(مولانا)عبد الرحمن رویدروی
مہتمم جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ، بھروچ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد! اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم، ﴿کل نفس ذائقة الموت﴾
عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمیں کی رونق اجڑ گئی ہے فلک پہ مہر جبیں نہیں ہے
تری جدائی میں مرنے والے وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
محترم قارئین! اللہ رب العزت کا یہ قانون اور اٹل فیصلہ ہے کہ اس کی ذات کے علاوہ ہر شی کو فنا کے گھاٹ اترنااور موت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے، جس سے بڑے سے بڑے دہریہ کو بھی انکار کی گنجائش نہیں، اس حقیقت پر انسان کو ابھرتے ہوئے آفتاب کی ضوفشانیوں سے بھی زیادہ یقین ہے۔ وجودِ دنیا سے فنائے دنیا تک اربوں کھربوں لوگ اس دنیائے دنی میں آئیں گے اور اپنے اپنے نقارہٴ حیات کو بجا کر ایک نہ ایک دن دار ِبقا کی طرف کوچ کرجائیں گے۔ اس واضح اورکھلی حقیقت کے باوجود انسان دنیا کی رنگ رلیوں میں ایسا مست و مگن ہوجاتا ہے کہ اس کو دوسروں کے چلے جانے کا آسانی کے ساتھ یقین ہی نہیں ہوتا ۔ پھر حالات و واقعات؛ موت کی حقیقت کو تسلیم کرنے اور کسی کی موت کا یقین کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔
میرے بڑے بھائی جناب حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی جنھیں ہم کچھ دنوں پہلے ان کا نام نامی اسم گرامی لیتے وقت بڑے ادب و احترام کے ساتھ مدظلہ العالی، دامت فیوضہم اوردامت برکاتہم وغیرہ دعائیہ کلمات ادا کرتے تھے، اب ان کا نام لینے کے بعد رحمة اللہ علیہ یا نور اللہ مرقدہ وغیرہ جیسے جملے لکھتے یا کہتے وقت قلم پر لرزہ، ہاتھوں پر کپکپی طاری اور زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ جوارِ رحمتِ الٰہی میں ایسے جابسے کہ اب کبھی ان کا ہنستا، مسکراتا گلاب جیسا چہرہ دیکھنا نصیب نہ ہوگا اور جن کے وجود کے دم خم سے ہمارے چمن میں بہار اور رعنائیاں موجود تھیں ان کا نظارہ کرنے سے ہماری آنکھیں اب ہمیشہ ہمیش کے لیے محروم ہوگئیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ:
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
وہ تو ہمارے شہر کو ویران کرگیا
اس شفیق اور مہربان بڑے بھائی کی وفات کا صدمہ ہم اہل ِبیت کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں۔ زندگی کی اس قلیل مدت میں ہم سبھی بھائیوں اور بہنوں اور بال بچوں سے روٹھ کر ہمیشہ کے لیے داغ ِمفارقت دے جانا اور اپنے گلستاں کی کھلتی ہوئی معصوم کلیوں اور لالہٴ و گل کو داغ یتیمی لگاجانا وہ حادثات اور مصائب ہیں کہ جن سے دل و دماغ اور قلب و جگر پارہ پارہ ہواجاتا ہے اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ نظر آتی ہے۔
بچپن میں حضرت بھائی صاحب مرحوم ومغفور کا لاڈ و پیار، تعلیمی میدان میں آپ کی راہ نمائی اور سرپرستی اور تدریسی زمانہ میں آپ کی مکمل نظرِ عنایت؛الغرض زندگی کا وہ کون سا ایسا موڑ تھا ،جس پر آپ نے انگلی پکڑ کر ہمیں چلنا نہ سکھایا ہو، کبھی اپنائیت بھری ڈانٹ ڈپٹ اور کبھی پیار ومحبت اور شفقت وعنایت کی سوغات، کبھی ذاتی اورنجی زندگی میں نظرِ التفات کی بوچھار۔ یہ وہ چیزیں اور احسانات کے وہ پہاڑ ہیں کہ زندگی بھر ان احسانات کا بدلہ چکایا نہیں جا سکتا۔ یادوں کی دنیا میں جب محو سفر ہوتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ ایک ایسے آفتاب و ماہتاب تھے، جن کی ضیا پاش کرنوں سے زندگی میں ہر سمت اجالا ہی اجالا تھا اور اب جب کہ شمعِ حیات بجھ چکا ہے تو ہر طرف وہ گھٹا ٹوپ، مہیب اورخوفناک بادل نظر آرہے ہیں کہ جن کے دامن میں مصائب و آلام کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسے نازک موڑ پر میں اپنے مرحوم و مغفور بھائی صاحب کو یہ آواز لگانے کی جرأت کرتا ہوں کہ :ع
تم کیا گئے کہ رونق محفل چلی گئی
آپ ہم سے یہی کہا کرتے تھے نا کہ:
رنگین ہم سے قصہٴ مہر و وفا کہ ہم
اپنی وفا کا رنگ ترے رخ پہ مل گئے
آپ ہمیں برابریہی آواز دیتے رہے نا کہ:
غنیمت جان لے مل بیٹھنے کو
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے
ہماری نادانیوں پر آپ ہمیں یہی پیارا سبق دیتے تھے نا کہ:
چمن میں تلخ نوائی میری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی
یقینا آپ کا یہ سب کچھ حق بجانب تھا۔ ہماری زندگی کی تعمیر وترقی کے لیے آپ کے لب ہائے مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک جملے ہمارے دل و دماغ اور قلب و جگر کو جھنجھوڑ رہے ہیں اور آنکھوں سے غفلت کے پردہ کو چاک کرکے بصیرت کی وہ بلندیاں عطا کررہے ہیں کہ جن کا حصول ہماری حیاتِ مستعارکی تگ و دوکا مقصود اصلی ہے۔ خدائے لم یزل و لایزال کی کروڑوں رحمتیں ہوں آپ کی ذات پرکہ آپ ہمیں ان راستوں پر گامزن کرگئے جو کام یابی و کامرانی کی ضامن ہیں۔
