تحریر: محمد اجمل خان
آج سوشل و الیکٹرانک میڈیا،اخبارات اور رسائل وغیرہ دین اسلام یعنی اللہ تعالیٰ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن و سنت اور اسلافِ امت وغیرہ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار بنا ہوا ہے۔
ابھی چند دن پہلے ہی ایک ویڈیو کلپ میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح بعض ٹی وی چینلز اپنے ڈراموں، نائٹ شوزاور مارننگ شوز وغیرہ میں اسلام پر مختلف سوالات اٹھا کر مسلم عوام کو گمراہ کرنے اور نوجون نسل کے ناپختہ اذہان کو دین برگشتہ کرنے اوربغاوت پر اکسانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے سوالات اٹھائے جاتے ہیں، جن کے جوابات اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی دے دیا ہے، لیکن آج کل عوام الناس اور خاص کر نوجوان نسل علمِ دین سے دوری کی وجہ کر ان جوابات سے نا واقف ہیں۔ ان کے اکثر سوالات ایسے ہوتے ہیں، جو عام لوگوں کے اذہان میں آتے ہی نہیں ،لیکن اِن عبد اللہ بن ابی بن سلول کے نقش قدم پر چلنے والوں کا اصل مقصد تو اپنے آقاوؤں کو خوش کرنا ہوتا ہے ،جن کے روپے پر یہ لوگ خود جہنم کے ایندھن بن رہے ہیں۔ لہٰذا نہایت ہی چالاکی اور عیاری سے اعتدال پسندی کی آڑ میں اتحاد بین المذاہب ،تجدیدِ دین، آزادیٔ نسواں، ملکی و معاشی ترقی اور جھوٹی ثقافت وغیرہ کے جھوٹے نعروں اور خوش نما ناموں سے مسلم معاشرے میں بے حیائی اور برائی پھیلانے، بگاڑ پیدا کرنے اور دہریت کو عام کرنے کی ناپاک سعی کیے جارہے ہیں۔ یہ انسانی جذبات اور نفسیات (Human Sentiment and Psychology) کے عین مطابق ہر صبح جہاں مارننگ شو زکے ذریعے عورتوں کو بے حیائی اور بے غیرتی کی راہ پر لیے جا رہے ہیں، وہیں ہرشام سے آدھی رات تک پوری عوام اور خاص کر نوجوان نسل کو سیکس، لہو و لعب اور دہریت کے فتنوں میں گھیر رہے ہیں۔
یہ ایسے خوش نما پروگرام مرتب کرتے ہیں، جسے عوام کی اکثریت نہایت پسندیدگی سے دیکھتی ہے اور ایسی چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں ،جسے بڑے دھیان سے سنی اور مانی جاتی ہے، جو بہ ظاہر اسلام مخالف نظر نہیں آتی، لیکن وسوسہ اور شکوک و شبہات سے بھرے ہوتے ہیں۔
ہمارے رب نے ہمیں پہلے ہی ایسے لوگوں کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے:
{وَکَذَٰلکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَیَاطِینَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ یُوحِي بَعْضُہُمْ إِلیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا }( الانعام:۱۱۲)
’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن انسانوں اور جنوں میں سے بہت سے شیطان پیدا کیے ہیں، جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے ہیں؛ تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں۔
{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیُشْھِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ لا وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ}(البقرۃ: ۲۰۴)
’’اور انسانوں میں ایسا شخص بھی ہے، جس کی (چکنی چپڑی) باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت اچھی لگتی ہیںاور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار اللہ کو گواہ بناتا ہے (اللہ کی قسمیں کھاتا ہے)، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے۔
بے شک ایسے لوگ بدترین دشمن حق ہیں، اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں اور مسلمانوں میں مسلمانوں کا لبادہ اوڑھے عبد اللہ بن ابی بن سلول کے ساتھی ہیں۔ خود کو مخلص وطن پرست اور خیرخواہ ثابت کرکے اسلامی مملکت میں رہتے ہوئے اسلام پر ضربیں لگاتے ہیں ،کم علم عوام الناس کے اسلامی عقائد سے کھیلتے ہیں نوجوانوں میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں اور انہیں اسلامی عقائد کے خلاف بغاوت پر اکساتے ہیں۔
یہ دشمن ِ اسلام اپنی طے شدہ پلاننگ کے مطابق اپنے چوبیس گھنٹوں کے پروگراموں میں ہر 7-5 منٹ بعد 15-10سیکنڈ کے لیے ایسے کلپس دکھاتے ہیں، جو انسانی جذبات اور نفسیات (Human Sentiment and Psychology) پر باربار شیطانی وسوسوں کی ضربیں لگاتی ہیں اور باربار اسے دیکھ کر اور سن کر انسان شکوک و شبہات اور فتنے میں پڑ ہی جاتا ہے، سوائے اس کے اللہ جس پر رحم کرے۔
یہ انسانی جذبات و نفسیات شعور و لاشعور اور سوچ پر وار کرنے والا شیطان کا بہت بڑا اوربہت کام یاب فتنہ ہے اسی سے سارے فتنے جڑے ہوئے ہیں، بل کہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج یہ سارے فتنوں کی ماں بن گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کے ایک ٹیلے پر چڑھ کر شاید اسی فتنے کو دیکھتے ہوئے فرمایا تھا:
’’میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کے قطروں کی طرح گرتا دیکھ رہا ہوں۔ (صحیح بخاری)
آج جب ہمارے گھروں میں ہر لمحہ بارش کے قطروں کی طرح فتنے گر رہے ہیں ان فتنوں سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو بچانے کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
1 – فتنہ بگاڑ اور خرابیاں پیدا کرنے والے اسباب سے حتی المقدور دور رہا جائے۔ ٹی وی کمپیوٹر اور موبائل پر ایسے پروگرام دیکھنے اور سننے سے بچا جائے ،جو دلوں میں وسوسہ اور شکوک و شبہات پیدا کرنے اور ایمان و اعتقاد خراب کرنے کا موجب بنتا ہو۔
2 – موجودہ میڈیا کے فتنوں سے اپنے ایمان کو بچانے کے لیے دین کا علم سیکھنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ کم علم اور ناپختہ اذہان کے لوگ اپنے آپ کو فتنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ جو فتنوں میں گرفتار نظر آتے ہیں یا تو وہ جاہل ہوتے ہیں یا صرف دنیاوی علم کے حامل یا علم شرعی حاصل کرنے کے باوجود اس فانی دنیا کے لیے اپنا ایمان بیچ چکے ہوتے ہیں،اس لیے حصول علم کے ساتھ ساتھ اس کے نفع بخش ہونے کی دعا بھی کرنا چاہئے۔
اللَّہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَیِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا۔
اے اللہ! میں آپ سے نفع پہنچانے والا علم پاکیزہ و حلال رزق اور مقبول عمل کی توفیق مانگتا ہوں۔
3- اپنا ایمان مضبوط بنانے کے لیے واجبات کی ادائیگی اور حرام سے اجتناب ضروری ہے۔ سب سے بڑا فرض نماز ہے، اس لیے نماز قائم کرنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے اور مقررہ وقت پر، شرائط، ارکان اور خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنا چاہئے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَأَقِمِ الصَّلَاَۃ إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنَْہیٰ عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنکَرِ}( العنکبوت: ۴۵)
’’اور نماز قائم کر، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم نماز کے ذریعے موجودہ میڈیا کی بے حیائی اور فتنوں سے بچنے کی سعی کریں۔
4- قرآن مجید کی تلاوت اور تدبر و تفکر، سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،حکایاتِ صحابہ کرامؓ ،احادیث مبارکہ اور دینی کتب و رسائل وغیرہ کو مطالعے میں شامل کرنا دینی پروگراموں کو دیکھنا اور دروس وغیرہ سننے کا اہتمام کرنا بھی میڈیا کے فتنوں سے بچنے اور ایمان و عقائد کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔
5 – ذکر الٰہی انسانی سوچ اور شعور و لاشعور کو متاثر کرنے والے میڈیا کے نفسیاتی فتنوں سے بچنے کا مجرب نسخہ ہے۔ ذکر الٰہی سے ضمیر زندہ رہتا ہے نفس کا تزکیہ ہوتا رہتا ہے دل پاک اور فتنوں سے بچا رہتا ہے۔ اسی لیے قرآن اور سنت میں ذکر و اذکار پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
{یایہا الذین اٰمنوا اذکروا اللّٰہ ذکرا کثیراo وسبحوہ بکرۃ و اصیلا}(الاحزاب:۴۱-۴۲ )
’’اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو۔ اور صبح وشام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔
{وَالذَّاکِرِینَ اللَّہََ کَثِیرًا وَالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُم مَّغْفِرۃً وَأَجْرًا عَظِیمًا }( الأحزاب:۳۵)
’’اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لیے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں مشغول رکھو۔
(مشکوۃ شریف)
ایک اور موقع پر فرمایا: ’’تمہاری زبان ہر وقت اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہیے۔‘‘(جامع ترمذی)
6 – دعاؤں کا اہتمام کرنا بھی فتنوں سے بچنے اور دین کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے؛ اسی لیے قرآن و سنت میں جامع دعاؤں کے ساتھ ساتھ صبح شام اور دیگر اوقات کے مسنون دعائیں سکھائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پڑھنے سے پہلے شیطان مردود سے پناہ مانگنا اور نماز کی ہر رکعت میں (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیم) ۔ہدایت طلب کرنا فرض کیا ہے ،تاکہ ایمان والے شیطان کے فتنوں سے محفوظ رہیں اورہدایت پائیں۔
اس کے علاوہ گناہوں سے اجتناب اور نیکیوں میں سبقت کرنا برے دوستوں سے پرہیز کرنا قابل اعتبار اہل علم اور صلحا کو دوست رکھنا ور ان کی محفلوں میں بیٹھنا وغیرہ بھی موجودہ میڈیا کے فتنوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔(جن پر مضمون کی طوالت کے پیش نظر تفصیل نہیں لکھا)۔
امید ہے کہ یہ تحریر موجودہ میڈیا کے نفسیاتی فتنے کی سنگینی کو سمجھنے اور ان سے بچنے میں معاون و مدد گار ثابت ہوگی۔ اب آئیے فتنوں سے بچنے کے لیے دعا کر تے ہیں: اے اللہ تعالیٰ ہم ہر طرح کے فتنوں سے آپ کی پناہ مانگتے ہیں۔ ہمیں ہمارے اہل و عیال والدین دوست احباب اور تمام مسلمانوں کو موجودہ شیطانی و دجالی میڈیا کے فتنوں اور دیگر تمام فتنوں سے اپنی حفاظت میں رکھئے۔ آمین یا رب العالمین!