تحریر:شفیع احمدقاسمی#اِجرا،مدھوبنی/جامعہ اکل کوا
نام کاکیاکام؟:
اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اِس خوب صورت کائنات کے نقشے پرہمارے معاشرے اورسوسائٹی میں بہت سے لوگ ایسے بھی رہتے اوربستے ہیں کہ اُن سے اگر نام معلوم کیاجائے توبرجستہ جواب دیتے ہیں کہ ارے جناب عالی! ”نام میں کیارکھاہے؟“ یادوسرا جواب ”نام سے کیا کام ہے؟“ایسے حالات کودیکھتے ہوئے کبھی تیسراجواب بھی درمیان میں ٹپک پڑتاہے”تم کونام سے کیا مطلب ہے؟“بس اپنے کام سے رکھوکام۔وہ تومزاحاً ایساکہتے ہیں، لیکن شاید وہ اِس حقیقت کو بھول جاتے ہیں یاجان بوجھ کرتجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں یاپھراپنے بھولے پن کامظاہرہ کرتے ہیں۔(یہ تو خدا جانے یاپھروہی جانیں، ہم کیاجانیں؟)کہ دنیاکایہ دستور حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے ہی تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے کہ کسی بھی گھر اور معاشرے میں بچے کی پیدائش ہوتے ہی اُس کا کوئی خوب صورت اور پیارا سا نام رکھنے کااہتمام کیا جاتا ہے۔ اور دنیاکی ہر قوم اِس اصول پرسختی کے ساتھ کار بند ہے اور الیٰ یوم النشور رہے گی۔کیوں کہ اِس اصول یا حقیقت سے فرار کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا اورنہ ہی ایسا کرنا ممکن ہے۔اِس لیے کہ خود رب قدیر نے اپنی قدرت وحکمت سے جب ابوالبشرحضرت آدم علیہ السلام کوپیدا کیا؛ تو اُن کو تمام چیزوں کے نام بھی سکھائے، جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ﴿ وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَاثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَةِ فَقَالَ اَمنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ ھٰٓوٴُلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ سے ظاہرہوتاہے کہ ابتدائے آفرینش سے ہی ناموں کو اہمیت دی گئی ہے اورہمیشہ دی جاتی رہے گی۔
نام اوراقوامِ عالم:
#یونان میں بچے کی پیدائش کے ساتویں یادسویں دن نام رکھنے کااہتمام کیاجاتاتھا۔اورہرلڑکے کو مذہبی اورقانونی طورپریہ اختیارحاصل تھا کہ سن بلوغ کے بعد؛جب دل چاہے اپنے نام کوتبدیلی کاجامہ پہنادے، لیکن لڑکیوں کوایساکوئی اختیارنہیں تھا۔ لڑکے کوعموماًپہلے دادا کا نام دیا جاتا تھا۔ کنواری لڑکی کو فلاں کی بیٹی،شادی شدہ کو فلاں کی بیوی اوربیوہ کوفلاں کی ماں کہاکرتے تھے۔
#روم میں نویں دن نام رکھ کرشہری باشندوں کی فہرست میں لکھ دیاجاتاتھا۔ایک خاندان یاقبیلہ کے تمام افرادکاایک امتیازی نام ہوتاتھا۔کسی بھی رومن کانام؛تینوں ناموں کے ساتھ ہی مکمل سمجھاجاتاتھا۔اُس کااصلی نام،عرف اورخاندان کاامتیازی نام (No Men’ Praenomen’ Cognomen)کسی بھی لڑکی کے مختصرنام کے ساتھ(اُس کے باپNomenلگادیاجاتااورشادی کے بعدNomenکااضافہ کردیاجاتاتھا۔)
