مفتی محمد افضل اشاعتی / استاذ جامعہ اکل کوا
الحمد للّٰہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی سید البشر محمّد و آلہ واصحابہ اجمعین اما بعد !
فاعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
{وَاسْتَفْزِزْ مَنِ استَطَعْتَ مِنْہُمْ بِصَوْتِکَ وَاَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکْہُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْھُمْ ط وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا }(الاسراء : ۶۴)
قارئین کرام ! آج موسیقی (میوزک) ایک عام سی چیز ہوگئی ہے ، جسے آج کا نوجوان گناہ سمجھتا ہی نہیں؛حتی کہ یہ بھی دیکھنے میںآیا کہ بعض دینی امور میں بھی میوزک کو داخلہ دے دیا گیا ہے ۔ نعتوں ، نظموں اور حمد میں تو میوزک کو ایسا داخل کردیا گیا کہ اب میوزک لوگوں کے مزاج میں ہی داخل ہوگیا کہ اگر کوئی نعت یا حمد بغیر میوزک کے ہو تو اس کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہوتی ، جو میوزک والی نعتوں اور حمدوں کو ہوتی ہے ؛جب کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ گانے بجانے کاکام سب سے پہلے شیطان نے ایجاد کیا ، یعنی گانے بجانے کا موجِد اور بانی شیطان ہے ۔ اور یہ شیطان کی منادی اور اذا ن ہے، جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو بلاتا اور گمراہی کے جال میں پھنساتا ہے ۔ قرآن و حدیث میں گانے بجانے کی سخت ممانعت اور وعید بیان ہوئی ہے ، بل کہ قیامت کی نشانیوں میں سے گانا بجانا بھی ایک نشانی ہے ؛ لیکن افسوس صد افسوس گانے اور میوزک کا پیشہ اس قدر عام ہوگیا ہے کہ اسے مہذب شہریوں اور معزز خاندانوں نے بھی اپنا لیا ہے ۔ کمینے لوگوں کے نام بدل دیے گئے ہیں ،آج ناچنے گانے والا کنجر نہیں؛ بل کہ گلو کار اور ادا کار کہلاتا ہے۔اور ڈھول بجانے والا نٹ اور میراثی نہیں ، بل کہ موسیقار اور فن کار کے لقب سے نوازا جاتا ہے اور ایسے لوگوںکو باقاعدہ ایوارڈ دیے جاتے ہیں اور برائی کی اس طرح حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ ان کی عزت و شہرت کا چرچا دیکھ کر بقیہ لوگ بھی اس گمراہی کے کام میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ ان ساری صورتوں کو دیکھ کر بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے ؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
سب سے پہلے ہم میوزک کی حرمت پر دلائل پیش کرتے ہیں :
{وَاسْتَفْزِزْ مَنِ استَطَعْتَ مِنْہُمْ بِصَوْتِکَ وَاَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکْہُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْھُمْ ط وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا }(الاسراء : ۶۴)
’’اوران میں سے جس جس پر تیرا بس چلے انہیں اپنی آواز سے بہکالے ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کی فوج چڑھا لا اور ان کے مال اور اولاد میں اپنا حصہ لگالے اور ان سے خوب وعد ے کرلے ۔ اور حقیقت (یہ ہے کہ ) شیطان ان سے جو وعدہ بھی کرتا ہے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ ‘‘
حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کے مطابق آیت میں صوت سے مراد گانا بجانا ، لہو و لعب، فضول اور بے کار قسم کے کام ہیں ۔ روح المعانی میں ابن جریرکی روایت کے الفاظ یہ ہیں : ’’بصوتک قال باللہو والغنا ‘‘ یعنی صوت سے مراد لہو اور گانا ہے ۔علامہ سیوطی ؒ ’’ الاکلیل فی استنباط التنزیل ‘‘ میں ابن حاتم سے روایت کرتے ہیں کہ قال مجاہد: صوت الغنا والمزامیر وقال الحسن: الدف یعنی مجاہد ؒ نے صوت کی تفسیر گانے اور آلات غنا سے کی ہے ۔ اور حسن بصری ؒ نے صوت سے مراد ’’دف ‘‘ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی سیکڑوں دلائل ہیں ۔
موسیقی (میوزک) کے سننے پر وعید یں :
الف: عن ابی مالک الاشعری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :’’لیشربن ناس من امتی الخمر یسمونہا بغیر اسمہا وتضرب علی رؤسہم بالمعازف والمغنیات یسخف اللہ بہم الارض ویجعل منہم القردۃ و الخنازیر ‘‘ ۔ (السنن لابی داؤد)
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے کچھ لوگ شراب کا نام بدل کر اسے پئیںگے ۔سازوں کی دھنوں اور مغنیاؤں کے گیتوں سے ان کی تفریح کا سامان کیا جائے گا ،اللہ تعالیٰ انہیں اس جرم کی وجہ سے زمین میں دھنسا دے گا اورجو باقی رہ جائیںگے ان میں سے بعض کو بندر اوربعض کو خنزیر بنادے گا ۔
ب : امام قرطبی ؒ کی کتاب’’ الجامع لاحکام القرآن ‘‘ تمام اہل سنت والجماعت میں بڑی اہمیت کی حامل ہے ، اس میں ہے کہ عن انس ابن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’من جلس الی قینۃ یسمع منہا، سب فی اذنہ الآنک یوم القیامۃ ‘‘ ۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی گـلوکارہ کی مجلس میں بیٹھے اور اس کا گانا سنے، تو قیامت کے دن اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا ۔
ج: امام ہیثمی اپنی جلیل القدر کتاب ’’ مجمع الزوائد ‘ ‘ میں درج فرماتے ہیں : عن انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ صوتان ملعونان فی الدنیا والآخرۃ مزمار عند نغمۃ ورنۃ عند مصیبۃ ‘‘۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو طرح کی آوازوں پر دنیا میں بھی اللہ کی لعنت ہے اور قیامت کے دن بھی ان پر پھٹکار ہوگی ، پہلی قسم کی آواز لَے اور سُروں سے گانا۔ دوسری قسم کی آواز مصیبت کے وقت بین کرنا ۔
میوزک کے نقصانات :
پہلا نقصان : ’’مقاصد زندگی سے غفلت ‘‘۔ میوزک کا سب سے بڑا اور اہم نقصان یہی ہے کہ وہ انسان کو عارضی لذتوں میں گم کردیتی ہے اور اس میں موجودتلاش ِحق کے جذبہ کو دبا یا بھلا دیتی ہے ؛کیوں کہ ان میں منہمک ہونے کے بعد انسان میں لذت کو شی اور سرور پسندی کے جذبات بڑھتے جاتے ہیں اور دنیا کی محبت اور مادہ پرستی اس کے دل میں جگہ پکڑتے جاتے ہیں ، اسی لیے ان چیزوں میں کھو جانے کے بعد انسان کو اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ یہ غور کرے کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اسے دنیا میں کیوں پیدا کیا گیا ہے ؟ اس کی قوتوں اور صلاحیتوں کا مصرف کیا ہے ؟ اسے مرنا بھی ہے یا نہیں ؟میوزک و موسیقی کی یہی خصوصیت ہے جس کی بنا پر آلاتِ موسیقی کو عربی میں ’’ ملاہی ‘‘ (غافل کرنے والی چیز )کہا جاتا ہے۔
