وقتِ واحد میں شی ٴواحد کا گروی رکھنا اور کرایے پر دینا!

فقہ وفتاویٰ

            سوال: میں نے ایک آدمی کے پاس سے ۲۰/ ہزار روپے دے کر،گروی کے طور پر کھیت لیا، اور کہا کہ جب آپ مجھے ۲۰ / ہزار روپے دیں گے، تب میں آپ کو یہ کھیت دوں گا۔

نوٹ-: میں اس کھیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے سالانہ ۵۰۰/ روپیہ (کھیت کا کرایہ) دے رہا ہوں، تو کیا اس شرط کے ساتھ کھیت سے فائدہ اٹھانا میرے لیے جائز ہوسکتا ہے یا نہیں؟

الجواب وباللہ التوفیق :

             آپ کا اس طرح کا معاملہ شرعاً صحیح نہیں ہے، کیوں کہ وقتِ واحد میں ایک ہی چیز مرہون (گروی رکھی ہوئی) بھی ہو اور وہی مستأجر (Hired)بھی ہو، صحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ عقدِ اجارہ اور رہن دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوتے، اگر عقدِ اجارہ کیا گیا تو معاملہٴ رہن باطل ہوگا، اور عقدِ اجارہ اس وقت صحیح ہوگا جب کہ اس کے لیے از سرِ نو قبضہ متحقق ہو۔(۱) آپ کا یہ سمجھنا کہ میں مرہون (گروی رکھی ہوئی) کا سالانہ پانچ سو روپیہ کرایہ دے کر اس سے انتفاع کررہاہوں؛ اس لیے یہ میرے لیے جائز ہے،محض شیطانی دھوکہ ہے(۲)،کیوں کہ آج کے اس دور میں پورے ایک کھیت کا سال بھر کاکرایہ صرف پانچ سو روپیہ ہو، خلافِ عرف ورواج ہے، راہن نے محض مجبوری کی وجہ سے پانچ سو روپے کرایے پر رضامندی ظاہر کی، اگر وہ آپ کا مقروض نہ ہوتا، تو کسی بھی صورت میں پانچ سوروپے پرراضی نہ ہوتا؛ اس لیے آپ کا یہ معاملہ قرض سے انتفاع (فائدہ اٹھانا) ہی ہے، جو شرعاً سود ہے، اور سود نصوصِ قطعیہ سے حرام ہے۔(۳)


 

الحجة علی ما قلنا :

(۱) ما في ” رد المحتار “ : أما الإجارة فالمستأجر إن کان ہو الراہن فہي باطل ، وإن کان ہو المرتہن وجدد القبض للإجارة بطل الرہن ۔ (۱۰/۱۳۰)

ما في ” بدائع الصنائع “ : وکذلک لو آجرہ من المرتہن صحت الإجارة وبطل الرہن إذا جدد المرتہن القبض للإجارة ، أما صحة الإجارة وبطلان الرہن فلما ذکرنا ، وأما لحاجة إلی تجدید القبض فلأن القبض دون قبض الإجارة فلا ینوب عنہ ۔ (۸/۱۸۲، کتاب الرہن)

(۲) ما في ” النتف في الفتاوی “ : ولا یجوز في الرہن تسعة أشیاء : الرہن لا یباع ، ولا یوہب ، ولا یتصدق بہ ، ولا یرہن ، ولا یودع ، ولا یعار ، ولا یوٴاجر ، ولا یستعمل ، ولا ینتفع بہ بوجہ من الوجوہ ۔ (ص/۳۷۰ ، کتاب الرہن)

(۳) ما في ” القرآن الکریم “ : ﴿یا أیہا الذین اٰمنوا لا تأکلوا الربوآ أضعافاً مضاعفةً﴾ ۔ (سورة آل عمران : ۱۳۰)

ما في ” صحیح مسلم “ : عن جابر – رضي اللّہ عنہ – قال : ” لعن رسول اللّٰہ ﷺ آکل الربا وموکلہ، وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال : ہم سواء “ ۔ (۲/۲۷ ، کتاب المساقاة والمزارعة، باب الربا)

ما في ” کنز العمال “ : قال النبي ﷺ : ” کل قرض جر منفعة فہو ربًا “ ۔ (۶/۹۹ ، رقم : ۱۵۵۱۲)

(الدر المختار مع الشامیة : ۷/۳۹۵ ، کتاب البیوع ، قواعد الفقہ :ص/۱۰۲ ، القاعدة : ۲۳۰) فقط

واللہ أعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۔۴/۲/۱۴۳۰ھ -(فتویٰ نمبر: ۱۷۴-رج:۲)