موجودہ حالات میں مسلمان کیا کریں؟

مولانا افتخار احمد قاسمیؔ بستویؔ /استاذ جامعہ اکل کوا

            عَنْ صُہَیْبٍ بن سنان رضي اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : عجباً لأمر المؤمن ، إن أمرہ کلہ لہ خیر، ولیس ذلک الا للمؤمن ، ان أصابتہ سراء شکر ، فکان خیرا لہ ، وإن اصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ ‘‘ ۔

(رواہ مسلم فی صحیحہ )

            حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ؛ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ اور قرنِ اول کے پختہ مسلمان اور بنی تمیم بن مرہ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ آپ ہی صہیب رومی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ مکہ مکرمہ میں ابتدائے اسلام کی نازک گھڑی میں آپ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ، لیکن جوں جوں کفار کے جور وستم بڑھتے جاتے ،حضرت صہیبؓ کے ایمان میں پانی کی حرارت کی مانند گرمی اور جوشِ ایمانی میں اضافہ ہوتا جاتا۔ یہی وہ صحابی ہیں، جنہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کرتے وقت اپنا سارا اثاثہ ان کافروں کو دے دیا تھا، جو ہجرت کرنے میں رکاوٹ ڈال کر آپ کو مدینہ نہیں جانے دے رہے تھے ۔ جب مدینہ پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش خبری سنائی کہ آپ کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آیت نازل فرمادی ہے ۔تمام غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوتے رہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے زمانۂ خلافت میں جب کبھی سفر پر نکلتے تو حضرت صہیبؓ کو ہی اپنی جگہ مسجدِ نبوی میں نماز پڑھانے کی ذمے داری دے کر جاتے ۔

            حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب فتنوں نے سر اٹھایا تو بالکل الگ تھلگ زندگی گزارنے لگے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ منورہ میں شوال ۳۸؍ ہجری میں وفات ہوئی اور جنت البقیع میں مدفون ہیں۔

            ’’آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث نقل کی ہے۔ (ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے لیے رحمت وشفقت کا پیکر بن کر آئے تھے )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مومن کے معاملے پر تعجب ہوتا ہے۔ اس کا ہر معاملہ اس کے لیے خیرو بھلائی کا پیغام ہوتا ہے اور یہ بات ہر کسی کو میسر نہیں ، یہ تو صرف مومن بندے کے لیے مقدر ہے ۔ پھر آگے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اسے خوشی اور راحت و آرام کی حالت پیش آتی ہے اور اس پر وہ شکر گزاری کی زندگی گزارتا ہے، تو یہ حالت اس کے لیے سراپا خیر و بھلائی کا پیغام ہے اور اگر اس کو دشواری اور مصیبت واندوہ کی حالت پیش آتی ہے اور اس حالت میں وہ صبر و استقامت سے کام لیتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے خیر و بھلائی کا پیغام ہے ۔ ‘‘

            یہاں پر حدیث شریف مکمل ہوگئی ۔ اس حدیث کو امام مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مسلم شریف میں نقل فرمایا ہے ۔ قرآنِ کریم اور بخاری شریف کے بعد پوری امت میں مسلم شریف کا درجہ مانا جاتا ہے ۔ اس کی صحت اور حسن ِترتیب کا گن گایا جاتا ہے۔ اس حدیث کو حالات ِحاضرہ کی روشنی میں عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔

            آج کل جو حالات ؛پوری دنیا میں بالعموم اور ہندستان میں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ناگفتہ بہ ہیں۔ ان حالات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بالا میں جو سبق دیا ہے، اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔

            اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کے احوال کو ۲؍ حصوں میں بانٹ کر فرمایا ہے کہ احوال اچھے ہوں گے یا برے ، اپنی مرضی کے مطابق ہوںگے یا خلاف مرضی ۔ اگر اچھے حالات ہیں ،اپنی مرضی اور خوشی کے حالات ہیں تو ان حالات میں مولیٰ تعالیٰ کا شکر بجالائے کہ میرے خالق و مالک کا شکر ہے کہ اس نے مجھے میری پسندیدہ حالت میں ایمان کے ساتھ زندہ رکھا ہے۔

            اور اگر بری اور ناپسندیدہ حالت ہو تو اس میں صبر کے دامن کو مضبوطی سے تھام کر خدا کے احکام کی بجا آوری میں مصروف رہا جائے۔

            مصیبت کی حالت میں صبر کرنا اور آرام کی حالت میں شکر بجالانا یہ دونوں باتیں اللہ کے حکم پر عمل کرنے میں داخل ہیں ۔ مفسرین اور فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اللہ کے حکم پر عمل کرنے والا ذکر کرنے والا کہلاتا ہے۔ ادھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :{الا بذکر اللہ تطمئن القلوب }سنو! اللہ کے ذکر سے دل کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

            اگر معاشرے میں اس حدیث پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے تو پورا معاشرہ ایک بڑی تشویش اور انجانے ٹینشن سے نجات پاجائے ۔

            اس کے برعکس ہمارا پوراسماج فکرو تشویش بڑھانے والے کاموں میں مصروف ہوکر اپنی تشویش وفکر میں مزید اضافہ کرتا رہتا ہے۔ ہر دن تازہ خبروں کی تلاش، نئے ویڈیوز، واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹیوٹر پر کثرت سے اشتغال پورے معاشرے کو تشویش کے دلدل میں پھنسائے رکھتا ہے۔ جب کہ شریعت کا مزاج مسلمانوں کے حوالے سے یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان سست نہ رہے۔غمزدہ اور تشویش ناک صورت حال میں زندگی نہ گزارے۔ غم کے پہاڑ بھی اگر اس پر ٹوٹ پڑیں،تب بھی وہ اسے بھول جائے کہ ہر چیز مقدر ہے۔ اگر کسی کے حق میں آسانی لکھی ہے تو پوری دنیا اس کو پریشانی میں مبتلا نہیں کرسکتی اوراگر کسی کے حق میں پریشانی لکھی ہے تو پورا عالم بھی اسے خوش وخرم نہیں بناسکتا۔

            اس عقیدے کو بھی اس حدیث کے ساتھ پیش نظر رکھنے سے آج کے ماحول کا انجانا ڈر ختم ہوجائے گا ۔ مسلمان کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے عقائد و اعمال دیے ہیں ،جن پر عمل کرنے سے غم کوسوں دور چلاجاتا ہے ۔ تشویش کی کیفیت کا فور ہوجاتی ہے اورپریشانی کا دور دور تک پتہ نہیں چلتا ۔

            کسی کے گھر مصیبت ہوجائے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اس کی تعزیت ۳؍ دن تک کی جائے گی ۔ تین دن تک پڑوس کے لوگ کھانا پکا کر اس کے گھر بھیجیں۔گھر والے میت کے غم کو اب چھوڑ کر خود ہی کھانا بنائیں ، تاکہ غم غلط ہو اور دوسرے کھانا بھیجنا بند کرکے اس کے غم تو اب یاد نہ دلائیں ۔ دن گزرنے پر اللہ تعالیٰ خود ہی سکون دے دیتے ہیں ۔

            شریعت کا یہ حکم موجود ہے ، پھر بھی ہم لوگ اپنے آپ کو از خود تشویش میں ڈالتے رہتے ہیں۔ کئی سال کا قدیم ویڈیو وائرل ہوگیا ، سب اسے دیکھ کر پریشانی میں مبتلا دیکھ کر، غم تازہ ہوگیا ۔ حالاں کہ شریعت کا حکم تو یہ تھا کہ غم بھول جاؤ، اسے تازہ نہ کرو اور ہم ہیں کہ نئی ایجاد کے اس آلے کے ذریعے خود کو پریشانی میں پھنسائے رہتے ہیں ۔ابھی جو حالات چل رہے ہیں ، ا ن کی تو پیشین گوئی بہت پہلے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کردی تھی کہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب اہل ایمان کو کھیرے ککڑی کی طرح کاٹا جائے گا۔ اس وقت صحابہ ؓ نے دریافت کر لیا تھا کہ :کیا ہماری تعداد اس وقت آٹے میں نمک کے برابر ہوگی؟ تو جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی فرمائی تھی اور ارشاد فرمایا تھا: کہ تم لوگ اس وقت کثیر تعداد میں ہوگے ۔ اس پر صحابہ نے پھر سوال کیا تھا کہ کثرت کے باوجود اہل ایمان کے ساتھ ایسا کیوں ہوگا ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا تھا کہ اس وقت ایمان والوں کے اندر ’’ وہن‘‘ داخل ہوچکا ہوگا۔ پھر صحابہ کے دریافت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’وہن‘‘ کی تشریح فرمائی تھی کہ ’’وہن‘‘ کہتے ہیں’’ حب الدنیا وکراہیۃ الموت‘‘ کو یعنی دنیا کی محبت اور موت سے نفرت کی بات ہر دل میں جاگزیں ہوگئی ہو تو سمجھیے کہ ’’ وہن ‘‘ داخل ہوگیا ۔

            یہاں رک کر حالات کا جائزہ لیں !کیا ہم مسلمانوں کے اندر دنیا کی محبت اور موت سے نفرت کا جذبہ پوری طرح گھر نہیں کر گیا ہے؟ آج دنیا کی محبت میں اہلِ ایمان حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتے ، مال کے پیچھے ایسا بھاگتے ہیںکہ حلال وحرام میں کچھ بھی ہاتھ آجائے وہ ہمارا ہے۔

            اور جینے کی خواہش اتنی کہ اللہ کی پناہ! نبی نے صحابہ سے پوچھا تھا کہ موت کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے تو صحابہ نے عرض کیا : ہم لوگ نماز کی نیت باندھتے ہیں تو یہی خیال کرتے ہیں کہ پتہ نہیں سلام پھیر کرنماز مکمل کر پائیںگے یا اس سے پہلے موت آجائے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بہت اچھا ! لیکن میرا خیال حدیث کے حوالے سے تویہ ہے کہ نماز میں جب سلام تک پہنچوںتو ایک طرف سلام پھیرنے کے بعدسمجھتا ہوںکہ پتہ نہیںدوسراسلام پھیر سکوں گا یا نہیں ، دوسرے سلام کے پیشتر ہی نہ موت آجائے ۔

            اس طرح کا اسلامی عقیدہ آج حالاتِ حاضر ہ میں ہمارے اسلامی سماج کا حصہ نہیں ہے ۔ ہماری بڑی بڑی آرزوئیں جینے کے تعلق سے ہوتی ہیں ، ہم نے دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے ۔ نبی تو فرمارہیں ہے کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے ۔ اور ہم اسی جہاں کو جنت بنانے کی فکر میں پڑے ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں’’ اللہم لا عیش الا عیش الآخرہ ‘‘ اے اللہ ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے دنیا کی زندگی تو ایک گزر گاہ ہے ۔ ’’ مالی وللدنیا،ماأنافی الدنیاالاکراکب استظل تحت شجرۃ ثم راح وترکہا ‘‘ نبی نے فرمایا میرا دنیا سے کیا واسطہ ! میں اس دنیا میں تو ایک مسافر کی مانند ہوں، یا راستہ پار کرنیوالے کی مانند ،کہ ایک درخت کے نیچے پسینہ جذب کرنے کے لیے رکا، پھر آگے بڑھا اور منزل کی تلاش میں اس درخت کا سایہ خیر باد کہا۔(ابن حبان عن ابن مسعود ۔حدیث صحیح )       

            جب مومن اپنے اندر سے موت کی نفرت کو ختم کرکے شہادت کا جذبہ نہیں پیدا کرے گا اور نبی کا فرمان یاد نہیں کرے گا کہ میں خود چاہتا ہوں کہ شہید ہوں پھر زندہ کیا جاؤں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر زندہ کیا جاؤں۔حدیث کے الفاظ ہیں:’’لوددت ان اقاتل فی سبیل اللہ حتیٰ اقتل ثم احیا ثم اقتل ثم احیاثم اقتل ‘‘ اس وقت تک مومن کے لیے حالات کی آندھیاں مخالف ہی رہیںگی ۔

(البخاری والطبرانی عن ابی ہریرۃؓ)

            مومن کو تو نبی نے پہلے ہی خوش خبری سنادی ہے: ’’من قتل دون مالہ فہو شہید ومن قتل دون دمہ فہو شہید ومن قتل دون عرضہ فہو شہید ‘‘ جو مسلمان اپنی عزت کی حفاظت میں قتل کیا جائے وہ شہید کہلاتا ہے اور جوشخص اپنے خون اور اپنی جان ومال کی حفاظت میں قتل ہو وہ بھی شہید کہلاتاہے اور طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔

            اس لیے حالات حاضرہ میںان تمام اسلامی حقائق کو سامنے رکھیں اور سب سے پہلے اپنے اندر قوت ایمانی پیدا کرنے کے لیے آج ہی کمر بستہ ہوجائیں ۔ قوت ایمانی پیدا کرنے کا سب سے اہم اور آسان طریقہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے { ان استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ یمتعکم متاعاحسناویوت کل ذی فضل فضلہ}(ہود: پارہ ۱۱)

            ’’اپنے رب کے سامنے اپنے گناہوں سے استغفار کرو اور پھر اسی کی طرف متوجہ رہو ، اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تم کو بہترین سامانِ عیش مقررہ وقت تک کے لیے دیںگے اور زیادہ نیک کام کرنے والوں کو زیادہ ثواب دیںگے ‘‘۔ بیان القرآن جلد اول میں حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ نے ’’ یمتعکم متاعا حسناالی اجل مسمی‘‘ سے دنیا میں ’’ حیاۃ طیبۃ‘‘ پاکیزہ زندگی کی تفسیر کی ہے۔ اور پاکیزہ زندگی میں ’’ امن ‘‘ ہوتا ہے اور امن سے مراد غیر اللہ کی سازشوں سے حفاظت ہے ۔

            لہٰذا !آج کے حالات میں غیر اللہ کی سازشوں سے حفاظت کا طریقہ یہی ہے جو اس آیت کریمہ میں موجود ہے کہ اپنے گناہوں پر ندامت ہو اور پھر اس کی طرف رجوع مستقل ہو؛ تاکہ امن اور غیر اللہ سے حفاظت ملے اور اپنی حفاظت کے لیے ’’ ہمت مرداں اور مدد خدا‘‘ کو سامنے رکھ کر دنیا کی محبت کی چنگاری کو جو دل میں ہے بجھادیں اور موت سے گھبراہٹ کے بجائے موت سے محبت پیدا کریں ۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے ،جو اٹل ہے ، بستر پر مقدر ہے تو بستر پر آئے گی یا میدان میں ، جنگل میں ، بے آب وگیاہ علاقے میں مقدر ہے تو وہیں آئے گی۔واں مردوںکی طرح اپنی جان دے کر شہادت پیش کرنے والوں کے زمرے میں نام لکھوا نا ، ان لوگوں کی فہرست میں نام لکھوانے سے ہزار درجے بہتر ہے جو گیدڑ کی موت مرتے ہیں ۔ ہندستان کی عدالت علیا بھی جان پر حملہ کے موقع پر قانون ہاتھ میں لینے کی بھر پور اجازت دیتی ہے ۔

            اس لیے اللہ کے حکم کو عزیز تر سمجھتے ہوئے سارے اسباب و آلات کو ذرائع سمجھ کر خدائے وحدہ لاشریک لہ پر نظر جماکر اپنی زندگی بہادروں اور طاقت ور مومنوں کی طرح بنائیں ۔

            وہ اللہ؛ جس نے مکہ مکرمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے گھر سے حفاظت کے ساتھ نکال کر مدینہ پہنچایا ،پھر مدینہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائیوں کو صرف مشرق وسطیٰ کے ۱۷ اور ایشیاکے ۵۱؍ ملکوں میں ہی نہیں، بل کہ دنیا کے چپے چپے میں پہنچایا وہ خدا آج بھی اس شمع ِنبوت کے پروانوں کی حفاظت ابابیل کے لشکر ، مچھر اور ہواؤں کے دوش پر اپنی غیبی طاقت کے ذریعے کرسکتا ہے ۔لیکن ہمیں اپنی قوت ایمانی کے ساتھ میدان عمل میں استقامت کا کوہ ِگراں بننا ہوگا ۔ ۳۱۳؍ کے ایک ہزار کے سامنے ٹوٹی لاٹھیاں لانے سے ایک ہزار فرشتوں کی مدد آتی ہے اور مٹھی بھر مٹی پہلے پھینکنی پڑتی ہے، تب ایک ہزار مد مقابل میں سے ایک ایک سر پر مٹی پہنچ جاتی ہے ۔{ وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی }

            اللہ ہم سب کی مدد فرمائے آمین!