نوجوانوں میں صلاحیت قیادت پیدا کرنے کی کوشش

مولانا شمشاد احمد اعظمی  مدنی /استاذ جامعہ اکل کوا

            یہ پیغام آخری امت کے ان نوجوانوں کے نام ؛جو نہ معلوم کس کی نظر بد کا شکار ہوگئے ہیں یا یوں کہیں کہ جن پر شیطانی روحوں کا تسلط ہوگیا ہے ،جو اپنی انتھک کوششوں سے انھیں معاصی پر ابھارتی ہیں۔اور یہ ان کے جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں، ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کو کامیابی سمجھنے لگے ہیں؛ چناں چہ وہ نوجوان جو کل تک امت کے قائد تھے آج قیادت کا لفظ سن کر گھبراتے ہیں۔ جو نوجوان امت کا مستقبل کہے جاتے ہیں؛ وہی امت کو زبوں حالی اور خستہ حالی کی طرف ڈھکیل رہے ہیں، وہ نوجوان جنھیں اللہ نے إعلائے کلمة اللہ کی اہم ذمہ داری سونپی ہے، وہ اسے غیر اہم اور غیر ضروری سمجھنے لگے ہیں؛ وہ معرفت الٰہی جو انھیں نبیوں اور رسولوں سے وراثت میں ملی تھی؛ تاکہ اس نور ِمعرفت کے ذریعہ دوسروں کے لیے روشنی پیدا کریں، اسے چھوڑ کر نفس پرستی کی تاریکی میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ امت کے نوجوانوں کے سامنے قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کی ذمہ داری کو بیان کیا جائے اور بتایا جائے کہ قیادت کے لائق ومستحق سب سے زیادہ آپ ہیں۔ آپ ہی قوم کی صحیح رہبری کر سکتے ہیں، آپ کی قیادت سے امت کو ایک حوصلہ ملے گا، ایک نیا جوش اورنئی سوچ دنیاکوملے گی۔

            اگر ہم قرآن میں غور وفکر کریں اور احادیث کا مطالعہ کریں۔تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ماضی کے کارناموں کی ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی، جس میں نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، جیساکہ قرآن کہتا ہے :

            ﴿ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَأَہُمْ بِالْحَقِّ إِنَّہُمْ فِتْیَةٌ آمَنُوا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی، وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِہِ إِلَہًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًاشَطَطًا﴾(الکہف)

            وہ چند نوجوان تھے، جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے اور ہم نے انھیں مزید رہنمائی بخشی اور ہم نے ان کے دلوں کو اس وقت مضبوط کردیا ،جب انہوں نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ: ہمارا رب تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اس کے سوا کسی اور الٰہ کو نہیں پکاریں گے، اگر ہم ایسا کیے تو یہ عقل سے دور کی بات ہوگی۔

            یہ وہ نوجوان تھے جنھوں نے اپنے وقت کے ظالم حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر ،حق پرستی کا اعلان کیا۔ ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانے میں جو کردار ادا کیا وہ تمام نوجوانوں کے لیے نمونہٴ عمل ہے؛ اسی طرح سے قرآنِ مجید نے حضرت موسٰی پر ایمان لانے والے چند نوجوانوں کابھی تذکرہ کیا۔ حضرت موسٰی کو ان کی قوم نے باربار جھٹلایا؛ لیکن وہ چند نوجوان ہی تھے، جنھوں نے کٹھن اور مشکل حالات میں حضرت موسٰی کی نبوت پر ایمان لاکر ان کا ساتھ دیا۔

            اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی جوان اورجوانی سے متعلق کئی روایتیں ملتی ہیں:

            (۱)… عن ابن عباس قَال قالَ رسُولُ اللَّہِ صلَّی اللَّہُ علیہِ وسلَّمَ لرجُلٍ وہوَ یعِظُہ اغتَنِم خمسًا قبلَ خمسٍ شبابَک قبلَ ہَرمِک وصحَّتَک قبلَ سَقمِک وغناکَ قبلَ فقرِک وفراغَک قبلَ شُغلِک وحیاتَک قبلَ موتِکَ). (البیہقی)

            ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ جوانی کوبڑھاپے سے پہلے، صحت کوبیماری سے پہلے، خوش حالی ومالداری کو غربت وناداری سے پہلے، فراغت کومشغولیت سے پہلے اورزندگی کوموت سے پہلے۔

            (۲)… عن أبی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:”سَبْعَةٌ یُظِلُّہُمُ اللہُ فی ظِلِّہِ یَومَ لا ظِلَّ إلَّا ظِلُّہُ: الإمامُ العادِلُ، وشابٌّ نَشَأَ بعِبادَةِ اللہِ، ورَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ فی المَساجِدِ، ورَجُلانِ تَحابَّا فی اللہِ اجْتَمَعا علیہ وتَفَرَّقا علیہ، ورَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأَةٌ ذاتُ مَنْصِبٍ وجَمالٍ، فقالَ: إنِّی أخافُ اللہَ، ورَجُلٌ تَصَدَّقَ بصَدَقَةٍ فأخْفاہا حتَّی لا تَعْلَمَ یَمِینُہُ ما تُنْفِقُ شِمالُہُ، ورَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خالِیًا، فَفاضَتْ عَیْناہُ۔“(صحیح مسلم)

            ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے نیچے سایہ دے گا ،جب کہ اس کے سایہ کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا: عادل امام، وہ نوجوان، جس کی جوانی عبادت میں لگی، وہ آدمی جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہے، وہ دو شخص جو اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں ،ان کاملنا اور الگ ہونا اللہ کے لیے ہوتا ہے، وہ آدمی جو حسن وجمال اور منصب والی عورت کی دعوت یہ کہہ کر رد کردے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ آدمی جو حد درجہ چھپا کر صدقہ کرتا ہے، وہ آدمی جو یکسوئی کے ساتھ اللہ کو یاد کرکے روتا ہے۔

            (۳) …عن عبد اللہ بن مسعود عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا تزولُ قدما ابنِ آدمَ یومَ القیامةِ حتَّی یُسألَ عن خمسٍ عن عُمرِک فیما أفنیتَ وعن شبابِک فیما أبلیتَ وعن مالِک مِن أین اکتسبتَہ وقال ابنُ حَمدانَ کسبتَہ وفیما أنفقتَہ وما عمِلتَ فیما علِمتَ.

(ابن عساکر)

            حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فر مایا: قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے ؛یہاں تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے۔ عمر کن کاموں میں گنوائی؟ جوانی کی توانائی کہاں صرف کی؟ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ جوعلم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟

            عزیز نوجوانو! چوں کہ جوانی کی عمر انسان کی زندگی کا اہم دور ہوتا ہے اور نوجوان ہی امت ِمسلمہ کا بیش قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو بلندہمت، باشعور، پرجوش اور پرعزم نوجوان ہی ہر زمانے میں اسلامی انقلاب کے سرکردگان رہے ہیں۔

            نیز وہ قومیں خوش نصیب ہوتی ہیں، جن کے نوجوان فولادی ہمت اور بلند عزم و استقلال کے مالک ہوتے ہیں۔ کام یابی ہمیشہ ان قوموں کا مقدر ہوتی ہے، جن کے نوجوان مشکلات سے گھبرانے کے بجائے دلیری سے مقابلہ کرنے کا ہنر جانتے ہوں۔ وہ قومیں ہمیشہ سرخرو رہتی ہیں، جن کے نوجوان طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔

            عزیزان ملت! جوانی وہ عرصہٴ حیات ہے کہ جس میں ہمت جوان ہوتی ہے۔زندگی کا وہ اہم اور قیمتی وقت ہے ،جس میں حوصلے بلند ہوتے ہیں۔نیز اسلامی تعلیم وتہذیب سے آراستہ نوجوان ہی قوم وملت کی ترقی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ترقی یافتہ خوش حال او رکام یاب اقوام کی تاریخ میں یہی راز پنہاں ہے کہ انھوں نے تعلیم اور کردار پر محنت صرف کی حصول تعلیم میں آنے والی رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کام یابی وکامرانی سے ہمکنار ہوکر تاریخ ِانسانی کے معظم افراد کہلائے۔ شریعت ِاسلامیہ میں نوجوان مسلمان کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ ابتدائے اسلام میں تعلیمات ِاسلامی نے نوجوانوں پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے، کائنات کی تاریخ میں صحابہ کرام کی نوجوان مقدس جماعت اپنے کردار واخلاق سے قیامت تک آنے والی نسلوں کو متاثر کیا، جس کی مثال ملنا دشوار ہی نہیں ناممکن ہے؛چناں چہ طلحہ بن عبید اللہ جن کو اللہ کے نبی نے شہادت کی خوش خبری دی، جو احد کی لڑائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھال بن کر کھڑے رہے اور کفار سے آپ کی حفاظت کی، اس وقت آپ کی عمر بیس سال سے بھی کم تھی۔ ایک صحابی عبد الرحمن الداخل ہیں جو دمشق سے افریقہ دولت ِاسلام کو زندہ کرنے کے لیے اکیلے نکل پڑتے ہیں اور ان کی عمر صرف ۲۴/ سال ہوتی ہے۔ انھیں نوجوانوں میں سے ایک عبد الرحمن الناصر ہیں، جن کے سنہرے دور سے کون ناواقف ہوگا، جب بنو امیہ نے گھٹنے ٹیک دیے تھے تب صرف ۲۱/ سال کی عمر میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے اکیلے بے نظیر کارنامہ انجام دیا ،جس سے یورپ کی قیادت بھی اسلامی رنگ میں رنگ گئی۔ انھیں میں سے اسامہ بن زید ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی غزوہ کی ذمہ داری سونپی؛ جب کہ آپ نے صرف اپنی عمر کی ۱۸/ بہاریں ہی دیکھی تھی۔ انھیں میں سے محمد الفاتح ہیں، جنھوں نے قسطنطنیہ فتح کیا اور آپ نے ابھی صرف ۲۲/ سال گزارے تھے۔ انھیں میں سے زبیر بن العوام ہیں جن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شوریٰ میں رکھا تھا ان کی عمر بھی ۲۰/ سال سے کم تھی، پھر معاذ اور معوذ کو کون نہیں جانتا؟ غرض یہ کہ تاریخ کے اوراق ایسے نوجوانوں کے کارنامے اور واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ (رضی اللہ عنہم اجمعین)۔

             دورِ شباب ہی میں حضرت علی، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عمار بن یاسر، حضرت خالد بن ولید، حضرت عمرو بن العاص، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس اورحضرت ابن زبیر نے نبی کریم ا کا ساتھ دیا اور بے شمار غزوات میں اپنی قربانیوں کو پیش کیا۔ اسی دورِشباب میں صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمدبن قاسم جیسے مسلم سالاروں نے اپنے کارناموں سے اسلامی تاریخ کو زندہ اور روشن و تابناک بنایا۔ تاریخ میں ایسے ایسے نوجوان پیدا ہوئے، جنہوں نے اپنی جوانی کے ایک ایک لمحہ کو قیمتی جانا، اپنی جوانی میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے، کئی جنگوں میں بڑی بڑی فتوحات حاصل کرلیں۔ وہ باوقار شخصیتیں تھیں ان کے کردار میں وہ رعب و دبدبہ تھا کہ دوسری قومیں اور افواج اُن کے نام سے تھرتھرا اُٹھتی تھیں، اُن کے سایہ سے شیطان بھی دور بھاگ جاتا، جس سرزمین پر یہ قدم رکھتے، وہ جگہ اللہ کے حکم سے اُن کے قبضے میں آجاتی، یہ ایسے نوجوان تھے جنہوں نے اپنی جوانی کا صحیح استعمال اوراپنی صلاحیتوں کو اللہ کے دین کے لیے قربان کیا۔

            قارئین! موجودہ حالات میں نوجوانوں میں اعتماد بحالی کی اشد ضرورت ہے، جب پورے ہندستان میں ہزاروں شاہین باغ بن گئے ہیں۔ کہیں پر قیادت عورتیں کر رہی ہیں تو کہیں بغیر قائد کے احتجاجات اور مظاہرات جاری ہیں۔یہ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ جس قوم کے پاس محمد عربی ﷺجیسے نبی ہوں، خلفائے راشدین جیسے آپ کے جانشین ہوں، جس امت کو رہبری کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہواور جس امت کو خیر ِامت کے لقب سے نوازا گیا ہو ،اس امت میں کوئی لیڈر نہیں اور کوئی قائد نہیں۔

            قارئین ِکرام! ہوسکتا ہے ان مظاہرات سے کچھ نوجوان قیادتیں بھی ابھر کر سامنے آجائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ان کے اندر قیادت کی اہلیت وصلاحیت ہے یا نہیں۔ اسلامی تعلیمات سے کتنا واقف ہیں، دشمنوں کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں یا نہیں؟ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اور کیا وہ اپنی سیاست سے دوسرے برادر ِوطن کو اپنے ساتھ جوڑنے پر قادر ہیں یا نہیں؟ اگر ہاں تو پھر ان کا ساتھ دینا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر ان کی رہ نمائی بھی کرنی چاہیے۔ اور آزادی کے بعد ہم نے جو غلطیاں کی ہیں اسے پھر نہ دہرائیں۔مثلاً قیادت سے مسلمانوں کا دستبردار ہو جانایا چند افراد کا کسی اور کے جھنڈے تلے سیاسی کھیل کھیلنا اور ان کے سامنے صرف اپنا مفاد ہونا اور ان رہ نماؤں کا معاشرے کی ترقی کے بجائے اپنے سیاسی کیریر پر زیادہ توجہ مرکوز کرنااور ان کا زیادہ تر غیر تعلیم یافتہ ہونا یا اسلامی تعلیم سے دور ہونا اور اپنے سرپرست سیاسی رہ نماؤں کے لیے ووٹ حاصل کرنے کی خاطر کمر بستہ رہنا۔ مسلمانوں کے مسائل سے بے خبر رہنا، بل کہ بعض کا اپنے بیان و عمل سے مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ کرنا، میڈیا کی تشہیر پر ایسے قائدین کو اپنا لینا اور اپنا قائد تسلیم کر لینا، جس سے مسلم سماج مزید خسارے کا شکار ہے۔

            قارئین! یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کی قیادت کسی ایک کے ہاتھ میں ہونا مشکل امر ہے، بل کہ انھیں بہت سارے قائدین کی ضرورت ہے اور پھر ان قائدین کا ایک قائد ہو، جو ایک ساتھ مل کر نہ صرف مختلف خطوں اور علاقوں کے مسلمانوں کی نمائندگی کرے؛ بل کہ بحران کے وقت ان کے ساتھ کھڑا ہو۔ اور جو اسلامی تعلیمات اور آج کی سیاست سے پوری طرح واقف ہوں، اور سیاست کے بدلتے منظر نامے پر گہری نظر رکھتے ہوں اور سماج کے بحران کو سمجھتے ہوں۔ آنے والی حکومت کے ہر چیلنجز کا سامنا کرنے کا ہنر جانتے ہوں، دشمنان ِاسلام کے مکروفریب کو سمجھنے والے ہوں، جنسی جذبات کے دھارے میں بہ کر اپنی شخصیت کو نیست ونابود اورضائع ہونے سے بچانا جانتے ہوں۔

             اور طریقہٴ نجات یہ ہے کہ نفسیاتی تربیت قرآن کریم کے ذریعہ ہو۔دل کو ایمانی غذا دی جائے ،نیک لوگوں کی صحبت کو غنیمت سمجھ کر اختیار کیا جائے، وعظ ونصیحت کی مجلسوں میں بھی شرکت کی جائے، اس لیے کہ وعظ ونصیحت نوجوانوں کی زندگی کے لیے روح کی طرح حیات بخش ہے؛ جیساکہ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو بہت سی نصیحت فرمائی:

            ﴿یَا بُنَیَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنکَرِ وَاصْبِرْ عَلَیٰ مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذَٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴾ (لقمان)

             فرمایا پیارے بیٹے نماز قائم کرو، نیکی کا حکم کرواور برے کام سے منع کرو؛ اگر تجھے کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر صبر کرو بلاشبہ یہ سب باتیں بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہیں۔

            اگر دیکھا جائے تو ہر قوم کی اصل قوت اس کا اخلاق اور کردار ہے ۔بغیر اخلاق وکردار کے زندگی میں کوئی لطف نہیں، بسا اوقات اخلاق سے عاری انسان ظالم بن جاتا ہے؛اسی کو پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ”إنَّما بعثتُ لأتمِّمَ مَکارِمَ الأخلاق“

            کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجاگیاہوں۔

             قرآن وحدیث کی روشنی میں ہم مجموعی اور انفرادی دونوں سطح پر اس بات کاجائزہ لیں کہ ہم کیسا معاشرہ تشکیل دینے جا رہے ہیں۔نوجوان نسلوں کی تربیت کس انداز میں کر رہے ہیں؟مستقبل میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، اسلام نے جو ہمیں طرز ِزندگی سکھایاتھا وہ اختیار کررہے ہیں یا نہیں؟ہم اور ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں اسلامی طرز ِحیات سے کتنے قریب ہیں؟ معاشرہ میں کونسا فتنہ وفسادبرپا ہے، ان کے سد ِباب کے لیے ہم نے کون سا قدم اٹھایا؟

            تو آئیے! ہم عہد کریں کہ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں گے اور اپنے اندر سے نوجوان قیادت کو جنم دیں گے۔ ایسی قیادت؛ جس میں جوش بھی ہوگااور ہوش بھی ہوگا، حکمت کے ساتھ مصلحت بھی ہوگی، بلند ہمتی بھی ہوگی اور حوصلہ بھی ہوگا۔ اپنے سے زیادہ امت کا درد ہوگا؛ جینا بھی امت کے لیے ہوگااور مرنا بھی امت کے لیے ہوگا۔ اور ایسا تبھی ممکن ہے جب ہمارا کردار وعمل اسلامی طریقہ پر ہوگا؛ اس کے حقائق پر وہ اعتماد واپس لایاجائے، جس کا رشتہ اس طبقہ کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔

             لہٰذا آج کا افضل ترین کام یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج کیا جائے، جس میں آج کا تعلیم یافتہ جوان بری طرح گرفتار ہے اور اس کی عقل وذہن کو اسلام سے پوری طرح مطمئن کردیا جائے۔ اس کا کھویا ہوا اعتماد پھر سے لوٹایا جائے، پھر بعید نہیں کہ ہم بھی ماضی کے کارنامے دوبارہ انجام دینے پر قادر ہو جائیں اور تاریخ کے روشن صفحات میں ہمارا نام بھی درج ہوجائے۔