف بندی کی تلقین کررہے تھے اور مفتی صاحب جنازہ کے سینہ بہ سینہ کھڑے تھے اور اس عاجز کے دل وماغ پر یہ آیت باربارگردش کررہی تھی کہ {ان ابراہیم کان امۃ قانتا للہ حنیفا ولم یک من المشرکین ، شاکرا لانعمہ اجتبٰہ وہداہ الی صراط مستقیم ، و اٰتینٰہ فی الدنیا حسنۃ وانہ فی الآخرۃ لمن الصٰلحین}

                اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ نے بالیقین اوصافِ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہی ذکر فرمائے ہیں ۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیںہے ، لیکن بہ طور نیک فالی اور تفاول کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے؛ ابراہیم نامی ایک شخص کو مجموعہ محاسن ،بل کہ خوبیوں کا گلدستہ بنایا تھا ،کہ ابراہیم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ۔ ابراہیم موحد تھے ،شرک سے محفوظ رہتے تھے ، ابراہیم رب کی طرف سے ملنے والی نعمتوں پرشاکرانہ زندگی گزارنے والے تھے ۔ اللہ نے ہر قسمی کار خیر کے لیے ان کا انتخاب کیا تھا، صراط مستقیم پرگامزن تھے ۔ اللہ نے ان کی دنیا بھی اچھی بنائی اور امید ہے کہ آخرت میں بھی باری تعالیٰ زمرۂ صالحین میں شامل فرمائیںگے ۔

                جامعہ اور جامعہ برادری اس حادثہ کو اپنا ذاتی حادثہ تصور کرتا ہے ۔ اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اوران کے درجات کو بلند اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین!

خدا رحمت برسائے ان کی تربت پر

بڑی خوبیاں تھی رحلت کرنے والے میں