جیسا کہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا کہ انیسویں صدی سے استعماری طاقتوں نے تعلیم کو اپنے مقبوضہ علاقوں میں، وہاں کے لوگوں کو اپنا ذہنی غلام بنانے کے لیے استعمال کیا ، ان پر اپنی الحادی تہذیب کو مسلط کرنے کے لیے دو موٴثر ذرائع کو استعمال کیا۔ ایک تو نظامِ تعلیم اور دوسرا میڈیا۔
مغربی اقوام کا اپنے زیر اثر علاقوں پر انھیں اپنا فکری غلام بنانے کے لیے خطیر بجٹ مختص کرنا:
اگر آپ دنیا کا جائزہ لینے کی زحمت فرمائں ،تو دیکھیں گے کہ یوروپی اقوام آج بھی اپنے بجٹ کا بڑا حصہ اپنے زیر ِاثر علاقوں میں (Brain Washing )کے لیے خاص کرتے ہیں ، اسی طرح میڈیا پر بھی ان کی خاص توجہ ہوتی ہے۔
مغربی تہذیب کے زیر ِاثر اکیسویں صدی میں دیگر دنیا کے خطوں میں بھی اکثریتی طبقہ جو حکمرانی کرتا ہے۔ مغربی تہذیب اپنی تہذیب کو خلط ملط کرکے وہاں کے اقلیتی طبقات کو اپنا ہمنوا اور ان کی نسل ِنو کو اپنا ذہنی غلام بنانے کے لیے وہی طریقہ اختیار کرتی ہے،جو اس نے اپنے استعماری دور میں اختیار کیا تھا، جس کی جیتی جاگتی مثال ہندستان کی نئی تعلیمی پالیسی ہے۔ تعلیمی نظام میں یہ تبدیلی صرف ہندستان ہی میں نہیں ہوئی ، بل کہ عرب ممالک میں بھی ہوئی، اور حیرت تویہ ہے کہ تعلیمی پالیسی کے تقریباً تمام نقاط قدرِمشترک ہیں؛ جیسا کہ بندہ نے نیٹ پر عربی اخبارات کے اس تعلق سے تفصیلات دیکھی۔ کیا قدر مشترک اس پر آگے تفصیلات بیان کی جائیں گی۔ ان شاء اللہ !
مسلمانوں کے لیے اپنے اور اپنے موجودہ وآئندہ نسل کے عقیدے ، فکراور اسلامی تشخص کی حفاظت کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لیے اللہ کی جانب توجہ کے ساتھ ساتھ کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے ،اس پر غور وخوض کی سخت ضرورت ہے۔ تو آئیے نئی تعلیمی پالیسی کی وہ چیزیں ، جو ہمارے لیے قابلِ تشویش ہیں، سب سے پہلے اسے جانتے ہیں۔ اس کے بعد ہم مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اور اس کی تیاری کیسے کرنی چاہیے؟ اس پر روشنی ڈالیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ اللہ صحیح لکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین!
نئی تعلیمی پالیسی کے منفی پہلو:
بہ طور تمہید کے محمد سیف اللہ صاحب کے مضمون ”نئی تعلیمی پالیسی “کے نام پر ملک میں خطرناک قسم کے سازشی کھیل کا آغاز پیش خدمت ہے :
اگر اس پیش رفت کو قبول کر لیا گیا تو نتائج چونکانے والے ہوں گے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیم ہر شخص کی بنیادی ضرورت کا اہم ترین حصہ ہے اور کوئی بھی نصابِ تعلیم ہمیں ایک قسم کا ہدایتی نقشہ فراہم کرتا ہے،جس پر تعلیمی مقصد اور اغراض کی پوری عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے،بل کہ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر ہم یہ کہ سکتے ہیں نصابِ تعلیم ایک ایسا آئینہ ہوتا ہے، جس میں ہم اپنی نسلوں کو مستقبل کی تصویر دکھاکر ان کے اندر عزم کو جواں کرتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے کسی بھی دور میں نصاب ِتعلیم کی اہمیت ونافعیت سے انکار نہیں کیا گیا؛ بل کہ وقت اور حالات کے مطابق قومی اور ملکی سطح پر نصاب ِتعلیم مختلف تبدیلی کے مراحل سے گزر کر آگے بڑھتا رہا ہے۔
ہندستانی موجودہ ترقی میں نصابِ تعلیم کا بڑا دخل :
خود ہمارے ملک کی ستر سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہم نے اس طویل دور میں نصابِ تعلیم کو کئی کروٹ لیتے دیکھا ہے اور اس میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ آج ہندستان شہرت وترقی کی، جس منزل پر کھڑا ہے وہ بھی ہمارے نصاب ِتعلیم کی تبدیلی کا ہی نتیجہ ہے،اس دوران ہم نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے میدان میں اپنی کامیاب پیش رفتوں سے نئی نسل کے لیے کامیاب راہیں بنائی ہیں؛ بل کہ دنیا کو بھی سائنس وٹکنا لوجی کے شعبے میں متاثر کر کے ان سے سند ِاعتماد حاصل کیا ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی جمہوریت پر حملے کے مترادف ہے:
لیکن ان سب کے باوجود برسوں بعد موجودہ مرکزی حکومت نے آئندہ کچھ سالوں کے لئے جو نئی تعلیمی پالیسی مرتب کر کے اسے منظور کیا ہے، اس پر سنجیدہ طبقے میں نئی نسل کے مستقبل کو لے کر نہ صرف بحث وتبصرے کا دور شروع ہے؛ بل کہ سماج کا ایک بڑا طبقہ یہ بھی مانتا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے نام پر جو خاکہ ملک کے سامنے پیش کیا گیا ہے، وہ ملک کو جمہوریت کی لیکھ سے ہٹا کر، اسے ہندو راشٹر کی طرف لے جانے اوراقلیتوں کی نئی نسل کو اپنے مذہبی امور سے بے گانہ بنادینے کی کوشش ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی میں اردو کے ساتھ زیادتی :
اس لیے اگر اس کو اسی حالت میں نافذ العمل قرار دے دیا گیا، تو جہاں آنے والے دنوں میں اس کے بھیانک نتائج ملک کو افراتفری کا شکار بنا دیں گے ؛وہیں آئندہ نسل کے مذہبی تشخص کو باقی رکھ پانا بھی دشوار ہو جائے گا،کیوں کہ اس نئی پالیسی میں سنسکرت کے لیے قابلِ ذکر جگہ نکال کر مادری زبان کے خانے سے اردو کو باہر کا راستہ دکھایا گیا ہے، وہ اپنے آپ میں ایک سنگین سونچ کی ترجمانی کرتا ہے۔
انگریزوں کی تعلیمی پالیسی کی طرح یہ پالیسی بھی غریب اور اقلیت طبقے کے لیے نقصان دہ ہے:
اس کے علاوہ نصابِ تعلیم کی ترتیب جس انداز سے کی گئی ہے، اس سے بھی حکومت کے ارادے صاف ہیں،در اصل معاملہ یہ ہے کہ طویل جد وجہد کے بعد مرکزی حکومت جن وعدوں اور ارادوں کے سہارے اقتدار میں آئی تھی ،پچھلے چھ سالوں کے دوران ان وعدوں کو انجام تک پہنچانے میں وہ پوری طرح ناکام ہو چکی ہے، اس لیے وہ اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے، مذہبی منافرت کا سہارا لے رہی ہے اور اسی لیے نئی تعلیمی پالیسی کا بکھیڑا کھڑا کیا گیا ہے؛کیوں کہ حکومت اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ تعلیم کے نام پر نئی نسل کا ذہن خراب کیے بغیر ان کے مقصد میں کامیابی نہیں ملے گی،اس لیے وہ انگریزوں کی راہ پر چل کر اپنے مشن کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔یاد دلا دیں کہ انگریزوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ہندستانی باشندے زیادہ سے زیادہ جاہل رہیں،ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرکے یہ لوگ ہمارے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائیں گے؛ اس لیے اگر تعلیم کا نظم کیا بھی، تو وہ محض عیسائیت کے لیے؛ ورنہ اعلیٰ تعلیم کا ہندستانی باشندوں کے لیے کوئی نظم نہ تھا“۔
دراصل انگریز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر برِصغیر میں مغربی طرز کے تعلیمی ادارے کھولے گئے تو اس سے عوام میں بیداری آئے گی اور جس طرح امریکہ وغیرہ میں جدید علوم کی درس گاہیں قائم ہوجانے کے بعد، ہمیں امریکیوں کو آزادی دینی پڑ گئی تھی؛ اسی طرح برصغیر جوکہ سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہے؛ اگر ہم نے یہاں پر جدید تعلیمی ادارے قائم کردیے تو ایک نہ ایک دن ہمیں یہاں سے لازماً بوریا بستر گول کرنا پڑے گا؛ اس لیے بہتر یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھا جائے،یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر متحدہ ہندستان کے گورنرجنرل کی قونصل کے پہلے رکن برائے قانون کے طور پر لارڈ میکالے نے برطانوی پارلیمان میں2/فروری 1835ء کو اپنے خطاب میں کہا تھا کہ۔
لارڈ میکالے کا قدیم تعلیمی نظام پر اعتراض:
”میں نے ہندوستان کے ہر خطے کاسفر کیا ہے،مجھے وہاں کوئی بھکاری اور چور نظر نہیں آیا،میں نے اس ملک میں بہت خوشحالی دیکھی ہے،لوگ اخلاقیات و اقدار سے مالا مال ہیں،عمدہ سوچ کے مالک لوگ ہیں اورمیرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو زیر نہیں کرسکتے ؛جب تک ہم انہیں مذہبی اور ثقافتی طور پر توڑ نہ دیں،اس لیے میں تجویز کرتاہوں کہ ہم ان کا قدیم نظامِ تعلیم اور تہذیب بدل دیں،اگر ہندستانیوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شے ان کی اشیا سے بہترہے، تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھودیں گے اور حقیقت میں ہماری مغلوب قوم بن جائیں گے؛جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں“۔
لارڈمیکالے کی تعلیمی پالیسی نے ہندستانیوں کو ذہنی غلامی اور مظالم کے دلدل میں پھنسا دیا:
اسی وقت لارڈ میکالے نے اپنا یہ نظریہٴ تعلیم بھی پیش کیا تھا کہ ”فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ وجود میں لانے کے لیے وقف ہونی چاہئیں، جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین جن پرہم حکومت کررہے ہیں ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہوں؛ لیکن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم وفراست کے اعتبار سے انگریز ہوں“۔تاریخی مطالعہ بتاتا ہے کہ انگریزوں نے لارڈ میکالے کی اس پالیسی کے سہارے ،ہندستانیوں کو نہ صرف غلامی کی زنجیر میں جکڑا؛ بل کہ ان پر وہ مظالم ڈھائے کہ ان کو سن کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،آزادی کے سترسالوں بعد ملک کو ہندوراشٹر بنانے کا سپنا دیکھنے والے تنگ خیال لوگ، ایک بار پھر لارڈ میکالے کی پالیسی کو اپنانے کا فارمولہ اپنا رہے ہیں اور نئی تعلیمی پالیسی کے بہانے سماج میں نفرت کا زہر گھول کر اپنے خواب کی تعبیر چاہتے ہیں۔