الذین إذا اصابتہم مصیبة قالوا إنا للہ وإنا إلیہ راجعون
عبید الرحیم رویدروی
اس دنیائے کون ومکاں میں چند لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کا وجود ہمارے لیے ہر قسم کی سعادت اور عافیت وسکون کا ذریعہ ہوتا ہے، ان کے ہونے سے زندگی خوشگوار؛ اور نہ ہونے سے زندگی گزارنا دوبھر ہوجاتا ہے، جن کا وصل وقرب نعمت ِغیر مترقبہ ہوتی ہے، جن کی جدائی اور عدم موجودگی سے دل افسردہ ومغموم رہنے لگتا ہے۔ ایسے ہی خاص الخاص لوگوں میں سے ایک میرے عم محترم، شفیق ومہربان، غمخوار وغم گسار، باوقار وخلیق، باوفا چچا، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب رحمة اللہ علیہ رحمة واسعةً تھے، جو ۱۲/اپریل ۲۰۲۰ءء کو علی الصباح اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون إن للہ ما اخذ ولہ ما اعطی۔
اللہ تعالیٰ چچا محترم کی قبر کو منور فرمائے، غریق رحمت فرمائے، اور جملہ مساعیٴ جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین۔
جب سے شعور سنبھالا ہے اُس وقت سے لیکر آج تک والد بزرگوار کے علاوہ اگر کسی کو اتنا شفیق ومہربان پایا ہو تو وہ حضرت والا رحمة اللہ علیہ کی ذات ِگرامی تھی۔ ہر غمی وخوشی میں شریک، ہرآن وہرلمحہ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتے، گلے لگانا، دست ِشفقت پھیرنا اور ملتے ہی ایک خاص لفظ جو اُن کی زبان سے نکلتا وہ ہوتا: ”بیٹا! کیا حال ہے؟“، وہ مسکراتے چہرے کے ساتھ یہ لفظ دل کو متأثر کرتا ہوا بدن کے ذرے ذرے میں رچ بس جاتا، اور یہ صرف کبھی کبھار نہیں؛ ہر آمدورفت کے موقع پر حضرت کا یہی انداز ہوتا، اور یہ انداز ایسا کہ ہرپہلی ملاقات کرنے والے کو بھی متاثر کردیتا۔ چناں چہ حضرت مولانا عاقل صاحب دامت برکاتہم جب گجرات کے دورے پر تشریف لائے تھے تو دورانِ ملاقات حضرت والا رحمة اللہ علیہ سے فرمایا کہ آپ کا اندازِ گفتگو بہت عمدہ وشائستہ ہے، کہ پہلی ملاقات میں مخاطب کا دل موہ لیتے، اپنا گرویدہ بنالیتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جامع الکمالات بنایا تھا، اللہ تعالیٰ نے خوب نوازا تھا۔
میرے چچا محترم میدانِ خطابت کے شہسوار تھے، کوئی بھی موضوع وٹوپک پر برجستہ ایسا کلام کرتے کہ سامعین دنگ رہ جاتے، مخاطب کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں؛ ان کے ذہن وطبع کے مطابق کلام کرتے، فصاحت وبلاغت تو آپ کے گھر کی لونڈی تھی، مشکل سے مشکل مضمون کو نہایت عام فہم اور مختصر انداز میں پیش فرماتے۔ چناں چہ ۱۴۴۱ئھ کے رمضان المبارک سے قبل حضرت مولانا قاری احمدعلی صاحب دامت برکاتہم (بانی وشیخ الحدیث، جامعہ فیض سلیمانی، موٹی نرولی) کے خطاب کا پروگرام عمرواڑا گاوٴں میں تھا، تو حضرت رحمة اللہ علیہ کے ساتھ بندہ بھی شریک مجلس ہوا تھا، قاری صاحب کے خطاب سے قبل حضرت رحمة اللہ علیہ کو خطاب کے لیے مدعو کیا گیا، چوں کہ رمضان کی آمد آمد تھی؛ تو حضرت نے اپنے مختصر خطاب میں فرمایا:”رمضان سے قبل تین امور کو پلّے باندھ لو: (۱) استقبال رمضان، (۲) استعداد رمضان، (۳) استعمال رمضان“، پھر ان تینوں امور کی خوب وضاحت فرمائی۔ یہ حضرت کا خاص وصف تھا کہ ہر ٹوپک کو اسی طرح مختصراً نقل کرتے، بلکہ اس کے لیے آپ نے ڈائری تیار کررکھی تھی۔بطورِ نمونہ ایک یہ بھی کہ نکاح کے لیے ۴/جزء بہت ضروری ہیں: (۱)انتخاب صحیح، (۲)اغراض صحیحہ، (۳)انعقادصحیح، (۴)ارتباط صحیح، ان ہی الفاظ میں نکاح کا مکمل ومدلل خلاصہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرمادیتے۔
حضرت کا خطاب بہت مختصر ہوتا، لیکن معنویت کے اعتبار سے لبریز ہوتا، زبان میں تاثیر، طلاقت لسانی، الفاظ کا صحیح استعمال، آواز کا نشیب وفراز، مواد کا حسن ِانتخاب؛ یہ حضرت کی تقریر وخطابت کے نمایاں پہلو تھے۔ یہی وجہ رہی کہ جب جامعہ مظہر سعادت، ہانسوٹ میں اردو انجمن کے قیام کا ارادہ کیا گیا تو والد بزرگوار نے اپنے لائق وفائق برادر خرد کو یاد فرمایا، آپ ہی کے ہاتھوں انجمن مظہر البیان کی بنیاد رکھی گئی۔ انجمن مظہر البیان کے آغاز سے لیکر جب تک والد بزرگوار وہاں رہے؛ انجمن کا کوئی سالانہ اجلاس ایسا نہیں جس میں آپ رحمة اللہ علیہ کی آمد نہ ہوئی ہو۔ اسی طرح سالانہ انعامی اجلاس میں بھی مسلسل آتے رہتے تھے۔ جمعہ کے دن بھی جب بھی آمد ہوتی؛ قبل الجمعہ ضرور خطاب فرماتے، بلکہ مجھے یاد ہے کہ آپ کے بغیر اجلاس کا تصور ممکن نہیں تھا، جب بھی کسی پروگرام کا منصوبہ بنتا؛ اُس میں جس شخصیت کا نام پہلے پہل آتا وہ آپ کی شخصیت ہوتی، اور آپ بھی جامعہ ہانسوٹ آکر جو خطاب فرماتے؛ حق ادا فرمادیتے۔ آپ کا خطاب ہو تو آنکھیں نمدید ہ ہوجاتیں، قلوب متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے، اور آپ سب کو اپنا قائل کرلیتے تھے۔ الغرض؛ اللہ تعالیٰ نے اظہار مافی الضمیر کا ایک خاص ملکہ عنایت فرمایا تھا۔
میرے چچا نے میدانِ کتابت میں بھی بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے، ان کی بڑی اہم تصانیف منصہ شہود پر آئی ہے، طالبانِ علومِ نبوت نے اس سے وافر استفادہ کیا۔ یہاں جملہ تصانیف کا احاطہ تو مشکل ہے؛ لیکن میں ایک تصنیف لطیف کا ضرور ذکر کروں گا، جس میں آپ نے اپنا خونِ جگر نکال کر رکھ دیا تھا، اس کتاب کا حرف حرف دل کے تاروں کو چھیڑ دیتا ہے اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، وہ کتاب ہے”توشہٴ راہِ حیات یعنی تحفہٴ بیٹی“، یہ کتاب حضرت والا نے اپنی بڑی بیٹی (جو میرے برادرِ کبیر کے نکاح میں ہے) کی رخصتی کے موقع پر تحریر فرمائی تھی، جس میں رخصتی کے موقع پر دلہن کے جذبات، والدین کی کیفیت اور دیگر نصائح وہدایات پر مشتمل مضامین ہیں، دولہا ودلہن کے لیے وہ مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔
حضرت رحمة اللہ علیہ کا مزاج ومذاق بہت عمدہ تھا، اور یہ بات اُس وقت کھل کر سامنے آتی جب آپ کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملتا۔ حضرت کے ساتھ مجھ ناچیز کو متعدد مرتبہ سفر میں ساتھ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی، سفر میں حضرت اپنے چھوٹوں کا بہت خیال رکھتے، طبیعت ومزاج کے خلاف کوئی بات پیش آتی تو کبھی ناگواری کا اظہار نہ فرماتے۔ چناں چہ ایک مرتبہ حضرت کی معیت میں سفر حج ہوا، اور ظاہر ہے کہ سفر حج تو کلفتوں اور مشقتوں سے مملوء ہوتا ہے، ہمارا سفر بھی کچھ ایسا ہی تھا، لیکن حضرت رحمة اللہ علیہ کی معیت کی وجہ سے سفر حج فرحاں وشاداں پایہٴ تکمیل کو پہنچا۔ سفر حج میں حضرت کی کیفیت وحالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے قیام کے دوران حضرت کی وارفتگی عجیب وغریب تھی، بہت ہی عاشقانہ ومستانہ، جذبہٴ توحید سے لبریز، الفت ومحبت سے معمور، دل ودماغ عظمتِ بیت الٰہی سے مملوء، قلب وجگر انوار وبرکات سے بھرپور، آہ وبکا سے سوختہ، آنکھیں زیارتِ روضہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مخمور، پراں وکشاں کبھی یہاں تو کبھی وہاں، پراگندہ بال، نہ پاپوش کا احساس، بالکل ”الحاج الشعث التفل“ کی منہ بولتی تصویر؛ یہ کیفیت تھی حضرت کے سفر حج کی۔
اسی طرح حضرت کے ساتھ ایک مرتبہ جامعہ ابوہریرہ، بدناپور، اورنگ آباد کا سفر ہوا تھا، وہاں آل مہاراشٹر مسابقة القرآن الکریم کا پروگرام تھا، تو حضرت نے مجھ ناچیز کو بطورِ حکم آنے کا حکم دیا، چناں چہ میں وہاں رات دیر سویر پہنچا، تو حضرت پہلے سے ہماری آمد کا انتظار کررہے تھے، ہمیشہ کی طرح پُرجوش استقبال کیا، اور ہمارے آرام وراحت کا پورا خیال رکھا، جب صبح ہوئی تو حضرت رحمہ اللہ کی خردنوازی وذرہ نوازی دیکھیے! آپ کو معلوم تھا کہ یہ فریضہٴ تحکیم میرے لیے پہلا مرحلہ ہے، تو مجلس سے قبل طریقہٴ تحکیم کے اسرار ورموز سکھائے اور یہ بھی بتلایا کہ اس فریضے کی ادائیگی میں کن کن باریک نکات کا لحاظ کیا جاتا ہے، اور تکمیل ِمجلس کے بعد تأثرات کا مرحلہ تھا، وہ بھی مجھ ناچیز کے لیے پہلی مرتبہ تھا، تو حضرت نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تأثرات پیش کرنے کا طریقہ بھی بتلایا، لیکن بعد میں اس کی نوبت نہیں آئی۔ اسی طرح اور بھی بہت سارے مواقع میں حضرت کے ساتھ سفر کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، ہروقت یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ حضرت بہت ذرہ نواز، خوش مزاج، ملنسار، شفیق ومہرباں، جلال وجمال کے جامع،خصائل ِحمیدہ واوصاف جمیلہ کے پیکر، مرنجامرنج طبیعت کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت کے نقش پا کا اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
