نا اہلوں کو ذمہ داری سپرد کرنا ایک سنگین خیانت

مفتی محمد یحییٰ نوگانوی/استاذِ ادب وانشاجامعہ اشاعت العلوم اکل کوا

            دین ِاسلام صداقت وامانت کا علمبردار دین ہے؛ بل کہ یوں کہہ لیجیے کہ امانت، دین ِحنیف کا جزوِ لاینفک ہے؛اسی وجہ سے شریعت ِمطہرہ میں امانت کو ایک کلیدی اور مرکزی پہلو کی حیثیت حاصل ہے۔

            لہٰذا اسلام اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر شعبے میں دامنِ امانت کو تھامے رکھنے کی تاکید کرتا اور صفت ِامانت کو اہل ایمان کی نمایاں خصوصیات اور مرکزی اخلاقی محاسن میں سے گردانتا ہے؛جب کہ اس کے برعکس خیانت کو منافقین کی نمایاں علامت شمار کرتا ہے۔

            عموماً ہمارے معاشرے میں (دین کے محدود تصور کی طرح) امانت کا مفہوم بھی مالی امانت کے ساتھ خاص سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کا دائرہٴ کار صرف ودیعت کے طور پر رکھے جانے والے مال کی حفاظت کرنے اور اسے لوٹا دینے تک محدودکرلیا جاتا ہے۔

            جب کہ عربی زبان میں”امانت”کے معنی ہر وہ حق ؛جس کی حفاظت اور ادائیگی انسان پر لازم ہو۔

(مقاییس اللغة)

            شریعت کی نظر میں امانت ایک وسیع المفہوم لفظ ہے ،جس کا حاصل یہ ہے: ہر صاحبِ حق کو اس کا حق پورا پورا ادا کرنا اور اپنی ذمہ داری کو کما حَقُّہ نبھانا۔

            قرآن ِکریم اوراحادیثِ مبارکہ کے ذخیرہ میں لفظ ِامانت کا اطلاق بہت سارے معانی اور ذمہ داریوں پر کیا گیا ہے۔

            چناں چہ فتحِ مکہ کے موقع پر جب حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان بن طلحہ شیبی سے بیت اللہ کی کنجی لے کر بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے اور نماز پڑھ کر باہر آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ِمبارک پر یہ آیت کریمہ جاری تھی:﴿إن اللہ یأمرکم أن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَہلہا﴾(النساء)۔

            جس میں امانتیں ان کے حقداروں تک پہنچانے کا حکم دیاگیا، جس کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبة اللہ کی کنجی عثمان بن طلحہ کے حوالہ کردی۔

(ابن کثیر)

            حضرت مفتی شفیع صاحب برد اللہ مضجعہ” معارف القرآن“ میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں کنجی پر امانت کا اطلاق کیا گیا، جب کہ کنجی کوئی اہم مال نہیں، بل کہ یہ خانہٴ کعبہ کی خدمت کی علامت ہے، جس کا تعلق مال سے نہیں، بل کہ عہد ے سے ہے۔ اسے امانت سے تعبیر کرکے عہدہ اور منصب کو امانت قرار دیا گیا؛ نیز اس آیت میں ”الأَمَانَات“ جمع کا صیغہ استعمال کر کے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ امانت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں؛ جن کی ادائیگی ہر صاحب ایمان پر لازم ہے۔ حاصل یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں کوئی امانت ہو اس پر لازم ہے کہ یہ امانت اس کے اہل و مستحق کو پہنچائے۔

            نیز رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادائے امانت کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بہت کم ایسا ہوا ہوگا کہ رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی خطبہ دیا ہو اور اس میں یہ ارشاد نہ فرمایا ہو: ”لا إیمان لمن لا أمانة لہ، ولا دین لمن لا عہد لہ

(البیہقی فی الشعب)

            یعنی جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔

             اس سے معلوم ہوا کہ تمام عہدے اور مناصب اللہ تعالیٰ کی امانتیں ہیں، جس کے امین وہ ذمہ دار ہیں، جن کے ہاتھ میں عزل و نصب کے اختیارات ہیں۔ ان کے لیے جائز نہیں ہے کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کر دیں ،جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہ ہو؛ بل کہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدہ کے لیے اپنے دائرہ ٴکار میں اس کے مستحق اور اہل کو تلاش کریں۔

