(حضرت مولانا )قاری احمد علی( صاحب )فلاحی
بانی،مہتمم وشیخ الحدیث؛ جامعہ فیض سلیمانی موٹی نرولی
اچھے دوست کی اہمیت:
ایک مخلص اور اچھا دوست اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، جو زندگی کے ہر موڑ پر بھلائی اور نیکی کی ترغیب دیتا ہے۔ نیک وصالح دوست صرف دنیا ہی میں نہیں ، بل کہ آخرت میں بھی کام آئے گا، جیسا کہ شفاعت کے باب میں موجود ہے کہ کچھ لوگ اپنے مولائے حقیقی سے عرض کریں گے کہ دنیا میں ہمارے کچھ دوست اور ساتھی تھے، آج وہ ہمارے مابین جنت میں نظر نہیں آرہے ہیں۔ تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی سفارش پر ان کے دوستوں کو جہنم سے خلاصی نصیب فرمائیں گے، یہی وجہ ہے کہ حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ:
”مومن دوستوں کو بڑھاوٴ؛ اس لیے کہ قیامت میں ان کو سفارش کا حق ملے گا۔“
اور اسی کے پیش ِنظر علامہ ابن الجوزی رحمة اللہ علیہ اپنے شاگردوں اور دوستوں کو فرماتے تھے کہ:
” اگر میں تمہیں جنت میں نہ ملوں تو اللہ تعالیٰ سے درخواست کرنا کہ ہمارا ایک دوست تھاجو ہمارے درمیان اے اللہ آپ کا ذکر کرتا تھا۔“ اور یہ کہتے ہوئے حضرت ابن الجوزی رو پڑے۔
معلوم ہوا کہ ایک اچھا دوست ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ ایسے ہی ایک مخلص اور للہ فی اللہ محبت رکھنے والے دوست ہمارے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب رویدروی رحمة اللہ علیہ تھے، جو میرے لیے ایک دوست، ایک بھائی، ایک رازدار بل کہ ایک استاد کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے میرے اُوپر بہت احسانات ہیں، چوں کہ میری ان کے ساتھ طویل رفاقت رہی ہے، اس لیے جو واقعات میں نے ان کے دیکھے ہیں ان میں سے چندکو لکھتا ہوں:
اپنے چھوٹوں کو آگے بڑھانے کا جذبہ:
دار العلوم فلاحِ دارین ترکیسر میں زمانہٴ طالبِ علمی میں، میں غالباً عربی سوم میں اور مولانا عبد الرحیم صاحب رحمة اللہ علیہ عربی ششم یا دورہٴ حدیث شریف میں تھے۔ان دنوں فلاحِ دارین ترکیسر میں کوئی جلسہ ہونے والا تھا، جس میں اُردو تقریر کے لیے میرا انتخاب ہوا تھا اور مجھے تقریر کی مشق کروانے کے لیے حضرت مولانا سید ذو الفقار احمد صاحب نور اللہ مرقدہ نے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب کو متعین کیا تھا۔ مولانا عبد الرحیم صاحب نے مجھ سے کہا میں عصر کے بعد تمہاری تقریر سنوں گا، میں عصر کے بعد کرکٹ کھیلنے چلا گیا۔پھر وہ مغرب بعد میرے پاس آئے، اس وقت میں تکرار میں مصروف تھا۔ پھر عشا کے بعد آپ آئے تو میں تجوید میں تھا۔ اس طرح میں ٹالتا رہا، مگر وہ میرے پیچھے لگے رہے اور مولانا ذو الفقار صاحب رحمہ اللہ کویہ یقین دہانی کراتے رہے کہ احمد علی برابر تیاری کررہے ہیں۔اس اُردو تقریر کے تیار کروانے میں انہوں نے میری ایسی منت سماجت کی گویا کہ اس میں ان کا کوئی فائدہ ہو، جب کہ اس میں فائدہ تو میراتھا۔ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب رحمة اللہ علیہ نے اس تقریر میں موضوع کے مناسب اشعار کو جوڑ کر اس مضمون میں چار چاند لگادیئے اور مجھے بولنے کا سلیقہ سکھایا، نشیب وفراز سے واقف کیا۔اس طرح خطابت کے میدان میں وہ میرے استاذ اور میں اُن کا شاگرد ہوں، اس واقعہ سے مولانا میں افراد سازی کے جذبے کا پتہ چلتا ہے۔
مولانا مرحوم کی سخاوت:
مولانا مرحوم ایک علما نواز اور سخی شخص تھے۔ مجھے برابر یاد ہے کہ جب میں فلاحِ دارین ترکیسر میں مدرس بنا، اس وقت میری تنخواہ کم تھی اور میرا بیٹا حافظ عمار سلمہ اکثر بیمار رہتا تھا۔ اس وقت مولانا ترکیسر تشریف لاتے اور فروٹ وغیرہ کافی چیزیں ساتھ لاتے۔ مجھے تسلی دیتے اور جاتے وقت پانچ سو (۵۰۰) روپئے میرے ہاتھ میں رکھتے اور پھر جب گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو اور پانچ سو (۵۰۰) روپئے دیتے ۔ اور میری شریک حیات کے بارے میں کہتے : ”یہ پیسے میری بہن عاتکہ کو دے دینا“۔ جب کہ اس وقت میں تو غربت کی حالت میں تھا ہی مگر مولانا بھی کوئی صاحبِ مال نہ تھے، لیکن پھر بھی خیال رکھتے تھے۔اور میں نے سنا ہے کہ آپ بہت سے علما، حفاظ اور ائمہ مساجد وغیرہ کا خیال رکھتے تھے۔
کارِ خیر میں مولانا کا تعاون:
میرے اُوپر مولانا کے احسانات میں سے ایک احسان یہ بھی ہے کہ جب دار العلوم فلاحِ دارین ترکیسر میں مشکوة شریف کا درس مجھ سے متعلق کیا گیا تو میں نے بذریعہ فون مولانا مرحوم کو مطلع کرتے ہوئے کہا کہ مشکوة شریف کی تدریس میں آپ میری رہ نمائی فرمائیں۔ چناں چہ مولانا مرحوم ترکیسر تشریف لائے اور مجھے اپنے ساتھ رویدرا لے گئے ۔ اپنے برادرِ محترم اور میرے استادِ مکرم جناب مولانا مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری دامت برکاتہم سے ملاقات کروائی اور مولانا مفتی عبد اللہ صاحب کو بتلایا کہ قاری احمد علی صاحب امسال مشکوة شریف پڑھانے والے ہیں۔ اس وقت حضرت مفتی عبد اللہ صاحب نے اپنے مفید مشوروں سے نوازا، نیز اپنی مشکوة شریف کی کاپی اور کچھ کتابیں مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ ان سب چیزوں کی نقل کرواکر اصل مجھے پہنچادینا، میں نے ایسا ہی کیا۔ اس سے مجھے مشکوة شریف کے پڑھانے میں بڑی مدد ملی اور ایک بہترین کاپی میرے پاس تیار ہوگئی۔
مولانا مرحوم کی شانِ خطابت اور اندازِ دعا:
مولانا مرحوم کے ساتھ اکثر برطانیہ کے سفر میں ہم جمع ہوجاتے اور برطانیہ کے ڈیوزبری میں جناب حاجی عبد اللہ بھائی منشی کے گھر پر اکثر ہمارا اجتماع ہوتا تھا۔ اس جگہ میں (قاری احمد علی) مولانا عبد الرحیم صاحب اور مولانا عارف بھادی ، ہم لوگ جمع ہوکر افطاری، تراویح اور سحری کیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ کی بات ہے کہ برطانیہ کے شہر لیسٹر کی مسجد معاذبن جبل میں عصر کی نماز کے بعد میرا بیان تھا۔ دورانِ بیان میں نے مولانا عبد الرحیم صاحب رحمة اللہ علیہ کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو میں نے اعلان کیا کہ انجن کی حیثیت رکھنے والے ہمارے مولانا عبد الرحیم صاحب تشریف لائے ہیں، اس لیے اب ڈبہ کی یعنی میری ضرورت نہیں ہے۔ اب مولانا عبد الرحیم صاحب بیان فرمائیں گے۔ مولانا بہت انکار کرتے رہے، مگر میرا اِصرار اُن کے انکار پر غالب آگیا، اس وقت مولانا نے بہت ہی بہترین انداز میں رمضان اور روزے کے عنوان پر بیان فرمایا اور اس سے بڑھ کر ۱۵/ منٹ کے لیے آپ نے ایسی دعا کروائی کہ مجمع میں ہر شخص آب دیدہ ہوگیا۔ اس دعا میں آپ نے خاص طور پر اپنے برادرِ محترم اور میرے استاد ؛حضرت اقدس مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری کے لیے بہت رو رو کر دعائیں کی۔
مولانا مرحوم کی طرف سے ہمت افزائی:
میں بحمد اللہ تقریباً ۲۸/ برس سے خطابت کے میدان میں کام کررہا ہوں۔ پہلے میری عادت تھی کہ میں زیادہ دور تک بیان کے لیے نہیں جاتا تھا، میری کوشش یہ رہتی تھی کی میں ایسی جگہ بیان کے لیے جاوٴں جہاں سے بآسانی میں ٹرین یا گاڑی کے ذریعے گھر واپس آسکوں۔لیکن جب یوپی، بہار، جھارکھنڈ، اُڑیسہ، کلکتہ اور مہاراشٹر کے دور دراز کے علاقوں سے تقاضے بڑھنے لگے تو میں نے نواپور میں سہیل بھائی کے گھر پر بیٹھ کر مولانا عبد الرحیم صاحب سے مشورہ کیا۔ تو مولانا مرحوم نے ” فو اللّٰہ لأن یُہدٰی بک رجلٌ واحدٌ خیرٌ لک من حُمرِ النَّعم“ (بخاری شریف) کو عنوان بناکر ایسا مشورہ دیا کہ مجھے شرحِ صدر ہوگیا اور پھر از آں دم تا ایں دم یہ اسفار بحمد اللہ جاری ہیں۔بل کہ کئی علاقوں میں تو بیانات خود مولانا مرحوم ہی متعین کرواتے اور ان پروگراموں میں مولانا خود شریک رہتے تھے۔ ابھی چند دنوں قبل میرا بیان ”شِرڈی“ میں ہونا طے پایا تھا، جہاں مجھے اور مولانا کو ساتھ جانا تھا، مگر کرونا وائرس کی وجہ سے وہ بیان نہیں ہوپایا اور پھر مولانا کا انتقال بھی ہوگیا۔
مولانا مرحوم کی خداداد صلاحیت:
ایک مرتبہ میرا نندربار میں بیان تھا۔ وہاں بہت بڑا مجمع تھا، وہاں کا (MLA)بھی مع اپنے رفقاکے حاضر ہوا تھا اور مولانا عبد الرحیم صاحب بھی حاضر تھے۔میں نے مولانا سے پوچھا آج آپ کیا بیان فرمائیں گے؟ مولانا نے فرمایا: میں آپ کا تعارف کرواوٴں گااور کچھ باتیں بیان کروں گا۔میں نے کہا: مجھے کل دوپہر میں مستورات میں بیان کرنا ہے، آپ ایسا بیان کیجیے کہ مجھے کل کے لیے مضمون مل جائے،۔چناں چہ مولانا نے برجستہ ایسا بیان فرمایا کہ مجھے راہ مل گئی۔ یہ اُن کی خداداد صلاحیت کی دلیل ہے، آپ کا بیان ہوتا بھی بہت جامع تھا، آپ خطبہ میں جتنی آیات اور احادیث پڑھتے تھے بیان میں ان سبھی آیات واحادیث پر روشنی ڈالتے تھے۔
مولانا مرحوم سے میری آخری گفتگو:
امسال رمضان المبارک کے موقع پر میں اور مولانا ساتھ برطانیہ جانے والے تھے، تقریباً ۲۶/ اپریل ۲۰۲۰ء کو ہمارا جانا طے تھا، لیکن کرونا وائرس کی اس مصیبت کی وجہ سے جب مجھے یقین ہونے لگا کہ اب ہمارا سفر نہیں ہوپائے گا۔ میں نے مولانا کو فون کیا اور بتلایا کہ اب تو سفر نہیں ہوپائے گا اور میں نے بتلایا کہ مجھے فکر سفر کی نہیں ہے، بل کہ فکر یہ ہے کہ میرا مدرسہ؛ جس کا بجٹ ایک کروڑ سے متجاوز ہوگیا ہے، اس کا کیا ہوگا؟ مولانا نے جواب دیا: آپ فکر نہ کریں، میں آپ کے ساتھ پورے ہندوستان میں چلوں گااور آپ کے ادارے کا چندہ کرنے میں آپ کا بھرپور تعاون کروں گا، لیکن اس بات چیت کے بعد پانچ ہی دن گزرے تھے کہ آپ جان، جاں آفریں کے حوالے کرچکے۔
مولانا مرحوم سے آخری ملاقات:
۱۸/ فروری ۲۰۲۰ء کو شہر اُجین کے مدرسہ مطلع العلوم میں ، میں اور مولانا ساتھ تھے اور ہمارے ساتھ ہمارے طالبِ علمی کے زمانے کے دوست مولانا تصور صاحب اندوری بھی تھے۔ مولانا عبد الرحیم اور مولانا تصور صاحب کو مجھ سے پہلے بیان کرناتھا، اس وقت مولانا عبد الرحیم صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے جلدی جانا ہے، مصروفیت ہے، اس لیے آپ کے بیان میں تھوڑی دیر ٹھہر کر میں اور مولانا تصور صاحب ہم دونوں چلے جائیں گے۔ چناں چہ جب میرا بیان شروع ہوا اور تھوڑی ہی دیر بیان کیا تھا کہ مولانا جانے لگے اور جاتے جاتے اپنی نئی صدری دورانِ بیان میرے کندھے پر رکھ کر تشریف لے گئے۔ میں برابر اُن کو دیکھتا رہا، یہاں تک کہ وہ میری نظروں سے دُور ہوگئے، یہ آخری نظر تھی جس سے میں نے مولانا کو دیکھا۔
مولانا کے انتقال کے بعد، مولانا کے صاحب زادے مولانا ریحان صاحب سے میری بات چیت ہوتی رہتی ہے، میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مولانا ریحان صاحب کو ان کا صحیح جاں نشین بنائے۔
لکھنے کو تو بہت کچھ ہے، لیکن انہیں چند باتوں پر اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو مولانا کا نعم البدل نصیب فرمائے۔ان کی قبر کو نور سے منور اور درجات کوبلند فرمائیں۔ آمین!