پیارے چچا محترم کا اپنے بھتیجوں کے ساتھ بھی بڑا نرالا تعلق تھا، جب بھی ملتے خندہ پیشانی کے ساتھ، ہمیشہ ہنس مُکھ چہرے کے ساتھ، ہر ملاقات میں آپ کا انداز بہت ہی شفقت ومہربانی والا ہوتا۔ جب تک ہم ہانسوٹ میں تھے؛ بڑا ہمدردانہ وقدردانی کا تعلق رکھا، وہاں جب بھی تشریف لاتے گراں قدر پند ونصائح سے نوازتے رہے، درس وتدریس، تقریر وخطابت اور اہتمام وانصرام کے گُر سکھاتے رہے، اور اپنی تمام تر صلاحیتوں وتجربات کی روشنی میں آگے بڑھنے کے اصول ونقوش فراہم کرتے رہے، اور بہت متواضعانہ، منکسرالمزاج ہوکر ہماری تعلیم وتربیت میں ایک حقیقی باپ کی طرح حصہ لیا، جوبھی بات کہتے بھرپور خلوص واعتماد کے ساتھ کہتے کہ ہم آپ کے خلوص کے سامنے رام ہوجاتے تھے، کوئی بھی خوبی نظر آتی اُس پر حوصلہ افزائی کے کلمات کہتے، اور اگر کوئی کمی کوتاہی نظر آتی تو اصلاح کی نیت بے ضرر نرمی سے تنبیہ فرماتے رہے۔
یہ حالت وکیفیت تو اُس وقت تھی جب والد بزرگوار اور ہم جامعہ ہانسوٹ میں تھے، لیکن ۲۰۱۷ءء میں جو قضیہٴ نامرضیہ پیش آیا، اور بعض نادان لوگوں کی نادانی کی وجہ سے والد بزرگوار نہ بیان کیے جانے والے کربناک رنج وغم میں گرفتار ہوگئے، جس کی وجہ سے پس دیوارِ زندان کو بھی گوارا کرنا پڑا، تو اس کے بعد سے لیکر تادمِ حیات یعنی آخری تین سالوں میں حضرت کا تعلق ہمارے ساتھ ایسا ہوگیا کہ جس کو بیان کرنے سے ہماری زبان عاجز وقاصر ہے، اللہ تعالیٰ ہی اس کا بدلہ عنایت فرمائے گا-ان شاء اللہ العزیز- کبھی بھی والد بزرگوار کی عدم موجودگی کا احساس تک نہ ہونے دیا، چھوٹی بڑی ہر ضرورت کا خیال رکھتے، بلکہ میرا ناقص خیال یہ ہے کہ آپ جیسے باوفا ومخلص چچا لوگوں کو خال خال ہی ملتے ہیں۔
حضرت ہم لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ تھے، اور ہمارے والد صاحب کے ساتھ بھی خاص الخاص تعلق تھا؛ اخوت کا، محبت کا، ایثار وقربانی کا اور والد صاحب کو بھی اپنے برادر صغیر سے انتہائی درجے کا ربط وتعلق تھا، اس تعلق کو بیان کرنے کے لیے دفتر کے دفتر چاہیے، ہمیشہ والد صاحب کے معتمد رہے، اور والد صاحب نے جو اعتماد وبھروسہ کیا تھا؛ تادم ِآخر اس پر پورے اترے۔ والد صاحب کے اعتماد وبھروسے کو ٹھیس نہیں پہنچائی، ہر آن وہرلمحہ اپنے بھائی کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے رہے، یسر وعسر ہر حالت میں ساتھ رہے۔
یہی وجہ رہی کہ حضرت رحمة اللہ علیہ کی وفات ِحسرت آیات کی اطلاع ۱۲/اپریل کو فوراً والد بزرگوار کو نہیں کی گئی،ا س لیے کہ اگر اس واقعہٴ فاجعہ کی اطلاع اسی وقت دے دی جاتی تو والد صاحب تو قید وبند میں تھے، اور اس حادثے کا جو اثر آپ پر ہوتا اُس سے سلاخوں کے پیچھے آپ کو سنبھال پانا بہت مشکل ہوجاتا، قید وبند کی تنہائی میں آپ کو کون دلاسہ دیتا!! اس لیے جان بوجھ کر والد صاحب کو اطلاع نہیں دی گئی، لیکن اللہ کا نظام دیکھیے کہ واقعے کے پانچ ہی دنوں بعد تاریخ ۱۷/اپریل ۲۰۲۰ءء کو والد صاحب عارضی طور پر رہا ہوکر گھر تشریف لے آئے، اور بعد المغرب گھر پہنچنے کے بعد بھی ہم میں سے کوئی اس واقعے کی اطلاع دینے کے لیے ہمت جُٹا نہیں پایا، لیکن ظاہر ہے کہ بہرحال اطلاع تو دینی ہے؛ اس لیے بستی رویدرا کے چند موٴقر افراد کو زحمت دی گئی، انہوں نے آکر حضرت رحمة اللہ علیہ کی وفات کی اطلاع دی۔ سننے کے بعد اولاً تو والد صاحب کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا، ان کا دل اس کو ماننے کے لیے آمادہ ہی نہ تھا، لیکن جب دوتین مرتبہ صاف طور پر سمجھایا گیا تو اب والد صاحب کے پیروں تلے زمین کھسک گئی، زاروقطار رونے لگے، اور پہلا جملہ جو آپ کی زبان سے نکلا؛ وہ یہ کہ ”یہی خبر دینے کے لیے مجھے گھر لائے ہو؟؟“۔ اس لیے کہ گذشتہ رمضان میں گھر آئے تھے تو بہن ”ام مولانا مجتبیٰ صاحب (شیخ الحدیث جامعہ عالی پور)“ کے انتقال کی خبر دی گئی تھی اور اب اس سال قبل رمضان گھر تشریف لائے تو باوفا، مخلص ومعتمد برادر صغیر کی وفات کی اطلاع دی گئی۔
یہاں ٹھہر کر آپ صرف تصور کیجیے کہ ایک ذات کے اوپر پے درپے مصائب وآلام کے کتنے طوفان بپا ہیں!! پہلے ماں کے سایے سے محروم، پھر چند ہی ماہ بعد آپ کے خون سے سینچے ہوئے جامعہ اور آپ کی ذات پر پے درپے یلغار، زندان کی صعوبت، بیماری وپیرانہ سالی، اسباب کے درجے میں جس بھائی سے بہت سی امیدیں قائم تھیں وہ بھی الوداع کہہ گئے، چھوٹی بہن داغِ مفارقت دے گئی، پھر بھی زبان پر حرف شکایت نہیں۔ واقعتاً انبیا کے بعد ابتلاء وآزمائش میں انہیں لوگوں کو مبتلا کیا جاتا ہے جو انبیا کے نقش قدم پر زیادہ چلنے والے ہوں،”اشد الناس بلاءً الانبیاء، ثم الامثل فالامثل“۔
الغرض جب والدصاحب کو حضرت کی وفات کی اطلاع دی گئی تو آپ کی ذات پر اس واقعے کا بہت زیادہ اثر ہوا، اور زبان سے صرف ایک ہی جملہ بار بار دہراتے رہے کہ ”میرا بھائی بہت پیارا تھا، میرا بھائی قرآن کا مبلغ تھا، میرا بھائی قرآن کے نعرے ملک بھر میں بلند کرتا تھا، میرا بھائی قرآن کی خدمت کرتا کرتا چلا گیا، میرا بھائی اتنی کم عمر لے کر آیا تھا!!“۔ حضرت کا اس طرح چلے جانا والد بزرگوار کے لیے ہوش ربا ہے، نہ پُر ہونے والا خلا ہے، اس لیے کہ ہمارے والد ایک حقیقی، مخلص، سچے رازدار سے محروم ہوگئے، والد صاحب ہر چھوٹے بڑے معاملے میں ان سے مشورہ لیتے، اسی طرح حضرت رحمة اللہ علیہ اپنی شب وروز کی کارگزاری اپنے بڑے بھائی کو سناتے، دونوں بھائی میں اس طرح کا خاص الخاص تعلق وربط تھا۔
میں آپ رحمة اللہ علیہ کی والد بزرگوارکے تئیں قربانی وجاں نثاری کتنی تھی؛ اس کے لیے حضرت کا صرف ایک جملہ نقل کردیتا ہوں۔ ایک مخلص آدمی کو حضرت مفتی صاحب کے احوال وکیفیات بتاتے ہوئے اخیر میں فرمایا کہ اگر حضرت مفتی عبد اللہ صاحب کے لیے مال تو کیا؛ جان بھی دینی پڑے تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔ اور میں نے حضرت والا رحمة اللہ علیہ کی کئی دعاوٴں میں والد بزرگوار کے لیے یہ دعا کرتے ہوئے سنا ہے کہ ”اے اللہ! ہماری عمر کے ماہ وسال حضرت مفتی صاحب کو عنایت فرمادے“۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا کو بہترین بدلہ عنایت فرمائے، اعلیٰ علیین میں جگہ عنایت فرمائے۔ آمین۔