دوسرا نقصان : ’’پیدائش ِنفاق ‘‘۔ الغنا ء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل یعنی گانا (راگ ، میوزک) دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے ، جس طرح پانی سبزی کو بڑھاتا ہے۔
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ موسیقی اور گانا بجانے میں اشتغال دل میں نفاق پیدا کرتا ہے اور یہ چیز ایک مسلمان کے لیے اس کے ایمان کے ضیا ع کا سبب بن سکتی ہے ۔ علما نے اس سلسلے میں بہت غور وفکر کیا ہے کہ آخر تمام معاصی میں موسیقی ہی کی کیا خصوصیت ہے کہ اس سے نفاق پیدا ہوتا ہے ؟ دوسرے یہ کہ ان سے پیدا ہونے والے مضرات میں نفاق ہی کو کیوں خاص طور پر بیان کیا گیا ہے ؟ اس سلسلے میں سب سے عمدہ بحث حافظ ابن قیم ؒ نے کی ہے جو مندرجہ ذیل ہے :
موسیقی (میوزک ) کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ قرآنِ کریم کے مخالف ہے ،ایک حدیث میں اسے شیطان کا قرآن قرار دیا گیا ہے ؛اسی وجہ سے میوزک میں اشتغال انسان میں غفلت پیدا کرتا ہے کہ آدمی میں قرآنِ کریم کو سمجھنے، اس پر غور وفکر کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ اورشوق ہی ختم ہوجاتاہے اورنفاق کی بھی یہی حقیقت ہے کہ ظاہر میں کچھ ہواور باطن میں کچھ ۔
تیسرا نقصان: ’’ فحاشی اورعریانیت ‘‘۔ جس معاشرہ میں میوزک عام ہوجاتی ہے ،دیکھاگیا ہے کہ وہ معاشرہ فحاشی اور عریانیت کے تباہ کن اثرات سے دوچار ہوجاتا ہے۔ فحاشی اور عریانیت ایسی تباہ کن چیزیں ہیں ، جو اگر کسی معاشرہ میں عام ہوجائیں تو اسے صفحۂ ہستی سے مٹاکر ہی دم لیتی ہیں؛کیوں کہ واقعہ یہ ہے کہ شہوانی قوت وہ قیمتی شئ اور جوہر ہے ، جو ایک طرف تو نوعِ انسانی کے بقا کا کام دیتی ہے اور دوسری طرف انسان کو وہ طاقت مہیا کرتی ہے ، جواسے اعلیٰ اور تعمیری کام کرنے میں مدد دے ؛اسی وجہ سے اس قوت کی حفاظت اور اسے ضیاع سے بچانا بہت ضروری ہے ۔ علاوہ ازیں شہوانی قوت کا بے جا استعمال جس طرح صحتِ انسانی کو برباد کردیتا ہے اسی طرح معاشرے میں بد اخلاقی پیدا کرتا ہے اور بے چینی واضطراب اور خانگی زندگی کی تباہی کا سبب بنتا ہے ،جو میوزک میں اشتغال کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔
میوزک شیطان کی سرگوشیاں ہیں :
حضرت مولانا مفتی ابو لبابہ صاحب نے زبر دست تحقیق پیش کی ہے کہ میوزک کی دنیا میں’’ بیک ٹرکنگ‘‘ ذہنوں کو گرفت میں لینے کی ایک خفیہ ٹیکنک ہے ۔ موسیقی کے شائقین جو کچھ سنتے ہیں ، وہ ٹریک کا’’ فارورڈ پلے ‘‘ ہوتاہے ،اس کے ساتھ ہی ریورس میں’’ ٹریک میسیج ‘‘چھپا ہوتا ہے ، اس کا معاملہ عجیب متضاد ہوتا ہے ۔ یہ ہمارے شعور کی گرفت میں نہیں آتا ، لیکن لاشعور اسے قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا ، یہ ہمارے شعور پرمنکشف نہیں ہوتا ، لیکن ہمارا لاشعور اسے ڈی کوڈ کرکے قبول کرلیتا ہے ؛جب ٹریک کو بیک ورڈ چلایا جائے تو اس میسیج یا پیغام کو سنا جاسکتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک ریکاڑڈ یا کیسٹ کو الٹا چلایا جاتا ہے ؛اصل پیغام اسی میں چھپا ہوتا ہے ۔ اسی ذہنی گرفت والے طریقۂ کار کا تجربہ خود کیجیے یا پھر وہ آڈیو کیسٹ سنیے جنہیں’’ شیڈوز‘‘کہا جاتا ہے ۔ عملی مثال بھی ملاحظہ فرمالیجیے:
آسٹریا وسطی یورپ کا وہ ملک ہے جو یہود کا گڑھ رہا ہے ،اس کا دارالحکومت ’’ ویانا‘‘ موسیقی کے حوالے سے دنیا بھرمیں شہرت رکھتا ہے ؛یہاں کے اوپیرا او ر ان میں مصروف کار پیانو بجانے کے ماہرین دنیا بھر میں اپنی علا حدہ شناخت رکھتے ہیں ۔ وولف گانگ آسٹریا کا نامور ترین موسیقار ہے ، اس نے ایک دھن بنائی ہے، جسے ریلیز ہوتے ہی افسانوی شہرت مل گئی ،برادری اپنے منصوبوں کو یوں ہی آگے بڑھاتی ہے ۔ اس دھن کا نام ’’ دی میجک فلوٹ ‘‘ رکھا گیا ہے، اس کے بعد اس نے ’’ ایکویم میس‘‘ بھی لکھی تھی ، یہ بھی ہٹ(Hit ) ہوئی ۔
دنیا میں اس طرح کی بہت سی چیزیں ہٹ ہوتی ہیں اور دیکھتے دیکھتے ہر چھوٹے بڑے کے ذہن میں گونجتی اور دماغوں پر چھاجاتی ہیں ،اس کے پیچھے کون ہوتا ہے ؟ اس کے پسِ منظر میں کیا پیغام ہوتا ہے ؟ حدیث شریف کے مطابق موسیقی دل میں نفاق کے جذبات اگاتی ہے ، اس طرح کی موسیقی سننے والے کے دل کی تاریں جب جھرجھری لیتی ہیں تو اسے کیا محسوس ہوتا ہے؟ اس کا دل کیا کچھ کرنے کو چاہتا ہے ؟ یہ اس پیغام کا معکوس نقش ہے ، جو اس کے کانوں کے ذریعہ اس کے دماغ کے نہاںخانوں تک پہنچ جاتا ہے ۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔
ہر چند مہینوں کے بعد ہمیں کسی پاگل کی کہانی سننے کو ملتی ہے ۔ امریکہ میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ اچانک کوئی شخص اٹھ کر لوگوں پر فائرنگ شروع کردیتا ہے ۔ ابھی چند ایام قبل جو نیوزی لینڈ میں حادثہ فاجعہ پیش آیا ، جس میں ایک نوجوان نے جمعہ کے وقت میں مسجد میں اندھا دھند فائرنگ کی ، جس میں ۵۰؍ مسلمان شہید ہوئے ،معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ وہ بھی اپنی گاڑی میں میوزک بجا رہا تھا ۔ یہ درحقیقت ذہنی طورپر گرفت میں لیے گئے لوگوں کی ایک شیطانی مثال ہے ۔ ہوتا یوں ہے کہ میوزک کے بیک ورڈ میں مختلف قسم کے شیطانی پیغامات مثلاً Kill your felose mum فٹ کردیے جاتے ہیں ، جس کا معنی یہ ہے کہ تم اپنی ماں کو مار دو؛ جب بچہ یا نوجوان یہ میوزک سنتا ہے ،تو ان کے پیچھے موجود ان کے بے ہودہ پیغامات آہستہ آہستہ اس کے لاشعور میں جاگزیں ہوجاتے ہیں ،وہ کچھ عرصہ بعد اندرونی ذہنی تحریک کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ سب شیطانی کام کرگزرتاہے ، جن کا خود اسے بھی پتہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ اس نے کیوں کیا ؟انسانی ذہنوں سے یہ شیطانی کھیل کھیلنا قومِ یہود کے ان کارناموں کی جھلک ہے، جن کی بنا پر وہ بندر اور خنزیر بنائے گئے۔
قارئین کرام ! مذکورہ بالا مضامین سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ دجال کے فتنوں میں میوزک اور گانوں میں چھپے شیطانی پیغامات بھی شامل ہیں، لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہم مسلمانوں میں اکثریت ان کی ہے جو ان شیطانی حربوں سے واقف ہی نہیں ۔اور جولوگ واقف ہیں وہ ان ساری باتوں کو جاننے کے باوجود بھی ڈش اورموسیقی نہیں چھوڑتے ۔ ہمیںخود اپنی اوراپنے اولاد کی فکر کرنی چاہیے ۔ آخر میں دعاہے کہ اللہ پوری امتِ مسلمہ کی میوزک سے اور اس کے ذریعہ کی جانے والی سازشوں سے حفاظت فرمائے ۔ آمین!