میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاوٴں گا

مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی عزائم کو عملی شکل دینے والے فنا فی الجامعہ مشینی آدمی

مولانا عبدالرحمن ملی ندوی

استاذ تفسیر و حدیث ، ایڈیٹر مجلہ ”النور“جامعہ اکل کوا

            یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ دنیا فانی ہے اور دنیا کی ہر چیز آنی جانی اور فانی ہے، صرف اللہ کی ذات ازلی اور باقی ہے: ”کل شئ ہالک الا وجہہ“ (آیت) ”کل من علیہا فانٍ و یبقی وجہ ربک ذو الجلال والاکرام“ (آیت)۔

            اللہ کی جانب سے بعض اولو العزم اور بابصیرت اور روشن ضمیر شخصیات اپنے تابناک کارناموں کے سبب مرے ہوئے بھی حیات رہتے ہیں، وہ فانی ہونے کے بعد بھی زندہ تصور کئے جاتے ہیں۔سورج کی طرح ڈوب جانے کے بعد بھی زندگی کا شفق چھوڑ جاتے ہیں۔ کسی نے خوب ہی کہا ہے کہ 

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاوٴں گا

میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاوٴں گا

            حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی مظاہری کی شخصیت اور ذات گرامی بھی کچھ ایسی ہی تھی اس لیے کہ وہ باہمت اور صاحبِ عزیمت شخص تھے اور عزائم پر یقین رکھنے والا بندہ ہمیشہ جہالت کے اندھیروں میں بھی علم و ہنر کی قندیل روشن کیا کرتا ہے۔ مولانا مرحوم میں خاندانی نجابت، بدنی وجاہت، خدائی عزت اور عمل کی دنیا میں حقیقی شہرت تھی، وہ فنا فی الجامعہ تھے، ان کا دل علما، طلبا اور عوام کے لیے دل درمند تھا، مولانا فلاحی صاحب جس جامعیت اور اعلیٰ کردار کے حامل تھے اس کو چند سطری مضمون یا چند منٹ کی گفتگو میں بیان کرنا دشوار ہو۔

            واقعہ یہ ہے کہ جب سچی تڑپ، اخلاص، کام کی فکر اور لگن ہوتو ”نشانِ راہ“ خود ہی مل جاتا ہے ۔اس لئے کہ کام کی کوئی عمر نہیں ہوتی، ادھیڑ اور بوڑھاپے میں بھی انسان جوانو ں سا حوصلہ رکھ کر کا م کرجاتا ہے۔

بوڑھا ہوں مگر طبع جواں رکھتا ہوں

چہرہ پہ نہ جا حسن بیاں رکھتا ہوں

            مولانا فلاحی کی زندگی میں جرأت وہمت ، اور کام کی دھن بہت زیادہ تھی، ان کی ذات بے شمار خوش نماخوبیوں کا حسین گلدستہ تھی، ان کو اللہ کی جانب سے اخلاص وللہیت کی عظیم دولت نصیب ہوئی تھی، جس کے ذریعہ انھوں نے لوگوں کو اپنا ہمنوا اورگرویدہ بنایا تھا، کار آمد افراد کی قدر کرنا کوئی ا ن سے سیکھے۔ مولانا کے مزاج میں دور اندیشی، وسعت قلبی، دوسروں کے ساتھ حسن سلوک، طبیعت کی شرافت، دوسروں کی فنکارانہ صلاحیتوں کا اعتراف معاصرین کی عزت افزائی اور چھوٹوں کی دل جوئی، مولانا فلاحی  کی زندگی کا اہم وصف تھا، گویا وہ اس شعر کے مصداق تھے 

نشہ پلاکے گرانا تو سبھی کو آتا ہے

مزہ تو جب ہے گرتو ں کو تھام لے ساقی

            مولانا رحمة اللہ علیہ چھوٹوں کو بڑا بنانے پر یقین رکھتے تھے، جو اپنی ذات کو منفرد اور قد آور بنانے کے بجائے اپنے شاگردوں اور معاصرین کو انفرادی حیثیت دیتے تھے، اور اس میدان میں وہ کشادہ نفسی اور سلیقہ مندی سے کام لیتے تھے۔

            اولاد کی تربیت کے لیے ماں باپ کا عالم ہونا ضروری نہیں ہے، لیکن نیک سیرت اور دور اندیش ہونا بہت ضروری ہے ۔ ماں باپ کی نیکی اولاد کے حق میں سود مند بلکہ نسخہٴ کیمیا ثابت ہوتی ہے۔

            حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی نے علوم و فنون سے معمور خاندان میں اپنی آنکھیں کھولیں، جو علمی ، ادبی، دینی ، فکری گھرانے کے چشم و چراغ تھے، ان کی تربیت جہاں خاندانی اعتبار سے ان کے بزرگ بھائی وقت کے محدث حضرت مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری دامت برکاتہم نے فرمائی، وہیں رشتہ داری اور قرابت کے اعتبارسے خادم کتاب و سنت حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم بھی ان کی اعلیٰ تربیت میں بنیادی حیثیت رکھتے تھے، حضرت رئیس جامعہ کے معتمد علیہ اور راز دار تھے، بہت سے امور کے فکری سلجھاؤ میں مولانا فلاحی پیش پیش رہا کرتے تھے ، حضرت رئیس جامعہ کی قرآنی خدمات کے مشن کو ایک تحریک کا نقشہ دیکر پورے ملک اور اس کے دور دراز صوبہ جات میں عام کرنے اور صحیح قرآن خوانی کے جذبہ کو پروان چڑھانے اور مسابقة القرآن کے پلیٹ فارم سے پوری علمی دنیا میں متعارف کرانے میں یقینا مولانا فلاحی صاحب کا تاریخی کردار رہا ۔

            لیکن ان تمام تاریخی خدمات اور فکری بلندیوں کے لیے اگر مولانا فلاحی میں یہ جذبہ پیدا ہوا تھا تو یہ کہنے یا لکھنے میں کوئی حرج اور مضائقہ نہیں کہ اس کے پیچھے ان کے مخلص اساتذہ مربین اور جہاں دیدہٴ قلندر نما شخصیات کا کردار رہا ہے ۔

            چاہے پھر وہ حضرت مولانا سیدابرار صاحب دھولیوی ہوں یا حضرت مو لا نا سید ذوالفقار صاحب قاسمی ہوں،یا پھر نباض وقت مرد قلندر حضر ت مولانا عبداللہ صاحب کا پودروی کی جہاں دیدہ شخصیت ہو ،یا پھر فلاح دارین کے عزم وہمت کے پہاڑ نما دیگر زندہ دل اساتذہ ہوں اللہ ان سب کو خوش رکھے آباد رکھے ،اور جو جواررحمت میں پہنچ گئے ہوں، اللہ انہیں اپنے شایان شان اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے۔

            حضرت مولانا فلاحی صاحب سے جب اس ہیچ مداں بے بضاعت کی گفت شنید یا عافیت طلبی ہوتی یا تبادلہٴ خیال ہوتا تو فرمایا کرتے تھے کہ مجھے مضمون نگاری کی تربیت جضرت الا ستاذ مولانا سید ذوالفقار صاحب قاسمی رحمة اللہ علیہ نے حسن تربیت کے ذریعہ عنایت کی ہے کہ حضرت مجھ سے مختلف النوع عناوین پر مختلف اوقات میں مضامین لکھنے کے لیے کہا کرتے تھے اور لکھی ہوئی چیز پر نظر ثانی کرکے تربیت واصلاح بھی کیا کرتے تھے ،اور میرے اندر جرأت وہمت ،اور بے با کی صفت حضرت الرئیس مولانا عبداللہ صاحب کا پودری کی فکر ی تربیت کا نتیجہ ہے ،اور مجھے کام کا ایک وسیع میدان قبلہ حضرت رئیس جامعہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی نے عنایت فرمایا ،حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے،عزت افزابھی اور ہرکام کے لیے ہمت بھی دیا کرتے تھے۔

 مولانا فلاحی صاحب اس طرح کے جملے ہم جیسوں کو قلمی ، لسانی، دنیا میں آگے بڑھا نے کے لیے کہا کرتے تھے۔

            ہم نے مو لا نا فلا حی صا حب کی مجا لس میں ،یا ان کے سا تھ کئے گئے اسفا ر میں کبھی کسی کی غیبت یا برائی نہیں سنی ، یہ ان کے بلند کر دار کی علامت اور حسن اخلاق کی دلیل تھی ، اس لیے کہ ہر انسا ن اپنے لیے جیتا ہے ۔اپنے ذاتی مصا لح کے لیے کا م کر تا ہے؛ لیکن حقیقی انسا ن اس کو کہا جا تا ہے، جو دوسر وں کے لیے اپنی زند گی کے معنی بدل دیتا ہے ۔ مو لانا فلاحی صا حب سے جب کو ئی وابستہ ہو تا یا ان سے صرف اپنے ذاتی معا ملا ت میں مشو رہ طلب کرتاتو وہ اس کا قطعا خیال نہیں کر تے تھے کہ صا حب مشو رہ مجھ سے کچھ فکر ی اختلاف ر کھتا ہے ۔اس سے اوپر اٹھ کروہ نہ صر ف یہ کہ بہترین مشو رہ دیتے بلکہ عملی اقدام کے لئے بھی کو شا ں رہتے ، اور فر ما تے ، ”واللہ فی عون العبد ما کان العبد فی عو ن أخیہ“۔

            جب بھی مر حو م سے جا معہ کی چہا ر دیو ار ی میں مو اجہت ہو تی مزاحیا نہ انداز میں بلند الفا ظ کے سا تھ عافیت طلبی کر تے اور ہما ری عا جزانہ تحریر وں کی حو صلہ افزائی کر تے ، اور کبھی کبھا ر تو ہمار ی عر فی حیثیت سے بڑ ھ کرعزت افزائی کر تے ، یقینا یہ صفت ایک بے نفس اور مخلص انسا ن کی ہو سکتی ہے ۔

            مو لانا فلاحی صا حب کی شخصیت یقینا ایسی دل نو از ، حیا ت افروز ، اور با غ و بہا ر کی ما لک تھی جس کوچند سطروں میں سمو دینا د شو ار ہے ، وہ ہزارو ں خو بیو ں اور عمد ہ صفا کے ما لک تھے۔

            مولانا فلاحی صاحب رحمة اللہ علیہ کو قرآن کریم اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو وارفتگی ‘ محبت اور تعلق خاطر تھا اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ ان کی نظر قرآنی مفردات‘تعبیرات اور حالات کے اعتبارسے حسنِ تفسیر اور تدبرآیات پر بڑی گہری تھی۔ اس باب میں مرحوم کی بہت سی قابلِ استفادہ کتابیں اور کتابچے ہیں۔حدیث کے باب میں بھی وہ گہرائی وگیرائی کو پیش نظر رکھتے تھے اور جابجا اپنی تقاریر اور خطابات میں الفاظ حدیث سے استشہاد کیاکرتے تھے۔ عبارت کی گہرائی پر نظر رکھ کر فہم عبارت پر طلبا کی تربیت بھی کیاکرتے تھے۔ مرحوم کی انہیں خدمات اور قرآن سے وارفتگی کے سبب حضر ت رئیس جامعہ مولانا غلام محمد وستانوی نے آپ کو ”مسابقة القرآن“ کا مدیر مسئول اور اہم ذمہ دار بنایاتھا جس کی مرحوم نے تاحیات نہ صرف یہ کہ پاسداری کی بلکہ حضرت وستانوی کے اس قرآنی مشن کے خواب کو شرمندئہ تعبیر بھی کیا۔مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی ۱۹۸۷ء سے جامعہ کی ہمہ جہتی خدمات سے وابستہ ہوئے، جن میں تدریسی ‘دعوتی ‘سماجی‘ معاشرتی خدمات بھی شامل ہیں۔ اکثر مقامات پر حضرت رئیس جامعہ مرحوم کو اپنی نیابت کے لیے روانہ کرتے تھے، جہاں جامعہ کی بے مثال نمائندگی کرتے ہوئے ترجمانی کے فرائض انجام دیاکرتے تھے۔

            مولانا کے انتقال سے جہاں حضرت رئیس جامعہ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی نائب رئیس جامعہ جناب حافظ محمد اسحاق وستانوی ناظم تعلیمات جناب مولانا حذیفہ وستانوی اور ان کے فرزندگان اور اہلِ خاندان اس عظیم صدمہ سے دوچار ہیں وہیں جامعہ کی علمی برادری میں اساتذہ و طلبہ بھی غم زدہ اورحزین ہیں۔

            لیکن ایسے غمگین اور دل برداشتہ موقع پر ہم وہی کہیں گے جس کی ہمیں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے:”إِن للّٰہ ما أخذ ولہ ما أعطی ولا نقول إلا ما یرضی ربنا“ ”طِبت حیًا وطِبت میتًا

            یقینا آج مولانا ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن مولانا کی فکر، ان کا اخلاص، تڑپ، احساس، کام کی لگن اور دھن، ان کی وسعت قلبی، دور اندیشی، یہ ایسی صفات ہیں جو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہیں ان صفات کو اپنانا ہی مولانا کے لیے بہترین خراج عقیدت ہو سکتا ہے؛ گویا مولانا کا مشن تھا ”شعارنا الوحید إلی القرآن من جدید“ قرآنی خدمات کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے نئے جوش، نئے امنگ اور جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے کہ یہی ہماری زندگی کا خلاصہ بھی ہے۔

            مولانا فلاحی کی علمی، دینی ، فکری، قرآنی، حدیثی اور ہمہ جہتی خدمات قیامت کے روز ان کے میزان حسنات کو بھاری بنائے گی۔ ان شاء اللہ! اللہ تعالیٰ مولانا کی بشری لغزشوں کو درگزر فرماتے ہوئے جنت میں اعلیٰ تر ین مقام عطا فرمائے۔ آمین !

کیا سوچ کر مٹی میں چھپاتے ہو دوستو

یہ گنجینہٴ علوم ہے گنجینہٴ زر نہیں