(مفتی )محمد حسام الدین قاسمی
استاذ مدرسہ خیر المدارس ، حیدرآباد
مجھ کو تو ہوش نہیں آپ مشورہ دیجئے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں
ابھی جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے رئیس حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم کے بڑے صاحبزادے اور میرے ہم درس اوربے تکلف دوست مولانا سعید صاحب وستانوی رحمة اللہ علیہ کے حادثہٴ وفات سے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ اچانک ان کے ماموں، رئیس جامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب حفظہ اللہ کے نسبتی برادر اوردستِ راست، عاشق قرآن، اکابر کے نور نظر، قرآنی مسابقات کے روحِ رواں، سلف صالحین کی روایتوں کے امین، میدان خطابت کے شہسوار، متعدد کتابوں کے مصنف، جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے قدیم مدرس، ترجمان جامعہ، شارح بخاری، جامع معقول ومنقول حضرت مولانا مفتی عبداللہ صاحب مظاہری بانی جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ ضلع بھروچ گجرات کے حقیقی بھائی اور میرے مشفق استاذ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحینے بروز اتوار بتاریخ ۱۷/ شعبان مطابق ۱۲/ اپریل ۲۰۲۰ء بوقت صبح ساڑھے آٹھ بجے اپنے وطن رَوِیدرا کے قریب کھروڑ کے Welcare ہسپتال میں مختصر علالت کے بعد ۵۶/ سال کی عمر میں زبان حال سے یہ کہتے ہوئے
حشر تک اب زباں نہ کھولیں گے
تم پکاروگے ہم نہ بولیں گے
داعی اجل کو لبیک کہا، انا للہ وانا الیہ راجعون ان للہ ما اخذولہ ما اعطیٰ وکل شیء عندہ بأجل مسمی۔
اگلے دن ظہر بعد عصر سے پہلے حالات کے پیش نظر مجمع کو کم کرنے کے لئے پہلے آپ کے داماد اوربھتیجے مولانا عبد اللہ صاحب سعادتی نے نماز جنازہ پڑھائی، پھر آپ کے بڑے صاحبزادے مفتی ریحان صاحب سلمہ نے پڑھائی، پھر رویدرا میں قبرستان کے اُس حصے میں جہاں آپ کے والدین آسودہٴ خاک ہیں تدفین عمل میں آئی- رحمہ اللہ رحمة واسعة۔
صلاحیتِ صد رنگ
مولانا موصوف نہایت منتظم مزاج باوقار حلیم وبردبار اور معاملہ فہم عالم دین تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو قابل رشک اخلاق فاضلہ سے نوازا تھا، آپ کی علمی اور تحریری صلاحیت بے نظیر تھی، سینکڑوں اشعار زبان زد تھے، مطالعے کے بڑے شوقین اور کتب تفاسیر کے رسیا تھے، تفسیر کا ذوق اپنے محبوب استاذ عارف باللہ ابرار احمد دھولیوی رحمة اللہ علیہ (مہاراشٹر) سے فلاح دارین ترکیسر میں تعلیم کے دوران ملا تھا، جوحکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبکے مجاز فلاح دارین ترکیسر ضلع سورت کے شیخ الحدیث فتاویٰ رحیمیہ کے مصنف مولانا عبدالرحیم صاحب لاجپوریکے داماد تھے ۔
خاندان کا امتیاز
آپ کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا، جس کا بزرگان دین سے گہرا ربط تھا، آپ کے والد ماجد حاجی محمد ابراہیم پٹیل صاحببہت ہی دین دار اورپرہیز گار تھے، علماء اور صلحاء سے محبت کرنے والے تھے ان کی مجالس پند وموعظت میں ذوق وشوق سے حاضر ہوتے اور پھر ان نصائح کو عملی جامہ پہناتے، نیز دعوت وتبلیغ سے بھی آپ کا گہرا تعلق تھا، اسی طرح آپ کے نانا جان حاجی یوسف سلیمانسدیوت صوفی منش خاندانی بزرگ تھے، اکابر دیوبند خصوصاً حضرت تھانویاورحضرت مدنیکے دل وجان سے عاشق تھے، ان حضرات اولیاء سے محبت اوران کی نظر التفات پورے خاندان کے لئے نسخہٴ کیمیا ثابت ہوئی جس نے ایک دینی انقلاب برپا کردیا۔
آپ کے والد بزرگوار نے احب الاسماء الی اللہ کا انتخاب کرتے ہوئے بڑے صاحبزادے کا نام عبداللہ دوسرے صاحبزادے کا نام عبدالرحیم، تیسرے صاحبزادے کا نام عبدالرحمن رکھا، نیز بیٹیوں کے نام بھی اچھے رکھے، اسی نیک فالی کا نتیجہ تھا کہ سارے بیٹے نیک بنے اورسارے داماد صالح ملے۔
حضرت والا کا خاندان انتہائی دیندار اوردین پسند ہے، خاندان میں قرآنی اوردینی علوم کو حاصل کرنے کا اتنا زیادہ چلن ہے کہ ۱۷/ اکتوبر ۲۰۱۶ء میں جب حضرت کی والدہ ماجدہکا انتقال ہوا، اُس وقت خاندان میں ۶۳/ حفاظ ۶۱/ قرا، ۴۳/علماء اور ۱۵/ مفتیان کرام کامل ومکمل تھے، نیز ۲۴/ حفاظ اور ۹/ علماء زیر تعلیم تھے۔اللھم زد فزد۔
انداز درس
حضرت کا درس انتہائی مقبول تھا، مشکل سے مشکل مقام کو ہنستے ہنساتے اس طرح سمجھاتے کہ مصنف کی مراد دلوں میں اتر جاتیبندے نے حضرت والا سے تاریخ اسلام شرح تہذیب نورالانوار اورہدایہ اولین پڑھی ہے، آپ کا درس تحقیقی ہوتا تھا، شروع میں آپ مبادیات عشرہ پر روشنی ڈالتے سبق سے پہلے ہر باب اور ہر فصل کا خلاصہ سناتے، پھر تفصیل بیان فرماتے، اور کتاب کا ما قبل سے ربط اوروجوہ تسمیہ بیان کرنا آپ کے درس کی خصوصیات میں سے تھا۔
سنہرا کارنامہ
آپ کی زندگی کا سب سے تابناک کارنامہ رئیس جامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم نے صوبائی اور ملکی سطح پر قرآنی مسابقات کو پروان چڑھانے کا جو منصوبہ بنایا تھا، اس کو آگے بڑھانا اور عام کرنا ہے، اس کے انتظامات میں آپ کا بہت بڑا دخل تھا؛ چنانچہ اس کے لئے آپ پوری طے شدہ حکم حضرات کی جماعت کے ساتھ مقامِ مسابقہ پر پہنچتے، اور میزبان ادارے کے عملے کو اپنا ہم خیال بنا کر مسابقے سے متعلق تمام امور کو بحسن وخوبی انجام دینے کی کوشش کرتے، مسابقات میں افتتاحی کلمات مساہمین سے سوالات کرنا اور انعامات کا اعلان عام طور پر آپ ہی کے ذمہ ہوتا تھا، اسی کا اثر تھا کہ زندگی کا آخری ہفتہ طلبہ میں تفسیری سوالات کرنے کی وجہ سے ”اجعل خیر عملی خواتیمہ“ کا مظہر بن گیا۔
ملکہٴ خطابت
ایک طرف آپ میدانِ درس وتدریس کے شہسوار تھے،تو دوسری جانب خطابت کے اسٹیج پر بہترین مقرر بھی تھے، حضرت مولانا احمد صاحب ٹنکاروی دامت برکاتہم جو حضرت والا کے رفیق خاص ہم درس ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہیں، حضرت کی ان کے ساتھ رفاقت دس سال رہی، وہ فرماتے ہیں : ”زبان میں قوت شیرینی اور سلاست پہلے دن سے ہی موجود تھی، اسٹیج کی شناخت زمانہٴ طالب علمی ہی سے حاصل ہوچکی تھی، خطابت آپ کے گھر کی باندی تھی“، بلا شبہ آپ بلبلِ جامعہ کہے جانے کے مستحق تھے، چوں کہ آپ ایک اچھے مقرر تھے، اِس حوالے سے مختلف ادارے اور تنظیمیں اور فارغین جامعہ خاص خاص موقعوں پر آپ کو دعوتِ خطابت دیتے تھے۔
گجرات کے مشہور مقرر قاری احمد علی صاحب فلاحی دامت برکاتہم جو گھنٹوں خاص انداز میں تقریر کرتے ہیں، ان کے بارے میں استاذ محترم نے مجھ سے ایک مرتبہ تحدیث بالنعمة کے طور پر فرمایا کہ قاری احمد علی فلاحی مجھ سے کہتے ہیں عبد الرحیم! میں نے تقریر تم سے سیکھی ہے، آپ کی بات نہایت مرتب اور ملخص ہوا کرتی تھی، جس کی وجہ سے سامعین اکتاہٹ کے شکار نہیں ہوتے تھے، ولی اللہ ولی کی یہ رباعی ان پر بہت اچھی طرح صادق آتی ہے:
طبیعت میں ان کی نفاست رہی ہے
تکلم میں ان کی فصاحت رہی ہے
رہے درس وتدریس میں خوب ماہر
موٴثر بہت ہی خطابت رہی ہے
تفسیری مجالس
رمضان المبارک میں برطانیہ کے مختلف شہروں London, Batley, Dewsbury, Gloucester, Leicester, Bradford میں مہینہ بھر مختلف مساجد میں آپ کے دروس قرآن کا سلسلہ جاری رہتا اور عوام آپ سے خوب مستفید ہوتی تھی۔