(معارف القرآن)

            مسند ِاحمد کی روایت میں جناب نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد موجود ہے: ”جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو، پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کی بنا پر بغیر اہلیت معلوم کیے دے دیا، اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے۔“

(مسند احمد)

            مستدرک حاکم اور طبرانی کی روایت ہے کہ ”جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا، حالاں کہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لیے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول کی اور سارے مسلمانوں کی۔“

 

(مستدرک حاکم)

            صاحب ِمعارف القرآن آگے لکھتے ہیں کہ ”آج جہاں نظامِ حکومت کی ابتری نظر آتی ہے، وہ سب اس قرآنی تعلیم کو نظر انداز کر دینے کا نتیجہ ہے کہ تعلقات ،سفارشوں اور رشوتوں سے عہدے تقسیم کیے جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نااہل اور ناقابل لوگ عہدوں پر قابض ہو کر خلق ِخدا کو پریشان کرتے ہیں اور سارا نظامِ حکومت برباد ہو جاتا ہے۔“

ہمارے معاشرے کی ایک سنگین خیانت:نا اہلوں کو عہدے اورمناصب سپرد کرنا:

            اس وقت ہمارے معاشرے کی قابل ِافسوس صورت ِحال یہ ہے کہ ہر میدان میں نا اہل و ناکارہ اور چاپلوس قسم کے افراد دندناتے ہوئے نظر آرہے ہیں؛ کہیں اقربا پروری اپنا گہرا اثر دکھارہی ہے تو کہیں نفاق اور چاپلوسی کے معجزات ذی استعداد اور حق دار افراد کو اژدہے کی طرح بے رحمی سے نگل رہے ہیں۔

            حکومتی اداروں کے تعلیمی میدانوں میں نا اہل اور ناکارہ لوگوں کی ایک بھیڑ لگی ہوئی ہے،چناں چہ بڑے عہدوں اور مہتم بالشان مناصب کی امید وہی شخص کرسکتا ہے ،جسے ذمہ داروں کا تقرب حاصل ہویا پھر اس کے پاس قارون جیسا خزانہ ہو،جس سے تگڑی رشوت تھما سکے۔

            اس وقت ہمارے معاشرے کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ جو باصلاحیت افراد محنت ومشقت اور جفاکشی کا طویل سفر طے کر کے مطلوبہ لیاقت واستعداد حاصل کرتے ہیں، لیکن انہیں کوئی خاص تقرب حاصل نہیں ہوتا۔ یا تو ان کے پاس رشوت کے لیے تگڑی رقم نہیں ہوتی یاتو وہ تملق و چاپلوسی کے مختلف طرق وفنون میں مہارت نہیں رکھتے،تو عصبیت اور اقربا پروری کے کثیف ملبوں میں دب کر رہ جاتے ہیں؛ چناں چہ معاشرے میں انہیں نہ تو کوئی خاطر خواہ اہمیت ملتی ہے اور نہ ہی وہ کسی اچھے عہدے اور منصب کے لیے لائق ِاعتنا سمجھے جاتے ہیں۔

             موجودہ حالات کا جائز ہ لیں تو معلوم ہوگا کہ نیچے سے لے کر اوپر تک تمام شعبوں میں کہیں رشوت اور سفارش اورکہیں تعلق اورقرابت کی بنیاد پر عہدے اورملازمتیں تقسیم کی جارہی ہیں؛ یہاں تک کہ عصری اداروں اور تعلیم گاہوں میں اساتذہ کے تقرر میں رشوت کالین دین عام ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں یہ تعلیم گاہیں باصلاحیت افراد سے محروم ہیں۔ تقریباً تمام شعبوں کا یہی حال ہے؛ جس کے نتیجے میں معاشرے کا نظام فساد کا شکار ہوگیا ہے اورآج ہر شخص اپنی جگہ بے چین ومضطرب نظر آرہا ہے۔ سرکاری اداروں کے عہدوں اور مناصب پر نااہل اور ناکارہ افراد کا قبضہ ہے؛ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی معیار اسفل السافلین کا دیدار کر رہا ہے، مظلوم عدل وانصاف کی راہ دیکھتے دیکھتے ہر طرح کی امید سے مایوس ہو جاتا ہے۔

            یاد رہے کہ نا اہلوں کو عہدے اور مناصب سپرد کر نا اوربغیر کسی استحقاق کے انہیں مختلف میدانوں میں آگے بڑھانا عظیم خیانت ہے، جس سے گناہ تو ہوتا ہی ہے، خود دنیوی اعتبار سے بھی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس سے مستحقین اور با صلاحیت افراد کے بجائے ایسے ناکارہ اورنا اہل لوگ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں، جن میں کام کی کوئی صلاحیت و اہلیت تونہیں ہوتی،لیکن اُن میں مکاری،دکھاوے اورچاپلوسی کی صفت کوٹ کوٹ کربھری ہوتی ہے۔اس لیے پورا شعبہ انحطاط اور تنزلی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے اور اس کے نقصانات اور برے اثرات کے سبب عام لوگ بھی طرح طرح کی اذیتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔

انسانی آبادی کے بقا وتحفظ کے لیے نبوی قانون:

            نااہلوں کو ذمہ داری سپرد کرنا اور عہدے اور مناصب حوالہ کرنا دنیاوی نظام کو یقینی طور پر فساد وتباہی سے دوچار کردیتا ہے۔

            رہبر ِانسانیت جناب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ِعالی پر غور کیجیے! آپ کا فرمان ہے:

            ”إذا وُسِّدَ الأمر إلی غیر أہلہ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ

(صحیح بخاری:۹۵)

            ”جب تم دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو سپرد کردی گئی ،جو اُن کے اہل اورقابل نہیں تو قیامت کا انتظار کرو۔“

            اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی آبادی کے تحفظ اور معاشرے کی سالمیت وترقی کا ایک بہت ہی اہم قانون بیان فرمایا ہے: یعنی جب نااہل افراد کو کوئی ذمہ داری یا عہدہ اورمنصب سپرد کیا جائے تو فساد یقینی ہے اوراب دنیوی نظام کو فساد سے کوئی نہیں بچا سکتا؛ اس لیے اب قیامت کا انتظار کرو!۔

            اس میں خلافت سے لے کر ایک ادنیٰ ملازمت تک کے سارے مناصب اور عہدے داخل ہیں؛ جس میں مدارس ومساجد، خانقاہوں اور تبلیغی جماعت کے مختلف مناصب اور ذمہ داریاں، نجی کمپنیاں اورعوامی ادارے بھی شامل ہیں۔

            ان تمام میدانوں کے تحفظ وبقا اور ان کے عہدوں اور مناصب کو مفید اور بار آور وبافیض بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جو شخص جس کام کا لائق اوراہل ہو، اسے وہیں رکھا جائے! کسی بھی وجہ سے نا اہل افراد کو فوقیت دینا اور ذمہ داری سپرد کرنا انحطاط اور تباہی کو دعوت دینا ہے؛لہٰذا مساجد کے ذمہ داران کا یہ دینی فریضہ اور ذمہ داری ہے کہ منصب ِامامت وخطابت کے لیے اہلیت اور لیاقت واستعداد کو بنیاد بنائیں!

            اسی طرح ذمہ داران ِمدارس پر یہ واجبِ شرعی ہے کہ اساتذہ کے تقرر، اسباق کی تقسیم، ذمّہ داریوں کی سپردگی اوردیگر امور کے حوالے سے اہل اور مستحق اساتذہ کو آگے بڑھائیں! کسی قسم کی اقربا پروری اور نااہلوں کے تقرب کو معیار بنانے جیسی سنگین خیانت سے احتیاط برتیں!

            یہ سارے امور امانت میں داخل ہیں؛ ان میں کسی بھی قسم کی کوتاہی اور تنازل تعلیمی نظام کی تباہی کا پیش خیمہ اور خیانت کا ایک بڑا دروازہ ہے۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں امانت و دیانت کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے!