اداریہ :
مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانویؔ
اللہ رب العزت نے کائنات کو وجود بخشا۔ اس میں قسمہائے قسم کی بے شمار مختلف الاجناس اور متعدد الانواع مخلوقات کو پھیلادیا اور حضرت انسان کو اُن سب کا سردار بنایا، اسے عقل وخرد سے نوازا ، اسے تفکر وتدبر کا ملکہ عطا کیا ، کائنات کی ہر چیز کو اس کے تابع کردیا اور ان سب نعمتوں کے ساتھ ہی اس کوایک سب سے بڑی نعمت سے نوازا۔ اور وہ ہے علومِ وحی ؛جو تاریکی میں اسے راستہ دکھاتے ہیں ،جو اسے ضلالت سے گمراہی کی طرف لاتے ہیں، جو اس کے تمام مادی وروحانی مشاکل کا بالکل صحیح حل بتلاتے ہیں ۔ جب تک حضرت ِانسان علوم وحی کے سایۂ عاطفت وعافیت میں رہتا ہے سلامتی کے ساتھ رہتا ہے۔ اور جب اس سے نکل جاتا ہے ،ہر جانب سے مشکلات اسے آگھیرتی ہیں اور اس سے چین و سکون کو چھین لیتی ہیںاور وہ تمام مادی وروحانی مشکلات گے گرداب میں ایساپھنس کررہ جاتا ہے ،گویا بھنور میں پھنس گیا ہو جو اسے تیزی کے ساتھ اور زور دار انداز میں اسفلِ سافلین میں ایسا پٹختا ہے کہ پھر اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ سوائے اس کے کہ وہ دو بارہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے تو وہ بھنور تو کیا؛ اس سے ہلاکت خیز بھی اگر کوئی شئ ہو تو اس سے بھی بچ نکلنے میں کام یاب ہوجاتا ہے ۔
اکیسویںصدی کاتضاد،مادی ترقی اورروحانی تنزلی:
اکیسویں صدی جو سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی کہی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ترقی کا جو سفر پہلے سودوسوسال میں طے کیا جاتا تھا وہ سالوں اور مہینوں میں نہیں ،بل کہ گھنٹوں اور منٹوں میں طے ہوتا ہے ۔ ہر منٹ پر کوئی نئی ٹیکنا لوجی معرضِ وجود میں آتی ہے، مگر دوسری جانب روحانی اعتبارسے حضرتِ انسان اتنی ہی تیزی کے ساتھ تنزلی کی جانب جارہا ہے، جس کی وجہ سے تمام تر وسائل اور تعیش وترقی کے اسباب ہوتے ہوئے بھی اس کی مشکلات بجائے گھٹنے اور ختم ہونے کے بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ؟؟؟
تو اس کا آسان اورسیدھاجواب ہے، اللہ کی نازل کردہ آخری کتاب اور ہدایتِ نامہ قرآنِ کریم سے اعراض !!
اممِ سا بقہ کے قصوںکوقرآن نے کیوںذکرکیا؟:
قرآنِ کریم نے ماضی کی بہت ساری اقوام کے عروج وزوال کا تذکرہ کہیں اجمالاً تو کہیں تفصیلاً کیا ،اس کے اسباب بھی ذکر کیے اور اس کا حل بھی بیان کیا ۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ جو مادی ترقی اس نے کی ہے وہ اس سے پہلے کسی نے نہیں کی، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے ؛کیوں کہ قرآن نے امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبرت کے لیے معدود ے چند اقوام کے واقعات ذکر کیے ہیں، جو اپنے اپنے دور میں کسی نہ کسی مخصوص مادی شعبہ میں ترقی کے بام عروج پر تھی، مگر اس نے انبیا کی تعلیمات سے انحراف ہی نہیں اس کی مخالفت ہی نہیں بل کہ مقابلہ کی کوشش کی؛ مگر وہ اللہ کی قدرت کے سامنے بے بس ہوگئی اور ہلاک کردی گئی ۔
قرآن نے انسان کو نصیحت کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑ ری:
قرآنِ کریم نے اُن تمام مباحث ،مسائل اور طریقوں کو اختیار کیا ہے ،جو انسان کے لیے باعثِ عبرت و نصیحت ہیں ۔ اللہ رب العزت نے انسان کو سمجھانے میں ذرہ برابر کسر نہیں چھوڑ ی،کبھی ضرب الامثال کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی ہے، تو کبھی امم ِسابقہ کے احوال وواقعات اور قصوں کے ذریعے ؛تاکہ اہل حق اور اہلِ باطل کے اچھے اور برے انجام کی مثالیں ان کے سامنے آجائیں۔ اللہ نے کبھی جہنم کے ہولناک حالات بیان کرکے نصیحت کی ،کبھی جنت کی لالچ دلاکر، کبھی اسوۂ حسنہ کے ذریعے؛غرض کہ موعظت ونصیحت کے کسی اسلوب کوقرآن نے ترک نہیںکیا۔
انسان کی رہ نمائی کے لیے رجال اللہ اورکتاب اللہ کاانتظام:
قرآنِ کریم نے خاص طورپرچندانبیااوراُن کی قوموںکے احوال کوبڑی تفصیل کے ساتھ ذکرکیاہے،اس کے پیچھے اللہ کی بے شمارحکمتیںکارفرما ہوگی۔منجملہ ان حکمتوں میں سے یہاںایک بات سمجھاناچاہوںگاوہ یہ کہ یہ بات مسلّم ہے کہ انسان چوںکہ انس سے بناہے ،لہٰذاوہ جب تک اپنے جیسے ہم جنس سے مانوس نہیںہوتا،نصیحت نہیںحاصل کرسکتاہے ؛لہٰذااللہ رب العزت نے ہمیشہ انسان کی رہ نمائی کے لیے کتاب اللہ ورجال اللہ کاخصوصیت کے ساتھ انتظام کیاہے ،انسان کی اصلاح کے لیے جن رجال اللہ کا انتظام کیا گیا انکی متعددقسمیںہیں:
(۱)انبیاورسل (۲)صحابہ اورحواریین(۳)اولیا۔
انبیا،صحابہ اوراولیاکے درمیان فرق:
انبیامعصوم ہوتے ہیں،صحابہ محفوظ ہوتے ہیںاوراولیا‘اللہ کے مقرب ہوتے ہیں،جواپنے آپ کومجاہدات کے ذریعے اللہ کامقرب بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔انبیائے کرام علیہم السلام کی پیروی بلاترددکی جائے گی،کیوںکہ وہ معصوم عن الخطاوالنسیان ہیں؛لہٰذاان کاہرعمل حجت ہوگا،البتہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات قدوہ ہے ،آپ خاتم الانبیاہیں،اب قیامت تک آپ کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا،آپ کادین کامل ومکمل ہے،جس میںکسی طرح کی کمی زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں۔
صحابہ محفوظ ہیں،البتہ ان کی پیروی انبیاکی طرح نہیںہوگی؛جن مسائل میں صحابہ کا اجماع ہو اس کی اتباع بلاتردد لازم اور جن صحابہ مختلف اقوال ہو ان میں جس کا قول اقرب الی الکتاب والسنۃ ہوگا اس کی تباع کی جائیگی ۔کتاب اللہ کی صحیح تفہیم کے لیے رجال ضروری ہوتے ہیں،لہٰذااللہ نے سلسلۂ نبوت کے ختم ہونے اورحضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اس دارِفانی سے رخصت ہونے کے بعداولیاء اللہ،مجتہدین اور مجددین کا سلسلہ جاری کیا ان کو قدوہ بناناضروری ہے ۔اورہرزمانہ کے اولیا اور علما قدوہ ہوسکتے ہیں۔اور قرآن وحدیث میںان کے اوصاف مذکورہیںاوروہ یہ ہیں:
اولیاء اللہ کے اوصاف:
(۱)اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والے۔(۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اورپیروی کرنے والے۔(۳)ہمیشہ اللہ سے ڈرنے والے۔(۴)تواضع وعاجزی اورحسنِ اخلاق کے ساتھ رہنے والے۔(۵)گناہِ کبیرہ سے بچنے والے ۔(۶)لغواوربے سودامورسے بچنے والے۔(۷)اللہ کی راہ میںہمیشہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیاررہنے والے،جان ومال ،عزت وآبرو،وقت اورطاقت سب کچھ۔ (۸) مومنین سے محبت کرنے والے۔(۹)امربالمعروف ونہی عن المنکرکرنے والے۔(۱۰)امت کی اصلاح کی ہمیشہ کوشش کرنے والے۔(۱۱)ظاہروباطن دونوںکوپاکیزہ رکھنے والے۔(۱۲)راتوںکوعبادتوںاوردعاؤںمیںصرف رہنے والے۔(۱۳)اولاداورشاگردوںکی اسلامی تربیت کرنے والے۔(۱۴)ہمیشہ حدوداللہ کی رعایت کرنے والے۔ (۱۵)جودوسخاکے مالک۔(۱۶)عملِ خیرمیںایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے والے۔(۱۷) لوگوںکواللہ کی طرف بلا نے والے۔(۱۸)ہمیشہ استقامت کی فکرکرنے والے۔(۱۹)علمِ دین کاعمیق اور گہرا ملکہ رکھنے والے۔(۲۰)ہمیشہ اپنی زبان کوذکراللہ اورادعیۂ ماثورہ سے معموررکھنے والے۔(۲۱)نماز،روزہ اورتلاوت کامکمل التزام کرنے والے۔
(۲۲)حسد،بغض اورکینہ کپٹ سے مومنین کے بارے میںاپنے دل کو صاف رکھنے والے۔ (۲۳)بدعات وخرافات سے اجتناب کرنے والے۔(۲۴)اہلِ سنت والجماعت کے طریقہ پرثابت قدم رہنے والے۔مذکورہ تمام صفات کے حامل کوولی اللہ کہاجاتاہے ۔ایسے لوگوںسے کبھی کرامات کاظہوربھی ہوتاہے ،مگریہ ضروری نہیں۔
معاف کیجیے جملہ معترضہ؛بل کہ پیراگراف معترضہ کے طورپرصفاتِ اولیاکوذکرکیا۔کیوںکہ آج کل مسلمان ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے اولیاکی معرفت میں ٹھوکریںکھاتے ہیں۔
قرآن میں مذکورہلاک شدہ اقوام:
تومیںذکرکررہاتھاکہ قصص ِقرآن نے جن مہلوکہ اقوام کاذکرکیاہے وہ یہ ہیں:
(۱)قومِ نوح علیہ السلام(۲) قوم ِابراہیم علیہ السلام(۳)قوم ِلوط علیہ السلام(۴)قوم ِہودعلیہ السلام( ۵)قومِ صالح علیہ السلام(۶) قومِ شعیب علیہ السلام(۷) قومِ فرعون۔وغیرہ
ہلاک شدہ اقوام سے امتِ محمدیہ کوعبرت دینامقصودہے:
خاص طورپرہلاک کردہ بڑی بڑی اقوام میںان چندکوذکرکیا۔اس میںیہ حکمت ہوسکتی ہے کہ قرآنِ کریم میں ذکرکردہ اقوام جس فتنہ میں مبتلا ہوئی اور ہلاک کردی گئی، ان میں امت ِمحمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتلا کا امکان زیادہ ہو۔ جیسے :
قومِ نوح شخصیت پرستی کاشکارہوئی :
شخصیت پرستی سے بت پرستی تک پہنچی۔اسی لیے قرآن نے ان کے ان صالحین کے نام لیے، جن کو انہوں نے تعظیم سے ترقی کرکے عبادت کے درجہ تک پہنچادیا ۔ یغوث ، یعوق ، نصر کہ امتِ محمدیہ بھی اس فتنہ میں مبتلا ہوگی۔ چاہے شخصیت پرستی بت پرستی کی شکل میں ہو ، جیسے بودھ ، رام، راون وغیرہ ۔ یا شخصیت پرستی فلاسفہ اور سائنس دانوں اور مذہبی شخصیات کو اللہ کے برابر درجہ دے کر ۔جیسے آج مغرب فلاسفۂ یونان اور ان کے اپنے فلاسفہ کانٹ ، ڈارون، فرافند ، سار تر ، مارکس ، آدم سمیتھ وغیرہ کو دے رہی ہے ۔ اور گلوبل ورلڈ بھی ان کی اندھی تقلید میں مبتلاہے یہ بھی شخصیت پر ستی ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے زیادہ اہمیت ان کو دی گئی ، بے جا شخصیت پرستی ،نبی کی تعلیمات سے انحراف ،اس کی تکذیب اور اپنے باطل موقف پر اڑ جانا یہ وہ جرائم تھے جس کی قوم نوح مرتکب ہوئی تھی ، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں پانی میں ڈبو کر ہلاک کردیا ۔ یہ عبرت ہے ہمارے زمانے کے بے جا شخصیت پرستی کرنے والوں کے لیے ۔
قوم عاد طاقت کے غرورمیںمبتلاہوئی: قومِ نوح کے ایک عرصہ بعد قومِ عاد وجود میں آئی ۔یہ قوم آج کی مغربی روسی اور دیگر طاقت ور اقوام کی طرح بڑی طاقت ور تھی ۔ عسکری طاقت ہتھیاروں کے بنانے میں، وہ خود ڈیل ڈول میں بھاری بھرکم اورکسی طاقت ور فوج سے کم نہ تھے ۔ تمدنی اعتبار سے بڑے ترقی یافتہ تھے ، بڑے بڑے مکانات اپنے ہاتھوں سے بناتے تھے ، ان کا سب سے اہم وصف ان کو اپنی طاقت پر ناز تھا ، مگر وہی قومِ نوح والی روش اختیار کی تو ہلاک کردیے گئے ۔ گویا ہمارے زمانے کے عسکری طاقت کے حامل ممالک کے لیے سامانِ عبرت ہے ۔
قوم صالح انجینئرنگ اورزراعت کے غرورکاشکارہوئی: یہ قوم بھی بڑی انجینئر قوم تھی ۔ کاشت کاری اور باغات کی سینچائی کی ماہر تھی، مگروہی قوم ِنوح اور قوم عادم کی ڈگر پر چلی تو ان کی انجینئری اور باغبانی وزراعتی مہارات کسی کام نہ آسکی اور ہلاکت کا شکار ہوگئی ۔ ہمارے زمانہ میں جولوگ انجینئر ی پرغرور کررہے ہیں اور اسرائیل وغیرہ کا کاشت کاری اور یورپ ودیگر اقوام ،جوباغبانی پرنازاںہیں ان کے لیے یہ عبرت کا سامان ہے ۔
قوم لوط ہم جنس پرستی کاشکارہوئی: حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ہم جنس پرستی میں مبتلا ہوئی اور اللہ کے عذاب کی مستحق ٹھہری اور عذاب بھی کیسا سخت (۱) پتھروں کی بارش (۲) خسف‘ زمین میں دھنسا دیے گئے (۳) ان پر پانی کو مسلط کردیاگیا ، آج دنیا کے بہت سے ملکوں میں ہم جنسی پرستی اس قدر عام ہوگئی ہے کہ ہم جنس میں شادی بھی روا کردی گئی ۔ کیا یہ لوگ بھی اللہ کے عذاب کے منتظر نہیں ہیں ؟ کیا قومِ لوط ان کے لیے سامانِ عبرت نہیں؟؟
قومِ شعیب ناپ تول میںکمی کاارتکاب کرتی تھی : آپ علیہ السلام کی قوم ناپ تول میں کمی کی مرتکب ہوئی جو عنداللہ بہت بڑا جرم ہے ۔ آج ہمارے تجارکانٹہ ماری میں ماہر ہیں ،مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ کسی کی حق تلفی اللہ کو پسند نہیں ، اسی لیے انہیں سخت گرمی کے عذاب میں مبتلا کیا گیا اور وہ ہلاک ہوگئے ۔ کیا اس کے بعد بھی ہم عبرت حاصل نہیں کریںگے ؟
قومِ ابراہیم ستارہ پرستی کاشکارہوئی : حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کا امتیاز ِجرم ستاروں کو موثر فی اشیاء العالم مانناتھااور نمرود کو اپنی بادشاہی کا غرور تھا ۔ آج بھی سائنس وٹیکنالوجی کے دور میں بے شمار بد اعتقادی کے حامل ستاروں کو مؤثر مانتے ہیں ۔ اخبارات میں اور ٹیلی ویژن پر بھی اہتمام کے ساتھ بتلایا جاتا ہے کہ آج فلاں دن ہے ،لہٰذا فلاں ستارہ فلاں منزل پر ہوگا، تو فلاں حرف سے شروع ہونے والے نام پر یہ اثر ہوگا وہ اثر ہوگا؛ اس کے علاوہ بھی فطرت ،نیچر اور طبیعت کے معتقدین اسی کو مؤثر بالذات تصور کرتے ہیں یہ سب قومِ ابراہیم علیہ السلام کے نظریے کے مطابق ہے ، جیسے انہوں نے نبی کی نہ سنی اور ہلاک ہوگئے، اسی طرح ان کی ڈگر پرگامزن بھی اپنے آپ کو قیاس کرلیں۔
یوسف ، یونس اور ایوب علیہم السلام کاذکرابتلاء صالحین کے لیے: ان تین انبیا کے قصے قرآنِ کریم نے غالباً اس لیے ذکر کیے کہ معلوم ہوجائے یہ دنیا دارالابتلا ہے ؛لہٰذا کبھی انسان کے ساتھ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ راہِ حق پر ہو،مگر پھر بھی اللہ کی جانب سے آزمائش آجاتی ہے ، جیسے یوسف علیہ السلام کے ساتھ ہوا ۔ لہٰذا بے چینی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ، صبر سے کام لینا چاہیے جیسے یوسف علیہ السلام نے بے قصور ہوکر بھی صبر کیا، مگر اللہ آپ کے صبر کو ضائع نہیں کرے گا ۔ جیسے آخر کار یوسف ؑ کو عزت ، دولت، حکومت سب ملی ، ہوسکتا ہے آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو ۔
یونس علیہ السلام کا قصہ مصلحین کودرس دینے کے لیے: انسان چاہے کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو اسے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور نہ حکمِ الٰہی سے باہر نکلنا چاہیے؛ جیسا کہ یونس علیہ السلام سے ہوا ؛بل کہ ہرحال میں امت کی اصلاح کی کوشش جاری رکھنی چاہیے ، ورنہ منجانب اللہ کسی آزمائش میں مبتلا کیے جاسکتے ہیں جیسے یونس علیہ السلام کو بطنِ حوت میںجانا پڑا ۔
دعوت الی اللہ کو ترک نہیں کرنا چاہیے ورنہ آپ خود آزمائش کا شکار ہوسکتے ہیں ۔
دنیا میں عذابِ الٰہی سے بچنے کا واحد راستہ ایمان لانا ہے۔ جیسا کہ قومِ یونس علیہ السلام واحد قوم ہے، جس سے عذاب ان کے ایمان لانے کی وجہ سے نازل ہونے کے بعد اٹھالیا گیا ۔
اگرانسان کسی ایسی مصیبت میں پھنس جائے، جس سے نکلنا بظاہر دشوار ہو تو اللہ کی تسبیح کا ورد شروع کردے ان شاء اللہ نجات حاصل ہوگی ؛جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے {فلولا انہ کان من المسبحین للبث فی بطنہ الی یوم یبعثون }۔
سخت سے سخت دشواریوں میں بھی سوائے اللہ کے کسی کی طرف رجوع نہیں کرنا چاہیے ؛جیسا کہ یونس علیہ السلام نے کہا {لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین }۔
ایوب علیہ السلام کے قصہ میںیہ سبق ہے کہ آپ کی کوئی خطا نہ ہو مگر پھر بھی اللہ ایوب علیہ السلام کی طرح آپ کو آزما سکتا ہے۔ آپ کا کام واویلا مچانے کے بجائے صبر کرنا ہوگا ،دعا کا اہتمام کرنا چاہیے ،حالات سے نکلنے کے لیے اسباب اختیار کرناچاہیے علاج کرواتے رہیں اور ہر حال میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ نرمی کا سلوک کرنا چاہیے، جیسا کہ ایوب علیہ السلام نے کیا ۔
قصہ موسیٰ وفرعون میںمختلف عبرتیں : جس قصے کو قرآن نے سب سے زیادہ ذکر کیا وہ قصہ موسی ہے۔ اس لیے کہ آپ کے زمانے کے دو دور ہیںایک ابتدائی دورمیں فرعون اس کے دوسرے دورمیں بنواسرائیل، امتِ مسلمہ کے لیے دونوں دور بے شمار پہلوؤں سے عبرت وموعظت ہے ۔
فرعون کثرتِ مال کے غرورمیںمبتلاہوا : فرعون کا خاص امتیاز مال کی فراوانی اور اس کا استعمال غیر ضروری مصارف میں اور دوسرا حکومت اور سفلی علوم پر غرور ، آج اس امت کے لیے سب سے بڑا فتنہ یہی چیزیں ہیں ۔ مال کی فتنہ سامانیوں میں گرکر اپنے آپ کو آپے سے باہر کرچکے ہیں ، کچھ لوگ فرعون کی طرح اپنی کرسی بچانے کے چکر میں سب کچھ کرنے کو تیار ہیں، مگر فرعون نے جب وحی الٰہی سے اعراض کیا تو مال کام آیانہ اہرامات کام آئے ۔ جس میں اپنے بے تحاشہ مال کو ہامان کے ذریعہ خرچ کیا تھا ، آج پوری دنیا کا یہی حال ہے ۔قرآن کہتاہے کہ قصۂ فرعون کا غائرانہ مطالعہ کریں اور عبرت حاصل کریں ۔
بنواسرائیل اپنی افضلیت کے زعم میںمبتلاہوئے:
فرعون سے نجات کے بعد بنو اسرائیل اپنے آپے سے باہر ہوگئے اور اپنی افضلیت پر نازاں ہونے لگے ، امتِ محمدیہ کو یہ کہا گیا کہ تم ان کی روش پر مت چلنا، ورنہ ویسی ہی درگت ہوگی ۔