زور قلم
حق تعالیٰ شانہ نے آپ کو قوت بیان کے ساتھ ساتھ زور قلم بھی عطا کیا تھا، جس کا اندازہ آپ نگارشات فلاحی (جو بیسیوں کتابوں پر لکھی گئی تقاریظ منتخب مقالات اور اہل دل حضرات کی وفات پر لکھے جانے والے مضامین پر مشتمل ہے) سے لگا سکتے ہیں، اہل قلم سے آپ کو بڑی عقیدت تھی، یاد پڑتا ہے کہ حضرت نے مجھے اور دیگر طلبہ کو انشائے ماجدی کے تراشے جھوم جھوم کر سنائے تھے، اس کے بعد کتاب کی عظمت میرے دل میں ایسی بیٹھ گئی کہ میں نے وہ کتاب فراغت کے بعد اپنے خسر (جو تاجر پارچہ ہیں) کے ذریعہ کلکتے سے منگوائی تھی۔
آپ کے زور قلم اور طرز تحریر کو دیکھ کر مولانا زبیر صاحب ایولوی(ناسک) -جو جامعہ میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں- نے یہ فرمایا تھا ” مولانا عبدالرحیم گجراتی ہونے کے باوجود (چوں کہ وہاں آپس میں اردو زبان کے ساتھ ساتھ گجراتی زبان کا بھی چلن ہے) اتنا اچھا بولتے اور لکھتے ہیں یہ چیز قابل تعجب اور قابل تحسین ہے“۔
حضرتِ والا کے طرز نگارش کے بارے میں جامعہ اکل کوا کے استاذ مولانا افتخار صاحب قاسمی بستوی لکھتے ہیں: ”آپ کی تحریر میں سحر آفرینی جادو بیانی انفعالی تاثیر شستگی وشائستگی حالات کی منظر کشی جذبات کی راست ترجمانی مافی الضمیر کی سچی ادائیگی اور کھرے کھوٹے کی امتیازی شناخت پائی جاتی ہے“۔
(نگارشات فلاحی، ص: ۲۰)
تصانیف
استاذ محترم نے تدریس اور خطابت کے ساتھ ساتھ متعدد موضوعات پر مختلف علمی اور اصلاحی کتابیں لکھی ہیں جو درج ذیل ہیں:
۱۔ تحفہٴ تراویح: جس میں سوا پارے کی ترتیب سے کل ۲۷/ تراویح میں پوری قرآن مجید کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے ، جس کے کئی زبانوں میں متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔
۲۔ تحفہٴ اذان وموٴذنین ۲۰۱۲ء :میں تصحیح اذان کا ایک تدریبی پروگرام احاطہ جامعہ میں منعقد کیا گیا تھا، اس موقع پر بحکم رئیس جامعہ اذان وموٴذنین کے سلسلہ میں کچھ ہدایات مرتب کی تھیں، جس کو تحفہٴ اذان وموٴذنین مع مسائل اذان واقامت سے موسوم کیا گیا ہے ۔
۳۔ تحفہٴ حفاظ: جس میں ایک طرح کی مکرر آیات مع تعیین سورت وپارہ یکجا جمع کی گئی ہیں۔
۴۔ اوراد سعادت دارین:جس میں مختلف پریشانیوں کے حل کے لئے آیات قرآنیہ اور اسماء حسنیٰ پر مشتمل وظائف بتلائے گئے ہیں۔
۵۔ نگارشات فلاحی:جو ۱۰/ مقالات ،۱۱/ تعزیتی وتعارفی مضامین، ۳۴/ کتابوں پر لکھی گئیں تقاریظ اورخود کی ۷/کتابوں کے ابتدائیوں پر مشتمل ہے۔
۶۔ تحفہٴ بیٹی:جس میں خسر محترم خویش دامن صاحبہ برادران شوہر نیز شوہر کی بہنیں اور شوہر کے دیگر خویش واقارب ان سب کے ساتھ کیسے زندگی گزاری جاتی ہے، اور سب سے بڑھ کر اپنے اللہ کو کیسے راضی کیا جاتا ہے، ان سب پر مشتمل کچھ اصول اور نکات ہیں، جن کو حضرت نے ایک باپ ہونے کی حیثیت سے اپنے لخت جگر کو حلہٴ عروسی میں، رخصت کرتے وقت بطور توشہٴ راہ حیات پیش کیا تھا۔
۷۔ المذاکرات التفسیریة: تفسیر کی فرع میں حصہ لینے والے طلبہ کو سہولت پہنچانے کے لئے رئیس الجامعہ مدظلہ کے حکم سے یہ کتاب لکھی ہے، جس میں حروف کلمات اور آیات کی تعداد مجموعہ فواصل سورت کی وجہ تسمیہ مقصود سورت ربط بین السورتین والآیات ناسخ منسوخ اسباب نزول سورہ کے فضائل حل لغات فروق بین المترادفات تفسیری سوالات خلاصہ مضامین اور بلاغت کے مقامات کو بہترین اسلوب کے ساتھ بیان کیا ہے، یہ تفسیر نہایت مختصر بے حد جامع علماء اور طلبہ دونوں کے لئے یکساں مفید ہے، اگر اس کو مکمل کیا جائے تو حضرت کے لئے بہترین صدقہ جاریہ ہوگی۔
۸۔ ہدیة المتسابقین فی کلام سید المرسلین ﷺ :اس میں چالیس احادیث ہیں، ترجمہ، لغات روات کے حالات اور فوائد حدیث کو بیان کیا گیا ہے، فوائد حدیث کو نمبر وار ذکر کرنے کا طریقہ عرب ملکوں میں رائج ہے، اس کی وجہ سے طلبہ میں حدیث فہمی کا ذوق پیدا ہوتاہے، یہ اسلوب قابلِ تقلید ہے۔
حضرت فلاحی کا اجمالی سوانحی خاکہ
اسم گرامی: عبدالرحیم
والد محترم: حاجی محمد ابراہیم پٹیل صاحب(تذکرہ پیچھے گذر چکا ہے)۔
والدہٴ محترمہ:ایک باخدا خاتون تھیں، جو صوم وصلوٰة کی سختی سے پابند تھیں، شوہر کی اطاعت اولاد کی تربیت کے ساتھ ساتھ اپنے گاوٴں میں آنے والی تبلیغی جماعتوں کی دعوت کا بہت اہتمام فرماتی تھیں، جو ۷/ اکتوبر ۲۰۱۶ء کو انتقال فرماگئیں۔ رحمھا اللہ رحمة واسعة
جائے ولادت
رویدرا ،ضلع بھروچ گجرات، جو مشہور مبلغ عالم دین حضرت جی مولانا انعام الحسن کے خادم خاص مولانا محمد بن سلیمان جھانجی کا بھی وطن ہے۔
تاریخ ولادت: ۱۸/ اگست ۱۹۶۳ء
حضرت والا کے بھائی بہن
دو بھائی ہیں بڑے بھائی شارح بخاری حضرت مفتی عبداللہ صاحب مدظلہ خلیفہ حضرت باندوی بانی مظہر سعادت ہانسوٹ بھروچ ہیں اورچھوٹے بھائی مولانا عبدالرحمن صاحب مدرس مظہر سعادت ہیں اورنو بہنیں ہیں جن میں سے ایک انتقال فرما گئیں ہیں۔
مکتب کی تعلیم
رویدرا میں ہوئی ۲۰/ پارے حفظ ، سہارنپور میں حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رام پوری خلیفہ حضرت تھانوی ناظم مظاہر علوم کے پاس کئے، اُس وقت جب آپ اپنے برادر کبیر کے ساتھ وہاں مقیم تھے، بقیہ ۱۰/ پارے ”متواد“ نامی گاوٴں میں جو نوساری میں واقع ہے مولانا اسمٰعیل صاحب سدیوت کے پاس مکمل کئے۔
فارسی دوم سے دورہ حدیث تک کی تعلیم
فلاح دارین ترکیسر ضلع سورت جہاں کا نصاب تعلیم نظام تربیت اور ٹھوس تعلیم بہت مشہور تھی، اوریہ ادارہ مفکر ملت فخر گجرات نمونہٴ اسلاف حضرت مولانا عبداللہ صاحب کاپودرویکے زیر اہتمام چل رہا تھا، جنھوں نے اس مدرسے کو ہندوستان کے بہترین مدارس کی صف میں لا کھڑا کیا تھا، جہاں ہر فن کے ماہر ذی استعداد اور صالح اساتذہ موجود تھے۔
مظاہر میں مزید ایک سال دورہ
۱۹۸۴ء میں مظاہر علوم سہارنپور میں داخل ہوئے، اوردورہٴ حدیث کی تعلیم حاصل کی، جہاں مختلف اساطین علم سے اکتساب فیض کیا، وہیں شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب جونپوریکی بارگاہ میں خصوصی مقام حاصل کیا۔
اسمائے اساتذہ مع کتب متعلقہ
(۱) رئیس جامعہ فلاح دارین حضرت مولانا عبداللہ صاحب کاپودرویسے آپ نے انشاء پڑھی ہے۔
(۲) حضرت مولانا ذوالفقار صاحب قاسمی(ایم پی) متوفی ۱۵/ اپریل ۲۰۱۰ء جو نہایت کامیاب مدرس، صاحب ذوق ،صاحب قلم اور صاحب نسبت عالم دین تھے، ان سے بوستان، علم الصیغہ، ہدایہ اولین، ہدایة الحکمة، جلالین ثانی ابو داوٴد شریف۔
(۳) مولانا ابرار احمد صاحب مجاز حکیم الاسلام داماد مولانا عبدالرحیم صاحبلاج پوری مصنف فتاویٰ رحیمیہ سے قصص اول دوم تمرین الدروس ، الدروس النحویة، ریاض الصالحین ثانی، تاریخ بنو امیہ، جلالین اول، الفوز الکبیر اور مسلم شریف ۔
(۴) مولانا شیر علی صاحب سے اصول الشاشی، ہدایہ آخرین ،ابن ماجہ شریف اورترمذی شریف۔
(۵) امیر شریعت گجرات مفتی احمد بیمات(جو علماء دیوبند کے عاشق تھے) سے بخاری شریف ۔
(۶) مولانا ایوب صاحب بندہ الٰہی سورتی سے اصول الشاشی نصف مشکوٰة اول مع نخبہ، نسائی شریف شمائل ترمذی اور موطا امام مالک۔
(۷) مفتی عبداللہ صاحب رویدروی دامت برکاتہم -جو آپ کے بڑے بھائی اورمربی تھے- سے شرحِ تہذیب ، شرح عقائد، موطا امام محمد، مشکوة ثانی، حسامی ،رشیدیہ اور طحاوی۔
(۸) مولانا اسماعیل صاحب دیسائی سے معلم الصرف اورنورالایضاح۔
(۹) مولانا قاسم صاحب آنٹی سے ہدایة النحو تلخیص المفتاح ، سفینہ البلغاء، شرح وقایہ ،ترجمہ نصف ثانی،القرأة الراشدہ ثالث اور شرح شذور الذھب ۔
(۱۰) مولانا یعقوب صاحب گورا سے ریاض الصالحین اول، تیسیر المنطق مرقات قدوری، ترجمہ اول اورنورالانوار۔
(۱۱) مولانا ایوب صاحب کو ساڑی سے مختارات اول مقاماتِ حریری مختارات ثانی اور متنبی۔
(۱۲) مولانا ابو بکر سعید صاحب سے، قصص القرأة الراشدہ اول دوم ۔
(۱۳) مولانا داوٴد کوٹھی سے، نحو میر، قواعد فارسی۔
(۱۴) قاری عباس صاحب، اور قاری صالح صاحب سے تجوید۔
(۱۵) مولانا رشید خانپوری (بھروچ) سے انشاء ۔
مظاہر علوم کے اساتذہ
شیخ یونس صاحب ، مفتی مظفر حسین صاحب، مفتی یحیٰ صاحب، مفتی عبدالعزیز صاحب رائے پوری، مولانا عاقل صاحب مدظلہ العالی ہیں۔
خلافت
حضرت مولانا الیاس صاحب مفتاحی قاسمی دامت برکاتہم خلیفہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی وبانی مدرسہ بیت العلوم پپلی مزرعہ ، یمنانگر ہریانہ سے حاصل تھی۔
مرغوبات
لباس میں سفید لباس عطر میں عودخس اور شمامہ مشروبات میں روح افزا، پھلوں میں موسم کے ہر پھل کے ساتھ آم انار اور انگور بہت پسند تھے، کھانوں میں روٹی کے ساتھ چاول چکن کے بجائے دوسرا گوشت پسند تھا۔
حلیہٴ مبارکہ
قدمیانہ، رنگ انتہائی صاف،پیشانی کشادہ، آنکھیں خوبصورت، ناک سیدھی ،ڈاڑھی گھنی اورچہرہ روشن وباوقار تھاجس پر ذہانت وذکاوت کے آثار نمایاں تھے ۔
دعوت وتبلیغ میں شرکت
آپ نے ۱۹۸۵ء میں ایک سال کا وقت لگایا تھا۔
ابتدائی تدریس
۱۹۸۶ء میں ایک سال جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ بھروچ (گجرات) میں بحیثیت مدرس تقرر پھر ۱۹۸۷ء سے تا حیات مکمل ۳۳/ سال تک جامعہ اشاعت العلوم میں مختلف کتابیں پڑھاتے رہے۔
نکاح
بتاریخ ۷/جون ۱۹۸۷ء کو حافظ یعقوب صاحب ساکن کو ساڑی کی صاحبزادی سے ہوا۔
زیارت حرمین شریفین
آپ نے دس سے زائد عمرے اورتین حج کئے ہیں۔
غیر ملکی اسفار
موزمبیق، برما، کینیڈا، افریقہ، برطانیہ، سعودی عرب، کویت، موریشس وغیرہ۔
اولاد
آپ کے پسماندگان میں تین صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں ہیں:
(۱) بڑے صاحبزادے مفتی ریحان سلمہ ہیں جو جامعہ اکل کوا ہی میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔
(۲) دوسرے صاحبزادے حافظ ریان سلمہ ہیں جو ابھی ابھی حافظ ہوچکے ہیں، عالمیت کا ارادہ ہے۔
(۳) تیسرے صاحبزادے رضوان سلمہ ہیں، جو درجہٴ حفظ میں ہیں ۲۴/ پارے حفظ کر چکے ہیں۔
آپ کے چار دامادوں کے نام حسب ذیل ہیں
(۱) مولانا عبید اللہ صاحب جو آپ کے بڑے بھائی اور استاذ کے صاحبزادے ہیں، ہانسوٹ سے فارغ ہیں، تحفة بیٹی، حضرت کی تالیف کردہ کتاب ان ہی کی اہلیہ کے لئے لکھی گئی ہے ۔
(۲) مولانا اسماعیل صاحب فلاحی، ساکن کٹھور، ضلع سورت گجرات ۔
(۳) مولانا اسعد صاحب سورتی جو جامعہ حسینیہ سورت سے فارغ ہیں۔
(۴) قیس بھائی، جو بمبئی کے ایک تاجر ہیں۔
بخاری کی تدریس
۲۰۱۴ء میں ہر جمعرات کو مدرسہ رشیدیہ نانی نرولی ، مانگرول، ضلع سورت میں بخاری شریف پڑھائی ہے۔
اس سال کی زیر تدریس کتابیں
مشکوٰة اول، مسلم ، بیضاوی، ہدایہ اولین
تلامذہ
کشمیر سے کنیا کماری تک آسام سے کوکن تک پورے ملک کی مختلف ریاستوں میں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں جو مختلف دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ہم درس ساتھیوں کے نام
(۱) مولانا احمد صاحب ٹنکاروی، دامت برکاتہم، استاذ فلاح دارین ترکیسر ۔
(۲) مولانا خلیل صاحب راندیری (جو صوفی باغ راندیر میں مدرس ہیں)۔
(۳) مولانا عبدالرشید صاحب مقیم کینیڈا۔
(۴) قاری شبیر صاحب جو گواڑی مقیم برطانیہ ۔
(۵) مولانا اسماعیل صاحب چوکسی مقیم زمبابوے۔
(۶) قاری سعید عمر واڑی، مقیم امریکہ۔
(۷) مولانا محمد کولی کوساری مقیم برطانیہ۔
(۸) مولانا یونس صاحب کو ساریا مقیم افریقہ۔
(۹) مولانا سلیم بوڈھان صاحب کینیڈا ۔
(۱۰) مولانا ناصر صاحب مالدیپی۔
(۱۱) مولانا یعقوب صاحب مالودی۔
(۱۲) مولانا زبیر صاحب امریکہ ۔
(۱۳) مولانا صابرصاحب امریکہ۔
(۱۴) مولانا ہارون صاحب امریکہ۔
(۱۵) مولانا نذیر صاحب لوناواڑی۔
(۱۶) قاری صدیق صاحب کڑی ۔
مرض الوفات
۱۰/ اپریل کو قے ہونے پر جامعہ میں واقع دواخانہ پہنچ کر دوا لی گئی گھر آگئے، دوسری بار قئے ہونے پر ڈاکٹر صاحب نے گھر آکر دیکھا، دوا دی، MD کو بتانے کے لئے کہا تو دوسرے دن ۱۱/ اپریل کو اکل کوا سے چل کر اپنے وطن رویدار کے قریب کھروڑ کے Welcare ہاسپٹل میں شام ۴/ بجے شریک ہوئے، پھر ۱۲/ اپریل کو دو دن کی معمولی بیماری کے بعد جان جاں آفریں کے سپرد کر دی۔
تاریخ وفات
۱۷/ شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ ۱۲/ اپریل بروز اتوار بوقت صبح ۸/ بج کر تقریباً۲۵/ منٹ ۔
مقامِ وفات
Welcare ہاسپٹل کھروڑ ضلع بھروچ گجرات۔
عمر مبارک
بوقت انتقال ۵۶/ سال، ۷/ماہ ۲۵/ دن تھی۔
نماز جنازہ
آپ کے داماد مولانا عبید اللہ صاحب زید مجدہم نے پڑھائی، پھر بڑے صاحبزادے مفتی ریحان سلمہ نے پڑھائی۔
تدفین
رویدرا کے عام قبرستان میں ہوئی، جہاں آپ کے والدین پہلے سے آرام فرما تھے۔
شرکاء جنازہ
لاک ڈاوٴن کی وجہ سے قریبی رشتہ دار اوروطن کے لوگ ہی شریک ہو سکے۔
قبر میں اتارنے والے حضرات
چھوٹے بھائی مولانا عبدالرحمن صاحب حفظہ اللہ داماد مولانا عبید اللہ صاحب زید مجدہ، دو صاحبزادے، مفتی ریحان سلمہ اور حافظ ریان سلمہ ہیں ۔
حضرت مرحوم کا مزاج ومذاق اور خصوصیات
۱) طلبہ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ان کا مقصد زندگی تھا ۔
۲) نظم ونسق کی اتنی مہارت تھی کہ سارے مفوضہ کام بحسن وخوبی انجام دیتے تھے۔
۳) طلبہ کے ساتھ ہمدردانہ اور مشفقانہ برتاوٴ بہت زیادہ تھا، جس کا اقرار فارغین جامعہ اور طلبہ نے تعزیتی مضامین میں کیا ہے۔
۴) طلبہ ، اساتذہ رشتہ دار اور دوست واحباب کی مختلف ہدایا کے ذریعہ دلجوئی کرنا ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔
۵) صلہ رحمی کا حد درجہ خیال تھا جس کا اقرار سارے رشتہ دار کرتے ہیں۔
۶) سنجیدگی کے ساتھ لطیف طنز ومزاح کے عادی تھے ایسا لگتا تھا کہ انھوں نے طنزیات آزاد کو خوب پڑھا ہے، اور اکبر الٰہ آبادی کے دل دادہ ہیں۔
۷) دل میں رقت اور نرمی حد درجہ تھی، جس کا اندازہ مختلف موقعوں پر ہوتا تھا۔
۸) بزرگان دین سے عقیدت بہت تھی، اور کیوں نہ ہوتی، انھوں نے کم عمری میں ۲۰/ پارے حضرت اقدس شاہ اسعد اللہ صاحب رام پوریخلیفہ حضرت تھانویکے پاس حفظ کئے تھے۔
۹) دوستی نبھانے کی عادت ایسی تھی کہ دوستوں کو وقفے وقفے سے فون کرکے خیریت دریافت کرتے رہتے۔
۱۰) قرآن کریم سے اتنا گہرا تعلق تھا کہ آخر لمحات میں بھی طلبہ کو قرآن فہمی کا پیغام دے کر گئے۔
۱۱) دور اختلاف میں اکابرین تبلیغ کے بارے میں کچھ کہنے سے کف لسانی کئے ہوئے تھے۔
۱۲) لوگوں کی مختلف خوبیوں کا اعتراف کرنا ان کی ہمت افزائی کرنا ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی۔
۱۳) آپ کے اندر نزاع کی صورت کو حسنِ تدبیر سے دور کرنے کا بہترین سلیقہ موجود تھا۔
۱۴) اسباق اور خطابات میں تلخیص وترتیب قابل دیدوشنید تھی۔
۱۵) تنقید اور غیبت سے کوسوں دور تھے۔
۱۶) ہمیشہ اپنے اساتذہ سے ملاقات کرتے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی فکر فرماتے تھے۔
۱۷) جامعہ اشاعت العلوم کے تمام اساتذہ سے برادرانہ اور ہمدردانہ سلوک تھا۔
۱۸) تیقظ اور بیداری اتنی تھی کہ کوئی نہ دھوکہ دے سکتا تھا اور نہ وہ دھوکہ کھاتے تھے۔
۱۹) رئیس الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی حفظہ اللہ سے گہری عقیدت تھی اور ان کی منشاء کو پورا کرنے کی ہمیشہ فکر کرتے تھے۔
۲۰) وہ اپنے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب حفظہ اللہ -جو ان کے استاذ ومربی تھے- سے محبت عشق کے درجہ میں رکھتے تھے، ان کی ذہانت صلاحیت اور تصانیف کا ہمیشہ تذکرہ کرتے تھے۔
چند ملفوظات وارشادات
حضرتِ والا کے محفوظ شدہ بیانات کے چند اقتباسات ہیں جو پیش کئے جارہے ہیں:
۱۔ فرمایا: قرآن کریم نے جس کو حرام کیاہے اس کو حلال کرنے والا کبھی بھی چین اور اطمینان کی زندگی نہیں گزار سکتا۔
۲۔ فرمایا: ہماری جلوت سے زیادہ خلوت اللہ کے ذکر سے معمور ہونا چاہئے جب یہ چیز نہیں ہوگی تو باطل طاقتیں اپنا لقمہ بنانے کی کوشش کریں گی۔
۳۔ فرمایا: جب تک ہم ایک دوسرے کو معاف نہیں کریں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ احترام کا معاملہ نہیں کریں گے وہاں تک ہماری کبھی ترقی نہیں ہوسکتی۔
۴۔ فرمایا: شریعت کا ذوق آپس میں ٹکرانے اور لڑانے کا نہیں ہے؛ بلکہ محبت بھری زندگی گزارنے کی تعلیم رسول پاک ﷺ کی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔
۵۔ فرمایا: کسی کے ساتھ کسی مسئلہ میں اختلاف ہو کسی کے ساتھ کسی چیز میں دوری ہو تو ایسے موقع پر اس کی غیبت کرنے کے بجائے تعریف کی جائے، یہی وہ اصول ہے، جس کی وجہ سے پرائے اپنے بنتے چلے جاتے ہیں۔
۶۔ فرمایا: ایک ہے استعداد رمضان اور اور ایک ہے استقبال رمضان اور ایک ہے اعمال رمضان تینوں کی فکر ضروری ہے۔
۷) حفاظ سے فرمایا:آپ کے سینے میں اللہ کا کلام ہے،سرِّ الٰہی ہے، علمِ الٰہی ہے اور علمِ اعظم ہے (جس میں اسمِ اعظم بھی ہے)، تمہیں کسی کے پاس اسم اعظم سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ تم خود حاملِ علمِ اعظم اورحاملِ اسمِ اعظم ہو، اس لئے اپنے مستقبل پر نظرڈالو، اپنی تہی دامنی پر رنج نہ کرو۔
۸) عوام سے فرمایا: ہمارے معاشرہ میں مسلمانوں کی اکثریت اذان کی اہمیت وعظمت، فضائل ومسائل سے ناواقفیت کی بنا پر اذان کو عبادت نہیں سمجھتی، موٴذن کو اللہ کا منادی نہیں جانتے بلکہ موٴذن کے ساتھ ایک جاروب کش وبھنگی جیسا معاملہ کرتے ہیں۔
۹) دینی مدارس کے اساتذہ سے فرمایا: مدرس کے مقبول بننے کے رازہائے سربستہ یہ ہیں:انما الاعمال بالنیات اس سے اعمال روحانی اور نورانی بنتے ہیں اورمقبولیت کی خشت اول ہیں۔ جمال ومنال تو وہبی اور عطائی ہیں جبکہ کمال کسبی ہے اسی لئے تو کہا گیا ہے: ”کسبِ کمال کن کہ عزیزِ جہاں شوی“ ایک ہے نام اور ایک ہے کام ان دونوں کی مطابقت سے ایک تیسری چیز پیدا ہوتی ہے جسے کہتے ہیں: ”مقام“۔
ذوق شاعری
حضرت والا جہاں اچھے نثرنگار تھے وہیں آ پ کو شعر وشاعری سے بھی بڑی انسیت تھی، آپ موقع کے مناسبت سے ایسے معنی خیز اشعار پڑھتے تھے کہ سامعین دادِ تحسین دئے بغیر نہ رہتے، حضرت کی زبان سے سنے گئے مختلف اشعار میں سے چنددرج ذیل ہیں:
۱
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ
مجھے کام اپنے ہی کام سے
تیرے ذکر سے تیری فکر سے
تیری یاد سے تیرے نام سے
۲
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہ رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
۳
حسن پر مرتا نہیں مرتا ہوں میں تو چار پر
ناز پر، اندازپر، رفتار پر، گفتار پر
۴
حسنِ صورت چند روزہ حسن سیرت مستقل
اس سے خوش ہوتی ہے آنکھیں اس سے خوش ہوتا ہے دل
۵
خدا کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں
خیال رزق ہے رازق کا خیال نہیں
۶
بجا کہے حاکم اُسے بجا سمجھو
زبانِ خلق کو نقارہٴ خدا سمجھو
۷
بے عشق محمد جو پڑھاتا ہے بخاری
آتا ہے بخار اس کو بخاری نہیں آتی
۸
فدا ہوں آپ کی کس کس ادا پر
ادائیں لاکھ ہیں، بے تاب دل ایک
۹
خلاف پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بہ منزل نہ خواہد رسید
۱۰
ما قال لا قط الا فی تشھدہ
لو لا التشھد لکان لاہ نعم
۱۱
مت کر غرور اتنا اپنی ترقی پر ناداں
ہم نے چڑھتے سورج کو بھی ڈھلتے ہوئے دیکھا ہے
۱۲
پہلے قوت فکر وعمل فنا ہوتی ہے
تب کسی قوم کی شوکت کو زوال آتا ہے
حضرت مولانا اس شعر کو مثبت انداز میں یوں کہتے تھے:
پہلے قوتِ فکر وعمل بحال ہوتی ہے
تب کسی قوم کی شوکت کو کمال آتا ہے
لطائف اورمزاحیہ باتیں
آپ خوش مزاج اور ظریف الطبع تھے جب سامعین سنتے سنتے تھک جاتے تو آپ کوئی ایسا لطیفہ بیان فرماتے سب ہنس پڑتے، یہاں مختلف لوگوں کے حوالے سے آپ سے سنی گئی چند مزاحیہ باتوں اورلطائف کو نقل کیا جاتا ہے:
۱- دکنی محاورے میں ہاں میں ہاں ملانے اور جی حضوری کرنے کو چمچہ گری کرنا کہتے ہیں، اس پر حضرت والا نے اپنے استاذ محترم کا ملفوظ سنایا کہ اسی لئے چمچہ کو بطور سزا کے باورچی خانے میں الٹا لٹکایا جاتا ہے۔(ناقل راقم الحروف)
۲- فرمایا: گلاس کو گلاس اس لئے کہتے ہیں کہ وہ گلے کی آس ہوتا ہے۔(ناقل مولانا قاسم صاحب حیدرآبادی)
۳- فرمایا: پیشانی کو پیشانی اس لئے کہتے ہیں کہ آدمی کو خوشی یا غم جو کچھ پیش آتا ہے اس کا اندازہ چہرے اورپیشانی سے ہوتا ہے۔(ایضا)
۴- ذی حیثیت مہمان کے آنے پر میزبان نے استقبال میں کھڑے لوگوں سے کہا حضرت کو پیشاب کرو، مہمان حیران تھے کہ یہ استقبال کی کونسی قسم ہے، مہمان کی حیرانی کو دیکھ کر میزبان نے کہا حیرانی کی بات کیا ہے، کہہ رہاہوں ”پیشِ آب کرو“ یعنی پانی پیش کرو۔(ایضا)
۵- ایک شاگرد نے آپ کی خدمت میں پھول پیش کیا تو فرمایا: میرے استاذ حضرت مولانا ذو الفقار صاحب قاسمی نے طالب علم کے پھول پیش کرنے پر ایک شعر پڑھا تھا وہ یہ ہے:
پھول لے کے پھول آیا
پھول کر میں نے کہا
پھول لے کر آئے کیوں ہو
تم تو خود ہی پھول ہو
(ناقل: مولانا مستقیم صاحب بھاگل پوری)
۶- فرمایا: ایک پٹھان صاحب جامن خریدکر لائے اس میں اُسی رنگ کا ایک کیڑا نکلا تو پٹھان نے اس کیڑے کو پکڑ کر کہا ہم تجھے چھوڑے گا نہیں کیوں کہ تو تول میں آیا ہے یہ واقعہ اس وقت نقل فرماتے تھے جب میزبان آپ کو خوب استعمال کرتے اوریوں فرماتے: آپ ہم کو چھوڑیں گے نہیں کیوں کہ ہم تول میں آئے ہیں۔(ناقل: قاری ساجد صاحب، سیندھوا)
۷- چائے کے بارے میں فرمایا کہ
۱) وہ لب ریز ہو یعنی تھوڑی نہ ہو بلکہ پیالی بھر کر ہو۔
۲) لب سوز ہو، یعنی ٹھنڈی نہ ہو بلکہ گرم ہو۔
۳) لب دوز ہو، یعنی مزیدار ہو بد مزہ نہ ہو۔
۴) پھر حضرت نے اس پر اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ہر روز ہو۔ (ایضا)
۸- حضرت بعض اوقات اپنی گفتگو کو قسط وار مکمل کیا کرتے تھے ایک مرتبہ شروع سال میں انجمن اصلاح الکلام کے ابتدائی پروگرام میں یہی طرز اختیار فرمایا کہ اپنی بات کرتے، پھر ایک طالب علم کی تقریر یا حمد ونعت ہوتی، پھر حضرت اپنی بات آگے بیان کرتے، جب اس طرح ہوتے ہوتے گفتگو مکمل ہوئی تو حضرت نے ایک لطیفہ (موقع کی مناسبت سے) سنایا کہ ایک طالب علم ہر باری میں موسی علیہ اسلام کے عنوان پر ہی تقریر کرتا، جب چند ہفتے گذر گئے تو ذمہ دار نے کہا کب تک ایک ہی عنوان پر تقریر کرتے رہوگے؟ تو طالب علم نے جواب دیا کہ جب تک فرعون غرق نہیں ہوتا ۔(ناقل: مولانا محمد عامر اشاعتی، چھترپوری)
حضرت والا کی بندے پر کرم فرمائیاں
(ان باتوں کے اظہار سے مدح سرائی ہر گز مقصود نہیں، بلکہ طلبہ کے ساتھ ہمدردی اورانہیں آ گے بڑھانے کا جذبہ حضرت والا میں کس قدر تھا اس کا اظہار مقصود ہے)۔
پہلی زیارت
۱۹۹۰ء میں بندے نے جامعہ میں ایک سال حفظ قرآن کا دور کیاہے، تجوید کا گھنٹہ حضرت الاستاذ قاری سلیمان صاحب رویدروی دامت برکاتہم (جو ایک باخدا با رعب اور با صلاحیت شخصیت ہیں، تجوید کے بنیادی قواعد اس انداز سے سمجھاتے ہیں کہ چند ہی دنوں میں طلبہ قواعد کی رعایت کے ساتھ تلاوت کرنے لگتے ہیں، اللہ تعالیٰ عافیت کے ساتھ حضرت کے سایہ کو تادیر قائم رکھے) کے پاس تھا۔
حضرت الاستاذ کو میں نے متعدد بار ان سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھا، نیز جامعہ کی قدیم عمارت میں واقع عارضی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے یا پڑھاتے ہوئے، حضرت پر نگاہ پڑتی تھی، اس وقت مسجد میمنی نہیں تھی۔
شفقت کا آغاز
۱۹۹۱ء جو میرا عربی اول کا سال تھا، تاریخ اسلام کے چند اسباق آپ سے پڑھنے کا موقع ملا، حضرت والا کی اردو عبارت خوانی کا انداز قابل دید تھااور املا نویسی میں بے شمار ہم وزن الفاظ کو سننے کا موقع پہلی بار ملا، اسی دوران کسی بات سے خوش ہو کر ہمت افزائی کرتے ہوئے حضرت نے مجھے بیس روپئے عنایت فرمائے تھے، یہ شفقت اور تعلق کی ابتداء تھی۔
تقریری مسابقہ کے لئے بندے کا انتخاب
چند دنوں کے بعد مدرسہ سراج العلوم دھولیہ مہاراشٹر میں ”صوبہ مہاراشٹر“ کے دینی مدارس کے طلبہ کے مابین تقریر اورحفظ قرآن کا مسابقہ تھا، اس کی ایک فرع کا موضوع تھا:” مدارس اسلامیہ کی اہمیت اور ضرورت“۔ جامعہ سے تقریری مسابقہ میں حصہ لینے کے لئے صرف ایک طالب علم کو بھیجنا تھا، حضرت والا کی نظر انتخاب بندے پر پڑی، آپ نے حضرت الاستاذ قاری سید عارف الدین صاحب دامت برکاتہم سے تقریر لکھوا کر میرے حوالہ کی، بار بار تقریر سن کر اس کے نوک وپلک کو درست کیا، اس مسابقے میں بندے کو تیسرا انعام ملا، اور حفظ قرآن کی فرع میں قاری رئیس بلساڈوی کو پہلاانعام ملا، دھولیہ کا سفر حضرت رئیس الجامعہ مدظلہ العالی کے ساتھ ہوا تھا۔
حسنِ انتخاب پر خوشی:
مسجد میمنی میں عصر بعد منتخب طلبہ یکے بعدیگرے جہری تلاوت کرتے ہیں، جس سے طلبہ میں تنافس اور حسن تلاوت کا ذوق پیدا ہوتا ہے، ایک دن عصر بعد حضرت والا نے تلاوت کے لئے مجھے اشارہ کیا تو میں نے پچھلی رات چوں کہ زلزے کا خفیف سا جھٹکہ محسوس کیا گیا تھا، اس کی مناسبت سے سورہٴ زلزال تلاوت کی تو حضرت والانے مسجد سے نکلتے ہوئے حسنِ انتخاب پر خوشی کا اظہار فرمایا۔
حسنِ تلاوت پر مسرّت:
حضرت والا موسم کے اعتبار سے عمدہ عمدہ عطر استعمال فرماتے تھے، عود، خس، شمامہ، آپ کے پسندیدہ عطر تھے، آپ کے دولت خانے میں عطر کی مختلف خوبصورت شیشیاں جمی رہتی تھیں، ایک مرتبہ حضرت نے عطر لگایا میں نے اس وقت اپنی قسمت پر ناز کیا، پھر فرمایا: عطر لگانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ قرآن کریم اچھا پڑھتے ہیں۔
مطالعہ گاہ سے استفادہ کی اجازت
استاذ محترم محنتی طلبہ کے بڑے قدر داں تھے، انہیں سہولت پہنچانے کی آپ بہت فکر فرماتے تھے، استاذ عالی مقام نے بندے کو اپنی مطالعے گاہ کی چابی عنایت فرمائی تھی، جس میں مختلف علوم وفنون کی بہت ساری کتابیں تھیں کہ میں جب چاہوں مطالعہ کروں۔
اکابر سے مکاتبت پر اظہار فرحت
اس زمانے میں طلبہ کے خطوط بعد جمعہ حضرت والا تقسیم فرماتے تھے، بندے نے عارف باللہ حضرت قاری صدیق صاحب باندویکو خط لکھا تھا اس کا جواب حضرت کے ہاتھ لگا تو بہت خوشی کا اظہار فرمایا، حضرت رئیس الجامعہ دامت برکاتہم سے بھی اس کا تذکرہ کیا پھر فرمایا: اکابر سے تعلق رکھنا سعادت کی بات ہے۔
بیمار ہونے پر علاج کی فکر
حضرت الاستاذ اپنے بچوں کی طرح میرے لئے بھی باپ جیسے ہی تھے، پورے پانچ سال میں نے کوئی اجنبیت محسوس نہیں کی حضرت پیار سے کبھی قاری صاحب کبھی صوفی جی اور کبھی بیٹا کہہ کر پکارتے ، بندہ بیمار تھا اس وقت جامعہ میں آج جیسا مستشفیٰ السلام نہیں تھا، طلبہ علاج کے لئے شہر کے دواخانوں سے رجوع ہوتے تھے، حضرت عصر بعد مجھے شہر لے گئے، ڈاکٹر سے نسخہ لکھوایا، اپنے پیسوں سے دوا خرید کر عنایت فرمائی اور اپنے گھر سے ٹفن بھیجا، اس واقعہ سے طلبہ کے ساتھ آپ کی شفقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر تھی۔
حضرت باندوی کی خدمت میں شریک کروالینا:
آپ صلحاء اور اولیاء کے عاشق تھے، ان کی خدمت کو سعادت سمجھتے تھے، ایک مرتبہ فرمایا: حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب نے جس مصلیٰ پر نماز پڑھی تھی، وہ میرے پاس ہے، جامعہ میں حضرت باندوی کی آپ خدمت کر رہے تھے، میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے بھی خدمت میں شریک کر لیا، ایک مرتبہ آپ نے مجھے حضرت مسیح الامت کی ذکر بالجہر والی کیسیٹ عنایت فرمائی، ابھی تک ذکر کی وہ آواز بخدا کانوں میں رس گھول رہی ہے۔
آپ جہاں جاتے وہاں کے بزرگوں سے ملاقات کر کے دعائیں لینا اپنی سعادت سمجھتے؛ چنانچہ ایک مرتبہ شہر حیدرآباد تشریف لائے، تو میں بھی ساتھ تھا، ہمارے صوبہ کے امیر قطب وقت بزرگوں کے عاشق اور علماء کے قدرداں محترم نعیم اللہ خان صاحب سے ملاقات کی دوران گفتگو عرض کیا کہ میں سال لگانے کے دوران عرب جماعت لے کر آیا تھا، جس میں فلاں فلاں نامور عرب حضرات تھے، امیر محترم نے بھی حضرت کی خوب عزت کی دیر تک مختلف باتیں ہوئیں، پھر رخصتی سلام ومصافحے کے بعد ہم لوگ وہاں سے چلے آئے۔
اجتماع دھولیہ میں حضرت کے ساتھ اسٹیج پر حاضری
اکل کوا کا سابق ضلع دھولیہ میں حضرت جی والا اجتماع تھا، حضرت رئیس الجامعہ دامت برکاتہم نے اپنے صاحبزادے مرحوم مولانا سعید صاحب وستانوی کے ساتھ مجھے بھی اپنی کار میں سوار کر لیا تھا، بارش ہوئی، اجتماع بحسن وخوبی اختتام کو پہنچا، علماء کے پنڈال میں حضرت مولانا عمر صاحب پالنپوری کا بیان سننے کا موقع ملا، پھر لاکھوں کی بھیڑ میں جب حضرات اساتذہ کے ساتھ حضرت فلاحی تخت پر پہنچے تو مجھے بھی ساتھ کرلیا، بندہ نے حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب کا پہلی بار دیدار کیا، پھر استاذ محترم نے از راہِ شفقت واپسی میں اپنی کار میں سوارکرالیاتھا۔
خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا ایک نمونہ
جامعہ کے شعبہ النادی العربی کے سالانہ اختتامی پروگرام کی نظامت استاذ محترم حضرت مولانا عبدالرحمن ملی ندوی دامت برکاتہم نے میرے ذمہ کی تھی، اس کے چند دنوں بعد بروز جمعہ بعد عصر رئیس جامعہ دامت برکاتہم کی بڑی صاحبزادی کا نکاح تھا، علماء ومشائخ کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی، استاذ محترم حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نے اس دن جمعہ کا خطبہ اور نماز پڑھانے کا حکم دیا، اساتذہ کی نگرانی میں تیاری کروائی ؛ چنانچہ نماز کے بعد مفکر ملت حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی نے خوشی کا اظہار فرمایا۔
مزاح کا ایک نمونہ
عربی پنجم میں ہم لوگ عشاء بعد ادھر اُدھر بیٹھے تھے، گزرتے ہوئے فرمایا: اچھا الگ الگ مراقبہ میں بیٹھے ہو، کچھ دنوں بعد ریاض الصالحین کے پرچے میں جو سوالات آئے ان میں ایک سوال باب المراقبہ سے متعلق تھا۔
حضرت کے ساتھ ہانسوٹ کا سفر
عربی پنجم کی تعلیم مکمل ہوئی سالانہ تعطیلات کا اعلان ہوا، طلبہ اپنے اپنے گھر جا رہے تھے، حضرت نے فرمایا میں ہانسوٹ جا رہا ہوں، تم بھی ساتھ چلو، مدرسہ دکھاوٴں گا، وہاں سے ہوتے ہوئے گھر جانا، چنانچہ میں حضرت کے ساتھ ہانسوٹ پہنچا، پہلی مرتبہ جامعہ مظہر سعادت کو دیکھنے کا موقع ملا، حضرت مفتی صاحب مدظلہ العالی ہاپوڑ میرٹھ سے آئے ہوئے چند علماء کو مدرسہ کا معائنہ کرا رہے تھے، میں بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا، حضرت مفتی صاحب مدظلہ مدرسہ سے متعلق ایک ایک چیز بتا بتا کر اس کی اہمیت کو جس انداز سے اجاگر کر رہے تھے، وہ منظر قابل دید تھا۔
مظاہر علوم سہارنپور سے حضرت مولانا زین العابدین صاحب معروفی تشریف لائے تھے، وہ کتب خانے میں مختلف کتابیں دیکھ رہے تھے، اورفرما رہے تھے، یہاں کچھ کتابیں ایسی ہیں، جو مظاہر علوم کے کتب خانہ میں بھی نہیں ہیں۔
حضرت مفتی صاحب کے کمرے میں مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم کی تصنیف کردہ ” حلال وحرام“ سینکڑوں کی تعداد میں رکھی ہوئی تھی، حضرت مفتی صاحب نے مجھے ایک نسخہ اورہزار روپئے عنایت فرمائے، ان کی دریادلی اورشفقت پر رشک آیا، وہیں مفتی عمر عابدین بن مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات ہوئی، وہ اس وقت وہاں عربی سوم کے طالب علم تھے، وہ اور میں ممبئی سے ہوتے ہوئے بذریعہ ٹرین حیدرآباد پہنچے، پھر میں اگلے سال گھریلو عوامل کی وجہ سے اکل کوا نہ جا سکا، دارالعلوم حیدرآباد میں داخلہ لے کر پڑھنے لگا جب حضرت کو اطلاع ہوئی تو ناراضگی کا اظہار فرمایا، مگر پھر عذر کو قبول فرما لیا۔
حضرت کے ساتھ رڑکی کا سفر
۱۹۹۷ء کی بات ہے جب میں دارالعلوم دیوبند میں دورہٴ حدیث کا طالب علم تھا، حضرت کے ساتھ رڑکی (اتراکھنڈ) کے قریب کسی گاوٴں کے مدرسہ میں جانا ہوا، جہاں آپ کے چاہنے والے تھے، واپسی میں فرمانے لگے:
ع: بنا ہوں شاہ کا مصاحب پھرا ہوں اتراتے
یہ سب حضرت رئیس الجامعہ کا طفیل ہے کہ لوگ مجھ سے مل رہے ہیں ورنہ میری کوئی اوقات نہیں۔
تصنیفی کام پر اظہار مسرت
آٹھ سال پہلے جامعہ اشاعت العلوم کے زیر اہتمام باب العلوم ورنگل (تلنگانہ) کے زیر انتظام صوبائی مسابقہ صوبیداری مسجد ورنگل میں منعقد تھا، ہمارے ادارے خیر المدارس حیدرآباد کی جانب سے قرأت کی فرع میں عزیزم عرفان سلمہ ساکن کاما ریڈی حفط احادیث میں عزیزم ایاز سلمہ ساکن بورہ بنڈہ تفسیر میں عزیزم رحیم الدین سلمہ ساکن شنکر پلی شریک ہوئے تھے، تینوں کی اپنی اپنی فرع میں پہلی پوزیشن آئی، حضرت والا بہت خوش ہوئے اسی وقت میں نے اپنی غیر مطبوعہ کتابیں، تیسیر النحو، تیسیر الصرف، اور تمرین المنطق دکھلائی، خوشی سے جھوم گئے، فرمایا: اکل کوا آوٴ، اساتذہ سے تقاریظ لکھوائیں گے، پھر حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم کے پاس ہانسوٹ بھی جائیں گے، چنانچہ چند دنوں کے بعد بندہ اکل کوا پہنچا، تو تیسیر النحو پر تقریظ استاذی ومولائی حضرت قاری سید عارف الدین صاحب تعلیمی دامت برکاتہم اور میرے محسن استاذ قاری اقبال صاحب دیگامی دامت برکاتہم سے۔
تیسیر الصرف پر نمونہٴ اسلاف اورمیرے شفیق استاذ شیخ الحدیث حضرت مولانا رضوان الدین صاحب معروفی دامت برکاتہم سے ۔
تمرین المنطق پر خود، مولانا افتخار صاحب سمستی پوری دامت برکاتہم اورہانسوٹ ساتھ لے جا کر اپنے برادر اکبر حضرت اقدس مفتی عبداللہ صاحب دامت برکاتہم بانی مظہر سعادت ہانسوٹ بھروچ سے لکھوائی، پھر کئی سال بعد آسان حل عبادت پر بھی تقریظ لکھی ، یہ وہ احسانات ہیں جن کا میں بدلہ چکانے سے قاصر ہوں۔
حضرت والا کی غریب خانے پر آمد
ورنگل سے حضرت اپنے رفقاء کے ساتھ حیدرآباد کے ایک علاقے مشیر آباد میں اپنے رشتہ دار (لسنیا والے) کے پاس تشریف لائے ، وہاں سے رات دیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہمارے گھر کے سامنے والی مسجد میں قیام کیا، (مسجد میں حضرت نے جہاں قیام کیا تھا، اس جگہ کو میں اب حسرت سے دیکھتا رہوں گا) ہمارے مدرسہ کے انعام یافتگان طلبہ کے ساتھ دیر تک بات کرتے رہے، صبح ۵/بجے فلائٹ تھی، جلدی بیدار ہو گئے، میں نے درخواست کی کہ حضرت رات دیر آنے کی وجہ سے ہمارے گھر میں داخل نہیں ہوسکے، اب جاتے جاتے اپنے مبارک قدم ڈالئے، چنانچہ حضرت ہمارے گھر اورکار خانے میں تشریف لائے،اہل خانہ سب سو ئے ہوئے تھے، برکت اورحفاظت کی دعائیں دیتے ہوئے ائیرپورٹ پہنچے۔
سال کے دوران رویدرا حاضری
فراغت کے بعد میں جماعت میں سال لگا رہا تھا، چلہ کی جماعت سورت میں تھی، حضرت سے فون پر بات ہوئی، عید الفطر کا موقع تھا، حضرت نے فرمایا: ملاقات کرو، میں اپنے بھائی کے ساتھ سورت سے انکلیشور پہنچا، جہاں ہم نے حضرت کی اقتداء میں ایک مسجد میں عید کی نماز پڑھی، وہاں سے ہم سب رویدرا پہنچے، حضرت مفتی صاحب سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا، میں نے استاذ محترم کی خدمت میں ” الرحیق المختوم“ پیش کی، حضرت مفتی صاحب نے ہم دونوں کو پانچ پانچ سو روپئے دیے، کھانے سے فارغ ہوکر پھر ہم دونوں اجازت لے کر جماعت کے پاس آگئے۔
خیر المدارس میں حضرت کی آمد خطاب اوردعا
مدرسہ سراج العلوم محبوب نگر (تلنگانہ) میں صوبائی مسابقہ تھا، حضرت والا سے میں نے خیر المدارس تشریف لانے کی درخواست کی : ائیرپورٹ سے محبوب نگر لے جانے والے لوگ بضد تھے کہ سیدھا محبوب نگر چلیں، مگر حضرت نے فرمایا تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی خیر المدارس ضرور جانا ہے، حضرت کو لینے کے لئے میرے ہم زلف اور مدرسے کے استاذ مولانا مدثر حسین صاحب قاسمی بیگم پیٹ ائیر پورٹ پہنچے تھے، میرا جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے جانا ضروری تھا، میں حضرت کو لانے کے لئے نہیں جاسکا، تو محبوب نگر لے جانے والوں نے کہا: جس شخص کی دعوت اور محبت میں آپ جا رہے ہیں، وہ خود غائب ہیں، حضرت نے جمعہ بعد جب ملاقات ہوئی تو فرمایا میں نے آپ کا دفاع کیا، اورانہیں معقول جواب دیا ہے، بہر حال حضرت نے طلبہ میں بیان فرمایا پھر محبوب نگر تشریف لے گئے، پھر چند ساتھیوں کے بعد ہم بھی رات تک اپنے مساہم طلبہ کو لے کر محبوب نگر پہنچ گئے۔
حکمیت کے فرائض انجام دینے کا حکم
چند سال پہلے کرناٹک کے صوبائی مسابقے میں حضرت حیدرآباد سے مجھے ساتھ لے گئے، اورمدرسہ شاہ ولی اللہ بنگلورمیں حکم بنایا، یہ ان کی ذرہ نوازی تھی۔
مولانا سعید صاحب وستانوی رحمة اللہ علیہ کے انتقال پر حضرت والا سے گفتگو
میرے رفیق درس مولانا سعید صاحب وستانوی کا جب انتقال ہوا تو حضرت والا سے فون پر بات ہوئی، میں نے عرض کیا کہ حضرت ابھی تو مرحوم سے ایک گھنٹہ پہلے بات ہوئی ، دکھ کے ساتھ تعزیتی کلمات ادا کیا، پھر وعدہ کیا کہ حضرت اہل خانہ کو پُرسہ دینے کے لئے اکل کوا حاضر ہوتا ہوں ، حضرت سے بعد میں بات ہوئی تو وعدہ یاد دلایا، افسوس کہ میں اعذار واسفار کی وجہ سے پہنچ نہ سکا، حضرت کو اپنے جواں سالہ بھانجے کے انتقال پر بہت غم تھا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مرحوم مولانا سعید صاحب اخلاق وعادت میں اپنے والد محترم کے مشابہ تھے، ہر ایک سے محبت کرنا نام لے کر پکارنا، مذاق کرنا، بیماروں کی عیادت کرنا، طلبہ کی ترقی کے سلسلے میں کوشاں رہنا، ملنے جلنے والوں کا علمی ومادی تحائف کے ذریعہ تعاون کرنا، اہل اللہ سے ملاقات کر کے اُن سے دعائیں لینا، ان کے اوصاف میں سے تھا۔
مرحوم کے ساتھ عربی اول سے عربی پنجم تک ۵/ سال رفاقت رہی، فراغت کے بعد سے لے کر وفات تک بہترین تعلقات رہے، جب بھی حیدرآباد آتے میرے پاس ہی قیام فرماتے، خوب ہنساتے، زمانہٴ طالب علمی کی باتیں یاد دلاتے کہ تجھے غصہ بہت تھا، تکرار میں ساتھیوں کی تھوڑی سی غفلت بھی برداشت نہ تھی، مجھ پر بھی کبھی کبھی خفا ہوتا تھا، فریش ہونے سے پہلے خیر المدارس میں بغرض علاج ۸/ دن اپنے رفقاء کے ساتھ قیام فرمایا، شعبہ دینیات سے متعلق تحریری کاموں کو مکمل کیا، پھر انہوں نے دو تین سال شعبان کی تعطیلات میں میرے پاس چند طلبہ کو نحو صرف اور منطق پڑھنے کے لئے بھیجا، طلبہ مطمئن ہو کر گئے، تین طلبہ کا داخلہ خیر المدارس میں کرایا، رمضان میں مدرسہ کا تعاون بھی کرواتے تھے ، نیز ہمیشہ مدرسہ کا تذکرہ اونچے الفاظ میں فرماتے ۔
ان ہی دنوں مجھے یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ شعبہٴ دینیات کے سالانہ مسابقے میں حیدرآباد سے جید قرّا کی جماعت لے آوٴ، میں دو تین دفعہ ،مختلف قرا وعلماء کو لے کر مفتی ابوبکر جابر قاسمی صاحب زید مجدہم کے ساتھ پہنچا، موصوف مطمئن رہے، مہمان قراء نے بھی جامعہ دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا۔
حیدرآباد میں پہلی مرتبہ سنن وآداب جو ۲۲/ سو سنتوں پر مشتمل ہے، اورجس کے مرتب مفتی ابو بکر پٹنی صاحب ہیں، ڈابھیل میں مدرس ہیں، مولانا سعید صاحب کے توسط منگا کر میں نے مختلف علماء وطلبہ میں تقسیم کی تھی، علماء نے اس کی افادیت کو خوب سمجھا، مرحوم سے میں نے زبردستی ”ضوابطہ نحویہ“ حاصل کی تھی، وہی کتاب میری تالیف ”آسان حل عبارت“ کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنی، مرحوم نے ”تیسیر النحو“ پر حضرت مولانا محمد علی بجنوری (استاذ دارالعلوم دیوبند) سے تقریظ لکھوائی جنہیں نحو وصرف میں سند کا درجہ حاصل ہے، نیز انہوں نے مجھے دو مرتبہ ممتحن کی حیثیت سے جالنہ بلایا، جس وقت وہ مدرسہ ابو بکر صدیق عنبر کے ناظم تھے۔
میرے دوست کی باتوں کے لئے پورا ایک دفتر چاہئے، چند باتیں میں نے ضمناََ بیان کی ہیں، اللہ تعالیٰ حضرت رئیس الجامعہ اور ان کی اہلیہ محترمہ کو صبر جمیل عطا فرمائیے، مرحوم کے پسماندگان کی پل پل حفاظت فرمائے اور اولاد کے مستقبل کو روشن فرمائے، اور میرے دوست کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے:
ع:خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
حیدرآباد سے تعلق خاص
آپ ہر سال کئی دفعہ حیدرآباد اوراس کے اطراف میں شاگردوں یا دوستوں یا متعلقین کی دعوت پر کبھی مسجد کے افتتاح کے لئے ،کبھی مدرسہ کے سالانہ جلسہ کے لئے ، کبھی نکاح کی تقریب میں شرکت کے لئے تشریف لاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے مولانا کی شخصیت میں ایسا مقناطیسی اثر رکھا تھا کہ جو ایک بار مل لیا وہ بار بار ملنے کا خواہش مند رہتا تھا، حیدرآباد میں آپ کے انتہائی قریبی اوربے تکلف دوست جناب امیر الدین حسینی عرف علیم خان صاحب ہیں میں نے متعدد مرتبہ حضرت سے ملاقات انہی کے مکان پر کی ہے،علیم صاحب بڑے باغ وبہار کے مالک ہیں، خوش مزاجی ، خندہ پیشانی سخاوت اورمخاطب کو اپنا بنانا ان کے اوصاف میں سے ہے، وہ مجلس میں خاموشی اور سنّاٹے کو پسند نہیں کرتے، اگر کسی نے نہ ہنسنے کی قسم کھائی ہو اور اُن کے ساتھ دو منٹ بیٹھ جائے تو اس کی قسم ٹوٹ جائے گی، علیم خان صاحب خوش مزاج اتنے ہیں کہ ان کے لطائف اورمزاحیہ باتوں کو جمع کیا جائے تو ایک کتابچہ تیار ہوسکتا ہے۔
وہ ہر کسی کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اوراس کو اہمیت دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے ملاقتیوں میں علماء، حفاظ، مبلغین ، وکلاء، ڈاکٹرس اور سیاستداں ہرقسم کے لوگ ہیں۔
حضرت مولانا مرحوم اسی طرح رئیس الجامعہ دامت برکاتہم اور ان کے خانوادے سے ان کا گہرا تعلق ہے، یہی صاحب ہیں جنہوں نے تقریبا ایک سال پہلے زبردستی رئیس الجامعہ دامت برکاتہم کو سکّوں میں تولا تھا۔حضرت رئیس الجامعہ دامت برکاتہم اورمولانا مرحوم کے مکان پر قیام کو پسند کرتے تھے، علیم صاحب کے دوست اور ہمارے عزیز جناب عبد الرحیم صاحب (مسورجی این اگربتی والے) بھی مولانا مرحوم سے بہت قریب ہوچکے تھے، مولانا نے ان کے نئے مکان پر رقت انگیز دعا کی تھی وہ بھی مولانا کی آمد پر ساتھ رہتے تھے ۔
علیم صاحب فرماتے ہیں کہ میں انتقال سے ۲۵ دن پہلے اکل کوا گیا تھا ، مولانا عبد الرحیم صاحب میری پر تکلف دعوت کی جس میں رئیس الجامعہ اوران کے لائق فرزند مولانا حذیفہ صاحب حفظہ اللہ کو بھی مدعو کیا تھا، کھانے کے بعد مزاحیہ باتیں ہوتی رہیں، جب انہوں نے اکل کوا سے واپسی کا ارادہ کیا تو مولانا مرحوم نے فرمایا: میں بھی حیدرآباد جارہاہوں اورسورت سے میری فلائیٹ ہے آپ لوگ بھی سورت تک میرے ساتھ چلنا، پھر وہاں سے ممبئی ہوتے ہوئے حیدرآباد جانا، چنانچہ انہوں نے حضرت کی کار کے پیچھے اپنی کار کردی، راستے میں بارڈولی سے پلسانہ جانے والی روڈ پر مولانا نے اپنی نھنی پوتری ”رُطیبہ“ کو اس کے نانا کے ذریعہ بلوایا، اس کے سرپر شفقت کا ہاتھ پھیرا، علیم خان صاحب کو بھی بتلایا، پھر حضرت سورت ایرپورٹ پہونچے اور یہ حضرات بذریعہ کار حیدرآباد آئے۔
انتقال سے چند روز پہلے کی یادگار ملاقات
۱۹/ مارچ ۲۰۲۰ء کو ظہر بعد مولوی قاسم جو انوار الھدی کشن باغ حیدرآباد کے مہتمم حضرت مولانا قطب الدین چشتی صاحب مدظلہ کے پوترے ہیں – جو حضرت کے شاگردِ خاص ہیں ان کے گھرانے سے حضرت کا گہرا تعلق تھا، انہی کی چھوٹی ہمشیرہ کے نکاح میں آپ تشریف لائے تھے، ان کے سینے میں حضرت کی یادوں اورباتوں کا ایک انبار ہے -نے فون کیا ، خیر خیریت کے بعد فرمایا حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب بات کرنا چاہتے ہیں، حضرت نے سلام کے بعد فرمایا سنا ہے کہ ماشاء اللہ آپ نے حضرت قاری سید عارف الدین صاحب کی حیدرآباد آنے پر اچھی خدمت کی ہے، میں نے دل میں کہا حضرات اساتذہ کے اتنے زیادہ احسانات ہیں کہ اگر زندگی بھر بھی ان کی خدمت کی جائے تو بہت کم ہے۔
میں ایک تقریب میں آیا ہوں، مغرب بعد فلاں مقام پر ملاقات کے لئے آجاوٴ، میں نے بہت کوشش کی اعضاء شکنی کی وجہ پہنچ نہ سکا، فون پر معذرت کی تو عذر قبول فرماکرخوب دعائیں دیں، میں نے مولانا قاسم سے پوچھا کہ صبح حضرت کا سفر کب ہے؟ انہوں نے کہا کہ ۹/ بجے فلائٹ ہے، ساڑھے سات بجے ائیرپورٹ پر رہنا ہے، میں نے اپنے ایک شاگرد مفتی اصلاح الدین کو جو میرے مکان سے تھوڑے فاصلہ پر بنڈلہ گوڑہ میں رہتے ہیں، فون کیا کہ تم اپنی کار لے آنا، حضرت سے ائیرپورٹ جا کر ملاقات کرنی ہے، انہوں نے کہا ضرور ، چنانچہ وہ صبح سات سوا سات بجے کے قریب گاڑی لے کرآئے،دس منٹ کے اندر اندرہم دونوں چل کر ”آرام گھر“ چوراہے کے آگے برج (Bridge) کے ختم پر بائیں جانب لب سڑک حضرت کے انتظار میں کھڑے ہوگئے، مولانا قاسم کو میں نے کہا ائیرپورٹ پر ملاقات دشوار ہوگی، راستے میں ملاقات کرکے سب ایک ساتھ چلتے ہیں، انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، اور انتظار کی جگہ ان کو بتا دی گئی تھی، وہ حضرت کو کار میں لائے، حضرت نے کار سے اتر کر ملاقات کی پھر فرمایا آپ نے کیوں زحمت کی آرام کرتے، میں نے عرض کیا: اب طیبعت بحال ہوچکی ہے اس لئے حاضر ہوا ہوں ،میں نے مولانا قاسم سے اجازت لی کہ ہم ائیرپورٹ تک حضرت کو اپنی کار میں بٹھا لیتے ہیں، تاکہ بات چیت کر سکیں، انہوں نے کہا :بہت اچھا، حضرت ہماری کار میں سوار ہو گئے، مختلف امور پر باتیں ہوتی رہیں، میں نے اپنی تازہ تصنیف ” حضرت مولانا الیاس صاحب کے سبق آموز واقعات“ حضرت کی خدمت میں پیش کی، حضرت نے اس پر طائرانہ نگاہ ڈال کرخوشی ومسرت کا اظہار فرمایا اور کہا کہ اس کو میں سفر میں پڑھ لوں گا، پھر دریافت کیا کہ کہاں چھپائے ہو، عرض کیا حیدرآبا میں فرمایا میرے استاذ مولانا ایوب صاحب بندہ الٰہی ایک کتاب چھپوانا چاہتے تھے، ایک جگہ انہوں نے بات کی قیمت بہت زیادہ بتائی گئی، جب مجھے معلوم ہوا تو میں مالیگاوٴں کی ایک پریس والوں سے بات کی تو انہوں نے وہ کتاب آدھی قیمت پر معیاری کاغذاستعمال کرتے ہوئے چھپائی، حضرت الاستاذ بہت خوش ہوئے، پھر فرمایا آپ بھی مولوی ریحان (حضرت کے بڑے صاحبزادے) سے بات کرو وہ آپ کی اس سلسلہ میں رہنمائی کریں گے، میں نے عرض کیا ضرور بات کروں گا، اتنے میں ہم ائیرپورٹ کے احاطے میں داخل ہوچکے تھے، حضرت نے دریافت کیا آپ کے کتنے بچے ہیں؟ عرض کیا :چار ، پانچ سو روپئے کی نوٹ عنایت فرمائی کہ انہیں دینا، عمدہ عطر کی ایک خوبصورت شیشی (جس پر قاضی پرفیوم سورت لکھا ہوا تھا) عنایت فرمائی، کھانے کی کچھ چیزیں جو جلدی میں حضرت کے لئے لیا تھا، حضرت کی خدمت میں پیش کیا،تو فرمایا: اتنی ساری چیزوں کی کیا ضرورت تھی، بیگ کھولا میں نے وہ چیزیں رکھیں اور بیگ کو بند کیا، اب آگے بڑھ کر ہم نے فون پر جو ٹکٹ تھا، گیٹ مین کو بتایا اس نے کہا اس میں نام نہیں ہے، فلاں کاوٴنٹر پر جائیے، اتنے میں مجھے دیکھ کر ایک صاحب جو میرے شناسا تھے، ائیرپورٹ پر جن کی ڈیوٹی ہے، وہ آئے، سلام کیا کہا کہ وہاں مشین سے بورڈنگ پاس نکالتے ہیں، ہم مشین کی طرف چل رہے تھے، حضرت نے فرمایا ہم غلط جگہ جا رہے ہیں کیوں کہ ہم مشین کے استعمال سے ناواقف ہیں، میں نے عرض کیا: یہ ہمارے دوست ہیں یہ واقف ہیں، چنانچہ انہوں نے بورڈنگ پاس نکالا، جس میں حضرت کا مکمل نام تھا، اب ہم نے رخصتی سلام ومصافحہ کیا، اور حضرت قریبی دروازے سے اندر چلے گئے،تھوڑی دیر بعد میں نے فون کیا تو فرمایا: بیٹے میں آرام سے بیٹھا ہوں، خیریت سے ہوں، دو گھنٹے بعد جب میں نے فون کیا تو فرمایا: میں عافیت کے ساتھ سورت پہنچ چکا ہوں، ایک جگہ بیٹھا ہوں، بیٹے تمہارا چاکلیٹی کیک ناشتہ میں بہت کام آیا، بہت دعائیں دیں، فرمایا: راستہ میں جمعہ پڑھتے ہوئے اکل کوا پہنچ جاوٴں گا، بس یہ مجھ سے زندگی کی آخری بات تھی، اس کے بعد حضرت سے بات کرنے کا کئی مرتبہ ارادہ کیا مگر بات نہ کرسکا، یہاں تک ۱۲/ اپریل کی صبح جب انتقال کی خبر آئی تو سنتے ہی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، بہت ہی صدمہ ہوا، اندازہ نہیں تھا کہ حضرت اتنی جلدی داغ مفارقت دیں گے، ہمیشہ جینے کے لئے کون آیا ہے، مولانا مرحوم کی زندگی سے ابھی بڑی امیدیں وابستہ تھیں، حضرت والا بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، ان کے کارناموں، واقعات، اخلاقِ کریمانہ اورحسنِ سلوک کو بیان کرنے کے لئے ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ کی دینی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت نعیم کی نعمتوں سے مالا مال فرمائے اورفرزندان ، برادران، تمام تلامذہ اورمتعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔اوران کے قائم کردہ خطوط پر چلنے کی ہمیں توفیق مرحمت فرمائے، جامعہ اورپوری امت کو نعم البدل عطا فرمائے۔
اللہم اغفرہ وأکرم نزلہ ووسع مدخلہ واجعل الجنة مثواہ․
موت تو اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سب ہی آئے ہیں مرنے کے لئے
انتقال پُر ملال پر حضرت کے ان چند شاگردوں کے تأثرات جو میرے ہم درس رہ چکے ہیں
۱) استاذِ محترم کا وصف خاص اپنے بڑوں کی قدردانی اور چھوٹوں کی حوصلہ افزائی تھا، دل کی نرمی زبان پر شفقت بھرے جملے اورہاتھوں کی سخاوت نے ہر کسی کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔
(مفتی عبد القیوم صاحب اشاعتی مالیگاوٴں، استاذ جامعہ اکل کو)
۲) شفقت اور طلبہ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا، آپ کے دو نمایاں وصف تھے، حضرت والا اورآپ کے برادر اکبر حضرت مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری دامت برکاتہم میری دعوت پر دارالعلوم صدیقیہ تشریف لائے مدرسہ کا معائنہ فرمایا، طلبہ کے درمیان خطاب کیا انہیں کھانے کی دعوت دی، پھر ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوئے۔
(مولانا جاوید صاحب اشاعتی ناظم دارالعلوم صدیقیہ بیرنلی، ضلع گلبرگہ، کرناٹک)
۳) حضرت سے میں نے جلسہ کی نظامت اور تربیت کے اصول سیکھے حضرت دیانت داری اور امانت داری کی مجھے ہمیشہ تاکید فرماتے تھے۔
(مولانا محمد الیاس صاحب اشاعتی ناندیڑی، استاذ مدرسہ حضرت عثمان بن عفان احمد پور، ضلع لاتور مہاراشٹر)
۴) حضرت والا اسم بامسمٰی اور دریا دل تھے ،مشکل اسباق بڑی آسانی سے سمجھاتے تھے۔
(مولانا اعجاز صاحب اشاعتی موٴمن آبادی بیڑ)
۵) حضرت رئیس الجامعہ دامت برکاتہم میں جو جو صفات ہیں وہ سب آپ میں موجود تھیں۔
(مولانا افسر صاحب اشاعتی، ماہولی استاذدار الیتامی مدرسة الفلاح ،تپلا بیڑ)
۶) آپ ایک جید عالم دین اوربلند حوصلہ انسان تھے آپ کی وفات سے جامعہ اکل کوا ہی نہیں بلکہ ملک کے بہت سے دینی حلقوں کو نقصان پہونچا ہے۔
(مولانا عبد الرحیم صاحب اشاعتی، ناظم مدرسہ عربیہ خیر العلوم گنگاپور، اورنگ آبادی)
۷) آپ کا طلبہ کے ساتھ تعلق اور ہمدردانہ سلوک قابل تحسین تھا۔
(مفتی محمد ساجد صاحب اشاعتی، مدرس مدرسہ قوت الایمان کرج گاوٴں، امرواتی، مہاراشٹر)
۸) حضرت مولانا مرحوم جامعہ اکل کوا میں بڑی اہمیت کے حامل تھے کوئی بھی شعبہ آپ کی رہبری اوررہنمائی سے خالی نہیں تھا، عالمیت کے طلبہ سے آپ کوخصوصی لگاوٴ تھا، طلباء کی ضروریات اوران کی نفسیات کو سمجھنے والا ہم نے آپ سا نہیں دیکھا۔
(مولانا رحمت اللہ صاحب اشاعتی ناظم مدرسہ احیاء العلوم عثمان آباد)