وفیات: انتقال پرملال

            انتہائی رنج و غم کے ساتھ یہ خبریں تحریر کی جارہی ہیں کہ اس مہلک وبا(کرونا) نے ہمارے کیسے کیسے علماء،ماہرین،باکمال جبال العلم ، معاونین و محسنین اور خیرخواہ کو اپنے چپیٹ میں لے لیا اور وہ ہمیں روتے بلکتے چھوڑ کر داغ مفارقت دے گئے!ایک اندازے کے مطابق ہند وپاک اور عرب وعجم کے تقریباً۴۰۰/ سے زائد جید علمائے کرام داغ مفارقت دے گئے یہ اس امت کے لیے اتنا بڑا خلاہے جس کی بھرپائی بظاہر نظر نہیں آتی ۔اللہ اپنی قدرت سے امت مسلمہ کے حق میں خیر کا فیصلہ فرمائے۔ہم قارئین سے تمام مر حومین کے ایصال ثواب کی درخواست کرتے ہیں۔ویسے تو نہایت ہی جید اور چونٹی کے علماء کی ایک فہرست ہی جن کے سوانح کو ایک شمارے میں نہیں جمع کیا جا سکتا۔اس لیے ہم نے اس شمارے میں جامعہ سے وابستہ اہم ترین حضرات کے سوانح کو ہی جمع کیا ہے۔

دادا فیملی اور امتِ مسلمہ ہند یہ کودو صدمے:

            اللہ رب العزت نے ہر زمانہ میں جہاں کچھ افراد اور فیملیوں کو علم اور دعوت دین کے لیے منتخب کرتے ہیں ،وہیں بعض افراد اور خاندانوں کو علما اور محتاجوں کی داد رسی اور تعاون کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ انہیں میں بیسویں اور ایکسویں صدی عیسوی پندرہویں صدی ہجری میں ایک مخلص فیملی سورت شہر ہندوستان سے تعلق رکھنے والی دادا فیملی ہے، جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے مخلص معاون حاجی ابراہیم دادا رحمہ اللہ اس کے روح رواں تھے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل وہ ہم سے جدا ہوئے اور تین چار روز کے وقفے سے حاجی صاحب کے جانشین اور صاحبزادے حاجی ناصر صاحب دادا بھی دار فانی سے دار باقی کی طرف چل بسے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!

            والد صاحب کو جب بندہ نے اس کی اطلاع دی، تو گہرے افسوس اور غم کا اظہار کیا اور بہت دیر تک غم کی کیفیت میں رہے اور کہتے رہے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! ناصر بھائی ہمارے حاجی صاحب کے سچے جانشین تھے، اللہ یہ کیا ہوگیا؟ ابھی تو حاجی ناصر صاحب کا غم بھولنے نہ پائے تھے کہ ابھی کچھ دیر قبل حاجی ابراہیم دادا صاحب کے بھائی حاجی امین دادا صاحب کے انتقال پر ملال کی خبر مولانا عرفان بن حاجی ابراہیم دادا کے ذریعہ موصول ہوئی ۔انا للہ وانا الیہ راجعون!

             والد صاحب نے ان کی رحلت پر بھی رنج و ملال کا اظہار کیا۔ ابھی چند ماہ قبل ہی حاجی امین دادا صاحب بیمار تھے اور بندہ والد کے ساتھ میں سورت کے سفر پر تھا ،تو ان کی عیادت کے لیے ان کے گھر بھی تشریف لے گیا۔ کافی دیر ان کے ساتھ امت کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔آپ نے بارہا جامعہ کی اپنی لوکھات ہسپتال کی ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ میڈیکل کیمپ کے لیے زیارت کی ۔جامعہ اکل کوا کے زیر نگرانی جاری النور ہسپتال اور میڈیکل کالج کی بھی آپ نے زیارت کی اور بے پناہ خوشی کا اظہار کیا تھا، لمبے عرصہ تک حاجی ابراہیم جب بیمار رہنے لگے، تو حاجی امین کو لوکھات ہسپتال سورت میں غریبوں اور محتاجوں کی مدد کا ذمہ دار بنایا تھا اورآپ نے بہ خوبی اس خدمت کو انجام دیا۔ بعد میں چل کر امینہ ٹرسٹ کے نام سے ایک دوسرا ہسپتال بھی تعمیر کروایا، لوکھات ہسپتال کے ذریعہ خاص طور پر علما اور مدارس کے طلبہ کی بہت خدمت اس فیملی نے کی اور کررہی ہے اور عموماً مہاراشٹر اور گجرات کے غریب مسلمانوں کے علاج میں بھی بہت تعاون کیا ۔ اللہ ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے ۔

(حذیفہ وستانوی)

 مولانا حنیف جی بھائی اب نہیں رہے :

            اسی طرح والد محترم حضرت مولانا غلام محمد وستانوی دامت برکاتہم کے ہم وطن اور خاص دوست مولانا حنیف جی بھائی اب نہیں رہے ۔

            حضرت مولانا حنیف صاحب جی بھائی جن کا تعلق کوساڑی گاؤں سے تھا۔ بچپن سے بندہ انہیں دیکھتا آیا ہے جب ہم چھوٹے تھے آج سے تقریباً ۳۵/سال قبل مولانا گجرات کے کسی ادارے میں غالباً پڑھاتے تھے اکثر جمعرات کو والد صاحب کی ملاقات کی غرض سے تشریف لاتے تھے، ابھی مولانا کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی کسم پرسی کے عالم سے گزر رہے تھے، اس کے بعد شادی ہوئی اور پھر کسی طرح ساؤتھ افریقا پہنچ گئے، رفتہ رفتہ تجارت کے میدان میں پاؤں جمائے اور ماشاء اللہ کافی ترقی کی، یہاں تک کے ایک زمانہ میں ہمارے والد صاحب کے اصل وطن کوساڑی گجرات میں سب سے متمول مانے جاتے تھے۔ اکابرین ِامت سے کافی گہرا ربط رکھتے تھے ،صوم و صلاة اور تلاوت کے بڑے پابند تھے، اگرچہ عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے، مگر ہمارے درمیان دوستانہ تعلق تھا، مولانا مجلسی آدمی تھے ،ہنسی مذاق کا مزاج تھا، بندے سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے، فون پر مسلسل ربط میں رہتے تھے، جب بیمار ہوئے تو بندہ کو فون پر اطلاع دی، بندہ نے والد صاحب سے ان کے لیے خاص دعا کی بھی درخواست کی اور والد صاحب نے جمعہ کے بعد اور دیگر مجالس میں دعا بھی کی۔ ان کے بڑے صاحب زادے عبد الرحمن سے بات ہوتی رہی اور وہ طبیعت کی بہتری کی خبر دیتے رہے۔ مگر بالآخریہ اطلاع موصول ہوئی کہ مولانا اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اللہ غفرت فرمائے قارئین سے بھی خصوصی دعا کی درخواست ہے۔

(حذیفہ وستانوی)

میدان صحافت کے شہ سوار( مولانا عبد القادر شمس) بھی ہمارے درمیان نہ رہے:

            مولانا عبدالقادر شمس عصری اور دینی ادروں میں پل کا کردار رکھنے والے تھے افسوس کہ وہ چل بسے انا للہ وانا الیہ راجعون!

             بہت غمناک خبر ہے کہ مولانا میرے خاص دوستوں میں سے تھے 2011 سے دہلی میں پہلی ملاقات کے بعد سے بہت گہرے دوست ہوگئے تھے۔ مولانا کی خاص فکر اور محنت مدارس کے احباب کو کس طرح عصری اداروں سے جڑا جائے اس کے لیے بہت کوشاں رہتے تھے ۔ابھی 2020 کے 26 جنوری کے پروگرام میں بندہ کی دعوت پر جامعہ ملیہ کے ایک پروفیسر صاحب کے ساتھ تشریف لائے تھے، مگر افسوس کہ میں کویت میں کسی کام میں ایسا پھنس گیا کہ ہندوستان لوٹ نہ سکا اور مولانا سے ملاقات نہ ہوسکی۔

             سفر کے بعد آپ نے ایک مضمون بھی قلمبند کیا تھا، جس میں جامعہ اکل کوا اور والد محترم کی خدمات کو بہت سراہا تھا اور بہترین انداز میں اپنے مشاہدات لکھے تھے اور خراج تحسین پیش کیا تھا، آج مولانا کے انتقال پر ملال کی خبر سے بہت غم لاحق ہوا۔ گویا صحافت کے میدان کے امت نے ایک جیالے کو کھو دیا، مگر کیا کیا جائے اسی کا نام دنیا ہے۔ آنی جانی یہاں پر لگی ہوئی ہے مولانا عبد القدر شمس جوانی ہی میں چل بسے اس کورونا نے بھی عجیب تباہی مچا رکھی ہے ہمارے کیسے کیسے کام کے افراد اس کی لپیٹ میں آگئے؟!!

(حذیفہ وستانوی)

ایک مخلص پیش امام اور صدر مدرس مولانا عبدالغفور بھی داغ مفارقت دے گئے:

            بندہ کا اصل وطن ضلع سورت گجرات انڈیا میں واقع ایک انتہائی چھوٹا دیہات وستان ہے، جہاں میرے پر دادا حاجی ابراہیم رندیرا اپنی کھیتی کو سنبھالنے کی غرض سے وستان سے تقریباً دس کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع کوساڑی سے اس وقت آکر بس گیے تھے، جب میرے والد تقریباً دس سال کے تھے یعنی 1960 کے لگ بھگ ہمارے یہ دونوں گاؤں سورت کے تعلقہ موٹا میاں مانگرول میں واقع ہے۔ بندہ کا نکاح 2002 میں اسی شہر کی الفلاح مسجد میں مولانا اسماعیل منوبری رحمہ اللہ نے پڑھایا، اسی دن سے میری سناشائی مولانا عبدالغفور رحمہ اللہ سے ہوئی نکاح کے بعد سے جب بھی کسی جمعہ کو میں اپنی سسرال جاتا مولانا عبدالغفور میرے سسر سے یا برادر نسبتی سے رابطہ کرکے جمعہ سے پہلے بیان کے لیے آمدہ کرتے۔ کافی عرصہ تک عیدین کی نماز بیان کے لیے بھی بندہ ہی کو مدعو کرتے تھے، البتہ مشغولیت میں اضافہ کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔ مولانا کی طبیعت میں امت مسلمہ کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، گجراتی اور اردو زبان میں ہمارے مدارس سے نکلنے والے ماہنامہ رسائل و جرائد کا بہت اہتمام سے مطالعہ کرتے تھے، خاص طور پر ہمارے ادارے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹرا سے گجراتی میں شائع ہونے والے مجلہ بیان مصطفیٰ کے بہت دلدادہ تھے اسی طرح ”شاہراہ علم“ اردو کے بھی اور موجودہ حالات کے اعتبار سے امت کی رہبری و رہنمائی کرتے تھے۔ بیان کے ذریعے بھی اور مسجد میں لگے ہوے نوٹس بورڈ پر پراثر اقتباسات کو لکھ کر علاقے کے تمام علما سے آپ رابطہ میں رہتے تھے اور موقع بہ موقع انہیں پروگرام میں بلایا کرتے تھے۔ مولانا رحمہ اللہ بڑے نیک طبیعت تہجد گزار اور عبادت گزار تھے۔ مانگرول کے مدرسہ کے بھی ذمہ دار تھے، سب کو لے کر چلنے کے نمایا وصف کے حامل تھے مصلحت اور حکمت سے مسائل کو حل کرتے تھے، مانگرول اور اطراف کے مسلمانوں کے آپ محبوب تھے، نرم طبیعت کے مالک تھے 25 سال میں کبھی کسی جھگڑا ہوا ایسا میں نے تو نہیں سنا مولانا کی عمر 50 سال ہوگی مختصر علالت کے بعد آج رات 1 بجے دار فانی سے دار باقی کی جانب امت کو غم زدہ چھوڑ کر چل بسے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!

             افسوس اس بات کا ہے کہ متحرک اور باکمال اور معاونین و محسنین افراد ہمیں تنہا چھوڑ جارہے ہیں ۔اللہ آگے فضل خاص کا معاملہ فرمائے اور ہمیں مزید باکمال افراد سے محروم نہ فرمائے اللہ تعالیٰ مرحومین کی بال بال مغفرت فرمائے ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور امت مسلمہ کو انکا نعم البدل نصیب فرمائے۔

 حذیفہ وستانوی

 

درخواست برائے دعائے مغفرت و ایصال ثواب:

             جامعہ کی شاخ جامعہ عائشہ للبنات ارنڈول جلگاؤں ا ورجامعہ عائشہ ٹھاری بھوانی پور ضلع سپول کے نوجواں سال ناظم حضرت حافظ ضیاء الحق صاحب عروجی کاایک ماہ قبل انتقال ہوگیا ہے۔مرحوم بڑے فعال اور متحرک ناظم تھے۔انہوں نے بڑی جاں فشانی کے ساتھ خدمت انجام دی اللہ ان کے خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے۔

اساتذہٴ جامعہ کے اقرباء واحباء جوار رحمت میں:

            صدر شعبہٴ دینیات قاری سلیمان صاحب کے بڑے صاحب زادے استاذ جامعہ قاری نعمان صاحب کے خسر۷/محرم الحرام ۱۴۴۲ھ کو مختصر علالت کے بعد مالک حقیقی سے جاملے ۔

            مرحوم صوم وصلاة کے پابند علماء سے محبت کرنے والے ،نیک وصالح انسان تھے ،اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔پسماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے۔

             اسی طرح مولانا اویس صاحب پشور پروجیکٹ آفس جامعہ اکل کوا کی چاچی محترمہ اور کچھ روز قبل چاچا محترم بھی اللہ کی رحمت میں پہنچ گئے ہیں۔

             جامعہ کے شعبہ تحفیظ القرآن کے استاذ مولانا عمران صاحب اچھاپور کے والد مرحوم حاجی شیخ امیر صاحب باغبان اچھا پور جو کہ اچھا پور کے امام اور امیر تبلیغ بھی تھے اور الحمدللہ اہل علم سے محبت رکھتے تھے۔ وہ بھی اللہ کی رحمت میں پہنچ گئے۔

            شعبہٴ دینیات کے استاذ مولانا عتیق صاحب پیٹھن کی والدہ محترمہ زاہدہ بی بھی بتاریخ ۱۷/ ۸/ ۲۰۲۰ء اللہ کو پیاری ہوگئی۔

            اسی طرح شعبہٴ تحفیظ القرآن کے استاذ مفتی عبد المقیت صاحب کے خالو شہر اورنگ آباد کی مشہور ومعروف فرنیچرکی دکان ” ریزنبل فرنیچر“ کے مالک حاجی عبد الکریم صاحب بھی اللہ کے حضور پہنچ گئے۔مرحوم بہت نیک ملنسار، علما کے قدردان اور صوم و صلوٰة کے پابند تھے ۔

            اسی طرح ہمارے خاص رفیق عبداللہ بھائی کوساڑی کے والدین ایک ہفتے کے وقفے سے یک بعد دیگرے رب رحیم کے رحمت میں پہنچ گئے ۔اللہ ان کی مغفرت اور پسماندگان کا حامی وناصر ہو۔

            اس عرصے میں ہمارے شعبہٴ عالمیت، دینیات، حفظ اور کالجیز کے بہت سارے اسٹاف کے اقرباء جوار رحمت میں پہنچ گئے ۔ہمارے رئیس بھائی دارالقرآن اور مولانا حبیب صاحب شعبہٴ حفظ مولانا شوکت صاحب اور بہت ساروں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے ۔اللہ ان تمام کی مغفرت فرمائے۔

            ان کے علاوہ بھی ہمارے بہت سارے معاونین و محسنین بھی اس دار فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کرگئے ۔

            ایک لمبی فہرست ہے جس میں اضافہ ہی اضافہ ہے ۔اللہ ہم زندوں کو اپنی زندگی بامقصد بنانے کی توفیق عطافرمائے۔اور اپنی حیات کو غنیمت جانتے ہوئے ،ایک ایک سانس کی قدر دانی اور ان اموات سے سبق لینے کی توفیق عطافرمائے۔کیوں کہ یہ موت تو نہ نوجوان دیکھ رہی ہے نہ بچے نہ بوڑھے نہ کمزور نہ طاقتور ،نہ مالدار نہ نادار۔بس جو سانسیں ہیں وہی آپ کی ہیں۔اس کی قدر کرلیں اور رب کو راضی کرنے میں لگ جائیں۔

            اخیر میں ہم قارئین شاہراہ علم سے ان تمام مرحومین کے لیے دعائے مغفرت ،ایصال ثواب اوراعلیٰ علیین میں بلند درجے کے لیے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔

اللہم اغفرلہم وارحمہم ، وسکنہم فی الجنة

ختم بخاری اور ٹختم قرآن کا اہتمام:

             اس وباء اور عمومی بلا کے پبش نظر جوحالات او ر اموات کی کثرت ہے ،اس سے نجات اور مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹرا (انڈیا )کے احاطے میں موجود 300/ علمانے والد صاحب کی منشاکے مطابق تقریباً دو ماہ سے ختم بخاری اور قرآن کے اجزاء پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔اس کی نوعیت یہ ہے کہ اجزاء بخاری اور قرآن کے پارے آپس میں تقسیم کر دیے گئے ہیں اور جمعرات کو ظہر اور عصر کے درمیان الحمدللہ بخاری شریف مکمل اور 16 قرآن کی تلاوت مکمل ہوتی ہے۔ اس کے بعد والد بزرگوار حضرت مولانا غلام محمد وستانوی دامت برکاتہم رقت آمیز طویل دعا کرتے ہیں” کورونا“ کے خاتمہ اور مدارس کھلنے کے لیے خاص طور سے۔ اور پچھلے چند ماہ میں جو تقریباً 350/ جید علما انتقال کرچکے، انہیں اور جامعہ کے معاونین کے لیے اوراسی طرح امتِ مسلمہ کے دیگر افراد کے لیے ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے اور بیماروں کی صحت یابی کے لیے بھی دعا کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ شرف قبولیت سے نوازے اور وبا کے جلد ٹلنے کی شکلیں پیدا فرمائے۔ آمین یارب العالمین!

حذیفہ وستانوی