سورۂ کہف کے واقعات :
سورۂ کہف میں قرآنِ کریم نے مندرجہ ذیل قصوں کو ذکر کرکے :
(۱) فتنہ ٔدجال (۲) فتنۂ ایمان (۳) فتنۂ مال (۴) فتنۂ علم (۵) فتنۂ دنیا (۶) فتنۂ منصب وریاست ۔ ان تمام فتنوں کے اچھے اور برے نمونے قرآن نے ذکر کیے اور امت محمدیہ ؐ کواچھے نمونے اختیار کرنے کی نصیحت کی ، ضرورت ہے کہ اس سورہ کوزیادہ سے زیادہ اس پر فتن دور میں درسِ قرآن کے ذریعہ لوگوں کو سمجھایا جائے ۔
قارون کا قصہ،وہ منع زکوٰۃ کامرتکب ہوا:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں گزرے قارون کا قصہ ان مسلمانوں کی عبرت کے لیے ہے ،جو مال ہوتے ہوئے زکوٰۃ دینے سے اعراض کرتے ہیں ۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعدادایسے لوگوں کی ہے جو یاتو بخل کی وجہ سے پوری زکوٰۃ نہیں نکالتے یا جدت پسندی مانع ہوتی ہے یا جہالت کی وجہ سے، ذرا اس واقعہ کو غور سے پڑھیں کہ اس کا کتنا برا انجام ہوا۔
قومِ الیاس بلاوجہ بت پرستی کاشکارہوئی:
یہ قوم بلا کسی وجہ سے’’ بعل‘‘ نامی بت کی عبادت کرتی تھی ۔ تو قرآن نے ذکر کیا یہ کیا بات ہوئی ؟ ! بہرحال وہ بھی ہلاک ہوئی ، آج بھی ہمارے ہندوستان میں بے شمار ہندو مذاہب ایسے ہیں ،جو مختلف تراشیدہ بتوں کی بلا کسی وجہ کے عبادت کرتے ہیں ؛یہی صورتِ حال دنیا کے دیگر مختلف ممالک کی ہے ۔مثلاً چین، افریقی ممالک وغیرہ ۔ تو قرآن نے نمونہ بتلا دیا کہ کوئی بت اللہ کے عذاب سے بچانے کی سکت نہیں رکھتا ۔
طالوت وجالوت کا قصہ :
طالوت ایک بھاری بھرکم اور ذی استعداد بنی اسرائیل کے بادشاہ گزرے ہیں ،جن کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا، جن کے ہاتھوں بنواسرائیل کورفعت اوربلندی ملی ،تو اللہ نے ثابت کردیا کہ معیارِ قبولیت عند اللہ مالداری نہیں ، بل کہ صلاحیت اور اہلیت ہے ؛کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ غریب گھرانے کا فرد اپنی صلاحیت کی وجہ سے بڑ ا کام کردکھائے جیسے طالوت نے کردکھا یا ۔ اس میں یہ بھی نصیحت ملی کہ اگر چہ ان کا لشکر چھوٹا اور دشمن بظاہر بڑے لشکر اور سازو سامان کے ساتھ مسلح تھا ،یعنی جالوت، مگر پھر بھی ناکام ہو ا؛ کیوںکہ یہ قلیل تھے، مگرایمانی قوت سے مالا مال تھے ، لہٰذا ایمان اگر مضبوط ہوگا توفقدان ِاسبابِ ظاہریہ کے باوجود اہلِ حق کو غلبہ ملے گا اوروہ اللہ دے گا ۔ ہائے کاش ! ہم اس حقیقت کو جان لیں ۔
غرض یکہ قصصِ قرآن سے اہم ترین اسباق اورعبرتیں حاصل ہوئیں۔ مزید تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے ، خلاصہ یہ کہ قرآن نے{ قد تبین الرشد من الغی }یعنی رشد و ہدایت دونوںکو ماضی کی واقع شدہ مثالوں کے ساتھ امتِ محمدیہ کے سامنے بیان کردیا کہ یہ ہے ہدایت کا راستہ اوریہ ہے غوایت ، ضلالت اورگمراہی کا راستہ ۔ اب تم ان میں سے جو چاہو اختیار کرلو ؛جن کو میں نقشے کے ساتھ بتلانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
ہدایت اور ضلالت کی مثالیں
تخلیقِ آدم ؑ
اللہ نے خصوصی تخلیق سے پیدا کیا ۔
آدم ؑکیا تھے؟قصۂ آدم علیہ السلام
آدم ؑنبی تھے جن کو علمِ نبوت اور علمِ دنیا دونوں سکھایا۔
انسان اورشیطان میں فرق
سب انسان آدم ؑکے مطابق خطا اور گناہ پر توبہ کرے ؛ورنہ شیطانی طریقہ پرگناہ پراصرار لازم اآئیگا۔
سب سے پہلا جرم
شیطان کا آدم کے ساتھ حسد کرنا۔
دوسرا
شیطان کا تکبر کرنا اور اللہ کی نہ ماننا۔
انسانوں کے گناہ کا آغاز
قابیل کاہابیل کے ساتھ حسد کرنا۔
انسان کا سب سے بڑا اور پہلا جرم
قابیل کا ہابیل کو قتل کرنا۔
نوح علیہ السلام کی قوم کا خاص جرم
شخصیت پرستی ۔
قوم عاد کا خاص جرم
اپنی عسکری اوربدنی طاقت پرگھمنڈ کرنا۔
قوم ثمودکا خاص جرم
اپنی انجینئر ی اور زراعت وباغبانی پراترانا۔
قوم لوط کا خاص جرم
ہم جنس پرستی میں مبتلا ہونا۔
قوم شعیب کا خاص جرم
ناپ تول میں کمی کرنا۔
قوم ابراہیم کا خاص جرم
ستارہ پرستی کرنا۔
قوم فرعون کا خاص جرم
سونا چاندی اور مال ودولت اور سفلی علوم پر اتراناتعمیرمیں اسراف کرنا ۔
قوم الیاس کا خاص جرم
بے جا بت پرستی میں مبتلاہونا ۔
جالوت کا خاص جرم
اپنی کثرت اور طاقت پرگھمنڈ میں مبتلا ہونا۔
قارون کا خاص جرم
بخل اور اللہ کے راستے میں مال خرچ نہ کرنا ۔
ہاروت وماروت کے قصہ میں عبرت
سحر اور جادو من جانب اللہ انسان کی آزمائش کے لیے ہے۔
اصحاب السبت کے قصے میں عبرت
منہیات شرعیہ میں حیلے بہانے کر نا۔
سورۂ یٰس میں اصحاب القریہ کے قصے سے سبق
داعی اگرنازک موقع پراپنی جان دے دے ،توآخرت میںکام یاب ہوگا
قصہ لقمان کیوں؟
یہ سکھانے کے لیے کہ باپ کو اپنی اولاد کی تربیت کی فکر ہونی چاہیے ۔
قصہ سلیمان سے کیا درس ملتا ہے؟
اللہ کی قدرتِ کاملہ کا‘ کہ سلیمانؑ کو ایسی بادشاہت دی جو دنیا میں کوئی نہیں حاصل کرسکا ، یہاں تک کہ پرندوں اورکیڑوں مکوڑوں پر بھی۔
قصہ داؤد سے درس
اچھی آواز میں اللہ کی نعمت اس کا استعمال کلام اللہ کی تلاوت میں ہو۔، معدنیات بھی اللہ کے تابع ہیں ، جیسے لوہا آپ کے لیے مسخر تھا ۔
قصۂ یوسف میںدرس
خو ب صورتی منجانب اللہ ہوتی ہے۔ یوسف کی طرح خوب صورتی کی باوجود پاکدامن رہنا۔
قصہ یونس سے درس
دعوت واصلاح سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ، ہمیشہ اللہ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے ۔ ایمان ہی عذاب الہی کو ٹال سکتاہے
قصہ ایوب
نیکی کے باوجود اگر مصیبت آئے تو صبر سے کام لینا چاہیے۔
قصہ الیاس
بت پرستوں کی اصلاح کی کوشش مسلسل کی جائے ۔
ذوالقرنین سے درس
انصاف کے ساتھ حکمرانی کرنی چاہیے اوراپنی رعایا کے تکالیف دور کرنے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔
قصۂ بنو اسرائیل سے درس
اپنی افضلیت سے تکبر میں مبتلا ہوکر بے ادبی سے بچنا چاہیے ورنہ ذلت ہاتھ لگتی ہے۔
اصحاب کہف
بد سے بدتر حالات میں بھی اپنے ایمان کو بچانے کی فکر اور کوشش کرنی چاہیے ۔
اصحاب الجنۃ
کثرت ِمال اورکثرتِ اولاد پر اترانا نہیں چاہیے ، مال و دولت کو اللہ کے راستے میں خوب کرچ کرنا چاہیے۔
قصہ خضرو موسیٰ
علم میں اپنے آپ کو کبھی برتر نہیں تصور کرنا چاہیے۔
قصہ زکریا
اولاد مانگے، مگر صالح ۔چاہے بڑھا پا چھاگیا ہو ، ناامید نہ ہو ، زکریا بڑھئی اور نجار تھے ، معلوم ہوا حلال کمائی کے لیے چھوٹے سے چھوٹہ پیشہ اختیار کرنے میںبھی کوئی حرج نہیں ہوناچاہیے۔
قصہ یحی
حق پر ہونے کے باوجود آپ کو قتل کیا جاسکتا ہے ، اس سے گھبرانا نہیں چاہیے ۔ اور جب نبی اپنی جان اللہ کی خاطر دے دے تو دوسرے کی کیا حیثیت ۔
قصہ عیسیٰ
اللہ کی قدرت کا مظہر ۔ عیسی ؑ جو بغیر والد کے پیدا ہوئے اور آسمان پر اٹھالیے گئے ۔ ڈاکٹری اور طب کے لیے چیلنج تھے بغیر دوا کے آپ کے ہاتھ شفا ملی تھی۔
قوم سبا
یمن کی ایک تمدنی اعتبار سے ترقی یافتہ قوم تھی، جس نے پانی کابندبنایا تھا اور زراعت کی ماہر تھی مگر اپنے تمدن پر نازا ہوئی تو ہلاک کردی گئی۔
اصحاب الجنۃ
باغات اور کھیتی میں مہارت رکھتے تھے، مگر اس کی زکوۃ نہیں نکالتے تھے تو اللہ کے عذاب میں مبتلا کیے گئے۔
اصحاب الاخدود
کبھی مومنین پرآزمائش اجتماعی طور پر بھی آسکتی ہے، ایسے حالات میں بھی انہیں ایمان پرثابت قدم رہنا چاہیے۔
اصحاب الفیل
اگر اللہ اپنے مقاماتِ مقدسہ کو بچانے پر آ جائے تو حقیر سے حقیر مخلوق سے بھی اس کی حفاظت کرالیتا ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے ۔
امم ِسابقہ میںجواسباب ِہلاکت پائے گئے ،یہ امت بھی ان میںمبتلاہوئی:
غرض یہ کہ اس وقت ترقی یافتہ دنیا کے پاس جو کچھ ٹیکنا لوجی ہے، اس کی جھلک قرآن میں ذکر کردہ اقوامِ ماضیہ کے پاس موجود تھی ؛مگر ان کی کوئی ٹیکنالوجی تمدن یا طاقت یا مال ودولت اللہ کی نافرمانی کی صورت میں انہیں نہیں بچا سکی ؛لہٰذا امتِ محمدیہ کو اس سے عبرت لینی چاہیے کہ جیسے وہ اللہ کی قدرت کا مقابلہ نہیں کر سکے اور عذاب سے نہیں بچ سکے ، تو تم کون سے کھیت کی مولی ہو؟
اممِ سابقہ میںمشترکہ جرائم:
عذابِ خداوندی کے مشترکہ اوصاف جو مذکورہ اقوام میں تھی وہ یہ تھی :
(۱) انبیا کی تکذیب ۔ (۲) توحید سے اعراض۔ (۳) اللہ کی نافرمانی اوراس کے اسباب:
۱ -تکبر و غرور ۔ ۲- اپنی طاقت پر بھروسہ ۔ ۳- اللہ سے مقابلہ کا اپنے آپ کو قابل سمجھنا۔
عذاب سے بچنے کی تدبیر:
اس کا علاج یہ ہے کہ ابنیا کی تعلیمات پر یقین رکھا جائے (۲) وحدانیت کو راسخ کیا جائے (۳) اللہ کی مکمل اطاعت کی جائے ۔اوریہ جذبہ اس وقت پیدا ہوگا جب اپنے اندر یہ اوصاف ہوں :
۱- تواضع اور عاجزی ۲- اللہ کی ذات پر کامل اعتماد اور بھروسہ ۳- اپنی ذات کو اللہ کے حوالے کردینا ۔
اللہ امت محمدیہ کو صحیح توفیق سے نوازے ۔
قرآن کے نزول کا اصل مقصد چوں کہ ہدایت ہے ، لہٰذا میں نے سب سے پہلے اسی پر روشنی ڈالی ۔ اب مزیدمضامینِ قرآن سے گرہ کشائی کرتے ہیں:
قرآن سے معاشرہ پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے:
جب کسی معاشرے میں قرآن کی تعلیمات عام ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے ، جو علمی ،فکری اور روحانی ہر اعتبارسے انتہائی درجہ مضبوط ہوتا ہے ۔ قرآن کے ذریعہ دلوں کو فتح کیا جاتا ہے ۔ صحابہ کی سیرتیں اٹھا کر پڑھ لو کہ قرآن نے ان کے قلوب کس طرح ہدایت کی طرف موڑ دیے تھے؛ حضرت عمر ؓ کا دل، اسی طرح حضرت سعد بن معاذ ، حضرت اسید ابن حضیر کے قلوب قرآن ہی کے ذریعہ فتح کیے گئے ۔
قرآن کامطالعہ کیوںکیاجائے؟
آخر قرآن مجید کا مطالعہ کس لیے کیا جائے ؟ ایک غیر مسلم آپ سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ وہ قرآنِ مجید کا مطالعہ کیوں کرے ؟ اسی طرح ایک ایسا مسلمان جس کو قرآنِ مجید کے مطالعہ کا موقع نہیں ملا وہ بھی یہ سوال کرسکتا ہے کہ اس کو مطالعۂ قرآن کی کیا ضرورت ہے ؟ کیوں لوگ اپنی مصروفیات کو ترک کرکے اور اپنے ضروری مشاغل کو چھوڑ کر اس کام کے لیے جمع ہوں؟ اور کیوں اس غرض کے لیے اپنے مال و دولت ، وسائل اور وقت کی قربانی دیں؟
اس لیے آگے بڑھنے سے پہلے ، سب سے پہلے تمہید کے طور پر ، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ بھی دیکھیں کہ قرآن مجید کوسمجھنے میں ایک مسلمان کو کیا نیت کرنی چاہیے ۔ اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی اور کتاب ایسی نہیں ہے جس نے انسانیت کی تاریخ پر اتنا گہرا اثر ڈالا ہو جتنا قرآن نے ڈالا ہے ۔
(محاضرات قرآن ص: ۱۵-۱۶)
قرآن نے بنی نوع انسانی پرکیااثرڈالا؟:
اس وقت تفصیل میں جانے کا تو موقع نہیں ہے ،لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو قرآنِ مجید کی دَین ہیں اور آج دنیا میں ان کا وجود قرآن ِمجید کا مرہونِ منت ہے ۔ قرآن مجید اور صاحب ِقرآن کی یہ وہ عطائیں ہیں، جن سے پوری انسانیت نے فائدہ اٹھایا ہے ۔ میں صرف چند مثالیں دینے پر اکتفا کرتا ہوں ۔
قرآن نے انسان کے فکری جمودکوتوڑا:
نزولِ قرآن سے پہلے دنیا میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی تھی ( جو کسی حد تک اب بھی پائی جاتی ہے ) کہ ہر وہ چیز جو انسانوں کو کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہے وہ اپنے اندر خاص قسم کے فوق الفطرت اثرات اور قوتیں رکھتی ہے ۔ یہ غلط فہمی انسانوں میں بہت پہلے کم علمی اور جہالت کی وجہ سے پیدا ہوگئی تھی ۔ اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ ہر وہ قوت جو اس کی نظر میں مافوق الفطرت حیثیت رکھتی ہے وہ اس بات کی مستحق ہے کہ نہ صرف اس کا احترام کیا جائے ،بل کہ اس کی تقدیس بھی کی جائے ؛چناں چہ انسانوں نے ہر نافع اور ضار چیز کو مقدس سمجھنا شروع کردیا ۔ آگے چل کر یہ احترام اور یہ تقدس بڑھتے بڑھتے عبادت کے درجے تک جا پہنچا ہم یہ کہ سکتے ہیں دیگر انبیا کے مقابلہ میں قرآن نے مکمل تفصیل اور ہر طرح کے دلائل کے ساتھ اس کا زوردار رد کیا اگر چہ کہ انبیاء سابقین نے بھی اس سے ضرور تعرض کیا۔
یوں ہوتے ہوتے ہر کائناتی قوت محترم اور مقدس قرار پا جاتی ہے ، پھر اس کی پوجا کی جانے لگتی ہے اور اس کو بالآخر معبود کے درجہ پرفائز گدی نشین کردیا جاتا ہے ۔ ہمارے پڑوس میں ایک ایسی قوم بستی ہے جس نے کروڑوں دیوتا اور معبود بنارکھے ہیں ۔ان کے بڑوں نے کم علمی ، جہالت، یا کسی اور سبب سے یہ عقائد اپنا لیے۔ انہوں نے اول اول بہت سی قوتوں اور مخلوقات کو دیکھا جن سے انسانوں کو نفع یا نقصان پہنچتا ہے ، انہوں نے ان سب چیزوں کو محترم اور مقدس ٹھہرایا ، پھر انہوں نے ان کی پوجا شروع کردی اور یوں ا ن کے دیوتاؤں کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچی ۔ کوئی دریا ہے ،جس کے پانی سے لوگ سیراب ہورہے ہیں، کوئی جانور ہے، جس کے دودھ اور غذا سے لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں ، کوئی درخت ہے، جس کے پھل سے لوگ متمتع ہورہے ہیںیا اس کے علاوہ کوئی اور قوت ایسی ہے جس کے منافع اور مضرات سے لوگ متاثر ہورہے ہیں ۔ ان سب کو ایک ایک کرکے پہلے تقدیس کے مقام پرفائز کردیا گیا اور بعد میں ہوتے ہوتے ان سب کو انسانوں کا دیوتا تسلیم کرلیا گیا ۔
انسان مخدوم اور کائنات اس کی خادم
انسانی تاریخ میں قرآن ِمجید اس پہلو پر بھی بہت زوردیا کہ کائنات کو تمہاری خدمت کے لیے اور تم کو خالق کی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ، اور یہ بھی واضح کیا کہ ائے انسان اس کائنات میں جو کچھ ہے وہ تمہارے فائدے اور استعمال کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔{ وسخرلکم مافی الارض جمیعا } زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ پایا جاتا ہے ، خواہ وہ اجرام ِفلکی ہوں، گرجتے بادل ہوں، بہتے دریاہوں ، چمکتے ستارے ہوں، گہرے سمندر ہوں ، خطرناک جانور یا دیگر مخلوقات ہوں، یہ تمام کی تمام چیزیں انسان کے فائدے اور اس کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہیں ۔
ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میںیہ سوال پیدا ہو کہ اس آیت کا سابقہ غلط فہمی سے کیاتعلق ہے ؟لیکن اگر ذرا غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ آیت سابقہ غلط فہمی کی جڑ کاٹ کررکھ دیتی ہے اور اس غلط فہمی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیتی ہے۔ جب آپ یہ یقین کرلیں کہ کوئی چیز آپ کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے اور آپ اس کو ہر طرح استعمال کرسکتے ہیں ، وہ آپ کے لیے بہ طور دوا کے ،بہ طور غذا کے کام آسکتی ہے تو پھر آپ اس پر تحقیق شروع کردیںگے ۔ اس کے ٹکڑے کریںگے ، اس کے حصے بخرے الگ الگ کریںگے اور لیبارٹری میں رکھ کر اس کی تحقیق کریںگے ۔
دنیوی اشیاکی تقدیس کے نظریہ کوختم کیااورتحقیق کاذوق دیا:
تقدیس کے ساتھ تحقیق ممکن نہیں ہے ۔ یہ ہمیشہ یاد رکھیے گا ۔ تحقیق ممکن ہے امکانِ تسخیر کے ساتھ ۔ جس جس چیز کو مسخر کرنے کا آپ کے اندر جذبہ پیدا ہو اور آپ کو یقین ہوکہ آپ اسے مسخر کرسکتے ہیں وہی چیز آپ کی تحقیق کا موضوع بنے گی۔ لیکن جس چیز کے گردتکریم وتقدیس کا ہالہ چھایا ہوا ہو ،اس کی تحقیق نہیں ہوتی ۔
(محاضرات قرآن ص:۱۶-۱۸)
میڈیکل سائنس میں مردہ لاشوں کو چیر پھاڑ کر دیکھا جاتا ہے۔مردہ جسم پر تحقیق کی جاتی ہے اور طلبہ کو بتایا جاتا ہے کہ انسانی جسم کس طرح کام کرتا ہے ۔ لیکن میڈیکل سائنس کاکوئی طالب علم اپنے باپ کی میت کو اس تحقیق کے لیے استعمال نہیں کرے گا ۔ اور اگر کوئی اس سے ایسا کرنے کو کہے گا تو اس پر جھگڑے گا ، فساد کرے گا اور شاید مار پٹائی تک نوبت آجائے ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ باپ کے ساتھ جو تقدس اور احترام کا تعلق ہے ،وہ اس تحقیق کے راستے میں رکاوٹ ہے۔کسی اجنبی انسان کے ساتھ وہ احترام اور تقدس وابستہ نہیں ہوتا جو باپ کی مردہ لاش سے وابستہ ہوتا ہے ، اس لیے اس کی dissection اور تحقیق میں کوئی شخص تامل نہیں کرتا ۔
قرآن مجید نے جب یہ اعلان کردیا کہ کائنات میں کسی چیز کے گرد تقدس کا کوئی ہالہ موجود نہیں ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کے بعد کوئی چیز تقدس کے قابل ہے تو وہ خود انسان ہے، جس کا درجہ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے اونچا ہے ،انسان کو تو تقدس حاصل ہوسکتا ہے ؛اس کے علاوہ کائنات کی کسی چیز کو تقدیس حاصل نہیں ہوسکتی۔ اب ہر چیز تحقیق کا موضوع بن گئی ،پہاڑ بھی ، سیارے بھی ، آفتاب اور ماہتاب بھی ، دریا اور سمندر بھی ، پرندے اور درندے بھی ۔
وحدت انسانی کا تصور
کوئی انسان اپنی نسل خود منتخب نہیں کرتا ، کوئی شخص اپنا رنگ خود پسند نہیں کرسکتا ، کسی شخص کی مادری زبان کا انتخاب اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا ۔ یہ چیزیں وہ پیدائش کے وقت اپنے ساتھ لاتا ہے ،ان غیر اختیاری امور کی بنیاد پر گروہوں اورقوموں کی تشکیل کو قرآنِ مجید ایک وجہ ِتعارف کے طور پر تسلیم کرتا ہے ؛لیکن وہ ان چیزوں کو وحدتِ انسانی میں مخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا ۔
وحدتِ الٰہ متقاضی ہے وحدت بنی آدم کا،یہ اعلان قرآن کریم نے کیا:
قرآنِ مجید نے اس پر زوردیاکہ وحدتِ الٰہ کا لازمی تقاضا ہے کہ وحدتِ آدم کے اصول کو تسلیم کیا جائے ۔ ایک معبود کے مقابلہ میںبقیہ تمام لوگوں کی حیثیت سوائے عباد کے اور کیا ہوسکتی ہے ۔{ ان کل من فی السمٰوات والارض الا اتی الرحمن عبدا } زمین و آسمان کی ہر ذی روح اور ذی عقل مخلوق کی ذات ِباری تعالیٰ کے روبرو صرف ایک ہی حیثیت ہے اور وہ ہے عبدیت ۔ اس عبدیت میں نہ صرف تمام انسان ،بل کہ تمام ملائکہ اور جنات ایک دوسرے کے شریک ہیں۔ اس اشتراکِ عبدیت میں نہ کسی قبیلہ کو دوسرے قبیلہ کے مقابلہ میں کوئی برتری یا تقدس حاصل ہے ، نہ کسی نسل کو دوسری نسل کے مقابلہ میں ۔اور نہ کسی قوم کو دوسری قوم کے مقابلہ میں ۔{ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم}اوراسی طرح’’لافضل لعربی علیٰ عجمی‘‘ والی روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ۔
تمام مذاہب میںنرالی شان اسلام کی:
یہ بات آج شاید اتنی اہم معلوم نہ ہو۔لیکن اس بات کو اگر تاریخ مذاہب وملل کے تناظر میں دیکھاجائے تو اس کی غیر معمولی انقلاب آفرینی کا صحیح اندازہ ہوسکتاہے ۔ دنیا کے بیشتر قدیم مذاہب کے عام رواج کے برعکس اسلام میں کسی نسل یا قبیلہ کو کوئی مذہبی تقدس حاصل نہیں ۔ اسلام کی تاریخ میںکوئی فرمانروا ، بدتر سے بدتر حالات میں بھی ، آفتاب زادہ یا ماہتاب زادہ کہلانے کی جرات نہیں کرسکا ۔
طبقات کی زد میں کچلی ہوئی انسانیت اور امتیازی سلوک کی شکار اولاد آدم کے لیے یہ پیغام ایک بہت بڑی تبدیلی کی نوید تھاکہ ’’ کلکم ابناء آدم وآدم من تراب ‘‘ اب نہ بنی لاوی کو خصوصی مذہبی اختیارات حاصل ہوںگے اور نہ برہمنوں جیسی پیدائشی نسلی بالا دستی ۔
قرآن نے تمام انسانوںکارشتہ براہِ راست خالق ِحقیقی سے جوڑنے اہم رول ادیا کیا:
اب ہرانسان براہِ راست ہر وقت ، ہرلمحہ ، ہر جگہ اور ہرحالت میں خالقِ کائنات سے رابطہ قائم کرسکتا ہے۔ وہ ہر ایک کی سنتا اور ہر ایک کی پکار کا براہِ راست جواب دیتا ہے: {اجیب دعوۃ الداع اذا دعان دعائیں اور مناجاتیں قبول کروانے والے واسطوں کی ضرورت ہے ، نہ معاوضہ لے کر گناہوں کو بخشوانے والوں کی ۔ قرآنِ مجید نے یہ سب وسائط وحوا جز ختم پر خاص توجہ دی۔
قرآن نے کرامتِ آدمیت کاتصورپیش کیا:
وحدت ِانسانی ہی کی برکات میں ایک اہم برکت اور قرآنِ مجید کی ایک اور عطا کرامت ِآدم کاوہ تصور ہے، جس میں کوئی اور مذہب یا غیر آسمانی کتاب قرآن مجید کی شریک وسہیم نہیں ۔ یہ کتاب آغاز میں وحدتِ بشر اور خلافتِ آدم کے تصورات کی تعلیم دیتی ہے ۔ وہ تعلیم جو آگے چل کر پور ی کتاب میں جگہ جگہ نئے نئے انداز اورنئے نئے اسلوب میں بیان کی گئی ہے ۔
قرآن نے عقل،وحی اورعلم کے درمیان توازن اورامتزاج کامزاج عطاکیا:
قرآنِ پاک کی ایک بڑی دَین عقل ووحی اور مذاہب وعلم کے درمیان وہ توازن اور امتزاج ہے، جو قرآن اور قرآن کی لائی ہوئی شریعت کے علاوہ ہر جگہ ناپید ہے ۔ دنیا آج بھی اس توازن سے ناواقف ہے ،جو انسانی زندگی کو صدیوں سے جاری اس کشاکش سے نجات دلاسکے ،جس میں مذہب وعلم کے قدیم تعارض وتصادم نے اس کو مبتلا کررکھا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کچھ مذاہب نے اپنی دانست میں وحی اور روحانیت کا دامن تھاما ، لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ عقل و دانش کے سارے تقاضے دھرے کے دھرے رہ گئے اور مذہب آخر کا ر ہر قسم کی بے عقلیوں کا مجموعہ بن کر رہ گیا ۔ اس کے ردِ عمل میں عصر ِجدید نے عقل و دانش سے وابستہ رہنے کا فیصلہ کیا اور عقلیت پسندی کے جوش میں مذہب کو ہر جگہ سے دیس نکالادیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج انسانی زندگی ہر قسم کی اخلاقی اورروحانی قدروں سے تیزی سے محروم ہوتی چلی جارہی ہے ۔
قرآنِ مجید آخری آسمانی کتاب ہے، جس نے خالص دینی معاملات میںعقل کو اور خالص دنیاوی معاملات میں دینی راہ نمائی کو مناسب اورموثر کردار عطا کیا ۔ عقل وتدبر اور علم و دانش پر جتنا زور اس کتاب میں دیا گیا ہے کسی بھی مذہبی کتاب میں نہیں دیا گیا ۔ خالص دینی معاملات ، عقائد اورعبادات کی حکمت بیان کرنے میں عقلی استدلال قرآن پاک کے صفحہ صفحہ پر بکھرا ہوا ہے۔
دوسری طرف خالص دنیاوی اور انتظامی امور میں مذہب و اخلاق اورروحانیات کے اصولوں کا حوالہ قرآن کے اسلوب ِاستدلال کی ایک امتیازی شان ہے۔
قرآن ِکریم نے انسانوںکوصحیح علمی منہاج عطاکیا:
دنیائے علم و دانش پر قرآنِ پاک کا ایک بہت بڑا احسان اس کا وہ علمی منہاج اور طرز ِاستدلال ہے، جس نے آگے چل کر منطقِ استقرائی کو فروغ دیا ۔ قرآنِ مجید نے توحید اورحیات بعد الموت کے عقائد کو لوگوں کے ذہن نشین کرانے کے لیے جو اسلوبِ استدلال اختیار فرمایا وہ جزئیات کے مطالعہ سے کلیات تک پہنچانے کا اسلوب ہے ۔ قرآنِ مجید ایک بڑی حقیقت کو ذہن نشین کرانے کے لیے روز مرہ کی زندگی سے بہت سی مثالیںبیان کرتا ہے۔یہ وہ مثالیں ہوتی ہیں جن پر غور کرنے سے ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے ۔ یہ وہ نتیجہ ہوتا ہے جو بالآخر اس حقیقتِ کبریٰ کی نشان دہی کرتا ہے ۔ جو قرآن پاک کے پیش ِنظر ہوتی ہے ۔
یہ اسلوب مکی سورتوں میں عقائد کے مضامین کے ضمن میں کثرت سے نظر آتا ہے۔ اس نے علم و فکر کا واسطہ زمینی حقائق سے جوڑا اور یونانی انداز کی فکر ِمجرد کے مقابلہ میں براہ ِراست مشاہدہ اورتجربہ کی بھی گنجائش نکالی ۔ یہ وہ چیز ہے جس نے یونانی انداز کی منطق ِاستخراجی کے مقابلہ میں ایک نئی منطق ، منطقِ استقرائی کو جنم دیا ۔ یوں بھی قرآنِ مجید جیسی انقلابی کتاب کے لیے جو خیال اور مجرد فکر سے زیادہ عمل اورجدو جہد پر زور دیتی ہے ، استخراجی اسلوب کے مقابلہ میں استقرائی اسلوب ہی موزوں اور مناسب ہوسکتا تھا۔
قرآن کی امتیازی عطائیں بے حدوحساب:
قرآن مجید کی ان عطاؤں کی مثالیں اور بھی دی جاسکتی ہیں ، لیکن ان سے گفتگو طویل ہوجائے گی اور اصل موضوع سے کوسوں دور چلی جائے گی ،اس لیے ایک اور مثال دے کریہ موضوع ختم کرتا ہوں ۔ اسی ایک مثال پر اکتفا کریں ، اس سے اس بات کا مزید اندازہ ہوجائے گا کہ اگر ایک غیر مسلم انصاف پسندی کے ساتھ یہ دیکھنا چاہے کہ قرآن ِمجید کے اثرات انسانیت پر کیا پڑے ہیں، تو اس کو بہت جلد یہ احساس ہو جائے گا کہ یہ کتاب عالم انسانیت کی سب سے بڑی محسن کتاب ہے ۔ یہ احساس ہی اس کو قرآن مجید کا مطالعہ کرنے پر سنجید گی سے متوجہ کرسکتا ہے ۔
ٌٌقرآن نے مذہبی امور کو کسی خاص خاندان یا طبقہ میں منحصر نہیں ہونے دیا:
وہ پہلو یہ ہے کہ اسلام سے پہلے انسانوں کی مذہبی زندگی کی ساری باگ ڈور بعض خاص طبقات کے ہاتھوں میں ہوتی تھی ۔ مذہبیات کی تاریخ کا ہر طالب علم یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اسلام سے قبل ہرمذہب میں مذہبی زندگی پر متعین گروہوں اور مخصوص طبقات کی اجارہ داری ہوتی تھی ۔ یہ اجارہ داری یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ آخرت میں گناہوں کی معافی تک کے اختیارات مذہبی طبقوں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے تھے ۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ مذہبی پیشوا رشوتیں لے کر گناہوں کی معافی کے پروانے جاری کیا کرتے تھے ۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں آج بھی مذہبی پیشوا خصوصی اختیارات اوراجارہ داری کا دعویدار ہے ۔ وہ کسی بت خانہ کاپنڈت یا پروہت ہو، کسی گرجا کا پادری ہو، کوئی ربی یا کوئی اور مذہبی عہدہ دار ہو۔ اپنے مذہب میں وہ مذہبی زندگی کا اجارہ دار ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان کوئی رشتہ براہِ راست قائم نہیں ہونے دیتا ۔ کہنے کو تو وہ گویا گنہ گار انسانوں اور ان کے خالق کے درمیان سفارشی کی حیثیت رکھتا ہے ، لیکن در اصل وہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک رکاوٹ اوردیوار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پہـلے بھی دنیا میں ہر جگہ یہی رواج تھا اور آج بھی یہی رواج ہے ،کل بھی یہی غلط فہمی پائی جاتی تھی اور آج بھی بہت سی جگہ یہی غلط فہمی پائی جاتی ہے ۔
قرآن مجید وہ آخری آسمانی کتاب ہے، جس نے ان تمام رکاوٹوں کو ختم کرکے اعلان کیا کہ{ ادعونی استجب لکم} مجھے پکارو ، میں تمہاری پکار سنوں گا ۔ ہر انسان جب دل کی گہرائیوں کے ساتھ دعا کرتا ہے تو براہ ِراست روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اس کی دعا اللہ تعالیٰ کے پاس جا پہنچتی ہے ۔{ اجیب دعوۃ الداع اذا دعان }جب بھی پکارنے والا مجھے پکار تا ہے میں اس کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔بہ ظاہر یہ چھوٹی چھوٹی دو آیات ہیں ، لیکن ان کی اہمیت پر جتنا زیادہ غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ کائنات میں ان دوآیات نے کتنا بڑا انقلاب برپا کیا ہے ۔ غور کرنے سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے لائے ہوئے اس انقلاب کی عظمت کیا ہے ۔ اس اعلان نے مذہبی غلامی کی ایک بدترین قسم کو فنا کرکے رکھ دیا ہے ۔ قرآنِ مجید کے اسی انقلاب آفریں اعلان کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اقبال ؒ فرما تے ہیں :
نقش قرآں تا دریں عالم نشست
نقش ہائے کاہن وپاپا شکست
یعنی جب سے اس دنیا میں قرآن کا نقش قائم ہوا ہے اس نے کاہنوں اور پاپاؤں کے نقش کو مٹا کر رکھ دیا ہے ۔ یہ وہ چیز ہے جس کا آج غیر مسلم بھی اعتراف کرتے ہیں ۔
ٌقرآن نے ایک عالمی تہذیب متعارف کروائی:
یہ قرآن مجید کے ان پہلوؤں کی صرف چند سرسری مثالیں ہیں، جن کی وجہ سے ایک غیر مسلم کو بھی قرآن کے بارے میں یہ احساس ہوجانا چاہیے کہ یہ کتاب عام کتابوں کی طرح کی کوئی کتاب نہیں ہے ، بل کہ یہ تو ایک ایسی کتاب ہے جس نے دنیا کو ایک عالمی انقلاب ،عالمی تہذیب ،عالمی تمدن ، عالمی قانون،عالمی عقیدے ،عالمی ثقافت اورپوری انسانی زندگی کو ایک عالمی چلن اورعالمی روش سے متعارف کروایا ہے ،اگر لوگ اس نئی روش اورنئے چلن کو جاننا چاہتے ہیں تو پھر انہیں قرآن ِمجید کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
مسلمانوں کو قرآن سے وابستہ ہونا کیوں ضروری ہے؟
اب اس سوال کے دوسرے حصہ کو لیجیے کہ ایک مسلمان کو قرآنِ مجید سے وابستہ ہونا ضروری ہے ۔ مسلمان کو قرآن سے وابستہ اس لیے ہونا چاہیے کہ قرآنِ مجید ہی مسلمانوں کی زندگی کی اساس ہے ۔ جس عالمی برادری کو ہم امتِ مسلمہ کہتے ہیں جس کے لیے ملتِ اسلامیہ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے اس کی اساس قرآن مجید ہے ۔ قرآن مجید ہمارے پاس دو شکلوں میں آیا ہے :
۱- قرآن ناطق ، یعنی بولتا قرآن۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم)
۲-قرآن صامت ، یعنی خاموش قرآن۔(مصحف شریف)
قرآن صامت: (یعنی خاموش قرآن) تو یہ کتاب ہے جو خود تو نہیں بولتی لیکن ہم اسے پڑھتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ہم سے مخاطب ہوتا ہے۔
قرآن ناطق: یعنی بولتا قرآن وہ ذات گرامی علیہ الصلاۃ والتحیہ ہے ، جس نے قرآن کو دنیا تک پہنچایا، اس کی تفسیر وتشریح کی اور اس قرآن پر عمل کرکے دکھایا ، جس کے بارے میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا تھا: ’’کان خلقہ القرآن ‘‘کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بعینہٖ قرآنِ مجید کے مطابق تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا تھا کہ اماں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں کچھ بتائیے ۔ آپ ؓ نے سوال کرنے والے سے پوچھا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ اس نے عرض کیا کہ جی ہاں پڑھتا ہوں ۔
آپ نے فرمایا کہ ’’کان خلقہ القرآن ‘‘ آپ کے اخلاق اور کردار بالکل وہی تھا جو قرآنِ مجید کہتا ہے اور جو ہمیں قرآن مجید میں لکھا ہوا ملتا ہے ؛لہٰذا قرآنِ مجید قرآنِ صامت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی قرآنِ ناطق ہے ۔
آج بھی قرآن کریم اور اس کی تفسیر بصورتِ احادیث بعینہ ہمارے پاس موجودہے:
آج ہمارے پاس قرآنِ صامت بھی بعینہٖ اسی طرح موجود ہے اور قرآنِ ناطق کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ارشادات ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تشریحات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سنتِ ثابتہ، سب کچھ اسی طرح موجود ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کو دے گئے تھے ۔ اس کے باوجود آج مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن ِمجید کو وہ مقام حاصل نہیں ،جس کی یہ کتاب مستحق ہے ۔ ہمارا یہ دور اس اعتبار سے انتہائی افسوس ناک اور اندوہناک ہے کہ قرآنِ مجید سے آج ہمارا وہ مضبوط تعلق منقطع ہوتا نظرآرہا ہے، جس نے ہمارے جسد ملی کو تحفظ بخشا ۔ آج ہم میںسے بہت سوں کا قرآنِ مجید سے وہ تعلق نہیں رہا جو ہونا چاہیے ۔ اس کی پیشین گوئی بھی قرآنِ مجید میں موجود ہے ۔ {وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مہجورا } غور کرو! اس وقت کیا حال ہوگا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریںگے کہ ’’ اے پرور دگار ! میری اس قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا تھا‘‘۔
قرآن کو ترک کرنے کی شکلیں:
قرآن مجید کو چھوڑ نے کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں ۔ یہ سمجھناکہ قرآنِ مجید کو چھوڑنے کا کوئی خاص پیمانہ یا معیار ہوتا ہے اوروہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ،ایک بڑی خطرناک غلط فہمی ہے ۔ یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ ہجرِ قرآن کی منزل ابھی نہیں آئی ۔ ہجرِ قرآن یا ترکِ قرآن کا یہ خطرناک مرحلہ آچکا ہے ، ترک ِقرآن آخر کیا ہے ؟ یہی ناکہ قرآنِ مجید کے الفاظ سے تعلق ختم ہوجائے ، قرآنِ مجید کے متن کو لوگ یاد کرنا چھوڑ دیں ، قرآنِ مجید کو سمجھنے کی ضرورت کا احساس نہ رہے ، قرآنِ مجید کے پڑھنے پڑھانے سے دل چسپی ختم ہوجائے ، لوگ قرآن مجید کے احکام پر عمل درآمد کرنا چھوڑ دیں، قرآن مجید کو قانون کا اولین اور برتر ماخذتسلیم کرنے سے عملًا انکار کردیں۔ یہ ساری چیزیں قرآن ِمجید کو چھوڑ نے ہی کی مختلف شکلیں ہیں ۔
صحابہ نے قرآن ِکریم کوروئے زمین کے چپے چپے تک پہنچایا:
ایک زمانہ تھا کہ صحابہ کرام ؓنے قرآنِ مجید کو روئے زمین کے کونے کونے میں پھیلا دیا ۔ صحابہ کرام ؓ نے تابعین کی جو نسل تیار کی اور پھر تابعین نے تبعِ تابعین کی جو نسل تیار کی ، انہوں نے مسلمانوں کے مزاج ، مسلمانوں کے رگ وپے اورمسلم معاشرہ کی بنیادوںمیںقرآنِ مجیدکواِس طرح رچابسادیاکہ جوشخص اس معاشرہ میںداخل ہوگیاوہ قرآنِ مجیدکے رنگ میںرنگاگیا۔ایک پوری نسل چین سے لے کرمراکش تک اورسائبیریاکی حدودسے لے کرسوڈان کے جنوب تک ایسی پیداہوگئی ،جس کے سوچنے سمجھنے کااندازقرآنِ مجیدکی تعلیم کے مطابق ،جس کی فکراورعقیدہ قرآن مجیدکے دیے ہوئے تصورات سے ہم آہنگ ،جس کاطرزِعمل قرآن ِمجیدکے احکام پرمبنی اورجس کی انفرادی اوراجتماعی زندگی کاہرپہلوقرآن مجیدکے نورِسرمدی سے مستنیرتھا۔ وہاںہرگھرقرآن کی درس گاہ تھا،ہرمسجدقرآنی یونی ورسٹی تھی،ہربستی قرآنی تربیت گاہ تھی،ہردرس گاہ میںعلم وبصیرت کی بنیادکتابِ الٰہی تھی۔
ٌقرآن کوبنیاد بنا کر مسلمانوں نے علوم وفنون کو حیرت انگیز ترقی سے نوازا:
اگراس اعتبارسے مسلمانوںکی تاریخ کاجائز لیاجائے کہ قرآنِ مجیدکوبنیادبناکرانہوںنے علوم وفنون کوکتنی ترقی دی اورکس طرح قرآنی فکرکوعام کیا؛تومحیرالعقول انسانی کاوشوںکی عجیب وغریب نمونے سامنے آئیں گے۔جب ابنِ بطوطہ نے دنیاکاسفرکیااورسفرکرتے ہوئے وہ دہلی پہنچاتودہلی شہرمیںاس نے دیکھاکہ ایک ہزار مدرسے تھے،جہاںنہ صرف قرآنِ مجیدکی تعلیم دی جاتی تھی،بل کہ تمام علوم وفنون جواُن مدارس میںسکھائے جاتے تھے،وہ قرآنِ مجیدکے دیے ہوئے پیغام کی تفسیروتشریح سے عبارت تھے۔
یہ ابنِ بطوطہ کے زمانہ کی بات ہے ،جو آج سے کم وبیش آٹھ نوسوسال پہلے یہاں آیاتھا؛لیکن آج سے کم وبیش ڈیڑھ دو سوسال قبل جب انگریزشروع شروع میں اس علاقے میںآناشروع ہوئے توٹھٹہ جیسے شہرمیں،جومرکزِ حکومت سے ہزاروںکوس دور،ثقافت کے مراکزسے بعیداورمعاشی اعتبارسے نسبتاًایک پس ماندہ علاقہ تھا،سیکڑوں مدارس قائم تھے،جہاںہزارہاجیدعلماعلوم وفنون کی درس وتدریس میںمصروف تھے۔خودانگریزسیاحوںنے بیان کیاکہ اس زمانہ میںچارسومدرسے ٹھٹہ میںموجودتھے۔
اٹھارہویں او ر انیسویں صدی میں بھی مسلمان قرآن سے وابستہ تھا:
اٹھارہویںصدی کے اواخراورانیسویںصدی کے اوائل کی بات ہے ۔اس حیرت انگیزاوربے مثال علمی پیش رفت اورتعلیمی سرگرمی کاواحدسبب یہ ہے کہ قرآنِ مجیدمسلمانوںکے رگ وپے میں اس طرح رچ بس گیاتھاکہ ان کی پوری زندگی قرآنِ مجیدکی تعلیمات سے عبارت تھی۔
سو سال میں ترکِ قرآن اور امت کی بدحالی:
پھرایک زمانہ آیاکہ مسلمان ادارے ایک ایک کرکے کم زورپڑگئے ،مسلمانوںکاتمدن دھندلاگیا، مسلمانوں کاتعلق قرآنِ مجیدسے کم زورہوتاگیااورایک ایسی نسل سامنے آگئی جوقرآنِ مجیدسے اسی طرح نامانوس اورناواقف تھی جیسے کوئی غیرمسلم ناواقف ہوتاہے ۔صرف سوسواسوسال کے اندرکیاسے کیاہوگیا!!!اس کااندازہ کرنے کے لیے میوات کی حالت کاجائزہ لیجیے ۔انیسویںصدی کے اواخر اوربیسویںصدی کے اوائل میں،کہیںدُورنہیں بل کہ دہلی کے قرب وجوارمیںجومسلمانوںکامرکزتھا،اس کے قریبی علاقہ میوات کے بارے میںسناگیاہے کہ وہاںایک پوری نسل ایسی بستی تھی،جواپنے بارے میںیہ دعویٰ توکرتی تھی کہ وہ مسلمان ہے؛ لیکن اس دعویٰ کے علاوہ اس کے اندرکوئی چیزاسلام سے متعلق باقی نہیں رہ گئی تھی۔
اس زمانہ میں تبلیغی جماعت کے بانی اورمشہوربزرگ مولانامحمدالیاس کووہاںجانے کااتفاق ہوا،انھوںنے ان لوگوںسے پوچھاکہ تم مسلمان ہویا غیر مسلم؟انھوںنے جواب دیاکہ ہم مسلمان ہیں۔مولانانے پوچھا:نمازپڑھتے ہو؟بولے: نمازتوہم نے کبھی نہیں پڑھی،جب ان سے نام پوچھے گئے توایسے نام بتائے گئے، جویاتوپورے کے پورے ہندوانہ نام تھے یاجن میں آدھے نام اسلامی اورآدھے ہندوانہ تھے۔جیسے محمدسنگھ،حسین سنگھ وغیرہ۔مولانانے پوچھاکہ تم لوگوںنے کبھی قرآن پاک پڑھاہے ؟جواب ملا:پڑھاتونہیں،لیکن ہمارے باپ داداکے زمانے سے چلاآرہاہے ۔مولانانے فرمایا:ـلاکردکھاؤ۔جب انھوںنے قرآن مجیدکانسخہ لاکرپیش کیاتووہ گائے کے گوبرمیںلپٹاہواتھا۔ہندو گوبر کو مقدس مانتے ہیں ،اس لیے وہ گائے کافضلہ ہے ،جواُن کے ہاں تقدس کامرکزہے،انھوںنے یہ سمجھاکہ قرآن کے مقدس مقام اورمرتبہ کاتقاضایہ ہے کہ اس کے اوپراِ س مقدس فضلہ کولپیٹ دیاجائے ۔
بر صغیر میں عوامی دروس ِقرآن کا آغاز:
یہ کیفیت تھی بیسویں صدی کے آغازسے ذراپہلے کی،جس سے یہ واضح طورپرمعلوم ہوجاتاہے کہ مسلمانوںکے ایک بڑے طبقے کاقرآنِ مجیدسے تعلق کتنااورکس نوعیت کارہ گیاتھا؛چناںچہ انیسویںصدی کے اوائل ،بل کہ اٹھارہویںصدی کے اواخرمیں جب یہ احساس پیداہوناشروع ہواکہ مسلمانوںکے ایک طبقہ کا،بالخصوص عامۃ الناس کا،قرآنِ مجیدسے تعلق کم زورپڑتاجارہاہے تواس زمانہ کے اہلِ علم نے عامۃ الناس کوقرآنِ مجیدسے مانوس اورمتعارف کروانے کے لیے مساجد اور مختلف مقامات پرعوامی دروس کورواج دیا،برِصغیرکی تاریخ میںپہلاعوامی درسِ قرآن شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی ؒنے شروع کیاتھا،وہ دہلی میں تقریباًساٹھ سال تک درسِ قرآن دیتے رہے ۔
ولی اللہی خاندان کی قرآنی خدمات:
شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ اوران کاپوراخاندان اِس اعتبارسے برِصغیرکے مسلمانوںکامحسن ہے کہ انھوںنے مسلمانوںکارشتہ قرآنِ پاک اورحدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑا۔ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ اوران کے والدشاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے قرآنِ مجیدکے مطالعہ کوعوامی سطح پرمتعارف کرانے میں بے پناہ خدمات انجام دیں،دونوںبڑے مفسرتھے۔
شاہ عبد العزیز دہلویؒ کی تفسیرِ عزیزی:
شاہ عبدالعزیز کی تفسیر’’تفسیرِعزیزی‘‘شایدآپ نے دیکھی ہو،و ہ قرآنِ پاک کی چندبہترین تفاسیرمیںسے ایک ہے ۔یہ ایک نامکمل تفسیرہے ۔شروع میںسورۂ فاتحہ اورسورۂ بقرہ کے تقریباً نصف یعنی دوسرے پارہ کی آیت{وعلی الذین یطیقونہ}تک ہے ۔اورپھرآخرمیںانتیسویںاورتیسویںپارے کی تفسیرہے ،جودست یاب ہے ۔باقی اجزاکی تفسیریاتوحضرت شاہ صاحب نے لکھی نہیںیااب ناپیدہوگئی ہے؛لیکن جواجزادست یاب ہیںوہ علوم قرآن کے بے بہاذخیرہ پرمشتمل ہیں۔
شاہ صاحب نے ہندوستان سب سے پہلے درس قرآن دیا:
شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ نے صرف تفسیرقرآن ہی لکھنے پراکتفانہیںفرمایا،بل کہ انھوںنے سب سے پہلے برِصغیرمیںعوامی سطح پردرسِ قرآن بھی شروع کیا؛لیکن شاہ عبدالعزیزکے انتقال کے چندسالوںبعدفوراً ہی جنگِ آزادی کی تحریک شروع ہوگئی ،بالآخر۱۸۵۷ء کاہنگامہ برپاہوگیا۔انگریز مکمل طور پر قابض ہوگئے اور مسلمانوں کے سارے ادارے ایک ایک کرکے ختم ہوگئے اوریہ درس جو شاہ عبد العزیز نے اپنی نوعیت کے منفرد انداز میں شروع کیا تھا بر صغیر میں جاری نہ رہ سکا ۔ اس کے بعد کم و بیش ساٹھ ستر سال کا عرصہ گزرا کہ قرآن سے تعلق کی وہ کیفیت بر ِصغیر میں پھر ختم ہوگئی اس کے بعد شیخ الہند نے اس جانب خاص توجہ دی۔
( محاضرات قرآن ص:۱۸-۲۷مع حذف واضافہ وترمیم)
مقاصدِ نزولِ قرآن:
قرآن کیا ہے ، اسے جان لیا ، اب نزولِ قرآن کے مقاصد کو معلوم کرتے ہیں ۔
قرآنِ مجیدکے نزول کے مقاصدِ اصلیہ یہ تین چیزیںہیں:
(۱)تہذیبِ نفوس البشر،کہ انسانوںکے نفوس کی اندرسے تہذیب ہواورانسانی نفوس اس قدرپاکیزہ اورصاف ستھرے ہوجائیںکہ وہ تمام اخلاقی اورروحانی ذمہ د اریاںانجام دے سکیں،جواللہ رب العزت نے ان کے اوپرعائدکی ہیں۔یعنی ہدایت الی الحق یہ اساسی اور بنیادی مقصد ہے۔
(۲)دوسری چیزجوشاہ صاحب نے بیان کی ہے وہ ہے ’’دمغ العقائدالباطلۃ‘‘یعنی وہ تمام باطل عقائدجولوگوںکے ذہنوںمیںموجودہیں،وہ مسلمانوںکے ذہن میں ہوں یاپھرغیرمسلموںکے؛ان سب باطل عقائدکی تردیدکی جائے ۔بعض اوقات ایک غلط خیال آپ کے مخاطب کے ذہن میںہوتاہے اوراس کے دماغ کے مختلف گوشوںمیںانگڑائیاںلیتارہتاہے ؛لیکن وہ غلط خیال اس کے ذہن میںاتناواضح نہیںہوتاکہ وہ سوال کی شکل میںاس کوآپ کے سامنے پیش کرسکے۔
اس لیے وہ خود تو اس سوال کو پیش نہیں کرے گا ، اگر آپ از خود اس کی تردید نہیں کریںگے تو وہ سوال اس کے دماغ کے گوشوں میں کلبلا تارہے گا اور وہ الجھن اس کے ذہن میں قائم رہے گی اور آپ کے درسِ قرآن کے باوجود اس کی وہ الجھن صاف نہیں ہوگی ؛اس لیے آپ پہلے سے اس کا اندازہ اور احساس کرلیںکہ مخاطب کے ذہن میں کیا کیا شبہات آسکتے ہیں ۔ اگر درس دینے والا ان سے واقف ہو اور اپنے درس میں وہ اس شبہ یا اعتراض کا تذکرہ کیے بغیر اور یہ کہے بغیر کہ لوگوں کے ذہن میں اس قسم کا شبہ موجود ہے ، وہ از خود اس شبہ یا اعتراض کا جواب ایسے انداز سے دے کہ وہ اعتراض خود بخود ختم ہوجائے تو اس طرح وہ تمام عقائد ِباطلہ جو لوگوں کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں ایک ایک کرکے ختم ہوجائیں گے ۔
قرآن مجید نے اکثر و بیشتر سوال کا ذکر اور اعتراض کو دہرائے بغیر اس کا جواب اس طرح دیا ہے کہ پڑھنے والے کا ذہن خودبہ خود صاف ہوجاتا ہے اور معترض کے ذہن کی کجی آپ سے آپ دور ہوجاتی ہے ۔
قرآن مجید کایہ اسلوب تفصیل طلب ہے جس کا یہاں موقع نہیں؛لیکن مثال کے طورپر یہاں صرف اتنا عرض کرتاہوںکہ قرآنِ مجید میں ایک جگہ آیا ہے کہ ہم نے زمین اور آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے۔ {وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ } اللہ تعالیٰ ان کو پیدا کرکے تھکا نہیں ۔ ایک اور جگہ ہے{ وما مسنا من لغوب} ہم پر کوئی تھکن طاری نہیں ہوئی ؛اب یہ یہودیوں کے ایک غلط عقیدے کی تردید ہے ۔ یہودی نعوذ باللہ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں فلاں فلاں چیزیں بنائیں، جیسا کہ بائبل کے عہد نامہ قدیم کے آغاز میں صراحت کی گئی ہے ، اور نعوذ باللہ ساتویں دن وہ تھک کر لیٹ گیا اور اس نے پورے دن آرام کیا ۔
یہودیوں کے نزدیک وہ ساتواں دن سبت کا دن تھا ،جس میں یہودی چھٹی کیا کرتے تھے ۔ جب عیسائیوں کا دَور آیا تو انہوں نے سوچا کہ یہودی ہفتہ یا سبت کے دن چھٹی کرتے ہیں ، اس لیے ہمیں اس سے اگلے دن یعنی اتوار کے روز چھٹی کرلینی چاہیے ۔ اس لیے عیسائیوں نے اتوار کے دن چھٹی کرنی شروع کر دی؛ لیکن آپ غور فرمائیے قرآن مجید نے یہودیوں کے اس عقیدہ کا ذکر نہیں کیا اور نہ کوئی ایسا اشارہ کیا، جس سے یہ پتہ چلے کہ یہودی ایسا کوئی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ بس ایک اشارہ ایسا دیا کہ یہ غلط فہمی اپنے آپ ہی ختم ہوگئی ۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو ایسے انداز میں بیان فرمادیا کہ قرآن کے طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہ قرآن ِمجید کااسلوبِ استدلال اورطرزِ مخاصمہ ہے جو ہمیں بھی اپنانا چاہیے ،ہمارا اسلوب بھی ایسا ہی ہونا چاہیے ۔
البتہ اگرضرورت محسوس ہوتو اعتراضات وشبہات ذکر کرکے بھی رد کیا جا سکتا ہے؛ جیساکہ قرآن نے بعض مقامات پر کیا ہے ،مثلاً نوح علیہ السلام کے قصے میں۔
(۳)شاہ صاحب کی زبان میں قرآن پاک کا تیسرا مقصد نفی الاعمال الفاسدہ ہے۔یعنی جو اعمالِ فاسدہ انسانوں میں رائج ہیں ، چاہے ان کی بنیاد کسی غلط عقیدے پر ہو یا نہ ہو ، ان اعمال کی غلطی کو واضح کیا جائے۔ اور ان کو مٹانے اور درست کرنے کی کوشش کی جائے ۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی غلط رواج انسانوں میں رائج ہوجاتا ہے اور بہت سے لوگ قرآنِ مجید کا علم رکھنے کے باوجود یہ محسوس نہیں کرتے کہ ان کا یہ رواج قرآنِ مجید کے احکام کے منافی ہے یا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ انہیں کبھی اس بات کا خیال ہی نہیں آتا ، اب اگر آپ نے بہ طور مدرسِ قرآن درس کے پہلے ہی دن لٹھ مارنے کے انداز میں یہ کہہ دیا کہ فلاں فلاں لوگو! تم شرک کا ارتکاب کررہے ہو اور اے فلاں فلاں لوگو! تم بدعت کا ارتکاب کررہے ہو اور تم ایسے ہو اور ویسے ہو، تو اس سے نہ صرف ایک شدید ردِ عمل پیدا ہوگا ، بل کہ اس کے امکانات بہت کم زورہوجائیںگے کہ آپ کا مخاطب آپ کے پیغام سے کوئی مثبت اثرلے۔
اس اندازِ بیان سے مضبوط گروہ بندیاں تو جنم لے سکتی ہیں،لیکن کوئی مثبت نتیجہ نکلنا دشوار ہے اس طرزِ گفتگو سے آپ کے اور مخاطب کے درمیان تعصب کی ایک دیوار حائل ہوجاتی ہے ، لیکن اگر آپ صرف قرآنِ مجید کی تعلیم بیان کرنے پر اکتفا کریں کہ قرآنِ مجید کی تعلیم یہ ہے ، اس میں یہ حکمت ہے اور اس تعلیم کا تقاضا یہ ہے کہ فلاں فلاں قسم کے کام نہ کیے جائیں، تو اگرفوری طور پر نہیں تو آگے چل کر ایک نہ ایک دن قرآنِ مجید کا طالب علم آپ کی دعوت کو قبول کرلیتا ہے اور قرآنِ مجید کے مطابق آہستہ آہستہ اس کے غلط طور طریقے اور فاسد عمل درست ہوتے چلے جاتے ہیں ۔(محاضرات قرآن ص:۳۲-۳۴)
یہ وہ مقاصد ِنزول قرآن تھے جو بنیادی حیثیت کے حامل ہیں ۔ اب ہمارے زمانہ میں چوں کہ معاشرہ دین سے کافی دور ہوچکا ہے؛ لہٰذا مزید تین مقاصد کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہیں :
مغربی تہذیب کے زد میںآئی قومِ مسلم کے لیے مزید مقاصدِ قرآن:
۱-سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم سب ایک ایسے فکری اور تعلیمی ماحول میں جی رہے ہیں، جس پر مغربی افکار، تمدن اورثقافت کا حملہ روز بروز شدید سے شدید تر ہوتا چلا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کے خیالات اور طرزِ معاشرت پر مغرب کی اتنی گہری چھاپ پڑ چکی ہے کہ درسِ قرآن میں اس کا نوٹس نہ لینا حقیقت کے انکار کے مترادف ہے ۔ مغربی افکار کا اتنا گہرا اثر مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں پر چھا گیا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے لیے اسلام کے عقائد اور تعلیمات میں جو چیز بالکل بدیہی ہونی چاہیے تھی وہ اب بدیہی نہیںرہی ، بل کہ محض ایک نظری اورخیالی چیز بن کر رہ گئی ہے ۔ ایسے لوگ بھی ناپید نہیں ہیں ،جن کے لیے اسلامی عقائد واحکام میں سے بہت سے پہلو نظری سے بھی بڑھ کر ایک مشکوک چیز بن گئے ہیں نعوذ باللہ ! اس لیے جب بھی ایک دینی ذہن کی تشکیل کا سوال پیدا ہوگا تو یہ بات ناگزیر ہوگی کہ عقیدہ اورفکرکی اس کم زوری کو پیشِ نظر رکھا جائے ۔ آج مغربی افکار سے متاثر لوگوں کے دلوں اور ذہنوں سے مغرب کے منفی اثرات کو دھونا اوراس کے دھبوں کو مٹاکر صاف کرنا اوروہ قلب و بصیرت پیدا کرنا جو قرآنِ مجید کا مقصود ہے ایک بہت بڑے چیلنج کے طور پر ہم سب کے سامنے ہے ۔
قرآن سے دوری کی وجہ اسلامی معاشرے کا عصرِحاضر میں فقدان:
افسوس کہ اس وقت کہیں بھی کوئی مثالی اسلامی معاشرہ موجود نہیں ۔اس وقت ہم کسی مثالی مسلم معاشرہ میں نہیں رہتے ، ہمارا معاشرہ بعض اعتبار سے مسلم معاشرہ نہیں رہا ، اگر چہ بعض اعتبار سے یہ اب بھی ایک مسلم معاشرہ ہے ؛لیکن بعض اعتبار سے ہمارے اس معاشرہ میںبہت سی خامیاں پیدا ہوگئی ہیں ۔ غیر اسلامی قوتوں نے ہمارے معاشرے ،ہماری ثقافتِ زندگی؛ حتی کہ ہماری عائلی زندگی میں اس طرح مداخلت کر لی ہے کہ جگہ جگہ نہ صرف بہت سی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں ،بل کہ کئی جگہ فکری ، ثقافتی اورتمدنی خلا پیدا ہوگیا ہے اس خلا کو پر کرنا اور ایک مکمل متکامل اور متناسق اسلامی نقطہ نظر کی تشکیل کرنا ہم سب کا مشترکہ فریضہ ہے ۔
مغربی افکار اور نظریات کے منفی حملہ کا سدِ باب صرف اسی وقت کیا جا سکے گا، جب ایک مکمل متکامل اور متناسق اسلامی متبادل پیش کردیا جائے گا ۔ متبادل اسلامی فکر کی عدمِ موجود گی میں محض مواعظ اورتقریروں سے اس سیلاب کے آگے بند نہیں باندھا جاسکتا ۔(محاضرات قرآن ص: ۳۶-۳۷)
تمام فکری الجھنوں کا حل قرآن میں موجود ہے:
یہ بھی یاد رکھیے کہ جس انسان کی جوفکری سطح ہوتی ہے اسی سطح کے لحاظ سے اس کی فکری الجھن بھی ہوتی ہے،اس طرح کی ہر فکری الجھن کا حل قرآن پاک میں موجود ہے ۔کوئی فکری الجھن انسان کی ایسی نہیں ہے چاہے وہ کسی بھی سطح کی ہو، جس کا حل قرآن پاک میں موجودنہ ہو ؛لیکن جیسے ایک ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونے والے پیغام کو آپ کا‘ ٹرانسسٹر اس وقت تک گرفت میں نہیں لا سکتا ،جب تک وہ اسی سطح (فریکونسی ) پرکام نہ کررہا ہو ، جس سطح پر پیغام کی لہریں نشر کی جارہی ہیں ۔ جو تعلق آپ اورآپ کے مخاطب میں ہے یہ وہ تعلق ہے، جو ریڈیو اسٹیشن اور آپ کے ٹرانسٹر میں ہے ۔ آپ کے پاس قرآنِ مجید کا علم موجود ہے، آپ اس کو ریڈیو اسٹیشن سمجھ لیجیے ۔ آپ کا جو مخاطب ہے وہ گویا ریڈیو سیٹ ہے ؛جب تک دونوں کی برقی لہرایک نہیں ہوگی، اس وقت تک وہ آپ کی طرف سے دی جانے والی رہ نمائی سے استفادہ نہیں کرسکتا ،اس لیے دونوں کا ایک سطح موج(Wave length ) پرہونا ضروری ہے ۔ دونوں ایک زبان اورایک اسلوب میں بات کریںگے تو افہام وتفہیم کا مقصد حاصل ہوگا ۔ یہی مفہوم ہے قرآن مجید کی اِس آیتِ مبارکہ کا؛ جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے: { وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ }اللہ تعالیٰ نے جو رسول بھی بھیجا ہے، وہ اس قوم کی لسان میں بھیجا، لسان میں زبان بھی شامل ہے ،محاورہ اورثقافت بھی شامل ہے ،دلائل اور استدلال کے انداز بھی شامل ہیں ۔(محاضرات قرآن ص:۳۷-۳۸)
قرآن کو سمجھنے کے لیے عقل کے ساتھ ساتھ قلبی اور روحانی صلاحیتوں کو بھی کھپانا ہوگا:
۲- دوسری اہم بات؛ جو خاص طور پر تعلیم یافتہ سامعین کے لیے پیشِ نظر رکھنی چاہیے وہ قرآنِ مجید اوردوسرے علوم وفنون کے مطالعہ میں فرق ملحوظ رکھنا چاہیے ۔جب ہم درس قرآن کا عمل شروع کرتے ہیں، بالخصوص جب وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کے لیے ہو، اس میں ایک بڑی بنیادی شرط قرآنِ پاک کی خصوصی نوعیت اور اس کے مطالعہ کی خصوصی اہمیت کا احساس اور شعور ہے ۔ ہراس کاوش میں جس کا مقصد قرآنِ پاک کی افہام وتفہیم ہو اس میں انسان کی عقلی اور دماغی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اس کی قلبی اور روحانی صلاحیتوں کو بھی پورے طور پر شریک ہونا چاہیے ؛جب تک قاری پورا کا پورا قرآن کی گہرائیوں میں ڈوب کر اس کے موتی نہیں رولے گا اس کے ہاتھ حکمتِ قرآن کا بہت تھوڑا سا ہی حصہ آئے گا ۔ یہ وہ فرق ہے جوقرآن ِمجید کے افہام وتفہیم کو دوسری ہر قسم کی علمی کاوش سے ممیز کرتاہے ۔
آپ فلسفے کے طلبہ ہوں یا اکنامکس کے ، سائنس کے طلبہ ہوں یا ٹیکنالوجی کے ،ان میں سے ہر علمی سرگرمی کا خالص علمی یا عقلی مقصد ہوسکتا ہے ۔ یعنی علمی سرگرمی بذ۱ت خود مطلوب ہوتی ہے ۔ قرآن پاک کا مطالعہ اس طرح کی مجرد علمی سرگرمی نہیں ہے ،یہ کوئی علمی چاٹ یا علمی چٹنی نہیں ہے، جسے انسان کبھی کبھار مزے یا چٹخارے کی خاطر پڑھ لیا کرے ؛جیسے وہ ادب پڑھتا ہے مثلاً:’’ دیوانِ غالب‘‘ کا مطالعہ کرتا ہے ۔ نعوذ باللہ قرآنِ مجید اس قسم کی کتاب نہیں ہے ،یہ کتابِ الٰہی ہے اس کی فہم کے تقاضے کچھ اور ہیں ۔ یقینا اس کے مطالعہ اورفہم کے لیے فکر کی بھی ضرورت ہے ، عقل بھی در کار اور غور وخوض کی بھی ضرورت ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ درکار ہیں ۔ اگر یہ محض عقلی سرگرمی ہوتی ، یا محض کوئی ایسی علمی سرگرمی ہوتی ، جیسی عام تعلیمی اداروں میں ہوتی ہے تو پھر قرآنِ مجید اپنے بارے میں یہ نہ کہتا کہ{ یضل بہ کثیرا ویہدی بہ کثیرا }بعض اوقات اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیتا ہے ،جب کہ بہت سے لوگوںکواس کے ذریعہ سے ہدایت عطا فرماتا ہے ۔ گمراہی کے راستہ پر ہمیشہ وہ لوگ رہتے ہیں، جو اسے کسبِ فیض کے لیے نہیں بل کہ کسی مادی مفاد یا محض علمی مشغلہ کے لیے پڑھتے ہیں ۔ اور جن کی نظرمیں دیوانِ غالب اور قرآن ِمجید نعوذ باللہ برابر ہیں کہ اپنی دـل چسپی کی خاطر کبھی کوئی کتاب اٹھاکر پڑھتا ہے اور کبھی کوئی ۔
اگر قرآنِ مجید کو اسی انداز سے پڑھا گیا تو گمراہی کا راستہ کھلے گا ۔ ہدایت کا راستہ کھلنے کے لیے ضروری ہے کہ پڑھنے والا ایک قلبی اورروحانی تعلق قرآن مجید کے ساتھ قائم کرے اور جب تک قاری اس گہرائی کے ساتھ کتاب اللہ سے ربط نہیں کرے گا کہ اسے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھنا ہے اور سمجھنے کے بعد اس پر عمل کرنا ہے ، اس وقت تک قرآنِ مجید اپنے دروازے کسی پروا نہیں کرتا ۔غالباً یہی وہ چیز ہے جس کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے اس شعر میں :
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف
ٌقرآن سے دلچسپی کا علامہ اقبالؒ کا قصہ:
ان کا قصہ یہ ہے کہ علامہ اقبال ؒ کے والد ایک بزرگ اور صوفی مزاج شخص تھے ۔ ان کے بارے میں علامہ ؒ نے لکھا ہے کہ نوجوانی کے زمانے میں میرا معمول تھا کہ فجر کی نماز کے بعد روزانہ قرآنِ مجید کی تلاوت کیا کرتا تھا ،ایک روز تلاوت میں مشغول تھا کہ میرے والد برابر سے گزرے اورفرمانے لگے کہ کیا کررہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ قرآن مجید کی تلاوت کررہا ہوں ،وہ یہ سن کر خاموش ہو کر چلے گئے ۔ اگلے روز پھر ایسا ہی ہوا کہ میں تلاوت کررہاتھا تو گزرتے ہوئے پوچھا کیا کررہے ہو؟ میں نے پھرو ہی جواب دیا کہ جی تلاوت کررہا ہوں اس طرح کئی دن تک پوچھتے رہے ۔ آخرایک دن اقبال نے عرض کیا کہ آپ روزانہ پوچھتے ہیں ، جب کہ آپ خود دیکھتے ہیں کہ میں قرآنِ مجید کی تلاوت کررہا ہوں ؟ انہوں نے فرمایا : دیکھو جب تم کلام پاک پڑھا کرو تو شعور اور احساس کے ساتھ پڑھا کرو کہ اللہ تعالیٰ خود براہِ راست تم ہی سے ہم کلام اور تم ہی سے مخاطب ہے ؛جب تم یہ سمجھ کر پڑھو گے تو اس تلاوتِ قرآن کا جو اثر ہوگا وہ عام مطالعہ سے پیدا نہیں ہو سکتا ۔
قرآن مجید کے کتابِ ہدایت ہونے پر کامل ایمان ضروری ہے :
بس یہی فرق ہے قرآن ِپاک کے مطالعہ میں اور ایک عام کتاب کے مطالعہ میں ۔ کوئی عام کتاب جو اعلیٰ سے اعلیٰ انداز کی ہو اور اونچی سطح کی ہو، اس میں اللہ تعالیٰ آپ سے مخاطب نہیں ہوتا۔توجب قرآنِ مجید کا مطالعہ یہ سوچ کر کریںگے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو میرے ہی لیے اتارا ہے اور مجھے ہی اس میں خطاب کیا ہے تو پھر خود بہ خود اس کا اثر دل کی گہرائیوں میں میں اترتا جائے گا ۔ یہ کیفیت صرف اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے، جب قرآنِ مجید کے کتابِ ہدایت ہونے پر کاملِ ایمان ہو، بل کہ یہ چیز ایمانِ کا مل بھی پیدا کرتا ہے ؛جتنا روحانی تعلق کے ساتھ اور قلب کی گہرائی کے ساتھ پڑھنے والا اس کو پڑھے گا اتنا ہی اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا اور جتنا ایمان پختہ ہوتا چلا جائے گا اتنی ہی اس کتاب سے اس کا وجود، اس کی فکر اوراس کا نظریہ ہم آہنگ ہوتا چلا جائے گا ۔
قرآن کی عظمت کا احساس پیدا کرنا بھی ضروری ہے :
تیسری شرط جو لازمی ہے وہ یہ کہ درسِ قرآن کے ذریعہ سے قرآن مجید کی عظمت کا احساس پیدا کیا جائے ؛جب تک قرآن کے قاری کے دل میں اس کتاب کی عظمت کا احساس پیدا نہیںہوگا ، اس وقت تک قاری نہ اس کتاب کے رنگ میں رنگا جاسکتاہے ، نہ اس کتاب کے سانچے میں ڈھل سکتا ہے ۔(محاضرات قرآن ص: ۳۸-۴۰)
ارشاد خداوندی:{ لو انزلنا ہذا القرآن علی جبل لرأیتہ خاشعا متصدعا من خشیۃ اللّٰہ }
کہ یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل ہوجاتا توتم دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت سے وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا ۔
اس آیت سے قرآنِ مجید کی عظمت کا عمومی اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ یہ کتنی عظیم الشان کتاب ہے؛ شرط یہی ہے کہ پوری کوشش،پختہ ارادے اورعزم کے ساتھ کتاب ِالٰہی سے رجوع کیا جائے تو پھر دیکھیے اس کتاب کے دروازے اور کھڑ کیاں کس طرح ایک ایک کرکے کھلنے شروع ہوجاتے ہیں ۔
فہم ِقرآن کے تمام وسائل استعمال کیے جائیں:
آخری چیز یہ کہ جتنے وسائل بھی ہمیں حاصل ہیں، ان سب کو قرآ نِ مجید کے سمجھنے اور اس کا عمیق فہم حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے ،جو وسائل ہمیں دست یاب ہیں ان کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ان میں سے دو تو اللہ تعالیٰ نے خود ہمارے اندر رکھ دیے ہیں ۔ ایک تو یہ ظاہری حواسِ خمسہ ہیں جو قرآنِ پاک کو سمجھنے اور یاد کرنے کے کام آتے ہیں ۔ ان پانچ میں سے دو یعنی قوتِ سامعہ اورقوتِ باصرہ کا حفظِ قرآن اورفہمِ قرآن سے خصوصی رشتہ ہے ،ان میں بھی قوتِ سامعہ زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ یہ بات یا د رکھیے گا کہ انسان کے پاس سماعت کی حس سب سے زیادہ تیز ہوتی ہے ۔ چیزوں کو یاد رکھنے میں یہی حس سب سے زیادہ اس کے کام آتی ہے ۔ سن کر جو چیز یاد ہوتی ہے چیزوں کو یاد کرنے کے مقابلے میں زیادہ دیر پا ہوتی ہے ؛اس لیے قرآنِ مجید کے پڑھنے پڑھانے اور حفظ کرنے میں قوتِ سماعت سے زیادہ کام لینا چاہیے ۔
آج کل تو ریکارڈنگ کا ذریعہ بہت آسان اورہر جگہ دست یاب ہوگیا ہے، ایک چیز کو پانچ دس مرتبہ سن لیں تو وہ آپ کو پچھتر فیصد یاد ہوجائے گی ،یا کم از کم اس کے اہم مندرجات ضروریاد ہوجائیںگے ؛اس کے برعکس اگر دس مرتبہ خود پڑھیں گے جب بھی وہ چیز اتنی یاد نہیں ہوگی جتنی چار پانچ مرتبہ سن کر یاد ہوجائے گی ۔
یہ تو ظاہری حواس ہیں ،جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں ۔ علاوہ ازیں پانچ حواسِ باطنی بھی مرحمت فرمائے ہیں ۔ انسان کی یاد داشت ہے ، سوچنے کی صلاحیت ہے ، وجدان اورحس مشترک وغیرہ ہیں۔ یہ باطنی حواس ہیں، جن سے کام لے کر ظاہری حواس سے حاصل کیے ہوئے علم کو محفوظ کیاجاسکتا ہے ۔ یہ تمام وسائل دنیا کے ہرانسان کو میسر ہیں ،وسائل کی تیسری قسم مادی وسائل کی ہے ،جو بہ قدرِ ضرورت ہر انسان کو ملتی ہے ؛جس کے پاس جتنے وسائل موجود ہیں ان کو اس راہ میں استعمال کرنے کا وہ اتنا ہی مکلف ہے ۔ درسِ قرآن میں بھی تدریس قرآن میں بھی ، مطالعۂ قرآن میں بھی اور تعلیمِ قرآن میں بھی ۔
طلب کاذوق پیدا کریں:
لیکن جب تک ذوقِ طلب نہ پیدا ہو انسان ان تمام وسائل کو استعمال کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ۔ بعض اوقات آپ نے دیکھا ہوگا کہ سننے والے آپ کے درس میں بیٹھے ہیں ۔بہ ظاہران کی نگاہیںآپ کے اوپرہیں،لیکن ان کے کان کہیںاورہیں،ان کاجسم تویہاںہے، لیکن ان کا دماغ کسی دوسری جگہ مصروفِ عمل ہے۔ پورا درس سننے کے بعد بھی ان کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ کہنے والے نے کیا کہا ہے اور سننے والوں نے کیا سنا ہے؛ اس لیے کہ وہاں ذوقِ طلب ہی نہیں تھا ۔ اگرذوقِ طلب ہوتو تمام حواسِ خمسہ ٔباطنی ایک جگہ مجتمع ہوکر ایک ہی نشست میں انسان کو وہ کچھ سکھا دیتے ہیں جو دوسری صورت میں دس نشستوں میں بھی نہیں سیکھا جاسکتا ،اس کے لیے ذوقِ طلب کی ضرورت ہے ، ہر مسلمان کے پاس ذوقِ طلب ہونا بے حد ضروری ہے ۔
علامہ اقبال ؒ نے فرمایا:
صاحب قرآن وبے ذوق طلب
العجب ثم العجب ثم العجب
(محاضرات قرآنی ص:۴۰-۴۲)
امت کو قرآن کریم کے ساتھ مربوط کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے :
امت کو قرآن سے مربوط کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ احقر نے اسی کے مقاصد نزول کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیاہے ۔ آئیے اب عظمتِ قرآن اور حقوق ِقرآن کو ذکرکرتے ہیں اور آخر میں قرآن سے آپ اپنے کو کس طرح مربوط کریں اور اپنا محاسبہ روزانہ کیسے کریں کہ آپ قرآن کے حقوق ادا کرتے ہیںیا نہیں اس کے لیے ایک جدول دیا جائے گا ،جس میں روزانہ آپ سونے سے پہلے اپنا محاسبہ کرسکے گیں کہ آپ نے آج کتنے حقوق ادا کیے اور کتنے چھوڑ دیے۔
قرآنِ کریم انسانیت کے لیے آبِ حیات :
{کتاب انزلناہ الیک } یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ، {لتخرج الناس من الظلمٰت الی النور }تاکہ آپ انسانوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں ۔قرآن مجید انسانوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے والی ، بھٹکے ہوؤں کو سیدھا راستہ دکھانے والی ، قعر مذلت میں پڑے ہو ؤں کو اوجِ ثریا پر پہنچانے والی اور اللہ سے پچھڑے ہوؤں کو اللہ سے ملانے والی کتاب ہے ۔ قرآن مجید کا پیغام انسانیت کے لیے منشور ِحیات ،دستورِ حیات ، ضابطۂ حیات ، بل کہ پوری انسانیت کے لیے آبِ حیات ہے ۔ یہ اللہ رب العزت کا کلام ہے ۔ حدیثِ مبارکہ ہے : ’’ تبرک بالقرآن فانہ کلام اللہ وخرج منہ ‘‘ قرآن پاک سے برکت حاصل کرو کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس سے صادر ہوا ہے ۔
عبادت ہی عبادت :
قرآنِ مجید ایسی کتاب ہے ،جس کا دیکھنا بھی عبادت ، اس کا چھونا بھی عبادت، اس کا پڑھنا بھی عبادت، اس کا پڑھانا بھی عبادت، اس کا سننا بھی عبادت ، اس کا سنانا بھی عبادت ، اس کا سمجھنا بھی عبادت ، اس کا حفظ کرنا بھی بہت بڑی عبادت ہے ۔ اس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنا دنیا کی سب سے بڑی عبادت ہے ۔
ٌقرآن اللہ کی رحمت کو مقناطیس کی طرح کھینچتا ہے:
آپ نے دنیا میں مقناطیس دیکھے ہوںگے ،جو لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآنِ مجید اللہ رب العزت کی رحمتوں کی طرف کھینچنے کا مقناطیس ہے {واذا قرئ القرآن }اور جب قرآن پڑھا جائے {فاستمعوا لہ وانصتوا } اس کو توجہ کے ساتھ سنو اور خاموش رہو {لعلکم ترحمون } تا کہ تم پر رحمتیں برسائی جائیں ۔ گویا جس محفل میں قرآن پڑھا، سنایا بیان کیا جائے اس محفل پر اللہ رب العزت کی رحمتیں برساکرتی ہیں ،گویا رحمت الٰہی کی برسات شر وع ہوجاتی ہے ۔
دل کا برتن سیدھا کرلیں اور پھر قرآن کی طرف متوجہ ہوں:
جب آپ اپنے دلوں کے برتن کو سیدھا کرکے بیٹھیںگے، تب اللہ تعالیٰ کی رحمتیں طلب گاربن کرپائیںگے ۔ بارش کتنی ہی موسلا دھار کیوں نہ ہو ، اگر کوئی برتن ہی الٹا پڑا ہو تو اس کے اندر ایک بوند بھی پانی نہیں آتا ،یہ بارش کا قصور نہیں ہوتا؛ بل کہ اس برتن کا قصور ہوتا ہے ، جس کا رخ الٹا ہوتا ہے ، فرمایا :{إن فی ذلک لذکریٰ} (اس قرآن میں نصیحت ہے اس کے لیے) { لمن کان لہ قلب}( جس کے اندر دل ہوتا ہے) اور جس کے اندر دل کے بجائے ’’سل‘‘ (پتھر) ہو ، پھر کیا مزہ ؟ {او القی السمع } (ہمہ تن گوش ہوکر بیٹھے ) {وہو شہید} (اور حاضر باش ہوکر بیٹھے ) یوں طلب گار بن کر بیٹھے گا، تو اللہ رب العزت کی رحمتوں سے اپنا دامن بھر لے گا ۔
قرآن مجید پڑھنے کی لذت :
دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں، جس کے حافظ دنیا میں موجود ہوں۔ یہ فقط قرآنِ عظیم الشان ہی کا مقام ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کا یاد کرنا اپنے بندوں کے لیے آسان بنادیا ہے ۔ سبحان اللہ ! اس کتاب کو پڑھنے کی بھی عجیب لذت ہے کہ دنیا میں کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں ہے کہ جس کو پڑھنے والے ایسے مختلف انداز سے پڑھتے ہوں جس طرح کہ یہ کتاب پڑھی جاتی ہے ۔ یہ پڑھنے والوں کا کمال نہیں ہے، بل کہ یہ اس کتاب کا کمال ہے جو مختلف انداز میں پڑھی جاتی ہے ،یہ چھوٹے چھوٹے بچے کبھی کسی روایت میں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور کبھی کسی روایت میں پڑھ رہے ہوتے ہیں ۔
کمال اس کمال والے کا جس نے اپنے کلام کو بندوں کے لیے آسان کردیا:
اگر یہ بندوں کا کمال ہے تو یہی قرا حضرات دنیا کی کسی دوسری کتاب کو اس طرح پڑھ کردکھادیں تو پھر جانیں ! معلوم ہوا کہ یہ کمال ان کا نہیں ہے؛ بل کہ یہ کمال اس کمال والے کا ہے ،جس نے اپنی کتاب کا پڑھنا آسان بنا دیا ہے ۔
زندہ لوگوں کا شہر :
ایک وقت وہ بھی تھا جب اس قرآن مجید کو تہجد کے وقت پڑھا جاتا تھا۔ مدینہ کی گلیوں میں سے اگر تہجد کے وقت کوئی آدمی چلتا تو ہر گھر سے تہجد میں قرآن پڑھنے کی یوں آواز آرہی ہوتی تھی؛ جیسا کہ شہد کی مکھیوں کے بھنبھنانے کی آواز ہوتی ہے ،وہ زندہ لوگوں کا شہر تھا ،خاموش بستی نہیںتھی۔
آج ہمارا حال نہ فجر ،نہ تلاوت ! !اللہ رحم فرمائے۔
ضمیر مردہ ہوچکے ہیں(کہ جب مانگنے کا وقت ہوتا ہے تو ہم غافل ہوتے ہیں) :
اور اگر آج رات کی آخری پہر میں ہم گلی کوچے بازار سے گزریں تو یوں خاموشی ہوتی ہے جیسے انسانیت اپنے کندھے پر اپنے ضمیر کی لاش کو لیے دفنا نے جارہی ہو۔ساری قوم سوئی ہوتی ہے ، رات دو بجے تک ادھر ادھر کے فضول کاموں میں مشغول رہیںگے اورجب مانگنے کا وقت آئے گا تو اس وقت گھوڑے بیچ کر اورلمبی تان کرسوجائیںگے ۔
قرآن مجید سننے کے لیے فرشتوں کا نزول :
حضرت اسید ابن حضیر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کے اندر تہجد میں قرآن مجید پڑھ رہے تھے ۔ طبیعت ایسی مچل رہی تھی کہ جی چاہتا تھا کہ ذرا جہر (اونچی آواز ) سے پڑھیں، مگر قریب ہی ایک گھوڑا بندھا ہوا تھا اور چار پائی پر بچہ لیٹا ہو ا تھا ، محسوس کیا کہ جب اونچا پڑھتا ہوں تو گھوڑا بدکتا ہے، لہٰذا دل میں خوف پیدا ہوا کہ گھوڑابچے کو نقصان نہ پہنچا دے ، پھر آہستہ پڑھنا شروع کردیتے ، ساری رات یہی معاملہ ہوتا رہا ؛جب تہجد مکمل کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو کیا دیکھتے ہیںکہ کچھ ستاروں کی مانند روشنیاں ہیں جو اُن کے سر کے اوپر آسمان کی طرف واپس جارہی ہیں، یہ ان روشنیوں کو دیکھ کر حیران ہوئے ۔
صبح ہوئی تو وہ صحابی ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ؛عرض کیا کہ اے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے رات کو تہجد اس انداز سے پڑھی کہ بچے کے خوف کی وجہ سے آہستہ پڑھتا اور جی چاہتا تھا کہ ذرا آواز سے پڑھوں، مگر دعا کے وقت میں نے کچھ روشنیاں آسمان کی طرف جاتے دیکھی ،اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ وہ ربِ کریم کے فرشتے تھے ،جو تمہارا قرآن سننے کے لیے آسمانوں کے نیچے اتر آئے تھے، اگرتم اونچی آواز سے قرآن پڑھتے رہتے تو آج مدینہ کے لوگ اپنی آنکھوں سے فرشتوں کو دیکھ لیتے ۔اللہ اکبر!!
حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کا قرآن پڑھنا :
ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے ،تہجد کا وقت تھا ، ایک طرف دیکھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نوافل پڑھ رہے ہیں اورآہستہ قرآن مجید پڑھ رہے ہیں اوردوسری طرف حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ ذرا جہر (اونچی آواز ) سے قرآن مجید پڑھ رہے ہیں ۔ تہجد میں دونوں طرح پڑھنے کی اجازت ہے ، جب دونوں غلام پڑھ چکے تو حاضرِ خدمت ہوئے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ابو بکر! تم آہستہ کیوں پڑھ رہے تھے ؟ عرض کیااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! میں اس ذات کو قرآن سنا رہا تھا جو سینوں کے بھید بھی جانتاہے، مجھے بھلا اونچا پڑھنے کی کیاضرورت تھی ؟ پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ سے پوچھا ،عمر ! تم اونچا کیوں پڑھ رہے تھے ؟ عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! میںسوئے ہوؤں کو جگا رہا تھااور شیطان کو بھگا رہا تھا ، سبحان اللہ ! قرآنِ مجید پڑھا جاتا تھا اورشیطان ان جگہوں سے بھاگ جایا کرتا تھا ،اللہ رب العزت کی رحمتیں ہوتی تھیں،آج بھی اگر کوئی انسان اس قرآن کومحبت سے پڑھے گا، تو اللہ رب العزت کی رحمتیں اتریںگی اوراس کی برکت سے سینے روشن ہوجائیںگے ؛اسی لیے فرمایا : {لتخرج الناس من الظلمٰت الی النور } کہ یہ قرآن انسانوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے ۔
خلوص ہوتو ایسا :
ایک مرتبہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے ،اس وقت حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ قرآن مجید پڑھ رہے تھے ، آپ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں استاذ اورقاری کی حیثیت سے مشہور تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قریب سے گزرے اورکھڑے ہوگئے ، جب انہوں نے دیکھا کہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں تو وہ بھی خاموش ہوگئے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے ابنِ کعب قرآن پڑھو ! عرض کیا ، اے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ آپ پر نازل ہوا ہے ، میں آپ کے سامنے کیسے پڑھوں ؟ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں مجھے اسی طرح حکم دیا گیا ہے ، وہ بھی رمز شناس تھے ، فوراً پہچان گئے کہ اوپر سے اشارہ ہوا ہے؛ چناں چہ پوچھا ! اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’ ئَ اللّٰہ سمّاني ‘‘ (کیا اللہ رب العزت نے میرا نام لے کر کہا ہے ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ نعم ! اللّٰہ سماک ‘‘ ہاں اللہ رب العزت نے تیرا نام لے کر کہا ہے کہ ابنِ کعب سے کہو کہ قرآن پڑھے ، میرے محبوب ! آپ بھی سنیںگے اورمیں پرور دگار بھی سنوں گا ۔ وہ کتنے خلوص کے ساتھ قرآن پڑھتے ہوںگے کہ جن سے قرآن سننے کی فرمائشیں ربِ رحمن کی طرف سے آیا کرتی تھیں ۔
ایک عجیب شکوہ :
سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ سردیوں کی لمبی رات میں تہجد کے وقت دو رکعت نفل کی نیت باندھی ،طبیعت میںکچھ ایسا جذب ، سوز اور کیف تھا کہ جی چاہتا تھا کہ پڑھتی رہوں، پڑھتی رہوں، ایک ایک آیت کو مزے لے کر پڑھتی رہوں؛انہوں نے خوب قرآن پڑھا ، سلام پھیرا تو کیا دیکھتی ہیں کہ صبح صادق قریب ہے ، دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں اور رونے بیٹھ گئیںاور کہنے لگیں اے اللہ ! میں نے تو دو رکعت کی ہی نیت باندھی تھی تیری رات بھی کتنی چھوٹی ہے کہ دو رکعت میں تیری رات مکمل ہوگئی؛ انہیں راتوں کے چھوٹا ہونے کا شکوہ ہوا کرتا تھا، کیوں کہ جب وہ قرآن پڑھتی تھی تو ان کو قرآن پاک کی لذت آیا کرتی تھی ۔
قرآن سے لگا ؤ کا ایک عجیب واقعہ:
ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے واپس تشر یف لارہے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور ارشاد فرما یا کہ دوآدمی رات کو پہرہ دیں تاکہ بقیہ لوگ آرام کی نیند سوسکیں ۔ دوصحابہ کرامؓ نے اپنے آپ کو اس خدمت کے لیے پیش کیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر مایا کہ اس پہاڑکی چوٹی پر چلے جاؤ اور دشمن کا خیا ل رکھو ،ایسا نہ ہو کہ دشمن شبِ خون مارے اور لوگو ں کو نقصان پہنچائے ۔ وہ دونو ںصحابہ ؓ پہاڑ کی چوٹی پر چلے گئے تھوڑی دیر کے بعد آ پس میں مشورہ کیا کہ اگر دونوں جاگتے رہے توممکن ہے کہ آخری پہر میں دونوں کو نیند آجائے ،تو بہتر یہ ہے کہ ایک بندہ ابھی سو جائے اور دوسرا جاگتا رہے ،بعد میں دو سرا جاگ جائے اور پہلاسو جائے ۔
اس طرح فرضِ منصبی بھی پورا ہو جائے گا اور وقت بھی اچھا گزرجائے گا ؛چناںچہ ان میں سے ایک سو گئے اور دوسرے جاگتے رہے ،جو صحابیؓ جا گ رہے تھے انہوں نے سوچاکہ میں خاموشی سے فقط ادھر ادھر دیکھ رہا ہوں کتنا ہی اچھا ہو کہ میں دورکعت ہی پڑ ھ لوں ؛چناںچہ دورکعت کی نیت باندھی اورسور ۂ کہف پڑ ھنا شروع کردی ،سورۂ کہف پڑھنے میں کچھ ایسا مزہ آیا کہ پڑھتے ہی رہے ؛اسی اثنا میں دشمن ادھر آنکلا ،اس نے دیکھا کہ لشکر تو سویا ہواہے ،قریب کوئی ایسا تو نہیں جو پہرے میں ہو ،اس نے اوپر پہاڑ کی چوٹی پر دیکھا تو ایک آدمی کھڑا نظر آیا، اس نے دور ہی سے ایک تیر مارا جواُن کے جسم پر لگااور خون نکل آیا ، مگروہ سورۂ کہف پڑھتے رہے ، دوسرا تیر مارا تو خون دوسری جگہ سے نکل آیا مگر پھر بھی قرآن پڑھتے رہے ، اس طرح کئی تیر ان کے جسم میں لگے اور خون نکلتا رہا ۔ خون نکلنے سے وضو ٹوٹنے کا مسئلہ اس وقت تک واضح نہیں ہوا تھا ، وہ قرآ ن پڑھتے رہے پڑھتے رہے حتی کہ محسوس ہوا کہ جسم سے اتنا خون نکل چکا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کمزوری کی وجہ سے بے ہوش ہوکر گرجائوں ، اگر گر گیا تو پھر میرے بھائی کو کون جگائے گا اور لشکر کی حفاظت کون کرے گا؟ یہ تو ذمہ داری میں کوتاہی ہوگی ، لہٰذا جلد سے سلام پھیرا اور بھائی کو جگایا اور کہنے لگے کہ دشمن تیروں پرتیر مارتا رہتا تو میں ان کو کھاتا رہتا مگر سورۂ کہف کو مکمل کیے بغیر میں کبھی سلام نہ پھیرتا ، مجھے قرآن کے پڑھنے میں یوں مزہ آرہا تھا ۔
ہماراحال یہ ہے کہ ہمارے اوپر مکھی بھی آکر بیٹھتی ہے تو ہماری نماز کی کیفیت بدل جاتی ہے ،ایک مچھر آکر ہماری نماز کے خشوع کو ختم کردیتا ہے ، مگر ان لوگوں کو تیروں پر تیر لگتے تھے اور ان کی نمازوںمیں خلل نہیں آتا تھا ۔
تلاوتِ قرآن کے وقت صحابہؓ کی کیفیت :
آج ہم جس طرح آئس کریم کھاتے ہیں تو ہمیں ہر چمچ کے کھانے پر مزہ آتا ہے؛بالکل اسی طرح اللہ والے جب قرآن مجید پڑھتے ہیں تو ان کو بھی ہر ہر آیت کے پڑھنے میں مزہ آتا ہے ،جب وہ قرآن سنتے ہیں تو ان کی کیفیت بدل جاتی ہے ، اسی لیے فرمایا : {واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تریٰ اعینہم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق } وہ قرآن سنتے تھے تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں دواں ہوجاتے تھے {یقولون }وہ کہا کرتے تھے {ربنا اٰمنا }اے پرور دگار ! ہم ایمان لائے {فاکتبنا مع الشٰہدین} اے اللہ ! ہمیں گواہی دینے والوں میںسے لکھ لے ۔{وما لنا لا نومن باللہ وما جاء نا من الحق ونطمع ان یدخلنا ربنا مع القوم الصٰلحین }سبحان اللہ ! جب وہ قرآن پڑھتے سنتے ہوئے یوں دعائیں مانگتے تھے تو رب کریم کی طرف سے فرمان آتا تھا {فاثابہم اللہ بما قالوا } وہ جو کچھ اللہ سے مانگتے تھے تو رب کریم ان کو وہ تمام کچھ عطا فرمادیتے تھے ۔
قرآن مجید سے عشق :
ہر دور اور ہر زمانے میں اس قرآن سے عشق کرنے والے گزرے ہیں ۔ دنیا میں کوئی دوسری ایسی کتاب نہیں جس سے اس قدر محبت کی گئی ہو،جتنی قرآن سے محبت کی گئی ۔ اسے تنہائیوں میں پڑھا گیا ، محفلوں میں پڑھا گیا ، رات کے اندھیروں میں پڑھا گیا ، دن کے اجالے میں پڑھا گیا ، تحت اللفظ پڑھا گیا ، بلند آواز سے اورآہستہ پڑھا گیا ، اسے پڑھ کر رویاگیا ، اس کے ایک ایک لفظ پر محنت کی گئی ، ایک ایک لفظ کو حفظ کیاگیا ، ایک ایک لفظ کے معنی کو سمجھا گیا ، اس سے محبت کرنے والوں نے اپنی پوری پوری زندگی قرآن کی خدمت کرتے کرتے گزار دی اور بالآخر یہ کہتے ہوئے گئے ، اے اللہ! تو ہمیں اگر عمر ِنوح عطا کردیتا تو ہم پوری زندگی اس قرآن کو پڑھنے پڑھانے میں گزار دیتے ، بھلا دنیا میںکوئی ایسی اور کتاب ہے، جس سے انسان نے یوں محبت کی ہو؟!!
(قرآن عظیم الشان : ص ۶۹-۷۸)
نسخۂ کیمیا :
ہم سے پہلے والوں کو بھی اسی قرآن کی وجہ سے عزتیں نصیب ہوئیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا سے یہی تو لے کر آئے تھے ۔شاعراسلام الطاف حسین حالیؔ نے کہا ؎
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور ایک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی
وہ نسخۂ کیمیا قرآن ہی تو تھا ،جس نے عرب کی زمین ہلا کر رکھ دی تھی ۔
صحابۂ کرام ؓ کا قرآ ن پر عمل :
صحابۂ کرام ؓ اسی قرآن کو سینے سے لگا کر نکلے تھے اور جدھر بھی ان کے قدم پڑتے تھے کامیابی ان کے قدم چومتی تھی ۔ یہ قرآن ہی کی برکت ہے کہ افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والے درندوں نے صحابۂ کرام ؓ کے لیے جنگل خالی کردیے ، یہ قرآن ہی کی برکت ہے کہ دشت وصحرا بھی صحابۂ کرام ؓ کے لیے ان کے مشن کی تکمیل میں رکاوٹ نہ بن سکے ۔ کہنے والے نے کہا ؎
بات کیا تھی کہ نہ قیصر وکسریٰ سے دبے
چند وہ لوگ کہ اونٹوں کے چرانے والے
جن کافور پہ ہوتا تھا نمک کا دھوکا
بن گئے دنیا کی تقدیر بدلنے والے
دنیا کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا تھا ۔ وہ قرآن پڑھتے تھے تو اس پر عمل بھی کرتے تھے ۔ اِدھر قرآن مکمل ہوتا تھا اوراُدھر ان کا عمل قرآن کے مطابق ہوجایا کرتا تھا ۔ وہ صرف حافظ ِقرآن اورقاریٔ قرآن نہ تھے، بل کہ عامل ِقرآن ، ناشر ِقرآن اور عاشق ِقرآن ہوا کرتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عزت افزائی :
صحابۂ کرام ؓ میںسے کتنے حضرات ایسے تھے، جن کو قرآن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے وہ شرف عطا فرمایا جو ان کو پہلے حاصل نہیں تھا۔ حضرت عمر ؓ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میںایک لشکر کے ساتھ کسی راستے میں جاتے ہوئے پہاڑی کے دامن میں رک گئے ،گرمی کا موسم تھا ، لوگوں کو پسینہ آچکا تھا اورسخت تنگی کے عالم میں تھے ؛چوں کہ امیر المومنین کھڑے تھے، اس لیے ساری فوج بھی ساتھ ہی انتظار میںکھڑی تھی ۔ امیر المومنین نیچے وادی کو دیکھ رہے تھے ، قریب والے آدمی نے پوچھا کہ امیر المومنین ! کیا ہوا کہ آپ یہاں کھڑے کچھ دیکھ رہے ہیں ، آپ کی وجہ سے سارا لشکر کھڑا ہے ، حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ میں اس وادی میںلڑکپن میں اسلام لانے سے پہلے اپنے اونٹ چرانے کے لیے آتا تھا، لیکن مجھے اونٹ چرانے کا سلیقہ نہیں آتا تھا،میرے اونٹ خالی پیٹ گھر جاتے تو میرا والد خطاب مجھے مارتا تھا، مجھے کوستا تھا، عمر! تو بھی کیا کام یاب زندگی گزارے گا ، تجھے تو اونٹ چرانے کا سلیقہ نہیں آتا ۔ میں اپنے اس وقت کو یاد کررہا ہوں، جب عمر کو اونٹ چرانا نہیںآتا تھا اور آج اس وقت کو دیکھ رہا ہوں، جب قرآن اوراسلام کے صدقے اللہ نے عمر کو امیر المومنین بنادیا ہے ۔ فرماتے تھے ’’ اعزنا اللہ تعالیٰ بہٰذا الدین‘‘ (اللہ تعالیٰ نے اس دین کی برکت سے عزتیں عطا فرمائیں ۔ )
محترم قارئین ! اس قرآن کو پڑھیے! اس کو یاد کیجیے! اور اس کو زندگی میں لاگو کیجیے!اسے پڑھنا ایک کام ہے پورا کام نہیں، اس پر عمل کرنے سے کام مکمل ہوتا ہے ۔ ہمیں عاملِ قرآن بھی بننا ہے ، اس قرآن کے عاشق بن جائیے ، دعا کیا کیجیے کہ رب ِکریم ! قرآن کو ہمارے سینوں کی بہار بنادے ۔ (قرآن عظیم الشان : ص ۸۳-۸۵)
قرآن ِمجید سے ہمارا عبرت انگیز سلوک :
جب ہماری زندگی میں قرآن ِمجید کے ساتھ ایسا عملی تعلق پیدا ہوجائے گا، تو اللہ تعالیٰ ہمیں بھی عزتیں عطا فرمائیںگے ۔ عزیز طلبا ! آپ تو اپنی زندگیا ں قرآن کے لیے وقف کرچکے ہیں ، عوام الناس کی حالت جاکر دیکھو رونا آتا ہے ،گھروں کے اندر قرآن کو ریشمی غلافوں میں رکھ دیتے ہیں، مگر ان کو پڑھنے کی فرصت نہیں ہوتی؛ آج کل گھر وں کے اندر ٹی وی روزانہ آن کیا جاتا ہے، ڈرامے روزانہ دیکھے جاتے ہیں ، روزانہ گھنٹوں پروگرام دیکھے جاتے ہیں ، اخبارات کی ورق گردانی روزانہ کی جاتی ہے ، ڈائجسٹ روزانہ پڑھا جاتا ہے ، مگر ان گھروں میں مہینوںگزر جاتے ہیں کہ کوئی بندہ بھی اللہ کا قرآن پڑھنے والا نہیں ہوتا ۔سارے کے سارے قرآن سے غافل بن کر زندگی گزارتے ہیں ، ان کو قرآن کب یاد آتا ہے ؟ جب بہو بیٹی کو جہیز میں دینا ہویا پھر اس وقت یاد آتا ہے، جب قسم کھا کر کسی کو یقین دہانی کرانا ہو، آگے پیچھے یاد نہیںآتا ۔
اے کاش ! یہ قرآن ہمیں آج کی زندگی میں یاد آتا ۔ ہمیں اپنے بزنس کے وقت، دفتر کی کرسی پر ، قلم سے دستخط کرتے ہوئے اورمیاں بیوی کے معاملات میں قرآن یاد آتا ۔
غلبہ کیسے ممکن ہے ؟
جب قرآن نازل ہورہا تھا اس وقت دشمن ایک دوسرے کو بیٹھ کر تلقین کرتے تھے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس وقت تم شور غل مچایا کرو{لعلکم تغلبون} (تاکہ تم غالب آجاؤ) مگر قرآن نے بتادیا کہ غلبہ اس طرح نہیں ملتا ۔ غالب ہونے کے لیے تو قرآن کو بھیجا گیا ، جو لوگ اس کے مطابق اپنی زندگی گزاریںگے ،ربِ کریم انہیں دنیا میں بھی غلبہ عطا فرمائیںگے اور آخر ت کی عزتیں بھی عطافرمائیںگے ؛کیوںکہ یہ کتاب صداقتوں کا مجموعہ ، حقیقتوں کا خزانہ اور سچائیوں سے بھری ہوئی کتاب ہے ۔ جسے Ultimat realities of universe یعنی کائنات کی صداقتیں کہتے ہیں ۔
صحابۂ کرام ؓ کو جو غلبہ ملا اسی قرآ ن کے صدقے ملا ؛رنہ ابتدا میں تو وہ وقت تھا جب کفار کثرت میں تھے اورصحابۂ کرام ؓ بہت تھوڑے تھے ،اس وقت کنڈی لگاکر ایک دوسرے کو کلمے کی تعلیم دیا کرتے تھے ۔ رب کریم اپنا احسان جتلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ {واذکروا} تم یاد کرو اس وقت کو {اذ انتم قلیل} جب تم تھوڑے تھے {مستضعفون فی الارض } زمین میں کم زور تھے {تخافون} تم ڈرتے رہتے تھے {ان یتخطفکم الناس}کہ کہیں لوگ تمہیں اچک نہ لیں {فاٰوٰکم } اس اللہ نے تمہیں ٹھکانہ دیا {وایدکم بنصرہٖ} اوراپنی مدد سے تمہیں مضبوط کیا {ورزقکم من الطیبات }اور خدا نے تمہیں پاکیزہ رزق دیا {لعلکم تشکرون } تاکہ تم اپنے پرور دگار کا شکر ادا کرو ۔
اعلانِ خداوندی :
کفار تو چاہتے تھے کہ کسی طرح اس پودے کو کاٹ کر رکھ دیں ، مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : {ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق } یہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو نورِ ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا {لیظہر ھ علی الدین کلہ } تاکہ یہ دین دنیا کے تمام ادیان پر غالب آجائے ۔{ولو کرہ المشرکون}خواہ یہ بات مشرکوں کو اچھی نہ لگے {ولو کرہ الکفرون } خواہ کافروں کو یہ بات اچھی نہ لگے، اس لیے اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے فرمارہے ہیں کہ تم کفار سے نہیں ڈرنا اللہ تعالیٰ کفار کے مذموم عزائم سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں{یریدون } وہ یہ ارادہ کرتے ہیں {لیطفئوا نور اللہ بافواہہم } کہ اللہ کے نور کو پھونکوں سے بجھادیں ، مگر اللہ تعالیٰ بھی فرماتے ہیں کہ {واللّٰہ متم نورہ } اللہ نے اس نور کو کامل کرنا ہے { ولو کرہ الکٰفرون} اگر چہ کافروں کو یہ بات اچھی نہ ـلگے ۔
جس نور کو اللہ تعالیٰ روشن فرمائیں دنیا اس کو اپنی پھونکوں سے کیسے بجھا سکتی ہے ؎
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
کفار کی لاحاصل تدبیریں:
کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بڑی تدبیریں کیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردیں؛ جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں { واذ یمکر بک الذین کفر وا}اے محبوب ! جب آپ کے ساتھ کفار نے مکر کیا کہ ہر قبیلے کا ایک آدمی آجائے ، رات کو گھیرا کرلیںگے ، صبح جب نماز کے لیے جائیںگے تو ہم ان کو شہید کردیںگے ۔ کفار کی تدبیر بھی کوئی معمولی باتیں نہیں ہوتی تھیں، وہ بڑے ذہین لوگ تھے ، بیٹھ کر پکی منصوبہ بندی کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : {وان کان مکرہم لتزول منہ الجبال} وہ ایسی تدبیریں کرتے تھے کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جاتے ، مگر فرمایا {ومکر اولٰئک ہو یبور} اللہ تعالیٰ ان کی تدبیروں کو ضائع کردیا کرتے تھے ۔
اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہیں ۔فرمایا:{قد مکر الذین من قبلہم } میرے محبوب ! انہوں نے آپ سے پہلے والوں کے ساتھ بھی تدبیریں کیں {فاتی اللہ بنیانہم من القواعد } لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دیواروں کو بنیاد وں سے ہی اکھاڑ پھینکا {فخر علیہم السقف من فوقہم} ان کی چھتیں ان پر آ گریں {و اتٰہم العذاب } ان پر ایسا عذاب آیا {من حیث لا یشعرون}جس کا وہ شعور بھی نہیں رکھتے تھے ۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ{واذ یمکر بک الذین کفروا } جب آپ کے ساتھ ان کافروں نے تدبیر کی {لیثبتوک} کہ آپ کو حبس بیجا میں رکھیں {اویقتلوک} یا آپ کو شہید کریں {او یخرجوک} یا آپ کو دیس نکالا دے دیں {ویمکرون } انہوں نے بھی تدبیریں کیں {ویمکر اللہ} اور اللہ نے بھی تدبیریں کیں{واللہ خیر الماکرین } اللہ تعالیٰ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار سے کیسے بچالیا ؟
امت اگر قرآن کو سینے سے لگالے گی تو اللہ ہمارے سارے مسائل حل کردیںگے :
میرے دوستو! ہم قرآن کو سینے سے لگائیں گے ، کافر اگر پھر بھی ہمارے خلاف تدبیریں کریںگے تو پرور دگار ان کی تدبیروں کو ضائع کردیںگے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں {فلا تہنوا } تم سست نہ بنو{ولاتحزنوا} اورتم اپنے اندر غم بھی پیدانہ کرو {وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین} تم ہی اعلیٰ وبالا رہوگے اگر تم ایمان والے ہوگے ؎
مومن کے ساتھ غلبے کا وعدہ ہے قرآن میں
تو مومن ہے اور غالب نہیں تو نقص ہے ایمان میں
یہ ہمارے ایمان کا نقص ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے ہم دنیا میں مغلوب ہوکر زندگی گزار تے ہیں ؛ورنہ ربِ کریم تو ہمیں غلبہ عطا کرنا چاہتے ہیں ۔
کفار کی مایوسی :
جس دن قرآن کی آخری آیتیں اتریں {الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً} اسی دن قرآن کی یہ آیتیں بھی اتریں {الیوم یئس الذین کفروا من دینکم } آج کے دن یہ کفار تمہارے دین سے مایوس ہوچکے ہیں ،ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ یہ مسلمان تو لوہے کے چنے ہیں انہیں چبانا کوئی آسان کام نہیں ہے ، ان کی امیدیں ٹوٹ چکی ہیں ، وہ تم سے مایوس ہوچکے ہیں ، آگے فرمایا {فلا تخشوہم } تمہیں ان سے نہیں ڈرنا ہے {واخشونی } ایک مجھ سے ڈرتے رہنا ۔ اور جب تک ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیںگے رب کریم ہماری مدد فرماتے رہیںگے ۔
اللہ تعالیٰ کی مدد کا آسان طریقہ :
یاد رکھیں کہ جس پلڑے میں اللہ تعالیٰ کی مدد کا وزن آجاتا ہے وہ پلڑا ساری کائنات سے زیادہ بھاری ہوجاتا ہے ۔ رب کریم فرماتے ہیں:{کم من فئۃ قلیلۃ } کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک تھوڑی جماعت {غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ } ایک بڑی جماعت پر غالب آگئی اللہ کے حکم سے {واللہ مع الصابرین} اللہ تعالیٰ تو صبر وضبط والوں کے ساتھ ہے ؛اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یوں بنے گا کہ کتنی بار ایسا ہوا کہ اللہ نے چڑیوں سے باز مروادیے ، لہٰذا اگرہم کفار کو اس وقت قوی اورکثیر دیکھتے ہیں،تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ قرآن کو سینوں سے لگا لیجیے ، قرآن کے مطابق زندگی کو ڈھال لیجیے ، ربِ کریم بدر والی مدد فرمادیںگے ۔
فضائے بدرپیداکر،فرشتے تیری نصرت کو
اترسکتے ہیںگردوںسے قطاراندقطاراب بھی
رب کریم نے فرمایا {لقد نصرکم اللہ فی مواطن کثیرۃ }،{لقد نصرکم اللہ ببدرو انتم اذلۃ} اللہ تعالیٰ ہماری مدد ونصرت کا وعدہ فرمارہے ہیں ، مزید فرمایا {انا لننصر رسلنا }اپنے رسولوں کی مدد کرنا ہمارے ذمہ ہے {والذین اٰمنوا} اورایمان والوں کی بھی {فی الحیوۃ الدنیا} اس دنیا کی زندگی میںبھی {ویوم یقوم الاشہاد} اوراس دن بھی جس دن گواہیاں قائم ہوںگی۔ جب اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی مدد اپنے ذمے لے رہے ہیں ، تو ہمیں پھر گھبرانے کی ضرورت نہیںہے ۔
اتنی بڑی گارنٹی :
عزیز قارئین ! ہم اپنے دشمنوں کو نہیں پہچانتے ؛لیکن رب کریم فرماتے ہیں کہ{ واللہ اعلم باعدائکم } اے ایمان والو! تم اپنے دشمنوں کو نہیں جانتے ، تمہاری صفوں میں منافق بھی ہوںگے اور بھیس بدل کر آنے والے جاسوس بھی ہوںگے ؛تمہیں کیا معلوم کہ جس سے تم بات کررہے ہو وہ تمہارا دوست ہے یا دشمن ! مگر تمہارا رب جانتا ہے ، وہ تو دلوں کے بھید کو بھی جانتا ہے ۔ جب ہمارا پرور دگار ہمارے دشمنوں کو جانتا ہے تو یاد رکھنا {ولن یجعل اللہ للکٰفرین علی المومنین سبیلا }کہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی کافروں کو ایمان والوں تک آنے کا راستہ نہیں دے گا ۔ رب کریم نے کتنی بڑی گارنٹی دے دی ۔ اللہ تعالیٰ ان کے راستے میں رکاوٹ بن جائے گا ، جیسے ہم ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ارے! تم میرے دوست تک جاؤگے تو میری لاش سے گزر کر جاؤگے ، بالکل یہی مضمون ربِ کائنات بیان فرمارہے ہیں کہ اے مومنو! جو تم تک آئے گا وہ پہلے مجھ سے نمٹے گا پھر تم تک آئے گا ۔ اور جو مجھ سے ٹکراتا ہے میں اسے پاش پاش کردیتا ہوں ، میں اسے تگنی کا ناچ نچادوںگا ، میں اسے نیست نابود کردوںگا ۔
جنگِ خندق میں نصرت خداوندی :
جنگ خندق میں جب مکہ سے لے کر مدینہ تک کے راستے کے جتنے کفار تھے سارے کے سارے مل کر آگئے تھے،اس وقت مسلمان تھوڑے اور کافر بہت زیادہ تھے ؛وہ کہتے تھے کہ ہم تو مسلمانوں کو ختم کرکے رکھ دیں گے ۔ ایک مہینہ تک محاصرہ قائم رہا ، مگران کے پلے کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ پرور دگار عالم فرماتے ہیں {ورد اللہ الذین کفروا بغیظہم} اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ان کے غیض و غضب (غصہ ) کے ساتھ واپس لوٹا دیا {لم ینالوا خیرا} ان کے پلے کوئی خیر نہ آئی ۔ حقیقت یہ تھی کہ ہمارے سلف صالحین صحابہ کرام ؓ کا یہ تقویٰ اورپرہیز گاری تھی کہ جس کی وجہ سے ان پر کفار غالب نہ آسکے ۔ (قرآن عظیم الشان : ص ۸۹-۹۶)
قرآن ہمارے ہاتھ میں ہو اور ہم پریشان رہیں یہ ناممکن ہے :
(ایک بزرگ کا ارشادہے)تیرے ہاتھ میں ہوقرآن تو دنیا میں رہے پریشان ، تو دنیا میں رہے ناکام ، تو دنیا میں رہے غلام ، غلامی نفس کی ہو ، شیطان کی ہویا کسی انسان کی ہو، ناں ناں ناں …ہمیں کہتا ہے قرآن …اے میرے ماننے والے مسلمان { اقرأ و ربک الاکرم } تو پڑھ قرآن ،تیرا رب کرے گا تیرا اکرام ، تیرا رب تجھے عزت ووقار دے گا اورظاہر وباطن کو نکھاردے گا ۔ مگر ہماری حالت اس قدر قابل رحم ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن کہیں گے {وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مہجورا }اے میرے پرور دگار ! بے شک میری قوم نے قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا تھا ؛لہٰذا آج سے ہی قرآن سے محبت کرلیجیے ، اس سے اپنے روحانی امراض کو ٹھیک کرلیجیے۔
نسخۂ شفا :
غور تو کیجیے کہ نسخۂ شفا بھی ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہمارے ہی سینے میں بیماریاں بھی موجود ہیں ،کچھ کینہ کی ، بغض و حسد اورکبرکی ؛جب قرآن سینوں میں آجائے گا تو یہ ساری کی ساری روحانی بیماریاں ختم ہو جائیں گی ۔ نسخہ بھی ہمارے ہاتھ میں ہے اور غفلت کی موت مرتے بھی ہم ہی ہیں ۔ کیا آج کے مسلمان کو کوئی سمجھانے والا نہیں کہ تم اس نسخے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟ ارے یہ نسخۂ شفا ہے، جو اللہ نے تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے ۔ آئیے! قرآن سے پوچھیں کہ تم کیسے شفا دیتے ہو؟ قرآن بتائے گا :
{ویشف صدور قوم مؤمنین ، شفاء لما فی الصدور وہدی و رحمۃ للمؤمنین ، وننزل من القرآن ما ہو شفاء ورحمۃ للمؤمنین ولا یزید الظٰلمین الا خسارا ، قل ہو للذین اٰمنوا ہدی و شفاء }
یہ نسخۂ شفا ہے جو سینوں کو دھو دیا کرتا ہے ، مگر اس صابن کو استعمال تو کرو ، یہ میل صاف ہو جائے گا، یہ سینے دھل جائیںگے ، مگر دل کو اجلا بنانے کے لیے قرآن کو زبان سے نیچے اتارنا ہوگا ، فقط زبان تک نہ رکھنا ، اسے دل تک اتار لینا ، یہ دل تک اتر گیا تو پھر دل کو نورانی بنادے گا ۔
ربِ کریم ہمیں قرآن ِپاک کا حافظ بنادے ، عالم بنادے ، ناشر بنادے ، عاشق بنادے ، قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار بنادے ۔ آمین! (قرآن عظیم الشان : ص ۹۶-۹۷)
آداب ِتعظیم قرآن :
وہ تمام اشیا جو اللہ کی عظمت کے نشان، اس کی معرفت کے عنوان اوراس کے تقرب کی علامت ہوں وہ شعائر اللہ ہیں، وہ واجب التعظیم ہیں، مثلاً منبر و محراب ، کعبہ ومسجد ، اذان ، نماز ، قربانی اور قرآن وغیرہ یہ سب اللہ کے دین کے نشان اوراس کے پتے کے عنوان ہیں لہٰذا یہ واجب التعظیم ہیں ۔
{ومن یعظم شعائر اللہ فانہا من تقوی القلوب }
’’ جو شعائر اللہ کی تعظیم کرتا ہے ،پس بے شک یہ دل کا تقویٰ ہے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : {ومن یعظم حرمت اللہ فہو خیر لہ عند ربہ } ’’ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے محترم احکام کی تعظیم کرے گا پس یہ اس کے حق میں اس کے رب کے نزدیک بہتر ہے ۔‘‘
آداب تعظیم :
أ قرآن کو اللہ کا کلام ماننا اور اس پر یقینِ کامل رکھنا۔
أ ا س کی عظمت کے باعث اس کو پڑھنا اور تلاوت کرنا۔
أ سمجھ کر پڑھنا اور اس پر اخلاص سے عمل کرنا۔
أ دوسروں کو پڑھانا اور سمجھانا۔
أ دشمن سے حفاظت : کفار کے ہاتھ نہ چھوئیں، ا ن کے علاقوں میں اس کو نہ لائیں ( جہاں توہین کا خطرہ ہو) مبادا وہ اس کی بے ادبی کریں جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ (عن ابن عمرؓ)
أ قرآن کا چھونا :قرآن کے چھونے کے لیے طہارت کاملہ شرط ہے ۔ وضو کی حاجت ہو باوضو ہو، غسل کی حاجت ہو تو غسل کرے ۔
{ لایمسہ الا المطہرون } ’’ اس کو نہ چھوئیں مگر پاکباز لوگ ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیم بن حزام ؓ کو یمن بھیجتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ{لا تمس القرآن الا وانت طاہر} ’’ قرآن نہ چھونا مگر پاکی کی حالت میں ۔ ‘‘
أ بلند مقام پررکھنا :امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرآن کے آداب عظمت میںسے ایک یہ ہے کہ بوقت تلاو ت قاری اسے اپنی گود میں رکھے یا سامنے کسی چیز (رحل وغیرہ ) میں رکھے ،زمین پر قرآن نہ رکھے ۔
أ اسی طرح قرآن کو پشت پر (کی طرف) نہ رکھنا چاہیے ، قرآن پر کوئی اور کتاب ، سامان یا دوات وغیرہ نہ رکھے ؛البتہ سفر میں بامر مجبوری تخفیف ہے ۔
أ قرآن کی تعظیم: کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ اسے ایسے کپڑے میں نہ رکھا جائے (غلاف وغیرہ ) جوناپاک ہو، میلا ہو یا کسی ایسی چیز کا بنا ہو جو نجس وناپاک ہو ۔
أ قرآن کو ردی کی ٹوکری میں نہ ڈالا جائے؛ بل کہ اگر یہ کہنہ (پرانا) ہوجائے تو اس کو دفن کیا جائے اور دفن کے وقت مٹی اوراق پر نہ ڈالی جائے؛ بل کہ پہلے پٹھے یا تختیاں (پتھر ) وغیرہ سے ڈھانپا جائے پھر مٹی ڈالی جائے ، اسی طرح جو قرآن اتنا غلط لکھا گیا ہو کہ تصحیح ممکن نہ ہو تو اس کو بھی دفن کیا جائے ۔
أ قرآن کو آلۂ کسب بنانا اوردنیا داری کا دھندا بنانا اس پرعلما نے سخت نکیر کی ہے ۔ (روح المعانی ) جو لوگ تراویح پر اجرت طے کرتے ہیں،تیجہ ،دسواںاور چالیسوا ں جیسی بری رسومات میں قرآن خوانی کے پیسے لیتے اور اس کو مستقل پیشہ بناتے ہیں ان کا یہ عمل قرآن کی عظمت کے خلاف اوراللہ کے غضب کا باعث ہے ۔
(کیا تعلیم قرآن پر اجرت /تنخواہ جائز ہے ؟)
أ اسی طرح قرآن سے فال نکالنا ناجائز ہے جو کہ اس وقت عوام میں مروج ہے ۔ (امداد الفتاویٰ )
أ قرآن کو بوسہ دینا بوجہ تعظیم جائز ہے ضروری نہیں ، حضرت عمر ؓ اور حضرت عکرمہ ؓ کے عمل سے ثابت ہے ۔
أ رکوع ، سجدہ اور تشہد میں ائمۂ اربعہ کے نزدیک قرآن کا پڑھنا مکروہ ہے ۔ ممانعت کی وجہ قرآن کی عظمت ہے ۔(علامہ شامی ؒ)
أ قرآن کی عظمت کے سبب اس کا ایک ادب یہ ہے کہ جہاں لوگ شوروغل کریں، لہوو لعب میں مصروف ہوں اور قرآن پر توجہ نہ دیں تو قرآن کی تلاوت نہ کیاجائے ۔ یہ بے ادبی کا باعث ہوجائے گا ۔ (رد المختار )
(قرآن عظیم الشان : ص ۱۰۱-۱۰۴)
زندگی میں عشق قرآن سے تاثیر قرآن پیدا ہوتی ہے :
آج ہم قرآن مجید کے ساتھ عشق و محبت کا وہ تعلق پیدا کریں ، آج سے پہلے قرآن کی تلاوت میں جتنی سستی اور غفلت ہوئی اس سے سچی توبہ کریں، اس کے بعد اس کوپڑھیں ، سمجھیںاور زندگی میں عمل کریں ، کام یابیاں آپ کے قدم چومیں گی ۔ اللہ دنیا اورآخرت میں بھی عزتیں دیںگے ، جس طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن شفا عت فرمائیںگے ، حدیث پاک کا مفہوم ہے ۔
اللہ کا قرآن بھی شفاعت کرے گا اور اپنے پڑھنے والوں کو جنت میں لے کر جائے گا، اللہ فرمائیںگے اومیرے پڑھنے والے بندے پڑھ قرآن اورجنت میں داخل ہوجا ۔ تو ایک آیت پڑھے گا ایک درجہ بڑھے گا ، جہاں اللہ کا قرآن مکمل ہوگا وہیں جنت میں تیرا مقام ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کی سچی محبت عطا فرمادے ۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ’’ ہم ‘‘ خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
(قرآن عظیم الشان : ص ۳۶۳-۳۶۴)
کلام الٰہی کا سب سے بڑا اثر :
اس کلام کا بڑااثر (Impact ) یہ ہے کہ یہ دنیا میں گرے پڑوں کو اٹھادیتا ہے ۔ یہ اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے والی ، بھولے بھٹکوں کو سیدھا رستہ دکھانے والی ، قعر مذلت میں پڑے ہوؤں کو اپنے اللہ سے ملانے والی کتاب ہے ۔
اس کلام کے ذریعہ سے انسان اپنے پرور دگار کے ساتھ جڑ جاتا ہے ۔ حدیث شریف ہے : ’’ ان اللّٰہ یرفع بہٰذا الکتاب اقواماً ‘‘ اللہ تعالیٰ اس کتا ب کے ذریعہ قوموں کو بلندی عطا فرماتا ہے ۔
یہ ایک انقلابی کتاب ہے جو زندگی میں انقلاب پیدا کردیتی ہے ۔
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اورایک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی
قرآن مجید نے دنیا کو ہلاکر رکھ دیاتھا۔ انسانوں کی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنے والا یہ ایک لا جواب نسخہ ہے ۔ یہ ایسا نسخہ ہے کہ جسے جہلائے مکہ نے استعمال کیا تو عقلائے عالم بن گئے ، پھر وہ جہاں بھی پہنچے ، انہوں نے انقلاب پیدا کردیا ۔ وہاں کی تہذیب پر بھی اثرانداز ہوگئے اور ان کی زبان بھی بدل کے رکھ دی ۔ آج کے دورمیں وہ تمام ممالک؛ جہاں تک صحابہ ؓ پہنچے ، عربی ممالک کہلاتے ہیں اور ان میں سے اکثر کی قومی زبان بھی عربی ہوگئی ہے ۔ (قرآن عظیم الشان : ص ۳۰۲-۳۰۳)
دشت تودشت ہے دریابھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرظلمات میںدوڑادیے گھوڑے ہم نے
قوم ِمسلم کا حال :
جب تک مسلمانوں میں قرآن کی روح رہی وہ بلندوبالا رہے، جس دن یہ روح نکلی، اسی دن سے ذلت کے ساتھ دین سے نکلتے جارہے ہیں۔ ہماری مثال ایسی ہے جیسی گیند ہوتی ہے کہ اگرزمین پر دے کر مار وتو وہ گداکھاکر زمین سے دس گز اوپر جائے گی، اگر سخت ہے تو جتنا زیادہ زور دے کر مارو گے اتنا ہی زیادہ وہ بلندی کی طرف جائے گی ۔ یہ ربڑ کی خاصیت نہیں ہے وہ جو ربڑ نے اپنے اندر ہوا بھر رکھی ہے اس کی یہ خاصیت ہے کہ وہ نیچانہیں دیکھ سکتی ؛زمین پر دے کر ماروگے تواوپر کی طرف جائے گی ، لیکن گیند سے ہو انکال دو تو جس جگہ آ پ ڈال دیں گے وہ وہیں پڑ ی رہے گی ٰ، اس میں اٹھنے کی بھی صلا حیت باقی نہیں رہے گی تواچھلے گی کیا؟
یہی حال مسلم قوم کا ہے کہ جب تک اس میں روحِ قر آ نی ہے، جب تک اس کی عزت وروح ایمانی زندہ رہی ۔ اس کی کیفیت یہ تھی کہ اقوام نے جتنی قوت سے دبانا چاہا اور زمین پر جتنے زور سے مارنا چاہا اتنی ہی یہ اوپر اٹھی، لیکن ہوانکل گئی یہ خالی خول رہ گئی ،تو جس نے جہا ں پٹخ دیا وہیں پڑ ی رہی ،اٹھنے کی سکت نہ رہی ۔ لوگ کہتے اور شکایت کرتے ہیں دنیا کی اقوام کی؛ کہ دوسروں نے ہمیں ختم کر دیا، ہمارے گھرجلا دیئے ، ہم پر ظلم کیا۔ خاص طورپر یہود کے عربوں پر مظالم ، حقیقت یہ ہے کہ ظلم انہوں نے نہیں کیا ۔قصور اپنا ہے تم نے خود اپنے اوپر ظلم کیا۔اگر انہوں نے تم کو جلایاتو میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی مردہ لاش پڑ ی ہوئی ہوتو ہر قوم کا فرض ہے کہ اس کو جلا دے یا دفن کردے ۔ اگر نہ جلا یاجائے یانہ دفن کیا جائے تو تعفن ہو جائے گا اگرمردہ لاشوں کو کسی قوم نے جلا ہی دیایا دریا بردکر دیا تو کیا غلطی کی اس قوم نے ؟
