قاری عبد الستار بھاگلپوری/استاذشعبہٴ تحفیظ القرآن جامعہ اکل کوا
جانے والے یوں تو جاتے ہی ہیں، بلکہ ہر کسی کو یہاں سے جانا ہی ہے۔مگراُن جانے والوں کی لائن میں کچھ رشتے یا شخصیات ایسے بھی ہوتے ہیں، جوہمارے درمیان سے گذر کر بھی دلوں میں موجود رہتے ہیں۔ ان کی یادیں اوران کی باتیں ہمارے درمیان گردش کرتی رہتی ہیں۔ ان کے کردار و اخلاق کی خوش بو ذہنوں سے صدیوں تک دور نہیں ہوپاتی۔ اور دیکھا جائے توخود خالق جہاں نے دنیا کا کچھ ایسا نظام ہی بنا رکھا ہے۔کوئی آتا ہے تو کوئی جاتا ہے، کوئی ہنستا ہے تو کوئی روتا ہے۔ بہرحال!یہی قانونِ فطرت ہے،جس کاسلسلہ کبھی اور کہیں رکنے والانہیں ہے۔
ہاں! بعض جانے والے کا غم ایسا غم ناک ہوتا ہے کہ جتنا بھی بھلانے کی کوششیں کی جائیں، پھر بھی بھلائے نہیں جاتے اوریادوں کے طوفان آتے اورستاتے رہتے ہیں۔اُنہی پاکیزہ شخصیات میں میری والدہ مرحومہ کی ذات بھی شامل تھی۔
والدہ محترمہ کی رحلت:
کووڈ ۱۹/ کے ننھے غیر مرئی جرثومے نے دنیا والوں پرایسا قہر ڈھایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے شہر شہر، بستی بستی، گاوٴں گاوٴں اور محلے اس کی لپیٹ میں آگئے، جسے ہم آزمائش کہہ لیں یا کچھ اور……۔
دوران لاک ڈاوٴن ۱۲/ ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ مطابق۲۸/ نومبر ۲۰۲۰ء شنبہ کی شام ”والدہ محترمہ“ (و:۱۹۳۶ء/م:۲۰۲۰ء)کا بھی وقت موعود آپہنچا۔ اور وہ ہمیں روتابلکتاچھوڑ کر اپنے رب حقیقی کے جوار رحمت میں جا پہنچیں۔اناللہ واناالیہ رٰجعون!
”آسماں اُن کی لحدپرشبنم افشانی کرے“
اس دل دوزسانحہ نے بندہٴ عاجز کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ اس کی شدت تاثیر نے آنکھوں کو چھلکایا ہی نہیں، بل کہ خشک کرکے رکھ دیا؛لیکن بندہ کربھی کیا سکتا تھا؟فوراًہی”انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون“پڑھ کر مرضی مولیٰ کے سامنے اپناسرخم تسلیم کرلیا۔کیوں کہ انسان کے بس میں تسلیم ورضا سے بڑھ کر کوئی قیمتی چیز اور ہے بھی کیا،جسے وہ پائے گا ؟
ویسے وہ کافی دنوں سے صحت و عوارض سے دو چار بھی تھیں۔پاوٴں سے معذور ہوچکی تھیں، لیکن ان کا صرف موجود رہنا ہی امیدوں کا سرچشمہ اورگھر جانے کا مقناطیس تھا، جبھی تو اکثرتعطیلاتِ جامعہ میں کسی نہ کسی طرح وطن جاکرچندروزہ زیارت وخدمت کرہی لیتا تھا۔ آج وہ سب رونقیں ماند پڑگئیں، سال کے قریب ہورہا ہے، لیکن باوجود بسیارکوشش و تڑپ کے نہیں جا پارہا ہوں۔کیوں کہ اب اجڑادیارہے،گھر پر تالے پڑے ہیں، ویرانی محسوس ہوگی۔ لیکن اتنی بات توطے ہے کہ جاوٴں گا تو ضرور؛کم از کم فاتحہ خوانی کے لیے ہی سہی ……۔
بہر حال! وہ تو اپنی متعینہ زندگی کی سانسیں پوری کر کے چلی گئیں، مگر بدلے میں غم و فراق وصدمہ چھوڑ گئیں، جسے نظام دنیا کہہ لیں کہ یہاں پر ہرآنے والے کو جانا ہے۔ہر کمال کو زوال اورہرعروج کو غروب اور ہر وجود کو فنا ہونا ہے۔ تبھی تو کسی نے کہا کہ #
”وفات تو تکمیل زندگی ہے۔“
ولادت؛ اس کی شروعات،موت حقیقت ہے تو حیات ایک افسانہ…رہے گا نام بس”اللہ“ کا۔
اجازةُ القرآن کا حسنِ اتفاق:
زمانہٴ لاک ڈاوٴن میں وقت کے استعمال کا ایک سنہرا موقع محاضرات علمیہ و”اجازة القرآن“ کی شکل میں دست یاب ہوا۔ ماشاء اللہ! استفادہ بھی کیا گیا۔ چناں چہ دوران اجازہ؛جس وقت والدہ محترمہ کے وفات کی خبر آئی، اس دن سورہ نساء کی آیت نمبر۷۸/﴿اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُمُ الْمَوْتُ﴾ والی آیت کایہی حقیقت آموز سبق چل رہا تھا کہ”موت تو آکر رہے گی خواہ تم جہاں کہیں رہو“۔
دلی خواہش اور تمنا تو تھی کہ ایسے حالات واوقات میں وہاں حاضر رہتا۔ مگرخدمتِ دین کے نام پر وطن سے کافی دور تھا،جس کی وجہ کریہ تمنائے دل؛حسرت بن کرآنکھ سے ٹپکتی رہ گئی۔بہرحال اس کے بعد چند مالی و نفلی صدقہ کرکے ایصال ثواب کیا کہ اللہ پاک ان کی مغفرت فرماکر درجات بلند کرے۔آمین!
طلبا و اساتذہٴ کرام سے بھی دعاوٴں کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے ضرور بخشش فرماکر اعلیٰ علیین میں جگہ عنایت فرمادیا ہوگا۔ ان شاء اللہ!
۲۹/ نومبر ۲۰۲۰ء مطابق ۱۳/ ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ بروز یک شنبہ ظہر بعد پیر طریقت رہبر شریعت حضرت اقدس مولانا مطیع الرحمن صاحب دامت فیوضہ خلیفہ ارشد حضرت اقدس مفتی اعظم محمود حسن گنگوہی نے جنازہ کی نماز ادا کرائی اورجسدخاکی کوسپرد خاک کردیا گیا۔
اللہم اغفرلہا وارحمہا وسکنہا فی الجنة۔
اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے۔ پس ماندگان میں چار لڑکے اور ایک لڑکی موجود ہیں۔ماشاء اللہ سبھی لڑکے، بچے، پوتے، پوتیاں والے ہیں، ان تمام کو ان کے لیے صدقہٴ جاریہ بنائے آمین۔