(حضرت اقدس مولانا شاہ یوسف متالا صاحبمہتمم دارالعلوم بری انگلینڈ)
مکتوب نمبر:(۸)
ایک مکتوب گرامی میں تحریرفرمایا: آپ غسل کرکے دو رکعت صلوة التوبہ پڑھ کر آئندہ کے لیے احتیاط کا عزم کرلیں، اور خوب رو کر استغفار کریں۔ اللہ تعالے سے معافی مانگیں اور اس کے لیے ہمیشہ نماز کے بعد بہت دیر تک پہلے تو ہاتھ اٹھائے بغیر نادم رہیں،خوب ندامت کے بعد پھر دعا شروع کریں، اس میں رونا بھی آئے گا؛ان شاء اللہ روکر گناہ دھلیں گے۔
دنیا میں روکر گناہوں کو دھوناضروری ہے؛ تاکہ عذاب ِآخرت و نارِ جہنم سے دھونے کی ضرورت پیش نہ آئے؛ اگرچہ امید رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے ہماری سیأت کو معاف فرمائے اور بلا حساب چھٹکارا نصیب فرما دے، میں بھی دعا کروں گا۔ آپ بھی کوشش کیجئے، زیادہ وقت تنہائی میں گزارا کیجئے، اکیلے رہا کیجئے۔
۱- اس مکتوب گرامی سے توبہ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے، انسان کو توبہ کا نہایت ہی زیادہ اہتمام کرنا چاہیے کہ انبیاء کے سوا کوئی بھی معصوم نہیں ہے، تو بہ کے وقت پورے یقین کے ساتھ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کیا جائے۔ اور پھر اس کا لحاظ رکھا جائے کہ توبہ شکنی نہ ہو اور احتیاط کے بعد بھی گناہ کا صدور ہو جائے تو پھر دوبارہ توبہ
باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
این در گہہ ما در گہہ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اے انسان! بے شک تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا۔ اور مجھ سے امید لگائے رہے گا۔ میں تجھ کو بخشوں گا۔ تیرے گناہ جتنے بھی ہوں میں کچھ پرواہ نہیں کرتا ہوں۔!
ا سے انسان اگر تیرے گناہ آسمان کے بادلوں کو پہنچ جائیں پھر بھی تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تجھے بخش دونگا اور میں کچھ پرواہ نہیں کر تاہوں۔
اے انسان! اگر تو اتنے گناہ لے کر میرے پاس آئے ہیں سے ساری زمین بھر جائے پھر مجھ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناتا ہو تو میں اتنی ہی بڑی مغفرت سے تجھ کو نوازوں گا۔ جس سے زمین بھر جائے۔ (ترمذی ابواب الدعوات ۵۰۹)
یہ شہنشاہِ حقیقی کی طرف سے کتنا بڑا انعام و اکرام ہے، انسان سے لغزش اور خطائیں ہو جاتی ہیں۔ احکام کی ادائیگی میں خامی رہ جاتی ہے، مواظبت اور پابندی میں فرق آجاتا ہے، صغیرہ اور کبیرہ گناہ اپنی نادانی سے بندہ کر بیٹھتا ہے۔ اللہ تعالے نے اپنے بندوں کی مغفرت کے لیے خود نسخہ تجویز فرما دیا کہ عجز و انکساری کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں مضبوط امید رکھتے ہوئے مغفرت کا سوال کرو،دل میں شرمندہ اور پشیمان ہو کہ ہائے مجھ ذلیل و حقیر سے مولائے کا ئنات خالق موجودات تبارک و تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگئی اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرے۔ ان نشاء اللہ خداتعالیٰ مغفرت فرما دے گا۔
۲- اس مکتوب گرامی میں خوف اور رجا کی تعلیم دی گئی ہے کہ
”الإیمان بین الخوف والرجاء“
اللہ سے ڈرتے ہوئے رو کر دعا کی جائے، لیکن ساتھ ہی امید بھی رکھی جائے کہ اللہ تعائے اپنے لطف وکرم سے سیأت کو معاف کرے گا۔
اس سے حضرت والا کی شان تربیت ظاہر ہے۔
مکتوب نمبر:(۹)
ایک طالب حق کو حضرت نے فرمایا:
جس مرتبہ اورحال میں پہنچے اسے منزل بہ سمجھو، منزل اورآگے ہے، اپنی طبیعت میں خلوت پسندی کو پیدا کریں۔ تنہائی میں رونے دھونے کی دولت نصیب ہو، اس کی کوشش کریں۔ ہمارے یہاں نسبت چشت کے حصول کی علامت گریہ وزاری کا غلبہ ہے۔
اس مکتوب گرامی کی اس آیت سے تائید ہوتی ہے۔
﴿یا ایہا الذین امنوا امنوا﴾
اے ایمان والو! ایمان لے آوٴ، یعنی ایمان جیسی عظیم الشان نعمت کے حصول کے بعد اس پر اکتفا نہ کیا جائے، بل کہ اور آگے بڑھے کہ کوشش کی جائے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا منازل سلوک طے کرنے خلوت پسندی کو خاص دل ہے۔