مولانا افتخار احمد قاسمی بستوی/استاذجامعہ اکل کوا
اللہ رب العزت نے اس دنیا میں جس کو بھی بھیجا ہے اس کو ایک محدود وقت کے لیے بھیجا ہے ، بل کہ کہنا چاہیے کہ یہ دنیا اور اس کی ہر چیز محدود ہے ۔ لامحدود تو خدا کی ذات و صفات ہے۔ اسی لامحدود ذات کے وجود سے سارے محدود وجود کو پرتو وجود ملا ہے۔ نور ِوجود ذاتی کو کسی سے اپنا نور پہنچانے میں نہ کوئی بیر ہے اور نہ کوئی انکار ۔ ہر ایک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق ہی وجود کی نعمت اور وجود کے نور سے قوی و ضعیف وجود پاتا ہے۔
آسمان کو دیکھئے ، برسوں سے موجود ہے ، نہ اس میں کوئی شگاف ہے ، نہ کوئی پھٹن ، نہ اس کو بھوک لگتی ہے ، نہ پیاس ۔ پس زمانہٴ دراز سے اپنی ایک حالت پر قائم ومستقیم سایہ فگن ہے ۔ اور جب تک اللہ رب العزت کو اپنی قدرت سے ، اسے باقی رکھنا منظور ہوگا، باقی رکھے گا اور جب اس کا حکم آجائے گا تو ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔ زمین کو دیکھئے کیسے موجود ہے اور کب سے موجود ہے ؟ لاکھوں لوگ اس کی پشت پر چلتے ہیں۔ لاکھوں ٹن سامان لے کر ایک ایک منٹ اورسکنڈ میں کتنی کتنی وزنی سورایاں اس کی چھاتی پر دندناتی پھر تی ہیں ، پھر بھی زمین اپنی جگہ قائم ہے۔ خدا کی قدرت اس کو تھامے ہوئے ہے ۔ خدا کا لا محدود وجود اپنے پرتو وجود سے اس کو مستحکم بنائے ہوئے ہے۔ اللہ ہی نے آسمانوں کو بھی روک رکھا ہے اور زمین کو بھی ، اللہ نے آسمان وزمین کو اپنی جگہ سے ہٹ جانے سے روک رکھا ہے ۔ اگر خدا تعالیٰ اپنی قدرت کو ہٹائے تو آسمان و زمین اپنی جگہ پرقائم نہ رہ سکیں۔ اسی کے بالمقابل انسان کا وجود ہے۔
انسان کو بھی خدائے ذو الجلال واجب الوجود ، ذاتی وجود سے وجود کا پرتو ملاہے۔ لیکن آسمان وزمین کے وجو د سے انسان کا وجود ناتواں اورضعیف ہے۔ آگ ، پانی ، ہوااور مٹی کے چار مختلف عناصر سے مرکب وجود انسانی کی ناتوانی اور کم زوری کا ذرا مشاہدہ تو کیجیے کہ آگ پانی پر ، پانی آگ پر ہر آن حملہ آور ، ہوا مٹی کو اڑا لے جانے اور مٹی ہوا کے دباوٴ کو روکنے میں ہر دم مصروف کار ہے۔ اسی کشاکشی کے عالم میں چاروں عناصر کو خدا وند ذو المنن نے ایک وجود کا مرکب بناکر سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ یہ انسانی وجود اتنا کم زور وناتواں ہے کہ ذرا سا تیز دوڑنے پر اس کا سانس پھولنے لگے۔اپنے وجود کی بقا کے لیے اپنے وجود کے اندر پیاس کی وجہ سے پانی مانگنے لگے ۔ چار پانچ گھنٹے بھی قاعدے سے مکمل ہونے نہیں پائے کہ بھوک لگ جاتی ہے اور بھوک کی حکومت کا مطالبہ ہے کہ اس وجود انسانی کو کچھ کھانا کھلائے ورنہ یہ کھوکھلا ہوجائے گا۔ اس کا ضعف بڑھتا چلاجائے گا۔ دوسری طرف آسمان دیکھئے برسوں سے سایہ فگن ہے۔ زمین دیکھئے زمانہائے دراز سے اس کی چھاتی پر اچھل کود مچی ہوئی ہے۔ اور پہاڑوں کو دیکھئے کہتے ہیں کہ ع
”ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے“
لیکن پہاڑ ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔نہ ان کو بھوک لگتی ہے نہ پیاس، نہ ہوا کی ضرورت کہ سانس لیں گے تبھی زندہ رہیں گے ورنہ مرجائیں گے۔
لیکن انسان پر اس کے ناتواں وجود پر بھوک پیاس کی حکومت، حاجت بشری پائخانے پیشاب کی حکمرانی ، بیماری اور بخار کی حکمرانی، سردی زکام اورنہ جانے بڑی چھوٹی کتنی بیماریاں ہیں، جن کی انسانی وجود پر حکمرانی ہر لمحے اور ہر آن جاری و ساری رہتی ہے۔
انسانی وجود اتنا کم زور وناتواں کہ باہر نکلتا ہے تو سرد ہوا وٴں سے ڈرتا ہے کہ کہیں بیمار نہ پڑجائے ۔ گرم ہواوٴں کا خوف کھاتا ہے کہ کہیں نقصان نہ پہنچا دیں۔ انسانی وجود کے عناصر اربعہ کے تضاد کے ساتھ انسانی اعضا کے جوڑ ہمیشہ خطرے میں کہ کہیں کوئی دھکا نہ لگ جائے۔ ہاتھ پیر میں چوٹ نہ آجائے ،ہڈیاں اپنی جگہ سے کھسک نہ جائیں اور اٹھنا بیٹھنا دوبھر نہ ہوجائے۔
لیکن اسی ضعف و ناتوانی کے ساتھ اللہ کے احکام وپیغام کے عمل کی گرمی اس کے اندر ایسی قوت وطاقت ڈال دیتی ہے کہ اللہ خود ہی اپنے اس کم زور وناتواں بندوں میں سے ایک لاکھ چوبیس ہزار کی کم و بیش تعداد کو اپنا برگزیدہ ومنتخب بندہ بناکر دوسروں تک اپنے احکام وپیغام کی روحانی طاقت کو پہنچانے کا مکلف بنایا اور تین سو پندرہ اخص الخواص بندگان خدا کو رسول بناکر نئی شریعت دے کر بندوں کی اصلاح کے لیے منتخب کیا۔
پھر سب سے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کی شکل میں وحی ربانی کی ایسی طاقت سے مجلیٰ اور منور فرمایا کہ ان کو اپنے پاس ہی معراج میں بلاکر رفعت و عظمت اور طاقت وقوت سے سرفراز کیا۔ آپ کے صحابہ ایک لاکھ چوبیس ہزار کی تعداد میں پوری دنیا میں پھیل گئے اور تابعین کی یہ بے شمار تعداد کے ذریعے خدا کے پیغام کو بندوں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا ، جس سے ان کے وجود ناتواں کو وہ طاقت ملی جو نہ پہاڑوں کے پاس نہ زمین وآسمان اس سے فیض یاب ۔
یہ سلسلہ نقل و ارشاد، تبع تابعین ، محدثین ، مفسرین اولیائے امت ،فقہائے زمانہ ، علمائے کرام اور اکابر امت میں چلتا رہا ،یہاں تک کہ مدارس وجامعات کے جال بچھادیے گئے اور وارثین نبی کی اتنی بڑی تعداد پوری دنیا کے چپے چپے میں پھیل گئی کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں وحی ربانی کے نور اور پیغام خدا کی طاقت سے لیس ہوکر چہار دانگ عالم میں خدا کے نغمے کو گنگنانے کے لیے ہر وادی وصحرا میں وارثین نبی موجود رہتے ہیں۔
دنیا کے ایک سو چھیانوے ممالک میں سعودی عرب، انڈونیشیا ، ملیشیا، ترکی، مصروایران اور پاکستان کے ساتھ بھارت بھی ایک ایسا ملک ہے، جہاں بے شمار وارثین نبی تیار ہوکر دوسرے اہل اسلام کو روحانی طاقت وقوت سے ہم کنار کرتے ہیں۔
ہندستان میں دارالعلوم دیوبند ، مظاہر علوم سہارن پور، ندوة العلما لکھنوٴکی قدیم دینی درس گاہوں کے ساتھ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کی نوخیز و نورانی درس گاہ بھی پر دہٴ عالم پر اپنی نور افشانی سے بہت جلد اور بہت کم وقت میں اپنی چھاپ چھوڑ چکی ہے، جہاں قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں ہر آن بلند ہوتی رہتی ہیں۔
یہاں بھی انسانی ناتواں وجود کو قوت بخشنے کے لیے وارثین نبی ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں تاکہ اس ضعیف وکم زور انسان کو وحی ربانی کی طاقت سے بہرہ مند کرکے ان کے گھروں کو رخصت کریں ۔جہاں جاکر وہ انسان کو اس کی گمشدہ دولت سے روشناس کرائیں اوریہ بتلائیں کہ تمہاری کم زوری کو طاقت سے بدلنے والی چیز صرف اور صرف وہ پیغام الٰہی اور وحی ربانی ہے ،جو قرآن کریم کی شکل میں نبی رحمت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر تیئس سال کی طویل مدت میں آکر اس نے سب کو طاقت ور اور منور کیا۔
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا نندور بار( مہاراشٹر) میں شب و روز تقریباً دس ہزار طالبان علوم نبوت اپنی روحانی طاقت کو طاقت ربانی اور نوار ایمانی سے منور ومجلّیٰ کرنے کے لیے مصروف عمل بر آری میں مدد کی لیے ہمہ وقت تیار ہتے ہیں ، لیکن کیا کہیے انسان کے اس وجود ناتواں پر کب بیماری کا حملہ ہوجائے اور کب وہ اس دنیا سے دوسری دنیا کے لیے رخت سفر باندھ لے نہیں کہا جاسکتا۔
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا نندور بار( مہاراشٹر) کے ایک مایہ ناز استاذ ، حضرت رئیس جامعہ مولانا غلام محمد وستانوی دامت برکاتہم کے دست راست اور برادر نسبتی ، سچے وارث نبی حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی طالبان علوم نبوت کو قرآن کریم کی تفسیر اور پیغام الٰہی کی نشرو اشاعت کی طاقت ور مہم میں مصروف چلتے چلتے ، رواں دواں زندگی کے ساتھ اچانک ایسا داغ مفارقت دے گئے کہ ہم سبھی اورپورا جامعہ یک لخت سکتے میں آگیا۔
اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ انسان اپنے وجود سے نہایت ناتواں وکم زور ہے اور اپنی حقیقت کے اعتبار سے نہایت ضعیف واقع ہوا ہے۔تو شاید صبر کا پیمانہ چھلکتا ہی رہتا اور ابھی تک صبر نہ آتا ، لیکن اللہ رب العزت جس نے انسان کو ناتواں وجود بخشا ہے اسی نے صبر کی دولت عطا فرمائی اورہم نے” انا للہ و انا الیہ راجعون“ پڑھ کر اس حقیقت کو بار بار دہرایا کہ اے خدائے ذوالجلال !ہم بھی تو آپ ہی کے ہیں ۔ ہماراسارا وجود آپ ہی کے وجود ذاتی کا پرتو ہے ہم بھی آپ کے بلانے پر آپ کے پاس آنے والے ہیں۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
حضرت مولانا عبد الرحیم فلاحی رحمة اللہ علیہ ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے ، لیکن انہوں نے اپنے اندر پیغام ربانی کی طاقت کا جو جام پیا تھا اور وہی جام جو طلبہ کو ہر دم بالخصوص پوری دنیا کی تالابندی کے زمانے میں جامعہ اکل کوا کے طلبہ کو پلا کر طاقت ور بنانا چاہ رہے تھے ، وہی پلاتے پلاتے ایسا یک لخت گئے کہ بولنے والا بول اٹھا
پلا ساقیا تو مئے دل فروز
کہ آتی نہیں فصل گل روز روز
حضرت مولانا مرحوم نے علم وحی کا وہی جام پیا تھا ، جو صحابہ نے اپنے چہیتے نبی سے، تابعین نے اپنے اساتذہ صحابہٴ کرام سے ، تبع تابعین نے خیر القرون کے تابعین سے اور دیگر محدثین ومفسرین نے اپنے اپنے اساتذہٴ کرام سے پیا تھا۔ اس لیے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی مرحوم کے اندر اس جام کو مادی و معنوی طور پر ایسا لٹانے کی صفت موجود تھی کہ دیکھنے والا سمجھتا کہ ایسا دریا دل انسان ” چراغ رخ زیبا“ لے کر ڈھونڈنے سے بھی شایدہی ملے۔
سارا بھارت تالا بندی میں کراہ رہا تھا۔ مدارس اپنے طلبہ کو اپنی گود میں موجود گی پرفکر مند تھے، اساتذہ اپنے طلبہ کو اپنے گھروں میں عافیت کے ساتھ پہنچ جانے کے لیے دعا گوئی کے عمل میں مصروف تھے۔ ایسے عالم میں حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی مرحوم طلبہ کو وہ طاقت وقوت فراہم کرنے میں لگے تھے کہ جس کا کوئی بدل نہیں۔
کسی طالب علم سے کہہ رہے ہیں، بیٹا ! تم سورہ یوسف لکھ کر لاوٴ ۔کسی طالب علم کو مکلف بنارہے ہیں کہ آپ سورہ نصر کا خلاصہ مع فوائد ضرور لکھ کر لاوٴ۔کسی کو سورہ فاتحہ اور سورہ ناس کے باہم ربط ابتدا وانتہا کو لکھنے پر مامور کررہے ہیں۔ کسی سے کہہ رہے ہیں کہ اعلان کرو ،جو بھی طالب علم اپنے ضعف کے باوجود اس طاقت بھری اور نغمہ آگیں تفسیر کو لکھ کر لائے گا وہ اپنا مادی انعام بھی لے جائے گا۔ معنو ی انعام تو بارگاہ رب العزت سے پائے گا ہی ، طلبہ بالخصوص دورہٴ حدیث شریف کے طلبہ کی آمد ور فت کا سلسلہ آپ کے پاس جاری ہے ۔مادی ومعنوی انعام تقسیم ہورہاہے۔حضرت فلاحی مرحوم کادریائے سخاوت جوش میں ہے ،اتناجوش میں کہ سب کویقین ہے کہ شوال المکرم میں جب جامعہ کاتعلیمی نیاسال شروع ہوگا،توحضرت مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی ابتدائی انجمنوں کے افتتاحی اجلاسوں میں ہمارانام لے لے کراورخوش وخرم ہوکرانعامات اورکام یابی کاوہاں بھی تذکرہ کریں گے،جس سے ہماری ناتوانی توانائی میں بدل جائے گی۔ہماراپرتووجودخدائے ذوالجلال کے ذاتی وجودسے روشنی کی تمازت حاصل کرنے کے لیے ہروقت تیارہوجائے گا۔طلبہ اِسی اُدھیڑبن اوراپنے شرعی وانسانی خیالات کے سمندرمیں مستغرق ،خوش وخرم اورشاداں تھے کہ یکایک خبرآئی کہ آہ!………مولانا عبدالرحیم فلاحی چل بسے………اناللہ واناالیہ راجعون!
مولانااپنے بڑے فرزندمفتی ریحان اشاعتی اوراپنی اہلیہ کے ساتھ کھروڈمیں تھے،وہیں اپنی جان ، جاں آفریں کے سپردکی۔رئیسِ جامعہ کے منجھلے فرزندمولاناحذیفہ مولاناغلام محمدوستانوی سرکاری کارروائیوں میں مصروف ،جنازے میں شرکت کے لیے کوشاں ،حضرت رئیسِ جامعہ مولاناغلام محمدوستانوی دامت برکاتہم اپنے برادرِ نسبتی کادمکتاچہرہ دیکھنے اورآخری دیدارکے لیے اپنے مقام پردعاگواورحضرت رئیسِ جامعہ کے چھوٹے فرزندمحمداویس غلام محمدوستانوی بھی کھروڈجانے کے لیے تیار۔لیکن قضاوقدرکہیے کہ جس کے مقدرمیں جوتھاوہی ہوا۔جنازے کی نمازایک مرتبہ کھروڈمدرسہ میں ہوئی اوردوبارہ حضرت مولانامرحوم کے آبائی گاوٴں”رویدرا“ میں اورآپ کووہیں سپردِخاک کردیاگیا۔
”پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کاخمیرتھا“
تالابندی کازمانہ،ہرجگہ ازدحام پرقدغن،ازدحام بالکل نہ کریں کہ سرکاری چیخ وپکار،ادھرجامعہ میں موجودطالبانِ علومِ نبوت کی چیخ وپکار۔ میں کہہ سکتاہوں کہ آسمان تک نالے یقیناپہنچے ہوں گے اورفرشتوں کا جھرمٹ بالیقین جنازے میں شرکت کے لیے آیاہوگا۔آخرقال اللہ وقال الرسول کادرس سننے انسانوں کے ساتھ جب جنات آتے ہیں توکیاذکراللہ کی مجالس کوفرشتے نہیں گھیرتے؟آج وہی مجلسِ ذکرگرمانے والاسپردِ خاک کیاجارہاہے۔کیافرشتوں کے نالے مغفرت کی چیخ وپکارکے ساتھ بلندنہیں ہوتے ہوں گے؟کیاانسانوں اورجناتوں کے علاوہ دیگرمخلوقاتِ خدانے ان کونہیں سناہوگا؟
اگرانسان کاوجودناتواں نہیں ہوتا،اگرانسان عناصرِ اربعہ کی کش مکش والے عناصرسے وجودمیں نہ آیا ہوتا،اگرسیکڑوں جوڑ وبندکی قیدوبندمیں رہنے والاانسان اتناضعیف وناتواں نہ ہوتا،اگرانسان کی شپرہ چشم کی آنکھ کی مانندجلوہ آفتابِ وجودِ ربانی کے لیے نہ ہوتی توآج ……جب جسدِ خاکی کومولانامرحوم کی روح سے جداکرکے سپردِ خاک کیاجارہاہے توانسان فرشتوں کی طلبِ مغفرت کی چیخ وپکارکوضرورسنتا۔
لیکن انسان کی بصارت بڑی کھوٹی ہے ۔اس کادماغ بڑاکم زورہے ۔اُس کی طاقت بغیرطاقتِ پیغام ربانی سے بے حیثیت ہے ۔اِسی لیے توخداوندِ ذوالجلال کادیداراِس دنیامیں انسان اپنی آنکھوں سے نہیں کر پاتا۔اگرچہ خداکادیداراِس دنیامیں محال نہیں،ممکن ہے،لیکن دیدارِ ربانی کے لیے انسان کی ناتوانی ؛ناتواں آنکھ کومثل شپرہ چشم ہی بناکرپیش کرتی ہے ۔تواسی خدانے انسان وجنات کی سماعت کوآج ساری مخلوقات کی سماعت سے بھی زیادہ کم زورکردیاہے کہ طلبِ مغفرت کی دعائیں فرشتوں کی طرف سے کی جاتی ہیں،لیکن انسان وجنات کے لیے دیگرمخلوقات اُسے سنتی ہیں اورانسان وجنات اس سے محروم رہتے ہیں۔
مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی مرحوم وہ شخصیت تھے کہ جواپنے اندرجوہرہے ،وہ ہرایک کے اندرچلا جائے ۔اِسی کی فکرہمہ وقت دامن گیررہتی تھی ۔اسی لیے توچھوٹاہویابڑا،شہری ہویادیہاتی،قریبی ہویادورکا۔ حضرت مولانااُس کی ہراداپرلبیک کہنے کے لیے تیارہوجاتے ۔
مولانامرحوم یہ چاہتے تھے کہ یہ طالب علم کام کابن جائے ۔مفسربن جائے،محدث بن جائے،نحوی بن جائے،صرفی بن جائے،مقرروخطیب بن جائے،حافظ بن جائے،جیدوممتازبن جائے،تجویدمیں اپنے وقت کاقاری عبدالباسط بن جائے۔حدیث کی کوئی مجلس ہو،قرآن کریم کاداخلی وخارجی کوئی مسابقہ ہو،چھوٹے پیمانے پرہویابڑے پیمانے پر،مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی مرحوم کاوجودمسعودضروری ہوتا۔آپ کے بغیراُس کابارونق ہونامشکل ہوتا۔اپنی اس حاضری سے طالبانِ علوم نبوت کویہ درس دیتے کہ دیکھو!میں بیماریوں کامارا ہوں،پھربھی اپنے کام میں چستی کے ساتھ حاضر ہوں،طلبہ کویہ پیغام دینامقصودہوتاکہ ”نرم دم گفتگو،گرم دم جستجو“ کاپیکربنو۔
طلبہ کاششماہی،سالانہ امتحان ہوتوحضرت مولاناوہاں بھی پوری سرگرمی سے ”یوم جمہوریہ“اور”یوم آزادی“کی تقریب ہوتومولانامرحوم کاوجودوہاں پرضروری،سالانہ اجلاس میں تومولانافلاحی مرحوم توگویاروحِ رواں تھے۔عربی کاجلسہ ہویااردوکا،مراٹھی پروگرام ہویاآسامی،انگریزی پروگرام ہویاعصری،ہرگام وہرمقام پرمولاناعبدالرحیم فلاحی رحمة اللہ علیہ بڑی شخصیت کے طورپرگنے جاتے ۔جامعہ اکل کواکے طلبہ تویہاں تک کہتے کہ اگرمولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی مرحوم پروگرام میں آجاتے ہیں توہم سمجھتے ہیں کہ رئیسِ جامعہ مولاناغلام محمدوستانوی مدظلہ کی روح آگئی ،جسم باقی ہے ۔
گذشتہ دوسالوں سے” منافسہ فی الحدیث “کاپروگرام جامعہ کے موٴقراساتذہ میں بڑے چرچے میں رہا۔جناب ناظم تعلیمات مولاناحذیفہ غلام محمدوستانوی کی طرف سے خوب حوصلہ افزائی بھی ہوتی،مفتی مجاہداشاعتی،مولانایحیٰ نندورباری اشاعتی اورقاری محمدشفیق صاحب مدظلہم نے بڑی دل چسپی سے اس پورے پروگرام کانظم میں انتظام سنبھالا۔راقم سطوربھی گاہے گاہے اس میں شریک ہوتارہا۔لیکن حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی رحمة اللہ علیہ نے اِس پروگرام کوشروع سے لے کرآخرتک اتناسراہا،آگے بڑھایاکہ پورے پروگرام کی رونق ایسی دوبالاہوئی کہ ایک منظم تحریک کی شکل میں بننے کی پوزیشن میں آگئی۔
