از قلم :حذیفہ وستانوی
سر زمینِ ہند ان خوش نصیب خطوں میں سے ہے، جسے فتنوں کے اس تاریک ترین دور میں، جب اسلام خود مسلمانوں کے دیار میں اجنبیت کا شکار ہے، اللہ نے دینِ متین اور مذہب ِبرحق کی آبیاری کے لیے منتخب کرلیا ہے،جو پچھلی تین سے زائد صدیوں سے مسلمانوں کے دورِ زوال میں علوم ِاسلامیہ کی خدمت اور اس کی نشر و اشاعت میں اہم ترین رول ادا کررہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام کے برحق ہونے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس کو طاقت،حکومت، ریاست، دولت کسی چیز کی ضرورت نہیں، وہ جب اپنے دین کی حفاظت پر آجائے تو کمزوروں سے بھی یہ خدمت لے سکتا ہے۔ بندہ نے حال ہی میں مصر کا سفر کیا ہے، جس کی روداد عنقریب آیا ہی چاہتی ہے،ان شاء اللہ!اس میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
آمدم بر سر مطلب!
دو دن قبل ہمارے ادارے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے استاذِتجوید قاری جابر صاحب نے اطلاع دی کہ حضرت قاری احمد اللہ صاحب،جو ہمارے شعبہٴ تجوید کے سرپرست تھے بیمار چل رہے ہیں، ان کے لیے دعاکی درخواست کی، تو میں نے کہا کہ اللہ حضرت کو شفائے کاملہ نصیب فرمائے۔ قاری جابر صاحب سے کہا کہ حضرت کی بیمار پرسی کے لیے جانا ہے، کل بندہ صبح سویرے سے رات دیر تک مسلسل سفر اور مختلف پروگراموں میں بہت مشغول تھا؛ لہٰذا موبائل کی جانب التفات بہت کم رہا؛قاری جابر صاحب نے بندہ کو رات میں میسج کیا تھا کہ حضرت کو جمعہ بعد دل کا دورہ پڑا ہے اور ہسپتال لے جایا گیاہے، مگر افسوس کہ بندہ حضرت کی عیادت نہ کرسکا۔ صبح تقریباً ۸/ بجے کے بعد معلوم ہوا کہ حضرت قاری احمد اللہ صاحب دارالعلوم دیوبند ثانی یعنی”دارالعلوم ڈابھیل“ کے صدر شعبہٴ قرأت تھے۔ حضرت نے تقریباً ۵۰/سال علمِ تجوید و قرأت کی بے لوث خدمت انجام دی،نصف صدی کے اس طویل عرصے میں ہزاروں تشنگان ِعلوم نبوت نے آپ سے استفادہ کیا اور آج آپ کا فیض دنیا کے چپے چپے میں عام و تام ہے۔
اپنے فن سے آپ کو والہانہ تعلق ؛ بل کہ فنا فی علم القرأت و التجوید تھے۔ بڑے مشاق قاری تھے، پوری فکر کے ساتھ قرآن ِکریم کے اس علم کی آپ نے خدمت کی۔ آپ اللہ کے ان منتخب بندوں میں سے تھے، جنہیں اللہ نے دینِ اسلام کی خدمت کے لیے چن لیا تھا،سرزمینِ گجرات پر آپ کا بہت بڑا احسان ہے۔ قرأتِ سبعہ و عشرہ کے لیے آپ نے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا، جس کی برکت ہے کہ ماہر قراء کی بہت بڑی تعداد آج موجودہے۔
جامعہ اکل کوا میں علم تجوید و قرأت کی نشأةِ ثانیہ میں قاری صاحب کا اہم کردار :
آج سے تقریباً پانچ یا چھ سال قبل ہمارے درسی ساتھی مولانا فاروق ممبئی کا فون آیا کہ بھائی حذیفہ قاری احمداللہ صاحب دامت برکاتہم آپ سے ملنا چاہتے ہیں، تو کیا ہم اکل کوا آئیں؟ میں نے کہا قاری صاحب اتنی بڑی شخصیت ہیں، مجھ ناچیز سے کیا کام ہوگا؟میں نے کہا:بالکل یہ تو ہمارے لیے خوش نصیبی ہے کہ حضرت ہمارے یہاں تشریف لائیں؛ بہرحال دوسرے دن حضرت تشریف لائے اور دارالضیوف میں حضرت کے ساتھ ملاقات ہوئی، حضرت نے کہا کہ بیٹا میں ایک فکر لے کر آیا ہوں کہ آپ کا جامعہ ماشاء اللہ بہت بڑا ہے اور پورے ملک سے یہاں طلبہ جوق در جوق آتے ہیں،میری خواہش ہے کہ یہاں سے علم قرأت عام ہو۔ میں نے کہا:حضرت یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ الحمدللہ! پھر والد صاحب سے ملے، والد صاحب نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمارے شعبہ تجوید و قرأت کے آپ سرپرست رہیں۔
بس پھر کیا تھا حضرت نے تن من دھن کی بازی لگادی، پیرانہ سالی کے باوجود سال میں کئی بار تشریف لاتے، اپنے تلامذہ میں سے ماہرین کی جماعت آپ نے بھیجی، بار بار آکر ان کا جائزہ لیتے رہے اور الحمدللہ شعبہٴ تجوید و قرأت کو مستحکم اور مضبوط بنانے میں آپ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اتنے بے لوث ہو کر آپ نے خدمت کی کہ کبھی ایک روپیہ ہدیہ تک قبول نہیں کیا اور کہا کہ میں تو اپنا فریضہ انجام دینے کے لیے آتا ہوں، اس پر نہ کوئی معاوضہ، نہ کوئی ہدیہ قبول ہوگا۔آج مادیت کی گہماگہمی کے اس دور میں ایسا استغنا نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔
آپ اپنے فن کے امام تھے۔ جنون کی حد تک اس کو عام کرنے کے لیے کوشاں تھے اور وہ بھی پورے اتقان اور مضبوطی کے ساتھ۔آپ نے اس فن کی خدمت کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، اپنے وطن مالوف کو خیرآباد کر کے پچاس سال خدمت کی، جب بھی پندرہویں صدی ہجری کی تاریخ لکھی جائے گی، حضرت کی خدمات کو جلی ہی نہیں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
اللہ حضرت کی اس عظیم خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے!آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے! آپ کے پسماندگان کو صبر ِجمیل عطا فرمائے! جامعہ ڈابھیل اور امت کو آپ کا نعم البدل نصیب فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