میں اخیر میں ایک بات ضرور ذکر کرنا چاہتا ہوں اور اس سے فالِ نیک لیتا ہوں، وہ یہ کہ جب حضرت رحمة اللہ علیہ بیمار ہوکر سنیچر کے دن کھروڈ ہاسپٹل تشریف لائے تو بعد العصر بغرض عیادت جانا ہوا، دورانِ گفتگو حضرت والد صاحب کی تصانیف وتالیفات کا ذکر آیا، چوں کہ ”اسعد الغایات“کی طباعت میں حضرت والا ہی کی مسلسل توجہ رہی تھی؛ تو دورانِ گفتگو یہ بات آئی کہ حدیث التسبیح یعنی بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس جو ترتیب وتہذیب کے دور سے گذررہا ہے، اور چند صفحات ٹائپ بھی ہوچکے ہیں، اور وہ ہمارے موبائل میں ہیں، تو حضرت نے فوراً دیکھنے کے لیے مانگے، اور ایک دو صفحے پڑھے، گویاکہ آخری کتاب جو آپ کی نظر سے گذری وہ ”اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری“ کی آخری حدیث پر مشتمل؛ یہی حضرت والدبزرگوار –اطال اللہ بقائہ علینا بالعافیة-کی آخری حدیث کی تقریر تھی۔
ہم اس سے فالِ نیک لیتے ہیں، چوں کہ حدیث التسبیح کے شروع میں والد صاحب نے حدیث مسلسل بالاولیة ارحموا من فی الارض، یرحمکم فی السماء پر گفتگو فرمائی ہے، اُسے دیکھ کر حضرت والا نے فرمایا: ”حدیث مسلسل بالاولیة کے بارے میں والد صاحب ایک خاص بات فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے دو نام ہیں: من حیث السند ”حدیث مسلسل بالاولیة“، اور من حیث المتن ”حدیث رحمت“، اور پھر حضرت رحمة اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا کہ ایسے باریک جزئیے بہت کم لوگ بتلاتے ہیں۔ اس سے بھی ہم فالِ نیک لیتے ہیں کہ حضرت نے آخری حدیث جو اپنی زبان سے نکالی وہ ”ارحموا من فی الارض، یرحمکم فی السماء“ ہے۔ امید وثیق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اِس خدا ترس، بے ضرر، اور قرآن وحدیث کے بے لوث خادم کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ فرمایا ہوگا۔
میں اخیر میں اپنے چچا زاد بھائی مفتی ریحان صاحب، حافظ ریان ورضوان کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں، حالاں کہ ہم سب ہی تعزیت کے مستحق ہیں، اس لیے کہ آپ کے جانے سے صرف ایک گھرانہ اور ایک خاندان یا صرف ایک ادارے کا نقصان نہیں ہے؛ بلکہ آپ پوری قوم وملت کے تھے، پوری قوم وملت کا نہ پُر ہونے والا خسارہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت کو اعلیٰ علیین میں جگہ نصیب فرمائے، تاحد نظر قبر کو کشادہ فرمائے، غریق ِرحمت فرمائے، اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔
مغموم ومحزون بھتیجا
عبید الرحیم رویدروی
۲۶/شعبان المعظم ۱۴۴۱ئھ/۲۱/اپریل۲۰۲۰ءء
88661 99229
81405 03747