نعمتِ خداوندی کی بربادی فتنۂ اسراف اور فضول خرچی

مفتی عبد القیوم مالیگانوی ؔ/استاذ جامعہ اکل کوا

ایک ہی راستے نہیں ہیں :

            کہتے ہیں کہ مال کمانا تو آسان ہے ، لیکن اسے سنبھالنا اور بچانا مشکل ۔ واقعتا آج کے ترقی یافتہ اور دور ِٹیکنا لوجی میں، جس طرح سے مال و اسباب کو حاصل کرنے کے نت نئے طریقے اور راہیں کھل چکی ہیں ، اسی طریقہ سے حاصل کردہ مال اور محنت سے آئے ہوئے سرمایہ کو خرچ کرنے، بل کہ لٹانے اور برباد کرنے کے بھی ان گنت اور عجیب و غریب راستے ہیں۔ ضرورت اور حاجت کا پورا کرنا ضروری ہے اور وہ کم اخراجات ، کم وقت اور کم محنت سے بھی پوری ہوجاتی ہے ؛جب کہ خواہش کے لیے کثیر مال ، زیادہ محنت اور زیادہ وقت درکار ہے ۔ نیز خواہش کا خاصہ یہ ہے کہ وہ کسی دم رکنا جانتی ہی نہیں ، بل کہ ایک خواہش کی تکمیل کے بعد دوسرے منہ کھولے سامنے کھڑی رہتی ہے اور نفس کسی ایک لذت اور خواہش پر قانع نہیں ہوتا ہے ۔ نتیجتاً انسان خواہشات کی تکمیل اور حصولِ لذت میں اپنی پوری زندگی کی پونجی لٹادیتاہے اور پیوندِ خاک بن جاتا ہے ۔ ان حقائق ونظریات کو قرآن و سنت نے بالکل واشگاف کردیا ۔

            اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: کہ {اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُo حَتّٰی زُرْ تُمُ الْمَقَابِرَ }

بڑا بے قرار ہے :

            رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی اور زیادہ صاف ہے : ’’ لوأن لابن آدم وادیا من ذہب أحب ان یکون لہ وادیان ولن یملأ فاہ الا التراب ویتوب اللہ علی من تاب ‘‘(متفق علیہ)،(ریاض الصالحین :۳۵) کہ ابن آدم؛ یعنی انسان کے نفوس وحرص کا یہ عالم ہے کہ قبر کی مٹی ہی اس کا آخری اور بہترین حل ہے ۔ اور آج انسان ضرورت سے کئی گنا زیادہ خواہشات کی تکمیل اور لذاتِ نفسانیہ، بل کہ شہوانیہ کے حصول میں ایسا دیوانہ اور بے قرار ہے کہ جس نے اس کی زندگی کو جہاں احکام شریعت سے کوسوں دور کردیا، وہیں اس کو جانور سے بھی بد تر جینے پر مجبور کردیا ۔ آپ اسے نہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے نہ ہی اپنا مقصد ِحیات یاد ہے ؛بس جیسے چاہتا ہے حلال وحرام کے فرق اور دوسرے کے حق اور درد کا احساس کیے بغیر مال کمانے کی کوشش کرتا ہے اور دل اور نفس جہاں خرچ کرنے کے لیے حکم دے وہاں ساری حدود وقیود کو طلاق دے کر من مانی خرچ کرتا ہے ۔

            ناجائز اور حرام مصارف میں خرچ کرکے بجائے اس کے کہ کچھ جھجھک اور ڈر محسوس کرتا؛ بل کہ اس پر فخر اور مسرت کا اظہار کرتا ہے ، چناں چہ اس وقت امت کا بہت بڑا سرمایہ اور دولت ناجائز اور حرام خواہشات پر لٹ رہی ہے اور لٹنے کا احساس بھی نہیں؛ کیوں کہ پہلو میں حساس دل ہی نہیں ۔جیسے شادی بیاہ کے مواقع پر ویڈیو شوٹنگ ، فوٹوگرافی ، گانے بجانے کے آلات اورڈی جے وغیرہ پر خرچ۔ نسلِ نو یعنی نوجوان کا اغیار کی تہذیب سے متاثر ہوکر اپنا برتھ ڈے منانے پر بے تحاشا خرچ، جس میں اس وقت کے نوجوان کافی جوش کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، اس موقع پر بڑا کیک کاٹا جاتا ہے اورسارے فرینڈ سرکل کو برتھ ڈے کا میسیج دے کر شریک محفل کرکے ڈی جے لگوانا ، خوب ناچ گانا کیا جاتا ہے اور اسے اعلیٰ سوسائٹی کا فرد ہونا تصور کیا جاتا ہے ۔

            اسی طریقہ سے فیشن ایبل بل کہ ناجائز ملبوسات پرمرد وخواتین بے دریغ مال لٹاکر اپنے جذبات کو تسکین اور اپنی شخصیت کو نکھارنا چاہتے ہیں ۔

سچ کہا کسی نے   ؎

تیرے صوفے ہیں افرنگی ، تیرے قالین  ایرانی

لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

آج کل کا ایک جدید فیشن:

            اسی طریقہ سے مغربی کلچر کے مطابق شادی خانوں میں بافے سسٹم کو اپناکر اشیائے خورد نوش کی وہ بربادی اور ناقدری کی جارہی ہے کہ اگر گرے پڑے اور ردی کی ٹوکریوں میں پھینکے ہوئے اچھے اور لذیذ کھانوں کو محفوظ رکھا جائے، تو غریبوں اور حاجت مندوں کے کئی محلے آسودہ ہوجائیں۔یااس فضول خرچی کو اگر بچایا جائے تو کتنی ہی غریب ویتیم بچیوں کی شادی کے اخراجات پورے ہوجائیں ، لیکن کیا کہیں سرمایہ داروں کو ، نام و نمود ، فخر وریا کے جنون نے آنکھوں پرایسی پٹی باندھی ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا ۔

             نیز وقت گزاری اور لہو ولعب کا شعبہ بھی فضول خرچی اوراسراف کے فتنہ سے محفوظ نہیں ، بل کہ دیگر میدانوں سے زیادہ اس میں اور تیزی ہے ، چناںچہ ایک مزدور دو تین سوروپے کمانے والا عام آدمی اسے بھی پانچ دس ہزار روپے کی مالیت والا اسمارٹ فون لینا جیسا کہ فرض عین کے درجے میں سمجھتا ہے ،پھر اس میں نیٹ بیلنس کا صرفہ ، ہرمہینہ تقریباً ۱۵۰؍ روپئے اسی کے ساتھ’’ ہم کسی سے کم نہیں‘‘ کہ جذ بۂ بے کار پر عمل کرتے ہوئے اس موبائل کو اوپر نیچے کرتا پائجامہ یعنی سیفٹی گلاس اورکور پہننانے کا شوق ۔ یہ تو معاشرتی فضول خرچیوں اور اسراف کی صرف چند جھلکیاں ہیںبات اسی پرختم نہیں ہوتی ہے ۔ ہماری عبادات کا شعبہ بھی اس بَلا اور فتنہ سے معصوم نہ رہ سکا ؛ چناںچہ آج کل یہ بھی ایک فیشن ہی بن رہا ہے کہ حجاج کرام اور معتمرین بھی سفرِ حج پر جانے سے قبل بڑی بڑی دعوتیں کررہے ہیں ، انہیں رخصت کرنے اور ایئر پورٹ تک پہنچانے کے لیے دوتین گاڑیوں کا ایک قافلہ روانہ ہوتا ہے ، اس کے ساتھ پورے سفر کی ویڈیو شوٹنگ اور فوٹو گرافی وغیرہ سے اس سفرکے سارے تقدس کو پامال کردیا جاتا ہے۔ الامان !

بین الاقوامی ادارہ کی رپورٹ:

            یہ امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسراف و فضول خرچی کا حال ہے، جب کہ اسی امت کے معصوم بچے ، بچیاں اپنی زندگی بچانے کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں ضروری لقمہ اور غذا کے لیے ترس رہے ہیں ، بل کہ تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں ؛چناں چہ بین الاقوامی بچوں کے ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ۱۰؍فی صد بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ، جس میں اکثریت مسلم بچوں کی ہیں ۔

             ۱۰؍ فی صدیعنی پوری دنیا کے ۵؍ کروڑ بچے؛ فضول خرچی کے اس سیلاب اور اسراف کی اس لہر کے شکار ہیں؛جسے دیکھ کرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشاداتِ گرامی قدر کی حقیقی توضیح اور تشریح سمجھ میں آتی ہے، جو صدیوں پہلے زبانِ رسالت نے بیان کردی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کے مال و اسباب کی بہتات وکثرت کو دیکھ کر فرمایا تھا۔

            عن عمربن عوف رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فوا للّٰہ لا الفقر اخشیٰ علیکم ولکن اخشیٰ علیکم ان تبسط علیکم الدنیا کما بسطت علی من کان قبلکم فتنا فسوہا کما تنافسوہا وتہلککم کما اہلکتم۔(صحیح بخاری: ۳۱۵۸)

            کہ مجھے تم پر فقر و فاقہ کا ڈر نہیں، بل کہ دنیا کی ریل پیل کا خطرہ ہے کہ جیسے اس میں بہہ کر پچھلے ہلاک کردئے گئے کہیں تم بھی برباد نہ کردئے جاؤ۔

             ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح ارشاد فرمایا : 

            ’’ عن کعب بن عیاض قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان لکل امۃ فتنۃ وفتنۃ امتی المال ‘‘ ۔(سنن ترمذی :۲۳۳۶)

            حضرت کعب بن عیاض رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر امت کے لیے ایک فتنہ ہے اور میری امت کا خاص فتنہ مال ہے ۔

مال کو آزمائش کا ذریعہ بنایا گیا ہے :

            بعض علما نے فتنہ کی تفسیر آزمائش و امتحان سے کی ہے؛ جیسا کہ قرآنِ کریم میں آیا ہے : { انما اموالکم و اولا دکم فتنۃ }کہ تمہارے مال و اولاد آزمائش ہیں ۔ اور بعض نے فرمایا کہ فتنہ سے مراد معصیت اورگناہ ہے ۔ یعنی مال کے ذریعہ معصیتوں اور گناہوں میں ابتلا ہوتا ہے ۔ حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ ہر امت کو کسی نہ کسی طرح کا فتنہ پیش آیا ہے اور میری امت کے لیے مال کو آزمائش وامتحان کا ذریعہ بنایا گیا ہے ، لہٰذا وہ مال کو اللہ کی نعمت سمجھ کر اس کا شکر ادا کرتی اور اس کے حکم کے مطابق خرچ کرتی ہے تو کام یاب ہوگی اور اگر{اِنَّمَا اُوْتِیْتُہ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ} کے نظریہ سے ا پنی محنت وقابلیت کا نتیجہ سمجھ کر من مانی کرے گی ، حلال وحرام کی تمیز کیے بغیر بٹورے گی اور اس کے خرچ کرنے میں احکامِ شریعت سے غفلت برتے گی تو ناکام ہوگی ۔ یہ ہے آزمائش ہونے کا مطلب ۔ اور اگر فتنہ کے دوسرے معنی لیں تو مطلب یہ ہوگا کہ ہر امت کسی نہ کسی گناہ میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوئی ہے اور میری امت کا گناہ میں ابتلا مال کی وجہ سے ہوگا کہ وہ مال کی محبت میں گرفتار ہوکر اچھے برے کی تمیز کھودے گی اور حلال وحرام ہر چیز اختیار کرے گی اور گمراہ ہوگی ۔ (مالی فتنہ کی شکلیں )

            حدیث بالاکا مضمون در حقیقت دور حاضر کے سارے ناجائز طریقوں اور مصارف معصیت میں خرچ کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مال کا فتنہ مختلف شکلوں میں پیش آتا ہے ۔

فتنۂ اموال کی مختلف شکلیں:

            ۱-  مال کے حاصل کرنے میں حلال وحرام کی تمیز نہ کرنا  ۲-  مال کے حاصل کرنے میں حد سے تجاوز کرنا ، جس سے دیگر احکام ِشرعیہ میں فتور واقع ہو مثلاً اس طرح مشغول ہوجانا کہ نمازوں کی خبر نہ رہے ۔ ۳-  مال کی محبت میں مبتلا ہوجانا۔  ۴-  مال کے خرچ میں اچھے برے مصرف کا خیال نہ کرنا ۔ ۵-  حرام کاموں کے لیے مال کو خرچ کرنا۔  ۶-  فضول طور پر مال کو اڑانا ۔  ۷-  مال کے صحیح جگہ خرچ کرنے میں بخل کرنا۔   ۸-  مال سے حقوق اللہ وحقوق العباد ادانہ کرنا، مثلاً زکوٰۃ اور صدقات کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا ۔ ماں باپ ، بچوں اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرنا ۔ غربا ومساکین کو دینے میں پہلوتہی کرنا ،ان شکلوں میں سے کچھ لوگ کسی میں مبتلا ہیں تو دوسرے کسی اور میں مبتلا ہیں ،ان طریقوں سے یہ مالی فتنہ امت کو اپنے نرغہ میں لے چکا ہے۔