مولانافلاحی مرحوم چلتے چلتے بھی طلبہ کی خیرخیریت پوچھ لیتے ۔بعض طلبہ بالکل بے سہاراہوتے،ان کی جیب میں پانچ سوہزاریوں ہی بلاارادہ ڈال دیتے ۔بعض طلبہ جامعہ کے کپڑوں کے علاوہ اورکپڑے بھی نہیں بنواپاتے ،ان کی تن پوشی کامولانامرحوم انتظام فرماتے ۔بعض طلبہ مستقل ننگے پاوٴں چلتے،اُن کوبلاکراپنے بچے کی طرح اس کی خیریت پوچھتے بالکل اسی طرح ،جس طرح حضرت وستانوی کادل قالبِ رحیمی میں سرایت کر گیاہواورمولاناوستانوی کاارادہ میراارادہ ہواورمولاناوستانوی کابچہ میرابچہ ہو۔کبھی کبھی اُس کی حالت زارسن کر ایسے آبدیدہ ہوتے کہ چھپانے سے نہ چھپتااورلوگوں کوبھی اندرکی کڑھن پتاچلتی۔جلسوں میں توبالکل ابتدا ہی میں ابھی دولفظ بھی نہیں بول پاتے کہ آنکھوں سے آنسووٴں کاسیلاب جاری ہوجاتا،آوازصرف بھرّانہیں جاتی،بل کہ رک جاتی،مضمون سمجھ سے بالاترہوجاتا،یہ بھی بالکل حضرت رئیس جامعہ کی سالانہ جلسوں کی کیفیت کا عکس جمیل ہوتاکہ سالانہ جلسوں میں ابتداہی میں حضرت رئیس جامعہ بالکل زاروقطاررونے لگتے ہیں،جن کی وجہ سے پوراجامعہ اوراس کے درودیوارسے رونے کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔
اگرکہیں کہ مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی مرحوم سرتاپاحضرت رئیس جامعہ مولاناغلام محمدوستانوی مدظلہ العالی کی بے تاب فکروں کے عکس جمیل تھے توشایدغلط نہ ہو۔آئینے کے سامنے آپ کھڑے ہوجائیں، آپ کامکمل عکس آئینے میں چلاجاتاہے اوردکھائی دینے لگتاہے ،لیکن یہ پتانہیں چلتاکہ یہ عکس منعکس ہوکرآئینے میں کب گیا،کیسے گیااورکیوں گیا؟لیکن ہوتاہے آپ ہی کاپوراعکس۔
اِسی طرح مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی مرحوم حضرت مولاناغلام محمدوستانوی مدظلہ کے آئینہ تھے۔ مولاناوستانوی مدظلہ العالی مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی کے سامنے کھڑے ہوجائیں توپوراعکسِ وستانوی آئینہٴ رحیمی میں چھپ جاتا۔اب حال یہ ہوتاکہ مولاناوستانوی مولانا مرحوم کوکسی جلسے میں بھیجتے تومولانافلاحی وہاں جلسے میں وہی بات بیان کرتے ،جومولاناوستانوی مدظلہ چاہتے ۔اسی طرح بیان کرتے ،جیسے مولانا وستانوی دامت برکاتہم۔ جلسے کے شرکابعض مرتبہ کیا؛اکثرمرتبہ یہی کہتے :مولاناوستانوی کی کمی آپ نے پوری کردی۔ مولاناغلام محمدوستانوی کوبھی پورابھروسہ اورمکمل اعتمادتھا،اس لیے بلامضمون سمجھائے اورگفتگوکے عناوین بتائے مولانافلاحی مرحوم کوجلسوں میں اپنی جگہ بھیج دیتے تھے اورمولانافلاحی مرحوم بھی وہی مضامین بیان کرتے ،جومولاناکی منشاسے مطابقت رکھتا۔
آخرایساکیوں نہ ہوتا؟جب مولانامرحوم مولاناوستانوی مدظلہ کے لیے آئینہ تھے اورحضرت وستانوی اس آئینے میں پوری طرح منعکس ہوجاتے تھے ۔
اِس لیے حضرت رئیس جامعہ مولاناغلام محمدوستانوی مدظلہ العالی کواِس کادکھ کافی تھاکہ مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی اب ہمارے درمیان نہ رہے۔بل کہ کہناچاہیے کہ نائب رئیس جامعہ حافظ اسحق صاحب وستانوی اور پوراخاندانِ وستانوی مولانامرحوم کی ناگہانی موت پربے حددُکھی ہوا۔گویاغم کاپہاڑٹوٹ پڑا،لیکن اللہ نے سب کوصبردیااورمولاناوستانوی مدظلہ کے صاحب زادگان مولاناحذیفہ غلام محمدوستانوی ،مولانامحمداویس غلام محمدوستانوی اوردیگررفقائے کارنے کارہائے جامعہ کومکمل صبروضبط کے سنبھالے رکھاہے،اللہ تعالیٰ خصوصی مدد فرمائے ۔
اب جانے والاچلاگیا،دوبارہ آنے والانہیں ہے ۔اب ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم لوگ بھی اپنے ناتواں وجودپراتنی محنت کریں کہ جیسے لوہے کورگڑتے رگڑتے آئینہ بنادیاجاتاہے ۔ایسے ہی ہم اپنے وجودپر احکام ربانی اورخدائی گھاٹی کی مددسے اتنی محنت کریں کہ آئینہ بن جائیں اورایسے پکے مومن بنیں،جودوسرے مومن کے لیے آئینہ ہو۔ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم اپنے عقائدکومحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقائدکے مطابق بنائیں،اپنے معاملات ومعاشرت کونبوی معاملات ومعاشرت کے سانچے میں ڈھالیں اوراپنی اخلاقیات وعبادات کوصحابہ کرام اوراسوہٴ رسول کے قالب میں ڈھال کرزندگی گزارنے کاتہیہ کریں،تاکہ ہم پکے مومن بنیں اورمومن؛مومن کے لیے آئینہ بن کرزندگی گزارے گاتواُس کے وجودمیں وہ روشنی پھیلے گی ،جو آفتاب سے حاصل کرکے دوسروں تک پہنچے گی۔
جیسے مادی آئینہ یہ صلاحیت رکھتاہے کہ آفتاب جب طلوع ہوتاہے توروشنی پورے عالم کوبرابردیتاہے کسی کوکم،کسی کوزیادہ نہیں دیتا،لیکن اپنے اندرروشنی کولینے اورجذب کرلینے والے اپنی اپنی صلاحیت سے کم یازیادہ روشنی اخذکرتے ہیں۔درودیواراورعام اشیااتنی روشنی حاصل کرتی ہیں کہ خودروشن ہوجاتی ہیں۔لیکن آئینہ اورآتشیں شیشہ اپنی صلاحیت کی بنیادپرکچھ زیادہ ہی روشنی اورحرارت حاصل کرتے ہیں کہ آئینہ دوسروں کو بھی روشنی دیتاہے اورآتشیں شیشہ توحاصل کردہ حرارت سے دوسروں کوجلابھی دیتاہے ۔
اِسی طرح ہماراوجودِناتواں آفتابِ نبوت کی کرنیں پڑنے پراسی طرح روشنی حاصل کرے جیسے آتشیں شیشے اورآئینے نے حاصل کیا۔دوسروں کوبھی منورکیااورحرارت پہنچائی توہماراناتواں ضعف قوت وطاقت میں بدل کرایساقوی اورطاقت ورہوجائے گاکہ دنیاکی ظالم وجابرمادی طاقتیں مل کربھی ہمارابال بیکانہ کرسکیں گی۔اللہ تعالیٰ ہم سب کواپنے پیغام کواپنے اندراتارنے اورآفتابِ نبوت کی کرنوں سے خودکومنورہونے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین!