مفسر قرآن حضرت مولانا انیس احمد آزاد قاسمی بلگرامی نقشبندی مجددی
ناظم جامعہ عربیہ سید المدارس دہلی
خلیفہ محبوب العلماحضرت مولاناپیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی مجددی مدظلہ
بڑا وہی ہوتا ہے جو چھوٹوں کو بڑا بنانے کاہنر جانتا ہو۔خادم القرآن و السنة حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب رئیس جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا( مہاراشٹر) ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے ،جس نے نہ جانے کتنے چھوٹوں کو ہمدوش ثریا کر دیا۔
حضرت مولانا عبد الرحیم فلاحی صاحب نور اللہ مرقدہ پر بھی حضرت موصوف کی نظر عنایت کیا پڑی کہ مولانا فلاحی بھی یکتائے روزگار بن گئے۔
مولانا ابو الکلام آزاد کا یہ جملہ :
”راہ ِمقصد کی خاک بڑی ہی غیور واقع ہوئی ہے ۔وہ رہروکی جبین نیاز کے سارے سجدے اس طرح کھینچ لیتی ہے کہ پھر کسی دوسری چوکھٹ کے لیے کچھ باقی ہی نہیں رہتا “ (غبار خاطر :ص ۷۴)
مولانا فلاحی پر اپنی تمام تر صداقتوں کے ساتھ منطبق ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔مولانا فلاحی نے راہ مقصد کو جس خلوص و للہیت کے ساتھ طے کیا ہے اس کا بین ثبوت آپ کے دروس ہیں ۔
بعض اساتذہ کی تدریس میں طلبہ کے جدید ذوق و رجحان کا نہایت فقدان ہوتا ہے ، لیکن مولانا فلاحی کی تدریس میں طلبہ کے ذوق کی تسکین کا مکمل سامان ہوتا تھا ۔
مولانا فلاحی کا درس زبان و بیان کے لحاظ سے افراط و تفریط سے مبرّا اور ثقیل و عسیر الفہم جملوں اور ترکیبوں سے پاک اور تحقیقی نقطئہ نظر سے نہایت معیاری ہوتا تھا ۔
آپ کی نثر ایسی شگفتہ اور دل نشیں ہوتی تھی کہ نہ صرف اس سے فہم و مراد حاصل ہو ، بل کہ سامعین اس سے لطف اندوز بھی ہوتے تھے ۔
آپ کے طرز استدلال کی دلنشینی اور اسلوب بیان کی دلکشی لفظ لفظ سے عیاں رہتی تھی ۔
آپ تفسیری نکات، احادیث کی تشریحات اور فقہی جزئیات کو نہایت سہل ممتنع زبان میں بیان فرماتے تھے ۔
دوران در س کبھی الفاظ کا پردہ چاک کر کے مزاح بھی جھانکنے لگتا تھا ، پھر تو طلبہ کا تبسم قہقہوں میں تبدیل ہو جاتا ۔طلبہ کے قہقہوں پر مولانا فلاحی کی تبسم ریزی بھی قابل دید ہوتی تھی ۔
آپ کے درس سے طلبہ کی سوئی ہوئی خود شناسی جاگ اٹھتی تھی اور انہیں حقیقت کا عرفان حاصل ہو جاتا تھا ۔
آپ کے درس میں شستگی، شائستگی ، برجستگی ، رعنائی ، افہام و تفہیم اور ایجاز و اختصار نقطہ ٴ عروج پر ہوتا تھا اور خوبی یہ کہ ہر طالب علم اپنا دامن گوہر مراد سے بھر لیتا تھا ۔
علامہ شبلی نعمانی نے ایک حقیقت کا اظہار نہایت حسین اسلوب میں اس طرح کیا ہے :
”قانون فطرت کے نکتہ شناس جانتے ہیں کہ فضائل انسانی کی مختلف انواع ہیں اور ہر فضیلت کا جدا راستہ ہے۔ ممکن بل کہ کثیر الوقوع ہے کہ ایک شخص ایک فضیلت کے لحاظ سے تمام دنیا میں اپنا جواب نہیں رکھتا ، لیکن اور فضائل سے اس کو بہت کم حصہ ملتا تھا ۔سکندر سب سے بڑا فاتح تھا لیکن حکیم نہ تھا ۔ ارسطوحکیم تھا لیکن کشور ستاں نہ تھا ۔ بڑے بڑے کمالات ایک طرف چھوٹی چھوٹی فضیلتیں بھی ایک شخص میں مشکل سے جمع ہوتی ہیں ، بہت سے نامور گزرے ہیں جو بہادر ہیں ،لیکن پاکیزہ اخلاق نہ تھے ۔بہت سے پاکیزہ اخلاق تھے ،لیکن صاحب تدبیر نہ تھے ۔ بہت سے دونوں کے جامع تھے، لیکن علم و فضل سے بے بہرہ تھے۔ “ (الفاروق )
علامہ شبلی نعمانی نے حق اور سچ فرمایا، لیکن حضرت مولانا عبد الرحیم فلاحی صاحب کی ذات ستودہ صفات ایک کامل مومنانہ زندگی سے تعبیر تھی، جس میں علم ، تقویٰ ، زہد، قناعت ، فکری بصیرت ، غیر معمولی ذہانت ، محیر العقول علمی لیاقت ، فکری پیمانہ کی بلندی ، معیار نظر کی ارجمندی ، ظرافت میں بے داغ لطافت ، نصیحتوں میں دائمی صداقت اورابدی اقدار کی ترجمانی ، فطرت کے عالمگیر قوانین کی تبیین و تشریح جیسی نہ جانے کتنی اعلیٰ صفات موجود تھیں۔ حضرت مولانا عبد الرحیم فلاحی صاحب کے حالات زندگی اور علمی کارنامے ،علمی حلقوں میں ہمیشہ قدر کی نگاہوں سے دیکھے جائیں گے ۔
یہ عظیم شخصیت اچانک ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون !
اللہ تعالیٰ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا اور امت مسلمہ کو حضرت کا نعم البدل عطا فرمائے ۔
مولانا فلاحی صاحب سے میری پہلی ملاقات دار العلوم بڑوڈہ میں اس وقت ہوئی، جب جامعہ اکل کوا کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے حضرت وستانوی نے مجھے مدعو کیا تھا ۔دار العلوم بڑوڈہ کے طلبہ کے درمیان مختصر سا خطاب کر کے حضرت مولانا فلاحی صاحب کی معیت میں اکل کوا کے لیے روانگی ہوئی ۔پھر تو مولانا فلاحی صاحب سے تعلقات بڑھتے ہی چلے گئے۔دہلی میں منعقد ہونے والے پندرہ روزہ اجلاس ”سیرت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم“ میں بھی میں نے مولانا فلاحی صاحب کو مدعو کیا ، جامعہ عربیہ سید المدارس دہلی میں دو مرتبہ منعقدہ مسابقة القرآن کی نظامت کے لیے بھی حضرت مولانا فلاحی صاحب تشریف لائے اور کئی کئی دنوں تک مجھے حضرت کے ساتھ رہنے کا موقع ملا ۔ انگلینڈ میں قیام کے دوران اقراء ٹی وی پر نشر ہونے والے میرے بیانات کو سن کر مولانا فلاحی صاحب میری ہمت افزائی کے لیے نہایت مسرت بخش جملے عطا فرماتے تھے۔
مولانا فلاحی سے میری آخری ملاقات” عالمی فہم قرآن کانفرنس “میں اس موقع پر ہوئی جب کہ میں نے ”انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر“ لودھی روڈ نئی دہلی میں”تفسیر اظہار القرآن “کے اجراکے لیے ہند و بیرون ہند کے مشاہیر علما و مشائخ کو مدعو کیا تھا ۔ اس عالمی فہم قرآن کانفرنس میں حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب رئیس جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا ، حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری صدر جمعیة علما ئے ہند ،حضرت مولانا سید ولی رحمانی صاحب جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، حضرت مولانا شاہ محمد فضل الرحیم صاحب نقشبندی امیر جامعة الہدایت جے پور ، حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب نائب مہتمم دار العلوم دیوبند ، حضرت مولانا محمد ایوب سورتی صاحب انگلینڈ، حضرت مولانا لطیف الرحمن صاحب بہرائچی مکة المکرمہ ، حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب قاسمی نقشبندی ممبئی ، حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی مرادآباد، حضرت مولانا مفتی رحیم اللہ خان صاحب بھوپال ، حضرت مولانا محمد عاصم قاسمی صاحب امریکہ ، حضرت مولانا مفتی عبد المغنی صاحب مظاہری حیدر آباد، حضرت مولانا مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب بنگلور، حضرت مولانا مفتی نذیر احمد قاسمی صاحب کشمیر ، حضرت مولانا محمد عمر گوتم صاحب دہلی ، حضرت مولانا رسال الدین حقانی ندوی صاحب دہرادون جیسی شخصیات نے شرکت فرمائی تھی ۔ البتہ حضرت مولانا وستانوی صاحب اپنے بیرون ہند کے سفر کی وجہ سے جب تشریف نہ لا سکے تو آپ نے اپنا تحریری پیغام مولانا فلاحی صاحب کے ذریعہ اس عالمی فہم قرآن کانفرنس کے لیے ارسال فرمایا اور مولانا فلاحی صاحب نے اپنے بصیرت افروز خطاب کے ساتھ حضرت وستانوی کا وہ پیغام بھی سامعین کو پڑھ کر سنایا ،جس سے سامعین نے بھر پور استفادہ کیا ۔ حضرت مولانا فلاحی صاحب کا وہ مثالی خطاب اپنے اندر بڑی جامعیت اور افادیت لیے ہوئے ہے ۔
حضرت مولانا فلاحی صاحب کا وہ خطاب یوٹیوب پر موجود ہے ۔میں مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت کا وہ تاریخی خطاب یہاں تحریر کر دوں :
” الحمدللہ وحدہ والصلوٰة والسلام علی من لا نبی بعدہ ، اما بعد! فقد قال اللہ تبارک و تعالیٰ فی الکلام المجید والفرقان الحمید فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ، فا ستمسک بالذی او حی الیک انک علی صراط مستقیم ، وانہ لذکرلک ولقومک و سوف تسئلون۔ و قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ان اللہ تعالیٰ یرفع بہذالکتاب اقواما ویضع بہ آخرین ۔ او کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔صدق اللہ العظیم و صدق رسولہ النبی الکریم و نحن علی ذالک لمن الشاہدین و الشاکرین والحمد للہ رب العالمین ۔
قابل صد احترام حضرات مشائخ عظام ،محدثین کرام ،مفسرین عظام اور زندہ دل عاشقین قرآن ! اس وقت ہم اور آپ ”عالمی فہم قرآن کانفرنس“ اور” تفسیر اظہار القرآن“ کی مناسبت سے اس سنجیدہ نورانی اور روحانی ماحول کے اندر جمع ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مقدس کی اس نسبت پر جمع ہونے کو قبول فرمائے ۔باری تعالیٰ ہماری زندگی کے جو قیمتی لمحات؛ قرآن مقدس کے حوالے سے گزر رہے ہیں، ان کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مقدس کو عملی جامہ پہنا کر ہمیں دنیا میں اپنے لمحات حیات کو گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ابھی ہمارے اکابر علمائے کرام اورمشائخ عظام نے قرآن مقدس کے سلسلے میں بڑی قیمتی باتیں فرمائی ہیں ، جن کا ما حصل اور لب لباب یہ ہے کہ قرآن مقدس کتاب ہدایت ہے ۔ قرآن مقدس کتابِ لاریب ہے ، قرآن مقدس کتابِ موعظت ہے ، قرآن مقدس کتابِ شفا ہے، قرآن مقدس کتابِ لا ثانی ہے۔قرآن مقدس ایسی کتاب ہے کہ ہر طبقہ انسانی کے لیے اس میں راہ موجود ہے ،لیکن اس وقت قرآن پاک کی جو آیت میں نے پیش کی ہے اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ نے یہ مطالبہ کیا ہے﴿ فا ستمسک بالذی او حی الیک﴾ علما نے لکھا ہے کہ استمساک بالقرآن؛ یعنی قرآن پاک کو مضبوطی سے پکڑنا ، اس کے کل پانچ مراحل ہیں :
استمساک بالقرآن کا پہلا مرحلہ:
ایمان بالقرآن ہے ۔قرآن مقدس پر ایمان ، امت مسلمہ کے افراد قرآن پاک پر ایمان کے ساتھ قرآن پاک کی آیات اور قرآن پاک کے مقتضیات کو سمجھ کر جب اس کو عملی جامہ پہناتے ہیں تو اس کو دنیا کے کسی بڑے سے بڑے محقق، دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے ریسرچ مین کی ریسرچ سے وہ کبھی متأثر نہیں ہو سکتے ۔ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ قرآن مقدس، جس سے اتنے علوم نکلے، تفسیر و حدیث ، فقہ و ریاضی ، علم عروض و قوافی ، ادب، فصاحت و بلاغت ، شعر و شاعری ، خطابت ، علم مناظرہ ، علم الاجسام، علم جراحت ، علوم صنعت و حرفت ، علم التاریخ و التقویم ، مساحت ، جہاز رانی اور تصوف و کلام وغیرہ ۔یہ سب کے سب علوم و فنون ایسے ہیں کہ قرآن پاک ان سب کا سر چشمہ ہے ……وہ قرآن پاک جس نے ایسا انقلاب برپا کیا کہ
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے در سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہانگیر و جہاں بان و جہاں دار و جہاں آرا
دوسرا مرحلہ:
قرآن مقدس کو سیکھنا اور سکھانا ہے ۔وہ لوگ جو مدارس سے وابستہ ہیں اور تحقیق کے مطابق امت مسلمہ کے دو فیصد یاپانچ فیصد بچے اگر قرآن مقدس کو سیکھتے اور سکھاتے ہیں۔ لیکن ایک وہ طبقہ ہے کہ جو صرف جھونپڑ پٹیوں میں یا ایسے علاقوں میں رہتا ہے کہ جہاں پر مسلمان بچوں کے قرآن پاک پڑھنے اور سیکھنے کے لیے نہ مکاتب کا نظام ہے نہ مدارس کا ۔ان مقامات پر پہنچ کر قرآن پاک کے مکاتب کو قائم کرنا اور ان کو قرآن پاک سے وابستہ کرنا یہ اِس وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے ۔
تیسرا مرحلہ:
وہ ہے جس کے لیے ہم اور آپ آج یہاں جمع ہوئے ہیں اور وہ ہے فہم قرآن ۔جب کوئی مسلمان کسی معتبر مفسر سے قرآن مجید کی کوئی آیت سمجھ لیتا ہے تو اس کا وجدان یہ کہتا ہے کہ مجھ کو تو میری زندگی کا ما حصل مل گیا ۔
چوتھا مرحلہ:
عمل بالقرآن ؛مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ قرآن پاک کو سمجھنے کے بعد اس کو عملی جامہ پہنا کر اپنے رب سے اپنے آپ کو وابستہ کرتا ہے ۔
پانچواں اورآخری مرحلہ:
تبلیغ قرآن؛یعنی قرآن پاک کو پہنچانا ۔قرآن پاک کو چپہ چپہ پر پہنچانا ، قرآن پاک کے مفاہیم اور اس کی مراد اور قرآن پاک کے مقتضیات کو ایک ایک آدمی تک پہنچانا ۔ جو شخص قرآن مجید کی خدمت میں جو کام بھی کر رہا ہو اس کوبہ نظر استحسان دیکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ جس کی نسبت قرآن مقدس سے ہو جاتی ہے، وہ قابل احترام ہو ہی جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے کسی کو قرآن پاک کے اعراب کے لیے قبول کیا ، کسی کو قرآن پاک کے نحو کے لیے ، کسی کو بلاغت قرآنی کے لیے ،کسی کو صیغ قرآنی کے لیے ، کسی کو قرآن پاک کی خطاطی کے لیے اور کسی کو قرآن پاک کی کتابت کی تصحیح کے لیے ۔اللہ سب کی محنتوں کو قبول فرمائے۔دہلی کی وہ سر زمین؛ جہاں سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اورشاہ عبد العزیز محدث دہلوی جیسی عظیم شخصیات نے قرآن و حدیث کی خدمات انجام دیں اور بہت سے مفسرین اس دہلی کی مردم خیز زمین سے اٹھے اور انہوں نے تفسیر قرآن کے عظیم کارنامے انجام دیے ، انہی میں ماضی قریب کے مفسر قرآن حضرت مولانا اخلاق حسین قاسمی صاحب کی خدمات بھی قابل قدر ہیں۔ اور” تفسیر اظہار القرآن“ پر مفسر قرآن مولانا انیس احمد آزاد قاسمی بلگرامی صاحب کی خدمات بھی قابل ستائش ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا بلگرامی کے تمام اساتذہ اور وہ تمام ادارے، جہاں سے مولانا بلگرامی نے فیض حاصل کیا ہے سب کو سلامت رکھے ۔ “
یہ تھا حضرت مولانا فلاحی کا وہ قیمتی خطاب؛ جو آپ نے” عالمی فہم قرآن کانفرنس“ میں” تفسیر اظہار القرآن“ کے اجراکے موقع پر ہند و بیرون ہند کے اکابر علما ئے کرام و مشائخ عظام اور سامعین کے درمیان فرمایا تھا ۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا عبد الرحیم فلاحی صاحب نور اللہ مرقدہ کے فیوض کو جاری و ساری رکھے۔آمین!