#انگریزناموں میں الفاظ کے آہنگ کابڑاخیال رکھتے۔اُن کے ہاں تین لڑکیاں ہوتی تھیں،تواُن تینوں کے نام ایک ہی حرف سے شروع ہوتے تھے۔
#یہودی لڑکے کاختنہ پیدائش کے آٹھویں دن کرتے اوراُسی دن نام بھی تجویزکرتے۔لڑکی کا نام رکھنے کی رسم ذرادیرسے؛یعنی زچہ کے اٹھ کرعبادت گاہ تک جانے کے قابل ہونے کے بعداداکی جاتی تھی۔پہلے لڑکے کوداداکانام،دوسرے کوناناکااوردیگرکومعززاقارب کانام دیاجاتاتھا۔
#عرب حضرات اپنے ناموں کے ساتھ کنیت کے اضافے کولازم اورضروری سمجھتے ہیں۔ اکثر لوگوں کی شناخت کنیت ہی سے بہترطورپرہواکرتی تھی اورفی الحال بھی یہی حال ہے،اِس کے بغیرزندگی جینامحال ہے۔ مثلاً:ابن مسعود،ابن نفیس، ابوالخیر،بنت مریم،ام ہانی اور ابو عالیہ نازوغیرہ۔ ہرمردوعورت کے لیے؛ کچھ ہویانہ ہو، لیکن کنیت ضرور ہوا کرتی تھی۔اب اِس کارواج آہستہ آہستہ اختتام کی اُورسفرکررہاہے۔
نام رکھنے کی حکمت:
قرآن کریم کے پارہ ۲۶/سورة الحجرات،آیت نمبر۱۳/ میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:﴿ ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّاخَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا﴾
ترجمہ: لوگو! ہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیااورتمھاری قومیں اورقبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کوشناخت کرو۔
یعنی نام کوخالق السمٰوات والارضین کی طرف سے ایک دوسرے کی پہچان اورشناخت کے لیے اُسی طرح ایک آلہ بنایا گیا ہے؛جس طرح بخارکاپتاکرنے کے لیے تھرمامیٹرایجادہواہے۔
مفتی محمدشفیع صاحب (و: ۲۰/ شعبان۱۳۱۴ھ مطابق جنوری ۱۸۹۷ء/م:۱۱/ شوال ۱۳۹۶ھ مطابق۶/ اکتوبر ۱۹۷۶ء)اپنی مایہ نازتفسیر”معارف القرآن“ میں لکھتے ہیں:قرآن کریم نے اس آیت میں واضح کر دیا کہ حق تعالیٰ نے اگرچہ سب انسانوں کوایک باپ اورماں سے پیداکرکے سب کوبھائی بھائی بنایاہے۔مگرپھر بھی اُس کی تقسیم مختلف قوموں اورقبیلوں میں،جوحق تعالیٰ نے خود ہی فرمائی ہے،اُس میں حکمت یہ ہے کہ لوگوں کاتعارف اور شناخت آسان ہوجائے۔مثلاً:ایک نام کے دوشخص ہیں،توخاندان کے تفاوت سے اُن میں امتیاز ہو سکتاہے۔ اور اُس سے دوراورقریب کے رشتوں کاعلم ہوسکتاہے۔اورنسبی قرب وبُعدکی مقدارپراُن کے حقوقِ شرعیہ ادا کیے جاتے ہیں۔ عصبات کاقرب وبُعدمعلو م ہوتاہے،جس کی ضرورت تقسیم میراث میں پیش آتی ہے۔ (ج۸/ ص ۱۲۵)
کیانام ہے آپ کا؟:
اِس خوب صورت سوال کاجواب پاکرہرطرف اپنائیت کی خوش بوبکھرجاتی ہے اوراجنبیت کااحساس ختم ہوجاتاہے۔ یگانگت اورخلوص وپیارکی روح پرورفضاقائم ہوتی ہے۔آسانی کے ساتھ یہ کہاجاسکتاہے کہ نام ہی ایک دوسرے کی پہچان اورمخاطب کرنے کاواحدذریعہ ہے۔اِس لیے ہرآدمی کاایک پُرکشش،شیریں اوربامعنی نام ہونا ضروری ہے۔یہ کون پسند کرسکتا ہے کہ اُس کانام براہویاکوئی غلط اندازسے بگاڑکرکہے یالکھے؟قرآن کریم بھی تو اِس سے منع کرتا اورصاف اعلان کرتاہے: ﴿وَلَاتَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ﴾
