(حضرت اقدس مولانا شاہ یوسف متالا صاحبمہتمم دارالعلوم بری انگلینڈ)
مکتوب نمبر :(۱۰)
ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: آپ سے پہلے بھی عرض کیا گیا تھا کہ آپ امراض قلبیہ کی فکر میں زیادہ نہ رہیں، اس سے مایوسی پیدا ہوتی ہے، بل کہ قلب کو محبت کی طرف لائیں اور خوف پر محبت کو غالب رکھیں، اس کی کوشش کیجیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت میں زیادتی ہو۔ محبت سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں، اللہ تعالیٰ انوار محبت سے تمہیں بھی منور فرمائے ، مجھے بھی۔ آمین!
۱- اس مکتوب سے معلوم ہوا کہ ہر وقت امراض قلبیہ کی فکر میں نہ لگے رہنا چاہیے۔ اس کا یہ بھی نہیں کہ بالکل ہی فکر ترک کردیں، بل کہ اعتدال ہونا چاہیے۔ اگر افراط وتفریط سے کام لیا گیا تو ہر جانب نقصان ہے۔
۲- دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ انسان کو اللہ ورسول سے محبت پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ یہی اصل مقصود ہے۔ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب تک تمہارے نزدیک اللہ اور اس کا رسول ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے، اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہ ہوگا۔
ظاہر ہے کہ خدا وند قدوس کے اتنے احسانات ہیں کہ لا تعد ولا تحصیٰ، تو اس محسنِ حقیقی سے محبت صرف صفات محمودہ اور جلال وکمال کی وجہ سے ہونی چاہیے کہ ان صفات میں وہ وحدہ لا شریک ہے۔ اس لیے اللہ پاک نے حضرت داوٴد علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ مجھے سب سے زیادہ پیارا وہ بندہ ہے جو میری عطا اور احسان کے بغیر محض حق ربوبیت ادا کرنے کی غرض سے میری عبادت کرے۔
ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا چند ایسے لوگوں پر گزر ہوا جو خلوت میں بیٹھے عبادت کررہے تھے اور کہتے تھے کہ ہم جنت کی امید رکھتے ہیں اور دوزخ کا ڈر حضرت روح اللہ نے فرمایا کہ تم کو مخلوق کی ہی طع ہے اور مخلوق ہی کا خوف ہے۔ وائے افسوس ! کہ خالق کے لیے کچھ بھی نہیں ۔ آگے جاکر چند دوسرے لوگوں پرگزر ہوا جو خلوت نشیں تھے اور کہتے تھے کہ ہم تو محض خدا کی محبت اور اس کے جلال کی عظمت کی وجہ سے اس کی عبادت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بے شک تم خدا کے ولی و مقرب ہو اور تمہارے ہی پاس بیٹھنے کا مجھے امر ہے۔(تبلیغ دین امام غزالی )
ایک عالم دین حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ سے بیعت تھے۔ حضرت کی وفات کے بعد حضرت اقدس شیخ المشائخ مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ سے وابستہ ہوگئے۔ حضرت شیخ رحمة اللہ علیہ کے بعد انہوں نے حضرت مولانا یوسف صاحب زید مجدہم سے رجوع ہونے کو لکھا، حضرت مولانا نے ان کو جو جواب تحریر فرمایا وہ درج ذیل ہے۔
مکتوب نمبر :(۱۱)
مکرم و محترم حضرت مولانا ………صاحب مد فیوضکم
بعد سلام مسنون مزاج شریف گرامی نامہ موصول ہوا۔ آپ کے حالات ومعمولات پڑھ مسرت ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ ترقیات سے نوازے، اپنا قرب اوراپنی محبت نصیب فرمائے۔
اس سے زیادہ اور مسرت ہوئی کہ آپ حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ اور ان کے بعد حضرت شیخ رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہوئے ، بڑی سعادت کی بات ہے۔ مگر آپ کا حضرت رحمة اللہ علیہ کے لاکھوں غلاموں اور ایک سو سے زائد خلفا میں سے اس وربیا کا انتخاب کرنا بے محل ہے کہ حضرت کے خلفا میں بڑے بڑے آفتاب وماہتاب موجود ہیں۔ میرا تو جس نے بھی آپ کو پتہ دیا ہو ، یہ ان کا صرف حسن ظن ہے۔ دعا فرماویں اللہ تعالیٰ وہاں آخرت میں بھی ستاری کا معاملہ فرمائے۔ رسوائی سے بچائے۔
بیعت کے متعلق تو اکابرین کا ارشاد ہے کہ خوب ٹھوک بجاکر بیعت ہونا چاہیے اور میرے احوال آپ کو معلوم نہیں۔ روئے زمین پر جتنے اہلِ ایمان بستے ہیں، ان میں سب سے زیادہ بدکار رو سیاہ میں ہوں۔میرے تو نہ اعمال ہیں نہ کوئی حال احوال بس صرف ایک کمزور سا ایمان ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ اس کو تادم آخر محفوظ فرماوے اور اس کے ذریعہ میری مغفرت فرماوے۔
حضرت نور اللہ مرقدہ کے ۱۰۹/ خلفا ہیں، آپ کے پاس ان کی فہرست پہنچی ہو تو ٹھیک ہے اس میں سے استخارہ کرنے بعد کسی طرف رجوع فرمالیں اور نہ پہنچی ہو تو تحریر فرمادیں ، میں یہاں سے بھیج دوں گا۔
فقط : یوسف
اس مکتوب گرامی سے حضرت مدظلہ کی شان تواضع وانکساری مترشح ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلیٰ مقام پر فائز فرمایا ۔ بدلیل حدیث ” مَنْ تَوَاضَعَ لِلّہِ رَفَعَہ اللّہ “
بھائیو! تواضع ہی سے انسان فرشتوں سے آگے بڑھ جاتا ہے اور کبر جو کہ ام الامراض ہے اس سے انسان اللہ تبارک وتعالیٰ سے کوسوں دور ہوجاتا ہے۔
ازیں بر ملائک شرف داشتند
کہ خود را بہ از سگ نہ پند اشتند
آخر میں دعا ہے اللہ تعالیٰ اولاً اس سیاہ کار اور بعد میں سب دوستوں کو رذائل سے پاک فرماوے۔ اور اہل اللہ کی محبت نصیب فرماوے۔ آمین!
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
۱۰/ جمادی الآخر ۱۴۰۵ھ -۳/ مارچ ۱۹۸۵ء