حفاظت ایمان کا تیسرا طریقہ:
مولانا رفیق عالم(استاذ جامعہ اکل کوا)
ایمان کی حفاظت کے لیے اپنے نفس کی اصلاح اور تزکیہ نہایت ضروری ہے اور تزکیہٴ نفس کا مطلب یہ ہے کہ قلب کو رذائل مثلاً: تکبر، ریاکاری، حسد، کینہ بغض، حبِ دنیا اور غصہ وغیرہ سے پاک وصاف کرکے فضائل جیسے: تواضع، اخلاص، محبت ِالٰہی، رضا بالقضا، صبر وشکراور توکل وغیرہ سے آراستہ کرنا۔
قرآن ِکریم اور احادیث ِمبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض رذائل اتنے مہلک اور خطر ناک ثابت ہوتے ہیں، جن کا انجام کفر اور بے ایمانی ہوتاہے، اگر ان رذائل سے اپنے نفس کو پاک نہ کیا گیا، تو خاتمہ خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
(۱) نفس کو تکبر سے پاک کرنا:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
”قال الملاء الذین استکبروا من قومہ للذین استضعفوا لمن آمن منہم أتعلمون ان صٰلحا مرسل من ربہ قالوا انا بما ارسل بہ مومنون قال الذین استکبروا انا بالذی آمنتم بہ کفرون“ (الاعراف)
ان کی قوم میں جو متکبر سردار تھے، انہوں نے غریب لوگوں سے جو کہ ان میں سے ایمان لے آئے تھے، پوچھا کہ کیا تم کو اس بات کا یقین ہے کہ صالح ( علیہ السلام) اپنے رب کی طرف سے ( پیغمبر بنا کر) بھیجے ہوئے (آئے) ہیں۔ انہوں نے ( جواب میں کہا) کہ بے شک ہم اس ( حکم) پر پورا یقین رکھتے ہیں، جو ان کو دے کر بھیجا گیا، وہ متکبر کہنے لگے کہ تم جس چیز پر یقین لائے ہوئے ہو ہم تو اس کے منکر ہیں۔(معارف القرآن:۳/۶۰۴)
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”کذلک یطبع اللہ علی کل قلب متکبر جبار“ ( المومن)
اسی طرح اللہ ہر مغرور وجابر کے پورے قلب پر مہر کردیتے ہیں۔ ( بیان القرآن)
حارث ابن وہب رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ میں تمہیں جنتیوں کے بارے میں بتلادوں ( یعنی کون لوگ جنتی ہیں) تو سنو! ہر وہ ضعیف شخص ( جنتی ہے) جس کو لوگ ضعیف وحقیر سمجھیں ( اور اس کی کمزروی وشکستہ حالی کی وجہ سے اس کے ساتھ جبر وتکبر کا معاملہ کرییں) حالاں کہ (حقیقت کے اعتبار سے وہ ضعیف وکمزور اللہ کے نزدیک اس قدر اونچا مرتبہ رکھتا ہے کہ ) اگر وہ اللہ کے بھروسے پر کسی کے بار ے میں قسم کھا بیٹھے، تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم کو سچا کردے اور کیا میں تمہیں ان لوگوں کے بارے میں بتلادوں، جو دوزخی ہیں( تو سنو!) ہر وہ شخص دوزخی ہے، جو فضول ولغو باتوں پر سخت گوئی کرنے والاہو، جھگڑا لو ہو، جو مال جمع کرنے والا بخیل ہو اور تکبر کرنے والا ہو ۔
اس حدیث میں بھی تکبر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ میں جانے کا سبب بتایا۔
فائدہ: حضرتِ اقدس مجدد تھانوی رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کے ارشاد:” وسیق الذین کفروا الی جہنم زمرا“ میں جہنم جانے کی علامت کفر ہی کو کہاگیا اور” فبئس مثوی المتکبرین“ میں اس برے ٹھکانے کی علامت تکبر کو کہا گیا؛ حالاں کہ دونوں جگہ مجرم ایک ہی گروہ ہے۔ گویا خلاصہ یہ نکلا کہ اس مجرم گروہ کے جہنم میں داخل ہونے کی دوعلامتیں ذکر کی گئی ہیں: (۱) کفر (۲) تکبر۔
مطلب یہ ہے کہ دونوں چیزیں جہنم میں داخل ہونے کا سبب ہیں، مگر کفر جہنم میں داخل ہونے کا سببِ قریب ہے اور تکبر سببِ بعید ہے اور تکبر، کفر کا بھی سبب ہے۔ تکبر ہی کی وجہ سے آدمی کفر اختیار کرتا ہے، چناں چہ ابلیس ِلعین کے بار ے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:” ابیٰ واستکبر وکان من الکفرین“۔
اس نے نہ مانا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا ۔
شیخ ابو عبد اللہ اندلسی کا سبق آموز واقعہ:
ذیل میں حضرت شیخ ابو عبد اللہ اندلسی کا ایک عبرت ناک واقعہ ذکر کیا جاتا ہے، جس کے بارے میں قطب الاقطاب شیخ الحدیث الحاج مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی قدس اللہ سرہ اپنے رسالے” ام الامراض“ میں رقم طراز ہیں، جس کا خلاصہ یوں ہے:کہ شیخ ابو عبد اللہ مشہور شیخ المشائخ، اندلس کے اکابر اولیاء اللہ میں سے ہیں، ہزاروں خانقاہیں ان کے دم سے آباد، ہزاروں مدارس ان کے فیوض سے جاری، ہزاروں شاگرد، ہزاروں مریدین۔ آپ کے مریدین کی تعداد بارہ ہزار تک بتلائی جاتی ہے۔
ایک دفعہ سفر کے ارادے سے تشریف لے گئے، ہزاروں مشائخ وعلما ہم رکاب ہیں، جن میں حضرت جنید بغدادی وحضرت شبلی رحمہما اللہ تعالیٰ بھی ہیں، حضرت شبلی رحمة اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ہمارا قافلہ نہایت ہی خیرات وبرکات کے ساتھ چل رہا تھا کہ عیسیائیوں کی ایک بستی پر گذر ہوا، تو آتش پرستوں اور صلیب پرستوں کو غیر اللہ کی عبادت میں مشغول دیکھ کر حضرت شیخ کے دل میں تکبر اور بڑائی پیدا ہوئی کہ ہم موٴمن وموحد ہیں اور یہ کم بخت کیسے جاہل واحمق ہیں کہ بے حس وبے شعور چیزوں کی پرستش کرتے ہیں۔شیخ فرماتے ہیں:مجھے اسی وقت ایک غیبی آواز دی گئی کہ یہ ایمان وتوحید کچھ تمہارا ذاتی کمال نہیں ہے کہ سب کچھ ہماری توفیق سے ہے، کیا تم اپنے ایمان کو اپنے اختیارمیں سمجھتے ہو؟ اور اگر تم چاہو، تو ہم تمہیں ابھی بتلادیں اور مجھے اسی وقت یہ احساس ہوا کہ گویا ایک پرندہ میرے قلب سے نکل کر اڑ گیا، جو درحقیقت ایمان تھا۔
۲۔ نظروں کی حفاظت کرنا:
”قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان النظر سہم من سہام ابلیس مسموم، من ترکہا مخافتی ابدلتہ ایمانا یجد حلاوتہ فی قلبہ “۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نظر ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جس نے بد نظری کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑدیا، تو میں اس کو ایمان کی ایسی کیفیت سے بدل دوں گا، جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔
ایک عبرت ناک واقعہ :
حافظ ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک عاشق اپنے معشوق کی ملاقات سے مایوس ہو کر مرنے لگا، کسی نے جاکرمعشوق سے کہہ دیا کہ وہ مررہا ہے، اس کی حالت پر ترس کھاوٴ۔ اگر تم اس وقت اس کے پاس پہنچ جاوٴگے، تو اس کی جان بچ جائے گی،اس کی سمجھ میں بات آگئی؛ چناں چہ اٹھ کر اس کی طرف چل پڑا، کسی نے عاشق کو خبر دی کہ تیرامعشوق آرہا ہے۔ یہ سن کر اس کی جان میں جان آگئی اور اٹھ کر بیٹھ گیا؛ مگر آتے آتے اس کو غیرت آگئی اور وہ یہ کہہ کر لوٹ گیا کہ کون بدنام ہو؟! کسی نے جاکر یہ بات عاشق کو بتلادی، یہ خبر سنتے ہی وہ عاشق گرگیا اور حالتِ نزع طاری ہوگئی، اس سے کہا گیا کہ کلمہ پڑھ لے، تو وہ بجائے کلمہ کے کفر کا کلمہ کہتا تھا:
رضاک اشہی الی فوٴادی من رحمة الخالق الجلیل
اے میرے محبوب! خالق کے مقابلے میں مجھے تیری رضا کی زیادہ خواہش ہے۔
یہی کلمہ کہتے کہتے اس کی جان نکل گئی۔ العیاذ باللہ!
حضرت مجدد تھانوی ارشاد فرماتے ہیں: دیکھیے! جان بھی گئی اور ایمان بھی گیا اور یہ سب خرابی بد نظری کی وجہ سے ہوئی۔
۳۔ غصہ ایک شیطانی عمل:
عن بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان الغضب لیفسد الایمان کما یفسد الصبر العسل۔
حضرت بہز بن حکیم اپنے والد سے اور وہ بہز کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یقینا غصہ ایمان کو ایسے ہی خراب کردیتا ہے، جیسے ایلوا (صحرائی پھل، جو کہ نہایت ہی کڑوا ہوتا ہے) شہد کو خراب کردیتا ہے۔
فائدہ: مرقات میں حضرت ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ بعض محققین کا ارشاد ہے غصہ ایک شیطانی وسوسوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، اس کی وجہ سے وہ حدِ اعتدال سے آگے گزر جاتا ہے، نہ تو اس کی ظاہری شکل وصورت میں اعتدال باقی رہتا ہے اور نہ سیرت وکردرا میں، یہاں تک کہ غصہ کی بنا پر ایسے باطل کلمات کہنا شروع کردیتا ہے، جو شریعت اور معاشرے دونوں میں مذموم سمجھے جاتے ہیں اور غصے ہی سے اس کے باطن میں کینہ وبغض اور دوسرے بعض برے اخلاق جنم لیتے ہیں؛ یہاں تک کہ بعض اوقات اس وجہ سے کفر بھی اختیار کرلیتا ہے۔
تزکیہٴ نفس سے ایمان کی حفاظت:
الغرض! حفاظتِ ایمان کے لیے نفس کو رذائل سے پاک کرنا نہایت ضروری ہے، ورنہ رذائل موت کے وقت کی فیصلہ کن گھڑی میں اس قدر ستاتے ہیں کہ ایک مردِ مومن کے خاتمہ خراب کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابر اسلاف نے خیر القرون سے اب تک تزکیہٴ نفس کا بہت اہتمام کیا ہے۔ حضرات ِصحابہ اور بعد کے بزرگوں کی سوانح حیات کے مطالعے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے، اس مضمون کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے:
”ستکون فتن یصبح الرجل موٴمنا ویمسی کافرا الا من احیاہ اللہ بالعلم“
عن قریب ایسے فتنے ہوں گے، آدمی صبح کو مومن ہوگا، تو شام کو کافر ہوجائے گا؛ مگر وہی شخص( بچ سکے گا) جس کو اللہ تعالی علم کے ذریعے زندگی عطا فرمائیں گے۔
اس حدیث کی شرح میں حضرت شاہ عبد الغنی المجددی ارشاد فرماتے ہیں: کہ فتنوں کے عروج میں جس علم کے ذریعے اللہ تعالیٰ گمراہی اور کفر سے حفاظت فرماتے ہیں، اس علم سے مراد علم کشفی( علم وہبی)ہے، جو اللہ تعالیٰ کے حضور کمالِ عبدیت اور اس کی ذات میں فنا ہونے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کمال ِعبدیت اور ان کی ذات میں فنا کی دولت سلوک وتصوف اور مجاہدات وریاضات کے بغیر عطا نہیں فرماتے۔