موجودہ سیاست؛ علامت قیامت

مفتی حمید الرحمن اشاعتی ؔ سمستی پوری /استاذ جامعہ اکل کوا

            اس بات سے انکار نہیں کہ ہم ایک ایسے پرفتن دور سے گزر رہے ہیں ، جس میں فتنے مختلف شکلوں اور خوش نما لباسوں میں آئے دن سامنے آرہے ہیں ،ہر پل ایک نیا فتنہ ہمارے سامنے ابھرتا ہے ، جس کے اثرات مختلف ہوتے ہیں اور ان کے نتائج بھی بڑے خطرناک ہوتے ہیں ؛ان میں سے بعض کا کنکشن براہ راست ہمارے ایمان وعمل سے جڑا ہوتا ہے تو بعض کا اقتصادیا معاشیات سے ۔ ان فتنوں کی لائن میں موجودہ وقت کا ایک خوب صورت فتنہ ’’ فتنۂ سیاست ‘‘ بھی کھڑا نظر آتا ہے ، جس سے واقفیت بے حد ضروری ہے ۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ سیاسی باگ ڈور؛ دور حاضر میں ایسے خواہش پرست اور دین سے عاری لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ ان کی بد کرداریوں کی وجہ سے لوگ سیاست ہی سے نفرت کرنے لگے ہیں اور ہر نیک و پاک شخص کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں ؛ کیوں کہ ان کے یہاں سیاست فقط جھوٹ ، خیانت ، دھوکہ بازی اور فراہمی تحفظ کے نام پر قوم کے خزانوں کو لوٹنا ، خوش حالی کے خوب صورت نعروں کے ذریعہ عوام کو خوابِ غفلت میں ڈال کر اپنی جیب بھر نا اور اپنے ملک کا پیسہ باہر منتقل کرنا جیسے کام ہیں ۔ ایسے ہی حالات کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

            عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال بینما النبی صلی اللہ علیہ وسلم یحدث ، اذ جاء اعرابی فقال ، متی الساعۃ ؟ قال اذا ضیعت الامانۃ قال کیف اضاعتہا ؟ قال اذا  وسد الامر الی غیر اہلہ فانتظر الساعۃ ۔(رواہ البخاری : ۵۹)

            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس اثنا میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بیان فرمارہے تھے کہ اچانک ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا( یا رسول اللہ ! ) قیامت کب آئے گی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب امانت اٹھ جائے گی۔ تو دیہاتی نے کہا امانت اٹھ جانے کی صورت کیا ہوگی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب اختیارات نا اہلوں کے سپر د ہوجائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔

            حدیث مذکور میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی ایک اہم علامت ذکر فرمائی، وہ یہ ہے کہ قیامت کے قریب امانت ضائع کی جائے گی۔ یعنی امانت میں خیانت کا ارتکاب کثرت سے کیا جائے گا ، اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ امانت کے ضائع ہونے کی کیا شکل ہوگی ؟ تو فرمایا کہ جب نا اہل لوگوں کو ذمہ داری سونپی جائے تو سمجھو کہ قیامت قریب ہے ، لہٰذا اس کا انتظار کرو ۔

            ملاعلی قاری ؒاور علامہ ادریس کاندھلوی ؒ نے فرمایا کہ حدیث میں ’’ الامر ‘‘ سے مراد سلطنت وحکومت اور امارت و قضا ہے اور ’’ نا اہل ‘‘ سے مراد وہ ہے ، جس میں ان امور کے حق دار ہونے کی شرائط نہ پائی جائیں۔ جیسے عورتیں ، بچے ، جاہل و فاسق لوگ ، بخیل و بزدل لوگ اور غیر قریشی اور اسی پر دوسرے اولی الامر اور اصحاب مناصب کو قیاس کرو ، جیسے تدریس ، فتویٰ ، امامت و خطابت وغیرہ ؛جن پر اہلِ زمانہ فخر کرتے ہیں ۔ (کہ اگر یہ بھی نا اہل لوگوں کے سپرد کیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔

            نیز ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں کہ (یہ نااہل کے سپرد کیا جانا ) قربِ قیامت پر اس لیے دلالت کرتا ہے کہ یہ بات امر ( امارت و خلافت )میں خلل، نظام دین کی عدم تکمیل ، امور دین میںضعف اور احکام اسلام میں کم زوری تک پہنچادیتی ہے ۔ غرض یہ کہ کسی شعبہ سے متعلق ذمہ داری جب کسی نااہل شخص کے حوالے کی جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کام و ذمہ داری میں خلل وضعف پیدا ہوجاتاہے، جو اسلام و دین کے ضعف کو مستلزم ہوتا ہے۔ اور اگر یہی صورتِ حال باقی رہے تو دین ؛دنیا سے اٹھ جائے گا اور قیامت برپا ہوجائے گی ۔ افسوس ! آج ہم سب اس صورتِ حال سے دو چار ہورہے ہیں ۔ مختلف اہم مناصب و عہدوں پر نا اہل لوگوں کا تسلط ہے ، بل کہ نا اہل لوگوں کو مسلط کیا جارہا ہے اور حق دار لوگوںکو نا اہل قرار دے کر محروم کیا جارہا ہے اور یہ صورتِ حال نہ ان عہدوں اور مناصب میں پیش آرہی ہے ،جو سیاست و حکومت سے متعلق ہیں ، بل کہ ان امور میں بھی اس صورت حال نے اپنا اثر و نفوذ پھیلانا شروع کردیا ہے، جو خالص دینی و علمی کہلاتے ہیں جیسے امامت و خطابت ، تدریس اور فتویٰ وغیرہ ،ان مناصب پر بھی نااہل لوگوں کا تسلط ہے یا ان کو مسلط کیا جارہا ہے ، جس کے نتیجے میں دین میں ضعف پیدا ہوگا اور آخر کار قیامت قائم ہوجائے گی ۔ مساجد اور مدارس پر جاہلوں ، فاسقوں کا تسلط اور قبضہ اور ان میں ان کی من مانیاں ، اَنا پرستیاں ، شرارتیں اور جہالتیں جو گل کھلارہی ہیں، وہ سبھی کے سامنے آشکارا ہے اور اس کے نتیجہ میں امور اسلام وعلوم دینیہ میں روز بروز ہونے والا ادبار و تنزل اور بدعات و خرافات کو حاصل ہونے والا فروغ و ترقی بھی واضح ہے ۔ اسی کو حدیث پاک میں قیامت کی علامت کہا گیا ہے۔

 (حدیث نبوی اور دور حاضر کے فتنے )

            موجودہ دور میں اگر آپ غور کریں اور دنیا کے حکمرانوں پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیںگے کہ اکثریت سیاسی ظالم حکمرانوں کی دنیا پر بادشاہت ہے ، جن کی نیت میں فسا د کے علاوہ دوسرا کچھ نہیں ، چناں چہ یوروپ کے مدبرین سیاست کی فتنہ انگیزیوں کو بیان کرتے ہوئے ایک بڑے مؤرخ لکھتے ہیں:کہ یورپ کے سیاسی حکمرانوں کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو یہ اندر ہی اندر فتنہ انگیزیاں کرتے رہتے ہیں اور دوسری طرف جب ان کی شرارتوں کا میگزین پھٹنے پر آتا ہے تو ان میں سے ہر ایک اصلاح اور امن پسندی کا مدعی ،حق وانصاف کا حامی اور ظلم وزیادتی کادشمن بن کر اٹھتاہے اور دنیا کو یقین دلانا چاہتاہے کہ میں تو صرف خیروصلاح چاہتاہوں ، مگرمیرا مدمقابل ظلم وبے انصافی پرتلاہواہے ؛لہٰذا آؤ اور میری مدد کرو ۔ حقیقت میں یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے اور ظلم و فساد کے امام ہیں ،ان میں سے ہر ایک کا دامن مظلوموں کے خون سے سرخ ہے ۔ ہر ایک کا نامۂ اعمال ان سب گناہوں سے سیاہ ہے، جن کا الزام یہ ایک دوسرے پر لگاتے ہیں ؛ لیکن یہ ان کی پرانی عادت ہے کہ جب یہ اپنی مفسدانہ اغراض کے لیے لڑتے ہیں تو اخلاق ، انسانیت ، جمہوریت اور کم زور قوموں کے حقوق کی حمایت کا سراسر جھوٹا دعویٰ لے کر دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ وہ بہت سے بے وقوف انسان، جو ان کے قبضۂ قدرت میں ہیں ، ان کی لڑائی کو حق و انصاف کی لڑائی سمجھ کر، ان ناپاک خواہشات کے حصول میں مدد گار بن جائیں اور وہ بہت سے خوشامدی لوگ، جو اپنی ذلیل اغراض کے لیے ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں ، اپنے آپ کو ایک مقصد ِحق کا حمایتی بنا کر پیش کریں اور سرخ رو بن جائیں ۔

            محترم قارئین! اگر آپ دنیا کے حالات پر ایک طائرانہ نظرڈالیں اور دنیا کے سیاسی منظر نامے کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کس طرح سیاسی مقصد کے خاطر آج کے حکمراں انسانی خون کے دشمن بنے ہوئے اور طرح طرح کی چال بازیاں کررہے ہیں ۔ دور حاضرمیں ایک نیا کھیل یہ ایجاد ہوا کہ مسلمان ملکوں میں ’’ مغربی ساخت ‘‘ نام نہادجہادی اور اسلامی لشکر تیار کیے گئے، جن کے پیچھے سُپر پاور مغربی ممالک کے شہ دماغ انجینئر ز کاوشیں کرتے ہیں ۔ کیا عجوبہ ہے کہ’’ یہود ونصاریٰ ‘‘اسلامی خلافت اور جہاد جیسے نعروں کے تحت عالمی؛ خصوصاً مشرق وسطیٰ کے ممالک کے لیے نئے سے نیا شوشہ تیار کرتے اور اسے زبر دست سرپرستی میں لانچ کرکے اس کے خلاف توپ خانے کے منہ کھول دیتے ہیں اور انہیں دہشت گرد بناکر ان کی بیخ کنی کے لیے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں ۔ کیا شام ، عراق ، افغانستان اور لیبیا میں بے گناہ اور معصوم انسانوں کے قتل و خون کے اعداد وشمار کسی کے پاس ہیں ؟ کہاں ہیں نام و نہاد ’’ ہولو کاسٹ ‘‘ کی دردناک سچائیاں ؟ مگر اسلحہ کی طاقت پر’’ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ‘‘ ایک جانب جہادی گروہ تخلیق کرکے غالی بنادیے جاتے ہیں اور اس نام پر شام و عراق وغیرہ مقامات میں خون خواری کے نئے ریکارڈ قائم کیے جاتے ہیں اور مغرب کا کمال دیکھئے کہ ہزاروں اور لاکھوں معصوموں کو بموں کا نشانہ بناتے ہوئے یکدم ایک خوب صورت گڑیا اٹھاکر نوبل انعام سے لے کر ہر ملک وقوم کے ایوارڈوں سے لاد دیا جاتاہے اور اسلامی دنیا کی تعلیم وتہذیب و ثقافت میں مغربی اقدار پر مبنی انقلاب برپا کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے ؛ کسی زمانے میں’’ لارنس آف عربیہ‘‘ سے کام لیا گیا تھا۔آج اسی مشن پر نوبل انعام یافتہ بچی اس عمر میں معمور کی گئی ہے ، تاکہ یہ پوری صدی اس کی کارستانیوں کے نام کی جاسکے ۔

            ایسے حالات کے تناظر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم نہیں جانتے اور جدید صلاح الدین کب اور کہاں نمودار ہوگا؟ تاریخ کے صفحات اب اسی کے منتظر رہیں گے ۔ کائنات کے رب نے اعتدال و توازن کا قانون ازل سے قائم کررکھا ہے اور جب بھی کوئی فرعون اس کائناتی توازن کو بگاڑتا ہے، تو اسے غرق کرکے لمحوں میں بے نام ونشاں کردیا جاتا ہے ۔ نمرود کو مچھر کے ذریعہ رسوا کرنا اس کے لیے بہت آسان ہے ، کشتیٔ نوح کا واقعہ محض پڑھنے اور سننے سنانے کے لیے نہیں ہے ۔شاعر ِمشرق علاّمہ اقبال ؒ نے انہیں اہل مغرب کی چالبازیوں کو بھانپتے ہوئے فرمایاتھا   ؎

ستیزہ کار رہاہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی

            مذکورہ تحریر سے یہ ہرگز مطلب نہ نکالا جائے کہ سیا ست ایک غلط چیزیا شجر ممنوعہ ہے ، جس سے دوری اختیار کی جائے اور حتی المقدور اس سے بچاجائے ، بل کہ سیاست ایک ایسا خوب صورت اور بہترین انسانی زندگی اور حفاظتِ عالم کا اصول طے کرنے والا عمل ہے، جس کے ہر مفہوم کے اندر صلاح و فلاح کے معانی پنہاں ہیں، لہٰذا اسلام میں دین سیاست سے جدا نہیں ہے ،فرق صرف یہ ہے کہ اگر سیاست کو دیانت سے جدا کردیا جائے تونہ حقیقی سیاست قائم ہوگی اور نہ ہی حقیقی دیانت ؛کیوں کہ اگر سیاست کے ساتھ دیانت نہ رہے تو سیاست سراسر ظلم اور آمریت کا محور ہوگی اور اگر دیانت کے ساتھ سیاست نہ رہی تو پھر دیانت مجبور، بے یارو مدد گار اور پست ہوجائے گی ۔ گویا سیاست کا دیانت کے ساتھ ہونا ضروری ہے ؛اسی بات کو شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے یوں بیان کیا ہے   ؎

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیںسیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