ترجمہ: اپنے مومن بھائی کوعیب نہ لگاوٴ اورنہ ایک دوسرے کابرانام رکھو۔
یہ فیشن بھی خوب چل رہاہے:
کہ بعض لوگ اپنی بچیوں کے اچھے اورخوب صورت ناموں کوبھی بگاڑکربولتے اوربڑاکمال سمجھتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں،اُس میں ایسی مثالیں ہول سیل میں مل جائیں گی۔مثال کے طور پر: میمونہ کو ”ممّو“، ناجیہ کو”نجو“، رابعہ کو”ربّو“، شمیمہ کو”شمو“یا”شمّا“،فریدہ کو”فیدی“،دلشاد کو”دِلو“ وغیرہ۔ حالاں کہ یہ طریقہ بالکل غلط ہے اورقرآنی ارشاد ﴿وَلَاتَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ﴾کی فہرست میںآ تاہے۔
اب حدیث کامطالعہ کریں:
# ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برے نام کو تبدیل فرما کر اچھے اورخوب صورت نام رکھ دیاکرتے تھے۔(ترمذی شریف:ج۲/ص۱۱۱)
#حضرت زینب کانام برّہ تھا،جس کے معنی نیکی اوربھلائی کے ہیں،جب دوسرے مسلمانوں کی طرف سے اُن پریہ اعتراض ہواکہ تم خود اپنی تعریف کرکے اپناتقدس ظاہرکررہی ہوتوآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کانام بدل کرزینب رکھ دیا۔(بخاری شریف:ج۲/ص۹۱۴)
#ایک مرتبہ حضرت مسیّب کے والدمحترم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیاکہ تمھاراکیانام ہے؟انھوں نے جواب دیاکہ میرانام حزن(سخت زمین) ہے۔یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ نہیں نہیں!تم توسہل(نرم زمین) ہو۔(بخاری:ج۲/ص۹۱۴)
اُس دورسے اِس دور؛یعنی آج تک یہی سمجھا جا رہاہے اورتاریخی اوراق بھی بتلاتے ہیں کہ بامعنی اور پُرکشش نام بچے کے عادات،ذہن،اعمال،کردار کی تعمیراورخیالات پراثرانداز ہوتے ہیں۔ اِس کی تائید حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوتی ہے۔چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے: ”تَسَمَّوْابِاَسْمَاءِ الْاَنْبِیََاءِ“کہ مسلمانو! جہاں تک ہوسکے انبیاعلیہم السلام کے ناموں پراپنے بچوں کے نام رکھاکرو۔ (اَلدُّرُّالْمُنَضَّدْ: ج۳/ص۳۷۰)
ہرقلم کارایک بہترین عنوان تلاش کرتاہے:
جس طرح سے کوئی بھی قلم کاریاقلمی شہ سواراپنی ذہنی ودماغی پیداوارکے لیے مناسب اورایک اچھاسا عنوان تجویز کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح باری تعالیٰ نے بھی اپنی ہرتخلیق کاایک بہتراورخوب صورت سانام رکھ دیا۔ جیسا کہ ﴿ وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا﴾کے تحت بات اوپرگذرچکی۔اب ایسی صورت میں ماں باپ کی یہ خواہش بھی توغلط نہیں ہوسکتی کہ اُن کے نوزائیدہ لختِ جگراور نورنظر کوایک حسین اور شیریں نام دیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیااِس طرح انتخاب کیے جانے والے سبھی نام درست ہیں؟