اگر آ پ چاہتے ہیں کہ کوئی آ نکھ بھر کر بھی نہ دیکھے تواپنے اندر وہ روح پیدا کیجیے، جس سے زندگی ملے تو پھر کسی کی مجال نہیں کہ نگاہ بدل سکے ؛لیکن لاشہ بننے کے بعد توہر قوم پر فر ض ہے کہ اسے جلا دے یا دریا میں ڈاـل دے ۔ یہ تو قصور آ پ کاہے اس قصور کو آ پ دور کیجیے اور اپنی اصلاح کیجیے۔ (قرآن کریم کیسے پڑھنا چاہیے : ص ۸۲)
عظمت قرآن پر تفصیلی گفتگو کے بعد اب ہم حقوق القرآن کو مختصراً جانتے ہیں۔
حقوق القرآن :
قرآنِ کریم کے بے شمار حقوق ہیں، ان میں وہ بنیادی حقوق جس کی ادائیگی ہر مسلمان پر فرض ہے یہ ہیں :
(۱) قرآن سے ایمان ویقین کو مضبوط کیا جائے ۔
(۲) قرآن کو تجوید کی رعایت کرتے ہوئے پڑھا جائے ۔
(۳) قرآن کے معانی کو سمجھا جائے ۔
(۴) قرآن کی تعلیمات پر مکمل طور پرعمل کیا جائے ۔
(۵) قرآنِ مجید کی تعلیمات کو پوری بنی نوع انسانی تک پہنچایا جائے ۔
میرے مسلمان بھائیو! اب ذرا ہم محاسبہ کریں کہ کیا ہم قرآن کے حقوق کو ادا کررہے ہیں ؟؟ خدائے پاک کی قسم ہماری اکثریت بل کہ اغلبیت مذکورہ بالا حقوق ِقرآنی سے مکمل طور پر غافل ہے۔
میرے عزیزو! ہمیں قرآن سے مربوط ہوئے بغیر عزت اور رفعت نہیں مل سکتی ۔ تو آئیے! ہم اپنے آپ کو قرآن سے کیسے مربوط کریں اسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
امت محمدیہ قرآن کریم سے کیسے مربوط ہو :
قرآن ِکریم اللہ رب العزت کی مقدس ترین کتاب ہے ،اس کا نزول ایسے دور میں ہوا، جب بشریت اور انسانیت اس کی شدت سے متقاضی تھی؛اس لیے کہ حضرت انسان مکمل طور پر انسانیت کو فراموش کرچکا تھا ۔ قرآنِ کریم نے بد ترین سیاسی ، اخلاقی مذہبی حالات سے نکل کر انسانیت کو ہر میدان میں بامِ عروج پر پہنچایا اور اس قرآن کی برکت سے امتِ مسلمہ نے پوری دنیا پر ایک ہزار سے زیادہ سال تک انتہائی کامیابی وکامرانی کے ساتھ حکمرانی کی۔ جس کی نظیر تاریخِ بشری میں ملنا مشکل ہے ؛مگر جب مسلمان دشمنوں کے دامِ فریب میں پھنس کر قرآن سے دور ہوگیا تو قعرِ مذلت میں جاگرا ۔ اب و ہ اس وقت تک دوبارہ بامِ عروج تک نہیں پہنچ سکتا جب تک دوبارہ قرآن کی طرف کامل رجوع نہیں کرے گا ۔
کہ تعلیمِ قرآن کو تخلیقِ انسانی پر مقدم کیوں کیا ؟
قرآن کیسی مہتم بالشان کتاب ہے اس کا اندازہ آپ سورۂ رحمن کی ابتدائی آیات سے لگاسکتے ہیں ۔ ارشاد خداوندی ہے : {الرحمن علم القرآن ،خلق الانسان } اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعلیمِ قرآن کو تخلیقِ انسانی پر مقدم کیوں کیا ؟ جب کہ ہم دیکھتے ہیں انسان پہلے پیدا ہوتا ہے اور بعد میں قرآن سیکھتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ حضرتِ انسان کو یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اگر تم حقیقی معنی میں انسان بن کر زندگی گزار نا چاہتے ہو ،تو قرآن کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالو ۔جب تک قرآن تمہارے وجود میں پیوست نہیں ہوگا ،تم حقیقی انسان بن ہی نہیں سکتے !! امام بیضاوی ؒ نے ان تینوں آیتوں میں ربط بیان کرتے ہوئے بڑی حیرت انگیز بات لکھی ہے وہ فرماتے ہیں کہ: سورۂ رحمن میں سب سے پہلے ’’الرحمٰن ‘‘ اس لیے ذکرکیا گیاکہ اس میں یہ بتلا یا جارہا ہے کہ یہ کائنات کا پورا نظام جو حیرت انگیز انداز میں چل رہا ہے وہ صرف اور صرف اللہ کی رحمت کے بل پر چل رہا ہے ۔اور کائنات کی تخلیق در اصل حضرتِ انسان کے لیے ہی ہوئی ہے ؛لہٰذا انسان دنیا میں جتنی بھی اور جوبھی نعمتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے وہ سب ’’رحمن ‘‘ کی طرف سے ہے اور رحمن کی انسان کو ملنے والی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت قرآن ہے۔ اس لیے کہ اس میں انفرادی واجتماعی زندگی کے تمام مسائل کاحل موجو دہے ۔ شریعت کا اصل منبا اور مرجع قرآن ہے، انسان کو سب سے موثر نصیحت کرنے والا قرآن ہے ،دنیاکی کتابوں میں سب سے ارفع کتاب قرآن ہے ؛جس نے انسان کو سب سے اہم ترین درس یہ دیا کہ انسان کا امتیازی وصف جس کے سبب وہ دیگر مخلوقات سے ممتاز ہوجاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ علمِ وحی یعنی قرآن کے ذریعہ حق اور شریعت کی معرفت حاصل کرے اور اس کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں بھی جگہ دے اور دوسروں تک بھی اس کو پہنچائے ۔
قرآن کریم نے تمام مسائل اور مشاکل بشری کو ان کے حلول کے ساتھ ذکر کیا ہے
انسان اپنی زندگی میں جتنے مسائل سے دوچار ہوسکتا ہے ، قرآن کریم نے ان تمام مسائل اور مشاکل کو ذکر کیا ہے ۔ اممِ سابقہ کے واقعات کی صورت میں اس کے نمونے بھی پیش کیے ۔ اچھے اور برے دونوں نمونے مکمل احاطے کی ساتھ ذکر کیے ہیں؛ اسی لیے قرآن پرکام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ قرآن نے جن موٹے موٹے موضوعات سے بحث کی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں، تعداد آیات کے ساتھ پیشِ خدمت ہے ۔
عقائد وافکار
۱۷۰۱ ؍ آیات میں ۔
عبادات
۸۰۴؍ آیات میں ۔
اجتماعی وسیاسی مسائل
۸۴۸؍ آیات میں ۔
تہذیب اخلاق
۸۰۳؍ آیات میں ۔
دعوت وتبلیغ
۴۰۰؍ آیات میں ۔
علوم وفنون
۱۳۲۲؍ آیات میں ۔
تاریخ وقصص
۱۷۰۳؍ آیات میں ۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قرآن انسان کی زندگی میںدر پیش جن مسائل کی جتنی اور جیسی ضرورت ہے، اسی اعتبار سے اس کے تمام گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے ۔ مذکورہ تفصیل سے معلوم ہو ا کہ قرآن صرف مسلمان کی نہیں پوری انسانیت کی ضرورت ہے ۔ ارشادِ الٰہی ہے : {یا یہا الناس قد جاء کم موعظۃ من ربکم } اس قرآن کو پوری انسانیت کے لیے سامانِ موعظت بتلایا گیا ۔
قرآنِ کریم نے حضرات ِصحابہؓ اور سلف صالحین کی زندگی میں کیا انقلاب بر پا کیا
قرآنِ کریم نے حضرات ِصحابہؓ اور سلف صالحین کی زندگی میں کیا انقلاب بر پا کیا ،اسے ہم تفصیل کے ساتھ ذکر کرچکے ہیں ؛یہاں پر کند مکرر کے طور پر حضرات صحابہ ؓ کے دو تین قول ذکر کیے جاتے ہیں ۔
اعمش فرماتے ہیں کہ: حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو قرآن کا درس دے رہے تھے، ایک دیہاتی کا گزر ہوا تو دریافت کرنے لگا یہ لوگ کیا کررہے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ لوگ آپس میں میراث ِمحمدی کی تقسیم کررہے ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے شاگردوں کو باربار یہ نصیحت کرتے تھے : ’’ قرآنِ کریم سے ہمیشہ وابستہ رہو ۔ خود بھی اس کو سیکھو اور اپنی اولاد کو بھی سکھانے کا اہتمام کرو ۔ اس لیے کہ کل قیامت کے دن تم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ؛قیامت کے دن اس سے وابستگی پر جو اجر ملے گا تم اس کا اندازہ نہیں لگاسکتے ۔
حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے قرآن سے وابستگی کے بارے میں بڑے وقیع کلمات کہے ۔ فرماتے ہیں کہ: اے مسلمانو! قرآن کی جانب اپنی توجہ مبذول کرو! اس لیے کہ وہ عقل کی غذا اور حکمت کا نور ہے۔ اس سے علوم کے سوتے پھوٹتے ہیں اور قرآنِ کریم انسان کی رہنمائی کے لیے آخری ہدایت نامہ ہے جو بندے کو رحمن سے منسلک ہونے کے سارے راستے اور تدابیر سے واقف کرتا ہے ۔
مذکورہ اقوالِ صحابہ سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ قرآن ِکریم ہی ہمارا سب کچھ ہے ، مگر یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ قرآن و حدیث ، قیاس اور اجماع، فقہ اوراصول فقہ یہ سب بھی قرآن ہی کا حصہ ہیں؛ لہٰذا امت کا ان سب سے منسلک ہونا قرآن سے منسلک ہونے کے مترادف ہے۔
قرآن کی جانب متوجہ ہونے کے لیے تدابیر :
عالم کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ مرض بتاکر امت کو اس کا علاج بھی بتلائے ۔ اب تک ہم نے مقاصد اور عظمتِ قرآن پر تفصیلی گفتگو کی ۔اب امت کے زوال کے اہم ترین سبب ’’ ہجرا لقرآن ‘‘- یعنی امت کا قرآن سے غفلت برتنا – اسے مختصراً ذکر کرکے، قرآن سے وابستہ ہونے کی تدابیر لکھے گیں ۔
ہجر قرآن کی صورتیں :
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جس کو قرآن نے ذکر کیا ہے : {یارب ان قومی اتخذوا ہذا القراٰن مہجورا }(الفرقان : ۳۰)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اے میرے پرور دگار میری قوم نے اس بابرکت قرآن کو چھوڑ دیا ہے ۔‘‘
علما نے ہجرِ قرآن کی ۶؍ صورتیں ذکرکی ہیں ۔
۱- قرآن کی تلاوت کو ترک کرنا ۔
۲- قرآنِ کریم کے سننے کو ترک کرنا ۔
۳- قرآن کے معنی پر تدبر وتفکر ترک کر دینا ۔
۴- قرآن کی تعلیمات پر عمل نہ کرنا ۔
۵- قرآن کے احکامات کے مطابق فیصلے نہ کرنا ۔
۶- قرآن کے ذریعہ تداوی اور علاج نہ کرنا ۔
تلاوت سے اعراض کے اسباب :
آج کا مسلمان تلاوت ِقرآن سے کوسوں دور ہے ۔ اس کے پانچ اسباب ہیں :
۱- تلاوت کے فضائل سے عدم ِواقفیت ۔
۲- دنیا میں پورے طور پر منہمک ہوجانا ۔
۳- تلاوتِ قرآن کا ارادہ اور ہمت نہ کرنا ۔
۴- دیگر علوم کے حصول کو قرآن کے سیکھنے پر ترجیح دینا ۔
۵- اعدائے اسلام کی جانب سے قرآن سے دور کرنے کی سازشوں کا شکار ہوجانا ۔
ہم فتنوں کے دور سے گزر رہے ہیں ،لہٰذا دشمنان ِاسلام کی سازشوں سے واقف ہونا ضروری ہے ۔ دشمنانِ اسلام نے امت کو قرآن سے دور کرنے کے لیے مندرجہ ذیل سازشیں رچی ہیں :
۱- حفاظ اور علما کی اہمیت کواس قدرگھٹا دیا کہ لوگ انہیں حقیر نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔
۲- عربی زبان کی اہمیت کو ختم کرکے ،دیگر اجنبی زبان کو مسلمانوں میں رواج دیا۔ جیسے: انگریزی فرینچ وغیرہ ۔
۳- مسلمانوں کے درمیان ناولوں اور فحش تصاویر پر مبنی میگزین اور کتابوں کو عام کردیا؛ تاکہ اس میں مشغول ہوکر قرآن سے دوررہیں ۔
۴- مختلف فلموں ،سیریلوں اور اسپورٹس کو خوب کوریج دیا تاکہ مسلمان اسی کا ہوکر رہ جائے، اسے قرآن کے لیے وقت ہی نہ ملے ۔
مسلمان معاشرہ اس طرح کی سازشوںکو سمجھے ، ان سے خود بھی بچے ،اپنی اولاد کو بھی بچائے اور قرآن کی طرف متوجہ ہو ؛اسی میں دنیا وآخرت کی کامیابی ہے۔
آئیے !اب قرآن کے ساتھ منسلک ہونے کی تدابیر معلوم کرتے ہیں ۔
آئیے قرآن سے منسلک ہوجاتے ہیں :
امتِ محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیداری اورترقی قرآنہ ہی میں ممکن ہوسکتی ہے ۔ قرآن کے ساتھ منسلک ہونے سے مسلمانوں میں تفکر و تدبر کی صحیح راہیں ہموار ہوںگی ۔ ایمان میں پختگی آئے گی اورپھرعمل کا داعیہ پیدا ہوگا ،جو اسے دوبارہ اس کی گمشدہ عظمت اور وقعت عطا کرے گا ۔ تو آئیے! ہم اپنے آپ کو قرآن سے منسلک کرنے کے مندرجہ ذیل طریقوں کو اختیار کرتے ہیں ۔
۱- تمام مسلمانوں کو یہ عزم کرنا ہوگا کہ وہ قرآن کی دنیا میں اپنے آپ کواس طرح گم کردیں گے جیسے صحابہؓ نے کیا تھا اور جب صحابہ ؓ نے قرآن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تو ان کی زندگیوں میں عظیم انقلابِ خیر برپا ہوا جو راہ زن تھے وہ راہ بر ہوگئے ۔
صحابہ کا قرآن کے ساتھ انہماک کیسا تھا؟ اللہ اکبر! دوتابعی حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے پاس آئے ان کے ہاتھ میں کوئی کتاب تھی ۔کہنے لگے کہ حضرت اس میں بڑی اچھی باتیں ہیں ؟ حضرت عبد اللہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ ۔ اس کے بعد پانی منگوایا اور اس پر ڈال دیا اور کہنے لگے کہ قرآن کے ہوتے ہوئے ہمیں اور کیا چاہیے اور اس پر پانی ڈال کر اسے مٹادیا اور یہ آیت پڑھنے لگے : ’’ نحن نقص علیک احسن القصص بما اوحینا الیک ہذا القراٰن وان کنت من قبلہ لمن الغافلین } یہ تھا ان کا قرآن کے ساتھ شغف ۔ آج ہمارا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہوچکا ہے ۔ ساری دنیا کے ناولوں اورسائنسی کتابوں کے لیے ہمارے پاس وقت ہے ۔ہاں!وقت نہیں ہے توبس قرآن کو پڑھنے اورسمجھنے کے لیے ۔نہایت افسوس کا مقام ہے ؟؟؟!!
۲- قرآن سے تعلق جوڑنے کے لیے دوسرا اہم کام انابت الی اللہ ، اللہ کی طرف متوجہ ہوناہے۔ رورو کر اس سے دعائیں کرنا کہ اے اللہ ! تو مجھے قرآن سے وابستہ کردے ۔
۳- ہر مسلمان اپنے اوپر لازم کرلے کہ روزانہ صبح سویرے وہ قرآن کی تلاوت کا معمول بنائے گا اور کسی بھی صورت اس میں سستی نہیں کرے گا۔
۴- اپنے آپ کو ذکر اللہ کا عادی بنالے۔ خاص طور پر اذکارِ مسنونہ کو برموقع پڑھنے کو لازم کرلے۔ مثلاً :صبح سویرے فجر سے پہلے یا بعد میں صبح کے اذکار اور دعائیں ۔ شام کو شام کی دعائیں ، سوتے وقت، کھاتے وقت ، گھر سے نکلتے وقت ہر وقت کی دعاؤں کو یاد کرلے؛ اس سے بھی توفیق تلاوت ہوگی ۔
۵- علما سے میل جول رکھے ، ان کی مجلسوں میں حاضری دیتا رہے ۔ خاص طور پر مسجد میں ہونے والے دروس اورکتابوں کی تعلیم اور علما کے بیانات میں اہتمام کے ساتھ حاضری دے ۔ اس سے بھی توفیقِ تلاوت میسر آئے گی ۔
۶- اچھے دوستوں کی صحبت اختیار کرے، جو ذکر اللہ اور تلاوت کے عادی ہوں؛تا کہ ان کی صحبت کی برکت سے خود بھی تلاوت کا عادی بن جائے۔
۷- استغفار کی کثرت کرے ۔ اس لیے کہ کثرتِ استغفار سے گناہ معاف ہوتے ہیں اورجب گناہ معاف ہوتے ہیں تو قرآن کی تلاوت کی توفیق میسر آتی ہے ۔
۸- اپنے آپ کو باوضو رکھنے کا عادی بنائے ۔ خاص طور پر جب وضو کرے تو سنت طریقہ کے مطابق کرے ۔ ان شاء اللہ اس سے بھی تلاوت کی توفیق حاصل ہوگی۔
۹- یہ معمول بنالے کہ روزانہ قرآن کا کچھ نہ کچھ حصہ حفظ کرے گا،چاہے ایک ہی آیت کیوں نہ ہو ۔ اس سے بھی قرآن کی عظمت دل میں بیٹھے گی اور تلاوت کی توفیق ہوگی ۔
۱۰- جب مذکورہ اسباب اختیار کرنے سے تلاوت کی توفیق ہونے لگے ،تو غرور سے بچے اور اللہ کا شکر ادا کرتا رہے کہ اس نے توفیق دی تاکہ استمرار رہے ۔
یہ تو وہ تدابیر ذکر کی گئیں جو تلاوت قرآن کے لیے معین اور مددگار ہوتی ہیں ۔
قرآن آپ کی زندگی پر اثر انداز کیسے ہو؟ اسے بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
قرآ ن آپ کی زندگی پر اثر اندازکیسے ہو؟
قرآن ِکریم صرف پڑھنے اور فطرت علمی کو سمجھانے کے لیے نہیں نازل ہوا؛ بل کہ اس کے نزول کا مقصد اس کی تعلیمات پر عمل درآمد ہے ؛ مگر افسوس کہ امت کا بڑا طبقہ اس سے غافل ہے ۔
۱- تلاوت کے اہتمام کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھنے کی کوشش کریں ؛ مگر اس کو سمجھنے میں مندرجہ ذیل امور کا خیال ضرور رکھیں ۔
(الف): قرآن کریم کو کسی معتبر تفسیر کے ساتھ پڑھیں۔ مثلاً: تفسیر ِعثمانی یا تفسیرِ ماجدی یا وقت ہو تو تفسیر ِمعارف القرآن یا انوار القرآن ۔
(ب) : اگر کسی معتبر عالم کی نگرانی میں پڑھیں تو گمراہی سے محفوظ رہیںگے ۔
۲- معتبر علما کے دروسِ قرآنی میں شرکت کریںیا انٹر نیٹ سے اسے حاصل کریں اور سنیں۔
۳- قرآن سے متعلق لکھی گئی معتبر علما کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ مثلاً: مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کی علوم القرآن وغیرہ۔
۴- روزانہ معمول میں شامل کریں کہ کم از کم ایک آیت ہی سہی ضرور سمجھنے کی کوشش کرے گا ؛ مگر اوپر ذکر کیے گئے طریقے کے مطابق ۔
۵- جو کچھ سمجھے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔
۶- جو سمجھے اپنے گھر والوں اور دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کرے۔
اللہ سے دست بہ دعا رہے کہ وہ اسے قرآن کی سمجھ عطا فرمائے ۔
گناہ بکثرت ہوجاتے ہیں تو قرآن کی طرف رغبت نہیں ہوتی
اخیر میں امام ابن تیمیہ کی ایک قیمتی بات پر اپنے موضوع کو سمیٹتا ہوں ۔جب بندے کے گناہ بکثرت ہوجاتے ہیں تو زبان ذکر الٰہی سے محروم کردی جاتی ہے ۔ قلب میں قساوت اور سختی آجاتی ہے ، عملِ صالح بوجھ بن جاتا ہے ،قرآن کی تلاوت کی طرف رغبت نہیں ہوتی ؛غیر اللہ کی یا د میں لطف آتا ہے ،باطل کی طرف میلان ہونے لگتا ہے ،بروں کی صحبت میںبندہ پڑجاتا ہے ،نیک لوگوں سے اسے وحشت ہونے لگتی ہے اور وہ بندہ نفاق کا شکار ہوجاتا ہے ۔
اب اخیر میں ہم ایک جدول بناتے ہیں، جس سے آپ اپنا محاسبہ کرسکیںگے کہ آپ نے قرآن پر کتنا عمل کیا اور کتنا نہیں ۔روزانہ رات میں سونے سے پہلے جدول میں مذکوردسوں کاموں کی خانہ پری کریں اور ہر ماہ اپنا محاسبہ کریں۔ان شاء اللہ ! قرآن سے وابستگی آسان ہوجائے گی ۔ أعاذنا اللّٰہ وإیاکم من النفاق ووفقنا لتلاوۃ کتابہ اٰنا ء اللیل واطراف النہار لعلک ترضی