            صرف قانون اور جھوٹی سیاست سے دنیا کبھی امن و سکون کا منہ نہیں دیکھے گی اور نہ ہی انسانی دنیا کی اصلاح ہوسکے گی۔ اگر صرف قانو ن اور سیاست سب کچھ ہوتے تو آج یورپ سب سے زیادہ صالح، نیک، سب سے زیادہ قانون پر چلنے والا اور سب سے امن والا ہوتا ۔

            اگر صرف قانون سازی اور سیاست سے انسانی ذات کی اصلاح ہوتی تو آج یوروپی دنیا کو ایسے دن دیکھنے نہ پڑتے ، کیوں کہ وہاں نہ تو سیاست کی کمی ہے اور نہ قانون کی ، اگر کمی ہے تو صرف دیانت کی ۔ یعنی وہاں سیاست کے نیچے نہ تو حسن ِاخلاق موجود ہے ، نہ مقاصد الٰہیہ کا علم اور نہ ہی اس کا عملی نمونہ موجود ہے ۔ اس لیے جب سیاست کا دائرہ ہی صحیح سمت میںنہ ہوگا تو پھر صرف کھوکھلی سیاست اور خالی قانون کی اونچ نیچ سے لوگوں کو امن اوردنیا کو سکون کیسے نصیب ہوگا ؟ پس آج یوروپی تباہ کاریاں ، عالمی بربادیاں اور انسانیت کی تباہی سیاست کے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہے ، بل کہ دیانت کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ جب تک دیانت کے ساتھ سیاسی طاقت اور سیاست کے ساتھ علم و اخلاق کی دیانت نہیں ہوگی تب تک دنیا کبھی بھی امن و سکون کا سانس نہیں لے سکے گی ۔

            یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت ( دنیا سے الگ ہوکر زندگی گزارنا) کو ختم کرکے اس کے ساتھ سلطنت کو ملادیا اور سلطنت کی ملوکیت کو ختم کرکے اسے خلافت کا کرتا پہنایا ، تاکہ اس سے دیانت اور سیاست کا حکمت والا ملاپ قائم ہو اور اسی جامعیت سے اخلاقی اقدار بلند ہوںگے اور دین کی شان وشوکت نشو ونما پائے گی ؛لہٰذا اسلام کی نگاہ میں انسان مکمل تب ہوگا، جب ایک طرف عابد و زاہد ہو اوردوسری طرف خلیفۂ خداوندی ہو۔ یعنی ایک طرف وہ کام کرے جو مخلوق کے کرنے کا ہے اور وہ عبادت ہے اور ایک طرف وہ کام کرے جو خالق کا ہے وہ تربیت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی زندگی ہے کہ راتوں کو دیکھو تو تہجد پڑھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ورم آجا تاتھا ۔ دنوں میں دیکھو تو مخلوق کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں ، دنیا کے بادشاہوں کے نام خطوط جاری فرمارہے ہیں ، جن میں اسلام کی دعوت دی جاری ہے ، کبھی طائف میں ہیں ، کبھی مدینہ میں تاکہ خلق خدا نیک راستہ پر آجائے یہ خلافت کا کام ہے ۔ مسجدِ نبوی میں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اسی طرح سے آپ مقدمات کے فیصلے بھی فرماتے ، مسجد میں جیسے عبادت ہوتی، ویسے ہی درس وتدریس کے ذریعے تعلیم بھی ہوتی ۔ یہ خلافت کا کام تھا ، نماز پڑھنا ، تلاوت کرنا اور سجدے کرنا یہ عبادت کا کام تھا ۔

            یہی شان صحابہ ٔ کرام ؓ کی ہے کہ ایک طرف تخت خلافت پر بیٹھ کر مخلوق خدا کی اصلاح اور ایک طرف بوریا اور چٹائی پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز و نیاز سے سرجھکا رہے ہیں؛ جب ہم اسلامی تاریخ کا مطالہ کرتے ہیں تو صحابہ کی زندگی کے ایسے لاتعداد واقعات ملتے ہیں ۔ امور مملکت چلانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سیاست و امور خارجہ کے اصول اعلیٰ درجے کے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرمایا :

             {  ٰٓیاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًاo وَّدَاعِیًا  اِلَی اللّٰہِ  بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا  }(الاحزاب: ۶۳-۶۴)

            ترجمہ :  اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )! یقینا ہم نے آپ کو گواہی دینے والا ، خوش خبری سنانے والا ، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے ۔             اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقصد کو بیان کرکے بتا دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں آمد دعوت الی اللہ کے لیے تھی ، جو حق اورسچ پر مبنی تھی ،اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست وامور خارجہ کی پالیسی کے اصول برحق تھے ، جو امت مسلمہ اور مسلم ممالک کے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے لیے رہ نما اصول اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