الغرض! ایک بہت ہی مخلص ، بے انتہا،بے لوث، حد سے زیادہ اپنائیت اور چاہت کا اظہار کرنے والا، لاتعداد محبتوں اور الفتوں کی سوغات پیش کرنے والا، عزیز ترین بھائی کا اچانک اس دنیائے دنی سے رخ موڑ کر ہم سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر ہمیشہ ہمیش کے لیے داغ ِمفارقت دے جانا وہ روح فرسا واقعہ اور حادثہ ہے، جسے ہزار کوششوں کے باوجود بھلایا نہیں جاسکتا۔ رہ رہ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ ابھی سامنے سے مسکراہٹوں کے پھول بکھیرتے ہوئے نمودار ہوں گے اورا ن کی خندہ پیشانی اور عالی ظرفی کی وجہ سے غموں کے تمام بادل چھٹ جائیں گے۔ مگر ہائے افسوس! یہ سب کچھ اب ہونے والا نہیں، روٹھ کر جانے والے کو کیا پتا کہ ہمارے اور بہت سے معصوم دلوں پر غم وآلام کے کیسے کیسے پہاڑ ٹوٹے ہیں کہ جنھیں ہٹایا نہیں جاسکتا اور نازک دلوں پر کیا گہرا اور کاری زخم لگا ہے، جو برسوں مندمل نہیں ہوسکتا۔ وہ پہاڑ؛ جس کے نیچے دب کر معصوم جانوں کی چیخیں نکل رہی ہیں اورو ہ زخم ناسور جو رہ رہ کر درد جدائی کی ٹیس پہنچا رہے ہیں:
زخم ناسور پہ مرہم تو لگا دے ساقی
اپنے میخانے سے اک جام پلا دے ساقی
روٹھ کر جانے سے ویران ہوا میخانہ
لوٹ کے آکے پھر ویرانہ سجا دے ساقی
اب نہیں درد جدائی کو سہا جاتا ہے
کتنا ہم صبر کریں یہ تو بتا دے ساقی
محترم قارئین! بھائی صاحب نور اللہ مرقدہ کو قدرت کی طرف سے بہت سی خوبیوں اور کمالات سے مالامال کیا گیا تھا۔ ایثار و ہمدردی، پیار و محبت، عاجزی و انکساری، مروت ومودت، قناعت و خود داری، خورد نوازی، بڑوں کا پاس و ادب، بذلہ سنجی ، شگفتہ مزاجی، حق گوئی و بیباکی، یتیموں اور بیواؤں کی خبر گیری اور ان کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لیے جد و جہد کرنا۔یہ تمام وہ اوصاف جمیلہ تھے، جن سے وہ بدرجہٴ اتم متصف تھے، جن سے ایک انسان معاشرہ و سماج اور سوسائٹی میں انسانیت کے اعلی معیار پر فائز ہوا کرتا ہے۔ گویا کہ آپ ایک انسان ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے پیکر بھی تھے، جو آج کی بے مروت دنیا میں مفقود ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جگر مرادآبادی نے صحیح کہا ہے:
ہر چند کائنات دو عالم میں اے جگر
انساں ہی ایک چیز ہے انساں مگر کہاں
آپ نے اپنی زندگی کی اس قلیل مدت میں بہت سے وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیے جو اُن کے بعد آنے والوں کے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہیں۔بچپن سے لے کر موت تک؛ زندگی کا وہ کون سا گوشہ ہے، جس سے ہمیں کسی نہ کسی درجہ کا کوئی نہ کوئی ایسادرس اور سبق ضرور ملتا ہے، جسے گائڈ بناکر زندگی کا کام یاب سفر طے کیا جاسکتا ہے۔ ہاں! یہ حقیقت ضرور ہے کہ حضرات ِانبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کے علاوہ کوئی بھی انسان خطا و نسیان سے محفوظ نہیں ہوسکتا، مگر جس کی زندگی کا بیشتر حصہ جد وجہد، انابت الی اللہ، پیرویٴ سنتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تقوی و طہارت کی پر نور وادیوں میں گذری ہو وہ دوسروں کی زندگی کے لیے ضرور گائڈ اور راہبر ثابت ہوتی ہے۔ خوش نصیب حضرات اس طرح کی زندگی گزارنے کو اپنے لیے سعادت دارین سمجھتے ہیں۔ آئیے! مندرجہ ذیل سطور میں حضرت مرحوم کی بچپن سے لے کر وصال تک کے کچھ ایسے نمایاں افعال و کرداراور ظاہر باہر حقائق کو آشکاراکرنے کی کوشش کی جائے ،جن سے ان کا اپنے ہم عصروں میں ممتاز مقام کا حامل ہونا اظہر من الشمس ہوجائے ،جو ہم سب کے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہو۔
ابتدائے تعلیم سے فراغت تک :
بھائی صاحب مرحوم مغفور اپنے ہی گاؤں” رویدرا “میں ناظرہ و دینیات کی تکمیل کرنے کے بعدبرادر کبیراورجامع العلوم والفنون حضرت مفتی عبد اللہ صاحب دامت برکاتہم بانی و رئیس جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ کے ہمراہ نو یا دس سال کی عمر میں سہارن پور مظاہر علوم تشریف لے گئے۔ اس عظیم ادارہ میں عظیم اساتذہ کی رہ نمائی میں حفظِ قرآنِ پاک کی ابتدا کی۔
قسّامِ ازل نے حضرت بھائی صاحب کو دل و دماغ کی قوت اور حفظ وذہانت کی عظیم ترین نعمت سے اس قدر وافر حصہ عطا فرمایا تھا کہ ایک ہی سال میں قرآن مجید کے بیس پاروں کو حفظ یاد کرلیا۔ آپ کی پیشانی سے اگر ایک طرف نور ایمانی جگمگاتا ہوا نظر آتا تھا تو دوسری طرف ذہانت و فطانت کی لازوال نعمت بھی عیاں تھی، جس سے آپ کی سربلندی کا ستارہ جگمگاتا ہوا نظر آتا تھا۔گویا کہ آپ
بالائے سرش ز ہوش مندی می تافت ستا رہٴ سر بلندی
کا عین مصداق تھے۔ یقینا رب کائنات جب کسی کو اپنے علم کی لازوال نعمت سے سرفراز کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے محبوب اور مقبول بندوں کی سرپرستی عطا فرمادیتا ہے۔ بچپن سے حضرت بھائی صاحب کے ساتھ قدرت کا یہی نظام چل رہا تھا، جامعہ مظاہر علوم سہارن پور میں داخلہ لینا اور ولی کامل، عارف باللہ جناب حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب ناظم مظاہر علوم سہارن پور کا سر پرستی عطا فرمانا بھائی صاحب کے اوپر اللہ تعالیٰ کی عنایت خاصہ نہیں تو اور کیا ہے؟حضرت ناظم صاحببھائی صاحب سے اس قدر محبت فرماتے کہ ان کے حفظ کا سبق بذات خود سنا کرتے، قوتِ حفظ اور عربی لب و لہجہ میں قرآن مقدس کی تلاوت سے حضرت ناظم صاحب کا دل جب باغ باغ ہوجاتا تو پیار و محبت کی بوچھار شروع ہوجاتی اور دربار اسعدی سے مقبول دعاؤں کا انبار لگ جاتا جو لہلہاتی ہوئی فصلوں کے لیے مزید بارانِ رحمت ہوجاتی۔
