مملکتِ زنگیہ کی تاریخ:

                اس مملکت کا سنگِ بنیاد ،وزیرِ مصلح نظام الملک کی زندگی میں رکھا گیا، جب کہ نظام الملک نے سلطان ملک شاہ کو شہر حلب اور اس کے مضافات حماۃ ،منبج ،لاذقیہ وغیرہ کی ولایت پر ’’آق سنقر قسیم الدولہ ‘‘ کے تقرر کا مشورہ دیا۔

مملکت زنگیہ کا بانی:

                آق سنقر نے 477ھ میں تحریکِ جہاد میں شہرت پائی جب وہ اس لشکر کا سالار تھا، جس کی قیادت فخرالدولہ بن جہیر کررہا تھا،اس کا رخ موصل کی طرف تھا جسے حاصل کر لیا ٍگیا ۔مورخ ابو شامہ فرماتے ہیں کہ آق سنقر کی علوِ مرتبت کی دلیل یہ ہے کہ اسے قسیم الدولہ کا لقب ملا؛کیوں کہ ایسے القاب تو بچا کر رکھے جاتے ہیں اور مستحق کو عطا کیے جاتے ہیں ؛اسی طرح دوسرے تاریخی ما خذ پراضافہ کرتے ہیں کہ آق سنقر کی ہیبت تمام زیرِ تسلط علاقوں پر چھائی ہوئی تھی وہ رعایا کے بارے میں حکمتِ عملی اور مسلم علاقوں کے دفاع میں سب سے بہتر تھا ۔

                اس کے علاقوں میں ارزانیِ انصاف اور امن ِعام تھا ۔اس نے اپنے علاقہ کے ہر شہر کے لوگوں میں یہ شرط لگا رکھی تھی کہ اگر کسی نے تالہ لگا یایا کسی نے کسی کے اہلِ خانہ کو نقصان پہنچایا تو اس کی ساری جائیداد ضبط کر لی جائے گی؛ جب کوئی قافلہ اس کے کسی شہر میں آتا تو وہ اپنا سامان کھول کر ڈال دیتے اور امن کی نیند سوجاتا ۔اہل شہر اس وقت تک اس کی حفاظت کرتے جب تک وہ قافلہ روانہ نہ ہو جاتا ۔چناں چہ شاہراہیں محفوظ ہو گئیں۔

عماد الدین زنگی کا سنہرا دور:

                487ھ میں آق سنقر کو قتل کر دیا گیا اور اس کا بیٹا عما د الدین زنگی جا نشین بنا۔وہ اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتا رہا،تا ہم عادات میں اس کا اپنا مقام نمایاں تھا ۔دار الخلافہ بغداد سے دوری کے باوجود اس کا درجہ ایک اہم ترین حاکم کا تھا اوراس سے مسلسل عمدہ کردار کا ظہور ہو رہا تھا۔(عہد ایوبی کی نسلِ نواور القدس کی بازیابی:۲۲۱)

                قدرتی بات تھی کہ اصلاح وتجدید کے علم بر دار ایک نئی امتِ اسلامیہ کی بنا ڈالنے کے بارے میںسوچ رہے تھے۔امّتِ جدیدہ ،یہی مملکت تھی جس کاآغاز  521ء بغداد کے فتنہ سے واپسی پر عمادالدین نے کردیاتھا۔ اور اس کو مضبوط کرنے اور رقبہ کو وسعت دینے میں عماد الدین مشغول ہو چکا تھا۔

                گویا یہ مملکت اس کی مستحق تھی کہ اسے مملکتِ جدیدہ کانام دیاجائے ۔جب سلطان بعض سازشیوں کے ہاتھوںشہیدہوا تو اس کا بیٹا نورالدین جانشین ہوا،اوراس نے مملکتِ جدیدہ کے اسلامی امتیاز کو مزید نمایاں کرنے کی کوشش کی۔

                نورالدین کے عہدسے یہ مملکت ِآلِ زنگی ،ایک ایسا مرکز بن گئی جس کے گرد تجدیدی رجحان رکھنے والے علما اور اصلاحی مدارس کے طلبہ جمع ہونے لگے ،انہوں نے اسے دارالہجرت بنا کر ہرطرف سے لوگو ں کو بلایا اور مخلصین کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ،خواہ ان کا فقہی مذہب اور نسبت کوئی بھی ہو۔ اور جو جس کام کے لیے مناسب تھا اسے اس میں لگا دیا ۔

مملکتِ زنگیہ کی کامیابی کے پیچھے اجتماعی کوششیں کارفرما تھیں:

                جن مورخین نے حالات کی تاریخ لکھی ،وہ ان خطوط کی تفصیل نہیں بتاتے جن پر یہ نوخیز مملکت گامزن تھی، اس لیے کہ قدیم اسلامی مورخین کا طریق ِکا ر یہ تھا کہ وہ واقعات کوایسے اشخاص کی طرف منسوب کرتے تھے ،جوسیاسی وعسکر ی قیادت کرتے تھے ،وہ دیگر قوی اثرات وعوامل کو نظر انداز کردیتے تھے ۔وہ واقعات کو اجتماعی عمل کے اثر کے بجائے ایک فرد کے کارناموں کے حوالے سے بیان کرتے اور واقعات کے تسلسل میں ربط پیدا نہیںکرتے تھے ۔

                تاہم اس مملکت کے ابتدائی ایام سے ہی واقعات کی تاریخ اورنورالدین کی قیادت کی حکمت ِعملی میں، اجتماعی منصویہ بندی اور تعاون نیز واقعات کا با ہمی ربط سامنے آتا ہے۔موصل میں عمادالدین زنگی کاوزیرمروان بن علی بن سلامہ بن مروان طنزی (دیاربکر کے شہر طنزہ سے نسبت تھا)جس نے بغداد آکر امام غزالی ؒاورشاشی سے علم حاصل کیا؛پھروہ اپنے علاقے میںآکر امورِ وزارت کی تدبیر میں اپنی وفات (540ھ)تک مصروف رہا۔

نورالدین زنگی کے عہد کے امتیازی کارنامے:

                نورالدین کے عہد میں مملکتِ جدیدہ کی سیاست چھ امور میں ممتاز ہوئی ،جویہ ہیں:

اول:…قوم کو خالص اسلامی انداز میں تیار کرنا اور دینی وثقافتی زندگی کو باطنیہ کے منحرف فکر ی رجحان اور یونانی فلسفہ کے اثرات اور فاطمی شعائر سے پاک کرنا ۔ (یعنی معاشرے میں افکار پر جو خارجی اثر یونانی فلسفہ سے آیا تھا اور باطنی اثر جو فاطمی قوت سے آیا تھا اسے پاک و صاف کردیا)

دوم:…انتظامیہ کو اسلامی رنگ دیا اور اجتماعی عدل کو فروغ دیا۔

سوم: …فرقہ وارانہ تنازعات کو ختم کیا، مضبوط اسلامی اخوت اور وحدت ِعمل اور متحدہ قیادت کی بنیاد ڈالی۔

ؒچہارم :…اقتصادی زندگی کی خوش حالی کے لیے عوامی منفعت کے حامل اداروں کو قائم کیا۔

پنجم :…فوجی طاقت کو اپنے بل بوتے پر مضبوط شکل دی۔

ششم:…شام کی منتشر چھوٹی چھوٹی مملکتوں کا خاتمہ کیا،مصر اور جزیرۂ عرب کے مابین وحدتِ اسلامی کو عملی جامہ پہنایا۔

(عہد ایوبی کی نسلِ نواور القدس کی بازیابی:۲۲۲تا۲۲۳)

تعلیمی بیداری میں مملکت کا کردار:

                مملکتِ جدیدہ کے نزدیک پکا اور سچا صحیح مسلمان ہی وہ اہم ستون تھا ؛جس پر امتِ مسلمہ کی بنا قائم ہوتی ہے۔ اس غرض سے قوم کو اسلامی انداز میں تیار کرنے کے لیے جامع پالیسی اختیار کی گئی اور اس پالیسی میں اداروں کو منضبط کیا گیا ؛جہاں نئی نسلوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی۔ اسی طرح اس میں ہدایت وارشاد کو  بھی شامل کیا گیا جس کا مقصد عوام الناس کی ر ہ نمائی کرنا تھا۔ اس میں عسکری تیاری بھی شامل تھی جس کا ہدف، خطرات اور چیلنجوں کے مقابل کو تیار کرناتھا۔ اس مذکورہ پالیسی کی تفصیلات یہ ہیں:

(۱)تعلیم اور اداروں کا کردار: مملکت نے مدارس کی تعمیر اور دورِ قرآن وحدیث کا کام اپنے ہاتھ میں لیا اور مشاہیر علما بالخصوص جو مدارسِ اصلاح مثلاً غزالیہ، قادریہ، عدویہ، حرانیہ اور سہروردیہ کے فارغ التحصیل تھے کو بلایا۔ مملکتِ جدیدہ کے ہاں تعلیم محض درسی سرگرمی کا نام نہیں تھا، جس میں عملے اور پیشہ ورانہ تربیت کی فراوانی ہو؛ بل کہ ایسی عقائدی سرگرمی مراد تھی جس کا ہدف، متحدہ ملت کی تشکیل نیز اسلامی مقاصد اور موجودہ ضروریات کو پیشِ نظر رکھنا تھا۔یہ تعلیم کے ادارے دو قسموں میں منقسم تھے:

مدارس:اول: مدارس اور دورِ قرآن وحدیث، ان کا بڑا کام نوجوانوں میں سے نئی نسل کا اخراج تھا، جس کا عقیدہ صاف اور عقلی ونفسی استعداد اس درجہ بلند ہو جس کا حصول ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے۔

 مساجد:دوم: مساجد، جن کی تعداد صرف ایک شہر دمشق میں سوسے زیادہ تھی اور وہ عبادت ونماز کے علاوہ ایسے تعلیمی مراکز بھی تھے، جہاں اسلامی روح پھونکنے پر توجہ دی جاتی تھی۔ یہاں اسماعیلی مذہب اور فلسفہ کی تعلیم کو (جس کے اثرات آبادی کے عقائد، عادات اور سیاسی واجتماعی نظریات میں بہت گہرے تھے) ذہن سے محو کیا جاتا تھا۔ اسی بنا پر ابن جبیر مملکت جدیدہ کے قیام سے پہلے کے احوال قلمبند کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان لوگوں کے ہاں کوئی اسلام نہیں تھا اور وہ لوگ خواہشات وبدعات کے غلام تھے، سوائے اس کے جس پر اللہ نے رحم کیا اور بعد میںمملکت جدیدہ نے اسے بالکل الٹ دیا سوائے اسلام کی تابع داری کے اور کچھ نہیںرہا۔ (عہد ایوبی کی نسلِ نواور القدس کی بازیابی:۲۲۴)

عامۃ الناس کی اخلاقی تربیت کا انتظام:

(۲)عوامی ہدایت ورہ نمائی: اس کا مقصد مسلم عوام میں سے عاملوں مزارعوں اور تاجروں کی رہ نمائی کرنا تھی۔ اس کا موازنہ موجودہ دور کی’’ تعلیمِ بالغاں‘‘ سے کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ منہاج میںاس سے مختلف تھی۔ یہ محض ناخواندگی کے خلاف جنگ تک محدودنہ تھی؛ بل کہ اس کا ہدف اخلاق، تصورات اور عقائد تھے۔ اس میدانِ تربیت میں صوفی شیو خ نے مہارت حاصل کی تھی، خاص طور پر جب سے اصلاحِ تصوف کا کا م حضرت شیخ عبدالقادر اور ان کے ہم عصر ساتھی شیوخ نے ہاتھ میں لیا ۔یہ بات نو ٹ کی جاسکتی ہے کہ جہاں اصلا ح ِتصوف کی تحریک اس کی تطہیر اور گوشہ نشینی سے اسے باہر لا کر مشکلات وخطرات کا سامنا کرنے میں شریک ہوئی ؛وہیں اس کے ساتھ نورالدین کی عنایات، رباط وزاویوں کی تعمیراور شیوخ کااحترام بھی شاملِ حال رہا۔ان اداروں نے تعلیمی مدارس کے علا وہ بھی اپنا کردار ادا کیااور مسلم عوام کی تہذیب میں اپنا وہ فریضہ ادا کیا، جس سے مملکتِ نوریہ کی پالیسی متفق تھی۔

بے مثال عسکری تربیت کا  انتظام:

(۳)عسکری تیاری :تعلیم وارشاد کے علاوہ مملکت ،تمام امت کی عسکری تربیت میں سر گرم ہوگئی اور اس کی صفوں میں عسکری روح پھونک دی ۔جب نور الدین نے دمشق کو اپنی مملکت میں شامل کر کے اسے اپنا صدر مقام بنا یا تو عسکری تربیت کی طرف توجہ بڑھ گئی ۔

                اس نے جہاد کے موضوع پر کتاب تالیف کی اور اپنے احاطوں میں تربیتی میدان قائم کیے ۔یہ تربیت دو ستونوں پر قائم تھی : معنوی وروحانی تیاری ،پھر عسکری تربیت؛ انہی میدانوں میں نوجوان صلاح الدین کی تربیت ہوئی ،جس کے مقدر میں بعد میں وہ کردار تھا ؛جو اُس نے ادا کیا ۔جب بعض متشدد علمانے نورالدین پراس بنا پرناراضگی کا اظہا ر کیا کہ وہ تربیت کے میدانوں میں گھڑ سواری اور مشقت کے کھیلوں میں خود شریک ہوتا ہے ،تو اس نے جواب دیا کہ وہ کھیل اورلطف کے لیے ایسا نہیں کرتا بل کہ اس کا مقصد گھوڑ ے کو حرکت اور رخ بدلنے کی اعلیٰ صلاحیت پر قائم رکھنا اورفوج کو جہاد کے لیے کسی بھی غیرمتوقع اچانک پکار پرمستعد رکھنا ہے ۔

تعصب سے پاک علمی مجالس اور مذاکرے:

                یہ تعلیمی مراکز ،افراد ،اداروں اورپروگراموں کے لحاظ سے پوری طرح منظم ہوگئے ۔ابو شامہ اورسبط ابن جوزی نے اس تکمیل وتعاون کی واضح صورت پیش کی ہے ۔یہاں تعلیم وتربیت کے قائدین کی مجالس ِعام منعقد ہو تیں جن میں کبار فقہا،صوفی شیوخ اور عسکری قائدین شریک ہو تے اور فرقہ واریت کے حساس پہلوؤں اور مذہبی تعصب میں ملوث ہوئے بغیر ، ان مجالس میں علمی روح کے تمام موضوعات پر بحث ہوتی۔ نورالدین خود بھی ان مجالس میں شریک ہوتا اور علما وشیوخ کے سامنے اسی طرح بیٹھتا جیسے عام آدمی بیٹھتے ۔ اس باہمی تعاون کی وجہ سے علما ،شیوخ اور مریدین ،مملکت ِجدیدہ کی طرف ہجرت کر کے آئے ؛حتیٰ کہ ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی اور ان میں سے ہر ایک نے میدانِ تربیت میں اپنا مقام بنایا ۔نعیمی نے ہزاروں مدارس ،دو رِ قرآن وحدیث، ربا ط اور زاویوں کے نام لکھے ہیں، جن میں مذکور ہ مساعی کامیابی کے ساتھ جاری تھیں ۔

مذکورہ کوششوں کے نتیجہ میں اسلامی روح سے سرشار نسل کا ظہور:

                یہ تعلیمی و تربیتی سر گرمی مملکتِ زنگیہ کی نگرانی میں جاری رہی ؛یہاں تک کہ شام کے علاقہ اور اس کی نئی نسل کے لیے پرانا ڈھا نچہ بدل گیا اور اس کی جگہ ، اسلامی تشخص و چھاپ نے لے لی ،جس کی وجہ سے معاشرہ اور اس کے افراد میں اسلامی روح جلوہ گر ہوئی ۔اوراس کی سر گرمیا ں ، زندگی کے ہر میدان میں رہ نمائی کر رہی تھیں ۔

(عہد ایوبی کی نسلِ نواور القدس کی بازیابی:۲۲۵تا۲۲۶)                 ’’قوم کے باطن میں ‘‘افکاراوررجحانات کی تبدیلی کے لیے، ان تعلیمی وتربیتی مساعی کے سبب ایک ایسی مسلمان نسل پیداہوئی ،جوسابقہ نسلوں سے مختلف تھی، جن کوابن جبیرنے خواہشات وبدعات سے متصف کیاتھا اور ابوشامہ نے ان کے بارے میں یہ کہاکہ ان میں سے کسی میں ہمت نہ تھی کہ شرم گا ہ یاپیٹ کی خواہش کوروک سکے