بر سانحۂ ارتحال :پیرطریقت، عالمِ ربانی حضرت مولاناعبداللہ صاحب کاپودروی نوراللہ مرقدہسابق رئیس جامعہ فلاح دارین ترکیسر،گجرات
از:مفتی حفیظ اللہ حفیظ قاسمی بھیونڈی
اک حادثہ جو آج سرِشام ہوگیا
گجرات بھر میں باعثِ کہرام ہوگیا
سب جس کی روشنی میں نہاتے تھے رات دن
وہ جلوہ وجمال سبک گام ہوگیا
جس کی ادائیں باعثِ تسکینِ قلب تھیں
اب انجمن سے دور وہ گلفام ہوگیا
جس کی نگاہِ ناز کا رہتا تھا انتظار
حوروں کے ہاتھ آج وہ نیلام ہوگیا
کاپودرہ کو جس کی سکونت پہ ناز تھا
رخصت وہ آج داعیٔ اسلام ہوگیا
’’دارین کی فلاح‘‘ رہی جس کی جستجو
اک یادگار جس کا ہر اک کام ہو گیا
جس کی طرف رجوعِ خواص و عوام تھا
روشن جہاں میں جس کا حسیں نام ہوگیا
اب تک جو حسنِ طرز سے کرتا تھا تزکیہ
سرکش بھی جس کی بزم میں بس رام ہوگیا
سرمستِ بندگیٔ خدا تھا جو تا حیات
جنت میں محوِ راحت و آرام ہوگیا
کرتا تھا جو شکار دلوں کا تمام عمر
باہر شکار گاہ سے بہرام ہوگیا
گمنامیوں میں جس نے گزاری تھی زندگی
تابندہ اس کا نامہ و پیغام ہوگیا
بھرتے تھے اہل علم جہاں آکے خُم کے خُم
ساقی گیا شکستہ ہر اک جام ہوگیا
رشکِ چمن تھا جس کا ہر اک شوخ بانکپن
اب اوڑھ کر کفن وہی گمنام ہوگیا
ڈنکا بجا تھا جس کے علوم و فنون کا
وہ کوہِ فضل مائلِ فرجام ہوگیا
گجرات کی زمیں پہ جو تھا رشکِ ہر حیات
وہ بھی اجل کے سامنے ناکام ہوگیا
کرتے تھے اہلِ علم جہاں اکتسابِ فیض
ویران اب وہ گھر وہ در و بام ہوگیا
کاپودرہ سے جلوہ نما تھا جو نازنیں
وہ کیا گیا کہ باعثِ آلام ہوگیا
آغازِ کار جس کا تھا پیہم نتیجہ خیز
اس مرد شاہ کار کا انجام ہوگیا
اسلاف کے نہج کا جو اک ترجمان تھا
جلوہ شکارِ گردشِ ایام ہوگیا
یارب تو اس کے چاہنے والوں کی لاج رکھ
ہر پختہ عزم جن کا محض خام ہو گیا
اِس بندۂ خدا کو تو جنت نصیب کر
جب تیری بارگاہ میں اقدام ہوگیا
روتے بلکتے لوگوں کو نعم البدل بھی دے
اک سانحہ یہ بر سرِ خدام ہوگیا
آ جا حفیظؔ مل کے دعا دل سے ہم کریں
ہر روز اب تو حادثہ بس عام ہوگیا