            مذکورہ بالا تحریر سے کہیں کسی کو اسلام کے سلسلہ میں تنگ نظری اور تنگ دلی کا وہم نہ پیدا ہوجائے، اس لیے اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مال ودولت کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ واضح کردیا جائے ۔

اسلام نے مال کی مذمت کیوں بیان کی ؟ :

            اسلام یہ نہیں کہتا کہ مال و دولت بذاتِ خود کوئی بری چیز ہے کہ اس سے ہر صورت اورہرحال میں دور رہنا چاہیے ، بل کہ اسلام میں اس کی مذمت تین لحاظ سے ہے ۔ ایک اس کو غلط طریقہ سے حاصل کرنے اور حلال و حرام کی تمیز نہ کرنے کے اعتبار سے ۔ دوسرے اس کے غلط استعمال اور نامناسب وناجائز کاموں میں صرف کرنے کے لحاظ سے ۔ تیسرے اس کے ذریعہ اللہ اور بندوں کے حقوق ادا نہ کرنے کے اعتبار سے ۔ اور چوں کہ عموماً اس کے حصول اور استعمال کی راہ میں کچھ لوگ غلط وناجائز طریقوں اور صورتوں کو رو بہ کار لاتے ہیں اور اللہ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں ، اس لیے مال و دولت اللہ سے دوری کا سبب بن جاتی ہے؛ اسی وجہ سے شریعت نے اس کی مذمت و برائی بیان کی ہے۔ اور اگر یہ مال ودولت اللہ کے قرب کا ،دین سے وابستگی اور آخرت کی ترقی کا ذریعہ بنتی ہو تو اسلام ایسے مال کو عمدہ اور اچھا قرار دیتا ہے اور اس کی تین شکلیں ہیں :

             ایک اس کی تحصیل میں اللہ کے قانونِ حلال وحرام کا لحاظ کیا جائے اور اس کو جائز وصحیح مصرف میں خرچ کیا جائے ۔ دوسری اس میں اللہ نے اپنے اور اپنے مخلوق کے جو حقوق رکھے ہیں ان کو ادا کیا جائے ۔{واٰت ذا القربٰی حقہ والمسکین وابن السبیل ولا تبذر تبذیرا }

            ایک حدیث میں حضرت عمرو بن العاص سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

             ’’ نعم المال الصالح للرجل الصالح ‘‘ نیک آدمی کے لیے اچھا مال اچھی چیز ہے ۔

 (رواہ الامام احمد )

            دوسری روایت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

            ’’ ان ہذا المال حلوۃ من اخذہ بحقہ ووضعہ فی حقہ فنعم المعونۃ ہو ومن اخذہ بغیر حقہ کان کالذی یأکل ولا یشبع ‘‘ (صحیح البخاری : ۶۴۲۷)

            اس حدیث میں مال کو حق کے ساتھ لینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو جائز طریقوں سے حاصل کرے اور حق میں خرچ کرے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کو جائز مصرف میں خرچ کرے ، جو ایسا کرے گا اس کے حق میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مال اس کے لیے بہترین مدد گار ہے ۔ مددگار کیسے؟ اس طرح سے کہ وہ اس مال سے اللہ کی رضا اور آخرت کی نعمتیں حاصل کر سکتا ہے ۔

نیکیاں چاہیے تو خیر کے اسباب بنا

پل بنا چاہ بنا مسجدو محراب بنا

مال رضائے الٰہی کی سند دلوا سکتا ہے :

            الغرض مال و دولت کا جائز اکتساب اور صحیح مصارف میں خرچ، صاحب مال کو دنیا وآخرت کی کامیابیوں اور بلندیوں تک لے جاسکتا ہے؛ بل کہ جنت کا حقدار بنا سکتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : {ان اللّٰہ اشتری من المومنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ }کہ ہماری جان ومال کے خریدار اللہ رب العزت ہیںاور بدلہ میں جنت ہے ۔ حضرت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس حقیقت وفلسفہ کو خوب اچھی طرح سمجھا تھا اور اصحاب اموال صحابہ نے راہِ خدا میں مال کو ایسا لٹایا اور خرچ کیا کہ جس کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے، جس کے بے شمار واقعات احادیث وتاریخ میں استناد کے ساتھ موجود ہیں ۔ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآنی شہادت ہے : {رجال لا تلہیہم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ واقام الصلوٰۃ وایتاء الزکوٰۃ یخافون یوما تتقلب فیہ القلوب والابصار }کہ خوفِ آخرت اور اندیشۂ محاسبہ نے انہیں حقوق اللہ وحقوق العباد سے یکسر غافل نہیں کیا ، اسی کے ساتھ فضول خرچی اور مصرف غلط میں صرف کرنے سے ہمیشہ اجتناب کیا ؛چناں چہ تاریخ گواہ ہے کہ آج ہم اپنی خوشیوں کی تقریبات میں خصوصاًشادی ،منگنی وغیرہ پر اور اپنے اونچے اونچے محلات ومکانات کی تعمیر پر جس طرح بے دریغ دولت لٹاتے ہیں ، صحابہ نے ان کاموں کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی، بل کہ ان کی زندگی کا سب سے کم خرچ انہیں دو چیزوں پر تھا ۔ کھانا سادہ ، پوشاک معمولی ، مکان خستہ اور کچے ،لیکن ایمان اورقلب ویقین نہایت مضبوط اورپکے تھے ۔ انہیں کے ساتھی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے:  ’’ اعمقہم علماو اقلہم تکلفا و ابرہم قلباً ‘‘(مشکوٰۃ )کہ ان کا علم بڑا گہرا ، لیکن زندگی ہر قسم کے تعیشات وتکلفات سے خالی تھی ۔

            یاد رہے کہ مال کی نسبت پر ہماری ذمہ داری دہری ہے ،ایک کسب و اکتساب میں جائز طریقے، دوسرے خر چ وانفاق میں صحیح مصارف ۔ بروز حشر جن پانچوں چیزوں کے متعلق سوال ہوگا، اس میں مال کے متعلق دوسوال ہوںگے ۔

            عن عبد اللّٰہ بن مسعود لاتزول قدما ابن آدم یوم القیامۃ حتی یسئل عن خمس: عن عمرہ فیماافناہ، و عن شبابہ فیما أبلاہ ، وعن مالہ من أین إکتسبہ وفیما أنفقہ ، وماذا عمل فیما علم ۔(ترمذی :۲۴۱۶)

ہمیں واہ واہی کا شوق ہے :

            چناں چہ حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کے طور پر ارشاد فرمایا تھا ۔ قربِ قیامت کی علامات کے من جملہ یہ بھی ایک علامت ہوگی کہ ’’ ان تری الحفاۃ العراۃ العالۃ رعاء الشاء یتطاولون فی البنیان ‘‘ (صحیح النسائی : ۵۰۰۵) کہ بکریوں کے چرواہے ننگے بدن گھومنے والے غرض معمولی درجہ کے لوگ اونچی اونچی تعمیرات کریںگے ۔ آج میڈل کلاس اور درمیانی درجہ کے لوگ بھی مکانات اور دیگر تعمیرات پر خوب دل کھول کر خرچ کررہے ہیں حتی کہ مساجد کی تعمیربھی بہت مہنگی اور کثیر صرفہ والی، صرف اس لیے ہورہی ہے کہ اپنی واہ واہی اور نام ہو۔ جب کہ ضرورت نہ اتنی بڑی مسجد کی ہے نہ ہی اتنے لمبے خرچ کی، بل کہ شہر کے اطراف واکناف اور دیہاتوں میں بعض مقام پر مسجد ہی نہیں ہوتی ، تو چاہیے کہ اس کثیر صرفہ کو مختصرکرکے ان دیہاتوں میں جہاں مساجد نہیں ہیں وہاں چھوٹی مسجد کی تعمیر ضرورکی جائے ؛تاکہ وہاں کے باشندے مسجد سے مربوط رہیں اور ان میں اسلامی شناخت اوراپنے ملی تشخص کی بیداری باقی رہے ۔

            اللہ رب العالمین ہم سب کو فکرِ حلال نصیب فرمائے اورفضول خرچیوں خصوصاً ناجائز اور امورِ معصیت میں خرچ کرنے سے محفوظ فرمائے اور مال کی نسبت پر ہرفتنہ سے اپنا امان عطا فرمائے ۔ آمین!