مظاہر علوم سہارن پور میں ایک سال کی مدت کی تکمیل کے بعد جب وطن تشریف لائے تو والد ِمرحوم حضرت مولانا کی کم سنی کی وجہ سے وطن سے بہت دور بھیجنے پر آمادہ نہیں ہوئے اور علاقہ کے ایک مشہور ادارہ مدرسہ سراج العلوم مٹواڑ ضلع نوساری( گجرات )میں تکمیل حفظ کے لیے داخلہ کرادیا۔ اس ادارہ میں اس وقت صرف حفظ ہی کی تعلیم تھی اور حفظ کی تعلیم کے لیے یہ ادارہ بہت مشہور و معروف بھی تھا۔ اس ادارہ میں ہمارے گاؤں رویدرا کے ایک ماہر فن استاذ حضرت الاستاذ مولانا محمد اسماعیل صاحب سلوڈ مقیم حال لندن کی سرپرستی اور شاگردی میں دو سال میں حفظ کی تکمیل کی۔
انھیں اکابر کی محنتوں، شفقتوں اور دعاؤں کا ثمرہ تھا کہ بھائی صاحب کو قرآن پاک سورہٴ فاتحہ کی طرح حفظ یاد تھا۔ رمضان المبارک میں نماز تراویح پڑھانے کا بہت اہتمام فرماتے، قوت حفظ کو دیکھ کر اور قراء ت کی روانی کو سن کر مصلیان مسجد عش عش کر اٹھتے۔ اس باب میں بھی آپ اللہ رب العزت کی خاص عنایتوں کے مالک تھے، ورنہ بہت کم ایسے حافظوں کو دیکھنے کو ملتا ہے ،جنھیں اس قدر از بر قرآن پاک یاد ہو کہ بھول اور اٹک تو در کنار کبھی متشابہات میں بھی نہیں الجھے۔ سچ ہے:
ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
درجہٴ حفظ کی تکمیل کے بعد برادر کبیر جامع المعقول والمنقول حضرت اقدس مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری دامت برکاتہم آپ کو لے کر دوبارہ مظاہر علوم سہارن پور تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے درجہٴ فارسی میں داخلہ لے کر فارسی اول کی ابتدائی کتابوں کی تعلیم حاصل کی۔ حضرت مفتی صاحب کی مظاہر علوم سے فراغت کے بعد ۱۹۷۷ء میں جب فلاح دارین ترکیسر میں حضرت مفتی صاحب کی تدریسی خدمات کے لیے تقرری عمل میں آئی تو بھائی صاحب بھی فلاح دارین ترکیسر میں حصول تعلیم کے لیے آگئے۔ چناں چہ حضرت مفتی صاحب کی سرپرستی میں درجہٴ فارسی دوم میں داخلہ لے کر درجات ِعا لمیت کی تکمیل فرمائی اور ۱۹۸۴ء میں فلاح دارین سے سند ِفراغ حاصل کی۔اس کے بعد مزید علمی تشنگی بجھانے اوراکابر علما سے سندِ احادیث حاصل کرنے کے لیے دوبارہ مظاہر علوم سہارن پور کا رخ کیا، مگر سوئے اتفاق کہ اس سال جدید داخلے موقوف ہونے کی بنا پر باضابطہ داخلہ سے محرومی رہی، مگر خلوصِ دل کے ساتھ علوم نبوت کی طلب اور جستجو اور قرآن وحدیث کے علوم ومعارف اوراسرار و حکم کے بحرِ ناپیدا کنار سے تشنگی بجھانے کی طلب جبین ناز سے بالکل عیاں اور ظاہر تھی، اس لیے مظاہر علوم کے اساطین و اکابر علما اور ذمہ دارانِ ادارہ نے آپ کو اس طرح سے سماعت کی اجازت مرحمت فرمائی گویا کہ آپ بھی باضابطہ اور قانونی طور پر مدرسہ کے ایک طالب علم ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محدث ِکبیر، ماہر ِاسرار ِعلوم ِنبوت حضرت مولانا محمد یونس صاحب شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارن پور کے درسِ بخاری میں آپ کو خصوصی امتیاز حاصل تھا۔ حتیٰ کہ روایات بخاری کی قراء ت اکثر و بیشتر آپ ہی کیا کرتے اور فقیہ امت حضرت مولانا و مفتی محمود الحسن صاحب گنگوہی سے سنن نسائی اور نمونہٴ اسلاف حضرت مولانا محمد عاقل صاحب دامت برکاتہم شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارن پور سے سنن ابی داؤد کی سماعت کا شرف حاصل کیا۔ اسی طرح صحاح ستہ کی اور دیگر کتب ِحدیث کی دیگر اساتذہ ومحدثین سے سماعت فرماکر کتبِ صحاح ِستہ کی روایات کی اجازت اور سند حاصل کی ۔ اس پورے واقعہ سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ حضرت مولانا کو اکابر علمائے امت سے فیض یاب ہونے کی لگن اور تڑپ تھی۔ جو الحمد للہ مرتے دم تک دامن گیر رہی، تدریس کے زمانے میں بھی محدثین عظام، فقہائے امت اور مفسرین کرام سے استفادہ کرنے کا جذبہ بیقراری کے ساتھ پایا جاتا تھا۔گویا کہ آپ” اطلبوا العلم من المہد الی اللحد“ کا عملی تفسیر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، خلوت و جلوت ہر وقت اور ہر لمحہ حصول علم کی تاک میں لگے رہتے اور جیسے ہی موقع ہاتھ لگتاحصولِ علم کے لیے عازم سفر ہوکر اپنی علمی تشنگی کو بجھاتے۔
فراغت کے بعد:
جامعہ فلاحِ دارین ترکیسر اور مظاہر علوم سہارن پور (یوپی) کے میخانہٴ علم و عرفان سے سیرابی حاصل کرنے کے بعد”جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ“ میں منصب تدریس پرفائز ہوئے۔ مگر چوں کہ اب مقصدِ زندگی حصولِ علم کے ساتھ ساتھ بندگانِ خدا تک قرآن و حدیث اور فقہ کے علوم و معارف کی امانت کو منتقل کرنا تھا، اس لیے تین چار مہینے کے بعدتدریسی کام کو موقوف کرکے سب سے پہلے مروجہ دعوت و تبلیغ کا کام سرانجام دیا اور ایک سال تک” بلغوا عنی ولو آیة “کا فریضہ انجام دے کر اس بات کو ثابت کردیا کہ محض علم حاصل کرنا اور بحر ِعلم کی غواصی کرلینا ہماری زندگی کا مقصد ِاصلی نہیں ،بل کہ مقصد ِاصلی تو ان علوم کو حاصل کرکے خود اپنی دنیا و آخرت کی زندگی کو سنوارنا اور دوسروں کی زندگیوں کو کام یاب بنانے کی جد وجہد ، فکر کرنا اور دل میں اس بات کی تڑپ پیدا کرناہے کہ ہمارے دوشِ ناتواں پر علوم ِنبوت کی تبلیغ و اشاعت کی جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے اس ذمہ داری اور فریضہ سے کس طرح سبکدوش ہوا جائے۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مرتے دم تک آپ کے دل و دماغ میں اس ذمہ داری کا سخت احساس تھا اورحتی الوسع اس ذمہ داری کو پورا کرنے کا فریضہ بھی انجام دیا۔ اس عظیم ترین کام کے لیے بہت سے نامساعد حالات کا سامنا اور بہت سی دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا بھی پڑا، مگر کشادہ پیشانی پر کبھی شکن تک نہ آئی۔ ہنستے ہنساتے ان تمام وادیوں سے کام یابی کے ساتھ گزر تے چلے گئے۔ دعوت وتبلیغ کا کام بہت ہی صبر آزما اور ذمہ داری کا ہوتا ہے، اس کے لیے سب سے پہلے اپنے اندر وہ صفات پیدا کرنا ضروری ہوتے ہیں ،جن صفات کی ہمیں دوسروں کی دعوت دینی ہوتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم دوسروں کو فرائض کی ادائیگی اور ان کی اہمیت و عظمت کو سمجھنے کی دعوت دیں مگر ہم خود اپنی جبین نیاز کو خدا کے حضور خم کرنے سے دور رکھیں اورخود ان کی عظمت و برتری کو سمجھنے سے قاصر رہیں۔ ہم دوسروں کو حسنِ اخلاق و کردار کا سبق سکھلائیں، مگر خود اپنی زندگی بد اخلاقیوں اور بد کرداریوں سے بھری پڑی ہو، ہم دوسروں کو ادائیگیٴ حقوق کا درس دیں ،مگر دوسروں کی حق تلفی ہماری زندگی کا شیوہ ہو۔اگر یہی ہے تو پھر فرمان الٰہی﴿ لم تقولون ما لا تفعلون ﴾کی زمرہ میں شامل ہونے اور مولائے حقیقی کے سامنے جواب دہی سے کون بچا سکتا ہے؟
حضرت مولانا جو کچھ کہتے پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوتے، اس لیے کہ دربارِ الٰہی میں جو ابدہی کا آپ کو شدت سے احساس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے سراپا کو دیکھ کر سراپا عمل ہونے کا یقین ہوتا تھا۔ شریعتِ مطہرہ کے ایک ایک حکم اور فرمان پر یقینِ کامل، عمل کی دنیا کا بادشاہ، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت یہ تمام چیزیں آپ کی وہ شمشیربراں تھیں کہ جنہوں نے باطل کے سروں کو کچلتے اور بدعات و رسومات کا قلع قمع کرتے ہوئے حق کی آواز کو بلند کیا اور اسلام کی عظمت و سربلندی کو طشت از بام کیا۔ آپ اس شعر
یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
کا حقیقی معنوں میں مصداق تھے اور ہمیں بھی اس چیز کا سبق دے گئے۔
تدریسی خدمات:
دعوت و تبلیغ میں ایک سال کا عرصہ گزارنے کے بعد آپ کو ایشیا کی عظیم دینی درس گاہ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا ( مہاراشٹر) میں مسندِ درس و تدریس پر فائز کیا گیا۔ آپ اپنی محنت، لگن، طلب اور جستجو کی وجہ سے روزِ اول ہی سے ایک کام یاب مدرس ثابت ہوئے۔ ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے بہت جلد آپ کو علیا کے اساتذہ میں شمار کیا جانے لگا۔ آپ کی خداداد صلاحیت کو دیکھ کر حدیث وفقہ اور تفسیر کی عظیم اور اہم ترین کتابیں مثلاً: ہدایہ اول، مشکوة المصابیح، صحیح مسلم اور بیضاوی شریف آپ کے سپرد کی گئیں۔ یہ اپنے فن کی وہ بنیادی اور اہم ترین کتابیں ہیں، جو سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔رموز واسرار کو واشگاف کرنا ہر کسی کے بس کا کام نہیں، الحمد للہ مرحوم بھائی صاحب ان امہات الکتب کو فن کی حیثیت سے پڑھانے میں بہت ہی کام یاب رہے، جس کابین ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے آخری لمحات تک یہ کتابیں آپ سے منسلک رہیں اور برسوں ان خزینہٴ علم و عرفان کے لعل و گہر کو تشنگان ِعلوم نبوت میں تقسیم کرتے رہے چناں چہ ہدایہ اول ۳۱/ سال، مشکاة المصابیح ۲۵/ سال، صحیح مسلم ۲۴/ سال اور بیضاوی شریف ۲۳/ سال تک آپ کے زیر تدریس رہیں اور گہوارہٴ علم وفن کو ان کتابوں کی موشگافیوں سے لالہ زار کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ شوقین طلبا آپ کے درس کو بہت اہمیت دیتے اور ذمہ دارانِ جامعہ آپ کی طرزِ تدریس کو بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ حلِّ عبارت، عبارت کے اندر پوشیدہ امور کی نقاب کشائی، آیات و احادیث سے مستنبط مسائل کی توضیح و تشریح، اختلافات ِائمہ کی وضاحت کرتے ہوئے دلائل و براہین کے ساتھ مسلک راجح کی تعیین اور پھر مرجوح مسالک کے دلائل کے تفصیلی اور دلوں میں گھر کرجانے والے خوب صورت اور واضح جوابات؛یہ تمام وہ خوبیاں تھیں، جن کی وجہ سے آپ کو بہت جلد طلبا و اساتذہ میں مقبولیتِ خاصہ حاصل ہوئی۔ کسی بھی فن کی کوئی بھی کتاب ہو مشکل سے مشکل مسائل کو چٹکیوں میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
سب سے اہم بات یہ تھی کہ آپ کا درس بالکل خشک نہیں ہوتا ، بل کہ طلبا کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے اکثر و بیشتر موضوع اور مسئلے سے متعلق سبق آموز واقعات اور علمائے سلف و خلف کے حالات و کوائف بیان کرتے ہوئے مسئلہ سے اس طرح منسلک کردیتے کہ سامنے والے کو اس بات کا یقین ہوجاتا کہ یہ بھی متعلقہ درس کا اہم ترین حصہ ہے، جس کی وجہ سے کبھی کبھی مجلسِ درس مجلسِ پند و موعظت میں تبدیل ہوجاتی۔ کبھی چمنستانِ علم و فن سے وہ باد بہاری چلتی جو مرجھاتے دلوں کو آبِ حیات عطا کرجاتی۔ طلبا میں اگر ذرا سا بھی کسلگی کا احساس کیا تو طنزو مزاح کے ذرا سے چٹخارے بھی چھوڑ دیتے، جس سے مجلس ِدرس تھوڑی دیر کے لیے قہقہہ زار ہوجاتی۔ آپ کی درس گاہ کیا تھی؟ ایک خوب صورت گلدستہ تھا، جس کو علم و فن، فکر ونظر، حکمت و موعظت کے کھلے ہوئے گوناگوں اور نوع بنوع گل و بوٹوں سے اس طرح خوب صورتی کے ساتھ سجایا جاتا کہ اس کے حسن و جمال کو دیکھنے والا اپنا قلب و جگر نثار کرجاتا۔
الغرض! آپ کی درس گاہ طلبا اور علما کے لیے یکساں طور پر مفید اورفیض رساں تھی۔ اس میخانہٴ رحیمی سے ہزاروں تشنگانِ علوم ِنبوت نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق سیرابی حاصل کی۔ اگر عمر بے وفا نے دغا نہ کی ہوتی تو نہ جانے کتنے لوگ میخانہٴ علم و فن سے مستفید ہوکر اپنی دامن مراد بھرتے اور شادماں اور کامراں ہوتے۔ چوں کہ مستقل مزاجی آپ کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،اس لیے جب سے جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا میں آپ کی قدم رنجہ فرمائی ہوئی تو پھر مرتے دم تک اس دہلیز سے سرِ مو انحراف کرنے کا خواب و خیال بھی دل میں نہیں آیا ، حتیٰ کہ اسی چوکھٹ پر اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔
چھپ گیا آفتاب شام ہوئی اک مسافر کی رہ تمام ہوئی
جامعہ اشاعت العلوم میں مسابقة القرآن الکریم کی ذمہ داریاں:
”قدرِ جوہر، جوہری می شناسد“ کا محاورہ اپنی جگہ بہت خوب صورت ہے۔ رئیس جامعہ اشاعت العلوم خادم القرآن والمساجد جناب حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم کی دور بین نگاہوں نے یہ تاڑ لیا تھا کہ یہ وہ جوہر ہے، جو بہت ہی قابلِ قدر اور لائقِ صد احترام ہے۔ اگر اس جوہر میں مزید نکھار پیدا کردیا جائے اور اسے مزید آبدار و چمک دار کردیا جائے تو دیکھنے والوں کی نگاہوں کو خیرہ کرسکتا ہے۔ چوں کہ حضرت مولانا مرحوم کی علمی صلاحیت و قابلیت حضرت رئیسِ جامعہ کی نگاہوں میں مرکوز ہوچکی تھی اس لیے رفتہ رفتہ آپ کو تعمیری میدان میں بھی اتارنے کی کوشش فرمائی۔ چناں چہ اس میدان کے بھی آپ شہ سوار نظر آئے۔ گویا کہ برسوں سے آپ کو اس میدان میں بھی بہت سارے تجربات حاصل ہوچکے تھے۔ جامعہ کے اہم مناصب پر آپ کو فائز کیا گیا، طلبائے عزیز کی انجمنوں کے نگراں اور سرپرست آپ ہی تھے، تو دوسری طرف ”مسابقة القرآن“ جیسے اہم شعبہ کی تمام تر ذمہ داریاں بھی آپ کے سپرد تھیں۔ ظاہر بات ہے کہ طلبائے عزیز کی خوابیدہ صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے ایسی شخصیت کی سرپرستی کی ضرورت تھی، جس کی صلاحیت خود طشت از بام ہو۔ آپ نے اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے کر اس پلیٹ فارم سے بہت سے کام یاب واعظین، بے مثال مقررین اور شعلہ بار خطبا پیدا کئے، جو ملک کے طول و عرض میں اپنی خطابت کا جوہر دکھا کر قوم و ملت کی صحیح رہ نمائی کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔
مسابقة القرآن الکریم جامعہ کا اہم ترین شعبہ ہے، جس کے پلیٹ فارم سے قرآن پاک کی مختلف الانواع خدمات انجام دی جاتی ہیں۔ قوم و ملت کے ہونہار اور شاہین صفت بچوں کے اندر قرآن پاک کو تجوید و قراء ت کے ساتھ پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے ۔ چناں چہ قرآن کریم کے مسابقات مختلف عناوین کے تحت منعقد کئے جاتے ہیں۔ کبھی یہ مسابقات تجوید و قراء ت کے نام سے ہوتے ہیں اور کبھی تفسیر کے نام پر، کبھی یہ مسابقات آیاتِ محکمات و متشابہات پر متضمن ہوتے ہیں اور کبھی احادیثِ مبارکہ کے متعلقات پر۔
الغرض ان مسابقات کا مقصد ہر نوع سے قرآن پاک کی خدمت کرنا ہے۔ چناں چہ اسی جذبہ کے تحت جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا میں”المسابقات القرآنیہ“ کا شعبہ عمل میں آیا۔ اس شعبہ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مولانا مرحوم خود وضاحت فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
” یہ امر واقعی ہے کہ تمام مسلمانوں،بل کہ پوری انسانیت کے لیے حقیقت میں سب سے بڑی نعمت قرآن ِمقدس ہے۔ قرآنِ کریم اس جہان میں وہ نعمت ِبے بہا ہے کہ سارا جہان، ارض و سماء اور ان میں پیدا ہونے والی مخلوقات اس کا بدل نہیں بن سکتیں۔ انسان کی سب سے بڑی سعادت اور خوش نصیبی یہ ہے کہ اپنی مقدور بھر قرآن مقدس سے اشتغال و شغف رکھے اور سب سے بڑی شقاوت اس سے اعراض و بے رخی ہے۔ ہر مسلمان کے لیے اس کی فکر تو فرضِ عین ہے کہ قرآن کو صحت لفظی کے ساتھ پڑھے اور اولاد کو پڑھائے اور پھر جس قدر ممکن ہو معانی اورا حکامات کو سمجھے اور اس پر عمل کرے۔ اس کو اپنی عمر کا وظیفہ بنائے اور اپنی اپنی ہمت کے مطابق اس کا جو حصہ مل جائے اس کو دونوں جہان کی سب سے بڑی نعمت سمجھے۔
مدارس ِدینیہ، مراکزِ علمیّہ، جامعاتِ اسلامیہ افراد ملت اور نونہالانِ امت کو قرآن سے وابستہ کرنے کے لیے اس اہم فریضہ میں مصروف عمل ہیں، اللہ قبول فرمائے۔
ہمارا جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا جو ملک کے مختلف خطوں میں مکاتبِ قرآنیہ، معاہد ِاطفال اور مراکزِ اسلامیہ کے ذریعہ تبلیغ ِقرآن کا اہم فریضہ ادا کرتے ہوئے اپنی ۴۰/ سالہ مدت قیام میں چار ہزار سے زائد حفاظ کرام، دوہزار سے زائد فضلائے عظام اور پندرہ سو سے زائد قرائے کرام کی جماعت بہ طور سوغات پیش کرچکا ہے، اس جامعہ کے بانی حضرت مولانا غلا م محمد وستانوی خادم القرآن والسنہ ؛گویا ان کے اسم ثانی کو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذوقِ قرآنی عطا فرمایا ہے کہ تمام مدارسِ ہند کے ذریعہ امت کے ایک ایک فرد کو قرآن سے وابستہ کرنے کے جذبہ سے مسابقات ِ قرآنیہ کا حسین و مفید سلسلہ جاری فرمایا اور مدارس و جامعات کے اکابرین و مفتیان کرام نے اس کو ایسی تلقی عطا فرمائی کہ اس نے ایک ملک گیر تحریک کا روپ اختیار کرلیا اور اس کے ذریعہ ملک کے تین ہزار سے زائد مدارس کے آٹھ ہزار سے زائدطلبا کو وابستہ کرلیا۔ یہ ایک تاریخی انقلاب ،بل کہ تجدیدی کارنامہ ہے۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
مندرجہ بالا سطور سے جہاں اس عظیم ترین شعبہ کے اغراض و مقاصد پر واضح طور پر روشنی پڑتی ہے، وہیں یہ بات بھی بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اس شعبہ کے فیضان کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اللہ رب العالمین کے یہاں اس شعبہ کو ایک خاص قسم کی پذیرائی اور قبولیت کا درجہ حاصل ہے۔
ظاہر ہے ایسے عظیم ترین شعبہ کی ذمہ داری ہر کس وناکس کے ہاتھ میں نہیں دی جاسکتی ہے جو کچھ دور چل کر لڑکھڑا کر گر جائے۔ بھائی صاحب مرحوم و مغفور جیسے صاحبِ صلاحیت اور عزم و ہمت کے کوہ گراں ہی اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے زیادہ موزوں و مناسب تھے، اس لیے انھیں کو اس کا سب سے زیادہ حقدار سمجھ کر اس کی سرپرستی و نگرانی کے منصب جلیلہ پر فائز کیا گیا۔
ظاہر بات ہے کہ جب” حق بصاحبِ حق رسید“ کا معاملہ ہوتا ہے تو پھر ترقیات کے منازل طے کرنے اور اس کو چار چاند لگانے میں تاخیرنہیں ہوتی ہے۔بفضل ِالٰہی و نصرتِ خداوندی دیکھتے ہی دیکھتے یہ شعبہ ملک کے طول وعرض میں مسابقات کے ذریعہ خدمت ِقرآن کا وہ کارنامہ انجام دینے لگا جو حیرت زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ لائق ِصد آفریں بھی ہے۔ تجربات اور مشاہدات اس بات کی غمّازہیں کہ اس شعبہ کے ذریعہ قوم وملت کے نونہالوں میں قرآن مجید کو تجوید و قراء ت کے ساتھ پڑھنے اور اس کے علوم ومعارف سے آگاہی حاصل کرنے کا جو ولولہ اور جذبہ پیدا ہوا وہ اس سے پہلے مفقود یا صفر کے درجہ میں تھا۔
مفسر قرآن مولانا انیس احمد آزاد بلگرامی اس شعبہ سے متعلق آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے فرماتے ہیں:
”مولانا فلاحی صاحب جہاں ایک کام یاب مدرّس ہیں، وہیں آپ ایک بہترین منتظم بھی ہیں۔ تدریسی فرائض کی ادائیگی کے ساتھ پورے ہندستان کے مسابقة القرآن الکریم کی نگرانی اور مدارس کے طلبا کے لیے فروعات کا تعین اور فرعِ تفسیر کے لیے متعینہ سورت کا مذکرہ اسی طرح متعینہ احادیث کا مذکرہ تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں، مگر توفیقِ الٰہی سے مولانا موصوف ان تمام ذمہ داریوں کو بحمد اللہ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔“
مسابقات القرآن الکریم کے ہر جلسے میں مولانا کا وجود مسعود مسابقات کے ایک جزء ہونے کا درجہ رکھتی تھی۔ کوئی بھی جلسہ آپ کے وجود سے خالی نظر نہیں آتا اور اگر کبھی نظر بھی آیا تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ جلسہ کسی عظیم رہبر سے محروم ہے۔
حضرت بھائی صاحب کبھی تو خود ان مسابقات کی نظامت فرماتے اور کبھی حکم کے فرائض انجام دیتے۔ مسابقات کے لیے گائڈ تیار کرنا اور ان گائڈوں کو کتابت و طباعت، تصحیح اورپروف ریڈنگ کے مراحل سے گزار کر منظر عام پر لانا آپ ہی کی ذمہ داری تھی۔ پھر طلبا کو مسابقات کے لیے تیارکرنا، جلسوں کی ترتیب، مسابقات میں شرکت کرنے والے دیگر مدارس اور جامعات کے طلباکی راہ نمائی کرنا؛ یہ تمام تر ذمہ داریاں آپ کے سر تھیں، جنھیں آپ نے پوری بشاشت، فراخدلی، کامل تندہی اور پوری ذمہ داری کے ساتھ نبھایا۔
اس حوالے سے قرآن مجید کی نمایاں خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے جامعہ کی تعمیر و ترقی میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔جامعہ کا مؤرخ ان خدمات کو سنہرے حرفوں سے لکھنے پر مجبور ہوگا، اللہ رب العزت ان تمام خدمات کو حضرت بھائی صاحب کے لیے رفع درجات کا ذریعہ بنائے۔ آمین!
