موجودہ اسمبلی انتخاب کا شرعی احتساب

از: محمد جعفر ملی رحمانی            

مفتی وقاضی دار الافتاء والقضاء جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

نوٹ: میری اس تحریر کا مقصود ِاصلی ” موجودہ انتخاب کا شرعی احتساب ہے “ کسی فریق کی حمایت یا مخالفت ہرگز نہیں !۔

            دین اسلام ایک مکمل دستور ِزندگی اور نظام ِحیات ہے، زندگی کا کوئی شعبہ و گوشہ ایسا نہیں ہے، جس سے متعلق اسلامی احکام و ہدایات موجود نہ ہوں، سیاست و پولیٹکس سے متعلق بھی اسلامی ہدایات موجود ہیں کتاب وسنت او رسیرت ِ طیبہ کے مطالعہ سے یہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ سیاست بھی دین کا حصہ ہے اور دین کے بغیر سیاستِ اسلامی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔

سیاست کیا ہے؟

            ایسا نظم ونسق اور انتظام و انصرام، جس کے ذریعہ کسی ملک اور علاقہ و خطہ میں امن و امان بحال کیا جائے، ظلم و غارت گری، فتنہ وفساد، لوٹ، کھسوٹ پر کلی روک لگائی جائے، ایک دوسرے کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا جائے، ملکی تجارت ومعیشت کو ترقی دی جائے، علوم وفنون کو پروان چڑھایا جائے اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے، اسے سیاست کہاجاتا ہے۔

            سیاست کی اس تعریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ہدایات واحکام کے بغیر سیاست کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ سیاست کی تعریف سے جو مقاصد و اہداف واضح ہوکر سامنے آتے ہیں، ان مقاصد و اہداف کا حصول ”احکام ِشریعت “ کو اپنائے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

            نتیجہ یہ نکل آیا کہ سیاست اور دین الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔

غلبہٴ دین کے لئے سیاست و حکومت اور اصلاح ِ سیاست و حکومت کے لئے دین انتہائی ضروری ہے۔

            حضرات ِ انبیاء کرام علیہم الصلاة و السلام نے عمل ِ سیاست میں نہ صرف حصہ لیا؛ بلکہ میدان سیاست میں وہ منصب ِامامت پر بھی فائز رہے ہیں۔

            حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھیے کہ آپ نے مملکت ِ مصر کی باگ ڈور سنبھالی، حضرت داوٴد علیہ السلام پر نظر کیجیے، اللہ پاک نے آپ کو اتنی عظیم سلطنت و حکومت عطا فرمائی، جو کسی انسان کو نصیب نہیں ہوئی، خود جناب ِ نبی کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان ِ سیاست میں جو قولی و عملی نقوش چھوڑے ہیں، وہ آج بھی اس میدان میں ہماری رہبری و رہ نمائی کررہے ہیں۔

سیاست کے بارے میں مسلمانوں میں دو مختلف نظریے:

            عام طور سے مسلمانوں میں سیاست سے متعلق دو نظریے پائے جاتے ہیں، اور دو نوں ہی افراط وتفریط پر مبنی ہونے کی وجہ سے غلط ہیں۔

پہلا نظریہ:

            یہ ہے کہ اسلام کا اصل مقصد ہی سیاسی زور و قوت حاصل کرنا اور حکومت و سلطنت پر فائز و براجمان ہونا ہے، دین کے دیگر شعبے : عبادات، معاملات ،معاشرت و اخلاق وغیرہ سب ضمنی و ذیلی شعبے ہیں ،جو اصل یعنی سیاست کے تابع ہیں۔

            جو لوگ اس نظریے کے حامل ہوتے ہیں وہ سیاست کے علاوہ دین کے دیگر شعبوں پر اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی سیاست پر دیتے ہیں، جبکہ یہ نظریہ افراط اور غلو پر مبنی ہونے کہ وجہ سے غلط ہے، کیوں کہ سیاست دین کا حصہ ضرور ہے مگر اصل دین ”سیاست “ ہی ہے، یہ کہنا صحیح نہیں ہے۔

دوسرا نظریہ:

            یہ ہے کہ دین ومذہب ہر انسان کا اپنا ایسا ذاتی و انفرادی معاملہ ہے، جسے حکومت و سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

            یہ نظریہ در اصل سیکولرزم کی دَین ہے کہ دین ، دھرم، مذہب کا تعلق انسان کے اپنے شخصی و نجی زندگی کے مسائل ومعاملات سے ہوتا ہے، سیاست سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔

            ملک کی آزادی کے بعد ہمارے بڑوں نے بھی عملاً اسی نظریہ کو اپنا یا کہ اتنی ساری قربانیاں دینے کے باوجودعملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور ملکی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے لئے ان کے عددی تناسب سے کوئی شراکت داری کی بات طے نہیں کی (جو در حقیقت ایک اجتہادی غلطی کہی جاسکتی ہے، جس میں آدمی گنہ گار نہیں ہوتا، اور نہ ہی اسے مطعون قرار دیا جا سکتا ہے)، جس کے ہولناک و خوفناک نتائج و اثرات آج ہم موجودہ ملکی حالات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، اور اسی اجتہادی غلطی کی اصلاح کے لئے اب یہ آواز اٹھائی جارہی ہے ” جس کی جتنی آبادی اس کی اتنی حصہ داری “ ۔

            خلاصہٴ کلام یہ کہ ہر مسلمان کا سیاست کے بارے میں یہ نقطہ نظر رہنا چاہئے کہ سیاست بھی دین کا ایک شعبہ اور حصہ ہے، دین کو سیاست سے علیحدہ کردینا یا سیاست ہی کو دین کا اصل مقصد قرار دینا اور اس کے دیگر شعبوں سے صرف ِنظر کرنا یا ان پر کم توجہ دینا صحیح و درست نہیں ہے، دین کے تمام شعبے دین ہیں، اور ان میں فرق مراتب ہے، جس کا لحاظ رکھا جانا ضروری ہے۔

مسلم ملکوں میں سیاست و حکومت کا مقصد:

            مسلم ملکوں میں سیاست و حکومت اور سلطنت و قوت ِ اقتدار کا حاصل کرنا، استحکام ِ دین اور نفاذ شریعت کے مقصد سے ہوتا ہے، کیوں کہ سیاسی اقتدار کے بغیر استحکام ِ دین اور نفاذ شریعت ممکن نہیں ہے۔

            ﴿الَّذِینَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّکَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ ۔ وَلِلَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴾۔ (سورة الحج: ۴)

            (یہ الگ بات ہے کہ مسلم ملکوں میں بھی آج جو افراد بر سر اقتدار ہیں، وہ دین کے استحکام اور شرعی قوانین کے نفاذ میں دلچسپی نہیں رکھتے، بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ اسلام کو کمزور کرنے اور اس کے قوانین سے سر ِمو انحراف کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کی تمام تر دل چسپیوں اور رغبتوں کا محور اپنا اقتدار اور پر تعیش زندگی ہے، اور ان دوچیزوں کے بقا و استحکام کے لئے وہ مغربی ملکوں کی جی حضوری اور خوشامدی میں کہیں تک بھی جانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، انہیں استحکامِ دین اور نفاذ شریعت سے کوئی سروکار نہیں ہے ، ان کی بے حسی اور بے بسی حالیہ غزہ و فلسطین جنگ سے بالکل اچھی طرح واضح ہوچکی ہے)۔

جمہوری ملکوں میں سیاست کا مقصد :

            اس وقت روئے زمین پر بیشتر ملکوں میں جمہوری نظام ِحکومت قائم ہے، ہر ملک کا اپنا ایک دستور اور کتاب ِقانون موجود ہے، جس کے ذریعہ اس کا نظام حکومت چل رہا ہے، دنیا کے بیشتر ملکوں میں مسلم آبادی موجود ہے، ستاون (۵۷) مسلم ملکوں میں اکثریتی آبادی مسلم ہے، اور دوسری اقوام اقلیتوں میں ہیں، ملک عزیز ہندوستان میں مسلم آبادی گرچہ اقلیت میں ہے ،مگر وہ دوسری اقلیتوں کی بہ نسبت اکثریت کا درجہ رکھتی ہے، یہاں سیاست و اقتدار کا مقصد یہ ہے کہ جو جماعت بھی بر سرِ اقتدار آئے وہ ملک کو اس کے کے دستور اور کتاب قانون کے مطابق چلائے،دستور میں ذکر کردہ حقوق اصحاب ِحقوق تک پہونچائے اور کتاب ِ قانون کے مطابق ہر شہری کے ساتھ انصاف کرے۔

(یہ الگ بات ہے کہ اقتدار میں آنے والی جماعتیں اس کا پورا پورا پاس ولحاظ نیں کرتیں)

جمہوری ملکوں میں سیاست کا حکم :

            #…جمہوری نظام حکومت میں اپنی حالت و پوزیشن کو مضبوط و موثر بنانے ، اپنے دین ومذہب کو تحفظ دینے، اپنے مدارس، مقابر، مساجد اور خانقاہوں کی حفاظت اور اسلامی روایات ورسومات شرعیہ کو قائم و باقی رکھنے کے لئے عملی سیاست میں حصہ لینا انتہائی ضروری ہے، اور ہمارا یہ ملک بھی چوں کہ ایک جمہوری ملک ہے، اس لئے یہاں بھی عملی سیاست میں حصہ لینا شرعاً ضروری ہے، کیوں کہ اللہ رب العزت نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم جہاں بھی رہیں اپنی دینی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے، جس قوت کی بھی ضرورت ہو بس بھر اس کی تیاری رکھیں۔ ﴿وأعدوا لہم ما استطعتم من قوة﴾۔ (سورة الأنفال: ۶۰)

ووٹ کی شرعی حیثیت :

             ووٹ ایک حیثیت سے شہادت ہے ۔

یعنی ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے گویا اس کے متعلق اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس عہدہ کے قابل اور دیانت دار و امانت دار ہے۔

         ووٹ ایک حیثیت سے شفاعت و سفارش ہے ۔

یعنی ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہاہے گویا اس کی نمائندگی کی سفارش کررہاہے۔

            ووٹ ایک حیثیت سے وکالت ہے ۔

یعنی ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے گویا اسے اپنا نمائندہ اور وکیل بنا رہا ہے۔

ووٹنگ کے لئے حکمت ِ عملی:

            فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنوگوہی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

            ” جمہوری ملک میں ووٹ اسلام اور کفر کی بنیاد پر نہیں دئے جاتے ہیں، نہ ہی اس بنیاد پر الیکشن لڑائے جاتے ہیں، جس شخص کے متعلق یہ توقع ہو کہ وہ صحیح خدمت کرے گا، نفع پہنچائے گا، حقوق دلوائے گا، ظلم کو روکے گا اس کو ووٹ دیا جائے، جس پارٹی کے متعلق یہ توقع ہو اس پارٹی کو ووٹ دیا جائے، جو لوگ خود مسلمان اور دین و مذہب کے پابند ہیں وہ اگر نافع سمجھ کر کسی پارٹی کو یا کسی فرد کو ووٹ دیں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس پارٹی کے نظریات و عقائد سے بھی متفق ہیں۔“ (فتاوی محمودیہ : ۴/۶۱۸)              

اس لئے انتخاب و الیکشن میں اس سیاسی بصیرت وحکمت عملی کو اپنانے کی ضرورت ہے :

            ۱-         جہاں مسلم امید وار کامیاب ہوسکتا ہے، اسے اپنے اجتماعی ووٹ دے کر کامیاب کریں اور اس کے ذریعہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں، اور الیکشن کے بعد بھی ایک ایسی پریشر کمیٹی بنائی جائے ،جو اس امید وار کے مفوضہ کاموں اور اس کی عوامی، رفاہی اور سماجی خدمات کا جائزہ لیتی رہے اور اس پر دھیان دے کہ کہیں وہ عوامی خدمات کو چھوڑ کر، محض اپنی شخصی خدمات میں تو مشغول نہیں ہے۔

            ۲-         جن علاقوں میں مسلم امید وار نہیں ہے یا ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکتا اور وہاں اس کے مدِّ مقابل برادران ِ وطن میں سے بہت سے افراد امید واری کر رہے ہوں اور ان میں سے کسی کے کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہوں تو اسی سے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے معاہدہ و سمجھوتا کرکے اسے اپنے اجتماعی ووٹ دیں اور بعد از انتخابات پریشر کمیٹی کے ذریعہ ا س سے اپنے سیاسی مقاصد و اہداف حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں۔

            ۳-         اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو جس امید وار کے متعلق یہ غالب گمان ہوکہ اس کے اقتدار میں آنے پر ہمارے سیاسی مقاصد زیادہ متاثر نہیں ہوں گے اور دوسروں کی بہ نسبت اس سے پہونچنے والا ضرر کم ہوگا تو اس کے حق میں ووٹ کریں، کیوں کہ فقہ کا قاعدہ ہے:

من ابتلي ببلیتین فعلیہ أن یختار أہونہما “ ۔ (” موسوعة القواعد الفقہیة “ :۱۰/ ۸۹۷)

            ” جو شخص دو ضرر اور دو شر میں مبتلا ہو اور اس کے لئے ان دو ضرروں میں سے کسی ایک کا ارتکاب ضروری ہو تو اس پر لازم ہے کہ ضررِ اخف و اقل کو اختیار کرے“۔

            ” إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمہما ضررا بارتکاب أخفہما “ ۔ (قواعد الفقہ: ۴۱)

جب دو مفسدے باہم متعارض ہوں تو اخف کا ارتکاب کرکے، اعظم کی رعایت کی جائے گی۔

             ” حالیہ ریاستی اسمبلی انتخابات میں ” ایک بڑے بزرگ عالم ِدین کا اپنے طور پر ایک سیاسی پارٹی کو ووٹ دینے کی حمایت و اپیل کرنا اور پریس کانفرنس کرکے اپنی حمایت یافتہ امید واروں کی لسٹ و فہرست جاری کرنا اور ایک مخصوص پارٹی کو ووٹ دینے والوں سے مقاطعہ و بائیکاٹ اور ان کا حقہ پانی بند کردینے کی ہدایت دینا “ مجھے نہیں لگتا کہ کسی جمہوری ملک میں بالخصوص موجودہ ملکی حالات میں یہ اقدام حکمت وبصیرت پر مبنی تھا، جبکہ وہ ایک سیاسی پارٹی کے قومی لیڈر کو قابل اعتماد علماء اور علاقوں کے ذمہ داروں سے مشورے کا مشورہ دیتے ہوئے سنائی دیتے ہیں، تو ان سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ کیا انہوں نے اپنے اس اعلامیہ کو جاری کرنے سے پہلے اپنے ہم عصر، بڑے، بوڑھوں، بزرگوں، ملکی مسلم تنظیموں کے قائدوں اور سر براہوں سے اس سلسلہ میں کوئی مشاورت فرمائی تھی، اور اگر حضرت دامت برکاتہم کو یہی سب کچھ کرنا تھا تو علی الاعلان نہ کرتے، خفیہ طور پر بھی اس کام کو انجام دیا جاسکتا تھا، اور ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں یہی طریقہ کا ر عین بصیرت و حکمت ہوتا۔

            اب دیکھئے! جس پارٹی کی مخالفت میں انہوں نے یہ اعلامیہ جاری فرمایا تھا وہی بر سرِ اقتدار آچکی ہے، تو اب کس منہ سے اس پارٹی کے سر براہوں سے ملی مسائل کے حل کے لئے بات چیت کی جاسکتی ہے، اس پارٹی کے لوگوں نے تو اپنے انتخابی تشہیری مہم میں ان بزرگ عالم دین کے اس اعلامیہ اور آڈیو کو بھی چلایا ہے، اور غیر مسلموں کو متحد کرنے کے لئے اسے بھر پور انداز میں استعمال بھی کیا، حکمت ِعملی تو آر ایس ایس سے سیکھنی چاہئے، (الحکمة ضالة الموٴمن، حیث وجدہا فہو أحق بہا)وہ الیکشن کی پوری تشہیری مہم میں کہیں دکھائی نہیں دیا، بلکہ خفیہ طور پر، گھر گھر جاکر ، اپنی قوم کو متحد کرنے کا کام کیا ، اور محترم کے اس اعلامیہ کو اعلامیہ نہیں بلکہ فتوی قرار دے کر اپنی قوم سے یہ کہا کہ ” فتوی جیتے گا یا بھگوا“۔ وإلی اللّٰہ المشتکی! “ ۔

مالیگاوٴں اسمبلی الیکشن کی تشہیری مہم اور اس پر چند اشکالات:

            ” موجودہ اسمبلی الیکشن کی تشہیری مہم، اس میں کی جانے والی تقریریں اور دیئے جانے والے بیانات پر بندہ نے پوری نظر رکھی تھی، یہاں تک کہ رزلٹ آوٹ کیا گیا اور ایک فریق ” شیخ آصف صاحب “ کی ری کاوٴنٹنگ کی درخواست پر ری کاوٴنٹنگ کی گئی اور پھر دوربارہ رزلٹ آوٹ کیا گیا، جس میں حضرت مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی دامت برکاتہم کی کامیابی کا اعلان کردیا گیا “ ۔

            (اللہ مبارک کرے، صحت و تندرستی اور عافیت کے ساتھ عرصہ دراز تک ملک و ملت، اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لئے قبول فرمائے، آمین!)۔

            اس تشہیری مہم کے آغاز سے لے کر جیت کے اعلان کے بعد تک کچھ ایسی باتیں پیش آئیں، جنہیں دیکھ اور سن کر بڑا قلق و افسوس ہوا ۔ (وإلی اللّٰہ المشتکی!)

یہی باتیں بہ صورت ِ اشکال اہلِ عقل و خرد اور شہر کے سمجھ دار طبقہ کے سامنے پیش کی جارہی ہیں:

پہلا اشکال:

            جب کسی خاص عہدہ کے متعلق یہ معلوم ہو کہ کوئی دوسرا آدمی اس کا اچھا انتظام نہیں کر سکے گا اور اپنے بارے میں اندازہ ہو کہ عہدہ کے کام کو اچھا انجام دے سکے گا اور کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو ایسی حالت میں عہدہ کا خود طلب کرلینا بھی جائز ہے؛ بشرطیکہ حب جاہ ومال اس کا سبب نہ ہو، بلکہ اللہ کی مخلوق کی صحیح خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق پہونچانا مقصود ہو حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے صرف یہی مقصد تھا اس لئے آپ نے فرمایا تھا :

﴿ اجعلنی علی خزائن الأرض إنی حفیظ علیم ﴾ (سورة یوسف:۵۵)

            ”ائے بادشاہِ مصر! مجھے ملک کے خزانے سپر د کردو میں ان کی حفاظت بھی پوری کرسکتا ہوں اور خرچ کرنے کے مواقع اور مقدار کے اندازہ سے بھی پورا واقف ہوں۔“ (معارف القرآن: ۵/۱۸)

            مالیگاوٴں اسمبلی انتخاب میں جتنے مسلم امید وار کھڑے تھے کیا وہ تمام اسی پس منظر میں کھڑے تھے، کیا ان میں سے ہر ایک میں یہی جذبہ ٴ صادق تھا،یا پھر کسی امید وار کے ووٹ کاٹنا، اسے نقصان پہنچانا اور جیت کی صورت میں سیاسی و خاندانی جھگڑوں کا انتقام لینا وغیرہ تھا۔ ظاہر تو یہی ہے کہ اس میں دوسرا جذبہ ہی کار فرما تھا، اور وجہِ ظاہر یہ ہے کہ آپ تشہیری مہم کی تمام تقریریں اور بیانات کو سنئے، کہیں اس کا ذکر نہیں کہ مجھ میں اہلیت اور صلاحیت ہے جس کے ذریعہ میں خلق خدا کے حقوق ان تک پہنچا سکتا ہوں، عوامی، رفاہی، سماجی اور ترقی کے کاموں کو انجام دے سکتا ہوں ۔

            اگر ذکر تھا تواپنے حریف کی خامیوں اور اس کی کمزوریوں کا ۔

            اگر ذکر تھا تو اپنے حریف کے عیوب اور اس کے رازوں کے افشا کا۔

            اگر ذکر تھا تو اپنے حریف کی ناکامیوں اور اس کی نا مرادیوں کا۔

            اگر ذکر تھا تو خاندانی اور برادری کی عصبیت کا۔

            اگر ذکر تھا تو اپنے نا کردہ کاموں کا ۔

            اگر ذکر تھا تو شہری مسائل کی تکمیل میں اپنے حریف کی رکاوٹیں ڈالنے کا ۔

            اگر ذکر تھا تو شہر میں پنپنے والی برائیوں اور جرائم کی نسبت اپنے حریف کی طرف کرنے کا۔

            اگر ذکر تھا تو شہری مسائل کا ذمہ دار اپنے حریف کو ٹھہرانے کا۔

            تو کیا کسی عہدہ کے لیے اپنے اہل اور موزوں و مناسب ہونے کو ا س طرح اجا گر کر کے عوامی ووٹوں کے ذریعہ اس عہدہ تک رسائی شرعاً جائز ہے ؟۔

دوسرا اشکال:

            ہر اسٹیج پر مقررین ” نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم “ پڑھ کر اپنے خطاب کا آغاز کرتے اور خداکی حمد کے بعد اپنے حریف اور مد مقابل کی برائیوں کو بیان کرنا شروع کردیتے اور پھر آخر میں ” وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العلمین “ پر اپنے خطاب کوختم کردیتے، اس طرز خطابت پر یہ اشکال ہے کہ کیا اپنے حریف کی برائیوں، اس پر الزام وبہتان وغیرہ پر مبنی بیان کو ” نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم “ سے آغاز کرنا اور اسے ” وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العلمین “ پر ختم کرنا جائز و صحیح ہے؟ جبکہ یہ اللہ رب العزت کے نام اور اس کی حمد کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق لگتا ہے۔ اور اس طرز عمل کو اس شہر کے مسلم مقرروں کی جانب سے اختیار کیا جانا، جو علم و ادب، مسجدوں، میناروں اور مدرسوں کا شہر کہا جاتا ہے، اس کی قباحت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔

            فقہ ِاسلامی میں لکھا ہے : ” عمل ِحرام و معصیت کی تائید وتحسین بھی حرام ومعصیت ہے(۱)، بالخصوص اس کی تائید میں الله کا نام استعمال کرنا، یہ الله کے نام کی بڑی بے ادبی ہے کہ اس کی حرام کردہ چیز کی تحسین کے لئے اسی کا نام استعمال کیا جائے(۲)۔

            کما فی ” کتاب الإحکام شرح أصول الأحکام لابن قاسم عبد الرحمن بن قاسم “ : وتستحب البسملة فی ابتداء جمیع الأفعال المہمة، وہي تطرد الشیطان ۔۔۔۔۔۔ وذکر بعض أہل العلم أربعة أقسام: ۔۔۔۔ وقسم تکرہ فیہ (البسملة): وہو المحرم والمکروہ۔ لأن المقصود بہا البرکة والزیادة۔ وہٰذان لا تطلب فیہما۔ (۱/۲۱۲/ کتاب الصلاة باب صفة الصلاة)

            (وہکذا فی ” حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح ونجاة الإرواح“ : ص: ۶/ خطبة الکتاب)

تیسرا اشکال:

            جب کسی خاص عہدہ کے متعلق یہ معلوم ہو کہ کوئی دوسرا آدمی اس کا اہل نہیں ہے، اور اپنے بارے میں اندازہ ہو کہ میں اس عہدہ کا اہل ہوں، اس کے کام کاج کو بحسن و خوبی انجام دے سکتا ہوں اور کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو تو ایسی حالت میں عہدہ کا خود طلب کرلینا جائز ہے ، مگر :

            #…اس عہدہ تک رسائی کے لئے کسی علاقہ یا محلہ کی کسی بااثر شخصیت کو یا چھوٹی جماعتوں اور کلبوں کے لوگوں کو اپنے حق میں ووٹ ڈلوانے کے لئے روپیہ پیسہ دینایا ان کے ساتھ کوئی سیاسی ڈیل کرنا۔

            #… ووٹروں کو روپیہ پیسہ دے کر ان سے اپنے حق میں ووٹ ڈلوانا۔

            #…ڈنڈوں اور غنڈوں کا استعمال کرکے لوگوں کو ان کے ضمیر کے خلاف ووٹ ڈالنے پر مجبور کرنا۔

            #…بھولی بھالی عوام کو اونچے اونچے خواب دکھا کر ان سے اپنے حق میں ووٹ کروانا۔

            #…جھوٹی اور بوگس ووٹنگ کروا کر اپنی کامیابی کے امکانات کو یقینی بنانا کیسے اور کیوں کر جائز ہوسکتا ہے۔

            اس لئے کہ یہ تمام باتیں شرعاً ناجائز وحرام ہیں، اور کسی جائز عہدہ کو ناجائز اور حرام ذرائع اختیار کرکے حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ شرعِ اسلامی کا حکم یہ ہے کہ کسی بھی امر جائز کو ناجائز ذرائع سے حاصل کرنا، جائز نہیں ہے۔

            ” ما أدی إلی الحرام فہو حرام “ ۔( بدائع الصنائع: ۱/۶۶۸)

             ” الوسیلة إلی الحرام حرام “ ۔ (بدائع الصنائع: ۶/۴۸۸)

             ” الأصل أن سبب الحرام حرام“ ۔ (ہدایة : ۴/۶۶)

چوتھا اشکال:

            کامیاب ہونے والے فرد کا آیت قرآنی ﴿وتعز من تشاء وتذل من تشاء ﴾ سے استدلال کرنا ، یہ بھی محل غور ہے، کیوں کہ اس آیت کا ترجمہ و پس منظر یہ ہے ۔

            آیت کا ترجمہ: ”اے اللہ! آپ جس کو چاہیں غالب کردیتے ہیں اور آپ جس کو چاہیں پست کر دیتے ہیں، آپ ہی کے اختیار میں ہے سب بھلائی۔“

پس منظر:

            غزوہ بدر و اُحد میں مشرکین کی مسلسل شکست اور مسلمانوں کے خلاف ہر جد وجہد میں ان کی ناکامی کے ساتھ مسلمانوں کی مسلسل ترقی اور اسلام کی روز افزوں اشاعت نے قریش ِمکہ اور تمام غیر مسلموں میں بوکھلاہٹ پیدا کردی تھی، جس سے وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہورہے تھے، جس کا نتیجہ ایک عام سازش کی صورت میں یہ ظاہر ہوا کہ مشرکین عرب اور یہود ونصاری سب کا ایک متحدہ محاذ مسلمانوں کے خلاف بن گیا، اور سب نے مل کر مدینہ منورہ پر یکبارگی حملہ اور فیصلہ کن جنگ کی ٹھان لی اور ان کا بے پناہ لشکر، اسلام اور مسلمانوں کو دنیا سے مٹانے کا عزم لے کر مدینہ پر چڑھ آیا، جس کا نام قرآن ِکریم میں غزوہ ٴاحزاب اور تاریخ میں غزوہ ٴخندق ہے، اس غزوہ کو غزوہ ٴخندق اس لئے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مشورہ سے یہ طے فرمایا تھا کہ دشمن کے راستہ میں مدینہ سے باہر خندق کھودی جائے، خندق کی کھدائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک فرد کی حیثیت سے شریک تھے، اتفاقاً خندق کے ایک حصہ میں پتھر کی بڑی چٹان نکل آئی، جن حضرات صحابہ کے حصہ میں خندق کا یہ ٹکڑا تھا، وہ اپنی پوری قوت صرف کرکے عاجز آگئے تو حضرت سلمان فارسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا گیا کہ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے؟

            آپ اسی وقت موقع پر تشریف لائے اور کدال ِآہنی خود دست مبارک میں لے کر ایک ضرب لگائی تو اس چٹان کے ٹکڑے ہو گئے اور ایک شعلہ برآمد ہوا ،جس سے دور تک اس کی روشنی پھیل گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے اس روشنی میں ” ملک فارس “کے محلات و عمارات دکھلائی گئیں، پھر دوسری ضرب لگائی اور پھر ایک شعلہ برآمد ہوا تو فرمایا : اس کی روشنی میں مجھے ” رومیوں کے سرخ سرخ محلات و عمارات “ دکھلائی گئیں، پھر تیسری ضرب لگائی اور روشنی پھیلی تو فرمایا : اس میں مجھے ” صنعائے یمن “ کے عظیم محلات دکھلائے گئے اور فرمایا : میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ مجھے جبرائیل امین نے خبر دی کہ میری امت ان تمام ممالک پر غالب آئے گی۔

            منافقین مدینہ نے یہ سنا تو ان کو استہزا اور تمسخر کا موقع ہاتھ آیا، اور مسلمانوں کا مذاق اڑایا کہ دیکھو ان لوگوں کو جو حریف ِمقابل کے خوف سے خندقیں کھودنے میں اس طرح مشغول ہیں کہ ان کو اپنی ضروریات کا بھی ہوش نہیں ہے، اپنی جانوں کی حفاظت ان کو مشکل ہو رہی ہے، اور ملک فارس #و روم #اور یمن #کی فتوحات کے خواب دیکھ رہے ہیں، حق تعالی نے ان بے خبر ظالموں کے جواب میں یہ آیت نازل فرمائی۔﴿ قل اللّٰہم مالک الملک﴾ الخ.

            جس میں فارس #و روم #کی فتوحات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے پوری ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا اور یہ بتلایا گیا کہ دنیا کی ساری طاقتیں اور حکومتیں سب ایک ذات پاک کے قبضہٴ قدرت میں ہیں، عزت و ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے ، وہ بلا شبہ اس پر قادر ہے کہ غریبوں اور فقیروں کو تخت و تاج کا مالک بنا دے اور بڑے بڑے بادشاہوں سے حکومت و دولت چھین لے۔

            اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ آج کے خندق کھودنے والے فقیروں کو کل شام و عراق اور یمن کی حکومت عطا فرما دے۔

ذرہ ذرہ دہر کا پابستہ تقدیر ہے

زندگی کے خواب کی جامی یہی تعبیر ہے

(معارف القران: ۲/۴۵)       

            آیتِ کریمہ کے اس ترجمہ اور پس منظر سے یہ بات بالکل صاف اور واضح ہوجاتی ہے کہ جمہوری ملک میں جو انتخابات ہوتے ہیں، اور ان میں بعض امیدوار جیت جاتے ہیں اور بعض شکست کھا جاتے ہیں تو کامیاب ہونے والے امیدوار اور اس کے ورکروں اور پولیٹیکل ایجنٹوں کا اس آیت کریمہ سے استدلال کرنا کہاں تک صحیح ہے ؟

            ۱-         کیا کامیاب ہونے والے امیدواروں کو اللہ پاک نے تخت و تاج کا مالک بنا دیا اور ان کے مد مقابل حریفوں سے تخت و تاج کو چھین لیا؟

            ۲-         کیا کامیاب ہونے والے امیدوار وں کے سروں پر اللہ رب العزت نے عزتوں اور بلندیوں کا تاج رکھ دیا اور مقابل حریفوں کو ذلیل و رسوا کر دیا؟

            اگر جواب ہاں میں دیا جائے تو یہ بالکل صحیح نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اس صورت میں آیت ِکریمہ کا یہ مطلب ہوگا کہ پورے ملک میں منتخب ہونے والے امیدوار ؛ جن میں اکثریت غیر مسلموں، مشرکوں، یہود اور ہنود کی ہے؛ کو اللہ پاک نے عزت و سرخ روئی عطا کی، اور ان کے مد ّمقابل حریفوں کو ذلیل ورسوا کردیا۔

            حالاں کہ فرمان ِباری تعالی ہے ” وللہ العزة ولرسولہ وللموٴمنین ولکن المنافقین لا یعلمون“ کہ عزت تو صرف اللہ ، اس کے رسول اور مومنوں کے لئے ہے۔

مذکورہ آیت کی تفسیر میں حضراتِ مفسرین کے ان اقوال کو دیکھئے!

            ۱- ” وتعز من تشاء وتذل من تشاء“ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک ہر چیز کا مالک ہے ، جس کو چاہے تخت و تاج دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جسے چاہے ذلیل ورسوا کردے ۔

            ۲- ” تعز من تشاء “سے مراد مہاجرین و انصار ہیں، اور ” تذل من تشاء“ سے اہل فارس و روم ہیں۔

            ۳- ” تعز من تشاء “سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اور ” تذل من تشاء“ سے ” ابو جہل “ اور اس کے ساتھی مراد ہیں۔

            ۴- ” تعز من تشاء “کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک اپنی طاعت و فرمانبرداری کے سبب اہل طاعت کو عزت عطا فرماتے ہیں اور اپنی معصیت و نافرمانی کے سبب اہل معصیت کو ذلیل و رسوا کر دیتے ہیں۔

            ۵- ” تعز من تشاء “کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک اپنی مدد اور نصرت کے ذریعہ جسے چاہے عزت بخشتے ہیں اور اپنے قہر و عذاب کے ذریعہ جسے چاہے ذلیل ورسوا کردیتے ہیں۔

            مفسرین کے ان اقوال کو پیش نظر رکھ کر بھلا بتلایئے کہ کیا جمہوری الیکشن میں کامیاب ہونے والے شخص کے لئے اس آیت سے استدلال کرنا صحیح ہے؟

            اگر جواب ہاں میں ہو، تو کیا جیتنے والا امید وار اور اس کے ووٹرز سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے اصحاب و پیروکاروں کی صف میں ہوجائیں گے؟ اور ہارنے والا امید وار اور اس کے ووٹرز، ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کی صف میں ہوجائیں گے؟

            یا پھر دوسری تفسیر کے مطابق کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جیتنے والا امید وار اور اس کے ووٹرز، سب کے سب اہل طاعت ہیں اور اللہ پاک نے انہیں ان کی طاعت کی وجہ سے عزت بخشی اور ہارنے والا امید وار اور اس کے ووٹرز، سب کے سب اہل ِمعصیت ہیں جنہیں اللہ پاک نے ان کی معصیت کی وجہ سے ذلیل و رسوا کردیا؟

            اگر اس طرح کا استدلال صحیح ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اللہ پاک نے بی جے پی کو تخت و تاج دے کر عزت بخشی، اسے مہاجرین و انصار کی صف میں لاکھڑا کردیا اور طاعت و فرمانبرداری کی وجہ سے اسے عزت سے مالا مال کریا، اور ” بی جے پی ” تعز من تشاء “ کا مصداق اور دیگر تمام حریف حزب اختلاف کی جماعتیں ” تذل من تشاء “ کا مظہر ہیں!

            لیکن نہیں یہ استدلال ہر گز صحیح نہیں ہے، اور جمہوری ملک میں ہونے والے انتخابات میں ہار جیت کے لئے اس آیت سے استدلال کرنا کسی بھی طرح سے صحیح نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ استدلال سراسر شرع ِاسلامی کے خلاف ہے!

            الغرض!  جمہوری ملکوں میں الیکشن و انتخاب اپنی اہلیت وصلاحیت، ماضی میں ملک وملت کے لئے پیش کردہ قربانیوں، خدمات،اہم کاموں اور آئندہ منتخب ہونے پر ملک و ملت کے لئے کئے جانے والے کاموں سے متعلق عزائم و منصوبہ بندیوں کی بنیاد پر لڑے جانے چاہئے ۔

            اپنے مد مقابل حریف امید واروں کی کمزوریوں اور خامیوں کو اجاگر کر کے، اور اپنی کمزوریوں اور خامیوں پر پردہ ڈال کر نہیں ۔

           اپنے مد مقابل حریف کے نا کردہ گناہوں کو اس کی طرف منسوب کرکے اور اپنے گناہوں کو چھپا کر نہیں۔

       نہ ان کاموں کو اپنی طرف منسوب کرکے جن کو خود نے نہ کیا ہو۔

         نہ ان کاموں کو عزائم ومنصوبہ بندی میں ذکر کرکے جن کے متعلق یقین ہو کہ وہ نہیں کیے جاسکیں گے۔

 نہ برادری و خاندانی عصبیت اور ڈنڈا، غنڈا اور روپیہ پیسہ کی بنیاد پر ۔

            کیوں کہ شرعاً یہ تمام باتیں ناجائز و حرام اور سنگین گناہ ہیں۔

الیکشن ختم ہو جانے کے بعد، بعض سمجھدار انہ باتیں:

            ۱- ” چلو یہ الیکشن کا پریڈ تھا اور جمہوری ملک کے الیکشن میں اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں، اب اسے بھول جاؤ اور شیر و شکر ہو کر رہو۔

            ۲- ہم مسلمان ہیں، ہمارا خدا ایک ہے، ہماری کتاب ایک ہے، ہمارا رسول ایک ہے، ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں۔

            ۳- اختلافات سے ہماری قوت بٹ جائے گی موجودہ حالات ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالیں ، غیروں میں اس کا اچھا تاثر نہیں جائے گا۔

            ۴- جیتنے والے کی جیت تمام برادریوں ، تمام مسالک و مکاتب فکر کے لوگوں کی جیت ہے، ہمیں شہر کو ترقی کی منزل پر لے جانا ہے، ہم شانہ بشانہ ہو کر ہی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں ورنہ یہ ممکن نہیں ہے، وغیرہ․․․․․۔

ان سمجھدار انہ باتوں پر دردمندانہ عرض یہ ہے کہ :

            ۱ – ” جمہوری ملکوں کے الیکشنوں میں اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں “ تو کیا ہم مسلمانوں کے لئے بھی یہ سب باتیں جائز تھیں، ہمارے لئے تو جائز وہ ہے جو کتاب و سنت اور فقہ اسلامی نے جائز قرار دیا نہ کہ عملِ جمہوریت نے ،کیوں کہ مسلمان جہاں بھی رہے وہ احکام شرعیہ کا مکلف و پابند ہوتا ہے اور اس کے لیے راہ ِعمل راہ ِکتاب و سنت ہوتی ہے نہ کہ عمل ِجمہوریت۔

            ۲- ” ہم مسلمان ہیں، ہمارا خدا ایک ہے، ہماری کتاب ایک ہے، ہمارا رسول ایک ہے، ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں “

            تو کیا الیکشن کے زمانے میں ہم مسلمان نہیں تھے؟

             ہمارا خدا، ایک خدا نہیں تھا؟

             ہمارے رسول، ایک رسول نہیں تھے ؟

             ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہیں تھے؟

             الیکشن کے زمانے میں ان تمام باتوں سے صرف نظر کیوں کیا گیا؟

            کیا محض اس لیے کہ بس ہمیں الیکشن جیتنا تھا، جو ہو سو ہو، بعد میں تو بہ و استغفار کر لیں گے اور اپنی قسموں کے کفارہ دے دیں گے، تو کیا توبہ و استغفار اور قسموں کے کفاروں کی توقع پر، گناہوں پر اس قدر جرات کسی مومن کی شان ہو سکتی ہے؟۔

            ۳- ” ہمارے اختلافات سے ہماری قوت بٹ جائے گی، موجودہ حالات اس کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم ایک دوسرے کی پگڑی اچھالیں، غیروں میں اس کا اچھا تاثر نہیں جائے گا وہ ہمارے اختلافات سے فائدہ اٹھا لیں گے وغیرہ ․․ “ تو کیا سمجھداری کی یہ باتیں الیکشن کے زمانے میں سمجھداروں کی سمجھ میں نہیں آتیں، کیا اس زمانے میں صرف یہی ایک سمجھ بنی ہوتی ہے کہ الیکشن جیتنا ہے اور ہمارے امیدوار ہی کو جیتانا ہے۔

            ۴- ”جیتنے والے کی جیت تمام برادریوں ، تمام مسالک و مکاتب فکر کے لوگوں کی جیت ہے، ہمیں شہر کو ترقی کی منزل پر لے جانا ہے، ہم شانہ بشانہ ہو کر ہی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں ورنہ یہ ممکن نہیں ہے، وغیرہ․․․․․۔“

            یہ جیت تمام برادریوں کی، تمام تنظیموں کی، تمام مسالک و مکاتب فکر کی جیت کیسے ہو سکتی ہے؟ جبکہ الیکشن کے زمانے میں ان تمام باتوں کا ذرہ خیال نہیں رکھا گیا، بلکہ رزلٹ سے ایک دن پہلے اس طرح کی کلپیں چلائی گئیں کہ اصل لڑائی ۲۴/ تاریخ کے بعد شروع ہوگی ، ہم اپنے حریف اور اس کے حواری مواری کو اپنا پاور و طاقت دکھلائیں گے وغیرہ۔

             یہ سب تضادات ہیں، ہمیں سنجیدگی سے ان پر غور فکر کرنا ہوگا، ہم اپنے اثر و رسوخ اور جادوئی تقریر و ں اور بیانوں سے خلقِ خدا کو مسحور ومبہوت کرکے، ان کی رائے کو تو اپنے حق میں کرا سکتے ہیں مگر مرضی ٴخالق کو نہیں، اس کے یہاں ہم سب کو اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا۔ ﴿إلي مرجعکم فأنبئکم بما کنتم تعملون﴾۔

(سورة لقمان: ۱۵)

تم سب کو میرے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں بتلا دوں گا کہ دنیا میں تم کیا عمل کرتے رہے۔ فقط۔