مفتی عبد القیوم مالیگانوی/استاذجامعہ اکل کوا
آج کے پر آشوب دور میں :
حالات اس سرعت اوربرق رفتاری سے بدل رہے ہیں، جس نے امت کے بہی خواہاں خصوصاً علما و مفکرین اور وارثین انبیا کی نیندیں اڑادی ہیں ۔ غور خوض اور تدبر کے بعد واضح ہوتا ہے کہ یہ حالات دوقسم کے پہلو پر مبنی ہیں، ایک انتہائی تشویش ناک اور بھیانک تو دوسرا کافی امید افزا اور صالح انقلاب کا غماز ہے۔
(۱)تشویش ناک اور پرخطر پہلو تو یہ ہے کہ آج امت مسلمہ زندگی کے ہر موڑ اور محاذ پر پریشان اور حسرت ویاس کی تصویر بنی ہوئی ہے ،کوئی اس کا یارو مددگار نہیں۔ زخموں پرمرہم لگانے والا نہیں ، بل کہ اپنے بھی پرائے ہوچکے ہیں اور جن کی قیادت وحکمرانی پر اعتماد ہوسکتا تھا، اس کے محافظین اور رکھوالے سب سے بڑے بے وفا اور غدار ثابت ہوئے ہیں۔ یعنی کہ ”جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے“۔
(۲) جو امیدوں سے پر، عظمت رفتہ کی واپسی اور ایک عظیم انقلاب کے اشارے دے رہا ہے کہ
اٹھو اے نوجوانو! یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزم و یقیں پیدا
عبادت سب کی کرناہے:
یاس و آس کے اِن ملے جلے حالات میں ان اسباب ومحرکات کی تلاش اور ان بنیادوں کی جستجو کرنا ہے ،جو ملت اسلامیہ کو ذلت و پستی ، نکبت وادبار اور ایک طویل مایوسی سے آزاد کرائے۔ امت کو پھر سے اس کا کھویا ہوا وقار مل جائے اور حسرت ویاس کے وہ مہیب بادل چھٹیں، جس کے بعد آس و اقبال اور خلافت ونیابت کی امید کی جاسکے ؛ چناں چہ ان اسباب وعوامل کو جب قرآن واحادیث میں تلاش کرتے ہیں تو صاف اور واضح ہوجاتا ہے کہ ہماری عزت وتکریم، تعمیر و ترقی اور طاقت وقوت کا راستہ ایمان و اسلام ہے۔ گویا ذلت و پستی ، شکست و ہزیمت اور تمام بربادی اور خسارہ کی سب سے بنیادی وجہ ایمان کی بے انتہا کم زوری ، اس کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا اور اسلام؛ جن خوب صورت اعمال سے عبارت اورمزین ہے، اس کو زندگی میں جگہ نہ دینا ، بل کہ ہمیں بیل بھینس کی طرح سے اپنی من مانی زندگی گزارنا ہے۔ایک رب کی نہیں،بل کہ سب کی عبادت کرناہے،ایک طرف توحیدکی خوش بوسے لطف اندوز ہونا اوردوسری طرف شرک کی بدبو سے بھی فیض یاب ہوناہے،کعبہ شریف کابھی حج کرناہے اور گنگا کا اشنان بھی ۔ اوراس طرح زندگی کی راہوں میں گنگناتے رہنا ہے کہ #
حج تو کعبہ کا کیا اور گنگا کا اشنان بھی
خوش رہے رحمان بھی راضی رہے شیطان بھی
چناں چہ سیرت کی کتابوں کی ورق گردانی کرنے سے پتاچلتاہے کہ دورِ نبوت میں صحابہ کرام ؛جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان وعقیدہ کی جن ٹھوس بنیادوں پر اٹھایا تھا کہ ایمان و عقیدہ اور اللہ کی ذات وحدہ لاشریک لہ پر اُن کا اعتماد اِس قدرمستحکم اور اس کی مرضی کے حصول کا ایسا جذبہ پیدا ہوگیا تھا کہ جس کے سامنے پہاڑوں کی استقامت بھی متزلزل ہوجائے۔اورایساجذبہ پیداہواکہ دنیا کے مال وزر کی تمام پیش کش کو پاوٴں کی جوتیوں سے ٹھکرا دیا۔
ریکارڈ قائم کردیا:
جس جذبہٴ ایمانی اور غیرت اسلامی نے حسن و جمال کی ہرنوع کو روند دیا ، جس نے دنیا کے بڑے بڑے سلاطین وامرا کے سامنے جرأت وہمت پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا، جس نے اسباب ووسائل کی کمی؛ بل کہ فقدان کے باوجود اپنی منزل کو پانے کے لیے قدموں کو ڈگمگانے نہیں دیا، جس نے استقامت وثابت قدمی کا ایسا مظاہرہ کردیا کہ اب چاہے دنیااِدھرکی اُدھرہوجائے ،لیکن اس کے ریکارڈ کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔جن کے متعلق اقبال نے کہا تھا
الٰہی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تونے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے بیگانہ کرتی ہے دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
تم ہمارے پاس آجاوٴ:
مشکل سے مشکل اوربھیانک ترین مصائب وآلام سے ان کی زندگیاں مقابل ہوئی نہیں، لیکن ایمان و عقیدے اور توحید کا سودا کرنا تو بہت دور کی بات ہے ،اس کے تصور سے بھی ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ اوراگر ان کے ایمان پر کسی دشمنِ خدا نے نگاہ ڈالنے کی کوشش کی تو شیروں کی طرح دھاڑے اور دشمن کے اس خیال باطل کو چکنا چور کردیا۔ چناں چہ جب حضرت علی اور حضرت معاویہ کے مابین ایک نظریاتی اختلاف کی وجہ سے دوری ہوئی اور جنگ ِصفین وجود میں آئی توایسے موقع پر قیصر ِروم نے حضرت معاویہ کو خط لکھا کہ تمہیں تمہارے ساتھی نے الگ کردیا ہے اور وہ تمہیں ذلیل کرنا چاہتا ہے ؛ لہٰذا تم ہمارے پاس آجاوٴ اور عیسائی بن جاوٴ ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ جب یہ خط اُن کے ہاتھوں میں آیاتو پڑھ کر غصہ وغیرت کے فوارے پھوٹے اور اسی وقت اس خط کو لے کر تنور کی آگ کے حوالے کردیا کہ کم بخت کو میرے ایمان کی حرص پیدا ہوگئی ہے اور جواب کہلا بھیجا کہ او دشمن خدا! ایمان چھوڑنا تو دور کی بات ہے اگر تونے میرے مقابل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھا تو لشکر علی کی طرف سے سب سے پہلے مقابلہ کرنے والا معاویہ ہوگا۔
ہم اپنی حقیقت بھی گنواچکے:
یہ ایمان کی محبت اور ایمانی بول تھے، جس نے دشمن ِدین کے حواس باختہ کردیے۔ اور سنیے طاقت وایماں کی وہ داستان ؛جسے ہم نے فراموش کرکے اپنی حقیقت بھی کھودی۔ رستم بادشاہ وقت کا دربار ہے جو شاہ ایران ہے ، صحابہ کی ایک جماعت ہجرت کرکے ایران میں پہنچی ہوئی ہے ، جن کے ایمان کی حرارت اور اسلامی اقدار وروایات کے برتاوٴ سے اہل ایران نہ صرف متاثر ہورہے ہیں ، بل کہ بعض حاسدین، مذہبی نفرت اور حسد کی آگ میں بھی جلنے لگے ہیں۔چناں چہ بات رستم کے دربار تک پہنچی اور اس نے اس قافلہٴ ایمان کو بلایا ، جواب کے لیے ایک صحابی حضرت جعفر طیار کھڑے ہوئے اور بھرے دربار میں رستم کے پہلے سوال” ماالذی جاء بکم“ کہ تمہارا مقصد کیا ہے اورتم کیاچاہتے ہو؟ کے جواب میں وہ تاریخی خطبہ دیا جو ایمانی حرارت اور غیرت ِدین واسلام سے معمور اور ہروقت گرمی کا سامان ہے۔ فرمایا:
ابتعثنا اللّّٰہ لنخرج العباد من عبادة العباد الی عبادة رب العباد ومن جور الادیان الی عدل الاسلام اُمن عن ضیق الدنیا الی سعة الآخرة ۔
کہ ہمیں اللہ نے اس لیے برپا کیا ہے کہ ہم بندوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر انسانوں کے پروردگار کی صف میں لاکھڑا کریں۔ اور مذاہب کے ظلم و ستم سے بچا کر اسلام کے آغوشِ عدل میں لائے اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں سے روشناس کرائیں ۔
سبھی ہکابکارہ گئے:
اس حمیت آمیز اور ایمان افروز کلمات سے رستم اور سارا دربار حیران وششدر رہ گیا اور اہل ایمان کی عزت وتکریم دوبالا ہوگئی۔ یہ تو چند نمونے ایمان کی طاقت اور بے پناہ قوت ایمان سے متعلق تھے۔ پھر اس ایمان نے اسلام پر ان کو ایساچلایا اور اسلام ؛یعنی اعمال تابعداری اور اطاعت کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ اللہ رب العالمین نے بڑھ کر فرمایا: ﴿اولئک ہم المومنون حقا ﴾ اور پروانہٴ رضا عطا فرمایا:﴿رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ ذلک لمن خشی ربہ ﴾․
نمونے دیکھتے چلیں:
تو آئیے!بغیرکسی تاخیرکے دو تین مثالوں سے اطاعت اور اسلام کے نمونے دیکھتے ہیں ۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حذیفہ بن یمان بادشاہ ِ وقت کی دعوت پر مدعو ہیں ، دنیا بھر سے امرا، اہل اقتدار اورروٴساکا مجمع موجودہے ، دسترخوان سجایاگیااوراس پر متنوع اقسامِ اشیاچن دی گئیں، کھانے کے وقت حضرت حذیفہ سے لقمہ نیچے گر جاتا ہے تو اس کو اٹھا کرکھانے کی کوشش کرتے ہیں، تب بازو سے کسی پرستارِ دنیا نے دھکا دے کر اس حرکت سے منع کیا اور کہا یہ طریقہ؛ تہذیب والے پسند نہیں کریں گے۔ اس کے جواب میں حضرت حذیفہ نے جو جملہ ارشاد فرمایا ہے وہ جہاں عشق رسول کا غماز ہے تو وہیں پر اسلام پر عمل اور دین اسلام کی مکمل اطاعت کاایک عظیم شاہ کار بھی ہے۔ فرمایا:
” أ اترک سنة حبیبی لہوٴلاء الحمقاء “
کیا میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقہ کو اِن بے دینوں اور احمقوں کی وجہ سے چھوڑ دوں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
ساری دنیاصبحِ قیامت تک احسان مندرہے گی:
گویا کہ دین کے ایک ہلکے اور چھوٹے امر کو بھی جان و دل سے نبھایا۔تو پھرخودہی اندازہ لگالیجیے کہ اسلام کے ضروری احکام اور فرائض کے اہتمام کا کیا عالم ہوسکتاہے؟ اسی اطاعت نے اُنھیں دنیا میں سروں کا تاج، محبتوں کا مرکز اور ہدایت کا مینارہ بنادیا اور ساری دنیا قیامت تک ایمان و اسلام میں ان کی مرہون منت اور احسان مند رہے گی۔
اسلام پر عمل ، اس کی ہر چھوٹی بڑی ہدایات پر جان چھڑکنا، اپنے تمام ترجانی ومالی اورہرچھوٹے بڑے مفادات کو قربان کرنا ان کا طرہ ٴامتیاز اور خصوصی علامت تھی۔ اس وجہ سے جہاں اسلام کاسورج چمکا،وہیں پر یہ دین کے متوالے اوراسلام کے وفادار نہ صرف چمکے، بل کہ برسے اور گرجے اور ساری دنیا اُن کی گرج سے متاثر ہوئی۔ پھر دنیا نے یہ حیرت انگیز منظر بھی دیکھا کہ جو قوم تہذیب و ثقافت سے عاری ، کلچر وتمدن سے دور، زندگی کا کوئی سلیقہ اورجینے کا کوئی قرینہ نہیں جانتی تھی، بل کہ جن پر کوئی سلطنت حکمرانی کرنا نہیں چاہتی تھی،ایمان کی عظیم قوت اور اسلام کی مکمل اطاعت اور وفاداری کے طفیل حکومتوں کے مالک بنیں ۔ تخت و تاج ان کی ٹھوکروں میں گرے اور پھر جہاں گیری وجہاں بانی میں ایسی مثال قائم کی کہ جس خطہٴ ارضی پر براجمان ہوئے ، رعایا کو سکون ملا اور اتنا امن و چین ان کے زیر اثر علاقوں میں آیا کہ سب سے پہلی مانگ” اور نہیں “کی ہوئی اور ان کے جانے پر زمین و آسمان ماتم کناں ہوگئے۔ ان تمام مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں بالیقین یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج ہماری ذلت وپستی ہر جگہ ناکامی ونامرادی کی اولین اور بڑی بنیادصرف ایمان کی کم زوری اور اسلام کی تابعداری سے منہ موڑ نا ہے۔
اب ذراخودکوٹٹولیں:
ہمارے ایمان کا تویہ حال ہے کہ اگر راستہ طے کرتے ہوئے بلی سامنے سے گزر جائے تو اگلے راستہ کو منحوس اور نامبارک سمجھا جاتا ہے ۔ گھر پر کوئی الّو یا اس جیسا کوئی پرندہ آواز لگادے تو اس کو اپنے لیے باعث نقصان اور بد شگونی لی جاتی ہے۔ اولاد کے تاخیر سے ملنے یا نہ ہونے کی صورت میں ناجانے کتنی درگاہوں کے آستانوں پر چکر لگائے جاتے ہیں اورصرف حاضری نہیں ؛بل کہ شرکیہ افعال سے بھی گریز نہیں کیا جاتاہے۔ سجدے کیے جاتے ہیں،ناریل اورچادریں چڑھائی جاتی ہیں،درختوں کی ڈالیوں کوتعویذوں سے سجاتے ہیں۔بعض لوگ تو اولاد کی موت یا مسلسل کسی حادثہ اور پریشانی میں گرفتار ہونے پر کفریہ کلمات اور جملے کہنے سے بھی نہیں چوکتے اور یوں کہتے ہیں کہ: اللہ کو میرا ہی بچہ ملا تھااورکوئی نہیں ملا؟ کیا اللہ ہمارے لیے سوگیا ہے ؟ جب مسلسل نماز اور دعاوٴں کے بعد بھی حالات سدھر تے نہیں تو ایسی نماز اور دعاسے کیا فائدہ ؟وغیرہ وغیرہ ۔ اللہ ہماری ایسے اقوال وافعال سے خوب حفاظت فرمائے۔
ہم نے شرم کی بھی رخصتی کردی:
اور اسلام پر چلنا تو گویا ہمارے لیے ایسا مشکل ترین ہوگیاہے، جیسا کہ لوہے کے چنے چبانا۔ دس منٹ نماز کے لیے آنا پہاڑ گرانے کے برابر معلوم ہوتا ہے ۔ طاقت وقوت کے باوجود روزہ نہ رکھنا اب کوئی شرم کی بات نہیں رہی ۔نیز کام اورکمائی کی مشغولیت کی وجہ سے روزے سے اپنے کو مستثنیٰ سمجھ لیا گیاہے۔ عشر وزکوٰة کیسے دیں گے جب کہ مال بڑی محنت اورخون کوپانی کرکے کمایا ہے اور اخراجات اتنے زیادہ بڑھ گئے کہ جن کو پورا کرنا ہماری پہلی ذمہ داری ہے۔ یہ توہماری عبادات کا حال ہے۔
اب معاشرے میں قدم رکھیں:
معاشرت ومعاملات کو تو اس وقت اچھے خاصے سمجھ داروں اوردین دار وں نے بھی دین سے خارج سمجھ رکھاہے۔بد زبانی اور ایذا رسانی، انفرادی ہو یا اجتماعی ایک حسین فیشن بن چکاہے۔ کوئی کسی سے نرم خوئی،خندہ پیشانی سے ملنا نہیں چاہتا۔ سلام میں پہل کرنا تو بڑی بات ہے۔ معاملات کی خرابی اس حد پر پہنچ چکی ہے کہ اپنے حقوق لینے میں تو ہوائی جہاز کی رفتار کو بھی ماند کردے، لیکن دوسروں کے حقوق دینے کی باری آجائے توہماری رفتار کچھوے سے بھی کم ہوجاتی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ اگراپناحق مانگیں تو غصہ اور دھمکیوں سے نوازتے ہیں۔ اور بعض تو لیتے ہی اِسی نیت اور نہ دینے کے ارادہ سے، جس کو ہم” قرض ہنسنا“ توکہہ سکتے ہیں ،نا کہ قرض حسنہ؛کیوں کہ اس میں تو دینانیت میں ہوتا ہی نہیں ہے۔”رام رام جپنا،سارامال اپنا“۔
اب توپہچان ہوئی مشکل:
نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں میں فیشن ایبل کپڑے کا شوق ایسا پروان چڑھا کہ اپنے اعضا ئے مستورہ اور مخصوصہ کو بھی(Open)کرنے میں مزہ آنے لگا۔اورمحترمہ بد ذوقی نے توپھٹے کپڑے، بل کہ پھاڑکر پہننا بھی لاجواب فیشن بنا دیا، جو دراصل تصویر؛ آیت قرآنی :﴿وزین لہم الشیطن اعمالہم فصدہم عن السبیل ﴾ہے۔ کہ شیطان کی محنت رنگ لائی اور بری چیزیں بھی باعث حسن جمال سمجھی جانے لگیں۔ بالوں کی تراش وخراش تو حرام درجہ پر پہنچی ہوئی ہے ، جس نے ایک مسلمان کے حلیہ کو ایسا بگاڑا کہ اس سے اس کا اسلامی تشخص بھی چھین لیا،اب یہ پہچاننا بھی دشوار ہوگیا کہ یہ مسلمان گھرانے کا بچہ ہے یا کسی غیر مسلم خاندان کا ۔ اقبال مرحوم نے بڑے درد کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا
تیرے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالین ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
یہ ہمارااندازِ مسلمانی ہے:
یہ سب اندرونی بگاڑ کی مختلف صورتیں ہیں۔ ظاہر کا حال بھی اس قدر خراب اور قابل ِافسوس ،بل کہ شرم ناک ہے کہ سماج میں باحیا اور باکردار لوگوں کا رہنا اور جینا بھی ایک قسم کا چیلنج بن چکا ہے۔ ظاہری رہن سہن ، لباس اورپوشاک اس قدر بے شرمی کی علامت بن چکاہے کہ نگاہوں کو محفوظ رکھنا بھی اب جہادِ اصغر ہوگیاہے۔جب کہ اسلام اورقرآن کی صریح تعلیم اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ﴿ذروا ظاہر الاثم وباطنہ﴾ ظاہر اور باطنی ہر دو قسم کے گناہوں سے بچو ۔ نیز بے پردگی کا گناہ اور اپنے اعضا کی نمائش کا گناہ کس قدر مہلک اور شرآمیز ہے، جو زنا جیسے بڑے اور گندے گناہ کی دعوت دینے والا ہے ۔
افسوس! اسلام کو ہم نے بھی دیگر اقوام کی طرح صرف مسجدوں میں محصور کردیا ، وہ بھی جمعہ کا ایک دن ؛جس طرح عیسائی برادری نے اپنے مذہب کو صرف اتوارکے لیے ایک چرچ میں قلعہ بندکرکے رکھ دیاہے، باقی سارے اوقات اور ہر جگہ آزادہوگئے؛ جیسے چاہیں کریں گے اور جو چاہیں گے وہی پہنیں گے۔ٹھیک اسی طرح آج مسلم سماج کا بھی حال ہوچکاہے؛ لیکن اس انداز مسلمانی سے پریشانی یہ ہے کہ ہم کبھی بھی کام یاب نہیں ہوسکتے ہیں ۔اور نا ہی ہماری ذلت؛ عزت میں اور تنزلی ترقی میں بدل سکتی ہے۔ اقبال نے صاف کہا تھا
خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
نگاہ و دل جو مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
سوچ کی بھی رسائی نہیں:
دنیا میں جینے والے سارے انسانوں کی دو حیثیتیں ہیں ۔ پہلی حیثیت؛ جس میں تمام انسان یکساں اور برابر ہیں،وہ یہ کہ ہر بچہ ماں کی کوکھ سے جنم لیتا اور کم زور ہوتا ہے ،پھر نو عمر ہوتا ، پھر جوان اور بعدمیں بڑھاپاآکر اس کو فنا کے گھاٹ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس زندگی میں اچھے برے اورخوشی وغم کے سارے مراحل اس کو طے کرنا ہے کہ یہ حیثیت سب کی ہے ، لیکن ایک دوسری حیثیت بھی ہے، جس سے وہ عام انسان کی طرح نہیں رہتا ، بل کہ اس حیثیت اورمقام کو پالینے کے بعد وہ مفتوح سے فاتح ، مغلوب سے غالب ، رعایا سے حکمراں،غلام سے آقا اور خادم سے مخدوم؛ ان سب سے بڑھ کر مردود سے محبوب بن جاتا ہے ۔ پھر اس کی حاجتیں اور سارے امور بامن وعافیت ایسے راستے سے پورے ہوجاتے ہیں کہ اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا،اُس کی سوچ بھی یہ سوچ کرحیران اورپریشان ہوتی ہے کہ الٰہی یہ ماجراکیاہے؟ اسی کو قرآن کریم نے اس انداز میں تعبیر فرمایا ہے :
﴿ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا ویکفر عنکم سیئاتکم ویغفرلکم واللہ ذو الفضل العظیم﴾
ہماری عزت وسربلندی کاسرچشمہ:
لفظ” فرقان“ میں اسی دوسری حیثیت کا ذکر ہے ، جو ایمان والوں سے مطلوب ہے ۔ فرقان یعنی وہ ایمان کی روشنی؛خوف خدا کی وہ طاقت ، تعلق مع اللہ کی وہ چاشنی جو رب چاہی زندگی کی ضمانت ہے اور من مانی اورسب چاہی زندگی سے روکتی ہے۔ اورہرموقع پر ”مرضیٴ مولیٰ از ہمہ اولیٰ“ کا وظیفہ وردِ زبان ہوتاہے ۔پھرتو ”خلافِ اولیٰ“ کا صدور بھی ان سے مشکل ہوتا ہے اور کام یابی اور بلندی کا یہی بیش قیمت نسخہ رب العالمین نے اپنے برگزیدہ بندوں حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی دیا تھا ، جب اس وقت کے ظالم حکمرانوں اور کفر و شرک کے ٹھیکیداروں نے ان کو دھمکی آمیز انداز میں کہا تھا کہ ہم تم کو اپنی سر زمین سے نکال دیں گے یا پھرتم یہیں سے گھر واپسی کاراستہ پکڑ لو۔یعنی اپنے باپ دادا کے مشرکانہ دین میں لوٹ جاوٴ۔ وہ نسخہٴ ترقی یہ تھا:﴿فاوحیٰ ربک الیہم لنہلکن الظالمین ، ولنسکننکم الارض من بعدہم ، ذلک لمن خاف مقامی وخاف وعید﴾کہ ظالموں کی بربادی اور تمہاری آبادی ،اعدائے دین کی ذلت اور تمہاری عزت، اُن کی تنزلی اور تمہاری ترقی کا راستہ زندگی میں میرا خوف اور مری دھمکیوں سے لرزہ براندام ہونا ہے۔اور اسی خوف وخشیت کے ساتھ زندگی کے تمام شعبہٴ جات میں میری مرضی وقدرت کو ترجیح دینا اور اپنی بندگی کا ثبوت پیش کرنا ہے؛یہی ہماری اصل طاقت اور عزت و بلندی کا سر چشمہ ہے، جیسا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بھی اپنے خادم‘”اسلم“ سے اُس وقت کہا تھا، جب انہوں نے فلسطین کے سفر میں نیاجوڑاپہننے کی پیش کش کی تھی،جب کہ آپ بیت المقدس حاصل کرنے جا رہے تھے ”اعزنا اللہ بالاسلام ومن یبتغ العز بغیر الاسلام اذلہ اللہ ﴾کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت اسلام کی وجہ سے دی ہے اور جو کوئی عزت کو اسلام کے علاوہ کسی اور راستہ میں تلاش کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کرکے رکھ دے گا؛جیسا کہ آج عزت وترقی کو دنیا کی مختلف شکلوں میں تلاش کیا جارہاہے ، لیکن ذلت وپستی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگ رہاہے؛کیوں کہ سیدھی پٹری سے اترے ہوئے ہیں۔
اب خلاصہ پیش ہے:
چناں چہ اب ہم اپنی بات اور دردِ دل کو امام مالک کے اس قول پر منتج کرتے ہیں ،جو مذکورہ تمام باتوں کا خلاصہ ہوسکتا ہے ۔ انہوں نے فرمایا تھا: ” لن یصلح آخر ہذہ الامة الا بما صلح بہ الاولون “ کہ جو خطوط و نقوش امت کے اولین انسانوں کی تعمیر و ترقی ، اصلاح وسدھار کے لیے مشعل راہ ، خضر طریق اور رہبر و راہ نما ثابت ہوئے ،وہی اِس امت کے بعد والے ؛یعنی ہم لوگوں کے لیے بھی عزت کی بنیادیں ہیں۔
ان کے بغیر عزت وسرخ روئی اور اقبال وبلندی کی امیدیں ایک سراب ہے ، جو کسی پیاسے کو صرف ناامید ہی نہیں کرتا، بل کہ تڑ پادیتا ہے ، جسے قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے :
﴿کسراب بقیعة یحسبہ الظمأن ماءً حتی اذا جاء ہ لم یجدہ شیئا ووجد اللہ عندہ فوفاہ حسابہ﴾۔
اس خلاصہٴ کلام کو مزید اختصار کے ساتھ ہم اس شعر میں بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں
جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تو نے
وہی چراغ جلاوٴ تو روشنی ہوگی
اور
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
تو آئیے! عزم مصمم کریں کہ ہم ان شاء اللہ ایمان و یقین کا کمال حاصل کرکے مضبوط وقوی ایمان والے بنیں گے اور اس کے مطابق اسلام کو اپنی کام یابی اور اخروی سرخ روئی کا ضامن سمجھتے ہوئے، مکمل اطاعت وتابعداری کے ساتھ چلیں گے ۔ نیز اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں شریعت کو رہبر و راہ نما بناکر خوب صورت اور کام یاب بنائیں گے۔
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں