منگیترکی جانب سے حج وعمرہ ادا کرنا

فقہ وفتاویٰ

مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی

صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

منگیترکی جانب سے حج وعمرہ ادا کرنا

مسئلہ:    منگیتر یعنی ہو نے والی بیوی دیگرغیرمحرم عورتوں ہی کی طرح ہے، جس سے سلام وبلا ضرورت کلام کرنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص اپنی منگیتر کے ایصال ثواب کی خاطراس کی طرف سے حج وعمرہ کرے تو یہ جائز ودرست ہے، جیسے دیگر غیر محرم عورتوں کے ایصال ثواب کیلئے ان افعال کے کرنے کی اجازت ہے۔


 

الحجّة علی ما قلنا:

ما في ” سنن أبی داود “ : لوکان مسلما فأعتقتم عنہ أوتصدقتم، أوحججتم عنہ بلغہ ذلک․ (ص:۳۹۹، کتاب الوصایا، باب ما جاء فی وصیة الحربی یسلم ولیہ أیلزمہ أن ینفذہا)

ما في ” عون المعبود “ : فیہ دلیل علی أن الصدقة لا تنفع الکافر، وعلی أن المسلم ینفعہ العبادة المالیة والبدنیة․ (۸/۵۳)

ما في ” رد المحتار “ : صرّح علما وٴنا في باب الحج عن الغیر بأن للإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاةً أوصومًا أوصدقةً أوغیرہا کذا فی الہدایة، بل في زکاة التاتارخانیة: الأفضل أن ینوي لجمیع الموٴمنین والموٴمنات لأنہا تصل إلیہم، ولاینقص من أجرہ شيء، ہو مذہب أہل السنة والجماعة․(۳/۱۵۱، کتاب الجنائز: مطلب فی القراء ة للمیت وإہداء ثوابہا لہ، ط: بیروت) (آن لائن فتاوی دار العلوم دیوبند، رقم الفتوی:۳۴۳)(المسائل المہمہ ۱۴:۱۳۲)