تصنیفی و تالیفی خدمات:
درس وتدریس اور مسابقات کی عظیم ترین ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آپ کا گہر بار قلم بھی ہمیشہ رواں دواں رہتا تھا۔ مختلف موضوعات پر درجنوں تالیفات و تصنیفات آپ کی خداداد قلمی صلاحیت کی شہادت آج بھی دے رہی ہیں۔
اس وقت خود میرے پیشِ نظر تقریباً ایک درجن تالیفات مختلف عناوین پرہیں۔مثلاً :قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی، تحفہٴ تراویح، تحفہٴ اذان و مؤذنین، توشہٴ راہِ حیات اور مسابقات کے عناوین پر مختلف تالیفات موجود ہیں، جو اس بات کی غمّاز ہیں کہ حضرت مولانا قلم کے بھی دھنی تھے۔ آپ کی تالیفات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے قلم کی روانی کا مد و جزر وہ خوب صورت منظر پیش کرتا ہے جو دل کو لبھانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ حقیقت بیانی آپ کے قلم کا خاص وصف ہے۔ الفاظ اور جملوں کا باہم ربط آپ کے قلم کا حسن وجمال ہے، حق گوئی اور بیباکی آپ کے قلم کی جرأت ہے، جو دلوں کو جھنجھوڑ دے اور قلب و جگر پر ایک گہرا نقش چھوڑ دے وہ آپ کے قلم کی خصوصیت ہے۔توآئیے !ان سب چیزوں کا بھی ایک نمونہ دیکھتے چلیں۔ مولانا مرحوم توشہٴ راہِ حیات یعنی تحفہٴ بیٹی میں اپنی لخت جگر بیٹی کے عقدِ مسنون کے موقع پر رقمطراز ہیں:
” میری پیاری بیٹی ! پھر تو شعور کی عمر کو پہنچتی ہے، کھیلتی ہوئی مدرسہ جاتی ہے، پارہٴ عم یاد کرتی ہے، قرآن مقدس ناظرہ کی تکمیل پر شیرینی تقسیم کرکے بے حد خوش ہوتی ہے۔پھر اسکول کی تعلیم کا انقطاع اور خیاطی کے لیے ایک نیک اور صالحہ آپا ”رقیہ خالہ“ کے پاس تیرا جانا، مسائل کی تعلیم لینا ، دیکھتے ہی دیکھتے امور خانہ داری میں اپنی ماں کا سہارا بننا اور تیری ماں کا سختی کے ساتھ پکانے میں خامیوں کی اصلاح کرنا اور تیرے باپ کا طرفداری کرنا، ماں کے ڈانٹنے پر باپ کا دلار دینا، یہ سب ایک گھر کے نظام کے تحت چل رہا تھا کہ یکایک ایک دن عصر کی نماز کے بعد متصلاً تیرے بڑے ابّا کا بڑے پن سے لبریز اور خلوص ومحبت سے بھر پور فون آیا کہ بھائی میں اپنی بیٹی ”ریانہ“ کو موسم حج میں حرم محترم میں غلاف پکڑ کر بیٹے عبید اللہ کے لیے مانگا ہے۔ بولو!تمہاری کیا رائے ہے؟ تیرا باپ اس وقت جذبات وخیالات کے بحر تلاطم میں غوطہ زن ہوکر صد نمناک آنکھوں سے یہ کہہ سکا کہ حضرت! یہ رشتہ اور پیغام کہیں اور سے آتا تو آپ ہی اس کے فیصل اور والی ہوتے۔ چناں چہ اس مسئلے میں بھی زمام تحکیم آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔تیرے بڑے ابّا کے مضبوط ذرائع مواصلات نے آن کی آن میں جہاں جہاں عزیز و اقارب تھے، سب کو اطلاع کردی۔سب کی طرف سے مبارکباد آئی اور سب نے اس نسبت کو سعادت سے تعبیر کیا۔
ان سب کے باوجود بیٹی! ہم تیرا بھولا چہرہ دیکھ کر ترس کھا جاتے ہیں۔تیرے سامنے کبھی شادی کا تذکرہ کرنے کو نمک بر زخم تصور کرتے اور کبھی تیرے فراق اور جدائیگی کے آنسو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں؟ بیٹی! تاکہ کہیں تجھے یہ احساس نہ ہونے لگے کہ جس گھر میں پلی بڑھی، نشو ونما پائی، نشیب و فراز دیکھے، زیرو بم کا سامنا کیا، ہر چاہت اور ہر فرمائش ماں کے واسطے سے باپ کے ذریعہ پوری ہوتی نظر آئی، جسے میں کل تک اپنا گھر سمجھتی تھی وہاں کے در و دیوار آج مجھے اجنبیت بھری نگاہ سے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ ہائے کچن کے برتنوں سے برسوں انسیت رہی وہ آج مجھے عارضی مہمان کیوں تصور کرتے ہیں؟ جس نعمت خانہ سے، الماری سے، بیڈروم سے میرا سولہ سالہ رشتہ رہا افسوس وہ آج مجھ سے روٹھنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ ہائے جن سہیلیوں اور ہم جولیوں سے میرا پرانا میل جول رہا وہ مجھے چھیڑتے ہوئے بے وفا کا لقب کیوں دے رہی ہیں؟
اے بیٹی! تو تو والدین کی لخت جگر ہے۔ کہیں تیرے آبگینے کو ٹھیس نہ لگ جائے اس لیے ہم باوجود فراق و جدائیگی کے تصور سے محزون ہونے کے تیرے سامنے احساس تک نہیں ہونے دیتے۔ باقی ہماری تو یہ حالت ہے کہ باوجود نیک وصالح ، با کمال، با جمال، بامنال رشتہ کے دل پارہ پارہ، جذبات ریختہ ریختہ اور آنکھیں نمدیدہ نمدیدہ رہتی ہیں۔
”کئی کئی راتیں ایسی گذریں، جن میں تیرے والدین نے نیند کا سرمہ تک نہیں لگایا اور رات بھر آنکھیں تارے گنتی رہیں۔ صرف اس تصور میں گم ہوکر کہ ارے بیٹی! کل تک تجھے ہزاروں ارمانوں کے ساتھ پالا، ہزاروں امیدوں کے سہارے بڑا کیا، لیکن آج تو اپنا گھر چھوڑ کر اپنے دوسرے گھر کو آباد کرنے جارہی ہے۔“
مندرجہ بالا سطور میں حضرت مولانا مرحوم کے قلم کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں، وہ تمام اوصاف اس طویل مضمون میں صاف نظر آرہے ہیں۔ قلم کی شگفتگی کو دیکھئے کہ کس طرح بیٹیوں کی رخصتی پر قلبی احساسات کو متشکل کردیااور قلم کی روانی کو دیکھئے کہ کس طرح ایک جملہ دوسرے جملہ سے جڑتا ہوا چلا گیا۔معلوم ایسا ہوتا ہے کہ الفاظ اور جملوں کی موتیوں کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے اور ادب کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
آپ کی تحریر پر تبصرہ نگار قاری حسین احمد صاحب قاسمی استاذ جامعہ اکل کوا تحریر فرماتے ہیں:
”سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تحریر میں ایسی سحر آفرینی اور جادوئی تاثیر رکھی ہے کہ جب منظر کشی اور جذبات کی ترجمانی پر آتے ہیں، خصوصاً انفعالاتی تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ قاری ایسا محسوس کرتا ہے جیسے یہ سارا منظر اس کے سامنے تجسیمی شکل میں لاکر حاضر کردیا گیا۔اور وہ مضامین کی کشتی پر بیٹھا معلومات کے بحر ِبے کراں میں رواں دواں ہیں۔“
ایک دوسرے تبصرہ نگار کا تبصرہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہے:
”آپ کی تحریر میں سحر آفرینی، جادو بیانی، انفعالی تاثیر، شستگی و شائستگی، حالات کی منظر کشی، جذبات کی راست ترجمانی، ما فی الضمیر کی سچی ادائیگی اور کھرے کھوٹے کی امتیازی شناخت پائی جاتی ہے، جو آپ کی تحریروں میں اچھی طرح پیوست ہے۔غم و خوشی ہر موقع کی سچی اور اچھی ترجمانی نظم و نثر دونوں میں کرنے پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔“
تقریر و خطابت :
بھائی صاحب مرحوم اقلیم خطابت کے بھی بادشاہ تھے۔ اورکیوں نہ ہوں ؟ آپ کو بچپن ہی سے اس فن سے والہانہ تعلق اور شغف رہا ہے۔ زمانہٴ طالب علمی ؛جس طرح درسیات آپ کی زندگی کا لازمی حصہ تھا اسی طرح تقریر و خطابت کی مشق وتمرین کو بھی آپ اپنے لیے لازم اورضروری سمجھتے تھے۔ انجمنِ تقریر وخطابت کے ہر جلسہ میں شرکت اپنے لیے لازم اورضروری سمجھتے۔یہی وجہ ہے کہ مسابقتی پروگراموں میں آپ کو نمایاں کام یابی حاصل ہوتی، ابھی حضرت مولانا عربی سوم کے طالب علم تھے کہ جامعہ ڈابھیل میں آل گجرات تقریری مسابقہ کا انعقاد ہوا ۔ اس مسابقہ میں حضرت مولانا بھی مساہم کی حیثیت سے شریک ہوئے اور فن خطابت کا جوہر دکھلا کر اول نمبر سے کام یابی حاصل کی۔ حضرت مولانا قاری احمد علی فلاحی صاحب بانی و شیخ الحدیث مدرسہ سلیمانیہ موٹی نرولی ”جو خود ایک بہت ہی باکمال اور ماہر فن خطیب و مقرر ہیں“ کی شہادت کہ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی اس فن میں میرے استاذ ہیں، آپ کی شہادت اس بات کی غماز ہے کہ حضرت مولانا مرحوم کو اس فن میں بھی خصوصی ملکہ حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی سحر آفریں خطابت کے ذریعہ ہزاروں مجمع کے دلوں پر راج کرتے تھے۔ اپنی بے مثال خطابت اور قوتِ بیانیہ سے ہزاروں کے دلوں کو مسحور کردیتے، پیچیدہ مسائل کو چٹکیوں میں حل کرنا، اور باتوں کو کانوں کی راہ سے دماغ اور دماغ سے دلوں میں پیوست کرنا آپ کی خطابت کا اہم عنصر تھا۔ منبر خطابت پر جلوہ افروز ہوکر جب کسی مسئلے کو اپنے مخصوص انداز اور شیریں لب و لہجہ میں سمجھاتے تو گفتگو میں اس قدر تسلسل ہوتا اور لب و لہجہ میں اس قدر زیر وبم ہوتا کہ دریاؤں کی روانی اور سمندروں کے تلاطم کامنظر نگاہوں کے سامنے آجاتا۔ بات کو سمجھانے کا سلیقہ اور مسئلہ سے مسئلہ نکالنے کا ہنر ، خطابت میں شباب کی گرمی آپ کی خطابت کے امتیازی اوصاف تھے۔ اسی جوہری خطابت کو بروئے کار لاکر آپ نے بڑے سے بڑے مسائل حل کیے اور عظیم الشان جلسہ گاہوں کو کام یابی سے ہمکنار کیا۔ الغرض آپ میدان خطابت کے بھی کہنہ مشق شہ سوار تھے۔
حاصل کلام یہ کہ میرے بڑے بھائی گوناگوں صفات اور علمی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اپنے پرائے سب آپ کی خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے۔ آپ کا حسن ِکردار اورحسنِ عمل لوگوں کی نگاہوں میں اسی طرح جچتا تھا، جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ اسی طرح آپ نے بھی ان خوبیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنی پچاس سالہ زندگی میں قوم وملت کی وہ خدمات انجام دیں، جسے احسان اور قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔ جب تک آپ سے دین وملت کی خدمت لینا اللہ تعالیٰ کو منظور تھا، تب تک آپ نے کامل تندہی سے اس خدمت کو انجام دیا اور جب وقتِ موعود آپہنچا تو دوسروں پر بوجھ بنے بغیر اس دنیا سے رشتہ ناطہ توڑ کر اس عالم سے جوڑ لیا ،جہاں آرام ہی آرام اورسکون ہی سکون کی حکمرانی ہے۔
تمام عمر اسی احتیاط میں گذری کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو
چھپ گیا آفتاب شام ہوئی اک مسافر کی رہ تمام ہوئی
اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ چین و سکون عطا فرمائے۔ آپ کی تمام علمی و دینی، تدریسی و تصنیفی خدمات کو قبول کر رفع درجات کا ذریعہ اور سبب بنائے۔اللہ تعالیٰ ان کے بچوں اور بچیوں اور اہل خانہ کو صبر جمیل ، ان کے بچوں کی بہترین کفالت اور تربیت اور ان کے بچوں کو مرحوم بھائی کے لیے صدقہٴ جاریہ بنائے۔ آمین!
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہٴ نورشتہ اس گھر کی نگہبانی کرے
(آمین یا رب العالمین)
۷/ ذی الحجہ ۱۴۴۱ ئھ مطابق ۳۰ جولائی ۲۰۲۰ءء