مثال کے طورپرکسی صاحب نے اپنی لاڈلی اور چہیتی لڑکی کانام ”حزینہ خاتون“ رکھ دیا۔اِسی طرح شبراتی، جمن، جمعراتی،کلّو،رمضانی اورببلوجیسے نام کس حدتک گوارا ہیں؟کسی کے سمجھانے کی نہیں؛بلکہ یہ خودہی سمجھنے کی بات ہے۔ہماری گستاخی کو معاف کرتے ہوئے اسی لائن میں محترمہ ”گڑیاصاحبہ“ کوبھی کھڑا کر دیجیے۔ اب دیکھ لیجیے کہ وہ اگر۷۵/ سال کی بڑھیابھی ہوجائے گی تو لوگ اُسے گڑیا ہی کہہ کر پکاریں گے۔یہ کتنابھونڈا یا خوب صورت مذاق معلوم ہوتاہے ؟خودہی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ اب تک تو ہم صرف فلمی اداکاراوٴں اور ہیروئن کے متعلق ہی یہ سننے کی غلطی کررہے تھے کہ
ہیروئن اگر عمر میں پینسٹھ کی بھی ہوگی
پر برتھ ڈے سترہ سے اٹھارہ نہیں ہوتا
شایداِ سی لیے تویہ بھی عوام الناس میں مشہور ہے،جس سے انکاربہرحال نہیں کیاجاسکتا۔”کہ عورتوں کو عموماً۳۰/ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے کم سے کم ۴۰/ سے۴۵/ سال کاوقت لگ جاتاہے“۔کیوں کہ اُن کو اپنی طبعی عمر یا عمرِ رفتہ کوچھپانے کاشوق کوٹ کوٹ کربھراہوتاہے۔وہ اِس بات سے خوب ڈرتی ہیں کہ لوگ ہمیں بڑھیا کہنا شروع کردیں گے،جوہماری پیشانی پرایک بدنماداغ بن کرچمکے گا۔
جنون نے ہمیں بے سکون کیا:
اِس لیے فیشن پرست طبقوں اوراونچے گھرانوں میں فلمی ستاروں اورلیڈروں کے نام رکھنے کے جنون نے حد سے زیادہ بے سکون کر رکھا ہے۔تہذیب کی انتہائی بلندی اور آسمان چھونے کے باوجو د بے پناہ قہقہوں کے شوراور قمقموں کی روشنی میں دَم ضرور گھٹنے لگتاہے۔اِسی طرح غربت وجہالت کی تاریکی میںآ دمی کواچھائی یابرائی کچھ سُجھائی نہیں دیتاکہ جہاں بلند طبقے نئے اورفیشن ایبل ناموں میں ایک کشش اور جاذبیت محسوس کرتے ہیں، وہیں پرنچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو برے ناموں اورمکروہ عرفوں میں کوئی کراہت اور ناگوار بات معلوم نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ وہ توگھسیٹے شاہ اور چنو میاں کوبھی بڑی دریادلی کے ساتھ برداشت کر لیتے ہیں او ر”یتیم“نام دے کرجیتے جی اُن پریتیمی کاخوب صورت داغ لگا کر فخرسے گردن تان کر چلتے ہیں۔
کچھ لوگ یہ بھی کرتے ہیں:
جو ”کلُّ جدیدٍلذیذٌ“ کامزاپانے کی خاطرہروقت نئے اورالبیلے پن کی تلاش میں دردربھٹکتے رہتے ہیں اورپھرخوب صورت اشیاکے نام بھی اپنے بچوں کے رکھتے ہیں۔ جیسے مشتری، ثریا، گلناز،رخسار،غنچہ، گلبدن، شمیم، کوثر،چانداورتسنیم وغیرہ۔اگرچہ یہ نام بھی برے نہیں ہیں،مگریہ بات ذہن میں رہے کہ اِن ناموں میں مذہبی تہذیب واخلاق کی جھلک نہیں جھلکتی۔اِن مفرد ناموں کو اگر مرکب کا لباس پہنا دیاجائے توپھرکوئی حرج نہیں ہے۔ جیسے محمدکوثر،شمیم احمد وغیرہ۔
قرآن میں شیطان بھی ہے:
کوئی صاحب خودہی فون کرکے پوچھیں گے کہ ”اقصیٰ“ نام کیساہے اورلڑکیوں کا نام رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟ آپ اُن کو بتلائیے کہ یہ نام نہیں رکھناچاہیے۔ توجھٹ سے دلیل ٹھوک دیں گے کہ یہ تو قرآن کریم میں آیا ہے،پھر کیوں نہیں رکھ سکتے؟اِس میں کیاخرابی نظرآتی ہے؟ایسے حضرات کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ اگر قرآن کریم میں مذکورہی نام رکھناہے تو پھر قرآن شریف کا مطالعہ کریں، اُس میں آپ کی ”شیطان“ سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔ اور ایک بارہی نہیں؛بلکہ بار بار ملاقات ہوگی، تو اپنے بچوں کایہی نام کیوں نہیں رکھ لیتے؟ یہ بھی خوب شوق سے رکھ کراپنی جدت پسندی کاثبوت دینا چاہیے۔ جب کہ قرآن کریم میں لفظِ ”اقصیٰ“ کا استعمال صرف۳/ بارہواہے اور لفظ ”شیطان“ پورے قرآن میں ۷۰/ مرتبہ آیا ہے۔ تواِس کی اہمیت زیادہ ہونی چاہیے نہ کہ ”اقصیٰ“ کی۔قرآن میں ہونے کی وجہ سے اتنی ہی اہمیت دیناہے تو پھر اِس کواہمیت دیاکرو۔جب کہیں زندگی کی شاہ راہ پر ایساوقت آئے گا توپھر وہاں پرقرآنی حکم ﴿فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ﴾پر بغیر کسی تاخیراور ترددکے عمل کرتے ہوئے کہیں گے”اعوذباللّٰہ من الشیطان الرجیم“۔
عرفیت کافائدہ:
ہمارے ہندستانی معاشرے میں ایک رواج؛بلکہ فیشن یہ بھی چل رہاہے اورخوب پھل پھول رہاہے کہ لوگ پیارکے بخارکا اظہار کرنے کے لیے بچوں کے اصل نام کے علاوہ ایک دوسرانام بھی رکھ دیتے ہیں، جن کو ہمارے عرفِ عام میں عرفی نام کہاجاتاہے۔جیسے محمداسماعیل عرف منٹو،محمدندیم عرف منّا،غزالہ فردوس عرف چاندنی اورصائمہ ناز عرف پِنکی وغیرہ۔اِس کاسب سے بڑافائدہ یاخوب صورت دھوکاکہہ لیا جائے؛یہی نظر آتا ہے کہ رفتہ رفتہ اصل نام ”از کارِ رفتہ“ ہوکر ذہن سے گول ہوجاتاہے اور سب کی زبان پریہی عرفی نام رہ جاتاہے اور یہی نام آگے چل کر اُن کے شان کی پہچان بن جاتاہے۔کچھ دنوں بعد ایسالگتاہے کہ یہی اصل نام ہے، حالاں کہ یہ حقیقت کے خلاف ہوتا ہے۔کوئی دوست یاعزیز باہرسے اُن کی ملاقات وزیارت کو آتا اورنام بتلا کر گھر کا پتا معلوم کرتاہے تو لوگ لاعلمی کا اظہارکرتے نظر آتے ہیں۔لوگوں کا جواب یہ ہوتاہے کہ اِس نام کاتوکوئی آدمی اِس بستی یا محلہ میں نہیں رہتا،ہم نے تو آج تک یہ نام کبھی کسی کی زبان سے سنابھی نہیں،کہیں اُن کا دوسرانام تونہیں ہے۔ فلاں صاحب سے معلوم کر لیجیے،شایدآپ غلط جگہ پرآگئے ہیں یاکسی دوسرے محلہ میں جاکر تلاش کیجیے وغیرہ وغیرہ۔ ایسے وقت میں کسی مزاحیہ شاعرصاحب کا ایک شعر ذہن کے پردے پر حاضری دے کر ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں معاملہ ایسا تو نہیں کہ
کسی کو گھر بلا کر خواہ مخواہ# حیران کرنا ہو
مکاں اپنا وہی رکھو پتا تبدیل کر ڈالو
لیکن افسوس ہورہاہے:
کہ پڑھے لکھے اورسنجیدہ قسم کے لوگ بھی موجودہ وقت میں غلط ناموں کے عادی؛بلکہ دلدادہ ہوتے جارہے ہیں۔اب حال یہ ہے کہ وہ بھی اِس گھوڑدوڑ میں کسی سے پیچھے رہنا نہیں چاہتے،بلکہ بڑے زوروشورسے ”ہم کسی سے کم نہیں“کانعرہ بلندکررہے ہیں۔اِسی لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ عبدالنبی، عبدالحسن، عبدالحسین،عبد الرسول،عبدمناف اورعبدالکعبہ جیسے نام بھی ہمارے معاشرے اورسوسائٹی میں پائے جانے لگے ہیں اور حیرت تویہ ہے کہ ہمیں اِس میں کوئی خرابی بھی نظرنہیںآ تی۔تو کیااِس طرح سے”ہرنئی چیز مزے دار ہوتی ہے“کے شوق یا (Fashionable)ناموں کے چکر میں پڑکرمسلمان شرک کا ارتکاب کر رہے ہیں یا نہیں؟ ہمارایہ طرزِ عمل اور جدت پسندی کابے تُکا اوربے ہنگم شوق؛سورہ لقمان میں موجود قرآنی وعید﴿إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾ کی فہرست میں داخل ہے یا نہیں ؟ خدارا سوچنے اور اِس پر ٹھنڈے دل سے غور کرتے ہوئے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ایک مسلمان تو”لاالٰہ الا اللّٰہ“ پڑھ کراِس بات کاایک اقرار اور حلف نامہ اسلام کی کورٹ میں داخل کرتا ہے۔ (جن کا ایمان ہی یہی ہے کہ خداایک ہے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔)
خلاصہٴ تحریر:
یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے اپنے بچوں کے نام ایسے رکھاکریں،جن میں اظہارِ عبدیت اور بندگی کی خوش بو ٹپکتی ہو۔قرآن وحدیث میں بھی اِسی کی تعلیم دی گئی ہے۔چناں چہ اِس بارے میں سید الکل فی الکل محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاارشادِگرامی ابو داوٴد شریف کی روایت میں موجودہے کہ”تَسَمَّوْابِاَسْمَاءِ الْاَنْبِیََاءِ، وَاَحَبُّ الْاَسْمَاءِ اِلَی اللّٰہِ عَبْدُاللّٰہِ وَعَبْدُالرَّحْمٰنِ، وَاَصْدَقُہَا حَارِثٌ وَہَمَّامٌ، وَ اَقْبَحُہَاحَرْبٌ وَ مُرَّةُ“ یعنی پیغمبروں کے نام پرنام رکھا کرو اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین نام عبداللہ اور عبد الرحمن ہیں۔ اور حارث اورہمام ایسے نام ہیں،جواپنے اندرسچائی اورصداقت لیے ہوئے ہیں اور بدترین نام حرب اورمرہ ہیں۔ (ج ۲/ص۱۳۴۰)
حضرت ابودردارضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”إِنَّکُْم تُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِاَسْمَائِکُمْ وَاَسْمَاءِ آبَائِکُمْ فَاَ حْسِنُوْا اَسْمَائَکُمْ“کہ قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپ کے نام کے ساتھ بلائے جاوٴگے، اِس لیے اپناعمدہ اور خوب صورت نام رکھاکرو۔(ابوداوٴد:ج ۲/ص۱۳۳۹)
اس روایت سے بھی بچوں کے اچھے نام رکھنے کی ترغیب ملتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کواپنے لخت جگرکے اچھے اور بامعنی نام رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!