ووٹ قومی ومذہبی بنیاد پر نہیں!

از قلم:  مفتی محمد جعفر ملی رحمانی    

دار الافتاء: جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

            ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں ووٹ اسلام اور کفر کی بنیاد پر نہیں دیئے جاتے ہیں، نہ ہی اس بنیاد پر الیکشن لڑائے جاتے ہیں، جو لوگ مذہب ودھرم کو بنیاد بناکر مذہبی جذبات کو اشتعال دے کر، مسجد مندر کا نعرہ لگاکر، فرقہ واریت پھیلاکر، گنگا جمی تہذیب کو نقصان پہنچاکر، مال و دولت لٹاکر، قوم وملت کی آنکھ میں دھول جھونک کر، ہر قوم وملت کی ترقی کی دہائی دے کر، جھوٹے اور پورے نہ ہونے والے وعدے کرکے، اپنی کام یابی کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کی یہ کوشش نہ صرف شرعاً ناجائز ونادرست ہے، بلکہ ملکِ عزیز کے انتخابی قوانین وضوابط کے بھی خلاف ہے، اس لیے جس شخص اور پارٹی کے متعلق یہ توقع ہو کہ وہ بہترین ترجمانی ونمائندگی اور صحیح خدمت کرسکے گی، ملک اور اس کے ہر باشندے کو نفع پہنچائے گی، حقوق دلوائے گی، ظلم کو روکے گی، تو ایسے شخص اور ایسی جماعت وپارٹی کو ہی ووٹ دینا چاہیے۔

جو لوگ خود مسلمان اور دین ومذہب کے پابند ہیں، وہ اگر کسی پارٹی کے امیدوار کو مذکورہ بنیادوں پر ووٹ دیتے ہیں، تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ اس پارٹی کے نظریات وعقائد سے بھی متفق ہیں۔

موجودہ حالات میں ہم کیا کریں؟:

            موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ذاتی وجماعتی مفادات سے اُوپر اُٹھ کر ایسے شخص کے حق میں ووٹنگ کریں، جو دین ومذہب، ملک وملت اور ہر سماج وسوسائٹی کے لیے نافع ومفید ہو، اور یہ جانچنے کے لیے اس کا پوراتعارف وبایو ڈاٹا (پس منظر وپیش منظر)ہر ووٹر کے سامنے ہونا چاہیے۔

            محض انتخابی وتشہیری جلسوں میں دی جانے والی بے سر وپا معلومات اور امیدواروں سے بڑی بڑی رقمیں وصول کرکے اُن کے حق میں بیان دینے والوں کے بیانات کا اعتبار نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ ووٹ آپ کا ہے، کس کو دیا، کیوں دیا، بروزِ قیامت اس کی جواب دہی آپ سے ہوگی، ان مقرروں سے نہیں، ہاں! ان سے غلط بیانی، دروغ گوئی، ناجائز مال وصول کرنے اور اضلال وگمراہ کرنے کی باز پُرس ضرور ہوگی، لیکن اس سے آپ کی جواب دہی کی ذمہ داری پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیوں کہ اللہ پاک نے ہر کسی کو عقل وفہم، صحیح وغلط کی تمیز کی قدرت دے رکھی ہے، یہ کوئی تقلیدی مسئلہ نہیں کہ چاروں مذہب صحیح، جس مذہب کی بھی پیروی کی جاوے، صحیح ہے۔