وجوداقصٰی زمیں پر نشانِ عظمت ہے

وجوداقصٰی زمیں پر نشانِ عظمت ہے

 مقصوداحمدضیائی

            خلق و امر کی ابتدا مکہ مکرمہ سے ہوئی تھی اور انتہا ارض شام اور بیت المقدس میں ہوگی؛ القدس اسلام کا قلعہ ہے؛ مسجد اقصٰی روئے زمین پر قائم ہونے والی دوسری مسجد ہے؛ پیغمبرآخرالزماں جناب محمد رسولﷺ کے سفر معراج کی عظیم یادگار ہے؛ مسلمانوں کا قبلہٴ اول ہے؛ خلیفہٴ دوم سیدنا فاروق اعظم  کی امانت ہے؛ صلاح الدین ایوبی کی جرئت ِایمانی کا مظہر ہے؛ خلافت ِعثمانیہ کی شان و شوکت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اکیسویں صدی کے 56 اسلامی ممالک، افواج اور حکمرانوں کی بے حسی کا نشان ہے؛ فلسطین جائے حضرات انبیاء علیہم السلام ہے؛ اس کے حق دار صرف اور صرف اہل اسلام ہیں۔ چوں کہ یہی حضرات انبیاء کرام کے حقیقی وارث ہیں؛ بایں طور کہ ہر نبی کی دعوت پیغمبر اسلام جناب محمد رسولﷺ پر ایمان لانے کی ہے اور اسی شریعت کی پاسبانی، پاسداری، پائیداری اور پابندی کا ہر شخص مکلف ہے۔ لہذا! اس خطہ کی باز یافت اور اس کی عظمت ِرفتہ کی بحالی کے لئے ماضی قریب میں لڑی گئی اور حال میں لڑی جارہی اور مستقبل میں لڑی جانے والی جنگ، حق و باطل کی جنگ تھی اور ہے اور ہوگی، اس میں شریک ہونے والے غازیوں اور اس میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا ان کی جرئت ایمانی اور عظمتوں کو سلام سلام !!!

            اس وقت جب کہ یہ تحریر زیر قلم ہے؛ میری زندگی کی چالیس بہاریں بیت چکی ہیں۔ ابتدائی اٹھارہ سالوں کو چھوڑ کر بائیس سال وہ ہیں جنہیں یاد کیا جا سکتا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے؛ نہتے فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلیوں کے مظالم جس طرح دیکھنے اور سننے میں آتے رہے ہیں؛ اس میں آج ۸۳/ برس بیت جانے کے بعد بھی کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا ۔ وہی بیت المقدس کی عمارت؛ اس کا احاطہ؛ اس میں نہتے فلسطینیوں پر ظالم جابر اور مغرور اسرائیلیوں کی خطرناک ہتھیاروں سے تباہ کن بمباری؛ اسرائیل کی مصلح افواج کے رو برو فلسطینی ہاتھوں میں پتھر تھامے ہوئے؛ البتہ اس وقت جو جنگ جاری ہے اس میں اللّٰہ کے فضل و احسان سے فلسطینی مسلمانوں نے جس حوصلے سے دشمن کے غرور کو خاک میں ملانے کی کوشش کی ہے وہ ان کا تاریخی اقدام ہے؛ تاہم اسرائیلی درندگی کے نتیجے میں غزہ کی سر زمین پر فلسطینیوں کے جسموں کے بکھرے ہوئے خون آلودہ ٹکڑے؛ جگہ جگہ مردوں عورتوں بل کہ نومولود معصوم بچوں کی لاشیں؛ توپوں کی گھن گرج؛ گولے بارود کی بے رحم بارش؛ خون ریز مناظر؛ اور وہی ذرائع ابلاغ؛ وہی ٹی وی کی اسکرین؛ وہی اطلاعات و نشریات سب کچھ جوں کے توں ہیں۔ مسلمانوں کی جانب سے جوابًا اسرائیلی بربریت اور جارحیت کے خلاف جب جب بھی آواز بلند کی گئی؛ اپنی ہی سڑکیں جام، اپنی ہی املاک اور کاروبار کو نقصان پہنچا۔

 مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی:

 سچ یہ ہے کہ ملکوں کی طرح صداقت کی بھی سرحدیں قائم ہیں؛ ہر ملک کی اپنی حقیقتیں، اپنا سچ اور اپنا بیانیہ ہے۔ ہم ایک عجیب و غریب دور میں جی رہے ہیں؛ اس ربع معمورہ پر انسانی آبادی سات ارب سے متجاوز ہوا چاہتی ہے، جس میں ایک ارب سات کروڑ مسلم آبادی ہے۔ ایک سروے کے مطابق دنیا کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے، لیکن پھر بھی ملت درِاغیار پر کاسہٴ گدائی لئے کھڑی ہے ۔دنیا کی % 64 ذرائع آمدنی عالم اسلام کے پاس ہونے کے باوجود ابنائے ملت کی % 47 تعداد خط افلاس کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ #

کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے کوئی چارہ گری کو اترے

افق کا چہرہ لہو میں تر ہے زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے

            المیہ یہ کہ عالم ِاسلام نام کی کوئی چیز کم از کم ریاستی سطح پر موجود نہیں ہے، اکثر مسلم ممالک کے اربابِ اختیار کے لیے اپنا اقتدار اور نقد مادی فوائد معنی رکھتے ہیں اور اس کے اثرات ِبد اوپر سے نیچے تک کے ہر چھوٹے بڑے نظام میں اثر انداز ہو رہے ہیں؛ اس پر مستزاد یہ کہ عالمی اداروں کے نام پر جو ادارے موجود ہیں ان کا مقصد بھی صرف مغربی طاقتوں کے مفادات کی سفارتی سطح پر حفاظت کرنا؛ ان کو قانونی جواز بخشنا اور ان مقاصد کے لیے ضروری بیانیہ کو ترتیب دینا ہے ؛بلکہ بہت سے اسلامی کہلانے والے ممالک میں آج حق بات کہنا مظلوم کی حمایت کرنا اور ظالم کے خلاف لب کھولنا ایک ناقابل معافی جرم بن گیا ہے۔ اور اس جرم ِبیگناہی کی سزا میں سینکڑوں بے گناہ علما مبلغین و دعاة پس دیوار زِنداں سنت یوسفی ادا کر رہے ہیں۔ چنانچہ فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی دہشت گردی، غنڈہ گردی؛ بربریت اور جارحیت کے خلاف صرف مذمتی قرارداد پاس کرنے اور آنسوں بہانے اور ماضی کی طرح کے دیگر اقدامات سے شاید اب کچھ بھی نہیں ہونے والا؛ لہذا وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ ان کی جارحانہ اور ظالمانہ کاروائیوں سے ان کی ناپاک حرکتوں شرپسند عزائم اور وحشی پن پر قدغن لگانے سے پہلے مسلمان اپنے آپ کو بدلیں اور اچھی طرح بدلیں؛ علاقائی لسانی اور طبقاتی نفرتوں کو باہر نکال پھینکیں؛ اور امت کا ہر فرد اپنے اعمال و افعال میں مطابقت پیدا کرے۔

             خود پیغمبر ِانقلاب ﷺ نے ۳۲/ سال قلوب کو مرکز ِتوجہ بنایا اور جب جماعت تیار ہوگئی، تو پھر جس صحابی رسول ﷺ نے جس طرف رخ کیا ہے؛ زمین مسخر ہوتی چلی گئی، آپ کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں جو افراد تیار ہوئے، انہوں نے اپنے کردار سے انسانیت کا معیار قائم کر دیا۔ منجملہ واقعات کے بائیس لاکھ مربع زمین پر امام ِعدل و حریت فاروق اعظم کا حکم چلتا تھا؛ راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرا دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی پیاسا مرگیا تو عمر قیامت میں تجھ سے پوچھ ہوگی۔ اس جلیل القدر انقلابی انسان کے کردار کے دھمک نے باطل کا منہ کالا کر دیا تھا؛ ایوانوں میں باطل لرزتا تھا فاروق کا نام سن کر؛ کیسر و کسریٰ کا تو جنازہ اٹھ گیا تھا۔ عظمت کا یہ عالم کہ خط لکھا تو دریاؤں نے تعمیل کی؛ پانی کا چلو پھینکا تو آگ بجھ گئی؛ کانپتی ہوئی زمین کو ٹھوکر ماری تو زلزلہ تھم گیا؛ حکم دیا تو ہواؤں نے تعمیل کی۔

             بہرحال! اس تذکرے سے نہ مقصد کڑوی کسیلی سنانا ہے نہ ملت کے دکھ دہ صورت حال پر اشکباری کرنا ہے؛ یہ سب بہت ہو چکا اور ہوتا رہتا ہے؛ بلکہ اس کے لیے جماعتیں اور جمعیتیں تک وجود میں لائی جا چکی ہیں؛ لیکن پرنالہ جوں کا توں ہے؛ مقصدِ تحریر فقط ملت کے ہر فرد کے دل میں احساس ِبیداری پیدا کرنا ہے کہ ملت کا ہر فرد اپنے آپ کو کیسے بدلنے کے لیے تیار ہو جائے؛ اس کے قول و فعل میں مطابقت کیسے پیدا ہو جائے؛ اس کی رگ رگ، نص نص میں ایمانی حرارت کیسے پیدا ہوجائے۔ قوم کے بچوں میں معاذ اور معوّذ کا سا ذوقِ حق پرستی اور نوجوانوں میں جذبہٴ حریت کیسے پیدا ہوجائے؛ امت میں امت پنا کیسے آجائے؛ یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا اس سلسلہ میں توجہ نہیں دی جا رہی ہے؟ اور کام نہیں ہو رہا ہے؟ واضح رہے کہ ایسا بھی نہیں ہے توجہ طلب امر یہ ہے کہ ہو رہے کام کو تحریکی جذبے سے سرشار ہو کر کیا جائے اور بدلاؤ کے اس کام کو درجہ بدرجہ بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ مثلاً والدین اولاد کی فکر کریں؛ اساتذہ کرام شاگردوں کو مرکز ِتوجہ بنائیں؛ سماج کے سمجھدار لوگ اپنے زیر ِاثر لوگوں کے تئیں فکر مند ہوں؛ آفیسر اپنے ماتحتوں کی فکر کریں؛ مقررین اپنی نجی مجالس اور عمومی خطابات میں اپنا ایمانی فریضہ ذمہ داری کے ساتھ ادا کریں اور ملت کو سلگتے مسائل سے آگاہ کریں؛ تاکہ پوری ملت تربیت و اصلاح کی ایک زنجیر میں بندھ جائے اور اس زنجیر میں بندھے بغیر کسی انقلاب کی توقع رکھنا خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ باہمی اتفاق و اتحاد اور حقیقی دیانت داری و امانت داری ہی وہ چیز ہے کہ جو ملت اور مقدسات ِمسلمین کے تحفظ کی ضمانت ہوگی ورنہ

 ایں خیال است و محال است و جنوں

             یہ بات جب ہر کسی کی زبان پر ہے تو میں بھی کہے دیتا ہوں کہ ”اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالم اسلام متحد ہو“ صاف بات یہ ہے کہ اتحاد امت کے سلسلے میں اس وقت تک، جس قدر کہا اور لکھا جا چکا ہے کہا جاسکتا ہے کہ اس کو شمار میں لانا اگرچہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ لیکن #

 موج نے ڈوبنے والوں کو بہت کچھ پلٹا

 رخ مگر جانب ساحل ہونے نہیں پاتے

             علامہ جمال الدین افغانی سے منسوب یہ قول مشہور ہے، جو انہوں نے اتحادِ امت سے مایوس ہو کر کہا تھا کہ ” یوں تو مسلمانوں میں بہت سے اختلافات ہیں ،مگر اس بات پر تمام مسلمان متفق ہیں کہ ہم اتفاق پر کبھی متفق نہیں ہوں گے “ یہ باہمی نا اتفاقی کا ہی نتیجہ ہے کہ لگ بھگ باون مسلم ممالک کے درمیان اتنا چھوٹا سا اسرائیل ہے، اگر اس کی طرف مڑکر سب پیشاب بھی کر دیں تو یہ اس میں بہہ جائے “۔ لیکن افسوس!!! کہ سب مسلم ممالک سہمے سہمے رہتے ہیں؛ جب کہ تیل جیسی عظیم شئی قدرت نے مسلمانوں کے پیروں کے نیچے رکھ دی، جس کی ترسیل بند ہوجائے نظام ہی ٹھپ ہوجائے؛ پھر بھی بے حسی کی تصویر بنے ہیں، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی ہی اسرائیل کی فرعونیت کے عروج کا سبب بنتی رہی ہے۔

             سکوت کی وجہ اگر یہ ہے کہ اس طرح اسلامی ممالک یہود کے بے رحم پنجے سے آزاد رہیں گے، تو یاد رکھنا چاہئے کہ مسلم حکمرانوں کا زاویہ ٴنظر اور طرز ِعمل اور سوچ و فکر قطعًا صحیح نہیں ہے۔ جاننا چاہئے کہ تاریخ ہمیشہ ٹکرانے والوں کی لکھی جاتی ہے نہ کہ تلوے چاٹنے والوں کی، آج کل کے چند لوگوں سے قطع نظر نکمے اور عیاش مسلم حکمرانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بیت المقدس کے معاملہ پر آپ کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے تاریخ ہمیشہ آپ پر لعنت برساتی رہے گی؛ لہذا ملت ِاسلامیہ کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ آپ کے بچے آپ سے یہ پوچھیں یا نہ پوچھیں آپ اپنے بچوں اور نوجوانوں کو یہ ضرور بتائیں کہ ” قرآن کریم میں رب ذوالجلال نے جا بجا یہود اور ان کے سیاہ ماضی؛ ان کی گزشتہ بدترین و مجرمانہ تاریخ ؛ ان پر کیے جانے والے اپنے بے شمار انعامات و احسانات؛ یہود کی مکاری؛ فریب کاری؛ غداری؛ ناشکری؛ بدعہدی؛ بدعملی؛ و بدتمیزی؛ شرک و کفر؛ بت پرستی و بزدلی؛ شعبدہ بازی و سفلی عملیات؛ احکام الٰہی کے حوالے سے ان کی ہٹ دھرمی و نافرمانی؛ حرص و ہوس؛ سود خوری و رشوت ستانی اور حرام کاریوں اور ان کی طرف سے انبیاء و صالحین و مصلحین کو بے دردی و سفّاکی کے ساتھ قتل کر دینے کے لرزہ خیز واقعات کو جس تفصیل و وضاحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اتنا تفصیلی ذکر قرآن مجید میں کسی دوسری قوم و ملت کا نہیں کیا گیا ہے“۔

             حقیقت و سچائی یہ ہے کہ یہودی دنیا کی سب سے بڑی ظالم سفاک؛ خبیث و مجرم؛ ستم گر بزدل و ڈرپوک؛ قاتل؛ دہشت گرد خونخوار و حشی؛ قسی القلب؛ بد عہد و بدکردار؛رشوت ستانی و سود خوری میں ملوث اور فحاشی و عریانیت میں سب سے فائق اور دنیا کو جرائم و قبائح اور شنائع و رذائل اور بد اعمالیوں سے بھر دینے والی ملعون و مغضوب قوم ہے۔ اسی لیے اللّٰہ تعالٰی نے اس قوم پر وقتًا فوقتًا اپنا عذاب مسلط کیا؛ اس پر لعنتیں برسائیں؛ اس پر اپنا غضب و انتقام منڈھ دیا؛ ذلت و رسوائی ان کے مقدر میں لکھ دی گئی اس کو سزائیں دیں؛ انبیاء نے یہود کے حق میں بدعائیں کیں؛ یہودیوں کی انہی مکاریوں؛ بدعہدیوں؛ خباثتوں؛ بدمعاشیوں اور انسانیت دشمنی پر مبنی ان کی شیطانی حرکتوں کو دیکھتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے ان کو نہ صرف مدینہ منورہ سے نکال دیا تھا؛ بلکہ جزیرہ عرب سے بھی باہر کر دیا تھا۔

             بطور خاص شاہ فیصل مرحوم کے یہ تاریخی کلمات مسلم بچوں کے ذہن پر منقش ہونے چاہیئں کہ ”فلسطین پر قبضہ ہے؛ مسجد اقصٰی قید میں ہے؛ صیہونی وجود دشمن ہے؛ مزاحمت ایک اعزاز کی بات ہے؛ اور اسرائیل نام کی کوئی ریاست نہیں ہے،،۔

             دعا ہے اللّٰہ پاک ملت ِاسلامیہ کو باہمی اتفاق و اتحاد دے اور عالمِ اسلام کو سربلندی و سرفرازی عطا فرمائے! اور اسرائیلی جارحیت و بربریت کے خلاف جو اہل ِایمان بر سر پیکار ہیں ،حق تعالٰی ان کی نصرت و مدد فرمائے۔

             آہ! قبلہٴ اول ہم شرمندہ ہیں، آہ! مظلوم فلسطینی بچو!، نوجوانو!، اور بوڑھے مرد اور ماوٴں بہنو!، تمہاری عظمت و شجاعت کو سلام سلام سلام!!! اللّٰہ رب العزت تمہاری قربانیوں کو شرف قبولیت بخشے۔

 مدرس جامعہ ضیاء العلوم پونچھ۔ جموں و کشمیر